ہفتہ، 18 مارچ، 2023

توشہ خانہ کی طلسماتی کہانی

 


مصنف, عمیر سلیمی

عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد

13 مار چ 2023

اپ ڈیٹ کی گئی 14 مار چ 2023

وفاقی حکومت نے پاکستان میں سرکاری سطح پر موصول ہونے والے تحائف یعنی توشہ خانہ کا گذشتہ 21 سال کا ریکارڈ جاری کیا ہے جس میں 2002 سے مارچ 2023 تک وزرائے اعظم اور صدور کو ملنے والے تحفوں کی تفصیل دی گئی ہے اور اس میں ان فوجی افسران اور بیوروکریٹس کے نام بھی شامل ہیں جو کہ عموماً غیر ملکی دوروں پر ان اعلیٰ عہدیداران کے ساتھ ہوتے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے اس ریکارڈ کے مطابق توشہ خانہ میں گاڑیاں، گھڑیاں، لیپ ٹاپ، آئی فون، بیڈ شیٹس اور یہاں تک کہ اشیائے خورد و نوش جیسے پائن ایپل، کافی، سری لنکن چائے اور عرب قہوہ کپ بھی بطور تحفہ وصول کیے گئے۔اگرچہ فہرست میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کون سا تحفہ کس ملک سے آیا تھا مگر یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ کس عہدیدار نے کتنے پیسوں کے عوض اس تحفے کو توشہ خانہ سے حاصل کیا اور اس کی اصل مالیت کا سرکاری سطح پر کیا تخمینہ لگایا گیا تھا۔جہاں ایک طرف سب سے مہنگے تحفوں میں سوئس گھڑیاں اور بی ایم ڈبلیو کاریں ہیں وہیں وصول کرنے والوں میں سابق صدور پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے ساتھ ساتھ سابق وزرائے اعظم نواز شریف، عمران خان اور شاہد خاقان عباسی اور ان کے ملٹری سیکٹریز کے نام بھی شامل ہیں۔

سب سے زیادہ تحائف کس حکومتی عہدیدار کو ملے؟

توشہ خانے کے 21 سال کے ریکارڈ کے مطابق حکومت پاکستان کے عہدیداروں کو سب سے زیادہ تحائف 2005 میں ملے جن کی مجموعی تعداد 475 تھی۔ جبکہ 2006 اور 2007 کے دوران مجموعی طور پر 381 تحائف وصول کیے گئے۔ اسی طرح 2004 میں پاکستان کے توشہ خانہ میں 350 تحائف آئے۔فہرست کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ تحائف سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے حاصل کیے جو کہ اس سے قبل وزیر خزانہ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ شوکت عزیز اور ان کی اہلیہ کو غیر ملکی نمائندوں سے مجموعی طور پر 885 تحائف ملے۔سال 2006 میں شوکت عزیز کو اپنا سب سے مہنگا تحفہ ایک جیولری سیٹ کی صورت میں ملا جس کی قیمت کا تخمینہ 3,764,555 لگایا گیا مگر اس کے لیے انھوں نے قریب 563,184 روپے (15 فیصد) ادا کیے۔2002 کے بعد کے ریکارڈ کے مطابق آصف زرداری نے 181، نواز شریف نے 55، شاہد خاقان عباسی نے 27، عمران خان نے 112 اور پرویز مشرف نے توشہ خانہ سے 126 تحائف حاصل کیے۔موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے تاحال کوئی تحفہ توشہ خانہ سے حاصل نہیں کیا اور ریکارڈ کے مطابق تمام تحائف وزیر اعظم ہاؤس میں ڈسپلے کیے گئے ہیں۔

  وزیر اعظم شہباز شریف کو ملنے والی رولیکس گھڑی کو اب تک کا سب سے مہنگا تحفہ بتایا گیا ہے تاہم انھوں نے یہ گھڑی نہیں لی -سب سے مہنگے تحفے کس کو ملے اور کس نے اپنے پاس رکھ210 سے 2018 کے دوران وزیر اعظم رہنے والے شاہد خاقان عباسی، ان کی اہلیہ اور بیٹوں نے 23 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے تحائف 20 فیصد رقم ادا کر کے حاصل کیے جن میں سوئس لگژری برانڈ ہبلوٹ، رولیکس اور ہیری ونسٹن کی گھڑیاں اور جیولری گفٹ سیٹس شامل ہیں۔18 میں وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو گراف (18 قیراط سونے اور ہیرے کی گھڑی) سمیت متعدد تحائف ملے جن کی قیمت کا تخمینہ 14 کروڑ سے زیادہ لگایا گیا جو انھوں نے 20 فیصد ادائیگی کے بعد اپنے پاس رکھے۔

2009 میں صدر آصف علی زرداری نے 13 کروڑ سے زیادہ مالیت کی تین گاڑیاں حاصل کیں: بی ایم ڈبلیو 760 لی (سکیورٹی ورژن، 2008 ماڈل)، ٹویوٹا لیکسس ایل ایکس 470 (سکیورٹی ورژن) اور بی ایم ڈبلیو 760 لی (سکیورٹی ورژن 2004 ماڈل)۔ ان کے عوض آصف زرداری نے 15 فیصد رقم ادا کی۔2020میں وزیر اعظم نواز شریف اور کلثوم نواز نے لگژری کرسٹوفر کیرٹ گھڑی، مرسیڈیز کار اور جیولری سیٹ حاصل کیے جن کی اصل قیمت نو کروڑ سے زیادہ بنتی ہے مگر انھوں نے اس کا 20 فیصد ادا کیا۔

توشہ خانہ کے تحائف کی فہرست میں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ ساتھ اہم عہدوں پر فائز فوجی افسران کے نام بھی سامنے آئے ہیں ان ہزاروں تحائف میں سے 400 سے زیادہ ایسے تحائف ہیں جو فوجی افسران نے توشہ خانہ سے حاصل کیے۔ اس فہرست میں لیفٹیننٹ سے لے کر کرنل، بریگیڈیئر اور جنرل تک کے عہدوں پر رہنے والے فوجی افسران کے نام موجود ہیں جنھیں غیر ملکی دوروں پر گھڑیوں کی صورت میں سب سے مہنگے تحائف ملے۔ان گھڑیوں کی مالیت لاکھوں روپے طے ہوئی اور ان کے عوض رائج قانون کے تحت کم پیسے ادا کیے گئے۔ مختلف ادوار میں ملٹری سیکریٹریز کے عہدوں پر فائز فوجی افسران توشہ خانہ سے فائدہ اٹھانے میں زیادہ کامیاب رہے۔مثلاً 2019 میں وزیر اعظم عمران خان کے ملٹری سیکریٹری (ایم ایس) بریگیڈیر وسیم افتخار چیمہ اور ان کی اہلیہ نے 26 لاکھ روپے کی دو رولیکس گھڑیاں حاصل کیں۔ 2018 میں صدر عارف علوی کے ایم ایس بریگیڈیئر عامر امین نے 22 لاکھ 50 ہزار کی رولیکس گھڑی کے عوض 11 لاکھ ادا کیے۔سنہ 2002 میں سابق صدر پرویز مشرف کے ایم ایس میجر جنرل ندیم تاج نے توشہ خانہ سے ایک گھڑی جس کی قیمت 85 ہزار روپے لگائی گئی، محض 11 ہزار 250 روپے میں خریدی۔ انھوں نے 75 ہزار روپے کی ایک اور گھڑی نو ہزار ادا کر کے لی، ان کی بیگم نے 45 ہزار روپے مالیت کی گھڑی پانچ ہزار روپے جمع کروا کر اپنے پاس رکھی۔ مزید یہ کہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ تخمینے والی گھڑی 13 ہزار روپے میں لی گئی۔پرویز مشرف کے ڈپٹی ایم ایس لیفٹیننٹ کرنل کامران ضیا نے تحفے میں ملنے والا ایک جیولری باکس اور ایک ٹی شرٹ اپنے پاس رکھ لیے۔سنہ 2004 کے دوران وزیرِاعظم کے ایم ایس برگیڈیئر طاہر ملک نے تحفے میں ملنے والا نمائشی سیٹ، گھڑی

وفاقی حکومت نے پاکستان میں سرکاری سطح پر موصول ہونے والے تحائف یعنی توشہ خانہ کا گذشتہ 21 سال کا ریکارڈ جاری کیا ہے جس میں 2002 سے مارچ 2023 تک وزرائے اعظم اور صدور کو ملنے والے تحفوں کی تفصیل دی گئی ہے اور اس میں ان فوجی افسران اور بیوروکریٹس کے نام بھی شامل ہیں جو کہ عموماً غیر ملکی دوروں پر ان اعلیٰ عہدیداران کے ساتھ ہوتے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے اس ریکارڈ کے مطابق توشہ خانہ میں گاڑیاں، گھڑیاں، لیپ ٹاپ، آئی فون، بیڈ شیٹس اور یہاں تک کہ اشیائے خورد و نوش جیسے پائن ایپل، کافی، سری لنکن چائے اور عرب قہوہ کپ بھی بطور تحفہ وصول کیے گلدان اور سگار کے ڈبوں سے مہنگی گھڑیوں تک، فوجی افسران نے توشہ خانہ سے کیا کچھ حاصل کی

اگرچہ فہرست میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کون سا تحفہ کس ملک سے آیا تھا مگر یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ کس عہدیدار نے کتنے پیسوں کے عوض اس تحفے کو توشہ خانہ سے حاصل کیا اور اس کی اصل مالیت کا سرکاری سطح پر کیا تخمینہ لگایا گیا تھا۔توشہ خانہ اور بیگم کلثوم نواز

تاریخی رپورٹ

نوازشریف،مریم نواز،حسین نوازاور بیگم کلثوم نوازنے توشہ خانہ سے کون کون سے تحائف لئے؟ 

کابینہ ڈویژن کی جانب سے توشہ خانہ کے پبلک کردہ ریکارڈ کے مطابق سابق وزیراعظم نوازشریف،انکے بیٹے حسین نواز،بیٹی مریم نواز اوراہلیہ مرحومہ کلثوم نواز کی جانب سے توشہ خانہ سے مفت یا کوڑیوں کے بھاؤ کئی قیمتی ترین تحائف کو گھر لے جایا گیا ہے۔

مفت تحائف کی تفصیل

توشہ خانہ ریکارڈ کے مطابق نوازشریف خاندان کے افراد کی جانب سے توشہ خانہ سے کل 28تحائف کو مفت لے جایا گیا۔ نوازشریف19،کلثوم نواز8جبکہ مریم نواز ایک تحفے کو بغیر کسی ادائیگی کے توشہ خانہ سے لے گئیں

نوازشریف خاندان کے حوالے سے سرکاری دستاویزات میں فراہم کردہ معلوسابق وزیراعظم نوازشریف نے توشہ خانہ سے کل 19تحائف مفت اپنی ملکیت میں لئے جبکہ انکی جانب سے دیگر مہنگے ترین تحائف کو توشہ خانہ سے سستے داموں خریدا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: فوج کی مبینہ ڈکیت سیاستدانوں بارے فہرست جو مسلم لیگ ن نے پارلیمنٹ میں پیش کی تھی

سال2008

سال2008ء میں نوازشریف کو تحفے میں ایک مرسڈیز بینز کار ملی۔ اس کار کی مالیت ساڑھے42لاکھ لگوائی گئی۔نوازشریف نے صرف 6لاکھ چھتیس ہزار میں یہ گاڑی اپنی ملکیت میں لے لی۔

سال2013ء

سال2013ء میں نوازشریف نے درج ذیل تحائف یا تو مفت یا پھر معمولی قیمت کی ادائیگی کے بعد اپنی ملکیت میں لئے۔

ایک رولیکس گھڑی،جسکی مالیت گیارہ لاکھ پچاسی ہزار روپے تھی صرف2لاکھ43ہزار میں اپنے قبضہ میں لی

ایک کارپٹ اور دیگر سامان صرف چھ ہزار سات سو روپے ادا کرکے اپنے گھر لے گئے۔ ان تحائف کی تخمینہ شدہ مالیت ساڑھے43ہزار تھی۔

آٹھ ہزار مالیت کا تحفے میں ملنے والا گلدان مفت لے گئے

چھ ہزار مالیت کا گلاس باکس مفت لے گئے

ایک ڈیکوریشن پیس اور ایک قرآن پاک نوازشریف نے صرف2ہزار کی ادائیگی کرکے اپنی ذاتی ملکیت میں لیا۔

کف لِنکس کا ایک جوڑا

کویت کے مرکزی بینک کے چار یادگاری سکے

یہ بھی پڑھیں: حمودالرحمن کمیشن نے فوجی افسران کی عیاشی اورغیراخلاقی سرگرمیوں پرکیالکھاتھا؟

سال2014 

سال2014ء میں نوازشریف نے درج ذیل تحائف یا تو مفت یا پھر معمولی قیمت کی ادائیگی کے بعد اپنی ملکیت میں لئے۔

ایک عدد گھڑی،جسکی مالیت ساڑھے سات لاکھ روپے تھی صرف ڈیڑھ لاکھ میں اپنی ملکیت میں لی۔

سال2015ء

سال2015ء میں نوازشریف نے درج ذیل تحائف یا تو مفت یا پھر معمولی قیمت کی ادائیگی کے بعد اپنی ملکیت میں لئے۔

ساڑھے10لاکھ مالیت کی قیمتی گھڑی

پرفیوم کی دوبوتلیں

ایک کلوگرام اود کی لکڑی

نوازشریف نے ان تینوں تحائف کو 2لاکھ40ہزار کی ادائیگی کے بعد اپنی ملکیت میں لیا

تین عدد ڈیکوریشن پیس مفت اپنی ملکیت میں لئے

پائن ایپل کا ایک باکس مفت لیا

ایک شال مفت لی

ایک گلوب ماڈل مفت لیا

دو عدد پینٹنگ مفت لی

دو عدد گلدان مفت لئے

ایک ٹریکٹر ماڈل مفت لیا

ایک عدد فوٹو فریم مفت لیا

ایک عدد گاؤن مفت لیا

ایک ٹی سیٹ مفت لیا

ایک عدد آئس کریم سیٹ مفت لیا

ایک عدد کول Samovarسیٹ

ایک عدد کارپٹ

سال2016ء

سال2016ء میں نوازشریف نے درج ذیل تحائف یا تو مفت یا پھر معمولی قیمت کی ادائیگی کے بعد اپنی ملکیت میں لئے۔ 

بیس لاکھ کی ایک گھڑی

دولاکھ کا ایک پین

ایک کروڑ95لاکھ کی انگوٹھی

کف لنکس کا جوڑا

ایک عددتسبیح 

(یہ تمام تحائف نوازشریف نے صرف 76لاکھ کی ادائیگی سے اپنے قبضہ میں لئے)

ایک عدد کٹورا مفت لیاروایتی کشتی کا ایک ماڈل مفت لیادو عدد کارپٹ مفت لئےکشتی کا ایک ماڈل مفت لیابتیس لاکھ کی ایک گھڑی،پچاس لاکھ کا ایک عدد پین،سونے اور ہیرے کی ایک عدد انگوٹھی مالیت اسی لاکھ روپے،ایک سونے اور ہیرے کی تسبیح مالیت دو لاکھ روپے اور ہیرے کے کف لنکس مالیت پچاس لاکھ کوصرف 32لاکھ اٹھاسی ہزار میں اپنے گھر لے گئے

مسجد کا ماڈل

ترکمانستان کی ایک عدد کارپٹ

ایک قرآن مجید

سونے کی ایک تلوارمالیت چار لاکھ

ایک عدد تسبیح

سونے کا ایک پین

ایک ٹیبل کلاک

ایک عدد گھڑی

ایک رولیکس گھڑی لیڈیز مالیت 12لاکھ

ایک رولیکس گھڑی جینٹس مالیت ساڑھے8لاکھ

پرفیوم کی چھ بوتلیں

سال2017ء

سال2017ء میں نوازشریف نے درج ذیل تحائف معمولی قیمت کی ادائیگی کے بعد اپنی ملکیت میں لئے۔

ہیرے کا ایک عدد ہار اورایک ٹیبل واچ مالیت ساڑھے10لاکھ کو صرف دو لاکھ روپے دیکر اپنے قبضہ میں لیاایک عدد رولیکس گھڑی جسکی مالیت 40لاکھ روپے تھی، کو صرف 8لاکھ روپے دیکر اپنے قبضہ میں لیا۔

بیگم کلثوم نواز

بیگم کلثوم نوا ز نے سال2013ء تا 2017ء کے عرصہ میں توشہ خانہ سے کل8تحائف مفت لئے جبکہ بقیہ مہنگے ترین تحائف کو کوڑیوں کے بھاؤ خریدا۔

سال2013ء

سال2013ء میں بیگم کلثوم نوازنے درج ذیل تحائف یا تو مفت یا پھر معمولی قیمت کی ادائیگی کے بعد اپنی ملکیت میں لئے۔

تحفے میں ملنے والے ’قہوہ سیٹ‘ کو مفت میں اپنی ملکیت میں لیا۔

ایک پیالہ مفت اپنی ملکیت میں لیا۔

کینڈل اسٹینڈ کا جوڑا مفت میں توشہ خانہ سے لیا۔

آصف علی زرداری کا توشہ خانہ اسکینڈل

سال2014ء

سال2014ء میں بیگم کلثوم نوازنے درج ذیل تحائف معمولی قیمت کی ادائیگی کے بعد اپنی ملکیت میں لئے-تین لاکھ اسی ہزار کی گھڑی صرف 74ہزار میں اپنی ملکیت میں لی۔

سال2015ء

سال2015ء میں بیگم کلثوم نوازنے درج ذیل تحائف یا تو مفت یا پھر معمولی قیمت کی ادائیگی کے بعد اپنی ملکیت میں لئے۔سونے کا بڑا ہارجس کی تخمینہ شدہ قیمت 4لاکھ65ہزار تھی اورایک عدد گولڈ اور پرل بریسلٹ جسک تخمینہ شدہ مالیت ایک لاکھ53جہاں ایک طرف سب سے مہنگے تحفوں میں سوئس گھڑیاں اور بی ایم ڈبلیو کاریں ہیں وہیں وصول کرنے والوں میں سابق صدور پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے ساتھ ساتھ سابق وزرائے اعظم نواز شریف، عمران خان اور شاہد خاقان عباسی اور ان کے ملٹری سیکٹریز کے نام بھی شامل ہیں۔

سب سے زیادہ تحائف کس حکومتی عہدیدار کو ملے؟

توشہ خانے کے 21 سال کے ریکارڈ کے مطابق حکومت پاکستان کے عہدیداروں کو سب سے زیادہ تحائف 2005 میں ملے جن کی مجموعی تعداد 475 تھی۔ جبکہ 2006 اور 2007 کے دوران مجموعی طور پر 381 تحائف وصول کیے گئے۔ اسی طرح 2004 میں پاکستان کے توشہ خانہ میں 350 تحائف آئے۔فہرست کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ تحائف سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے حاصل کیے جو کہ اس سے قبل وزیر خزانہ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ شوکت عزیز اور ان کی اہلیہ کو غیر ملکی نمائندوں سے مجموعی طور پر 885 تحائف ملے۔سال 2006 میں شوکت عزیز کو اپنا سب سے مہنگا تحفہ ایک جیولری سیٹ کی صورت میں ملا جس کی قیمت کا تخمینہ 3,764,555 لگایا گیا مگر اس کے لیے انھوں نے قریب 563,184 روپے (15 فیصد) ادا کیے۔

سنہ 2002 کے بعد کے ریکارڈ کے مطابق آصف زرداری نے 181، نواز شریف نے 55، شاہد خاقان عباسی نے 27، عمران خان نے 112 اور پرویز مشرف نے توشہ خانہ سے 126 تحائف حاصل کیے۔

موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے تاحال کوئی تحفہ توشہ خانہ سے حاصل نہیں کیا اور ریکارڈ کے مطابق تمام تحائف وزیر اعظم ہاؤس میں ڈسپلے کیے گئے ہیں

وزیر اعظم شہباز شریف کو ملنے والی رولیکس گھڑی کو اب تک کا سب سے مہنگا تحفہ بتایا گیا ہے تاہم انھوں نے یہ گھڑی نہیں لیسب سے مہنگے تحفے کس کو ملے اور کس نے اپنے پاس ر؟2017 سے 2018 کے دوران وزیر اعظم رہنے والے شاہد خاقان عباسی، ان کی اہلیہ اور بیٹوں نے 23 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے تحائف 20 فیصد رقم ادا کر کے حاصل کیے جن میں سوئس لگژری برانڈ ہبلوٹ، رولیکس اور ہیری ونسٹن کی گھڑیاں اور جیولری گفٹ سیٹس شامل ہیں۔2018 میں وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو گراف (18 قیراط سونے اور ہیرے کی گھڑی) سمیت متعدد تحائف ملے جن کی قیمت کا تخمینہ 14 کروڑ سے زیادہ لگایا گیا جو انھوں نے 20 فیصد ادائیگی کے بعد اپنے پاس رکھے۔2009 میں صدر آصف علی زرداری نے 13 کروڑ سے زیادہ مالیت کی تین گاڑیاں حاصل کیں: بی ایم ڈبلیو 760 لی (سکیورٹی ورژن، 2008 ماڈل)، ٹویوٹا لیکسس ایل ایکس 470 (سکیورٹی ورژن) اور بی ایم ڈبلیو 760 لی (سکیورٹی ورژن 2004 ماڈل)۔ ان کے عوض آصف زرداری نے 15 فیصد رقم ادا کی۔2016 میں وزیر اعظم نواز شریف اور کلثوم نواز نے لگژری کرسٹوفر کیرٹ گھڑی، مرسیڈیز کار اور جیولری سیٹ حاصل کیے جن کی اصل قیمت نو کروڑ سے زیادہ بنتی ہے مگر انھوں نے اس کا 20 فیصد ادا کیا۔فوجی افسران اور ان کو ملنے والے تحائف

توشہ خانہ کے تحائف کی فہرست میں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ ساتھ اہم عہدوں پر فائز فوجی افسران کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔ان ہزاروں تحائف میں سے 400 سے زیادہ ایسے تحائف ہیں جو فوجی افسران نے توشہ خانہ سے حاصل کیے۔ اس فہرست میں لیفٹیننٹ سے لے کر کرنل، بریگیڈیئر اور جنرل تک کے عہدوں پر رہنے والے فوجی افسران کے نام موجود ہیں جنھیں غیر ملکی دوروں پر گھڑیوں کی صورت میں سب سے مہنگے تحائف ملے۔ان گھڑیوں کی مالیت لاکھوں روپے طے ہوئی اور ان کے عوض رائج قانون کے تحت کم پیسے ادا کیے گئے۔ مختلف ادوار میں ملٹری سیکریٹریز کے عہدوں پر فائز فوجی افسران توشہ خانہ سے فائدہ اٹھانے میں زیادہ کامیاب رہے۔مثلاً 2019 میں وزیر اعظم عمران خان کے ملٹری سیکریٹری (ایم ایس) بریگیڈیر وسیم افتخار چیمہ اور ان کی اہلیہ نے 26 لاکھ روپے کی دو رولیکس گھڑیاں حاصل کیں۔ 2018 میں صدر عارف علوی کے ایم ایس بریگیڈیئر عامر امین نے 22 لاکھ 50 ہزار کی رولیکس گھڑی کے عوض 11 لاکھ ادا کیے۔سنہ 2002 میں سابق صدر پرویز مشرف کے ایم ایس میجر جنرل ندیم تاج نے توشہ خانہ سے ایک گھڑی جس کی قیمت 85 ہزار روپے لگائی گئی، محض 11 ہزار 250 روپے میں خریدی۔ انھوں نے 75 ہزار روپے کی ایک اور گھڑی نو ہزار ادا کر کے لی، ان کی بیگم نے 45 ہزار روپے مالیت کی گھڑی پانچ ہزار روپے جمع کروا کر اپنے پاس رکھی۔ مزید یہ کہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ تخمینے والی گھڑی 13 ہزار روپے میں لی گئی۔پرویز مشرف کے ڈپٹی ایم ایس لیفٹیننٹ کرنل کامران ضیا نے تحفے میں ملنے والا ایک جیولری باکس اور ایک ٹی شرٹ اپنے پاس رکھ لیے۔

سنہ 2004 کے دوران وزیرِاعظم کے ایم ایس برگیڈیئر طاہر ملک نے تحفے میں ملنے والا نمائشی سیٹ، گھڑی۔رکھی

وفاقی حکومت نے توشہ خانہ سے سابق وزیراعظم نواز شریف کے تحائف لینے کی تفصیل بھی جاری کردی ہے۔

وفاقی حکومت نے توشہ خانہ سے سابق وزیراعظم نواز شریف کے تحائف لینے کی تفصیل بھی جاری کردی ہے۔

دستاویز کے مطابق نواز شریف کو ملنے والی کار کی مالیت 42 لاکھ 55 ہزار 919 روپے لگائی گئی، جو انہوں نے رکھ لی۔حکومت نے توشہ خانہ کا 21 سال کا ریکارڈ پبلک کردیادستاویز کے مطابق سابق وزیراعظم نے تحفے میں ملی کار 6 لاکھ 36 ہزار روپے ادا کرکے اپنے پاس رکھی۔توشہ خانہ سے متعلق دستاویز کے مطابق نواز شریف نے 11 لاکھ 85 ہزار مالیت کی گھڑی، 25 ہزار مالیت کے کف لنکس، ایک قلم اور 15 ہزار مالیت کے 4 کویتی یادگاری سکے بھی حاصل کیے۔دستاویز کے مطابق نواز شریف نے ان تمام اشیاء کو اپنے پاس رکھنے کےلیے 2 لاکھ 43 ہزار روپے ادا کیے۔ے مطابق نواز شریف کو ملنے والی کار کی مالیت 42 لاکھ 55 ہزار 919 روپے لگائی گئی، جو انہوں نے رکھ لی۔حکومت نے توشہ خانہ کا 21 سال کا ریکارڈ پبلک کردیادستاویز کے مطابق سابق وزیراعظم نے تحفے میں ملی کار 6 لاکھ 36 ہزار روپے ادا کرکے اپنے پاس رکھی۔توشہ خانہ سے متعلق دستاویز کے مطابق نواز شریف نے 11 لاکھ 85 ہزار مالیت کی گھڑی، 25 ہزار مالیت کے کف لنکس، ایک قلم اور 15 ہزار مالیت کے 4 کویتی یادگاری سکے بھی حاصل کیے۔دستاویز کے مطابق نواز شریف نے ان تمام اشیاء کو اپنے پاس رکھنے کےلیے 2 لاکھ 43 ہزار روپے ادا کیے۔وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کا تقریباً 21 سال کا ریکارڈ پبلک کردیا ہے۔۔دستاویز کے مطابق 2021ء میں 116 تحائف، 2022ء میں 224 تحائف جبکہ 2023 میں 59 تحائف موصول ہوچکے ہیں۔

دستاویز کے مطابق کم مالیت کے بیشتر تحائف وصول کنندگان نے قانون کمطابق بغیر ادائیگی رکھ لیے۔توشہ خانہ: وزیراعظم شہباز شریف، صدر عارف علوی سے متعلق ریکارڈ اپ لوڈ2002ء میں 10 ہزار روپے سے کم مالیت کے تحائف بغیر ادائیگی کے رکھنے کا قانون تھا جبکہ 10 ہزار تا 4 لاکھ کے تحائف 15 فیصد رقم ادائیگی کے ساتھ رکھنے کی اجازت تھی۔قانون کے تحت 4 لاکھ سے زائد مالیت کے تحائف صدر مملکت یا حکومتی سربراہان کو رکھنے کی اجازت تھی۔وشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والوں میں سابق صدور، سابق وزرائے اعظم، وزراء اور سرکاری افسران کے نام شامل ہتوشہ خانہ سے متعلق تفصیل میں پرویز مشرف، شوکت عزیز اور وزراء کے نام بھی شاملوشہ خانہ سے سابق صدر پرویز مشرف، سابق وزرائے اعظم میں سے شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، نواز شریف اور عمران خان کے ادوار کا توشہ خانہ کا ریکارڈ اپ لوڈ کیا گیا ہے۔عمران خان نے بطور وزیراعظم توشہ خانے سے ساڑھے 8 کروڑ روپے مالیت کی ڈائمنڈ گولڈ گھڑی حاصل کی۔انہوں نے 56 لاکھ 70 ہزار روپے کے کف لنکس لیے، 15 لاکھ روپے کا قلم اور 87 لاکھ 50 ہزار روپے کی انگوٹھی بھی رکھی۔

توشہ خانہ: نواز شریف کے تحائف کی تفصیل بھی آگئی

پی ٹی آئی چیئرمین نے ان چاروں اشیا کے 2 کروڑ ایک لاکھ 78 ہزار روپے ادا کیے۔عمران خان نے 38 لاکھ روپے کی ایک اور گھڑی7 لاکھ 54ہزار روپے ادا کر کے حاصل کی۔سابق صدر آصف زرداری نے 25 ہزار مالیت کا گھوڑے کا ماڈل رکھ لیا، انہوں نے 50 ہزار مالیت کا پستول توشہ خانہ سے حاصل کیا۔دستاویز کے مطابق آصف زرداری نے دونوں اشیا 9 ہزار 750 روپے میں حاصل کیں۔آصف زرداری نے توشہ خانہ سے کتنے تحائف خریدے؟ تفصیل سامنے آگئیسابق صدر آصف علی زرداری نے توشہ خانہ سے کون کون سی چیز کتنے میں حاصل کی؟ حکومت نے دستاویز ویب سائٹ پر ڈال دیں۔وفاقی حکومت نے حکمران اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کے توشہ خانے لیے گئے تحائف کی تفصیل بتادی ہے۔حکومت نے توشہ خانہ کا 21 سال کا ریکارڈ پبلک کردیا

دستاویز کے مطابق سابق صدر نے 25 ہزار مالیت کا گھوڑے کا ماڈل اور 50 ہزار مالیت کی پستول توشہ خانہ سے حاصل کیں۔

دستاویز کے مطابق آصف علی زرداری نے گھوڑے کے ماڈل اور پستول یعنی دونوں اشیاء 9 ہزار 750 روپے میں حاصل کیں۔دستاویز کے مطابق آصف زرداری نے 2 کروڑ 73 لاکھ 39 ہزار مالیت کی ایک اور گاڑی رکھی، جس کےلیے 40 لاکھ 99 ہزار روپے ادا کیے۔حکومتی دستاویز کے مطابق سابق صدر نے ساڑھے 12 لاکھ مالیت کی گھڑی، 14 ہزار 600 مالیت اور 6 ہزار 800 روپے مالیت کے گولڈ اور سلور پلیٹڈ کویتی سکوں کے ماڈل حاصل کیے۔دستاویز کے مطابق آصف زرداری نے تینوں اشیاء ایک لاکھ 89ہزار روپے ادا کرنے کے بعد رکھ ی

مجھے توشہ خانے اور اس سے فوائد حاصل کرنے کے اصول و ضوابط معلوم نہیں ہیں اس لئے میں کچھ کہنے کی مجاز بھی نہیں ہوں

باقی رہے نام۔ اللہ کا

جمعہ، 17 مارچ، 2023

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا - میرا ڈ ھولک بجانے کا شوق

 میرے بچپن کا ایک انتہائ شوق تھا کہ میں کسی طرح ڈھولک بجانا سیکھ جاؤں اس زمانے میں جب کسی گھر میں شادی ہوتی تھی تو رات کے وقت ڈھو لک کی محفل ضرور سجتی تھی اور میرے پیروں میں پہئے لگ جاتے تھے کہ کس طرح میں اس گھر میں پہنچ جاؤں جہاں ڈھولک بج رہی ہے ،مقصد واحد ہوتا تھا کہ ڈھول بجانے ولی لڑکی کی انگلیاں کس طرح چل رہی ہیں خود دیکھوں اور سیکھوں مگر یہ شوق آ ج بھی ناتمام ہی ہےا-بّا جان تو رات کے وقت گھر سے قدم نکالنے کے ہی سخت مخالف تھے اور امّی جان ابّا جان کے تابع تھیں، میری عمر یہی کوئ سات یا آٹھ برس کے دور میں تھی ایسے میں ہمارے سامنے والے محلّے کے ایک گھر سے مجھے دن کے وقت ڈھولک بجنے کی آواز آئ اور میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ ابّا جان تو گھر پر نہیں ہیں مجھے اجازت دے دیجئے-بس امّی جان نے اجازت د ی اور میں نے جھٹ پٹ چھوٹے بھائ کوگود میں اٹھایا اور چند منٹ میں کلّو چھولے والے کے گھر پہنچ گئ 


،میں بھائ کے بغیر گھر سے قدم نکالنے کی بھی مجاز نہیں تھی کیونکہ وہ ڈھائ برس کی جان میری واپسی تک امّی جان کا جینا حرام کردیتا ،اس وقت کلٰو چھولے والے کا گھر مجھے دور سے ہی پرستان کے شہزادے کا گھر دکھا ئ دینے لگا گھر کے اندر باہر بلاروک ٹوک آنا جانا لگا ہوا تھا مین نے بھی اسی آپا دھاپی میں اندر پہنچ کر شادی کے گھر کے مناظر کے مشاہدے میں لگ گئ کچّے آنگن میں ایک طرف کوری ہانڈی میں پانی کے اندر ننھی ننھی مچھلیاں تیر رہی تھیں میں نے ہانڈی میں جھانکا اور پھر گود میں موجود بھائ کو مچھلیاں دکھائیں دوسری طرف بڑے سے تھال میں سل پر پیسی گئ کچّی مہندی بھیگی ہوئ تھی جس کی سوندھی خوشبو گلی کے اندر دور تک مہک رہی تھی اور ساتھ ہی مہکتے چنبیلی کے تیل میں ابٹن کی خوشبو بھی ملی جلی تھی-

گھر کے کچّے آنگن کی ملتانی مٹّی سے شائد رات کو ہی لپائ کی گئ تھی آنگن بلکل صاف ستھرا تھااور اب اس پرگھر کی عورتیں ایک رسم ہندووانہ ادا کرنے جا رہی تھیں یعنی لال رنگ کے بھیگے ہوئے گیرو اور صندل کے آمیزے میں سات سہاگنوں کے ہاتھ ڈبو کر ان کو آنگن کی دیوار پر چھاپنا تھا ،بڑی بوڑھی کا سختی سے حکم تھا کہ خبر دار ہاتھ الگ الگ تھال پر نا پڑے اور ٹیڑھا میڑھا بھی نا پڑے یہ سب بد شگونیاں سہاگ بھرے بھاگ کے گھر میں بد شگونیاں مانی جاتی ہیں،اس رسم کو پہلی دفعہ ہی دیکھنے کا میرا اتّفاق تھا گھر کی سب سے بڑی بوڑھی خاتون کو لا کر چار پائ پر بٹھا یا گیا اور گیرواور صندل کا سرخ آمیزے سے بھرا تھال ان کے آگے رکھ دیا گیا ساتھ ہی گڑ کا اور مرمروں کا بڑا سا تھا ل آیا اور پھرڈھولک کی تھاپ پر عورتوں نے کوئ اپنی دیہاتی زبان میں گیت گانا شروع کیا ساتھ ہی آوازیں بھی دی جانے لگیں اری او کہاں ہے آ ری آ ،آج ہمرے دوارے سہاگن آئ گیو رے ، عورتیں آتی گئیں ڈھول بجتی رہی اور صندل اور گیرو کے چھاپے دیوار کو سجاتے رہے-ارے کلّو چھولے والے کا تعارف تو رہ ہی گیا یہ ایک بمشکل بیس بائیس سال کا انتہائ درجے کا سانولا لیکن دلکش نقوش والا نوجوان تھا ،

جو ٹھیک دس بجے دوپہر سے پہلے اپنی ماں کے ہاتھ کے تیّار کئے ہوئے مزیدار چٹ پٹے چھولے کا ٹھیلا لے کر لب سڑک ہمارے گھر سے کچھ فاصلے کھڑا ہوجاتا تھا اور اس کے چھولے اتنے مذیدار ہوتے تھے کہ دوپہر کو یہ گھر واپس چلاجاتا تھا مجھے یا د ہے جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا تو بڑی حیرت سے دیکھتی رہی تھی سرسوں کے تیل میں چپڑا ہوا سرجس کے بال بلکل جٹ سیاہ اس پر سرسوں کے تیل کی اس کے ماتھے تک آئ ہوئ بہار، بڑی بڑی آنکھیں جن میں بہتا کاجل رچا ہوا ،لیکن وہ اپنے اطراف سے بیگانہ اپنے چھولوں کی دنیا میں مگن سر جھکا کے آتا اور سر جھکا کے واپس جا تا-جب اس کی شادی ہوئ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا اور اس کی ماں نانی اور خالائیں اس کی شادی پر اپنے اپنے ارمان پورے کر رہی تھیں-

خیر میری دلچسپی کا ساما ن اس گھر کی رسمیں تھیں میں جن کو دل و جان سے دیکھ بھی رہی تھی اور نگاہوں کے راستے حفظ بھی کر رہی تھی-اب صاف ستھری دیوار پر سات سہاگنو ں کے چودہ ہاتھوں کے لال لال نقش لہلہا رہے تھے میں نے ان نقوش کو بار بار دیکھا ،کوئ خاص بات تو نظر نہیں آئ لیکن اب میں سوچتی ہوں شادی کے گھر میں ان معصوم لوگوں کے کتنے ہزار ارمان تو ہاتھوں کے ان نقوش میں ہی نہاں ہوتے ہوں گے-ہاتھوں کے چھاپے پورے ہو گئے اور تمام مہمانوں میں گڑ اور مرمرے تقسیم کئے گئے ،مین نے بھی وہ گڑ اور مرمرے کھائے اپنے بھائ کو بھی کھلائے سنہرا گڑ اور سفید مرمرے وہ مٹھا س آج بھی میرے منہ میں  سفید مرمروں کے ساتھ سنہرے گڑ کی مٹھا س آج بھی منہ میں محسوس ہورہی ہے-اگلا دن اس کوہ قاف کے شہزادے  کی کا تھا اور میری خوشی کا ٹھکانہ کیاتھا میں بتانے سے قاصر ہوں ایسا لگ رہا تھا کلّو چھو لے والا دنیا میں میرا سب سے بڑا عزیز تھا جس کی شادی میں شرکت مجھے بہر طور کرنی تھی -ویسے بھی سارے مہاجر اس دور میں جی رہے تھے جب سب کی خوشی غمی اپنی خوشی غمی سمجھی جاتی تھی اب میرا بھائ میری گود میں کچھ بے چینی محسوس کر رہا تھا اس لئے میں گھر واپس آگئ-اب اگلا دن اس حسین شہزادے کی بارات میں ۔ میں بلکل بن بلائ مہمان بن کر محلّے کے تمام بچّوں کے کی ریل پیل میں جا نے کو بے چین تھی کہ ابّا جان بے وقت گھر آگئے ،ابّا جان کو دیکھ کر میرے اوپربلاشبہ عالم نزع طاری ہوگیا کچھ دیر کے لئے گلے کے اندر گھگّھی سی بندھ گئ ،

میں نے گھڑونچی پر رکھّی صراحی سے پانی گلاس میں لے کرپیا میری چھوٹی بہن شائد میری بے چینی کو بھانپ گئ تھی اس نے مجھ سے پوچھا بجّو کیا ہوا میں نے کہا کچھ نہیں مجھے کلّو چھولے والے کی شادی میں جانا تھا اور ابّا جان گھر آ گئے ہیں چھوٹی بہن نے انداز بے نیازی سے کہا تو چلی جائے ،نہیں اب میں نہیں جا سکتی ہوں کیونکہ ابّا جان نے کہا ہے کہ یہ واہی تواہی پھرے گی تو اس کی ہڈّیا ں توڑ دوں گا،، آج میں سوچتی ہوں کہ میری سرگرمیاں یقیناً میرے پیارے ابّا جان کواتنی گراں گزرتی ہوں گی جو انہوں نے مجھے یہ دھمکی دی تھی ،جبکہ میرے والد زبان کے معاملے میں انتہائ نفیس انسان تھے-کچھ ہی دیر میں مجھے امّی جان جب اکیلی نظر آئیں میں نے ان سے خوشامد کرتے کہا امّی جان بس آج کا دن اور اج تو کلّو چھولے والے کی بارات ہے مجھے جانے دیجئے ،امّی جان نے مجھ سے کہا تم قلم اور کاپی ساتھ میں لے لو تمھارے ابّا پوچھیں گے تو میں کہ دوں گی کہ صالحہ کے پاس پڑھنے گئ ہے ،میں نے اپنی امّی جان کو لپٹ کر پیار کیا اور کاپی قلم لے کر اپنی دوست کے گھر رکھوایا۔میری اس دوست کا گھر ہمارے پڑوس میں ہی تھا اور پھر میں دوست کو بھی ساتھ لے کر بارات کا منظر دیکھنے پہنچ گئ بیچارے دولہا کا چھوٹا سا تو مکان تھا اس وقت اس میں چھوٹے بڑے بلائے گئے اور میری طرح بن بلائے سب کی دھکّم پیل مچی ہوئ تھی کلّو چھولے والے نے سرخ ڈھڈھاتے رنگ کا ٹول کا کرتا اور سفید شلوار زیب تن کی ہوئ تھی اور اس دونو ن ہاتھ سرخ رنگ کی مہندی سے رچے ہوئے تھے اور سہرا بندھا ئ کی رسم کے گانے ہو رہے تھے ڈھول کی ڈھما ڈھم میں کان پڑی آواز سنائ نہیں دے رہی تھی سہرا بندھائ کے فورا بعد بارات روانہ ہو گئ

دولہا سہرا باندھے اپنے عزیزوں کے ساتھ پیدل آگے آگے اور باقی باراتی اس کے پیچھے پیچھے شائد میں نے کسی سے پوچھاتھا کہ سب پیدل کیوں جارہے ہیں تو جواب ملا تھا دلہن ورلی گلی میں تو رہتی ہے ،ورلی گلی میں؟ میں نے حیران ہو کر کہا ، لیکن میں تو اس گلی کی سب لڑکیوں کو جانتی ہوں۔تب معلوم ہوا کہ کلّو چھولے والے کی ننھیالی رشتے دار انڈیا سے آئے ہوئے ہیں ان کی بیٹی سے شادی ہو رہی ہے

بہر حال بارات جا چکی تھی اس لئے میں اپنی دوست کے ساتھ اس کے گھرآ گئ اصولاً مجھے اپنے گھر آنا چاہئے تھا لیکن دوست نے کہا کہ اس نے کاغذ کو رنگ کر پھول بنائے ہیں بس اسی بہانے میں اس کے ساتھ آئ دوسری باتی یہ تھی میرا قلم اورکاپی بھی تو اسی کے گھر پر ہی رکھّا ہوا تھا ،یہ بھی بتا دوں کہ میری اس دوست کا دروازہ ہمارے گھر سے تیسرا دروازہ تھا اور مجھے گلی کے بس چند ہی گھروں میں آنے جانے کی اجازت تھی ،خیر ابھی تو ہم دونوں سہیلیا ں باتیں ہی کر رہے تھے کہ پھر ڈھول ڈھمکّا اور شہنائ کی آوازیں ہمارے کانوں میں گونجنے لگیں اور ہم دونو ں ہی اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر بھاگے مشکل سے پون گھنٹے میں دلہن بیاہ کر لائ جارہی تھی مگر گھوڑے جتے ہوئے ٹانگے میں آگے بھی بینڈ باجا تھا اور پیچھے باراتی پیدل پیدل،ہجوم اتنا تھا کہ ہم دونوں دولہا کے گھر کی دیوار سے چپک کر کھڑے ہوگئے ،ٹانگہ رکا اور ( جسے ہم مان گون اور نیگ کہتے ہیں ) یہ ان کی زبان میں بیل اور بدھائیا ں تھیں ناچنے والے ناچ رہے تھے ۔گانے والے گا رہے تھے اور اور بینڈ باجا سونے پر سہاگے کا کام کر رہا تھا بدھائیوں کی رسم دلہن کو ٹانگے سے اتارنے سے پہلے گھر کے دروازے پر ہوئ ،اور دولہا سے کہا گیا کہ وہ دلہن کو گود میں لے کر اتارے،دولہا کچھ کسمسایا کچھ شرمایا لیکن پھر کسی نے ڈانٹ کر کہا کہ دلہن کو جلدی اندر لاؤ رسمیں ریتیں کرنا ہے تب دولہا نے دلہن کو تانگے کی دہلیز پر کھڑا کیا اور پھر اپنے کندھے پر لا دا اور مجھے لگا کہ د لہن ایک منحنی سی سرخ گٹھری نما کوئ شئے ہے ،دولہا بہت تیزی سے گھرکے اندر داخل ہوا اور میں اپنی دوست کا ہاتھ پکڑ دولہا کے پیچھے ہی گھر کے اندر داخل ہو  گئ ۔

۔دلہن کو کمرے میں بچھے چپر کھٹ پر دولہا نے گود سے اتار دیا اور وہیں پہلے موجود ایک خاتون اپنے ہاتھ میں کھیر کا پیالہ لئے  خود بھی چپرکھٹ پر دلہن کے قریب بیٹھ گئیں اور دولہا کو بھی دلہن کے رو برو بٹھا یا گیا -اب دلہن کے مہندی لگے ہاتھ کو ایک عورت نے تھاما دوسری نے ہتھیلی پر پان کا پتّا رکھّا اور پان کے پتّے پرایک چمچی کھیر رکھ کردلہن کی ہتھیلی دولہا کے منہ کے قریب کر کے دولہا سے کہا کھیر کھاو اور دولہا نے جیسے ہی کھیر کھانے کی کوشش کی دلہن کی ہتھیلی کو پیچھے کر لیا گیا اور کمرہ قہقہوں سے جلترنگ بن گیا -کچھ دیر کی کھیر کی رسم کے بعد دلہن کی مانگ میں صندل  بھرنےکی رسم کی ادائگی ہو ئ اور پھر کمرے میں ایک گرجدار آواز گونجی -چلو بھئ کمرے سے سب نکل جاو دلہن کے دادا دعا کے لئے آ رہے ہیں اورمجھ سمیت سارے بچّے کمرے سے ہنکا دئے گئے-اور یوں میرے بچپن کی یہ شادی کی رسومات ساری عمر کے لئے نقش ہو گئیں 

پیر، 13 مارچ، 2023

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا..میری بسم ا للّٰہ کی تقریب

  

 ہجرت کا پُر مصائب سفر طے کرنے کے بعد ہمارے کچھ دنوں کے لئے اچھّے دن شروع ہوئے کیونکہ والد صاحب کو ائرفورس میں سروس مل گئ-اسوقت ہم سب ملیر کے علاقے کی ایک فوجی چھاؤنی میں مقیم تھے ہجرت کے بعدکی زندگی میں کچھ کچھ ٹہراؤ سا محسوس ہونے لگا تھا مگر پھرہمارے گھر میں کچھ ماورائےفطرت حالات پیش آ ئےاور پھرتقدیر کی گردش نے ہم کو بارہ سال  گردش میں رکھا،ان حالات کے گرداب میں ہمارا خاندان اس طرح آیا کہ والد صاحب اتنے شدید بیمار ہوئے کہ ان کی ائرفورس کی سروس بھی چھوٹ گئ اور ہم کو چھاؤنی کا مکان بھی بہت عجلت میں چھوڑنا پڑا اور والد صاحب ہم سب بچّوں اور والدہ کو لے کر اپنے ایک مخلص دوست جناب حفیظ اللہ صاحب کے گھر آ گئے آج اس گھر میں  جاوداں سیمنٹ کی ایجنسی اور گیٹ گرل کا کاروبار جما ہوا ہئے،بہر کیف کچھ عرصے کے بعد ہم سب وہاں سے اپنے والد کے بنائے ہوئے کچے پکے آشیانے میں آ گئے
میرابچپن
میرا بچپن عام بچّوں کا بچپن نہیں تھا یہ وہ زمانہ تھا جب مہاجروں کے گھروں میں پانی کے لئے علاقے میں پانی کے ٹینکر آیا کرتے تھے اور میں بہت چھوٹی سی عمر میں ٹینکرکی آواز محلّے میں آتے ہی اپنا کنستر لےکر پانی لینے والوں کی لائن میں کھڑی ہو جاتی تھی ،اور ہمارے محلّے کا کوئ خداترس انسان میرا کنستر بھر کر ہمارے دروازے تک یا گھر کے اندر تک رکھ جایا کرتا تھا اس کے علاوہ پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ماشکی بھی صبح شام ایک ایک مشک پانی  معمو لی قیمت پر ڈال جاتا تھا پھر یوں ہوا کہ کچھ عرصے بعد پانی کے ٹینکر کا آنا موقو ف ہو گیا اورہماری گلی کے ختم پر  ایک عدد حوضی بنا کر اس میں سرکاری نل سے پانی کی ترسیل کا انتظام کیا گیا،میرے والد صاحب ،،اپنے والد صاحب کے تذکرے کے تصّور سے ہی   بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ہین کیونکہ مجھے اپنے والدکا بنک جانے سے پہلے نماز فجر کے وقت حوضی سے پانی بھرنا یاد آرہا ہے میں ابھی اتنی بڑی نہیں تھی کہ ان کاموں میں والد کا ہاتھ بٹا سکتی لیکن زرا سا وقت گزرنے پر  گھر میں پانی کی کمی پوری کرنے کے لئے میں نے یہ ڈیوٹی اپنے زمّے لے لی تھی۔اسوقت ایک خدا ترس انسان نے اپنے گھر کے سامنے ایک کنواں بنوا کر وقف عام کر دیا تھا چنانچہ میں نے زرا سا ہوش سنبھانے پر یہ اہم ڈیوٹی اپنے زمّہ لے لی تھی کہ والد صاحب کے لائے ہوئے پانی کے علاوہ جو بھی کمی ہوتی اسے خود سے پورا کر دیا کرتی تھی اس وقت ہمارے محلّے میں کوئ حوضی نہیں بنی تھی لیکن اپنے گھر سے بیس منٹ کے فاصلے سے  کنوئین سے پانی بھر کر لانے لگی اس کنوئیں میں چمڑے کی بالٹی ایک مو ٹے رسّے کے زریعے کنوئیں کی تہ تک اتار کر بھر لی جاتی اور پھر الٹی چرخی چلا کر پانی کھینچ لیا جاتا تھا ،یہ ایک بہت محنت طلب کام ہوتا تھا لیکن میں اس کام کو بھی سر انجام دے لیا کرتی تھی  اس کے علاوہ جھٹ پٹا ہوتے ہی گھر کی لالٹینیں اور لیمپ روشن کرنا بھی میرے زمّے تھا میں سب لالٹینوں کی چمنیاں نکال کر ان کو چولھے کی باریک سفید ریت سے پہبے صاف کرتی پھر صابن سے دھو کر خشک کرتی تھی تو لالٹین کی روشنی بہت روشن محسوس ہوتی تھی،کوئلو ں کی سفید راکھ بنانے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ دہکتے ہوئے کوئلوں کو یونہی چھوڑ دیا جاءے تووہ خود بخود بجھتے جاتے ہیں اور ان کے اوپر سفید راکھ کی موٹی تہ جمتی جاتی ہے یہ راکھ دیگچیوں کے پیندوں کو اجلا کرنے کے لئے بھی استعمال کی جاتی تھی میں اس راکھ کو ایک ڈبّے میں محفوظ کر لیتی تھی  
 اس کے ساتھ ساتھ میری ایک اہم ڈیوٹی گھر میں جلانے کے لئے ٹال سے لکڑیاں لانے کی بھی تھی ،اور یہ کام کوئ مجھ سے جبریہ نہیں کرواتا تھا بلکہ میں اپنی والدہ کے لئے کام کی سہولت چاہتی تھی
با لآخرزمانے کے ان نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے ہمارے گھرانے کی علمی صحبتیں برقر ار ہی تھیں اور ان ادبی صحبتوں کارنگ بھی میری زات پر نمایاں ہو نے لگا تھا  اور میں نے بہت جلد برّصغیر کے نامور ادیبو ں کی 
لا تعداد کتابیں پڑھتے ہوئے حفظ کر لی تھیں ،ان نامور ادباء میں کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی عصمت چغتائ ،قرّۃ العین حیدر ،عظیم بیگ چغتا ئ ،را م لعل ساحر لدھیانوی  اور اس وقت کے جو بھی مشہور ادیب اور شاعر تھے  سب کو بار بار پڑھایہ وقت جب ادب کے آسمان پر پاکستانی ادب بھی بھر پور انداز سے اپنا آپ منوانے کی جستجو مین جٹا ہواتھا اور یہاں کے ادیب بھی ہندوستانی ادیبوں سے کسی طور پر بھی کم نہیں تھے کرنل محمّد خان ،مشتاق احمد یوسفی  بریگیڈئیر صدّیق سالک ،ممتاز مفتی جبکہ خواتین بھی ادب کے میدان پر جلوہ افروز ہو چکی تھِن اور بھی کہنہ مشق ادیب و شاعر پاکستانی ادب کے آسمان پرجگمگا رہے تھے چنانچہ شادی سے پہلے تو میں بس پڑھتی ہی چلی گئ لکھنے کی باری  شادی کے بعد میں آئ جب کہ یہ احساس دل میں اجاگر ہواکہ میں کچھ کچّا پکّا ادب بھی تحریر کر سکتی ہوں 
میرے ادبی شوق کی ابتدا میرے بچپن کے ابتدائ دور میں ہی ہو چکی تھی بس اردو پڑھنی آئ ہی تھی کہ مجھے بچّوں کی کہانیاں پڑھنے کا چسکہ لگ گیا تھا اور شاعری میں بھی خاص دلچسپی لینے لگی تھی  مجھے ابھی بھی اچھّی طرح یاد ہے کہ میں نے  چھٹی کلاس میں ایک نظم اپنے وطن سے محبّت کے اوپرپڑھی تھی 
  یہ ہمارے اسکول کی جانب سے طالبات کا مشاعرہ تھا جو بیگم رعنا لیاقت علی خان کے قائم کردہ فلاحی ادارے  اپوا کے زیر اہتما م ہواتھا
 اس مشاعرے میں ایک مشہور علمی گھرانے کی قد آور  شخصیت محترمہ وحیدہ نسیم صاحبہ مہمان خصوصی کے طور پر بلائ گئیں تھیں ،انہوں نے میری نظم سن کر مجھے شاباشی بھی دی تھی 
اور پھر کلاس ہشتم کے بعد ہی اس زمانے کے رواج کے مطابق میری شادی ہوگئ 
پچّیس اپریل انّیس سو پینسٹھ کی ایک سہانی شام میں اپنے والدین کے گھر سے اپنےمحترم شوہر نامد ار سیّد انوار حسین رضوی کے گھر آگئ

اس وقت اپنی شادی شدہ زندگی کی زمّہ داریوں کو نباہنے کے ساتھ ساتھ   میری توجّہ کا مرکز میری والدہ اور چھوٹے بہن بھائ ہو ا کرتے تھے اور میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ میں کسی بھی صورت وقت نکال کر اپنی پیاری ماں کی کوئ تو خدمت کر کے گھر واپس آجاؤن ،میں نے دیکھا کہ اللہ پاک شکر خورے کو شکر ضرور دیتا ہئے چنانچہ اس مالک کے کرم سےمیری شادی کے چند مہینوں بعد ہی دسمبر انیّس سو پینسٹھ میں ہی والد صاحب اپنےکچّے پکّے مکان سے اٹھ کرفیڈرل بی ایریا کے علاقے میں  دو سو چالیس گز کے بنگلے میں  دستگیر نمبر نو میں آگئے،والدہ جیسے ہی فیڈرل بی ایریا شفٹ ہوئیں انہوں نے مجھے بھی اپنے برابر کے مکان بلاکر رکھ  لیا فیڈرل بی ایریا ان دنوں نیا نیا آباد ہونا شروع ہواتھا اور یہاں کے مکانات جو ہرے بھرے درختوں کے درمیان اور لہلہاتے کھیتوں کے قریب ترتیب میں بھی اچھّے لگتے تھے اور رہائش کے لئے بھی کشادہ تھے  یہ نئ بستی لالوکھیت کے مقابلے میں اسوقت  کی ڈیفنس سوسائٹی دکھائ دیتی تھی   چنانچہ والد صاحب جو جہد مسلسل سے وابستہ رہتے ہوئے ترقّی کی جانب گامزن تھے ۔والد صاحب نے جلد ہی پھر بنکینگ کا امتحان پاس کیا اس کامیابی نے ان  کو  دوسو چالیس گز کے اس بنگلے اٹھا کر نارتھ ناظم آباد بلاک ڈی میں پانچ سو گز کے  اپنے زاتی بنگلے میں بٹھا دیا میری والدہ  ایف بی ایریا میں پانچ سال رہیں اور میں انکے ہمراہ دوسرے گھر مین رہتی رہی اس طر ح پورے پانچ سال گزر گئے  ،لیکن پانچ سالوں  بعدجب مجھے محسوس ہوا کہ اب میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوں تب میں نے قلم کا سفر شروع کیا میرے قلمی سفر کی ابتداء  جنگ اخبار میں معاشرتی موضوعات سےہوئ لیکن جلد ہی  افسانہ نگاری شر وع کی افسانہ نگاری کا سفر طویل رہا ،پاکیزہ ،دوشیزہ جنگ ڈائجسٹ ،حنا ،آنچل اخبار جہاں سچّی کہانیا ں آئیڈئیل اور بھئ کئ جن کے نام بھی زہن میں نہیں ہیں ان میں لکھتی رہی ،میرا خیال ہئے کہ آج کے دور میں ناول کے مقابلے میں افسانہ زیادہ پڑھا جانے والا ادب ہئے لیکن ناول پڑھنے والے بھی کم نہیں ہیں ،شائد افسانہ نگاری کی جانب میری زیادہ توجّہ کا سبب بھی یہی ہو کہ افسانہ لکھنا مجھے ناول کی نسبت ہمیشہ آسان لگا در اصل میرے خیال میں ناول ایک بڑی اور کشادہ زہنی کی تخلیق ہوتا ہے ،اور میں اپنی گونا گوں زمّے داریوں کے سبب بڑی سوچ پر آنا نہیں چاہتی ہوں یہاں کینیڈا میں میری اون لائن ناول میں سہاگن بنی !مگر،،، عالمی اخبار کی زینت بنی ،،،یہ ناول در حقیقت میں نے پاکستان میں روز افزوں بڑھتی ہوئ شرح'' طلاق''' جیسے ناروا و ناپسندیدہ امر پر لکھی اس کے لکھنے کا مقصد نوجوان نسل کو پیغام دینا تھا کہ شادی ہوجانے  کے بعد ایک دوسرے کی کوتاہیوں اور کمزوریو ں کو نظر انداز کرتے ہوئے گھر کی بنیاد کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں ،اسی طرح میری کوشش یہی ہوتی ہئے کہ میں اپنی افسانوی تحریروں کے زریعے اپنے سماج کو کوئ ایسا مثبت پیغام دے سکوں جو پڑھنے والے کی رہ نمائ کا باعث ہو  افسانہ نگاری کا لم نویسی آج بھی  جاری ہئے

 افسانہ نگاری نا ول نویسی معاشرتی مضامین کچھ روحانیت کے کام  پر بھی توجّہ ہئے 
اس کے علاوہ ایک دستر خوان بھی شمع کا دستر خوان کے نام سے بازار میں آیا ،میرے ایک افسانو ی مجموعے رنگ شفق کی یہاں کینیڈاایڈمنٹن میں ہی ملٹی کلچرل  کونسل کی روح رواں محترمہ صوفیہ یعقو ب صاحبہ نے رونمائ کروائ اور ٹورانٹو سے کہنہ مشق ادیب و شاعرجناب تسلیم الٰہی زلفی نے میرے اس مجموعے پر تبصرہ لکھا  یہ مجھ جیسی کم علم رکھنے والی طالبہ کے لئے ایک یقینی  اعزاز کی بات ہے 
 بات یہ ہئے کہ انسان سماج میں رہتے ہوئے کبھی اکیلا کچھ نہیں کر سکتا ہئے اس کو ہر حال میں سہاروں کی ضرورت ہوتی ہئے رہبری بھی چاہئے ہوتی ہئے ،یہ میری خوش قسمتی ہئے کہ مجھے تمام عمر ،اچھّے راہبر ،اور اچھّے استاد میسّر آئے جنہوں نے فراخ دلی سےمیری بھرپور رہ نمائ کی اور ادب کی دنیا میں مجھے قدم جمانے کے موقع فراہم کئے 
مجھے اپنی زندگی کے بلکل ابتدائ دور میں ہی قبلہ جناب رئیس امروہوی جیسے جیّد استادکی صحبت ان کے ہمراہ نشست و برخاست کے ساتھ ساتھ ملی قبلہ محترم نے میری پہلی ناول کا دیباچہ تحریر کیا  تھا یہ ناول سندھ اکیڈمی کے توسط سے پرنٹنگ کے مراحل تک پہنچ چکی تھی اس  کے بعد میرا رابطہ ختم ہو گیا اب مجھے نہین معلوم کیونکہ پینتیس برس کے عرصے میں بہت کچھ بدل چکا ہے 
قبلہ رئیس امروہوی کے بعد کے دور میں میرے ادبی راہنما اخبار جہاں سے منسلک  جناب محترم انوار علیگی صاحب ہیں  جو میرے بہترین استاد بھی  ہیں میں جناب انوار علیگی صاحب کی بہت ممنون احسان ہوں جنکی رہنمائ نے مجھے کافی کچھ سیکھنے کی راہیں دکھائیں،اور میرے محسن بھائ جناب محترم  پرویز بلگرامی ہیں  جوکراچی مقیم ہوتے ہوئے  اس وقت بھی مجھے اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے ہیں  
 مجھے امّید ہے کہ میرے قارئِین ادب کے میدان میں مجھے ایک نو آموز طالبہ سمجھ کر میری رہنمائ ضرور کریں گے 
واسّلام 
سیّدہ زائرہ 

 
 
 


















اتوار، 12 مارچ، 2023

قدیم زمانے کی ائر کنڈیشنزیا باد گیر

قدیم ونڈ مل دنیا کی نظر میں یہاں بیٹھ کر آپ جب ارد گرد کی چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے اس گرم آب و ہوا میں انسان نے اپنی سہولت کے لیے یہ تکنیک کیونکر ایجاد کر لی تھی۔ایران کے ہزاروں سال پرانے اے سی-بادگیر یعنی ہوا کو کھینچنے والی یہ تعمیر کسی چمنی جیسی ہے اور یہ ایران کے ریگستانی شہروں کی قدیمی عمارتوں پر بنی نظر آتی ہے۔یہ بادگیر ٹھنڈی ہوا کو کھینچ کر عمارت کے نیچے لے جانے کا کام کرتے ہیں اور ان سے گھروں کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

اور ان سے گرمی کی وجہ سے خراب ہونے والی چیزوں کو بچانے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ایران کے شہر یزد کے ایک رہائشی کہا کہ ان کے یہاں پانی والے ایئرکنڈیشنر بھی ہیں لیکن انھیں قدرتی اے سی میں بیٹھنا پسند ہے کیونکہ یہ انھیں پرانے دنوں کی یاد دلاتے ہیں۔صابری کے قدرتی ایئر کنڈیشنر سے مراد ان کا 'بادگیر' ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'ہم اسی کے سائے تلے بیٹھے ہیں۔'ریگستان میں آباد یزد شہر میں شدید گرمی پڑتی ہے اور یہاں کا درجۂ حرارت 40 ڈگری سیلسیئس سے تجاوز کر جاتا ہے 

ایسے گرم موسم میں چائے کا خیال آنا کسی عجوبے سے کم نہیں۔لیکن بادگیر والے مکان کے آنگن بیٹھنے کے بعد تپتا سورج بھی مدھم معلوم ہوتا ہےیہاں اس قدر آرام محسوس ہوتا ہے کہ اپنے میزبان کو الوداع کہنے کا خیال ہی نہیں آتا۔ تمام طرح کی تحقیق سے یہ پتہ چلا کہ بادگیر کی مدد سے درجۂ حرارت کو دس ڈگری تک کم کیا جا سکتا ہے۔عہد قدیم میں مصر سے لے کر عرب اور بابل کی تہذیب و تمدن میں اس طرح کے فن تعمیر کی کوشش کی گئی جو موسم کی سختیوں کو دور کر سکے۔اس طرح کی عمارتوں کو قدرتی طور پر ہوا دار بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس قسم کے بادگیر یا ہوا دار عمارتیں مشرق وسطی سے لے کر مصر اور ہندو پاک میں نظر آتی رہی ہیں -

بادگیر کس طرح تعمیر کیے جاتے ہیں؟بادگیر عمارتوں کے سب سے اونچے حصے میں تعمیر کے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کی دیکھ بھال بڑا چیلنج ہے۔ان کی ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ایران میں کئی عمارتوں پر تعمیر بادگیر 14 ویں صدی تک کے ہیں۔ فارسی شاعر ناصر خسرو کی شاعری میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے، اور ان کا زمانہ تقریباً ایک ہزار سال پہلے کا ہے۔جبکہ مصر میں حضرت عیسیٰ سے بھی 1300 سال پرانی بعض پینٹنگز میں اس کا نمونہ نظر آیا ہے۔ڈاکٹر عبدالمنعم الشورباغی سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم عفت یونیورسٹی میں فن تعمیر اور ڈیزائن کے پروفیسر ہیں۔وہ کہتے کہ 'مشرق وسطیٰ کے ممالک سے لے کر پاکستان اور سعودی عرب تک بادگیر ملتے ہیں۔'یہ خلافت عباسیہ کے دور کے محلوں کی مربع نما عمارتوں سے مماثل ہیں۔ اور اس قسم کے محل عراق کے اخیضر علاقے میں آٹھویں صدی میں تعمیر کیے گئے تھے۔ بادگیر کی ابتدا عرب ممالک میں ہوئی -یہ بات حتمی تو نہیں کی جا سکتی ہے لیکنایک نظریہ یہ بھی ہے کہ بادگیر کی ایجاد عرب ممالک میں ہوئی تھی اور جب عربوں نے ایران کو فتح کیا، تو ان کے ساتھ یہ فن تعمیر فارس بھی پہنچا۔ یزد شہر کی زیادہ تر عمارتوں پر بنے یہ بادگیر مستطیل ہیں اور چاروں جانب ہوا کی آمد کے لیے خانے بنے ہوئے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہاں شش پہلو اور ہشت پہلو بادگیر بھی ملتے ہیں۔یزد کی پرانی عمارت میں ایک کیفے کے ملازم معین کہتے ہیں کہ 'بادگیر میں ہر طرف سے آنے والی ہوا کو کھینچنے کے خانے بنے ہوتے ہیں۔ جبکہ یزد سے کچھ فاصلے پر موجود قصبے میبد کے بادگیروں میں صرف ایک جانب ہی خانے ہوتے ہیں کیونکہ وہاں ایک ہی جانب سے ہوا آتی ہے بادگیر کی تعمیر اس حکمت کے ساتھ کی جاتی ہے کہ ماحول میں موجود ہوا کو کھینچ کر وہ نیچے کی جانب لے جائے اور ٹھنڈی ہوا کے دباؤ سے گرم ہوا عمارت سے نکل جاتی ہے۔اس گرم ہوا کو باہر نکلنے کے لیے بادگیر کے دوسری جانب ایک کھڑکی نما جگہ کھلی چھوڑ دی جاتی ہےیہاں تک کہ اگر سرد ہوا نہ بھی چل رہی ہو تو بادگیر گرم ہوا کو دباؤ بنا کر باہر نکالنے کا کام کرتا رہتا ہے جس سے گھر میں گرمی کم ہوتی رہتی ہے۔موسم سرما اور گرما کے گھریزد شہر میں قاجاری دور کی کئی عمارتیں اب بھی اچھی حالت میں ہیں۔ ان میں سے ایک مشہور لریحہ ہاؤس ہے۔ انیسویں صدی میں تعمیر شدہ یہ عمارت ایرانی فن تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔س کے درمیان ایک مستطیل آنگن ہے۔ موسم گرما اور موسم سرما کے مطابق عمارت کے علیحدہ حصے ہیں عمارت کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مقصد سردیوں میں سورج کی گرمی کا زیادہ سے زیادہ استعمال اور گرمیوں میں سورج سے بچنے کی کوشش ہے۔ 

بادگیر اس عمارت کے گرمی والے حصے میں بنایا گیا ہے۔بادگیر سے آنے والی ہوا ایک محراب دار روشن دان سے گزرتی ہوئی عمارت کے تہہ خانے تک جاتی ہے۔ تہہ خانے میں وہ چیزیں رکھی جاتی ہیں جو جلدی خراب ہو سکتی ہیں۔ اس عمارت کی 38 سیڑھیوں سے نيچے جائیں تو موسم گرما میں بھی سردی کا احساس ہونے لگتا ہے۔اس حصے کو سرداب یعنی سرد پانی کہا جاتا ہے۔ یہاں سے نہروں کا پانی گزرتا ہے۔سرد ہوا اور پانی مل کر اس حصے کو ریفریجریٹر جیسا یخ بنا دیتے ہیں۔ پہلے اس طرح کی کوٹھریوں میں برف رکھی جاتی تھی۔آج اس طرح کا قنات کا نظام ختم ہو گیا اور اسی طرح تکنیکی ترقی کے سبب بادگیر بھی معدوم ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ اے سی نے لے لی ہے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر