ہفتہ، 23 ستمبر، 2023

تاندہ ڈیم کا دلخراش حادثہ

  ا للہ تعالیٰ نے پاکستان کے گوشے گوشے کو اپنی قدرت کے بیش بہا خزانے عطا کئے ہیں لیکن یہ عوام کی بد قسمتی ہے کہ ان کو حکومت کی جانب سے کوئ بھی ریلیف نہیں ملتا نتیجہ میں وہ اپنے محدود وسائل کو استعمال کرتے ہیں اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔جس کی ایک اندوہناک  مثال  جنوری کے مہینہ کی آخری تاریخوں  میں ہونے والا تاندہ ڈیم کا دلخراش حادثہ ہے۔خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے تاندہ ڈیم میں 29 جنوری کو کشتی حادثے کا شکار ہو  گئ   خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے تاندہ ڈیم میں شکار ہونے والے  تمام بچو ں کی ۵۲میتوں  کو پانی سے نکال لیا گیا  جبکہ چھ افراد کو زندہ بچا لیا گیا تھا۔ دستیاب معلومات کے مطابق کشتی میں کل 58 افراد سوار تھے بعض حادثات انسان کی اپنی غفلت اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں مزید نقصانات سے بچنے اور ان کے سدبا  ب اور  حادثات کے اسباب و عوامل کا تعین کرناضروری ہوتا ہے ایسا نہ کرنا مجرمانہ غفلت اور کوتاہی کے زمرے میں آتاہے ۔

ا یسی ہی غفلت کا مظاہرہ شہر کوہاٹ نے چندروز قبل29 جنوری کی صبح شہر کے جنوب مغرب میں واقع واحد تفریحی مقام تاندہ ڈیم کے مقام پر ایک دلخراش سانحے کی صورت میں دیکھاجوگنجائش سے زیادہ بچوں کو ایک کشتی میں بٹھانے بلکہ لادنے کی وجہ سے رونما ہو ا۔ اس روز ایک مقامی مدرسے کا مہتمم مدرسے کے امتحانات ختم ہونے پر بچوں کو سیر کی غرض سے ڈیم کی دوسری جانب واقع ایک چھوٹے سے جزیرے پر لے جا رہاتھا۔ سیاحت کو سہولیات کیوں نہیں دی تھیں -حادثے کے بعد دو دن تک نہ تو مدرسہ اور نہ ہی پولیس ناموں کی مکمل فہرست جاری کرسکی تھی۔ دوسری جانب عوام اس بات پر بھی برہم دکھائی دیے کہ آخر ضلعی انتظامیہ یا کسی محکمے نے تاندہ ڈیم میں کشتی کی سیاحت کو سہولیات کیوں نہیں دی تھیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس جھیل میں صرف دو کشتیاں ہی تھیں، جن میں ایک ماہی گیروں کی اور دوسری حادثے کا شکار ہونے والی حفیظ اللہ ملاح کی تھی، جو کا فی عرصے سے یہاں کشتی چلا کر گزر بسر کر رہے تھے۔

عمر رسیدہ حفیظ اللہ خود بھی  اس حادثے کا شکار ہوئے-حادثے کا شکار ہونے سے قبل کشتی کم وبیش سترہ بچوں کوپکنک کے سامان اور لوازمات سمیت مذکورہ جزیرے پر بحفاظت چھوڑ کر باقی بچوں کو لینے واپس آئی اور مہتمم مدرسہ کی نگرانی میں ایک ایسی کشتی جس میں سیفٹی معیار کے مطابق آ ٹھ سے دس بالغ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی اس میںساٹھ کے قریب بچوں کو بٹھا دیا گیا۔ابھی بمشکل آدھا ہی سفر طے ہوا تھا کہ بدقسمت بچوں سے لدی کشتی اچانک الٹ گئی اور ملاح سمیت کشتی میں سوار تمام بچے ڈیم کے منفی ڈگری سینٹی گریڈ پانی میں گر گئے۔خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے تاندا ڈیم میں ڈوبنے والے بچوں کی لاشیں نکالنے کا عمل منگل کو بھی جاری ہے اورڈی پی او کوہاٹ کے مطابق آج مزید 20 لاشیں نکالی گئی ہیں جس کے بعد اس حادثے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 50 ہو گئی ہے۔اتوار کو میر باش خیل اور سلیمان تالاب نامی دیہات کے بچے پکنک منانے تاندہ ڈیم گئے تھے جہاں وہ کشتی الٹ گئی جس پریہ بچے سوار تھے۔  کوہاٹ کے قریب میر باش خیل گاؤں کے قریب واقع تاندہ ڈیم مقامی لوگوں کے لیے ایک اہم پکنک پوائنٹ ہے۔ اس علاقے میں بیشتر افراد اچھے تیراک ہیں اور سماجی کارکن شاہ محمود بھی ان میں شامل ہیں۔جب انھیں تاندہ ڈیم میں مدرسے کے طلبا کی کشتی الٹنے کی اطلاع ملی تو وہ بھی موقع پر پہنچے اور پانی سے بچوں کو نکالنے کی کوششوں میں شامل ہو گئے۔وہ چھ، سات بچوں کو پانی سے نکال چکے تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ ڈوبنے والوں میں ان کے اپنے  بچے بھی شامل ہیں۔الٹنے والی کشتی یں شاہ محمود کے دو بیٹے، چار بھتیجے، دو کزن اور ایک رشتہ دار سوار تھے لیکن انھیں اس کا علم نہیں تھا۔ وہ تو انسانی ہمدردی کے تحت بچوں کو ڈیم کے گہرے پانی سے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ماہر تیراک جس کے اپنے بچے بھی پانی کی نذر ہو گئےشاہ محمود چھ سات بچوں کو پانی سے نکال چکے تھے تب انھیں معلوم ہوا کہ ڈوبنے والوں میں ان کے اپنے  بچے بھی شامل ہیں۔

شاہ محمود نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ڈیم میں جب پہلی نظر پڑی تو بچوں کے سر نظر آ رہے تھے وہ پانی میں ہاتھ مار رہے تھے، بچے جیسے تڑپ رہے تھے۔ میں پانی میں کود گیا تھا اور کچھ دیر میں ہم نے مل کر چھ سات بچے نکال لیے تھے۔‘جب باہر آیا تو پولیس انسپکٹر نے بچوں کی فہرست دی، میں اس فہرست کو غور سے دیکھ رہا تھا کہ پانچ نمبر پر میرے بیٹے کا نام اور ولدیت میں میرا نام لکھا تھا، میرے پیروں تلے سے جیسے زمین ہی نکل گئی۔۔۔‘شاہ محمود بتاتے ہیں ’اس کے بعد دیکھا تو میرے دوسرے بیٹے کا نام  میری حالت غیر ہو رہی تھی۔۔۔ اتنے میں دیکھا کہ میرے چار بھتیجوں کے نام بھی لکھے تھے اور ولدیت میں میرے بھائیوں کے نام تھے، یہی نہیں اس کے بعد میرے دو کزن اور ایک سالے کا نام بھی اسی فہرست میں تھا۔تاندہ ڈیم میں کشتی الٹنے سے 11 امواتشاہ محمود نے بتایا کہ ان کے ایک بیٹے کی عمر تقریباً ساڑھے چار سال اور دوسرے کی عمر آٹھ سال کے لگ بھگ ہے جبکہ بھتیجوں کی عمریں بھی چار سے پانچ سال کے قریب ہیں۔شاہ محمود کہتے ہیں ’میں ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر نکالتا ہوں اور اب تو میرے اپنے بچے بھی اسی پانی کی نذر ہو گئے ہیں۔‘شاہ محمود تاندہ ڈیم پر موجود تھے جہاں اب ریسکیو کے ادارے کے اہلکار اور سیکیورٹی فورسز کے ماہرین ڈیم میں ڈوبے  بچوں کو تلاش کر رہے تھے۔ پہلے روز جب  یہ واقعہ پیش آیا تو مقامی افراد جن میں شاہ محمود، دو پولیس اہلکار اور ہوٹل پر کام کرنے والا ایک نوجوان اور چند دیگر افراد نے 17 افراد کو پانی سے نکال لیا تھا مگر ان میں دس بچے دم توڑ چکے تھے۔

شاہ محمود نے بتایا کہ انھوں نے جن بچوں کو نکالا انھیں فوری طور پر طبی امداد فراہم کی ’کچھ ایسے بچے بھی تھے جن کی سانس بمشکل چل رہی تھی، ان کی سانسیں مصنوعی سانس سے بحال کی گئیں اور فوری طور پر انھیں ہسپتال پہنچایا گیا۔‘دونوں بیٹوں کے زندہ ہونے کا اب کوئی چانس نہیں مگر ان کی ماں کے پاس تو بچوں کو لے جاؤں کہ اسے تسلی ہو‘تاندہ ڈیم پر سرچ آپریشن پر نظر رکھے کئی بچوں کے والد اور بھائی بے چین نظر ائے۔۔۔ اس حادثے کے بعد وہاں بڑی تعداد میں مقامی لوگ پہنچ گئے تھے ۔دولت خان کا کہنا تھا کہ ان کے دو بیٹے اس کشتی میں سوار تھے جن کا اب تک کچھ پتہ نہیں ہے۔دولت خان کہہ رہے تھے کہ ’دونوں بیٹوں کے زندہ ہونے کا اب کوئی چانس نہیں ہے لیکن ان کی ماں کے پاس تو بچوں کو لے جاؤں تاکہ اسے تسلی ہو کیونکہ وہ تو ایسی ہے کہ نہ زندہ ہے اور نا ہی مردہ ہے بس بچوں کو یاد کر رہی ہے۔‘دولت خان کے ساتھ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے سرکاری کالج کے پرنسپل پروفیسر مکمل خان نے بتایا کہ وہ اسی علاقے کے رہنے والے ہیں اور وہ چھ سال کے تھے جب سے وہ اس ڈیم میں تیراکی کرتے آئے ہیںانھوں نے بتایا کہ انھیں معلوم ہے کہ اس ڈیم کے نیچے کہاں ریت ہے، کہاں مٹی ہے اور کہاں جھاڑیاں ہیں اس لیے انھیں اجازت دی جائے تاکہ وہ بچوں کو نکال سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک جن 18 بچوں کو نکالا گیا ہے وہ سب مقامی لوگوں نے نکالا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس حادثے میں ڈوبنے والے دولت خان کے دو بچوں کے علاوہ ان کے بھتیجے اور بھانجے بھی شامل ہیں۔پروفیسر مکمل خان کا کہنا تھا کہ ’ان کے گھروں میں ماتم ہے، خواتین سخت صدمے سے دوچار ہیں۔ انھیں یہ امید ہے کہ بچے ڈیم سے زندہ نکل آئیں گے اور اسی امید پر وہ جی رہے ہیں۔‘سلمان تالاب گاؤں  کے ہر گھر میں صفِ ماتم بچھی ہے‘-کم از کم میں اس حادثہ کا تجزیہ کرتے ہوءے سوچ رہی ہوں کہ  جنوری کے مہینہ میں پانی کی پکنک ہونی ہی نہیں چاہئے تھی -والدین کو اس پکنک کی شدید مخالفت کرنی چاہئے تھی کہ موسم کے بہتر ہونے پر وہ اپنے بچوں کو پکنک پر بھیجیں گے-انتہائ ناقص کشتی پر گنجائش سے کہیں زیادہ  بچے کشتی میں بٹھائے گئے اور کسی کو لائف جیکٹ بھی نہیں پہنائ گئ -اللہ پاک ہمارے سماج کو بھی عقل سلیم عطا فرمائے آمین


جمعہ، 22 ستمبر، 2023

پیارا پاکستان ۔ تہذیب، ثقافت اورمرکز سیاحت

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مثبت تہذیبی و ثقافتی اقدار کے فروغ سے سماج میں امن و سلامتی کے پھول کھلتے  ہیں - دنیا میں وہی قومیں زندہ و پائندہ کہلاتی ہیں جو تہذیب یافتہ ہوں۔ وہی معاشرہ کامیاب و کامران ہوتا ہے جس کی ثقافت پائیدار ہو۔ ۔ وہی معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے جہاں صحیح معنوں میں مثبت تہذیب و ثقافت فروغ پا رہی ہو۔ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ سندھ کے ساحل سمندر سے سیاچن کے دامن تک اور چاغی کے پہاڑوں سے خنجراب تک پھیلی ہوئی اس دھرتی میں رنگا رنگ تہذیب و ثقافت کے جلوے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تہذیب و ثقافت کسی بھی قوم کا آئینہ ہوتی ہے۔ قوموں کے درخشاں مستقبل کے لئے تہذیبی اقدار چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ماہرینِ عمرانیات کے مطابق ثقافت میں علم، عقیدہ، فن، اخلاق، قانون، زبان، رسم و رواج، آداب مجلس، خورو نوش، لباس، کھیل کود، اٹھنا بیٹھنا اور وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو انسان نے معاشرے کے رکن کی حیثیت سے تخلیق کی ہیں۔ اگر کوئی معاشرہ ثقافت کے ان عوامل سے آگاہ ہو اور ان پر عمل پیرا ہو تو اس معاشرے کو تہذیب یافتہ خیال کیا جاتاہے۔ ۔ 

بلوچستان کی ثقافت-کوئٹہ: رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ایک زرخیز اور ہمہ گیر تہذیب کا حامل ہے، جو اپنے قدیم  ماضی کے تمام حسین رنگوں کو خود میں سموئے ہوئے ہے۔بلوچ قوم کے اگر لباس کی بات کی جائے تو مرد حضرات قمیض کے ساتھ گھیر والی شلوار زیب تن کرتے ہیں، ساتھ ہی مختلف رنگوں کی پگڑی سر پر سجاتے ہیں۔ کم عمر بچیوں کے لیے خاص قسم کی کڑھائی کردہ پھولوں والا لباس تیار کیا جاتا کسی بھی خوشی کے موقع پر محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے جسے ’بلوچی دیوان یا گدان‘ کہتے ہیں جہاں بیٹھے افراد موسیقی آلات سے سر بکھیرتے ہیں۔ وہاں کی عورتیں خاص قسم کا ہاتھ سے تیار کردہ بیگ استعمال کرتی ہیں جسے بلوچی زبان میں ’جمدگان‘ کہتے ہیں۔ہے۔پانی کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے وہاں کے قبائلی مشک(مٹکا) استعمال کرتے ہیں، اور اگر کھانوں کی بات کی جائے تو ’سجی اور کاک روٹی‘ کے بغیر کوئی بھی دعوت اور روایتی رقص ’لیوا‘ کے بغیر کوئی تقریب مکمل نہیں ہوتی۔

آج پاکستان میں پنجابی،سندھی،بلوچی،پختون،سرائیکی اور بلتی سمیت کتنے ثقافتی رنگ ایسے ہیں جو مقامی ہیں اور بہت سے رنگ مہاجر پاکستانی لائے ہیں۔اسی تنوع سے وہ ثقافتی یک رنگی وجود میں آتی ہے جسے پاکستانی ثقافت کہتے ہیں۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی ثقافت دراصل اس خطے کی اجتماعی ثقافت کا نام ہے۔اب اگر ہم 14اگست 1947 سے پاکستان کی تاریخ کا آغاز کریںتودراصل یہ ایک عظیم ثقافتی تاریخ کا احیا ہے جو صدیوں پر محیط ہے اورپاکستان ایک ایسا ملک ہے جو نیا ہونے کے باجود قدیم ترین تاریخی عمل کا تسلسل ہے۔اس لئے آج ہمیں مصنوعی طورپرکوئی ثقافت پیدا کر نے کی ضرورت نہیں۔تاہم اس پس منظر کے ساتھ،پاکستان ایک نئی شناخت بھی ہے۔ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ثقافتی رنگا رنگی کو اس طرح ہم رنگ بنائیں کہ وہ قدیم ہونے کے باجود جدید بھی ہو۔یہ کام اگرچہ فطری طور پر ہو تا ہے لیکن اس فطری مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے،اگر کوئی شعوری کوشش کی جائے تو اس میں نیا پن پیدا کیاجا سکتا ہے عرسہائے شاہ لطیف بھٹائی اور شہباز قلندر سے گلگت  بلتستان قومی کھیل پولو تک، بیساکھی، بسنت، میلہ مویشیاں سے گلگت میں رسم شاپ، گیننی وبونونوتہوار، ہنزہ نگر میں بوپھائو اور بلتستان کے جشن نوروز، میندوق ہلتنمو اور مے پھنگ تک، بلوچی و سندھی کشیدہ کاری جیسے لوک ہنر ، پنجاب کے چرواہوں کے لوک گیت اور ہیر رانجھا ، ٹرکوں و تانگوں پر بنے ہوئے خوبصورت رنگوں کے نقش و نگار، پشاور کے چپلی کباب اور رباب پر چھیڑی جانے والی داستانیں ،

 یہ سب پاکستانی ثقافت کے شاہکار اور مختلف رنگ ہیں۔وطن عزیز کے تاریخی آثار میں موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے کھنڈرات سے لے کر دو سو سال قبل مسیح کی کھوئی ہوئی بدھ مت کی گندھارا تہذیب کے مجسّموں تک، شیر شاہ سوری کے تعمیر کردہ قلعۂ روہتاس سے بلتستان کے خپلو محل و چقچن مسجد، شگر فورٹ، گوپس، چلاس اور ہنزہ کے التت و بلتت قلعے تک فن تعمیر کے عظیم شاہکار عالمی سیاحوں کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں۔ سکردو کے قلعۂ کھرپوچو کو تو انیسویں صدی کے اواخر تک ناقابل تسخیر سمجھ کر غیر ملکی سیاحوں نے اسے جبرالٹر سے تشبیہہ دی ہے۔ خپلو کی چقچن مسجد کا شمار آج بھی پاکستان کی بعض اہم تاریخی اہمیت کی حامل مسجدوں میں ہوتا ہے جس کی بنیاد 783ھ میں شاہ ہمدان کے ہاتھوں پڑی تھی۔ایک غیر ملکی محقق جیمز ہارلے کے بقول یہ مسجد براعظم ایشیا میں لکڑی سے بنی ہوئی سب سے خوبصورت مسجد ہے اس کے علاوہ شاہ ہمدان کے دست مبارک سے تعمیر ہونے والی شگر کی مسجد امبوڑک اور خپلو میں میر محمد کا آستانہ اب بحالی کے بعد یونیسیف کا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔بلتستان میں واقع دیگر مزارات میں میر عارف و میر اسحاق تھغس، میر یحییٰ شگر اور میر مختار اختیار کریس قابل ذکر ہیں۔ جن میں چوبکاری کے اچھوتے اور منفرد نمونے، خوبصورت نقش و نگار اور بیل بوٹے اُن دستکاروں کی ذہانت و مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ان کے علاوہ بھی گلگت بلتستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے درجنوں مقبرے، قلعے، خانقاہیں، مسجدیں اور امام بارگاہیں چوبکاری کے خوبصورت فنون سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔یہ ثقافتی و تہذیبی آثار عالمی سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہیں۔وطن عزیز پاکستان جغرافیائی اعتبار سے بھی دنیا کا ایک منفرد اور خوبصورت ترین ملک ہے۔ یہاں وسیع و عریض سمندر ہیں ، لق و دق صحرا ہیں۔ بالخصوص ملک کے حسین ترین خطے '' گلگت بلتستان'' کو وطن عزیز پاکستان کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔جہاں برف پوش و فلک بوس پہاڑ ہیں، گلیشیئرز ہیں۔ سر سبز و شاداب وادیاں ہیں۔ فیروزے کے نگینے کی طرح جڑی ہوئی جھیلیں ہیں۔ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا ہیں جو پہاڑوں کی بلندیوں سے پھوٹ کرپاکستان کو سیراب کرتے ہوئے بحر ہند میں گرنے والا دریائے سندھ ہے اور اس کے دائیں بائیں جنم لینے والی رنگا رنگ تہذیبیں ہیں۔ یہاں صاف و شفاف چشمے پھوٹتے ہیں۔ مختلف النوع جنگلی حیات اپنی اپنی چال گاہوں میں مورچہ زن اور خوبصورت پرندے فضائے بسیط میں محو پرواز ہیں۔ ان جنگلی جانوروں اور پرندوں کا خوبصورت ماحول اور ان کا شکار بھی اس علاقے کی ثقافتی سرگرمیوں میں سے ہے۔ غرض خالق کائنات نے اس ملک کو اپنی تمام تر فیاضیوں سے نوازا ہے۔ یہاں ثقافتی سیاحت کے مواقع بھی ہیں اور ایڈونچرٹورازم بھی۔ آٹھ ہزارمیٹر سے زیادہ بلندپانچ چوٹیاں گلگت بلتستان میں موجود ہیں اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اس دھرتی پر سینہ تانے کوہ پیمائوں کو چیلنج دے رہی ہے۔

 ان فلک بوس چوٹیوں کو سر کرنا علاقے کے باسیوں کا مرغوب مشغلہ رہا دیامر کے سرسبز جنگل اور پتھروں پر جنگلی جانوروں کے تراشے گئے نقوش، نلتر گلگت کی شادابی، سکردو کی سحر انگیز سطح مرتفع دیوسائی ، کچورہ ، سدپارہ، پھنڈر ،راما اور دیوسائی حسن فطرت سے مالا مال سیاحتی مقامات کے نمونے ہیں۔ یہ بات بلا تامّل کہی جا سکتی ہے کہ یہ خطہ مختلف رنگ آمیزیوں اور جلوہ سامانیوں سے عبارت ہے ۔ یہ وصف یہاں کے فطری مناظر ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں پایا جاتا ہے۔ اس خطے کے قدیم چین اور وسط ایشیائی ممالک سے گہرے تاریخی و ثقافتی روابط رہے ہیں۔اب سی پیک کی وساطت سے رابطے کی رفتار میں مزید تیزی آئے ۔ دیامر کے سرسبز جنگل اور پتھروں پر جنگلی جانوروں کے تراشے گئے نقوش، نلتر گلگت کی شادابی، سکردو کی سحر انگیز سطح مرتفع دیوسائی ، کچورہ ، سدپارہ، پھنڈر ،راما اور دیوسائی حسن فطرت سے مالا مال سیاحتی مقامات کے نمونے ہیں۔ یہ بات بلا تامّل کہی جا سکتی ہے کہ یہ خطہ مختلف رنگ آمیزیوں اور جلوہ سامانیوں سے عبارت ہے ۔ یہ وصف یہاں کے فطری مناظر ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں پایا جاتا ہے۔ اس خطے کے قدیم چین اور وسط ایشیائی ممالک سے گہرے تاریخی و ثقافتی روابط رہے ہیں۔ 

پیر، 18 ستمبر، 2023

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ-باد صبا کا نر م جھونکا

بہت دنوں کے بعد پاکستان کی  گرم اور مسموم سیاسی فضاؤ ں سے ایک نرم  ہوا کے جھونکے نے دل کو چھوا ہے اور بہت 'بہت پیاری خبر پڑھنے کو اور ا حباب سے سننے کو ملی ہے کہ  عدالت عالیہ کی سپریم  کرسی پر براجمان ہو نے والے نئے محترم  چیف جسٹس قاضی فائز  عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے سنئیر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان کے 29 ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھا لیا، صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف جسٹس نے حلف لیا-تقریب کے بعد صد رمملکت عارف علوی نے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں استقبالیہ دیا ،صدر عارف علوی ،نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے نئے چیف جسٹس سے ملاقات کی اورعہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اتوار کے روز ایوان صدر میں چیف جسٹس کی حلف برداری کی تقریب کے بعد صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے نئے چیف جسٹس کے لئے استقبالیہ دیا گیا جس میں نگران وزیر اعظم اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے شرکت کی ،صدر مملکت عارف علوی ،نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی نئے چیف جسٹس سے ملاقات کی ،قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد باد دی ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خوشگوار موڈ میں ان سے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا اور مبارک باد پر ان کا شکریہ ادا کیا ،صدر عارف علوی نے بھی قاضی فائز عیسیٰ کےلیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف ،چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس پاکستان کا منصب سنبھالنے پر مبارکباددیتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ اب عدل کے ایوانوں میں عدل کی روایات کا ڈنکا بجے گا ،عدل آئین، قانون اور ضابطوں کی پاسداری سے ہی ممکن ہے ،عوام عدل وانصاف کی فراہمی کے منتظر ہیں ،امید ہے کہ دنیا میں پاکستان کی عدلیہ کی ساکھ اور نیک نامی میں اضافہ ہوگا،دعا ہے کہ نئے چیف جسٹس پاکستان اپنی ذمہ داریوں میں سرخرو ہوں، آمین سابق وزیر اعظم نے نئے چیف جسٹس پاکستان کے لئے نیک تمناوں کا اظہارکیاہے۔

آئیے کچھ نئے چیف جسٹس کا مختصر تعارف ہو جائے۔

، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے. ان کے والد مرحوم قاضی محمد عیسیٰ آف پشین، قیامِ پاکستان کی تحریک کے سرکردہ رکن اور قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے تھے. جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئٹہ سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی میں کراچی گرامر اسکول سے اے اوراو لیول مکمل کیا جس کے بعد وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے لندن چلے گئے جہاں انہوں نے کورٹ اسکول آف لاء سے بار پروفیشنل اگزامینیشن مکمل کیا. چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی 30 جنوری 1985 کو بلوچستان ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہوئے اور پھر مارچ 1998 میں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ بنے. تین نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی کے اعلان کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے ججز کے سامنے پیش نہیں ہوں گے. اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نومبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد اس وقت کے بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز نے استعفیٰ دے دیا. 5 اگست 2009 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو براہ راست بلوچستان ہائیکورٹ کا جج مقرر کردیا گیا-

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان ہائی کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں جج مقرر ہونے سے قبل 27 سال تک وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے انہیں مختلف مواقع پر ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کی جانب سے متعدد مشکل کیسز  میں معاونت کیلئے بھی طلب کیا جاتا رہا. وہ انٹر نیشنل آربیٹریشن (قانونی معاملات) کو بھی دیکھتے رہے.  حلف برداری کی اس تقریب میں اپنے خطاب کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’آزاد صحافت جمہوریت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے‘۔انھوں نے کہا کہ ’آزادی صحافت کے بغیر قوم بھٹک سکتی ہے اور ملک کھو سکتے ہیں‘اپنے خطاب کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اُنھوں نے بطور وکیل 1991 میں ایک مضمون میں سرکاری ٹی وی کے خبرنامے کے بارے میں ایک مضمون لکھا تھا۔ان کے مطابق اس خبرنامے میں اس وقت کے وزیر داخلہ کے اپوزیشن لیڈر پر الزامات ٹی وی پر دکھائے گئے لیکن اپوزیشن لیڈر کا جواب نہیں دکھایا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ پاکستان میں آج بھی ایسا ہو رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں صحافت آزاد نہیں اور رپورٹس کے مطابق آزاد صحافت میں پاکستان نچلے درجات میں ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سنہ 2017 اور سنہ 2018 میں پاکستان فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں 139 نمبر تھا جو 2019 میں 142 نمبر پر پہنچ گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’آزاد صحافت جمہوریت کی ریڑ کی ہڈی ہے، آزاد صحافت حکومت کی غلط کاریوں اور کرپشن کو آشکار کرتی ہے‘۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگر ان پر تنقید ہو تو وہ برا نہیں مانتے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے فریڈم آف دی پریس کے نام سے کتاب لکھی تھی اس کے علاوہ آئین کا آرٹیکل 19 آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ عوامی مفاد کے تمام معاملات میں آئین معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے۔اُنھوں نے کہا کہ امریکی سپریم کورٹ نے 19 سال قبل آزاد صحافت پر فیصلہ دیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ جب لوگ پریس کی آزادی کے لیے جنگ لڑتے ہیں، اس کا مطلب ہوتا ہے وہ اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ناانصافی اور بدعنوانی کو سامنے لایا جائے

 یہاں یہ بات دل کی گہرائیوں میں اتر گئ کہ چیف جسٹس نے پو لیس کی جانب سے گارڈ آف آنر لینے سے انکار کردیا  تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کیلئے سپریم کورٹ   اپنی ذاتی گاڑی میں  پہنچے،عدالت پہنچنے پر عملے سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگوں کا بہت شکریہ ، آپ لوگوں کا بہت سا تعاون چاہیے ، آج میری میٹنگز اور فل کورٹ ہے،آپ لوگوں سے تفصیلی ملوں گا۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ لوگ سپریم کورٹ خوشی سے نہیں آتے،لوگ اپنے مسائل ختم کرنے کیلئے سپریم کورٹ آ تے ہیں,آنے والے لوگوں سے آپ لوگ مہمان جیسا سلوک کریں  . چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان ہائی کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں جج مقرر ہونے سے قبل 27 سال تک وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے انہیں مختلف مواقع پر ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کی جانب سے متعدد مشکل کیسز میں معاونت کیلئے بھی طلب کیا جاتا رہا. وہ انٹر نیشنل آربیٹریشن (قانونی معاملات) کو بھی دیکھتے رہے. جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا. جسٹس قاضی فائز عیسٰی سپریم کورٹ میں 184 تین کے اختیارات اور بنچز کی تشکیل کے معاملے پر حکومت کی جانب سے کی گئی قانون سازی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے عملدرآمد نہ کرنے اور حکم امتناع دینے پر بطور احتجاج پچھلے پانچ ماہ سے کوئی مقدمہ نہیں سنا اور چیمبر ورک کرتے رہے. جسٹس قاضی فائزعیسی اپنے بعض اہم فیصلوں کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں جن میں میموگیٹ کمیشن ، سانحہ کوئٹہ انکوئری کمیشن 2016، آرٹیکل 183 تین کی تجدید کا معاملہ 2018، فیض آباد دھرنا فیصلہ 2019 ، پی سی اوججزکیس اور ان کیخلاف صدارتی ریفرنس بھی شامل ہیں.میں بحیثیت ایک پاکستانی کے  دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت  جناب قاضی فائز عیسیٰ کو اپنی حفاظت اور امان میں رکھے  آمین


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر