مسلمانوں کو تعلیم دینے کا بندوست بعد کربلا امام زین العابدین نے اپنے گھر سے ہی شروع کر دیا تھا آپ علیہ السلام کے اس خاموش مشن کو امام باقر علیہ السلام نے آگے بڑھایا لیکن حکومت وقت کی بندشوں کے باعث امام بہت آگے نہیں بڑھ سکے لیکن پھر خلافت عباسیہ میں اقتدار کی رسہ عروج پر پہنچی تب امام جعفر صادق علیہا لسلام مسند امامت پر براجمان ہوئے اور عباسی خلفاء کی آپس کی چپقلش نے امام کو علم کے فروغ کا موقع فراہم کیا اور آپ نے مدینہ میں ایک عظیم الشان یونیورسٹی کی بنیاد رکھی لیکن اس دور کے بعد ساتویں امام موسیٰ کاظم کے حالات زندگانی آپ سب جانتے ہیں تمام عباسی خلفاء کا زور خاندان رسالت کو ختم کرنے میں ہی صرف ہوا لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام علمی میدان میں فکر و تدبر اور تحقیق کے میدان آباد کر گئے تھے -اما م کی اس یونیورسٹی میں اس وقت تمام دنیا سے آئے ہوئے چار ہزار طلباء تعلیم حاصل کر رہے تھے جن کا قیام و طعام امام نے اپنے زمہ لے رکھا تھا اس مرکز علمی میں تعلیم کے حصول کے لئے دور دراز سے سفر طے کر کے طالب علم آتے تھے،
یہ یونیورسٹی ایک ایسا علمی مرکز تھی جہاں جابر بن حیا ن جیسے شہرہء آفاق مسلم سائنس دانوں نے جنم لیا یہ ایک ایسا تدریسی مقام تھا جہاں تحقیق کی نئی جہتوں نے سانس لینا شروع کیا، یہ ایک ایسا مکتب تھا جہاں نئی سوچ نے پنپنا شروع کیا، یہ علم و دانش کا مرکز، صرف مسلمانوں کے لئے اہمیت کا حامل نہیں تھا بلکہ غیر مسلموں کے لئے بھی معتبر و محترم تھا، کسی خاص مذہب ، کسی خاص فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے نہیں نا کسی آنے والے سے اس کا دین اور دیگر کوائف معلوم کئے جاتے تھے بس مادر علمی علم کے پیاسوں کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی تھی بلکہ ہر طالب علم کا اس کی علمی تڑپ کی بنا پر اھلا وسھلا سے استقبال کرتی تھی اما م کا دور ختم ہوا تو عباسی خلیفہ مامون نے اس مرکز کو بند نہیں کیا بلکہ اپنی سرپرستی میں لے کر امام کا نام حذف کر کے اپنے نام کے ساتھ بیت الحکمۃ لگا کر جوڑ لیا برطانیہ کی یونیورسٹی آف سرے کے پروفیسر جم الخلیلی کہتے ہیں کہ ‘ہمارے لیے یہ مکمل تفصیلات اہم نہیں ہیں کہ بیت الحکمت کہاں اور کب قائم کیا گیا تھا
۔ اس سے بہت زیادہ دلچسپ خود وہاں کے سائنسی نظریات کی تاریخ ہے اور یہ کہ اس کے نتیجے میں وہ کیسے پروان چڑھے۔’اب یہ دنیا کو کیا بتائیں کہ ہماری میراث پر اپنا لیبل کیوں اور کس نے لگایا 750ء جب شہر بغداد کی بنیاد رکھی گئی تو ساتھ ہی خلیفہ منصور نے دارالترجمہ کی بنیاد رکھی، جہاں دنیا بھر کی کتب کے عربی تراجم کرنے کا اہتمام و انصرام کیا گیا، آٹھویں صدی کے اوائل میں بیت الحکمة ہارون الرشید کا ذاتی کتب خانہ شمار کیا جاتا تھا بعد ازاں خلیفہ مامون کی علمی دوستی نے اسے عوامی مرکز کی صورت میں ڈھال دیا، ایک بلند و بالا عمارت کی تعمیر کی گئی جس مین مختلف شعبہ جات قائم کئے گئے۔مؤرخين اس کی تعمیر کو ایک نادر و نایاب شاہ کار قرار دیتے ہیں، اس کی آرائش و زیبائش کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس عمارت کو قیمتی فانوس اور روشن قندیلوں سے آراستہ کیا گیا تھا تاکہ متلاشیان علم و دانش رات کے وقت بھی علمی دریا میں غوطہ زن ہو سکیں، اس کے فرش پر قیمتی قالین سجائے گئے اس کے در و دیوار کو دبیز ریشمی پردوں سے مزین کیا گیا، یہ دنیائےعالم میں سرکاری سطح کا پہلا علمی ادارہ تھا جس کے اخراجات کا بیڑا حکومت وقت نے اٹھا رکھا تھا۔درس و تدریس کے لئے دنیا بھر سے ماہرین کا انتخاب کیا جاتا، اس بات کو یکسر فراموش کر کے کہ اس کا تعلق کس مذہب سے ہے، یہی وجہ ہے کہ اس ادارے کی گراں قدر خدمات میں عیسائی، ہندوؤں اور پارسیوں کا بھی ہاتھ رہا۔
اس ادارے مین مختلف شعبہ جات کا قیام المامون کے دور میں ہوا جن میں رصد گاہ، ہسپتال، طبی، ریاضی، کیمیائی، جغرافیائی تحقیق کے شعبہ جات شامل ہیں، دنیا کے کونے کونے میں وفود بھیجے گئے جو مسودات تلاش کر کے لائے اور ان مسودات کو عربی زبان میں ڈھال کر پیش کیا گیا، بیت الحکمة کی خدمات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگر اس کا قیام عمل میں نہ لایا جاتا تو آج بنی نوع انسان جدید سائنسی علوم سے نابلد نظر آتی۔بات اگر صرف تراجم تک محدود ہوتی تو شاید علوم کی نئی جہتیں متعارف نہ ہوتیں، بیت الحکمة میں صرف قدیم مسودات کے تراجم پر زور نہیں دیا بلکہ اس موجود مواد کی تحقیق بھی کی جاتی ، یہی وجہ ہے کہ اس ادارے میں جدید علوم کی بنیادیں رکھی گئیں اب چاہے وہ علم ریاضی ہو یا علم فلکیات۔بیت الحکمة کی خاص بات یہ تھی کہ ان عہد ساز شخصیات کو جنم دیا جو اپنے شعبے کے ماہرین تھے اور جنہوں نے نئی ایجادات متعارف کروائیں۔’ صفر’ کے عدد کو دیکھ کر الخوارزمی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے کہ جنہوں نے اسی ادارے میں بیٹھ کر الگورتھم اور الجبرا کی نئی اصطلاح متعارف کروائی، سنہ 821 میں الخوارزمی کو بیت الحکمت میں ماہرِ فلکیات اور چیف لائبریرین مقرر کیا گیا، جم الخلیلی کہتے ہیں ‘کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ بیت الحکمت بالکل بھی اتنا عظیم ادارہ نہیں تھا جتنا بعض لوگوں کی نظر میں ہے، لیکن اس ادارے کا الخوارزمی جیسے مفکروں سے تعلق، ریاضی، فلکیات اور جغرافیہ میں الخوارزمی کے کام سے تعلق میرے لئے کافی ثبوت ہے کہ بیت الحکمت صرف ترجمہ کی گئی کتابوں کی ایک لائبریری نہیں بلکہ علم و تحقیق کا ایک تقریباً مکمل ادارہ تھا۔’روشنی کے انعکاس کو اور سائنٹفک طریقہ پر روشنی کے عکس کو ابن الہیثم نے متعارف کروایا ان کا کہنا تھا کہ روشنی مرئیات سے پھوٹتی ہے اور یہ ایک انقلابی تحقیق تھی، ان کی مایہ ناز کتاب “المناظر” ہے جس کا ترجمہ انگریزی میں “فریڈریک ریزنر” نے کیا ہے، علم مکینیات پر گراں قدر خدمات بنو موسی برادران نے سر انجام دیا۔
بیت الحکمة کو منگولوں نے 1258ء میں تباہ کردیا تھا اس میں موجود تمام تر عملی مواد کو دریائے دجلہ کی نذر کردیا گیا تھا، مؤرخین لکھتے ہیں کہ کتب کی تعداد اس قدر تھی کہ دریائے دجلہ کا پانی کالا ہوگیا تھا، تاہم اس ادارے مین ہونے والی تحقیقات کو وہ نہ مٹا سکے ان محقیقین کا نام آج بھی زندہ اور تابندہ ہے۔بیت الحکمة میں موجود کتب کا اندازہ تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اسے موجودہ دور کی لندن کی برٹش لائبریری اور پیرس کی ببلیوتھک نیشنل لائبریری سے مماثل قرار دیا جا سکتا ہے، اس ادارے نے ایک ایسے تہذیبی احیاء کا آغاز کیا جس نے ریاضی، فلکیات، طب، کیمسٹری، ارضیات، فلسفہ، ادب اور آرٹس کے علاوہ کیما گری اور علم نجوم کو جدیدت بخش دی اور بنی نوع کو ایک نئے میدان میں غوطہ زن ہونا سکھایا اور وہ میدان تحقیق کا میدان تھا۔
اما م علیہ السلام کے اس مرکز نے دنیائے اسلام کو نایاب علمی ہیرے فراہم کئے
جواب دیںحذف کریں