جمعرات، 21 دسمبر، 2023

بہاول پور -کل اور آج

 

کیا کوئ کہ سکتا ہے کہ   پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاست بہاول پور آج پاکستان   کا دھول اڑاتا بہاول پور  ہے -آج دنیا کی جدید سہولتوں سے آراستہ شہروں کے مقابلے میں یہاں کا نوجوان محرومی کا شکار ہے-آئیے ماضی کی اس پر شکوہ ریاست کا احوال جاننے کے لئے اس کے ماضی میں جھانکتے ہیں -ریاست بہاول پور کی بنیاد 1727ء میں نواب صادق محمد خان عباسی اوّل نے رکھی اور تحصیل لیاقت پور کا قصبہ، اللہ آباد اس کا پہلا دارالحکومت قرار پایا۔ قبلِ ازیں1258ء میں مشہور تاتاری فاتح، چنگیز خان کے بیٹے ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد عباسی شہزادوں نے سندھ کا رُخ کیاتھا۔ امیر چنی خان عباسی کو اکبراعظم کے بیٹے سے پنج ہزاری کا منصب ملا تو اُسے اوباڑو سے لاہوری بندر تک کا خطّہ اجارے پر دے دیا گیا۔ بعدازاں، امیرچنی خان کی اولاد میں مہدی خان اور دائود خان کے خاندانوں میں جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوا، تومقامی قبائل نے مہدی خان کی نسل کا، جو کلہوڑے کہلاتے تھے اور صدیوں سندھ پر حکمرانی کی، بھرپور ساتھ دیا، جب کہ عرب قبائل نے دائود خان کا ساتھ دیا، جو ’’دائود پوتا عباسی‘‘ کہلاتے تھے۔ واضح رہے کہ ریاست بہاول پور کے بانی، نواب صادق محمد خان عباسی اوّل، امیر دائود خان کی تیرہویں پشت سے تھے۔ عباسی دائود پوتوں نے صادق آباد، خان پور، منچن آباد، شہر فرید، اوچ سمیت ریاست جیسلمیر اور بیکانیر، کلہوڑوں سے چھین کر فتح حاصل کی اور موجودہ ریاست بہاول پور کی بنیاد رکھی۔

 نواب صادق محمد خان عباسی اوّل نے 1739ء میں نادر شاہ درّانی سے نواب کا خطاب حاصل کیا۔ اس طرح اس کی حکمرانی موجودہ ریاست بہاول پور کے علاوہ شکارپور، لاڑکانہ، سیوستان، چھتار وغیرہ کے علاقوں تک قائم ہوگئی۔ نواب صادق محمدخان عباسی کے صاحب زادے، نواب بہاول خان عباسی اوّل نے 1774ء میں دریائے ستلج کے جنوب میں ایک نئے شہر ،بہاول پور کی بنیاد رکھی۔نواب سر صادق مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ، ایچی سن کالج کی طرز پر1954ء میں صادق پبلک اسکول جیسے اعلیٰ معیاری ادارے کا قیام ہے۔27 فروری 1934ء کو نواب صاحب کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں رجسٹرار، پنجاب یونی ورسٹی، ڈاکٹر وُلز نے بہ طورِ خاص بہاول پور آکر صادق گڑھ پیلس میں منعقدہ تقریب میں انہیں ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری تفویض کی۔ 1935ء میں زلزلہ زدگان کے لیے ایک امدادی ٹرین کوئٹہ روانہ کی اور اسی سال فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے لیے تقریباً ایک سو افراد کو اپنے ساتھ لے کرگئے۔ 

سامان کے لیے جو فوجی گاڑیاں اور موٹرکاریں بحری جہاز پر ساتھ لے گئے، سب سعودی حکومت کو بہ طور تحفہ دے دیں۔ مسجدِ نبویؐ میں قیمتی فانوس لگوائے اور اسی سال جولائی میں جامع مسجد دہلی کی طرز پر ’’جامع مسجد الصادق‘‘ کی ازسرِ نو تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا، جس کا شمار اس وقت پاکستان کی چوتھی بڑی مسجد میں ہوتا ہے۔ریاست میں ماہرینِ علم وفن، ادبا، شعراء اور علماء کی قدردانی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرشیخ عبدالقادر (مدیرِ مخزن) 1942ء سے 1946ء تک بغداد، الجدید ہائی کورٹ، بہاول پورکے چیف جسٹس رہے۔ ابوالاثر حفیظؔ جالندھری بہ طور درباری شاعر، بہاول پور میں طویل عرصے ملازم رہے۔1943ء میں نواب سر صادق کی سرپرستی اور سر عبدالقادر کی صدارت میں صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) میں آل انڈیا مشاعرے کا اہتمام کیا گیا، جس کی تین نشستیں منعقد ہوئیں، جن میں برصغیر کے طول و عرض سے نام وَر شعرائے کرام نے شرکت کی۔ نواب سر صادق کے مطابق، دبیر الملک الحاج عزیز الرحمٰن عزیزؔ نے پہلی بار سرائیکی کے قادر الکلام صوفی شاعر، حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا کلام ’’دیوانِ فرید‘‘ ترجمے اور تشریح کے ساتھ 1942ء میں شایع کیا۔ ریاست کے طول و عرض میں موجود بزرگانِ دین اور اولیائے کرام کے مزارات کی تعمیر اور مرمّت کی گئی۔ 1950ء میں صادق ایجرٹن کالج میں عالمی سائنس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں دنیا بھر سے سائنس دانوں نے شرکت کی۔ اس موقعے پر ایک سائنسی نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا۔1952ء میں پیرا میڈیکل اسکول، نرسنگ اسکول اور ایل ایس ایم ایف کلاسز کا اجراء کیا گیا۔

اسی سال علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کی سربراہی میں ریاست میں تعلیمی اصلاحات اور نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کمیشن قائم کیا گیا۔ بہاول پورمیں ترویجِ اسلام کا خصوصی خیال رکھا جاتا تھا، اس حوالے سے اُس وقت کے حکمراں، اسلامی اصول و ضوابط پر سختی سے کاربند تھے،بلکہ شہریوں کو بھی خصوصی مراعات دیتے تھے۔ حج کے موقعے پر حاجیوں کوتین ماہ کی چھٹی مع ایڈوانس تن خواہ دی جاتی۔ بہاول پور حکومت کی طرف سے مکّے اور مدینے میں سرائے موجود تھیں، جہاں بہاول پور کے حجاج کے لیے مفت رہائش اور خوراک کا انتظام ہوتا۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تمام مساجد میں حکومت کی طرف سے مرمّت اور سفیدی کروائی جاتی۔ اسی طرح ہندوئوں اور سکھوں کو بھی اپنے مذہبی تہواروں پر مسلمانوں کی طرح مساوی حقوق حاصل تھے۔ دورانِ تعلیم وفات پاجانے والے ملازمین کی بیواؤں اورنابالغ بچّوں کی کفالت کے لیے پینشن مقرر کی جاتی ۔

بہاول پور اور ڈیرہ نواب صاحب میں قائم یتیم خانے میں مفت رہائش اور خوراک کے علاوہ ذہین طلبہ کو وظائف بھی دیئے جاتے۔ واضح رہے کہ اردو اور سرائیکی کے معروف شاعر اور ادیب، پروفیسر عطا محمد دلشاد کلانچوی، ٹیکنیکل ہائی اسکول کے سابق پرنسپل، عبدالقادر جوہرؔ اور متعدد مشاہیر نے اسی یتیم خانے میں پرورش پائی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے خصوصی وزارت قائم کرکے مہاجرین کو ریاست بہاول پور میں باعزت طریقے سے آباد کیا گیا-تقسیم  برصغیر کے وقت انڈین نیشنل کانگریس اور جواہر لعل نہرو کی طرف سے نواب سرصادق کو خصوصی آفر کی گئی کہ وہ اپنی ریاست کا الحاق ہندوستان سے کردیں، تو نواب صاحب نے اس موقعے پر یہ تاریخی جملہ کہا کہ’’میرا سامنے کا دروازہ پاکستان اور پچھلا ہندوستان میں کھلتا ہے اور ہر شریف آدمی اپنے سامنے کے دروازے سے آمدروفت پسند کرتا ہے  

پیر، 18 دسمبر، 2023

علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین

 


علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین  ۔ مشاہدات اور مراتب کے لحاظ سے اس کے تین درجے ہیں۔ یقین اسے کہتے ہیں جو کسی بھی طرح متزلزل نہ ہو۔ اگر کسی شئے کے علم کے بارے میں دلیل و برہان کے ذریعے اس حد تک یقین ہو جائے کہ تردد نہ رہے تو اسے علم الیقین کہتے ہیں۔اگر یہ علم دلیل و برہان سے گزر کر مشاہدہ بن جائے تو اسے عین الیقین کہتے ہیں۔ اگر علم کی حقیقت سامنے آ جائے اور بلا کم و کاست حقیقت شئے یا شئے کی تہہ کا علم ہو جائے تو اسے حق الیقین کہتے ہیں۔مثلاً میں نے کہا انگور، اور انگور کی تعریف بھی بیان کر دی تو آپ نے یقین کر لیا تو یہ علم، علم الیقین ہے۔آپ نے پہاڑ پر یا باغ میں جا کر انگور کی بیل پر انگور کے خوشے دیکھ لئے اس کا الگ ذائقہ بھی چکھ لیا، خوشبو سونگھ لی یہ عین الیقین ہے۔ آپ نے یہ علم حاصل کر لیا کہ انگور کی بیل میں انگور کیوں لگتے ہیں؟ زمین میں سے انگور میں مخصوص مٹھاس، کھٹاس، ذائقہ میں قدرت کے کون سے فارمولے کام کر رہے ہیں تو یہ حق الیقین ہے۔دوسری مثال:میں نے کہا، آپ نے سنا ’’آدمی‘‘۔ میری بات کا آپ نے یقین کر لیا یہ علم الیقین ہے۔ آدمی کی خصوصیات کا علم ہو گیا اور آدمی کی تعریف معہ اس کی صلاحیتوں کے آپ کے سامنے بیان کر دی گئی اور آپ کے شعور نے اسے قبول کر لیا تو یہ علم عین الیقین ہے
 
 اگر آدمی کے تخلیق راز و نیاز، حیات و ممات کی قدریں اور اللہ کے وہ رموز جو اللہ نے انسان کی روح میں مخفی کر دیئے ہیں اور جن سے آدم کو واقف کر دیا گیا ہے اس کا علم حاصل ہو جائے تو اسے حق الیقین کہتے ہیں۔آئینہ کی مثالایک شخص آئینہ دیکھتا ہے۔ آئینہ میں اس کا عکس نظر آتا ہے مگر وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ میرے سامنے مجھ جیسا ایک انسان ہے تو یہ حالت علم الیقین ہے۔ اگر دیکھنے والے کو یہ یقین ہے کہ اپنا ہی عکس دیکھ رہا ہوں لیکن وہ اپنی آئینہ کی حقیقت سے ناواقف ہے تو یہ حالت عین الیقین ہے۔ اگر دیکھنے والا اپنی، آئینہ کی اور عکس کی حقیقت جانتا ہے تو یہ حالت حق الیقین ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حقائق کی اشیاء کی جستجو اور تحقیق کا طبعی ذوق تھا اور وہ ہر چیز کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے، تحقیق اور ریسرچ ان کی زندگی کا خاص مقصد تھا، وہ تحقیق کے ذریعے اللہ وحدہ لا شریک لہٗ کی قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ اسی ذوق، ریسرچ اور تحقیق کے جذبے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے موت کے بعد زندگی یعنی مر جانے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے متعلق اللہ کے حضور سوال کیا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’اے ابراہیم! کیا تم اس مسئلے پر یقین نہیں رکھتے؟‘‘حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فوراً عرض کیا:’’میں بلا توقف اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ آپ قادر مطلق ہیں، آپ سب کچھ کر سکتے ہیں، میرا سوال اس لئے ہے کہ میں علم الیقین کے ساتھ عین الیقین اور حق الیقین کا خواستگار ہوں۔ میری تمنا ہے کہ ’’اے میرے رب! تو مجھے آنکھوں سے مشاہدہ کرا دے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’چند پرندے لے لو اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سامنے والے پہاڑ پر ڈال دو اور پھر فاصلے پر کھڑے ہو کر انہیں پکارو۔‘‘حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو آواز دی تو ان سب کے اجزاء علیحدہ علیحدہ ہو کر اپنی اپنی شکل میں آ گئے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا:’’اے میرے پروردگار! مجھے دکھا تو کس طرح مردوں کو زندہ کرے گا؟‘‘کہا: ’’کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟‘‘۔ کہا:’’کیوں نہیں لیکن دلی اطمینان چاہتا ہوں۔‘‘کہا: ’’پس چار پرندے لے پھر ان کو اپنے ساتھ مانوس کر پھر رکھ دے ہر ہر پہاڑوں پر ان کے جز ڈال کر۔ پھر ان کو بلا، وہ آئیں گے تیرے پاس دوڑتے ہوئے اور تو یہ جان لے۔ بے شک اللہ غالب ہے، حکمت والا ہے۔‘‘

(سورۃ بقرہ۔ ۲۶۰)اللہ تعالیٰ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عرض کرنا کہ ایمان تو ہے لیکن دلی اطمینان کے لئے یہ سوال کرتا ہوں، کا مفہوم یہ ہے کہ دل کے اطمینان کیلئے یقین(مشاہدہ) ضروری ہے۔اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے، کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا-جب ایمان دل میں داخل ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے-

اسلام جسموں پر آتا ہے جبکہ ایمان دلوں میں داخل ہوتا ہے۔ جسم جب اطاعت گزار ہوجائیں، سر جب اللہ کے حضور جھک جائے، بندہ اللہ کے دروازے پر جب ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجائے، ماہ رمضان میں اللہ کے لئے روزہ داربن جائے، حج کے مہینے میں اللہ کے گھر میں لبیک اللھم لبیک کی آوازیں بلند کرتا ہوا چلا جائے، زکوۃ و صدقات دینا شروع ہوجائے۔ نیز احکامات دین پر عمل پیرا ہونا شروع ہوجائے تو یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ دین اس کے جسم سے ظاہر ہورہا ہے۔ پس جب ظاہر اللہ کے حضور جھک گیا تو مسلم ہوگیا اور جب قلب و باطن اللہ کے حضور جھک گئے تو مومن ہوگیا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ سر تو اللہ کی بارگاہ میں جھکا رہتا ہے مگر دل نہیں جھکتا۔ ۔ ۔ اگر دل جھک جائے تو ساری کایا ہی پلٹ جائے۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو ساری زندگی کے طور طریقے بدل جائیں۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو سوچ کے انداز بدل جائیں۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو انسانی زندگی کے تمام اعمال اور رویے بدل جائیں۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو اخلاق بدل جائے۔ ۔ ۔ وہ انسان ایک نیا انسان بن جائے گا۔ لیکن جب صرف ظاہر جھکتا ہے اور دل نہیں جھکتا تو پھر مومن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، اسی لئے ارشاد فرمایا کہ مومن ہونے کا دعویٰ اس وقت کرنا جب ایمان داخلِ قلب ہوجائے، جب ایمان تمہارے دل کی حالت بن جائے تب مومن ہونے کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے اور اسی کو دل کی تصدیق کرنا بھی کہتے ہیں-۔‘‘

(سورۃ الحجرات۔ اعلیٰ اور اسفل حواس یعنی زندگی کے تمام اعمال کا ریکارڈ ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ ازل تا ابد پورا کائناتی نظام اللہ  بنائی ہوئی فلم ہے، ازل میں موجود یہ ریکارڈ(Film) ہے جو عالم ارواح، عالم برزخ اور عالم ناسوت میں مظاہر بن رہا ہے، ہر عالم ایک اسکرین کی طرح ہے۔ اسکرین پر فلم کا مظاہرہ ہوتا ہے تو دنیا کی ہما ہمی اور گہما گہمی ہمیں نظر آتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پرندوں کے ساتھ شکست و ریخت کا جو عمل کیا اس سے پرندوں کا جسمانی نظام بکھر گیا لیکن پرندوں کی زندگی کا اول و آخر ریکارڈ موجود رہا، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے پرندوں کے الگ الگ اعضاء کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا تو ریکارڈ شدہ نظام بحال ہو گیا اور پرندے زندہ ہو گئے۔ مرنے کے بعد جی اٹھنے کا تکوینی قانون بھی یہی ہے کہ اللہ کے حکم سے درہم برہم سسٹم ’’ریکارڈ‘‘ کے مطابق بحال ہو جائے گا۔ یہ جو کچھ ہم نے عالم ناسوت میں کیا ہے وہ سب ریکارڈ ہے جب اللہ تعالیٰ چاہے گا یہ ریکارڈ (فلم) دوبارہ ڈسپلے ہو جائے گا تو ہاتھ ، پیر، آنکھ خود گواہی دیں گے کہ ہم نے اچھے یا برے اعمال کئے ہیں۔اور انکسار کی 

اتوار، 17 دسمبر، 2023

امام محمد تقی علیہ السلام

 

جناب رسول خدا حضرت محمد صلّی اللہ علیہ واٰ  لہ وسلّم سے منقول ہے کہ جو شخص آخر شب میں اکتالیس مرتبہ سورہ الحمد کی تلاوت کرے گا محمد بن علی بن موسی (195–220 ھ) امام محمد تقی ؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے نویں امام ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفر ثانی ہے۔مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت سنہ 195 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔ لیکن آپؑ کی ولادت کے دن اور مہینے کے بارے میں اختلاف ہے۔ زيادہ تر منابع نے آپ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں قرار دی ہے۔ بعض نے 15 رمضان و بعض نے 19 رمضان نقل کی ہے۔ شیخ طوسی نے مصباح المتہجد میں آپ کی تاریخ ولادت 10 رجب ذکر کی ہے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت سے پہلے بعض واقفیہ کہتے تھے کہ علی بن موسی کی نسل باقی نہیں رہے گی اور ان کے بعد ان کی نسل میں سلسلہ امامت منقطع ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے جس وقت امام محمد تقی کی ولادت ہوئی امام رضا نے انہیں شیعوں کے لئے با برکت مولود قرار دیا۔  
 آپ نے 17 سال امامت کے فرائض انجام دیئے اور 25 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ شیعہ ائمہ میں آپ سب سے کم عمر شہید امام ہیں۔بچپن میں امامت ملنے کی وجہ سے امام رضاؑ کے بعض اصحاب نے ان کی امامت میں تردید کی جس کے نتیجے میں عبدالله بن موسی کو امام کہنے لگے اور کچھ دیگر افراد نے واقفیہ کی بنیاد ڈالی لیکن اکثر اصحاب نے آپ کی امامت کو قبول کیا۔امام محمد تقیؑ کا لوگوں کے ساتھ ارتباط وکالتی سسٹم کے تحت خط و کتابت کے ذریعے رہتا۔ آپ کے زمانے میں اہل حدیث، زیدیہ، واقفیہ اور غلات جیسے فرق بہت سرگرم تھے اسی بنا پر آپ شیعوں کو ان کے باطل عقائد سے آگاہ کرتے، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکتے اور غالیوں پر لعن کرتے تھے۔دوسرے مکاتب فکر کے علماء و دانشوروں کے ساتھ مختلف کلامی اور فقہی موضوعات پر آپ کے علمی مناظرے ہوئے جن میں شیخین کی حیثیت، چور کے ہاتھ کاٹنے اور احکام حج کے بارے میں مناظرہ، آپ کے معروف مناظرے ہیں۔محمد بن علی بن موسی بن جعفر شیعوں کے نویں امام ہیں جو جواد الائمہ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب 6 واسطوں سے شیعوں سے پہلے امام، امام علی بن ابی طالب تک پہچتا ہے۔ آپ کے والد امام علی رضا شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔
 آپؑ کی کنیت ابو جعفر و ابو علی ہے۔ منابع حدیث میں آپؑ کو ابو جعفر ثانی کہا جاتا ہے تا کہ ابو جعفر اول امام محمد باقرؑ سے اشتباہ نہ ہو۔ آپؑ کے مشہور القاب، جواد و ابن الرضا ہیں، جبکہ تقی، زکی، قانع، رضی، مختار، متوکل، مرتضی اور منتجَب جیسے القاب بھی نقل ہوئے ہیں۔ آپ کی زندگی کے بارے میں تاریخی مصادر میں چندان معلومات ذکر نہیں ہیں۔ اس کا سبب عباسی حکومت ک طرف سے سیاسی محدودیت، تقیہ اور آپ کی مختصر حیات بیان ہوا ہے۔ آپ مدینہ میں قیام پذیر تھے۔ ابن بیھق کے نقل کے مطابق، آپ نے ایک بار اپنے والد سے ملاقات کے لئے خراسان کا سفر کیا اور امامت کے بعد کئی بار آپ کو عباسی خلفاء کی طرف سے بغداد طلب کیا گیا۔
امام محمد تقی ؑ کی امامت کا دورانیہ حضرت امام رضا کی شہادت کے سال 203 ھ سے لے کر سنہ 220 ہجری تک محیط ہے جو کل مدت 17 سال بنتی ہے۔ آپؑ کی امامت کی دلیلیں بہت ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صحابی نے امام رضاؑ سے آپؑ کے جانشین کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے ہاتھ سے اپنے بیٹے [ابو جعفر (امام جوادؑ] کی طرف اشارہ کیا جو آپؑ کے سامنے کھڑے تھے 
ازواج -لیکن چونکہ وہ لوگ ان کی بات کو مانتے تھے لہذا ان کی بات سے انہیں اطمینان حاصل ہوگیا۔
امام جوادؑ کی شادی سنہ 215 میں مامون عباسی کی بیٹی ام فضل سے ہوئی۔  یہ شادی مامون کی درخواست پر ہوئی اور امامؑ نے اس کے لئے حضرت زہراءؑ کا مہر ـ یعنی 500 درہم ـ قرار دے کر اس رشتے کو منظور کیا اور اس شادی سے امامؑ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی 

اور آپؑ کی تمام اولادیں آپؑ کی دوسری زوجہ مکرمہ سمانہ مغربیہ سے ہوئیں بعض مآخذ میں منقول ہے کہ امام جوادؑ نے امام رضاؑ کے سکونتِ خراسان کے دوران ایک بار آپؑ سے ملنے کی غرض سے خراسان کا سفر کی  اور اسی وقت مامون نے اپنی بیٹی کا نکاح آپؑ سے کیا۔ابن کثیر کے قول کے مطابق امام جوادؑ کے ساتھ مامون کی بیٹی کا خطبۂ نکاح 8 سال سے بھی کم عمر میں حضرت امام رضاؑ کے دور میں پڑھا گیا تھا لیکن شادی اور رخصتی سنہ 315 ہجری میں مامون کی اجازت سے تکریت میں ہوئی۔ اس روایت کو مد نظر رکھا جائے تو اس رشتے کے بارے میں سنہ 202 ہجری اور سنہ 215 ہجری میں منقولہ روایتوں میں کوئی تناقض یا مغایرت نہیں ہے لیکن بغداد میں یحیی بن اکثم کے ساتھ امامؑ کے مناظرے کی روایت  ہے۔
اولاد
شیخ مفید کی روایت کے مطابق امام محمد تقی کی چار اولاد امام علی نقی، موسی مبرقع، فاطمہ و اَمامہ ہیں۔ البتہ بعض راویوں نے آپؑ کی بیٹیوں کی تعداد حکیمہ، خدیجہ و ام کلثوم کے نام سے تین بتائی ہے امام محمد تقی ؑ کی امامت کا دورانیہ حضرت امام رضا کی شہادت کے سال 203 ھ سے لے کر سنہ 220 ہجری تک محیط ہے جو کل مدت 17 سال بنتی ہے۔ آپؑ کی امامت کی دلیلیں بہت ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صحابی نے امام رضاؑ سے آپؑ کے جانشین کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے ہاتھ سے اپنے بیٹے [ابو جعفر (امام جوادؑ] کی طرف اشارہ کیا جو آپؑ کے سامنے کھڑے تھے امام رضاؑ نے ایک روایت کے ضمن میں فرمایا:۔۔۔هذا أبو جعفر قد أجلسته مجلسي و صيرته مكاني، وقال: إنا أهل بيت يتوارث أصاغرنا عن أكابرنا القذة بالقذة(ترجمہ: یہ ابو جعفر ہیں جس کو میں نے اپنی جگہ بٹھا دیا ہے اور اپنا مقام اسے واگذار کردیا ہے اور فرمایا: ہم اہل بیت ایسا خاندان ہیں جس میں چھوٹے یکسان طور پر (بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان فرق کے بغیر) بڑوں کے وارث بنتے ہیں) ۔ (یعنی جس طرح کہ بڑے علوم کے وارث بنتے ہیں ہمارے چھوٹے بھی ہمارے علوم کے وارث بنتے ہیں   
  

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر