ارے بھاڑ میں ڈالو ایسی سسرال کو
اس کہانی کی یہ ابتداء تھی کہ ان دنوں کراچی میں انڈین فلموں کا زور ہونے کے سبب کراچی میں شادی کے اُ مّید
وارنوجوان شادیوں کے لئے لڑکیاں نہیں بلکہ اپنی دلہن کے روپ میں لڑکی نہیں مادھوری ڈکشٹ اور جوہی چا ولہ جیسی
لڑکیاں ڈھونڈتے تھے میرا چونکہ ٹیوشن سینٹر چلتا تھا اس لئے اکثر خواتین اپنے گھریلو مسائل کے سلسلے میں بھی آجایا
کرتی تھیں جن کے مسائل میں حتّی المقدور حل کر دیا کرتی تھی ایسے میں ایک خاتون سے میری شناسائ ہوئ جنہوں
نے مجھ سے اپنی چھوٹی بہن کو ملوایا اور کہا بجّو یہ میری بہن ہے
ہائ اسکول ٹیچر ہے اس کا کوئ اچھّا رشتہ دیکھئے
میں نے دیکھا لڑ کی جس کا رنگ کالے رنگ سے بہت قریب تھا قد درمیانہ سے بھی کچھ کم تھا جسامت میں بھی کوئ
کشش نہیں تھی عمر بتیس تینتیس کے ہندسہ کوچھوچکی تھی اور وہ اپنے بھائ بھابی
اور ماں کے ساتھ رہتی تھی باپ کا انتقال
ہو چکا تھا
اللہ کی رحمت جوش میں آ گئ اور کراچی کی ایک مضافاتی بستی کے ایک ایسے گھر سے اس کا رشتہ
اس کی اپنی بہن نے ڈھونڈ لیا جن کو جاب والی بہو چاہئے تھِی تاکہ گھر میں بیٹے کا گھر بھی آباد ہوجائے اور بہومالی سہارا بھی دینے والی ہو
لڑکی کی بڑی بہن نے بتایا کہ لڑکا خوبرو اور خوبصورت ہے ،بہر حال شادی ہو گئ ،، شادی کی اگلی صبح لڑکی کی سسرال میں
ایک رسم یہ تھی کہ دلہن جب میکہ جائے گی اور اس کے پہننے کے کپڑے نکالے جائیں گے تو صندوق یا سوٹ کیس میں
جو جوڑا پہلے رکھّا ہو گا وہ لڑکے کی بہن کا ہو گا یعنی نند کا' اس سے نیچے جو جوڑا ہو گا وہ دلہن پہنے گی
لہٰذہ شادی کی اگلی صبح جب لڑکی کو میکہ بھِجنے کا وقت آیا اور کپڑوں کے لئے اس کا سوٹ کیس کھولا گیا
تو لڑکی کے جہیز کی سب سے قیمتی ساری سب کپڑوں سے اوپر رکھّی تھی وہ اٹھا کر لڑکی کی نند کو دی گئ
اور لڑکی اپنے میکہ سے آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ چلی گئ میکہ جا کر اس نے اپنی بہن کو ساری کی بابت بتایا
تو لڑکی کی بہن کو غصّہ آ گیا اور اس نے کہا کہ وہ ساری واپس لے کر کوئ دوسرا جوڑا دے دو
اب دولہا جب لڑکی کو لینے سسرال پہنچا تو لڑکی نے اس سے کہا کہ مجھے میری ساری واپس چاہئے
لڑکا اپنے گھر والوںکا مزاج جانتا ہوگا اس نے لڑکی سے کہا میں تم کو ویسی ہی ساری دلوا دوں گا لیکن لڑکی نے اپنا موڈ
خراب کر لیا اور اس سے اگلے روز ولیمہ میں لڑکی کے میکہ اورسسرال کے درمیان ایک ساری نے تناو کی کیفیت پی
کر دی تھی کیونکہ لڑکی کی بڑی بہن کا کہنا تھا کہ ابھی اگر ساری چھوڑ دی تو ساری عمر ہر بات پر سسرال والے اپنی ہی
مرضی چلائیں گے یہی وہ پوائنٹ تھا جب لڑکی کی ازدواجی زندگی میں پہلی دراڑ پڑ گئ لڑکی کا شوہر بھی
جو شادی کی رات بہت خوش تھا وہ ولیمے میں بلکل خاموش تھا وہ ولیمے کی تقریب میں لڑکی کے پاس بھی نہیں آیا تھا
تقریب کے ختم پر لوگ کہ سن کر تصویریں بنوانے لائے تھے
،،ساری لڑکی کو واپس نہیں دی گئ اور سسرال والوں نے کہ دیا ہم اپنی رسموں ریتوں کو خراب نہیں کریں گے پھر
ہی مہینوں میں سننے میں آگیا کہ لڑکی خلع لے کرمیکہ آ کر بیٹھ گئ ہے -اور پھرکچھ مہینوں بعد اس نے ایک بچّی کو جنم دیا
بچّی اپنے باپ کی طرح سرخ و سفید رنگت کی تھی پیدائش کے اگلے روز ہی لڑکی کی بہن نے کہا تم اس بلا کو کہاں لئے
پھرو گی باپ کے پاس بھجواو جس کی اولاد ہے وہ جانے قارئین یقین جانئے کہ ایسے واقعات دل پر کتنی گہری ضرب
لگاتے ہیں جن کے پس منظر میں معصوم پھول اور کلیاں مسلتے جاتے ہیں
تو جب وہ بیٹی کسی کے ہاتھ بچّی کی ددھیال بھجوائ لیکن دروازہ کھولے بغیر اندر سے جواب آ گیا ہمارا اس سے کوئ رشتہ
نہیں ہے اسے
جہاں سےلائے ہو وہیں واپس کر دو اس طرح وہ ننھّی کلی پھر واپس ماں کے پاس آئ
اب جب میری اُس لڑکی سے ملاقات ہوئ تو وہ ایک شادی کی تقریب تھی لڑکی رنجیدہ و سوگوار تھی اس کی بیٹی اب
ڈھائ سال کی خوبصورت گڑیا لگ رہی تھی اور پھر لڑکی بار بار کہتے سنی گئ کہ لڑکی کو سسرال کی شکائتیں میکہ میں نہیں
کرنی چاہئے پھر کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ بوڑھی ماں اچانک ہی سوتے میں خدا کےگھر چلی گئ ،ماں کے چالیسویں تک تو
گھر میں خاموشی رہی لیکن چالیسویں کے فوراً بعد ایک دن اسے دونوں بھائیوں نے نیچے کی منزل پر بلا کر کہا کہ اب ہمارا
اس گھر میں گزارا مشکل ہو رہا ہے اس لئے گھر بیچا جاءئے گا ااس لئَے ہمارے ساتھ رہنا ہے تو اپنا پیسہ بھی مکان
خریدنے میں لگانا ہے اور وہ ایک گھر میں اوپر کی چھت پر بنے ایک کمرے میں کرایہ پر آ گئ کمرے کی چھت ٹین کی تھی
اور ترکہ کا پیسہ اس نے بنک میں جمع کر دیا تاکہ مشکل وقت میں کام آسکے،
فیصلہ قارئین کریں گے کس نے کہاں غلطی کی جو ایک بسا بسایا
گھر اجڑ گیا