blogging لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
blogging لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 17 جون، 2025

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

 


`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے گزر گئے تھے-لیکن ایک بڑی بزنس کی مصروفیات کے سبب ان کو اتنی بھی مہلت نہیں ملی تھی کہ وہ جی بھر کر اپنے نئے نویلے اس گھر کا گوشہ گوشہ بھی  دیکھ لیتے جو انہون نے بیس برس کے عرصے میں پہلی بار بغیر کسی مارگیج کے بنوایا  تھا ،اسلئے آج  سارے معاملات پس پشت رکھ کرانہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ گھر پر ہی رہیں گے  اور اور اسی مقصد سے انہوں نے آج اپنے دل پر جبر کر کے چھٹّی بھی کی تھی  -صبح سے دوپہر تک کاوقت انہوں نے سو کر گزارا پھر بیسمنٹ میں جا کر کچھ کاروباری کام کیا اور پھر لاؤنج میں آگئے-سوہا صبح صبح یونیورسٹی جا چکی تھی اگلی شام کو ان کی مسز فائزہ کی جانب سےان  کےاپنے بوتیک کےتیّار کردہ ڈریسز کا مقامی ہال میں   ڈسپلے ہونا تھا وہ اپنے کاموں میں مصروف تھیں اس لئے وہ اکیلے ہی لا ؤنج میں آکرشفّاف شیشے کی دبیز وسیع عریض  بیک یارڈ فیسنگ ونڈو کے ساتھ کھڑے ہو گئے اوران کی نظریں محو نظّار ہ ہوئیں -


مہینہ تو جون کا شروع ہو چکا تھا لیکن محسوس یہ ہو رہا تھا کہ جیسے موسم بہار اپنی جوبن پر ہو لق و دق بیک یارڈ میں حسین پھولوں سے لدے ہوئے باغ و بہار پودے نرم اور خنک ہواؤں میں جھوم رہئے تھے کے مہینے میں موسم بہارکی خنک پروائ باد صبا کی مانند چل رہی تھی لان میں لگی ہوئ گھاس نے پوری طرح سبزرنگ کی چادراوڑھ لی تھی اور یہ تازہ بہ تازہ  ہریالی  آنکھوں میں تراوٹ کا باعث بن رہی تھی بیک یارڈ کے اسی حسین  مرغزار کے بیچوں بیچ زرد پتھّروں سے بنائ گئ پہاڑی اورپہاڑی کے دامن میں جھرنے کی مدھر آواز کے ساتھ گرتا ہوا خوبصو رت آبشار اور چند گز کے نیلگوں پانی کا تالاب اور اس تالاب کے درمیان چہار جانب نرم اور ٹھنڈی پھوار برساتا فاصلے پرفوّا رہ  اس تمام   منظر میں مذید دلکشی کا باعث تھا اور کچھ فاصلے پر  بھاری زنجیرون سے بندھا جھولا جس کی چھت گیری منظر دیکھنے والے کو ہوا میں پھڑپھڑا تے ہوئے اپنی جانب بلا رہی تھی ,,اپنے پرشکوہ محل نما گھر میں شفّاف اور دبیز شیشے کی دیوار کے پیچھے سے ان کو یہ منظر بے حد رومانوی سا محسوس ہوا کافی دیر تک بہت انہماک سے یہ منظردیکھ کر سوچتے رہے 


کینیڈا ،دنیا کا آخری سرا جس کا نام کچھ بھی کہا جائے لیکن اس کا اصل نام برف زار ہی ہونا چاہئے تھاگھر سے باہر کا یہ دلکش اور حسین منظر دیکھ کرپھراچانک ہی نصیر شاہ کا زہن یہاں ہونے والی برف باری کی جانب چلا گیا جواکثر اکتوبر سے شروع ہو کر اپریل اور مئ تک چلتی رہتی ہئے اور سردی کا تو کیاکہنا کہ مئ اور جون کے مہینوں میں بھی ہلکی جیکٹیں پہننی پڑجاتی ہیں باہر کا دیدہ زیب نظارہ دیکھتے ہوئے وہ مسکراتے رہے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے ہٹ کر صوفوں کی جانب آکر انہوں نے سینٹر ٹیبل پر رکھا ہواریموٹ کنٹرول ہاتھ میں لے کردیو  قامت اسکرین والا ٹی وی  آن کیا اورریموٹ ہاتھ میں لئے ہوئے آرام کرسی پر نیم دراز ہو گئے کئ چینلز بدل  کر دیکھے لیکن پھر اس سے بھی جی اچاٹ سا ہو گیا  اور پھر ریموٹ آگے بڑھا کر ٹی وی بند کردیا اور پھرآرام کرسی ر درازہو کر پرسکون انداز میں اپنی آنکھیں موند لیں ،آنکھیں بند کرنے کی دیر تھی کہ ان کے زہن کے پردے پر اپنے ماضی کا ایک ایک منظر ڈوب ڈوب کر ابھرنے لگا ،وہ اس دیار غیر میں آ کرکیا سے کیا ہو چکے تھے-شادی کے بعد بیس برس کا وقت گزر جانے کا مطلب ہئے کہ شادی شدہ زندگی پر بڑھاپا آگیا ہو ،


اور واقعی ہوابھی یہی تھا نصیر شاہ کو خیال آیا کہ آج ہی تو انہوں نے آئنے میں آج زرا غور سے اپنا چہرہ دیکھا تھا تو کنپٹیوں کے بالوں میں سفیدی آتر آئ تھی ،اور فائزہ تو بڑی پابندی سے یا تو بیوٹی پارلر جا کر بال رنگوا کر آنے لگی تھیں یاکبھی کبھی گھر پر ہی ہئر ڈائ لگانے لگی تھیں  ،پھر ان کا زہن اس دور میں جا پہنچا جب ان کی اکلوتی بیٹی سوہاکی پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد انکے دل  کی تمنّا پکار پکار کر ایک بیٹے کی آرزو کرتی تھی لیکن ان کی خواہش کو عملی روپ دینے کا اختیار  فائزہ کے پاس تھا اورفائزہ نے سختی سے کہ دیا تھا کہ اب وہ مذید فیمیلی کی خواہشمند نہیں ہیں ورنہ گھرکی ترقّی کا پہیہ رک جائے گاآرام کرسی پر موجود سر کے پیچھے دونوں ہاتھ باندھے نیم درازاپنے اطراف وجوانب سے بے نیازبظاہر تو وہ لاؤنج کی منقّش چھت کے نقش و نگار میں  یک ٹک کھوئے ہوئے تھےلیکن دل کے اندر نا تھمنے والی یادوں کی بارات ا س طرح اتر رہی تھی کہ ان کوچائے کی ٹرے لے کرآ نے والی اپنی مسز, فائزہ کے آنے کی بھی آہٹ نہیں ہوئ فائزہ چائے کی ٹرے صوفوں کے آگے رکھّی ہوئ سینٹرٹیبل پر رکھ کر اپنے شوہر سے مخاطب ہوئیں کیا بات ہئے کہاں کھو گئے ہیں 


فائزہ کے جواب میں وہ اس کی جانب دیکھے بغیر آرام کرسی کو ہلکے ہلکے ہلکورے دیتے ہوئے کہنے لگے آج زرا زہن ماضی کی یادو ں میں کھو گیا تھامجھے نہیں معلوم کہ تمھیں یاد ہو کہ نہیں لیکن مجھے اچھّی طرح یاد ہئے ،بلکہ میرے دل کے اوپر تو وہ یادگار گھڑیاں کندہ ہو گئیں ہیں جب ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اس دیار غیر میں پہلی بارقدم رکھّا تھامیری زندگی کی ان یادگار گھڑیوں کو گزرے پورےپورے بیس برس سات مہینےاور تین دن گزر گئےاس اجنبی زمین پر اس وقت ہم کتنے تہی دامن تھے  پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ایک خواب سا لگتا ہے ،اس وقت ہماری کائنات کیا تھی  ?ایک دوست کا دیا ہوا ایک نا کافی پرانا بچھونا جس کو ہم نے  اپنے  سٹو ڈیو ٹائپ   اپارٹمنٹ کے مختصر سے بیڈ روم  میں بچھا  لیا تھا ،اور ایک پراناکمبل جس کو اگر تم پورا اوڑھ لیتی تھیں تو میں سردی کھاتا تھا اور اگر میں نیند کی بے دھیانی میں پورا اوڑھ لیتا تھا تو تم صبح سردی کھانے کی شکائت کرتی تھیں  اور چند برتن جو دوسرے دوست نے اپنی کنجوس بیوی کی آنکھ بچا کر دے دئیے تھے ،اور انہی مفلسی کے دنوں کی یادگار ہماری اکلوتی بیٹی سوہا بھی ہماری غربت کی شریک ہو نے آ گئ

پیر، 16 جون، 2025

پاکستان ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کی زبوں حالی

 

 کیا کریں بیگم بچے ضد کر رہے تھے تو میں نے سوچا چلو  کچھ تفریح کروا دوں کیبل کار   پر آ کر ٹکٹ خریدے  لیکن یہ تجربہ ایک خوفناک تجربہ  رہا    کیونکہ  ہمارے   کیبل  کار میں بیٹھتے ہی  کیبل کار حادثے کا شکار ہوگئی  -لاہور کے چوہدری  نیاز الٰہی    اپنی بیگم، چھوٹی بہن اس کے بچے  اور  اپنے  بچوں کے ہمراہ   کئ  گھنٹے تک فضا میں معلق رہے تھے۔چوہدری  صاحب  کا کہنا تھا کہ ابھی ہم کیبل کار بیٹھے  ہی میں تھے کہ تیز طوفان شروع ہو گیا۔ پھر  میں نے  آپریٹر  سے کہا کہ طوفان بہت شدید ہے، ہم لوگ اترنا چاہتے ہیں جس پر آپریٹر نے کہا کہ اب کیبل کار سے اترنا ممکن نہیں ہے اور یہ کہ سفر جاری رکھنے کے علاوہ اب کوئی راستہ نہیں بچا۔’وہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیبن میں کل آٹھ لوگ تھے جن میں ایک نیا شادی شدہ جوڑا بھی تھا۔ شدید طوفان میں جب کیبل کار تھوڑی دیر چلی تو یک دم جھٹکا لگا اور ان کے ایک بچے کا سر کیبن کے شیشے پر جا کر لگا جبکہ دوسرے بچے گر گئے۔


’میری بیگم جو دروازے کے ساتھ تھیں، وہ بھی کیبن کی زمین پر گر گئیں۔ میں نے فوراً بچوں اور بیگم کو اٹھایا۔ کیبن کے سارے شیشے ٹوٹ چکے تھے جبکہ بچے خوف سے چیخ رہے تھے۔ ہمیں توقع تھی کہ شاید اندھیرا پھیل جانے سے پہلے ہی کوئی مدد آ جائے مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔’’تھوڑی دیر بعد ہمیں محسوس ہوا کہ لوگ امدادی سرگرمیاں شروع کررہے ہیں مگر اندھیرا پھیل جانے کے بعد تک بھی وہ کسی کی مدد کو نہیں پہنچ سکے تھے۔ ایسے میں کبھی کھبار کسی کیبن سے خوفناک چیخ کی آواز آتی تو ہمارے ساتھ موجود خواتین اور بچوں میں سے بھی کوئی چیخ اٹھتا تھا۔’چوہدری   صاحب  کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ جب ان کے حواس قابو میں آئے تو انہوں نے اپنے دو کم عمر بچوں کو اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ ایسے میں ان کے گھر سے فون آیا تو ایک بچے نے اپنے نانا سے کہا کہ ’نانا ابو جلدی کچھ کریں ایسا نہ ہو کہ ہم سب یہاں ہی مر جائیں۔’اس وقت بس ایک ہی خیال تھا کہ اگر مجھے کچھ ہو بھی جاتا ہے تو کوئی بات نہیں مگر میرے بچے کسی طرح بچ جائیں۔ اس صورتحال میں امداد ہم تک پہنچی تو ہم نے اللہ کا کتنا شکر ادا کیا، یہ میں بتا نہیں سکتی۔’


 

  کیبل کار کا فالٹ درست کر کے کیبن نیچے لائے گئے جس کے بعد اہلکاروں نے سیڑھیاں لگا کر لوگوں کو باہر نکالا۔محمد کاشف اور ان کے دوست صوبہ پنجاب کے علاقے لودھراں سے تفریح کے لیے مری پہنچے تھے۔ محمد کاشف نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ پانچ دوست تھے جن میں سے دو نے پہلے ہی کیبل کار پر بیٹھنے سے انکار کردیا تھا جبکہ باقی تین دوست کیبل کار میں بیٹھنے پر مصر تھے۔ان کا کہنا تھا کہ جب وہ لوگ شام کے وقت کیبل کار کے مقام پر پہنچے تو موسم بہت سہانا تھا اور لوگ کیبل کار پر بیٹھنے کے لیے لائنوں میں لگے ہوئے تھے۔کاشف کہتے ہیں کہ ’ابھی ہم لوگ کیبل کار کے پاس پہنچے ہی تھے کہ یک دم طوفان آگیا۔ اس موقع پر میں نے کیبل کار والوں سے کہا کہ اس طوفان میں ہم نے کیبل کار میں نہیں بیٹھنا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’بیٹھو بیٹھو، کچھ نہیں ہوتا، ہم لوگ اتنا بڑا پراجیکٹ چلا رہے ہیں ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کیا ہوگا اور کیا نہیں۔’ موقع پر موجود انتظامیہ نے ہم سے کہا کہ ’اس موسم میں تو اتنا انجوائے کرو گے کہ تمھاری زندگی کا یادگار سفر بن جائے گا۔’محمد کاشف کے مطابق ان کے ساتھ موجود ایک خاندان جس میں خواتین اور بچے بھی تھے، ان سے بھی کیبل کار انتظامیہ نے ایسے ہی الفاظ ادا کیے تھے جس کے بعد لوگ بیٹھنا شروع ہوگئے تھے۔ یہ کوئی چھ بجے کا وقت تھا۔ کیبن میں زیادہ سے زیادہ آٹھ لوگوں کی گنجائش تھی مگر انھوں نے 10 لوگوں کو بٹھا دیا تھا۔


’ہم لوگ سب سے پہلے والے کیبن پر سوار تھے جو سب سے اوپر پھنسی تھی۔ ابھی کیبل کار تھوڑی دیر ہی چلی ہوگی تو طوفان تیز ہوا اور ایک زوردار جھٹکا لگا۔ ہم سب لوگوں کے سر کیبن کے شیشوں، دیواروں اور دروازوں سے لگے جس سے ایک بندے کا سر پھٹ گیا۔ چند لمحوں کے لیے تو سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے۔ کچھ دیر بعد ہوش آیا تو ہم لوگ فضا میں لٹکے ہوئے تھے۔ ہمارے قریب ہی ایک کیبن سے چیخ و پکار اور کلمے کی آوازیں آ رہی تھیں۔’ان کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم نہیں کہ وہ کتنی اونچائی پر تھے مگر جب انہوں نے نیچے دیکھا تو انہیں زمین نظر نہیں آئی تھی۔ ’بس ایسے لگا کہ اب ہمیں یہاں سے کوئی بھی نہیں اتار سکتا اور موت ہی ہمارا مقدر ہے۔ ہمارے ساتھ کیبن میں موجود لوگوں نے تو اپنے گھروں اور دوستوں کو فون کر کے معافی تلافی بھی شروع کردی تھی۔’ان کا کہنا تھا کہ گھر اور دوستوں کی فون کالز آرہی تھیں، وہ حوصلہ دے رہے تھے کہ ان کو بتایا گیا ہے کہ آپریشن شروع ہے۔ ’رات کے کوئی بارہ بجے کا وقت ہوگا جب میں نے دیکھا کہ پہاڑوں اور قریب ہی واقع گاؤں سے ٹارچ وغیرہ کی روشنی نظر آرہی تھی۔ پھر ریسکیو اہلکاروں کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ سب لوگ حوصلہ رکھیں، ہم سے پہلے والے کیبن کے لوگوں کو مدد فراہم کردی گئی ہے اور جلد ہی باقی لوگوں تک بھی پہنچ جائیں گے۔’


ان کا کہنا تھا کہ کوئی رات گیارہ بجے جب امداد پہنچی اور وہ محفوظ مقام پر پہنچے تو ایسے لگا کہ موت کے منہ سے باہر نکلے ہوں۔ ’سب ایسے ایک دوسرے کے گلے لگ رہے تھے جیسے شاید دوبارہ کسی کو نہ دیکھ سکیں۔’مری ریسیکو کے انچارج انجنیئر  نے بی بی سی کو بتایا کہ کیبل کار کی دو پلیاں اپنی جگہ چھوڑ گئیں تھیں جس کی اطلاع ملتے ہی وہ فوراً موقع پر پہنچ گئے تھے۔کیبل کار کے کیبن 25 فٹ سے لے کر 800 فٹ تک فضا میں معلق تھے۔ پہلے تین کیبن کے لوگوں کو تو جلد ہی امداد فراہم کردی گئی تھی مگر باقی کیبن کے لوگوں نے رسیوں کی مدد سے اترنے سے انکار کردیا تھا۔ چنانچہ ایک طویل میٹنگ کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ کیبل کار میں موجود فالٹ کو ٹھیک کیا جائے اور اس کے بعد جتنا ممکن ہوسکے ہر کیبن کو کسی محفوظ مقام تک لایا جائے اور وہاں سے پھر لوگوں کو امداد فراہم کی جائے۔’ان کا کہنا تھا کہ یہ پورا آپریشن آٹھ گھنٹے طویل تھا جس میں مجموعی طور پر 106 لوگوں کی جان بچائی گئی، جس میں سے صرف چھ کو ہسپتال بھیجنے کی ضرورت پڑی تھی۔ اس آپریشن میں پاک فوج کے کمانڈوز اور مقامی لوگوں کی بھی مدد حاصل تھی۔

خوبصورت نظاروں سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )پارٹ2

   ماریشس نے 12مارچ 1968 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور بابائے قوم سرشِو ساگر رام غلام پہلے وزیراعظم نامزد ہوئے ، آج ماریشس دنیا کے نقشے پر ایک آزاد جمہوری ملک کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے اور عوام عام انتخابات  کے نتیجے میں اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ ماریشس کی اقتصادی خوشحالی کی بات کی جائے تو براعظم افریقہ میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی ماریشس کے عوام کی ہے،ماضی میں مختلف اقوام کے زیراثر رہنے والا آج کا ماریشس سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی جیتی جاگتی مثال ہے جہاں کے بسنے والے مذہبی و لسانی تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنے خوبصورت وطن کو مزید خوبصورت بنانے کیلئے پرعزم ہیں۔ ماریشس کے سادہ طبیعت کے عوام اپنی پرخلوص مہمان نوازی کیلئے دنیا بھر میں مشہورہیں، ماریشس کے صاف و شفاف پانی کے ساحل سیاحوں کیلئے خصوصی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں جبکہ واٹر اسپورٹس کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہے، عالمی سیاحتی مقام ہونے کی بنا پر چائنیز، انڈین، مغربی ہر قسم کے کھانے باآسانی دستیاب ہیں۔ ماریشس کے عوام اور حکومت پاکستان سے دِلی لگاؤ رکھتے ہیں اور اردو زبان پورے ماریشس میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اردو زبان کے فروغ کیلئے مشاعروں سمیت مختلف ادبی تقریبات  کا انعقاد ہوتا رہتا ہے ۔


 پوری دنیا کے سیاح یہاں سیر کرنے اور چھٹیاں انجوائے کرنے کے لیے آتے ہیں سیاحت ماریشس کا سب سے بڑا  زر مبادلہ کمانے  کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اس ملک کی بیشتر آبادی ماریشس اور راڈرک جزیروں میں آباد ہے جو صرف 13 لاکھ کے قریب ہے جس میں سے جزیرہ راڈرک کی آبادی کا تناسب صرف ڈھائی فیصد ہے۔ اس کے علاوہ بھی اور کئی چھوٹے چھوٹے بے آباد جزیرے ہیں جہاں سیاح موٹر بوٹس کے ذریعے سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے ہیں۔ شاید ان جزیروں میں کچھ ماہی گیر خاندان آباد ہوں جن کا وہاں جانے پر ہی پتہ چل سکتا ہے۔ اگر آپ ماریشس میں صرف سیاحتی نقطہ نظر سے آئے ہیں تو آپ کے مالی وسائل بہت مضبوط ہونے چاہئیں۔یہاں کاروبار لگے بندھے اصولوں پر چلتا ہے۔ صبح نو بجے سے شامل پانچ بجے تک سرکاری و غیر سرکاری تمام ادارے اصولوں کی پابندی کرتے ہیں۔ پانچ بجے کے بعد تقریباً تمام کاروباری ادارے بند ہو جاتے ہیں۔ شاید چند بڑی سپر مارکیٹیں سات سے آٹھ بجے تک کھلتی ہیں۔ ملک میں ٹرانسپورٹ کا بہت   منظم  نظام ہے۔


ملک کے تمام حصوں میں تمام شہروں کے بس اڈوں سے مسافروں کے لیے گاڑیاں چلتی ہیں مگر تمام ماریشس میں شام سات بجے کے بعد بسیں چلنا بند ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں اگر آپ کے پاس ذاتی ٹرانسپورٹ ہے تو پھر مزے ہیں۔ اگر ذاتی گاڑی نہیں تو پھر ٹیکسیوں کا مہنگا ترین سفر اپنانا ہوگا۔ پورے ملک میں مضبوط ٹرانسپورٹ نظام کے تحت تمام شہروں اور علاقوں میں بس سٹاپ نظر آئیں گے اور آپ کو بس میں سفر کے لیے ہر صورت اس بس سٹاپ پر ٹھہرنا ہو گا۔ آپ راستے میں بس روک کر سوار نہیں ہو سکتے۔حکومت مدارس ‘ مساجد اور حجاج کے مسائل میں بھی تعاون کرتی ہے۔ مسلمان از خود بھی مسلمان کمیونٹی کی اجتماعی کفالت کی غرض سے مختلف تنظیموں کی صورت مین سرگرم عمل ہیں۔ زکوٰۃ صدقات جمع کرکے انہیں فقراء ویتامیٰ اور بیوگان و مساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ملک بھر میں ۲۵۰ اسکول ہیں جو حکومت کی امداد سے چل رہے ہیں۔ اس کے ساتھ دینی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے مخصوص ادارے بھی ہیں۔


پرائمری اور مڈل اسکول بھی ہیں اور حفظ قرآن کریم کے ادارے بھی ہیں اسی طرح مساجد کے تحت کچھ حلقے بھی قائم ہیں جو مسلمان بچوں کو عربی زبان ‘ قرآن کریم اور اسلام کی بنیادی تعلیم دے رہے ہیں۔ماریشس میں اسلام اٹھارہویں صدی کے انگریزی ااستعمار کے عہد میں ہندوستان کے راستے داخل ہوا۔ یہاں کے سب سے پہلے مسلمان ماہی گیر ‘ تاجر اور بعض بیرونی افراد تھے۔ یہاں اسلامی بیداری کا حالیہ سبب وہ نوجوان ہیں جو بیرون ملک اسلامی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرکے واپس لوٹے ہیں۔۸۰ء کی دہائی سے لے کر تاحال یہ لوگ دعوت دین میں مصروف ہیں انہوں نے عربی زبان کی تعلیم و اشاعت کے لئے وسیع پیمانے پر کوششیں کی ہیں انہی کوششوں کے نتیجے میں حکومت کے پرائمری اور مڈل اسکولوں میں مسلمان طلبہ کے لئے عربی زبان کو شامل کرلیا گیا ہے۔


 ہے ایک اہم ترین بات یہ ہے   دنیا کے دیگر ممالک بالخصوص انڈیا  جن میں شامل ہے تاریخی شخصیات      جیسے علامہ اقبال، مرزا غالب اور کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے مختلف  پروگرام کرتے رہتے ہیں لیکن پاکستان کا نام  کہیں بھی نمایا ں نہیں ملتا ہے اور اس کی وجہ سفارت نا اہلی ہے۔کیونکہ پاکستانی سفاتکار قومی مفاد کی بجائے ذاتی عیش و آرام کو ترجیح دیتے   ہیں، حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ بیرون ممالک سفارتکاروں کی تعیناتی کیلئے ایسے افراد کا انتخاب کرے جو باہر کی دنیا میں ملک اور قوم کا نام روشن کرنے والے ہوں  اور ان کی کاوشوں سے  ثقافتی اور تجارتی سطح پر کامیابی  ممکن ہوسکے۔ماریشس  کے معاشرتی  اوصاف  نے   اس جزیرے کو افریقہ کے خوشحال ترین ملک  کا درجہ دیا ہے -اعلیٰ  ظرفی  تفرقہ  سے دوری  سماجی خدمات  ہی وہ اعلیٰ اوصاف ہیں جو کسی بھی معاشرے کی ترقی و خوشحالی کیلئے ضروری ہوا کرتے ہیں،

ہفتہ، 14 جون، 2025

عید غدیر 'یوم تکمیل دین

 


10 ہجری کے آخری ماہ (ذی الحجہ) میں حجة الوداع کے مراسم تمام ہوئے اور مسلمانوں نے رسول اکرم سے حج کے اعمال سیکھے۔ حج کے بعد رسول اکرم نے مدینہ جانے کی غرض سے مکہ کوچھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے ،قافلہ کوکوچ کا حکم دیا ۔جب یہ قافلہ جحفہ سے تین میل کے فاصلے پر رابغ نامی سرزمین پر پہونچا تو غدیر خم کے  مقام  پر جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آیت کے ذریعہ خطاب کیااے رسول! اس پیغام کو پہونچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا توگویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا؛آیت کے اندازسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے کوئ ایسا عظیم کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سپرد کیا ہے ،جو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے اور دشمنوں کی مایوسی کا سبب بھی ہے ۔اس سے بڑھ کر عظیم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و وصیات و جانشینی کے منصب پر معین کریں؟


لہٰذا قافلہ کو رکنے کا حکم دیا گیا ،جولوگ آگے نکل گئے تھے وہ پیچھے کی طرف پلٹے اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ آکر قافلہ سے مل گئے ۔ ظہر کا وقت تھا اورگرمی اپنے شباب پرتھی؛ حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کا ایک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ پیروں کے نیچے دبائے ہوئے تھے۔ پیغمبر کے لئے ایک درخت پر چادر ڈال کر سائبان تیار کیا گیا اور آپ (ع) نے اونٹوں کے کجاوں سے بنے ہوئے منبر کی بلندی پر کھڑے ہو کر، بلند و رسا آواز میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے۔غدیر خم میں پیغمبر کا خطبہ :حمد وثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے ۔ہم اسی پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ہم برائی اور برے کاموں سے بچنے کے لئے اس ا للہ کی پناہ چاہتے ہیں ، جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے۔ اور جس نے بھی گمراہی کی طرف راہنمائ کی وہ اس کے لئے نہیں تھی ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔ ہاں اے لوگو!وہ وقت قریب ہے، جب میں دعوت حق پر لبیک کہتا ہوا تمھارے درمیان سے چلا جاؤں گا !تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں ۔


 اس کے بعد آپنے فرمایا کہ میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟کیا میں نے تمھارے بارے میں اپنی ذمہ داری کو پوراکردیا ہے ؟یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت زحمتیں اٹھائیں اوراپنی ذمہ داریوں کو پوراکیا ؛اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر دے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کامعبود ایک ہے اور محمد اس کا بند اور رسول ہے؟اور جنت و جہنم وآخرت کی جاویدانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے؟ سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں ۔ اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” اے لوگو!میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں ،میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد، میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو؟


 اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت ہیں،اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہ ہوں گے ۔ ہاں اے لوگوں! قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا اور ان دونوں کے حکم کی تعمیل میں بھی کوتاہی ناکرنا ،ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔ اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوںکی بغلوں کی سفیدی، سب کو نظر آنے لگی پھر علی (ع) سے سب لوگوں سے متعرف کرایا ۔ اس کے بعد فرمایا: ” کون ہے جومومنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق تصرف ر کھتا ہے ؟ “ سب نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔پپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں۔


 اے لوگو!” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ،وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ وادر ا لحق معہ حیث دار “ جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ”اے اللہ تو اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ،اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب حضرت عمر بن خطاب (رض )نے حضرت علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور مبارکبادی کایہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا . حضرت عمر( رض )وہ پہلے افراد تھے جنھوں نے امام کو ان الفاظ کے ساتھ مبارکباد دی  -  اے علی بن ابی طالب آپ کو مبارک ہو کہ صبح وشام میرے اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہوگئے

 

جمعہ، 13 جون، 2025

ایک معصوم ٹک ٹاکر لڑ کی کی موت

 

ٹک ٹاک کلچر اور معاشرتی انحطاط:پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’ٹک ٹاک کلچر‘‘ ایک وبا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ٹک ٹاک پر آئے دن نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی حادثاتی موت کے واقعات کی خبریں میڈیا پر نشر ہوتی رہتی ہیں جس میں ویڈیو بناتے وقت پہاڑوں سے پاؤں پھسلنا، رائفل یا پستول کی اچانک گولی چل جانا،ویڈیو بنانے کے شوق میں کوئی اپنی ہی رائفل کا شکار ہوا،سمندر یا دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو جانا،ریل کی پٹری پر ویڈیو بنانا اوریوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور خودساختہ انفلوئنسرز کی نئی نسل ابھر رہی ہے جو نہ صرف مسلم معاشرت بلکہ عمومی انسانی اقدار   کی  پامالی کا سبب بھی بن رہی          ہے۔ معاشرہ ان مشینی ایجادات کے درمیان اپنی بنیادی انسانی حسیات کھو چکا ہے۔ چند برس میں ٹک          ٹاک ایسا ’ورچوئل اسٹیج‘ بن چکا ہے جہاں شہرت کا حصول آسان ترین ہوگیا ہے۔ اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں   اسی جھوٹی دنیا کےاسیر  بن چکے ہیں  جہاں اخلاقیات، روایات، اور معاشرتی اقدار ہوتی ہی نہیں۔ جو والدین بچوں کی سرگرمیوں سے بے خبر ہیں اُن کے بچے ’فالورز‘ پانے کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔ کوئی رقص کے ذریعے، کوئی بر ہنگی کے زریعے ،۔ کوئی ادائیں بیچ رہا ہے، توکوئی محض جنسی جذبات بھڑکاکر وائرل ہونے کی پوری کوشش کررہا ہے۔ پاکستان میں عبرت انگیز کیسز کی بھرمار ہے، مگر یہ سب مثالیں سگریٹ نوشی کی عبرت کی مانند بنتی جا رہی ہیں، جس کا نقصان سب اجتماعی طور پر اٹھائیں گے۔


ٹک ٹاک کو دور حاضر کا خطرناک دجالی    فتنہ کہا جا سکتا ہے ۔یہ بات ایک کڑوی سچائی ہے کہ موجودہ دور میں کچھ لڑکیاں شہرت کی چمک دمک کے پیچھے دوڑتے ہوئے اپنی عزت، وقار اور دینی حدود کو پسِ پشت ڈال دیتی ہیں۔ سوشل میڈیا خصوصاً ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر نام کمانے کی خواہش انہیں ایسے راستوں پر لے جاتی ہے جہاں عزت، حیا اور حفاظت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ کوئین دارو جیسی   شادی شدہ لڑکی کی بھی نمایاں مثال ہے  جو نا گھر کی رہی  نا گھاٹ کی ۔  یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے عورت کوعزت، حیا اور تحفظ کی چادر میں لپٹا ہوا ایک عظیم مقام،عطا فرمایا ہے- جب کوئی لڑکی ان حدود کو توڑ کر بے راہ روی اختیار کرتی ہے ، تو وہ نہ صرف اپنے لیے خطرات کو دعوت دیتی ہے بلکہ معاشرے میں فساد اور بے حیائی کے دروازے بھی کھولتی ہے ۔ پھر انجام اکثر افسوسناک اور عبرتناک ہوتا ہے ، چاہے وہ قتل ہو، بدنامی ہو  ایسے لاکھوں نوجوانوں میں ثنا یوسف بھی ایک تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ثنا کی ویڈیوز بے لباسی، عریانی و فحاشی پر مشتمل نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ بے حیائی صرف ننگ پن یا جسمانی نمائش نہیں ہوتی۔ ثنا کی وڈیوز میں جو کچھ تھا وہ  نوجوانوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لئے کافی تھا ، ۔ 


اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس کے مرنے کے بعد 50 لاکھ لوگوں نے اس کا اکائونٹ دیکھا۔ انسان کو مرنے کے بعد جن چیزوں کا اجر اور گناہ ملتا ہے ان میں اگر آپ نے نیکی کی طرف دعوت دی اور کسی نے قبول کی تو وہ آپ کے لیے باعثِ ایصالِ ثواب ہے، لیکن اگر برائی عام کی تو وہ قبر میں آپ کے لیے باعثِ عذاب اور دکھ ہے۔ اس کے طرزِ زندگی، لباس،گفتگو، حرکتوں اور ماحول کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کسی طور پشتون روایت کی حامل نہیں تھی۔ نومبر 2023ء سے اُس نے ٹک ٹاک پر وڈیوز ڈالیں اور تادم تحریر یعنی محض 18 ماہ میں وہ 13 لاکھ فالوورز کرچکی تھی۔ثنا یوسف کو اُنہی 13لاکھ فالوورز میں سے ایک ’عاشق‘ نے قتل کردیا۔ سترہ برس کی وہ دوشیزہ جس کے حسن نے ہزاروں دل جیتے، مگر کسی ایک دل کو قبول نہ کیا۔ وہ سوشل میڈیا کی شہزادی تھی۔ہر دن اپنی تصویر، اپنی مسکراہٹ، اور اپنے نخرے بکھیرتی تھی اور کہتی تھی: ’’شادی کرنی ہو تو پٹھانی سے کرو، ورنہ چترالی سے‘‘… کیونکہ وہ خود چترالی پٹھان تھی۔


 ثنا کو اپنے ٹک ٹاک کے لاکھوں فالوورز پر بڑا ناز تھا، کروڑوں ویوز پر بڑا غرور تھا۔ وہ اب معروف ٹک ٹاکر بن چکی تھی۔ اس کو لوگ اپنے پاس بلاتے، تحائف دیتے، مفت سہولیات دیتے، اور بدلے میں وہ دو جملے بول دیتی اور خوب شہرت و مال کماتی۔ یہ سب کچھ اُس کے فالوورز کی وجہ سے تھا۔ عمر بھی لاکھوں فالوورز کے ہجوم میں سے ایک تھا۔ وہ بھی ثنا کے نشر کردہ مواد کا شکار ہوگیا تھا۔ بقول آئی جی اسلام آباد: وہ لڑکی کی قربت، دوستی وغیرہ کے لیے دیوانہ ہوگیا۔ اُس نے بارہا کوشش کی، پیغام دیا، مگر لڑکی نے کبھی نظرِ کرم نہ ڈالی۔ اس کو اپنی ایسی آزادی پر فخر تھا۔ وہ ایک وڈیو میں کہتی ہے کہ ’’میں ان معاملات میں نہیں پڑنا چاہتی‘‘۔ عمر کا معاملہ تاحال ہم آئی جی کے بیان کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں۔ اس کے مطابق وہ دوبارہ اُس سے ملنے، التجا لے کر گیا تھا، اس دوران ثنا کے گھر ہی نہیں اس کے کمرے میں اس کی کیا بات ہوئی، یہ سب نامعلوم ہے۔ بہرحال عمر نے دو گولیاں لڑکی کو مار دیں۔ اس کی مبینہ محبت… لہو میں نہا گئی۔ قاتل کا بیان میڈیا سے مستقل غائب ہے؟



  بظاہر دیکھیں تو وہ صرف ایک ’ناکام عاشق‘ ہے،جس کا دل ٹوٹا اور جذبات میں وہ انتہائی قدم اٹھا بیٹھا۔قاتل گرفتار ہوگیا مگر اس کیس نے دوبارہ کئی سوالات اٹھا دیے۔ایک 17 سالہ لڑکی کو اُس کے والدین نے اتنا آزاد کیسے چھوڑا ہوا تھا؟جب زندہ تھی توکئی شہر پھلانگ کر عاشق پہنچ جاتے، مگر مرنے کے بعد 13 لاکھ فالوورز رکھنے والی کے جنازے میں 13سو لوگ بھی کیوں نہ تھے؟آئی جی اسلام آباد نے صرف یہی بات دہرائی کہ لڑکا بار بار کے انکار پر مشتعل ہوا تھا۔ مگر وہ یہ نہیں بتارہے کہ ایسا شخص جس سے لڑکی بالکل ملنا نہیں چاہتی تھی، وہ اُس کے گھر میں داخل کیسے ہوگیا؟ثنا نہ اس سے ملنا چاہتی تھی، نہ کوئی تعلق رکھنا چاہتی تھی۔ پھر وہ لڑکا گھر کے اندر ہی نہیں بلکہ سیدھا اس کے کمرے میں کیسے پہنچ گیا؟لڑکا اس حد تک قریب پہنچا ہوا تھا کہ لڑکی کا فون بھی لے کر بھاگ گیا۔ جب لڑکی ملنا نہیں چاہتی تھی تو اس کے فون میں ایسا کیا تھا؟گھر میں ماں، بھائی سب موجود تھے، کسی نے اس اجنبی کو کیوں نہ روکا؟سوشل میڈیا پر اس واقعے کو عبرت انگیز قرار دیا گیا۔ ملزم کے گھر والے تالا لگا کر غائب ہوچکے ہیں 


بدھ، 11 جون، 2025

خوبصورت نظاروں سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )پارت 1




 خوبصورت  اور لہلہاتے  قدرتی نظاروں  سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )کے ائر پورٹ 'پورٹ لوئس کے سرشِو ساگر رام غلام انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اگر آپ سورج غروب ہونے کے بعد اتریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ ایک برقی روشنی میں نہائے ہوئے شہر میں اتر رہے ہیں - بحرِہند پر واقع قدرتی خوبصورتی سے مالامال جزیرہ ماریشس ہند وستان  کے باشندوں  کا بسایا  ہوا ایک   بے مثال ملک  ہے -اس ملک میں  مشرقی اور مغربی معاشرے کا عمومی عکس پایا جاتا ہے کیونکہ یہاں کی غالب آبادی انڈیا سے تعلق رکھتی ہے، ماریشس (موریطانیہ) بحر ہند کے انتہائی جنوب میں سیر و سیاحت کے حوالے سے دنیا میں مشہور ہے۔اس کی ملکیت  مختلف جزیرے ہیں جو  نباتات اور سبزہ  سے مالامال ہیں ۔ پورے ملک میں گنے کی فصل کے علاوہ آم اور پپیتے کے درخت کثرت سے ہیں ۔ماہرینِ زراعت کے مطابق ماریشس کی زمین بہت زرخیز ہے۔ماریشس کے جزائر قیمتی پودوں اور جڑی بوٹیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایک سروے رپورٹ میں سامنے آیا کہ یہاں کئی پودے ایسے ہیں جو کینسر کے علاج میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ طبی ماہرین پر مشتمل ٹیموں نے یہاں پائی جانے والی نباتات پر تحقیق شروع کردی ہے۔


 لیچی اور ناریل کے پھل یہاں بہت مرغوب ہیں۔ناری کے درخت بہتات میں ہیں اس لئے ناریل کا پانی بہت پیا جاتا ہے۔ پورے ملک میں گنے کی بھر پور فصل نظر آئے گی۔ اس کے علاوہ آپ کواکثر گھروں میں ناریل، لیچی، آم اور پپیتا کا درخت نظر آئے گا۔ اس کے علاوہ سڑکوں پر آم کے پیڑ اور پپیتے کے درخت بہتات میں نظر آئیں گے۔ پھلوں کا بادشاہ کہلانے والا پھل آم ماریشس میں بے قدری کا شکار ہے۔ یہ یہاں زیادہ نہیں کھایا جاتا بلکہ سڑکوں پر گاڑیوں کے ٹائروں تلے بے دردی سے کچلا جاتا ہے۔ اور تقریباً یہی حال پپیتے کا ہے۔ یہ بھی مرغوب پھل نہیں۔ماریشس کی زمین اس قدر زرخیز ہے کہ آپ یہاں فصل کاشت کر سکتے ہیں سوائے دھان کے ۔ عجیب بات ہے کہ چاول جو یہاں کے باشندوں کی بنیادی غذا ہے تمام باہر کے ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں نے اب سبزی ترکاری بھی اگانی شروع کر دی ہے۔ پیاز، آلو، ٹماٹر، چقندر، گوبھی، کریلا، بھنڈی، کدو، کھیرے، پالک، بینگن، اروی اور بہت سی ایسی سبزیاں مقامی طور پر اگائی جا رہی ہیں۔ لیکن بہت سی زمین قابل کاشت پڑی ہے۔ پہاڑوں میں آپ کو بندراور ہرن بھی نظر آئیں گے۔ ماریشس کے بڑے شہر قابل دید شہر ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے طول عرض میں پھیلے ہوئے چھوٹے چھوٹے گاؤں ، قصبے اوربیچز قابل دید نظارے پیش کرتی ہیں، جہاں سفر کرتے ہوئے آپ خود کو بہت ہی ہلکا پھلکا محسوس کریں گے اور قدرت کی اس صناعی کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ یہ سب نظارے ایسے ہیں کہ بار بار دیکھنے پر بھی آپ کا جی نہیں بھرتا۔سائنس دانوں نے حیرت انگیز انکشاف یہ کیا ہے کہ ان جزائر پر بعض ایسے پودے پائے جاتے ہیں جو کسی اور خطہ زمین پر موجود نہیں۔


ان میں تین نباتات کو ایسالائفا انٹیگریفولیا، یوجینیا ٹینی فولیا، اور لیبروڈونیسیا گلوکا کہا جاتا ہے جو صرف اسی ملک میں پائے جاتے ہیں۔ طبی تحقیق  کے مطابق  یہاں کی کچھ مخصوص  نباتات میں سرطان کی رسولیا ں  ختم کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ماریشس کے نباتاتی خزانے کے ایک تہائی پودے برسوں سے مختلف  امراض کے علاج میں استعمال ہورہے ہیں، لیکن ان پر باقاعدہ سائنسی تحقیق نہیں کی گئی تھی۔ جمہوریہ ماریشس کا قومی پرچم چار رنگوں پر مشتمل ہے جو وہاں کے معاشرے کی کثیرالجہتی رواداری اورسماجی ہم آہنگی کی عکاسی کرتا ہے، ماریشس کہنے کو تو ایک افریقی ملک ہے لیکن اسے آباد ایشیائی باشندوں بالخصوص برطانوی ہندوستان سے تعلق رکھنے والوں نے کیا ہے اور آبادی کے تناسب سے ہندودھرم کے ماننے والے اکثریت میں ہیں جو پچاس فیصد سے اوپر ہیں  جبکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں مسلمان، عیسائی، بودھ اور دیگر شامل ہیں لیکن مجال ہے کہ کبھی کسی قسم کی مذہبی کشیدگی کی خبر ماریشس سے آئی ہو، اسکی بنیادی وجہ افریقہ کے خوشحال ترین ملک سمجھے جانے والے ماریشس کے معاشرے میں صبر و تحمل، برداشت جیسے وہ اعلیٰ اوصاف ہیں جو کسی بھی معاشرے کی ترقی و خوشحالی کیلئے ضروری ہوا کرتے ہیں،


 فی الوقت ماریشس کی صدر کا عہدہ بی بی امینہ فردوس کے پاس ہے جبکہ وزیراعظم پروند جوگناتھ ہیں، اپوزیشن لیڈر پال ریمنڈ برنگر وہ واحد سیاسی رہنما ہیں جو عیسائی اقلیت ہوتے ہوئے بھی ماضی میں وزیراعظم کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوئے۔ بی بی امینہ ایک نامور سائنسدان ہیں ، جہاں وہ ایک طرف ماریشس کی پہلی خاتون صدر ہیں وہیں انہوں نے سائنس کے میدان میںعالمی اعزازات اپنے نام کیے ہیں۔مجھے بی بی امینہ سے تبادلہ خیال کا موقع ملا تو میں نے انہیں عجز و انکساری اور خدمتِ خلق کے جذبے سے بھرپور پایا، خاتون صدر پاکستان سے حکومتی اور عوامی سطح پر دوطرفہ تعلقات کے فروغ میں خاصی دلچسپی رکھتی ہیں۔جمہوریہ ماریشس آئینی طور پر تمام شہریوں کو یکساں مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے اور مذہبی تفریق کی سختی سے ممانعت ہے، دیوالی، عید، کرسمس اوردیگر مذہبی تہواروں کے موقع پرسرکاری تعطیلات ہوتی ہیں اور تمام مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کی خوشیوں میں بھرپور انداز میں شریک ہوتے ہیں۔ جزیرے بھر میں قائم مندر، مسجد، گرجا گھروںاور دیگر مذہبی عبادتگاہوں کی موجودگی ریاست کی مذہبی ہم آہنگی پر مبنی امن دوست پالیسی کی نشاندہی کرتی ہے، ماریشس کی پہلی مسجد مسجدالاقصیٰ انیسویں صدی کے اوائل میں تعمیر کی گئی،


 برصغیر کے ایک صوفی جمال شاہ کے سنگِ مرمر سے تعمیر شدہ مقبرے سے ملحقہ جمعہ مسجد کو خوبصورت ترین مذہبی مقام کا اعزاز حاصل ہے۔ ماریشس کے خوبصورت پہاڑوں میں واقع گنگا تلاؤ جھیل ہندوؤں کا مقدس ترین مقام ہے جہاں روزانہ ہزاروں یاتری حاضری دیتے ہیں، دریائے گنگا سے منسوب مقدس جھیل کے کنارے ساگر شِو مندر، ہنومان مندر، گنیش مندر اور گنگا دیوی مندر بھی قائم ہیں، مہاشِویاتری کے موقع پر ہندو زائرین اپنے گھروں سے گنگا تلاؤ تک کا سفر ننگے پاؤں طے کرتے ہیں۔ مختلف اقوا م کے ماریشس پر اثرات کا تاریخی طور پر جائزہ لیا جائے تو اس خوبصورت ترین افریقی جزیرے کو 9ویں صدی عیسوی میں جب عرب تاجروں نے دریافت کیا تو یہاں ہر طرف گھنے جنگلات اور جنگلی حیات کے علاوہ کوئی انسانی آبادی نہ تھی، سولہویں صدی میں پرتگالی جہاز رانوں نے بھی یہاں قدم رکھے لیکن سب سے پہلے یہاں آباد ہونے والے ڈچ تھے جنہوں نے سولہویں صدی کے اختتام پر قبضہ کرکے جنوب مشرقی حصے میں ایک بستی بسائی، جہاں یہ کالونی آباد ہوئی اسے گرینڈ پورٹ کا نام دیا جاتا ہے،تقریباََ دس سال گزارنے کے بعد ڈچ باشندے اپنے غلاموں کو جزیرے پر چھوڑکرواپس چلے گئے جس کے بعد فرانس نے قبضہ کرکے جزیرے کا نام آئی لینڈ ایلی ڈی فرانس رکھ دیا ،

منگل، 10 جون، 2025

عشق کے مراتب 'مزار مقدس کا مکین ایک البانوی مسلمان

 

یا رسول اللّٰہ ﷺ

آپ مداخلت کیوں نہیں فرماتے 😢😢

ایک تُرک مُسلمان مسجد نبوی شریف کے احاطے میں کھڑے ہوکر اپنا آنکھوں دیکھا واقعه بیان کرتا:

میں وہاں کھڑا دیکھ رہا تھا که چار پولیس والے کِسی کا انتظار کر رہے ہیں،

پِھر ایک شخص نمودار ہُوا تو پولیس والوں نے بھاگ کر اُسے قابو کر لیا،

اور اُسکے ہاتھ جکڑ لئے۔

نوجوان نے کہا:

مُجھے دعا اور توسل کی اجازت دے دو ۔۔۔ میری بات سن لو ۔۔ میں کوئی بِھکاری نہیں ہُوں، نه چور ہُوں،

پِھر وہ جوان چیخنے لگا،

میں نے اُسے دیکھا تو ایسے لگا جیسے میں اُسے جانتا ہُوں،

میں بتاتا ہُوں که میں نے اُسے کیسے پہچانا:

دَراصل میں نے اُسے کتنی ہی دفعه بارگاہ رسالت میں روتے ہوئے دیکھا تھا 

یه ایک البانوی نوجوان تھا،

جِس کی عُمر 35 یا 36 سال کے درمیان تھی ۔۔ اس کے سنہری بال اور ہلکی سی داڑھی تھی۔

میں نے پولیس والوں سے کہا:

جب اِسکا کوئی جُرم نہیں ہے تو تم اِس کے سَاتھ ایسا کیوں کر رہے ہو،

آخر کیا الزام ہے اِس پر؟

اُنہوں نے مُجھے کہا:

ارے او تُرک،

تُو پِیچھے ہٹ اِس معاملے میں بولنے کا تُجھے کوئی حق نہیں ۔

لیکن میں نے پِھر سے کہا:

آخر اس کا تُمہارے ساتھ کیا مسئله ہے؟ کیا اِس نے کوئی چوری کی ہے؟

اُنہوں نے کہا:

نہیں، یه بندہ 6 سال سے اِدھر مدینے شریف میں رہ رہا ہے، لیکن اس کا یه قیام غیر قانونی ہے؛ ہم اِسے پکڑ کر واپس اِس کے ملک بھیجنا چاہتے ہیں، لیکن یه ہر دفعه ہمیں چکمه دے کر بھاگ جاتا ہے،

اور جا کر روضهٔ رسولﷺ میں پناہ لے لیتا ہے، اور ہم اِسے اندر جا کر گرفتار نہیں کرنا چاہتے تھے ۔

میں نے پُوچھا:

تو اب اِس کیساتھ کیا کرو گے؟

کہنے لگے: ہم اسے پکڑ کر جہاز پر بٹھائیں گے اور واپس البانیا بھیج دیں گے.

نوجوان مُسلسل روئے جا رہا تھا،

اور کہه رہا تھا:

کیا ہو جائے گا اگر تم مُجھے چھوڑ دو گے تو؟

دیکھو، میں کوئی چور نہیں ہوں ۔۔۔۔۔

میں کِسی سے بِھیک نہیں مانگتا ۔۔۔۔۔

میں تو اِدھر بس مُحبتِ رسول میں رہ رہا ہوں،

پولیس والوں نے کہا:

نہیں، ایسا جائز نہیں ہے،

نوجوان نے کہا:

اچھا مُجھے ذرا آرام سے رسول اللّٰہ ﷺ سے ایک عرض کر لینے دو،

پِھر نوجوان نے اپنا منه گُنبدِخضراء کی طرف کر لیا،

پولیس والوں نے کہا:

چل کہه، جو کہنا ہے،

تو نوجوان نے گُنبد خضراء کیطرف دیکھا اور جو کُچھ عربی میں کہا، میں نے سمجھ لیا،

وہ نوجوان كہه رہا تھا:

یا رسول اللّٰہﷺ،

کیا ہمارے دَرمیان اِتفاق نہیں ہوا تھا؟

کیا میں نے اپنے ماں باپ کو نہیں چھوڑا؟

کیا اپنی دُکان بند کر کے اپنا گھر بار نہیں چھوڑا؟

اور یه عہد کر کے یہاں نہیں آیا تھا که آپ کے جوارِ رحمت میں رہا کروں گا ؟

حضورﷺ! اب دیکھ لیجیئے،

یه مُجھے ایسا کرنے سے منع کر رہے ہیں.

یا رسول اللّٰہﷺ، یا رسول اللّٰہﷺ،

آپ مداخلت کیوں نہیں فرماتے؟

یارسول اللّٰہ ﷺ، آپ مداخلت کیوں نہیں فرماتے۔؟،

اِتنے میں نوجوان بے حال ہونے لگا،

تو پولیس والوں نے ذرا ڈِھیل دی اور نوجوان نیچے گِر گیا،

ایک پولیس والے نے اسے ٹُھڈا مارتے ہوئے کہا:

او دھوکے باز اُٹھ،

لیکن نوجوان نے کوئی رَدِ عَمل ظاہر نا کیا۔

میں نے پولیس والوں سے کہا:

یه نہیں بھاگے گا، تم حمامات سے پانی لاؤ،

اور اس کے چہرے پر ڈالو،

لیکن نوجوان کوئی حرکت نہیں کر رہا تھا،

ایک پولیس والے نے کہا:

اِسے دیکھو تو سہی،

کہیں یه سچ مچ مر ہی نا گیا ہو ۔

دوسرا پولیس والا‌کہنے لگا:

اِسے ہم نے کون سی ایسی ضرب لگائی ہے، جِس سے یه مر جائے،

پِھر اُنہوں نے ایمبولینس والوں کو فون کیا،

وہ اُدھر سامنے والے سات نمبر گیٹ سے ایک ایمبولینس لے آئے.

اُنہوں نے نوجوان کی شَه رگ پر ہاتھ رکھ کر حرکت نوٹ کی اور نَبض چیک کی تو کہنے لگے:

اِسے تو مَرے ہوئے 15 منٹ گزر چکے ہیں،

اب پولیس والے جیسے مُجرم ہوں،

نیچے بیٹھ گئے اور رونے لگے،

وہ منظر بھی دیکھنے والا تھا،

اُن میں سے ایک تو اپنے دونوں زانوؤں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہتا تھا:

ہائے ہمارے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئے ۔۔۔۔۔۔۔

کاش ہمیں معلوم ہوتا که

اِسے رسول اللّٰہ ﷺ سے اتنی شدید مُحبت ہے،

ہائے ہمارے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئے۔

اِسکے بعد ایمبولینس والوں نے اُسے وہاں سے اُٹھا لیا، اور جنت البقیع کی طرف تجہیز و تکفین والے حِصے میں لے گئے،

غُسل کے وقت میں بھی وہیں موجود تھا،

میں اُنہیں کہتا تھا، مُجھے بھی ہاتھ لگانے دو، مُجھے بھی اِسکی چارپائی کو اُٹھانے دو،

جب جنازہ تیار ہو کر نماز کے لئے جانے لگا تو پولیس والوں نے مُجھے کہا:

ہم نے جِتنا گناہ اٹھایا ہے،

بس اِتنا کافی ہے،

اِسے ہمارے سِوا اور کوئی نہیں اُٹھائے گا،

شاید اِسی طرح ہمیں آخرت میں کُچھ رعایت مل جائے،

میرے سامنے ہی وہ نوجوان بار بار کہه رہا تھا که

یا رسول اللّٰہ ﷺ، آپ مداخلت کیوں نہیں فرما رہے؟

دیکھا،

رسول اللّٰہ ﷺ نے مداخلت فرما دی،

اور ملک الموت نے اپنا فریضه ادا کر کے اُسے آپﷺ تک ہمیشه کيلئے پُہنچا دیا.

اللہ ہمیں اپنے حبیب ﷺ کی ویسی ہی مُحبت عطا فرمائے،

جیسی اُس البانوی نوجوان کو عطا فرمائی تھی.

🌿اَللهُمَّ صَلِّ عَلَى ُمحَمَّدِ ُّوعَلَى اَلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ ابْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدُ مَجِيِد

🌿اَلَّلهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمّدِ ٌوعَلَى اَلِ مُحَمّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ اِبْرَاهِيْمَم اِنَّكَ حَمِيُد مَّجِيد

پیر، 9 جون، 2025

بریگیڈئر امتیاز- فاعتبرو یا اولی الابصار۔۔ پارٹ-1

 

 یہ سچی کہانی  حرام کھانے اور کھلانے والو کے لئے ایک عبرتناک مثال۔وڈیو دیکھ کر  میں سوچ رہی ہوں  کہ اس بے رحم اور قاتل  شخص  کی بے شمار زمینیں اور جائدادیں کہاں گئیں جو اس نے کراچی کے مہاجر نوجوانوں کو  پکڑ' پکڑ کر  ان کے خاندانوں سے پیسہ بٹور کر بنائ تھیں ۔اس کا یک بنگلہ  بڑا بیٹا کاغذات سمیت  بیرون ملک بھاگ چکا ہے اور دوسرا بنگلہ اس نے چھوٹے بیٹے کے نام کیا تھا اس بنگلے کو بیٹا پولیس کے زریعے باپ سے  خالی کروا رہا ہے-ابھی حال کی ہی بات ہے  انٹر نیٹ پر ایک ویڈیو دیکھی  جس  میں ایک کم زور‘ نحیف بزرگ شخص  دو پولیس اہلکاروں کے سامنے کھڑا تھا اور وہ بار بار پولیس والوں سے الجھ رہا تھا‘ اس کے ساتھ درمیانی عمر کی ایک خاتون تھی جب کہ سامنے پچاس اکاون سال کا ایک شخص کھڑا تھا اور وہ بار بار پولیس اہلکاروں کو کہہ رہا تھا آپ اسے گرفتار کیوں نہیں کرتے‘ آپ اس کا سامان کیوں نہیں نکالتے؟



 بزرگ پولیس والوں سے تکرار کر رہا ہے اور خاتون کہہ رہی تھی آپ مجھے آرڈر دکھائیں‘اے ایس آئی انہیں یقین دلا رہا تھا میرے پاس کورٹ آرڈر ہے‘ آپ اب گھر کے اس پورشن میں نہیں رہ سکتے‘ بزرگ پولیس کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھا‘ پولیس اہلکار انہیں سمجھارہے تھے بریگیڈیئر صاحب آپ ہمارے بزرگ ہیں‘ ہمارے محترم ہیں‘ آپ ہمارے ساتھ کوآپریٹ کریں‘ ہمارے پاس آرڈر ہے اور ہم نے ہر صورت اسے پورا کرنا ہے‘ یہ تکرار بڑھ جاتی ہے اور آخر میں اے ایس آئی کانسٹیبل کو کہتا ہے گاڑی منگوا ؤ اور ان تینوں کو اٹھا کر تھانے لے جا ؤ اور ویڈیو ختم ہو جاتی ہے‘ دوسری ویڈیو میں پچاس اکاون برس کا شخص پولیس والوں کو کہتا ہے آپ ان لوگوں کو گرفتار کیوں نہیں کرتے؟ پولیس اہلکار جواب دیتا ہے‘ یہ بزرگ بھی ہیں اور بیمار بھی‘ ہم انہیں کیسے گرفتار کر سکتے ہیں؟ آپ اپنا سامان لے آئیں اور وہ شخص سیڑھیاں اتر کر نیچے چلا جاتا ہے۔یہ بوڑھا اور کینسر زدہ  بیمار شخص بریگیڈیئر امتیاز احمد عرف بریگیڈیئر بلا تھا‘ 


ایک زمانہ تھا پورے ملک میں بریگیڈیئر امتیاز کا طوطی بولتا تھا‘ حکومتیں بھی تبدیل کرنا  ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور جس کو دل چاہتا تھا اسے اٹھا کر برہنہ کر کے سزا  دیا کرتے  تھے     -انہوں نے ہی   کمیونسٹ لیڈر نذیر عباسی تک کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا ‘   پاک فوج کی انجینئرنگ کور سے  ان کو عروج ملنا شروع ہوا   قدرت نے اسے مکار نیلی آنکھیں دی تھیں لہٰذا ساتھی اسے بلا اور باگڑ بلا کہتے تھے‘ یہ انجینئرنگ کور سے انٹیلی جنس میں آیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ 1980ء کی دہائی میں یہ انٹرنل سیکورٹی کا سربراہ بن گیااور میاں نواز شریف کے ساتھ جڑ گیا اور پھر ان کی آنکھوں کا تارا بن گیا‘ 1989ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی‘ بریگیڈیئر امتیاز نے حکومت گرانے کا منصوبہ بنایا‘یہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے اور میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنانے کی کوشش کر رہا تھا‘ ا نہوں نے راولپنڈی میں پیپلز پارٹی کے ایم این ایز توڑنے کی کوششیں شروع کر دیں‘ مسعود خان اس وقت آئی بی کے ڈی جی تھے‘ انہیں بھنک پڑ گئی اور انہوں نے بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کی پی پی کے دو ایم این ایز کے ساتھ آڈیوز اور ویڈیوز ریکارڈ کر لیں



‘ وزیراعظم کے ہاتھ میں ثبوت آ گیا لہٰذا اس نے آرمی چیف اسلم بیگ کو بلا کر پوچھ لیا‘ اسلم بیگ اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شمس الرحمن کلو (المعروف جنرل کلو)مکر گئے اور ملبہ جنرل امتیاز پر آ گرا‘ اس نے میجر عامر کو بھی ساتھ لپیٹ لیا جب کہ میجر عامر اس سازش میں شامل نہیں تھے‘یہ اس وقت اسلام آباد کے سیکٹر کمانڈر تھے مگر ڈی جی نے انہیں اس معاملے سے الگ کر رکھا تھا‘ یہ سارا آپریشن بریگیڈیئر امتیاز ایڈیشنل ڈی جی انٹرنل ونگ کی حیثیت سے ان کے ہی زمہ تھا ‘ یہ آپریشن تاریخ میں مڈنائیٹ جیکال کے نام سے مشہور ہوا‘ بہرحال قصہ مختصر جنرل اسلم بیگ نے بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کا کورٹ ماشل کر کے انہیں ملازمت سے فارغ کر دیا‘ میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے‘ انہوں نے بریگیڈیئر امتیاز کو برخاستگی کے باوجود پنجاب میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری لگا دیا‘ یہ 1990ء میں الیکشن جیت کر پہلی بار وزیراعظم بنے تو انہوں نے بریگیڈیئر بلا کو ڈی جی آئی بی بھی لگا دیا اور یہاں سے بریگیڈیئر بلا کو ایک بار پھر عروج ملا‘ یہ 1993ء تک ڈی جی آئی بی رہے-زمانے  نے اپنی آنکھوں سے ا ن کا  جاہ و جلال دیکھا ‘ بڑے بڑے نامی گرامی وزراء ا نکے دفتر کے باہر بیٹھے رہتے تھے‘اقتدار اور طکی گنگا ان کی میز کے نیچے بہتی تھی اور یہ  اپنے قریبی ساتھیوں سمیت خود بھی اس میں غسل کرتے  اور اپنے دوست احباب کو بھی اس میں گنگا اشنان کرواتے ‘


 بہرحال قصہ مزید مختصر 1994ء میں بے نظیر بھٹو دوبارہ آ گئیں اور بریگیڈیئر  امتیاز  اب قانون کے شکنجے میں آ گئے‘ 2001ء میں جنرل مشرف نے نیب بنایا‘‘ اس زمانے میں اسلام آباد میں اس کی 24 پراپرٹیز  نیب نے دریافت کیں‘ زمینیں‘ زیورات‘ بینک اکائونٹس اور بے نامی جائیدادیں ان کے علاوہ تھیں‘ نیب نے عدالت میں کرپشن ثابت کر دی اور یوں اسے 8 سال قید ہو گئی‘ یہ 2008ء میں اڈیالہ جیل سے رہا ہوااور 2010ء میں اسے ایک بار پھر چیئرمین او جی ڈی سی عدنان خواجہ کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا مگر یہ اس وقت تک کینسر کا مریض بن چکا تھا‘ اس کی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی لہٰذا عدالت نے اسے رہا کر دیا اور یہ اس کے بعد گوشہ گم نامی میں چلا گیا‘  زمانہ  بھی اسے بھول گیا لیکن پھر اچانک  اس کی ویڈیو سامنے آئی اور میں قسمت کے رنگ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔بریگیڈیئر امتیاز کی تازہ ترین کہانی یہ ہے‘ یہ اپنی جس اولاد کے لیے لوٹ کھسوٹ کرتا رہا‘ اس نے جن بچوں کے لیے کراچی کے مہاجر نوجوانوں کو بیدردی سے موت کے گھاٹ اتارا  یا پھر ان کے خاندانوں نے ان کی رہائ کے لئے لاکھوں روپے تاوان وصول کیا  آج وہ اپنے بیٹے کے ہاتھوں پولیس  کے نرغے میں گھرا کھڑا ہے


اتوار، 8 جون، 2025

جیرارڈ اسٹریٹ ٹورنٹو

 جیرارڈ اسٹریٹ ٹورنٹو، اونٹاریو، کینیڈا کی ایک  مشہور اسٹریٹ  ہے۔ یہ دو الگ الگ حصوں پر مشتمل ہے، جسے تاریخی طور پر لوئر جیرارڈ اور اپر جیرارڈ کہا جاتا ہے۔جیرارڈ اسٹریٹ ٹورنٹوجیرارڈ اسٹریٹ ویسٹ کا واک اسکور 100 میں سے 99 ہے۔ یہ مقام واکرز پیراڈائز ہے اس لیے روزانہ کے کاموں کے لیے کار کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ٹورنٹو میں کوریڈور پڑوس۔ قریبی پارکوں میں الیگزینڈر اسٹریٹ پارکیٹ، لیری سیفٹن پارک اور ہائی پارک شامل ہیں۔پرانے ٹورنٹو میں یونیورسٹی ایوینیو اور کاکس ویل ایونیو کے درمیان 6 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ مؤخر الذکر حصہ لوئر جیرارڈ کے مشرقی ٹرمینس سے 300 میٹر شمال میں شروع ہوتا ہے اور کاکس ویل ایونیو اور کلونمور ڈرائیو کے درمیان، وکٹوریہ پارک ایونیو اور وارڈن ایونیو کے درمیان، اسکاربورو میں مزید 4 کلومیٹر تک چلتا ہے۔


جیرارڈ اسٹریٹ ٹورنٹو کے چند اہم اضلاع اور محلوں سے گزرتی ہے، خاص طور پر ڈسکوری ڈسٹرکٹ، ایسٹ چائنا ٹاؤن، اور جیرارڈ انڈیا بازار، ٹورنٹو کا سب سے بڑا جنوبی ایشیائی نسلی انکلیو۔جیرارڈ کا نام سیموئیل جیرارڈ (1767-1857) کے لیے رکھا گیا ہے، جو زیریں کینیڈا میں ایک اینگلو-آئرش تاجر اور عزت مآب جان میک گل کے ذاتی دوست ہیں، جو اپر کینیڈا کی قانون ساز کونسل کے رکن ہیں۔اپر جیرارڈ اصل میں "لیک ویو ایونیو" کے نام سے ایک الگ گلی تھی جو مشرقی ٹورنٹو کے قصبے میں تھی۔ 1908 میں ٹورنٹو کے ذریعہ ایسٹ ٹورنٹو کے الحاق کے بعد نام تبدیل کر دیا گیا۔جیرارڈ گاؤں-بے سٹریٹ سے لاپلانٹے ایونیو تک جیرارڈ سٹریٹ ویسٹ کے ایک مختصر حصے کو جیرارڈ ولیج کہا جاتا ہے، ایک بوہیمین-گرین وچ گاؤں جیسا علاقہ 19ویں صدی کے آخر سے 1920 کی دہائی میں ابھرا اور 1960 کی دہائی کے آخر میں غائب ہو گیا۔ سابق محلے کی چند عمارتیں اب بھی موجود ہیں، لیکن رہائشی اور باقی کاروبار اب ماضی سے تعلق نہیں رکھتے۔جو لوگ رہتے تھے یا اس سے وابستہ ہیں ان میں مشہور ادیب، فنکار شامل تھے: 


پیئر برٹن - کینیڈا کے مورخ اور مصنفارنسٹ ہیمنگوے - امریکی ناول نگار اور رپورٹر 1919-1920 کے آس پاس ٹورنٹو میں اپنے وقت کے دوران یہاں رہتے تھے۔لارین ہیرس - کینیڈین پینٹر اور گروپ آف سیون کے رکنالبرٹ فرانک - ڈچ نژاد کینیڈین پینٹرراستے کی تفصیل-جیسا کہ ٹورنٹو میں عام ہے، Yonge Street پر گلی کو مشرقی اور مغربی پتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ عام طور پر، گلی کا مغربی حصہ بہت چھوٹا ہوتا ہے — صرف چار بلاکس لمبے ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی ایونیو میں اس کا مغربی ٹرمینس ڈاون ٹاؤن ٹورنٹو کے "ہسپتال قطار" کے مرکز میں واقع ہے، جو ٹورنٹو جنرل ہسپتال، ماؤنٹ سینائی ہسپتال، شہزادی مارگریٹ کینسر سینٹر، ٹورنٹو ری ہیب، اور بیمار بچوں کے لیے ہسپتال پر مشتمل ہے۔ جیرارڈ اسٹریٹ کا بڑا حصہ دراصل جیرارڈ اسٹریٹ ایسٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹورنٹو میٹروپولیٹن یونیورسٹی جیرارڈ اسٹریٹ ایسٹ پر یونگ اسٹریٹ کے بالکل مشرق میں واقع ہے۔



مزید مشرق میں، پارلیمنٹ اسٹریٹ پر، جیرارڈ اسٹریٹ کیبی ٹاؤن کو ریجنٹ پارک سے الگ کرتی ہے۔دریائے ڈان کو عبور کرنے کے بعد، جیرارڈ اسٹریٹ ایسٹ ٹورنٹو کے ایسٹ چائنا ٹاؤن سے گزرتا ہے جو براڈ ویو ایونیو اور کارلو ایونیو کے درمیان جیرارڈ پر مرکوز ہے۔ مشرق کو جاری رکھتے ہوئے، گرین ووڈ ایونیو اور کوکس ویل ایونیو کے درمیان جیرارڈ اسٹریٹ ایسٹ شمالی امریکہ میں جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے بازاروں میں سے ایک کا گھر ہے۔ جیرارڈ اور براڈ ویو ایونیو کے چوراہے پر دو دو لسانی سڑک کے نشان ہیں جن پر الفاظ ہیں " ۔اپر جیرارڈ بڑے پیمانے پر رہائشی اور چھوٹے پڑوس کے کاروبار کا مرکب ہے۔ وکٹوریہ پارک ایونیو میں، کلونمور ڈرائیو میں ضم ہونے سے پہلے آخری چار بلاکس کے لیے گلی کا نام "جیرارڈ اسٹریٹ ایسٹ" کے بجائے صرف "جیرارڈ اسٹریٹ" میں واپس آجاتا ہے۔ اس نام کی عجیب و غریبیت وکٹوریہ پارک کے مشرق کا علاقہ اسکاربورو میں ہونے کی وجہ سے ہے، جس نے ٹورنٹو سے داخل ہونے والی سڑکوں کو "مشرق" کے نام سے لیبل نہیں کیا،


یہاں تک کہ میٹروپولیٹن ٹورنٹو کی تخلیق کے بعد، جس نے سڑکوں کے لیے متحد مرکزی سمتوں کا استعمال کیا، بشمول اسکاربورو میں خود ہی شمال مشرقی یارک سے سڑکوں کے لیے۔ (جیرارڈ اور کوئین وہ واحد سڑکیں تھیں جن پر "مشرق" کے نام کا لیبل لگا ہوا تھا جو ٹورنٹو سے براہ راست اسکاربورو میں داخل ہوئیں؛ دونوں ختم ہونے سے پہلے اسکاربورو میں صرف چند بلاکس تک جاریرہیں۔)ٹرانزٹ-ٹورنٹو ٹرانزٹ کمیشن (TTC) پارلیمنٹ اسٹریٹ اور کاکس ویل ایونیو کے درمیان ٹورنٹو اسٹریٹ کار روٹ 506 کارلٹن کے ساتھ لوئر جیرارڈ کی خدمت کرتا ہے۔ راستہ پھر کاکس ویل ایونیو کے ساتھ سفر کرتا ہے اور اپر جیرارڈ کے ساتھ مین اسٹریٹ تک جاری رہتا ہے، جہاں یہ مڑ کر مین اسٹریٹ اسٹیشن پر ختم ہوتا ہے۔ مین اسٹریٹ کے مشرق میں جیرارڈ اسٹریٹ کا بقیہ حصہ ٹی ٹی سی بس روٹ 135 جیرارڈ کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے، جو مین اسٹریٹ اسٹیشن اور وارڈن اسٹیشن کے درمیان سفر کرتی ہے۔  

حجِ بیت اللہ 'ایک عاشقانہ عبادت

 حجِ بیت اللہ 'ایک عاشقانہ عبادت                 حج تو درحقیقت خدا کی اس مقدس سرزمین پر حاضری کا نام ہے، جہاں نبیوں، رسولوں اور برگزیدہ بندوں نے اپنی حاضری کے ذریعہ اطاعت وبندگی کا فریضہ انجام دیا ہے، اور اپنی اطاعت وبندگی کا عہدوپیمان کیا ہے۔  مختلف مکاتب میں حضرت ابراہیم ؑ کے اس خواب کا ذکرآیا ہے جو کہ قربانی سے متعلق ہے۔ حضرت ابراہیم ؑنے یہ خواب مسلسل تین رات تک دیکھا تھا۔ انہوں نے خواب دیکھا جس میں حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنی عزیز ترین شے ہماری راہ میں قربان کرو۔ آپؑ نے اس موقع پر اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیا تو آپ کو حضرت اسماعیل ؑ نظر آئے تو آپ نے بیٹے سے تینوں راتوں کے خواب کا ذکر کیا۔ اس سے کہا۔ میر ے پیارے بیٹے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے قربان کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا، والد محترم جو حکم ہوا ہے، اسے بجا لائیے، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔


 غرض جب دونوں مطیع ہو گئے ۔ تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم ؑیقیناً تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ بے شک ہم نیکی کرنے والے کو اسی طرح جزادیتے ہیں۔ درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔‘‘(سورہ الصافات آیات نمبر 101-تا106)قربانی محض جانور ذبح کرنے اور گوشت کھانے کا نام نہیں ہےیہ ایثار وجاں نثاری، تقویٰ اور طہارت کا نام ہے  - عید الاضحی کے دن حضرت ابراہیم ؑکی اس عظیم ترین اطاعت خدا وندی کی مثال کی یاد گار کے طور پر ادا کیا جاتا ہے جس کے تحت خلیل اللہ (اللہ کے دوست) لقب پانے والے اس حق و صداقت کے علمبر دار پیغمبر ؑ نے اپنی ہزاروں دعاؤں اور تمناؤں کے بعد پیدا ہونے والے پیارے بیٹے کو حکم خداوندی سے اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا ارداہ کر لیا تھا۔قربانی کا مطلب ہے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنا جبکہ شرعی اصطلاح میں اس کا مطلب عبادت کی نیت سے ایک خاص وقت میں حلال جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا یا ذبح کرنا ہے۔


یہ خاص وقت10ذی الحج کی صبح یعنی اشراق سے شروع ہوتا ہے اور 12ذی الحجہ کی عصر تک رہتا ہے۔ نماز عید سے قبل قربانی نہیں ہوتی۔عید الاضحی کی قربانی اصل میں اس واقعہ عظیم کی یاد کو تازہ کرتی ہے جو حضرت ابراہیم ؑ سے واقع ہوا یعنی خواب میں فرزند عزیز حضرت اسما عیل ؑ کو ذبح کرتے دیکھا تو سچ مچ انہیں قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ مختلف مکاتب میں حضرت ابراہیم ؑ کے اس خواب کا ذکرآیا ہے جو کہ قربانی سے متعلق ہے۔ حضرت ابراہیم ؑنے یہ خواب مسلسل تین رات تک دیکھا تھا۔ پہلی رات یعنی آٹھ ذی الحج جسے شرعی اصطلاح میں ’’یوم الترویہ‘‘کہا جاتا ہے۔ لغت میں ترویہ کے معنی ’’سیراب کرنا‘‘پانی فراہم کرنا، منی اور عرفات میں چونکہ پانی نہیں ہے اس لئے ایام صبح میں یعنی اسی تاریخ کو یہاں بذریعہ ٹینکر پانی سپلائی کیا جاتا ہے جس کی شہادت عازمین حج بھی دیتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ’’ترویہ‘‘ کے معنی و مفہوم میں ’’پانی پلانا‘‘لکھے ہیں لوگ اس دن اپنے اونٹوں کو پانی پلاتے تھے۔


 بعض اہل زبان نے ’’ترویہ‘‘کورویت سے لیا ہے اس لئے ’’دیکھنے کے ‘‘ معنی میں لیا ہے۔حضرت ابراہیم ؑنے بھی چونکہ خواب دیکھا تھا اس لئے دیکھنے کے معنوں میں ترویہ لیا۔ اس کی ایک توجیہہ یہ بھی لکھی ہے کہ اس دن عازمین حج نماز ظہر کے بعد احرام باندھ کر منی کی جانب روانہ ہوتے ہیں اور زادراہ کی خاطر پانی بھی ساتھ رکھتے ہیں۔  حضرات ابراہیم ؑنے خواب دیکھا جس میں حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنی عزیز ترین شے ہماری راہ میں قربان کرو۔ صبح اٹھ کر آپؑ نے سوچا کہ کیا چیز قربان کی جائے کہ جس سے منشائے ایزدی پوری ہو جائے۔ آپؑ نے سوسرخ اونٹ قربان کر دیئے۔ دوسری رات پھر وہی خواب آیا۔ چنانچہ آپؑ نے پھر ایسا ہی کیا۔ واضح ہوکہ حجاز کی سرزمین پر سرخ اونٹ شروع ہی سے بڑا قیمتی رہا ہے جسے صرف چند مخصوص افراد استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ عام آدمی کی قیمت خرید سے باہر ہوتا ہے۔ اس دوسرے دن آپؑ نے جو قربانی پیش کی وہ ’’یوم عرفہ‘‘ تھا جس کے معنی ’’پہچاننے‘‘کے ہیں۔عر فہ نوذی الحج کا دن ہوتا ہے۔ اسی دن تمام عازمین حج عرفات کے میدان میں آتے ہیں جو حج کارکن اعظم ہے،


 یہاں کی حاضری خواہ چند ساعتوں کیلئے ہی سہی ، ضروری ہے ورنہ حج نہیں ہوتا۔ اس دن عازمین حج اپنے آپ کو مجرموں کی طرح رب کائنات کے حضور پیش کر کے اپنے گناہوں کا اعتراف بر ملا کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے چونکہ عرفہ والی رات کو بھی یہ خواب دیکھا تھا۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپؑ نے اپنے پہلے دن والے خواب کو پہچان لیا تھا کہ یہ وہی خواب ہے جو کل دیکھا تھا۔ اسی دن فجر کی نماز سے تیر ھویں کی عصر تک تکبیر تشریق ہر فرض نماز کے بعد خواتین و حضرات پر چاہے وہ مقیم ہو یا مسافر ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہےمفسرین کرام    بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے جب خواب دیکھا   اس وقت حضرت اسمعیل ؑ کی عمر 13برس تھی۔ پیغمبران کرام کے خواب بھی وحی الہٰی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لئے بیٹے کی قربانی کے حکم کو وحی الٰہی جانتے ہوئے تسلیم کیا اور بیٹے سے مشورے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا بھی امرالٰہی کے لئے کس حد تک تیار ہے؟۔ انہی تمام صورتوں کا مجموعہ اللہ تعالیٰ نے حج کی شکل میں عطا فرمایا۔ شعائراللہ کی صورت میں انبیاءو مرسلین  کی مختلف یادگاروں کو مناسک حج میں قائم فرما دیا۔


جمعرات، 5 جون، 2025

سفیر امام ع حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ)

  


حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابوطالب کے فرزند تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو  حال مناسب لگی اور انہوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں   حضرت مسلم بن عقیل حضرت امام حسین ؑ مدینے سے ہی آپ کے ہمراہ تھے ۔ مکے میں کوفیوں کے خطوط کی کثرت کو دیکھتے ہوئے امام نے عراق کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے حضرت مسلم کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ۔اگر وہاں کے حالات کوفیوں کے خطوط کی غمازی کرتے ہوں تو آپ کوفہ کی جانب سفر کریں گے ۔جناب مسلم بن عقيل امام حسين عليہ السلام كے خط كے ساتھ كوفہ ميں جناب مختار كے گھر پہنچے ،


 خط ميں امام حسين عليہ السلام نے جناب مسلم كو اپنا بھائي اور مورد اعتماد قرار ديا تھا ۔باطل نظام کے خلاف قیام کی جدوجہد میں عوامی رابطہ مہم کی ذمہ داری جس شخصیت کے ذمہ لگائی گئی وہ حضرت مسلم بن عقیل بن ابی طالب تھے۔ حضرت مسلم بن عقیل نے حقیقی اسلام کے سفیر کا کردار ادا کیا۔مسلم اور کوفہ -حضرت مسلم جب کوفہ پہنچے تو وہاں مختار بن ابی عبیدہ کے نام سے گھر میں ساکن ہوئے ۔شیعیان اس گھر میں آپ کو ملنے آتے۔ مسلم نے حضرت امام حسین کا خط انہیں پڑھ کر سنایا   ۔ابن عساکر کہتا ہے کہ 12000 افراد نے مسلم کے ہاتھ پر حضرت امام حسین کی بیعت کی  بعض نے بیعت کرنے والوں کی تعداد 18000 لکھی ہے   دیگر بعض نے 30000 افراد ذکر کی  ۔مسلم کی اس قدر حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے یزید کے جاسوسوں نے یزید کو خط میں کوفہ کے حالات لکھے اور کہا کہ حاکم کوفہ نعمان بن بشیر کمزور ہے یا کمزوری کا اظہار کر رہا ہے اگر کوفہ چاہتے ہو تو بصرے کے موجودہ حاکم عبید اللہ کو کوفہ کا حاکم بنا دو پس یزید نے عبید اللہ کو کوفے کا حاکم مقرر کر دیا ۔ امام حسین ؑ کے نمائندے مسلم بن عقیل کی تلاش عبید اللہ کا پہلا اقدام تھا عبید اللہ نے کوفیوں ڈرانے اور لالچ دینے کے بعد "حر بن یزید ریاحی" کو سپاہیوں کے ہمراہ حضرت امام حسین ؑ کا راستہ روکنے کیلئے روانہ کیا نیز انہیں حکم دیا کہ حسین ؑ کو کسی ایسی جگہ پڑاؤ نہ ڈالنے دے جہاں پانی وغیرہ نہ ہو  


عبید اللہ کے کوفہ آنے پر مسلم بن عقیل مختار کے گھر سے نکل کر ہانی بن عروۃ کے گھر منتقل ہوئے جو کوفہ کے ایک بزگ شخصیت مانے جاتے تھے ۔ہر چند مسلم کے شیعیاں کوفہ سے روابط پوشیدہ تھے لیکن عبید اللہ کے ذریعے مسلم کی رہائشگاہ کا پتہ لگا لیا ۔لہذا اس نے ہانی کو اپنے قصر میں طلب کیا اور تقاضا کیا کہ وہ مسلم اس کے حوالے کر دے لیکن ہانی نے ایسا کرنے سے انکار کیا ۔ ہانی کی قصر میں حاضر طلبی کی وجہ سے قبیلۂ مذجج نے قصر کا گھیراؤ کر لیا لیکن عبید اللہ نے قاضی شریح کے ذریعے انہیں دھوکہ دے کر منتشر کر لیا ۔ کیونکہ وہ جس ہستی کے حکم پر مدینہ سے کوفہ کی طرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لئے روانہ ہوئے وہ ہستی (امام حسین ) دین اسلام اور شریعت محمدی ۖ کے دفاع اور تحفظ کے لئے کمربستہ تھی اور حضرت مسلم بن عقیل نواسہ رسول ۖ کے شانہ بشانہ اس جہاد میں شریک تھے اور اپنی شہادت کے ذریعہ واقعہ کربلا کی بنیادیں استوار کرگئے۔جس وقت كوفہ والوں كو جناب مسلم كے آنے كي خبر ملي تو ۱۸ہزار افراد نے آكر جناب مسلم كے ہاتھوں پر بيعت كي ، اور جب جناب مسلم كو ان كي باتوں پر اطمينان ہو گيا تو آپ نے امام حسين عليہ السلام كو خط لكھا كہ ۱۸ ہزار اہل كوفہ نے آپ كے نام پر ہمارے ہاتھوں پر بيعت كر لي ہے لہذا خط ملتے ہي آپ كوفہ كے لئے روانہ ہو جائيں ۔ 



امويوں نے جناب مسلم كے اس عظيم استقبال كو ديكھتے ہوئے يزيد كو خط لكھا كہ اگر كوفہ بچانا چاہتے ہو تو كسي لائق والي كو يہاں بھيجو ۔ چنانچہ يزيد نے عبيداللہ بن زياد كو كوفہ كا والي مقرر كيا اور وہ بصرہ سے كوفہ آيا اور لوگوں كو ڈرانا دھمكانا شروع كيا جس كي وجہ سے اہل كوفہ نے جناب مختار كي حمايت كم كر دي اور جيسے جيسے عبيداللہ كا منحوس سايہ اہل كوفہ پر پڑتا گيا جناب مسلم كے حامي كم ہوتے گئے ۔جب عبيداللہ نے ڈرا دھمكا كر اہل كوفہ كو مسلم سے دور كر ديا تو جناب مسلم كي تلاش شروع كي اور جناب مسلم كا پتہ بتانے والے كو انعام و اكرام سے نوازنے كا وعدہ كيا ۔ جناب مسلم كے ميزبان ہاني بن عروہ كو دار الامارہ ميں بلا كر سزا دي ۔ جناب مسلم نے چار ہزار افراد كے ساتھ دارالامارہ كا محاصرہ كيا ليكن عبيداللہ كي سازشوں كي وجہ سے لشكر كے درميان پھوٹ پڑ گئي اور لوگ جناب مسلم كا ساتھ چھوڑنے لگے يہاں تك كہ نماز مغرب و عشاء كے بعد جناب مسلم تنہا ہو گئے ۔


آخر كار كوفہ كي گليوں ميں عبيداللہ كے سپاہيوں سے مقابلہ ہوا اور جناب مسلم نے تنہا ۴۱ سپاہيوں كو واصل جہنم كيا ليكن پياس كي شدت اور شديد زخموں كي وجہ سے مقابلے كي تاب نہ لا سكے ۔ ايك سپاہي نے پيچھے سے نيزہ مارا آپ زمين پر گر پڑے ۔ لشكر والوں نے آپ كو گرفتار كر ليا اور دارالامارہ لے گئے ، عبيداللہ بن زياد نے حكم ديا كہ آپ كو دارالامارہ كي چھت سے نيچے پھينك ديا جائے جس سے آپ كي شہادت واقع ہو گئي اس كے بعد ابن زياد نے جناب ہاني بن عروہ اور جناب مسلم رضوان اللہ عليھم كے سر اقدس كو يزيد كے پاس بھيج ديا ۔ "آپ كي شہادت ۹ ذي الحجہ سن ۶۰ ہجري ميں واقع ہوئي ۔ آپ كي شہادت سے ايك دن قبل امام حسين عليہ السلام نے كوفہ كے ارادہ سے مكہ كو چھوڑا اس لئے آپ كو شہادت كي خبر راستے ميں ملي ۔ جس وقت امام حسين عليہ السلام نے جناب مسلم اور جناب ہاني كي شہادت كي خبر سني تو آپ نے كئي مرتبہ يہ آيت پڑھي "" انا للہ وانا اليہ راجعون"" اور جناب مسلم كے حق ميں دعا كي- 

منگل، 3 جون، 2025

مشعل اوباما- علم کی جھلملاتی قندیل



   مشعل اوباما- علم کی جھلملاتی قندیل مشعل   اوبامہ  وہائٹ ہاؤس سے جاتے ہوئے صرف امریکی خواتین کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام  خواتین کے لئے اپنے نقش قدم چھوڑ گئ ہیں  اور اس کے علاوہ ان کی تحریریں ان لاکھوں دلوں میں   روشن  قندیل کی  مانند  جھملاتی رہیں گی  جو خواتین ان سے رہنمائ چاہیں گی -جی ہاں  یہ پیشورانہ لحاظ سے وکیل ہیں' ایک خاتون خا نہ ہیں جو اپنے شوہر اور اپنے گھر بار پر اور بچوں پر بھرپور توجہ دیتی ہیں-سماجی تقریبات ہوں یا خاندانی سلسلے یہ آپ کو ہر جگہ ایکٹیو نظر آئیں گی لیکن انکی سب  سے بڑی خوبی ان کی تحریریں  ہیں جن کو یہ کتابی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں   - مشعل اوبامہ جن کی پہلی  کتاب نے  کسی بھی لکھاری کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دئے ہیں- اور یہ پہلی کتاب  ان کی لائف کی بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ اس کتاب کی دنیا بھر میں 17 ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔  سابق خاتون اول مشعل اوباما نے دنیا میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور قوموں کے نئے بحرانوں کے حوالے سے ایک اور کتاب 'دی لائٹ وی کیری' لکھی۔ اس کتاب کا اعلان انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے کیا۔ سابق خاتون اول نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ان کی پہلی کتاب کے بعد دنیا میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ بہت سے بحرانوں کے علاوہ ایک عالمی وبا کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 


ان تمام وجوہات کی وجہ سے ہم کمزور ہو چکے ہیں۔  انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کا سامنا کیسے کریں؟ اپنے خوف کا سامنا کیسے کریں؟ اپنی مایوسی اور پریشانی کو مثبت انداز میں کیسے ہینڈل کریں۔ مشعل نے اس ویڈیو میں اپنی کتاب کے بارے میں کہا کہ یہ ایک ٹول باکس کی طرح ہوگی۔ مشعل کی دوسری کتاب کا ٹائٹل 'دی لائٹ وی کیری' ہے۔ یہ کتاب 15 نومبر سے کتابوں کے شائقین کے لئے تھی۔مشعل اوباما کی پہلی کتاب 2018 کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کے طور پر درج کی گئی تھی، جس کی دنیا بھر میں تقریباً 17 ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ سابق امریکی صدر براک اوباما کی اہلیہ اور امریکی تاریخ کی پہلی سیاہ فام خاتون اول، 54 سالہ مشیل اوباما نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے مصنوعی حمل کے ذریعے اپنی بیٹیوں کو جنم دیا۔مشیل اوباما نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں اپنی شادی کے ابتدائی سالوں کے بعد حاملہ ہونے میں مشکل پیش آئی تھی۔


 سابق امریکی خاتون اول کے مطابق حمل ضائع ہونے کے بعد ان کے شوہر براک اوباما نے انہیں بچے پیدا کرنے کے لیے ’ان وٹرو فرٹیلائزیشن‘ (IVF) کی تکنیک کا سہارا لینے کا مشورہ دیا۔خبر رساں ایجنسی 'ایسوسی ایٹڈ پریس' (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق مشعل اوباما نے اپنی آنے والی کتاب میں نہ صرف اپنی بیٹیوں کی پیدائش کے حوالے سے اہم انکشافات کیے ہیں بلکہ کئی دیگر معاملات پر بھی کھل کر بات کی ہے۔20رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشیل اوباما نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ جب وہ 33 یا 34 سال کی تھیں تو ان کا حمل ضائع ہوا، جس کے بعد انہوں نے آئی وی ایف کی مدد سے لڑکیوں کو جنم دینے کا فیصلہ کیا۔ مشیل اوباما نے یہ اعتراف اپنی آنے والی کتاب میں کیا ہے۔ سابق خاتون اول نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے شوہر کے مشورے پر IVF کے ذریعے اپنی دونوں بیٹیوں کو جنم دیا۔ 


واضح رہے کہ آئی وی ایف کے لیے بچوں کو دوبارہ پیدا کرنے کا عمل مصنوعی طریقے سے کیا جاتا ہے، اس کے لیے ماں کے رحم سے انڈوں کو نکال کر لیبارٹری میں والد کے سپرم کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ دونوں کے ملاپ کے صرف ایک ہفتے کے اندر حمل پیدا ہو جاتا ہے جس کے بعد حمل کو دوسری  ۔ مشیل اوباما نے  کے ذریعے جن بیٹیوں کو جنم دیا تھا ان کی عمریں اب 17 اور 20 سال ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی مالیہ کی عمر 20 سال ہے جبکہ چھوٹی بیٹی ساشا کی عمر 17 سال ہے۔ مالیا اور ساشا کی پیدائش کے بعد انہوں نے اپنی تمام توجہ بیٹیوں کی تعلیم تربیت پر رکھی  -مشیل اوباما نے 1992 میں سابق امریکی صدر براک اوباما سے شادی کی، لیکن ان کا رشتہ 1980 میں شروع ہوا، جب وہ طالب علم تھیں۔


 مشعل اوباما ریاستہائے متحدہ کی 44 ویں خاتون اول اور پہلی سیاہ فام خاتون اول تھیں۔ ان کے شوہر 59 سالہ باراک اوباما امریکہ کے پہلے سیاہ فام اور 44ویں صدر منتخب ہوئے۔ باراک اوباما پہلی بار 20 جنوری 2009 اور دوسری بار 2013 میں امریکی صدر منتخب ہوئے اور وہ 20 جنوری 2017 تک خدمات انجام دیتے رہےریٹائرمنٹ کے بعد سابق امریکی صدر نے اوباما فاؤنڈیشن کے نام سے ایک سماجی تنظیم قائم کی جس کے تحت دنیا بھر میں صحت، تعلیم، خواتین کی خود مختاری اور غربت کے خاتمے کے لیے منصوبے جاری ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں قیام کے دوران سابق صدر کی بیٹیاں میڈیا کی توجہ کا مرکز رہیں  -مشعل اوباما کی یادداشتیں جلد شائع ہونے والی ہیں، جس میں انہوں نے امریکی خاتون اول کے طور پر اپنے بچپن، شادی اور واقعات کے بارے میں بھی لکھا۔ مشعل اوباما نے اپنی کتاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سابق امریکی صدر براک اوباما کی اہلیہ مشعل اوباما کی سوانح عمری 'بیکمنگ' نے رواں سال صرف 15 دنوں میں امریکا میں شائع ہونے والی تمام کتابوں کی فروخت کا ریکارڈ توڑ دیا  ہے -میری دعاء ہے کہ اللہ تعالٰی  ان کے قلم کو یوں ہی رواں دواں رکھے آمین ہے-


تحریر و تلخیص بقلم خود     




اتوار، 1 جون، 2025

قدرت کبھی خاموش نہیں رہتی ہے

 

 نظام قدرت ہے کہیں سمندر میں جوار بھاٹا ہے تو کہیں دریا اپنے رخ بدل رہے ہیں  تو کہیں بلند و بالا پہاڑ اپنی جگہ سے سرک رہے ہیں  میں نے ابھی حال ہی میں  انٹر نیٹ پر  ایک وڈیو دیکھی جس میں دکھایا جا رہا ہے کہ  سوئٹزرلینڈ کی ایک پوری بستی کیسے  دنیا کے  نقشے سے اچانک غائب ہو رہی ہے۔یہ  سانحہ سوئٹزرلینڈ کے جنوب میں واقع خوبصورت پہاڑی بستی "بلاتن"میں پیش آیا ۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، وادی "بِرش" کے گلیشیئر میں شدید دراڑیں اور کمزوری پیدا ہونے کے بعد برف اور مٹی کی  چٹانوں کا ایک عظیم تودہ اچانک نیچے آ گرا، جس نے بلاتن گاؤں کے ہر گھر کو  مکمل طور پر اپنے نیچے دفن کر دیا۔ یہ تودہ کئی میٹر موٹا اور دو کلومیٹر سے زیادہ لمبا تھا۔خوش قسمتی سے، مقامی حکام نے جدید سرویلیئنس سسٹمز کے ذریعے زمین میں پیدا ہونے والی دراڑوں اور ممکنہ خطرے کو پہلے ہی محسوس کر لیا تھا، جس کے باعث حادثے سے دو دن قبل ہی گاؤں کے تمام مکینوں کو بحفاظت منتقل کر لیا گیا۔فرانسیسی روزنامے "لوباریزیان" نے اس المیے کو ایک "غیر معمولی قدرتی سانحہ" قرار دیا ہے۔ -اس سانحہ میں انسانی جانوں کا زیاں اس لئے نہیں ہوا کہ سوئس حکومت نے اپنے شہریوں کو وہاں سےپہلے ہی بحفاظت نکال  لیا تھا 


 ماحولیاتی ماہر رافائیل لودووِک کے مطابق، اس پیمانے کا واقعہ شاذ و نادر ہی دیکھا جاتا ہے، وہ بھی صرف ہمالیہ یا اینڈیز جیسے پہاڑی سلسلوں میں، نہ کہ یورپ کے قلب میں واقع الپس جیسے نسبتاً مستحکم پہاڑی سلسلے میں۔ لودووِک نے مزید انکشاف کیا کہ  گلیشیئر کی چوٹی میں غیر معمولی دراڑیں اور جھکاؤ نوٹ کیا گیا تھا، جو بالآخر اس ہولناک سرکنے کا سبب بنا۔خطرے کی دوسری لہر؟ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ پہاڑ سے نیچے آنے والی چٹانوں اور برف نے دریائے "لونزا" کو تقریباً دو کلومیٹر تک بند کر دیا ہے، جس سے وہاں ایک مصنوعی جھیل بن چکی ہے جو مسلسل پھیلتی جا رہی ہے۔ اگر اس جھیل کو قابو میں نہ رکھا گیا تو اس کے پھٹنے سے ایک تباہ کن مٹی اور پانی کا سیلاب آسکتا ہے۔ سوئس حکام نے فوری طور پر فوج اور سول ڈیفنس کی ٹیموں کو متحرک کر دیا ہے تاکہ وہ مصنوعی جھیل سے پانی نکالنے کے لیے پمپوں اور پائپوں کے ذریعے کام کر سکیں۔


لودووِک نے کہا: "جیسے جیسے برف پگھلے گی، پانی کی مقدار بڑھے گی اور اگر نکاسی کا مؤثر بندوبست نہ ہوا تو وادی کے نچلے علاقے شدید طوفانی سیلاب کی زد میں آ سکتے ہیں۔"ماحولیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات -ماہرین کے مطابق، اس سانحے کی جڑیں "کلائمٹ چینج" یعنی ماحولیاتی تبدیلی سے جا ملتی ہیں۔ الپس میں گہرائی تک جما ہوا برفانی جُبہ(permafrost) تیزی سے پگھل رہا ہے، جس کی وجہ سے پہاڑوں کی ساخت کمزور ہو رہی ہے۔ ایسے میں چٹانوں کے سرکنے اور گلیشیئرز کے ٹوٹنے جیسے واقعات مستقبل میں مزید بڑھ سکتے ہیں۔ ماہرین نے فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک کو بھی خبردار کیا ہے۔ رافائیل لودووِک کے مطابق "ہم فرانس کے الپائن علاقوں میں بھی عدم استحکام کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، گزشتہ نومبر میں فرانس کے وانویز سلسلے میں ''مونٹ بوری'' نامی پہاڑ سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر لمبا تودہ گرا تھا، جس میں سینکڑوں ٹن چٹانیں نیچے آ گریں۔"


-اب یہ دوسری  کہانی ہے جس کا تعلق پاکستان سے ہے   

عطا آباد بالا کے پہاڑوں پر جب دراڑیں بہت واضح ہو گئیں تو حکومت نے اس گاؤں کے رہائشیوں کو دسمبر دو ہزار نو کے شروع میں جھیل والے حصے کو شدید خطرناک قرار دے کر وہاں کے رہائشیوں کو دوسری جانب منتقل ہونے کو کہا تاہم حکومت نے عطا آباد پائن کو محفوظ قرار دے دیاسنہ دو ہزار نو کے وسط میں عطا آباد بالا کے رہائشیوں نے حکومت پاکستان اور فوکس پاکستان سے دوبارہ کہا کہ پہاڑ سرک رہا ہے اور شگاف بڑے ہوتے جا رہے ہیں۔عطا آباد بالا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ چٹانیں سرکنے کا عمل جاری رہا اور دراڑیں مزید گہری اور بڑی ہوتی گئیں۔چار جنوری کو عطا آباد بالا کے دائیں ہاتھ پر پہاڑ کا پورا حصہ سرکا نہیں بلکہ سیدھا دریائے ہنزہ میں آ گرا۔ عطا آباد کے سامنے سے دریائے ہنزہ کی چوڑائی کم ہے۔ 


پہاڑ جب نیچے دریا میں گرا تو اس کا ملبہ زمین سے ٹکرانے کے بعد دوبارہ ہوا میں اچھلا اور یہ ملبہ عطا آباد پائن پر جا گرا جو عطا آباد بالا سے درے نیچا تھا اور اس عمل کے نتیجے میں وہاں انیس ہلاکتیں ہوئیں۔ کیونکہ  ہماری حکومت نے رہائشیوں کی جانوں کی حفاظت سے چشم پوشی برتی -عطا آباد پائن وہی گاؤں ہے جس کو حکومت نے محفوظ قرار دیا تھا تاہم اب جھیل بن جانے کے بعد اب عطا آباد بالا اور عطاآباد پائن دونوں ایک ہوچکے ہیں۔عطا آباد بالا کے ایک رہائشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’سنہ دو ہزار نو میں پوزیشن یہ ہو گئی تھی کہ کھیتوں کو پانی دو تو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ پانی کہاں گیا۔ ہماری زمین ناہموار ہو گئی تھی۔‘ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ زمین ’ناہموار‘ سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا کہ انکے  کھیت کی زمین ایک جگہ سے اوپر ہو گئ  اور تھا اس کے ساتھ کا حصہ نیچے ہو گیا۔ ’کئی جگہوں پر تو ایسا لگ رہا   تھا جیسے سیڑھیاں بنی ہوں۔‘یہ مصنوعی جھیل عطا آباد بالا کے قریب بنی تھی جوقدرے اونچائی پر ہے، جبکہ عطا آباد پائن نیچے کی جانب ہےپہاڑ گرنےاور ملبے کا زمین پرگر کر اچھلنے کو گلگت بلتستان کی انتظامیہ ’سپلیش‘ کا نام دیتے ہیں


تحریر و تلخیص  بقلم خود

ہفتہ، 31 مئی، 2025

فن لینڈ کی خوشحالی کا کیا راز ہے

 


 فن لینڈ   کی خوشحالی کا کیا راز  ہے؟آ ئیے جانتے ہیں ' پالیسی ساز ریاست خوشحال معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔‘مسلسل ساتویں سال فن لینڈ دنیا کے خوشحال ترین ممالک میں سرفہرست ہے۔ ساتھ ہی یہ دنیا کے محفوظ ترین ممالک کی فہرست میں 13ویں نمبر پر براجمان ہے۔ورلڈ ہیپی نیس‘ رپورٹ میں فن لینڈ کو مسلسل چھ برسوں تک دنیا کا سب سے زیادہ خوشحال ملک قرار دیا گیا ہے۔فن لینڈ کو خوشحال ملک اس لیے قرار نہیں دیا جاتا کہ وہاں کے لوگ ہر وقت مسکراتے رہتے ہیں یا اُنہیں کبھی کوئی پریشانی پیش نہیں آتی، فن لینڈ اس لیے بھی خوشحال ملک قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ وہاں کے عوام کو اعلیٰ معیار کی جمہوریت اور معاون عوامی اداروں سے عوام دوست پالیسیز حاصل ہیں۔فن لینڈ میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک غیر ملکی طالبِ علم محمد الاسلام نے دنیا کے خوشحال ترین ملک سے متعلق بات کی ہے۔محمد الاسلام  نے 2016ء سے 2019ء تک فن لینڈ کے ایک اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ظالب علم کے مطابق فن لینڈ کی حکومت اور اُن کی جانب سے بنائی گئی عوام دوست پالیسیاں ملک میں خوشحالی میں کتنی  مددگار ہیں۔


طالبِ علم محمد الاسلام کی گفتگو سے ظاہر تھا کہ اُس نے کتنی راحت اور پرسکون زندگی کا تجربہ کیا ہے۔ محمد الاسلام کا کہنا ہے کہ فن لینڈ کے لوگ عام طور پر اپنے پڑوسیوں پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اُنہیں بھی پُراعتماد اور پرسکون محسوس کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔طالبِ علم کے مطابق اُس نے کبھی سڑک پر کھڑے ہوئے اپنے لیے کسی دوسرے کی آنکھوں میں اجنبیوں والی غیریقینی کی سی کیفیت یا بدنیتی پر مبنی ارادے محسوس نہیں کیے، اُس نے وہاں خود کو ہر طرح سے آزاد محسوس کیا، اُس نے محسوس کیا کہ یہاں وہ کسی بوجھ یا ذبردستی کے بغیر اپنی سیاسی رائے (مثبت یا منفی) کا آزادانہ اظہار کر سکتا ہے۔فن لینڈ کے عوام بھی اپنے مقامی سیاست دانوں پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے ہیں، وہاں انتخابات کا عمل بہت پرسکون ماحول میں آزادانہ ہوتا ہے۔طالبِ علم کا بتانا ہے کہ فِن لینڈ کی سب سے اچھی بات اُنہیں یہ لگی کہ وہاں کا تعلیمی نظام بالکل مفت ہے، انہوں نے فن لینڈ میں 2016ء میں اسکول شروع کیا تھا، اس لیے اُنہیں اور دیگر بین الاقوامی طلبہ کو مفت تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تھا جبکہ 2017ء میں پالیسی میں تبدیلی کے بعد بعض طلبہ کو ٹیوشن فیس ادا کرنا پڑ سکتی ہے جو کہ ہر اسکول کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔



طالبِ علم نے بتایا کہ مفت تعلیم اُن کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی مگر اُنہیں اپنی رہائش اور کھانے پینے کے اخراجات خود اٹھانے تھے جس کے لیے نوکری ڈھونڈنے میں اُنہیں تھوڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔طالبِ علم نے بتایا کہ انہوں نے وہاں ایک صحت سے متعلق پالیسی بھی خرید لی تھی اور صحت کی مفت خدمات بھی حاصل کی تھیں۔فن لینڈ کے سابق طالبِ علم کا کہنا ہے کہ اِس ملک میں رہتے ہوئے تحفظ کا زبردست احساس ہی فن لینڈ کو خوشحال بناتا ہے۔محمد الاسلام کے مطابق فن لینڈ کی خوشحالی کے پیچھے وسیع فلاحی پالیسیاں بھی ہے جو پیدائش سے لے کر قبر تک بہت سی بنیادی ضروریات کا احاطہ کرتی ہیں اور رہائشیوں کو تحفظ کا اعلیٰ احساس فراہم کرتی ہے۔محمد الاسلام نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں عوام کو اپنی خوشی اور بہتر زندگی کے لیے مکمل طور پر خود ذمہ دار نہیں ہونا چاہیے، پالیسی ساز ریاست خوشحال معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔‘عالمی دہشتگردی کے انڈیکس میں اس کا 89واں نمبر ہے جو اس فہرست میں نچلے درجے کی نشاندہی کرتا ہے۔



اگرچہ یہ دنیا کے محفوظ ترین ملک میں سے ایک ہے لیکن اس کے باوجود پُرتشدد انتہاپسندی پر قابو پانا فن لینڈ کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔انتہاپسندی روکنے کا فن لینڈ کا پہلا نیشنل ایکشن پلان 2012ء میں تیار کیا گیا جبکہ اس کا دوسرا ورژن 2016ء میں ڈرافٹ کیا گیا تھا۔ بیرونی مشاہدین نے اس کا جائزہ لیا اور 2019ء میں تشخیصی رپورٹ شائع ہوئی۔ منصوبے کے مقاصد میں پُرتشدد انتہاپسندی کو کم کرنا اور اس سے لاحق خطرات، مساوات، آزادی اظہار، دیگر آئینی حقوق کے نفاذ کو فروغ دینا، نفرت انگیز جرائم کا پتا لگانا اور ان کی تحقیقات کرنا شامل تھا۔فن لینڈ کی وزارت داخلہ اب پُرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کی ذمہ دار ہے اور وہ نیشنل کوآپریشن نیٹ ورک کی قیادت بھی کرتی ہے جبکہ فن لینڈ کی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس سروس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پولیس اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔ فن لینڈ کا یہ منصوبہ، معاشرے کی سمت کا تعین کرنے اور پُرتشدد انتہاپسندی کے حوالے سے رائے عامہ اور رویوں کو متاثر کرنے والی اقدار کی وضاحت کرنے میں سیاست دانوں کے اثرورسوخ کا بھی معترف ہے۔



ہر سال یو این او کی سرپرستی میں دنیا بھر کا سروے کیا جاتا ہے اور پھر اس کی سالانہ رپورٹ شائع کی جاتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ سات برس سے یورپ کا ایک چھوٹا ملک فن لینڈ خوش ترین ملک کا اعزاز حاصل کر رہا ہے۔ یہ پڑھ کر مجھے تجسس ہوا کہ میں فن لینڈ کی خوشی کا راز کیا ہے؟یو این او کے سروے کے تحت جو معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں اُن میں دیکھا جاتا ہے کہ وہاں اوسط عمر کیا ہے۔ خوشحالی اور سوشل سکیورٹی کتنی ہے۔ لوگوں کو کتنی فریڈم حاصل ہے۔ اس فریڈم میں سیاسی‘ صحافتی‘ سماجی اور ذاتی آزادی سب شامل ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم کیا جاتا ہے کہ ملک میں گورننس کیسی ہے اور کرپشن کتنی ہے۔فن لینڈ خوشحال ہے مگر دنیا کے پہلے بیس امیر ترین ممالک میں اس کا شمار نہیں ہوتا۔ فن لینڈ ایک ویلفیئر سٹیٹ ہے۔ اس کی آبادی صرف 55 لاکھ ہے۔ فی کس سالانہ آمدنی 56 ہزار ڈالر ہے۔ یہاں کے باسیوں کی خوشی کا ایک نہیں‘ کئی رازہیں۔ فن لینڈ میں کسی شہری کو بے بسی کا ہرگز کوئی احساس نہیں ہوتا۔ لوگوں کی آمدنی اور قیمتوں کے درمیان کوئی بڑا تفاوت نہیں۔ یہ نہیں کہ راتوں رات گیس چھ سو فیصد بڑھا دی جائے۔ اگر کسی شخص کو اپنے شعبے کا کام نہیں ملتا تو حکومت اسے نہایت معقول وظیفہ دیتی ہے۔ یو این او کے مقرر کردہ خوشحالی اور خوشی کے تمام معیارات پر فن لینڈپورا اترتا ہے۔ اس ملک کے خوش ترین ہونے کے رازوں تک رسائی حاصل کرتے کرتے بعض دلچسپ انکشافات بھی ہمارے سامنے آئے ہیں۔ بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ فن لینڈ میں مقبولِ عام 'سونا باتھ‘ وہاں کے شہریوں کی خوشی میں بڑا بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ کہ فن لینڈ میں جھیلیں اور جنگل بہت ہیں۔ یہاں 40 نیشنل پارک ہیں۔ لوگ سیرو سیاحت اور قدرتی  مناظر کے دلدادہ ہیں فضائ آلودگی کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ غرض یہ کہ فن لینڈ ایک  بے پناہ خوبصورت  ملک ہے  جس کے  دامن آنے والا ہر شہری اپنے آپ کو پُرسکون محسوس کرنے لگتا ہے

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر