ہفتہ، 4 اکتوبر، 2025

پام سنڈے !غرناطہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یاد میں جلوس پارٹ- 4

 

گھر پہنچ کر  میں نے گھر والوں کو بتایا تو ان کو بھی اشتیاق ہوا کہ  ہم بھی جلوس دیکھنے جائیں گے ، میں نے بتایا کہ اب سب بند ہوچکا ہے، جلوس ختم ہوچکا، لہٰذا کچھ نہیں ملے گا، اور شاید اب بازار بھی بند ہوچکا ہو۔ لیکن پھر بھی ہوا خوری میں کوئی مضائقہ نہیں تو گھر پہنچ کر دوبارہ ہوا خوری کے لیے گھر والوں کے ہمراہ مرکزی چرچ کی راہ لی۔ ابھی چرچ سے کچھ فاصلے پر تھے کہ دوبارہ ڈھول و بینڈ کی آواز سنائی دی، مجھے حیرت ہوئی کہ اب یہ کیا!!خیر قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک اور جلوس چلا آرہا ہے، اور اس کے ساتھ نیا تعزیہ ہے جس پر کوئی خاتون نہیں بلکہ ایک تابوت ہے،


باقی جلوس کی ترتیب کم و بیش وہی ہے۔یعنی وہی  ماتمی لباس 'وہی تنظیم 'وہی احترام ' اس جلوس کی بدولت اب یہ معلوم ہوا کہ اس  دن شہر میں ایک نہیں بلکہ کئی جلوس نکلتے ہیں، اور سب اپنے اپنے علاقوں سے نکلتے ہیں، اور ان کا اختتام بھی الگ الگ وقت میں لیکن ایک مقام پر ہوتا ہے یعنی مرکزی چرچ پر، جہاں فرڈیننڈ اور ازابیلا کی قبریں ہیں۔ بلکل  کراچی کی طرز پر  جہاں ہر جلوس کا اختتام نشتر پارک پر ہوتا ہے


اس جلوس کو بھی قریب سے دیکھا، اور اس کا اختتام تقریباً رات 12 بجے مرکزی چرچ میں ہوا تو تمام تقریبات بھی اگلے دن تک کے لیے اختتام پزیر ہوگئیں۔راستے میں کھلی دکانیں بھی بند ہونا شروع ہوگئیں اور لوگوں نے اپنی اپنی راہ لی۔ کیونکہ اس تہوار میں پورے اندلس سے لوگ غرناطہ آتے ہیں لہٰذا یہ سیزن ہوٹلز کے لیے بھی بہت کمائی کا ذریعہ بنتا ہے، اس کے علاوہ مقامی دکان داروں کو بھی کاروبار کے مزید مواقع فراہم ہوتے ہیں۔غرناطہ کا یہ تہوار نہ صرف اس بات کی نشانی ہے کہ یورپ میں مذہب اب تک موجود ہے بلکہ اس کی بدولت اس مذہب کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا کام بھی بخوبی انجام دیا جارہا ہے۔ یہ اس حوالے سے اہم ہے کہ جس یورپ میں مذہب و لامذہب کی بحث موجود ہو وہاں بھی مذہب اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔


 میرا مشاہدہ ہے کہ کسی بھی مذہب پر فہم کے ساتھ عمل کرنے والوں کا رویہ زیادہ بہتر اور زندگی کے بارے میں ان کا تصور بلند ہوتا ہے۔ لادینیت کے اس دور میں مذہب کو کسی بھی صورت میں زندہ رکھنا ایک بڑی بات ہے اور میرے نزدیک قابلِ ستائش بھی ہے۔غرناطہ کا آخری دن میرے لیے زندگی کے حسین مشاہدات سے بھرا ہوا تھا… ایسے مشاہدات جو شاید لوگوں کو سالوں میں ہوتے ہیں وہ مجھے اللہ کے فضل و کرم سے ایک رات میں وہ بھی حادثاتی طور پر ہوگئے۔ ان مشاہدات نے صرف مجھے زندگی کو کئی زاویوں سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا  

غرناطہ جانے والے اس سیاح کا نام مجھے نہیں معلوم ہو سکا -اس لئے سیاح سے معذرت بھی اور تحریر عاریتاً لینے کا شکریہ بھی 


پام سنڈے !غرناطہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یاد میں جلوس پارٹ-3

 

حتیٰ کہ پیدل بھی اس راستے پر آپ نہیں جاسکتے جو جلوس کی گزرگاہ ہے، تاہم جلوس کی گزرگاہ کے دونوں اطراف اور اس کے پیچھے آپ چل سکتے ہیں۔جلوس ڈھول و بینڈ کی مخصوص آواز پر چلتا اور رکتا تھا۔ یہ رکتا اس لیے تھا کہ اس تعزیے کو اٹھانے والی کوئی گاڑی نہیں تھی بلکہ کچھ نوجوان تھے جو اسے اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے، اس کے وزن کی وجہ سے وہ رک جاتے، تھوڑا آرام کرتے اور پھر سفر شروع ہوتا، لیکن جلوس کے رکنے کے دوران بھی تعزیہ ان کے کندھوں سے نہیں اترتا تھا۔وہ کیا طریقہ کار اختیار کرتے، میں نے اس کو جانچنے کی کوشش کی، لیکن بے سود… کیونکہ ان کے اوپر تعزیہ تھا اور چاروں اطراف ایک جھالر لٹک رہی تھی جس سے اندر کا منظر نہیں دیکھا جاسکتا تھا، تاہم ان کے پیر نظر آرہے تھے۔ ساتھ ساتھ اس تعزیے کو گائیڈ کرنے والا بھی باقاعدہ ایک فرد تھا جو ہسپانوی زبان میں ان کو ہدایات دیتا تھا۔ 


اس فرد کی ہدایات اور مخصوص ضرب کی آواز سے وہ رکتے اور چلتے تھے۔اس تعزیے کے بینڈ کے افراد بھی مکمل یونیفارم میں ایک فارمیشن کے ساتھ چلتے اور رکتے تھے۔ ان کے مختلف سازوں کے ساتھ میوزک کی گائیڈ بھی موجود تھی جس کو رات کی تاریکی میں دیکھنے کے لیے انہوں نے چھوٹی لائٹس اس پر لگائی تھیں۔ اسی طرح تعزیے کی موم بتیاں چلنے سے اگر بجھ جائیں تو اس کے لیے بھی ایک فرد مقرر تھا جو لمبی موم بتی نما کوئی چیز لیے ان کو مسلسل جلاتا رہتا تھا۔ اس کے سامنے ایک فرد زنجیر سے بندھی دھونی سے دھونی دیتا چلا جارہا تھا۔تعزیے کے پیچھے سیاہ لباس میں ملبوس نوعمر لڑکیاں، چھوٹے بچے اور خواتین بھی موجود تھیں جو دو قطاروں میں بڑی موم بتیاں لیے چل رہی تھیں۔اس جلوس کی اہم ترین بات یہ تھی کہ ایک مکمل فیملی ایکٹیوٹی تھی۔



 اس جلوس میں حصہ لینے والوں کے اہلِ خانہ بھی اس جلوس کے ہمراہ چل رہے تھے۔ شاید یہ جلوس طویل ہوتے ہیں، لہٰذا جب جلوس رکتا تو وہ ان کو پانی اور دیگر سامان دینے آتے تھے۔اسی طرح چھوٹے بچے و بچیوں کو بھی اس میں خاص طور پر شریک کروایا گیا اور ان کے اہلِ خانہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود تھے۔ یہ ایک مکمل مذہبی تربیت گاہ کا ماحول تھا کہ جہاں سال میں ایک بار اس کام کو کرنے کے لیے اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کو مصلوب کرنے کی یاد کو تازہ کرنے اور اسے آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا مکمل اہتمام موجود تھا۔ میں شاید واحد فرد ہوں گا جو اس جلوس کو بغیر کسی مذہبی جذبے کے دیکھ رہا تھا، ورنہ لوگوں کی عقیدت و محبت ان کی نگاہوں سے عیاں تھی۔اس سب کے باوجود کسی ایک فرد نے بھی نہ مجھے روکا کہ میں آگے جاکر تصاویر اور ویڈیوز کیوں بنارہا ہوں، اور نہ ہی مجھے عجیب نظروں سے دیکھا۔ اس معاملے میں ان کی وسیع النظری اور اعلیٰ ظرفی کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔



 حتیٰ کہ میں ایک موقع پر جلوس کے ساتھ ساتھ اُس مقام تک چلا گیا جو جلوس کا اختتام تھا اور آگے مرکزی چرچ میں صرف تعزیہ اور مخصوص لباس میں ملبوس افراد کو جانے کی اجازت تھی۔ وہاں بھی صرف ایک پولیس والے نے ہاتھ کے اشارے سے روکا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس کے آگے تو کوئی بھی نہیں جارہا، تو میں رک گیا۔جلوس کو دیکھ کر مجھے کراچی میں محرم الحرام اور ربیع الاول کے جلوس یاد آگئے۔ یہ بھی ایک تحقیق طلب معاملہ ہے کہ کس طرح جلوسوں کی یہ روایت برصغیر سے یورپ گئی یا یورپ سے برصغیر میں آئی۔ کیونکہ تمام تر جلوس اپنی جداگانہ حیثیت اور نظریے کے باوجود بھی برتاؤ میں عملاً یکساں نظر آتے ہیں۔میں اس پر سوچ بچار کر ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور گھر والوں نے پوچھا کہ آپ کدھر چلے گئے ہیں، تو گھر کی راہ لی۔ جلوس کیونکہ ختم ہوچکا تھا، لوگ بھی جاچکے تھے اور رات کے11 بج رہے تھے تو میں نے سمجھا کہ اب جو کچھ بھی ہوگا کل ہی ہوگا۔ 

بلاگ ابھی جاری ہے


پام سنڈے ! غرناطہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جلوس حصہ دوم

      پام سنڈے ! غرناطہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جلوس-غرناطہ  کی  سیاحت کے دوران میں نے ایک جگہ دیکھا قدیم گرجا کے گرد  ، چند خواتین سیاہ لباس میں ہیں اور کچھ لوگ نائٹس کا قدیمی لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں۔ نائٹس دراصل صلیبی حکومت کے محافظ یا صلیب کے محافظوں کا لقب تھا۔ یہ لباس آج کل کے ترکیہ ڈراموں میں بھی آپ کو نظر آئے گا جس میں سفید لباس اور ایک طویل سرخ ٹوپی ایک کون کی مانند، جس سے منہ بھی مکمل نقاب کی طرح ڈھکا ہوا ہوتا تھا اور صرف آنکھوں کی جگہ سوراخ ہوتے ہیں تاکہ اس کو زیب تن کرنے والا دیکھ سکے۔ہم نے ان سے پوچھا تو ٹوٹی پھوٹی معلومات ہوئیں کہ کوئی مذہبی تہوار ہے۔ کیا؟ اس کا معلوم نہ تھا۔ہم اپنے راستے سے واپسی کا سفر کرتے ہوئے گھر کے قریب ہوئے تو دیکھا کہ ایک باقاعدہ پریڈ ہورہی ہے جس میں مرد و زن، بوڑھے، بچے سب موجود ہیں، سب نے مخصوص لباس زیب تن کیا ہوا ہے، اور اس پریڈ کو دیکھنے کے لیے سڑک کے دونوں طرف لوگوں کا ہجوم ہے۔



 خیر ہم نے کچھ مشاہدہ کیا اور آگے اپنی راہ لی۔ راستے میں دو مکمل فوجی بینڈ ٹائپ کے بینڈز نظر آئے جو اپنی دھنیں بجا رہے تھے۔ ان میں سے ایک بینڈ والی پارٹی سے پوچھا تو کئی ایک کے بعد ایک فرد ملا جس کو کچھ انگریزی آتی تھی، اُس نے بتایا کہ وہ غرناطہ سے سو میل دور سے یہاں اس تہوار میں شرکت کے لیے آیا ہے۔ اب یہ تہوار کیا ہے وہ انگریزی میں بتانے سے قاصر تھا، لہٰذا وہ ایک لڑکی کو تلاش کرکے لایا کہ یہ انگریزی میں بات کرسکتی ہے، یہ بتائے گی۔ لیکن وہ بھی دو جملوں کے بعد کچھ نہ بول سکی۔ انٹرنیٹ کی مدد سے معلوم ہوا کہ  یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یاد کا مخصوص تہوار ہے جسے ’پام سنڈے‘ بھی کہا جاتا ہے، اور یہاں اسپین میں اس کا آغاز چرچ کی جانب سے آج ہوا۔ اس کی تاریخ کا تعین بھی چاند کی تاریخ سے ہوتا ہے۔عیسائی مذہب کے مطابق چاند کی اس تاریخ کو حضرت عیسیٰؑ کا سفر یروشلم کی جانب شروع ہوا تھا کہ جہاں ان کو مصلوب کرنے کے لیے لے جایا گیا تھا۔ 



  جبکہ اس کے ساتھ پام کے درخت کی شاخ یا پتّے بھی موجود تھے۔ اندلس میں اس تہوار کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، یہ ایک ہفتے غرناطہ میں جاری رہتا ہے کہ جہاں پورے اندلس (موجودہ اسپین کا ایک صوبہ) سے لوگ غرناطہ آتے ہیں اور اس میں حصہ لیتے ہیں۔بھی چوک سے کچھ دور ہی تھا کہ ڈھول کی زوردار آوازیں اور شام والی دھنیں دوبارہ سنائی دینے لگیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ رات کے اس پہر تقریباً دس بجے تو یورپ میں یہ کام نہیں ہوتا! خیر کچھ آگے گیا تو دیکھا ایک جلوس جارہا ہے جس میں ایک تعزیہ نما چیز بھی ہے۔ جلوس کے قریب پہنچا تو وہی شام والا منظر تھا۔ جلوس سڑک پر تھا اور دونوں جانب لوگوں کا ہجوم اس کو دیکھ رہا تھا۔ مجمع میں جگہ بناکر آگے آیا تو دیکھا کہ پولیس بھی موجود ہے اور پرانے شہر کی تمام گلیوں میں یہ جلوس چل رہا ہے۔ تمام گاڑیوں کا داخلہ پولیس نے پہلے ہی بند کردیا ہے تاہم اگر آپ جلوس کو دیکھنا چاہتے ہیں تو پیدل جائیں۔



 میں مجمع سے آگے گیا، لوگوں نے بخوشی راستہ دیا۔ جلوس کی ترتیب یہ تھی کہ آگے رہنمائی کرنے والے اور ایک تعزیہ جس پر ایک خاتون سفید لباس میں کھڑی تھیں، ان کے آگے بھی طویل موم بتیاں چار پانچ قطاروں میں نصب تھیں، ان خاتون کے اوپر ایک ترپال یا ٹینٹ تھا، اس کے بعد تین افراد (ایک مرد، دو خواتین) صلیب اور موم بتیاں ایک لاٹھی میں لگائے آگے تھے، ان کے پیچھے سیاہ لباس میں خواتین موم بتیاں لیے دو قطاروں میں چل رہی تھیں، ان کو منظم کرنے والی یا والیاں سفید لباس اور سرخ ٹوپی میں نائٹس کے لباس میں تھیں۔ اس میں بھی مرد و خواتین دونوں نے ہی نائٹس کے لباس زیب تب کئے ہوئے تھے، ان کے ہمراہ کچھ بچے بچیوں نے بھی یہ لباس پہنا ہوا تھا۔ ایک مکمل پروٹوکول میں یہ جلوس اپنی مخصوص منزل کی جانب جارہا تھا۔ قدیم غرناطہ شہر کی گلیاں بہت تنگ ہیں، لہٰذا اس جلوس کے لیے ان گلیوں و سڑکوں پر ٹریفک کا داخلہ مکمل بند کردیا گیا، 

 بلاگ ابھی جاری ہے 


وینکوور اپنی بہترین معیشت او رمعتدل آب و ہوا کی نسبت سے جانا جاتا ہے

 



وینکوور  اپنی بہترین  معیشت اور قدرتی خوبصورتی کے شہر کے طور پر جانا جاتا ہے۔  2010 کے سرمائی اولمپک کھیلوں نے  وینکوور کی اس حیثیت کو نمایاں کیا تھا: کھیلوں کی میزبانی کرنے کی صلاحیت میں معیشت اور کھیلوں کے اشتہارات میں فطرت کی فراوانی ۔ ان اشتہارات نے بلند   پہاڑوں اور سرسبز جنگلات  پر  توجہ مرکوز کی ، تب اکثر دنیا نے دیکھا وینکوور  کینیڈا کے ان نایاب شہروں میں سے ایک ہے جس نے شہری ترقی اور قدرتی تحفظ کے درمیان ایک  بہترین  توازن حاصل کر لیا ہے۔بحر الکاہل کی آب و ہوا: وینکوور کینیڈا کے پیسفک آب و ہوا کے علاقے میں واقع ہے، یہ علاقہ اپنے ہلکے درجہ حرارت اور زیادہ بارش کے لیے جانا جاتا ہے۔موازنہ: شہر کی آب و ہوا اس کے منفرد ماحول، بلند و بالا درختوں، پر  جنگلی حیات، اور زراعت کے لیے زرخیز زمین کو سہارا دینے کی اجازت دیتی ہے وینکوور کینیڈا  کے اُن شہروں  میں شمار ہوتا ہے جہاں زرعی پیداوار کافی پیدا ہوتی ہے، یہاں کے میدانی علاقوں میں زرعی فارمزکثرت سے ہیں ہے۔ 



وینکوور میں موسم سرما 4 ماہ سے بھی کم رہتا ہے (13 نومبر سے 5 مارچ تک)۔ اس مدت کے دوران، اوسط زیادہ سے زیادہ روزانہ درجہ حرارت 9 ڈگری سیلسیس سے کم ہے. دسمبر وینکوور میں سرد ترین مہینہ ہے، اس مہینے میں اوسط کم از کم اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت بالترتیب 1 اور 6 ڈگری سیلسیس کے برابر ہے۔ میں نے مضمون کے شروع میں جو گراف رکھا ہے اس میں آپ مختلف مہینوں میں کم از کم، اوسط اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت دیکھ سکتے ہیں۔بارش اور برفباری۔اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ وینکوور دامن میں واقع ہے، شہر کے مختلف علاقوں میں بارش کی مقدار اور دھوپ کے دن مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر، Coquitlam کا شمال جنوب سے مختلف ہے۔جیسا کہ ہم نے اب تک بات کی ہے، وینکوور میں بارش بہت عام ہے۔ درحقیقت وینکوور میں سالانہ بارش 1200 ملی میٹر ہے۔ لیکن شمالی علاقہ جات میں جو پہاڑوں کے قریب ہیں، یہ سطح سالانہ 1600 ملی میٹر تک پہنچ جاتی ہے۔ 

 


نومبر اور مارچ کے مہینوں کے درمیان، بارش کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے اور گرمی کے موسم میں، بارش کی مقدار کم سے کم ہوتی ہے۔ نوٹ کریں کہ وینکوور براہ راست سمندر سے متصل نہیں ہے، لیکن آبنائے جارجیا کو دیکھتا ہے۔ یہ موضوع وینکوور کو سمندری آفات جیسے سونامی سے محفوظ بناتا ہے۔دوسری طرف وینکوور آئی لینڈ نامی ایک جزیرہ ہے جو مغرب سے براہ راست سمندر سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں، جزیرے کے مغرب میں (بحرالکاہل کے ساحل پر) بارش کی مقدار کینیڈا کے شہر وینکوور سے کہیں زیادہ ہے۔ وینکوور جزیرے (وکٹوریہ، نانیمو اور ٹوفینو) پر سالانہ 2500 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوتی ہےمختلف مہینوں میں بارش کے دنوں کی تعداد بھی درج ہے۔ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، بارش کے دنوں کی تعداد کا تعلق بارش کی مقدار سے ضروری نہیں ہے اور بارش کی شدت جیسے عوامل کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔



 

 اگر آپ مشرقی کینیڈا میں رہتے ہیں اور وینکوور میں ہجرت کرنا چاہتے ہیں، تو وینکوور اور ٹورنٹو کے دو شہروں کے درمیان فرق پر اور ٹورنٹو اور وینکوور کی تقابلی آب و ہوا کو  پڑھیں۔  کینیڈا کے دیگر حصوں کے برعکس، وینکوور میں آب و ہوا عام طور پر معتدل ہے۔ یعنی وینکوور میں بہت زیادہ سرد سردیاں اور بہت گرم گرمیاں نہیں ہوتیں۔ اس پوزیشن کی بہتر تفہیم کے لیے، وینکوور کے موسم سے متعلق مختلف مہینوں میں "کم سے کم، اوسط اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت" کو چیک کرنا بہتر ہے۔ اعداد و شمار    بتاتے ہیں ، جنوری میں وینکوور میں اوسط درجہ حرارت 4 ڈگری سیلسیس ہے۔ جولائی (موسم گرما) کے مہینے میں یہ سطح 22 ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتی ہے۔ تو یہ اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ وینکوور کا موسم سردیوں میں زیادہ ٹھنڈا نہیں ہوتا اور گرمیوں میں بھی زیادہ گرم نہیں ہوتا۔وینکوور کے سیاحوں کے سفر کا بہترین وقت جون اور ستمبر کے درمیان ہے۔ کیونکہ عام طور پر اس عرصے میں موسم زیادہ معتدل اور بارش کم سے کم ہوتی ہے۔

جمعہ، 3 اکتوبر، 2025

پام سنڈے ! غرناطہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جلوس'part -1

  پام  سنڈے ! غرناطہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جلوس-غرناطہ  کی  سیاحت کے دوران میں نے ایک جگہ دیکھا قدیم گرجا کے گرد  ، چند خواتین سیاہ لباس میں ہیں اور کچھ لوگ نائٹس کا قدیمی لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں۔ نائٹس دراصل صلیبی حکومت کے محافظ یا صلیب کے محافظوں کا لقب تھا۔ یہ لباس آج کل کے ترکیہ ڈراموں میں بھی آپ کو نظر آئے گا جس میں سفید لباس اور ایک طویل سرخ ٹوپی ایک کون کی مانند، جس سے منہ بھی مکمل نقاب کی طرح ڈھکا ہوا ہوتا تھا اور صرف آنکھوں کی جگہ سوراخ ہوتے ہیں تاکہ اس کو زیب تن کرنے والا دیکھ سکے۔ہم نے ان سے پوچھا تو ٹوٹی پھوٹی معلومات ہوئیں کہ کوئی مذہبی تہوار ہے۔ کیا؟ اس کا معلوم نہ تھا۔ہم اپنے راستے سے واپسی کا سفر کرتے ہوئے گھر کے قریب ہوئے تو دیکھا کہ ایک باقاعدہ پریڈ ہورہی ہے جس میں مرد و زن، بوڑھے، بچے سب موجود ہیں، سب نے مخصوص لباس زیب تن کیا ہوا ہے، اور اس پریڈ کو دیکھنے کے لیے سڑک کے دونوں طرف لوگوں کا ہجوم ہے۔



 خیر ہم نے کچھ مشاہدہ کیا اور آگے اپنی راہ لی۔ راستے میں دو مکمل فوجی بینڈ ٹائپ کے بینڈز نظر آئے جو اپنی دھنیں بجا رہے تھے۔ ان میں سے ایک بینڈ والی پارٹی سے پوچھا تو کئی ایک کے بعد ایک فرد ملا جس کو کچھ انگریزی آتی تھی، اُس نے بتایا کہ وہ غرناطہ سے سو میل دور سے یہاں اس تہوار میں شرکت کے لیے آیا ہے۔ اب یہ تہوار کیا ہے وہ انگریزی میں بتانے سے قاصر تھا، لہٰذا وہ ایک لڑکی کو تلاش کرکے لایا کہ یہ انگریزی میں بات کرسکتی ہے، یہ بتائے گی۔ لیکن وہ بھی دو جملوں کے بعد کچھ نہ بول سکی۔ انٹرنیٹ کی مدد سے معلوم ہوا کہ  یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یاد کا مخصوص تہوار ہے جسے ’پام سنڈے‘ بھی کہا جاتا ہے، اور یہاں اسپین میں اس کا آغاز چرچ کی جانب سے آج ہوا۔ اس کی تاریخ کا تعین بھی چاند کی تاریخ سے ہوتا ہے۔عیسائی مذہب کے مطابق چاند کی اس تاریخ کو حضرت عیسیٰؑ کا سفر یروشلم کی جانب شروع ہوا تھا کہ جہاں ان کو مصلوب کرنے کے لیے لے جایا گیا تھا۔ 



حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو   یروشلم لے جایا گیا تھا، جبکہ اس کے ساتھ پام کے درخت کی شاخ یا پتّے بھی موجود تھے۔ اندلس میں اس تہوار کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، یہ ایک ہفتے غرناطہ میں جاری رہتا ہے کہ جہاں پورے اندلس (موجودہ اسپین کا ایک صوبہ) سے لوگ غرناطہ آتے ہیں اور اس میں حصہ لیتے ہیں۔بھی چوک سے کچھ دور ہی تھا کہ ڈھول کی زوردار آوازیں اور شام والی دھنیں دوبارہ سنائی دینے لگیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ رات کے اس پہر تقریباً دس بجے تو یورپ میں یہ کام نہیں ہوتا! خیر کچھ آگے گیا تو دیکھا ایک جلوس جارہا ہے جس میں ایک تعزیہ نما چیز بھی ہے۔ جلوس کے قریب پہنچا تو وہی شام والا منظر تھا۔ جلوس سڑک پر تھا اور دونوں جانب لوگوں کا ہجوم اس کو دیکھ رہا تھا۔ مجمع میں جگہ بناکر آگے آیا تو دیکھا کہ پولیس بھی موجود ہے اور پرانے شہر کی تمام گلیوں میں یہ جلوس چل رہا ہے۔ تمام گاڑیوں کا داخلہ پولیس نے پہلے ہی بند کردیا ہے تاہم اگر آپ جلوس کو دیکھنا چاہتے ہیں تو پیدل جائیں۔



 میں مجمع سے آگے گیا، لوگوں نے بخوشی راستہ دیا۔ جلوس کی ترتیب یہ تھی کہ آگے رہنمائی کرنے والے اور ایک تعزیہ جس پر ایک خاتون سفید لباس میں کھڑی تھیں، ان کے آگے بھی طویل موم بتیاں چار پانچ قطاروں میں نصب تھیں، ان خاتون کے اوپر ایک ترپال یا ٹینٹ تھا، اس کے بعد تین افراد (ایک مرد، دو خواتین) صلیب اور موم بتیاں ایک لاٹھی میں لگائے آگے تھے، ان کے پیچھے سیاہ لباس میں خواتین موم بتیاں لیے دو قطاروں میں چل رہی تھیں، ان کو منظم کرنے والی یا والیاں سفید لباس اور سرخ ٹوپی میں نائٹس کے لباس میں تھیں۔ اس میں بھی مرد و خواتین دونوں نے ہی نائٹس کے لباس زیب تب کئے ہوئے تھے، ان کے ہمراہ کچھ بچے بچیوں نے بھی یہ لباس پہنا ہوا تھا۔ ایک مکمل پروٹوکول میں یہ جلوس اپنی مخصوص منزل کی جانب جارہا تھا۔ قدیم غرناطہ شہر کی گلیاں بہت تنگ ہیں، لہٰذا اس جلوس کے لیے ان گلیوں و سڑکوں پر ٹریفک کا داخلہ مکمل بند کردیا گیا، 

  بلاگ ابھی جاری ہے  یہ خوبصورت تحریر ایک نوجوان سیاح کی ہے جو  غرناطہ کی سیاحت پر  اس نوجوان نے لکھی ہے تحریر پر مجھے اس بچے کا نام نہیں مل سکا ہے جس کے لئے میں معذرت چاہتی ہوں 

جمعرات، 2 اکتوبر، 2025

مومنہ عباسی ایک باہمت لڑکی سے ملئے

   مومنہ عباسی نام کی لڑکی  کی اس    اسٹوری نے مجھے بہت متاثر کیا -کیونکہ  اس تحریر میں مجھے ہمت اورحوصلہ نظر آیا اس لئے میں اپنے قارئین سے بھی شئر کر رہی ہوں -میرا نام مومنہ عباسی ہے اور میں مری کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتی ہوں امید ہے آپ سب  خیریت سے ہوں گے. میں آج اپنی زندگی کی کہانی لے کر آئی ہوں کہ کیسے ایک چھوٹی سی غفلت سے میری پوری زندگی بدل گی. یہ سال 2013 کی بات ہے جب میری عمر 13 سال تھی اور میں مری کے ایف جی سکول میں ساتویں جماعت کی تعلیم حاصل کر رہی تھی. اسی سال اچانک میری کمر اور ٹانگوں میں شدید درد رہنے لگا. مری کے ڈاکٹرز سے کافی چیک اپ کرایا لیکن ڈاکٹرز کا کہنا تھا سکول چل کر جانے کی وجہ سے کمزوری ہو گی اور پٹھے کمزور ہو گے ہیں. 5 سے 6 ماہ تک یہی چلتا رہا اور  multi vitamin جیسی دواؤں کا استعمال چلتا رہا لیکن درد کے ساتھ ساتھ میری ٹانگوں سے حرکت بھی ختم ہو گی اور 16 اکتوبر 2013 کو میں مکمل طور پر ویل چئیر پہ آ گی تھی. اسلام آباد کے ڈاکٹرز سے چیک اپ اور ٹیسٹ کرانے کے بعد پتہ چلا کے ریڑ کی ہڈی میں رسولی ہو گئ ہے. جسکا آپریشن کرانا پڑا


. جس میں آپریشن کے دوران حرام مغز کو ہلکا سا کٹ لگ گیا جسکی وجہ سے میں مکمل طور پہ معذور ہو گئ.اسکے بعد کے چار سال تک تھوڑا مشکل ٹائم تھا  اس بات کا یقین کرنا مشکل تھا کے ایک دم سے زندگی اتنی بدل کیسے گئی ہے.  . میری پوری فیملی نے مجھے بہت سپورٹ کیا خیال رکھا. لیکن انسان کو خود اپنی زندگی کو صحیح کرنا ہوتا۔ ہمارے آس پاس کے لوگ زندگی میں آسانی لانے کا سبب بن سکتے ہیں لیکن ہمیں اپنی زندگی کو آسان اور خوبصورت صرف اپنی کوشش میں کرنا ہوتا ہے . مجھے بھی یہ بات سمجھنے میں 4 سال لگ گے اور پھر میں نے اپنی تعلیم دوبارہ سے شروع کی. میں نے تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ گھر والوں کی چھوٹے چھوٹے کاموں میں مدد کرنا شروع کر دی میں بس یہی دیکھتی کے ایسا کون سا کام ہے جو میں بیٹھ کے کر سکتی ہوں اور گھر والوں کی مدد کر سکتی ہوں تا کہ میں کسی پر بوجھ نا رہوں.. اور ایسے ہی میں نا صرف گھر کے سارے کام کرنے کے قابل ہو گی بلکہ خود بھی اپنا آپ سنبھالنے میں مکمل طور پر independent ہو گی.



 اس حوصلہ افزائ نے میرے  اندر یہ احساس اجاگر کیا کہ  مجھے کسی انسان کے ایسے ساتھ کی ضرورت نہیں رہی کہ وہ میری مدد کرے.  یہ   سوچ میرے اندر بہت کانفیڈینس لائ  اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے احساس ہوا کہ آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اس دور میں  بہت سے چیزیں آسان اور ممکن ہو گئ  ہیں انسان گھر بیٹھے ایک فون سے بھی پوری دنیا سے کونٹکٹ  کر سکتا ہے اور  بہت سے کام کر سکتا ہے اور میں نے اپنے فون کا استعمال اس انداز میں کرنا شروع کیا ہے  اپنے ہر فارغ ٹائم میں کسی نا کسی طرح کی نالج گین کرتی فیشن سے  لے  کر پڑھائ تک بزرگوں کی باتوں سے بچوں کے شوق تک ہر ایک بات کی معلومات رکھتی تا کہ میں ویل چیئر پر رہتے ہوۓ اپنی باتوں اور الفاظ کے استعمال سے اپنی فیملی دوست رشتہ داروں سے انکی ذات کے مطابق گفتگو کروں تا کہ میری ذات کسی کو بورنگ اور ایک بیمار معذور انسان جیسی نا لگے میں اپنے آپ کو ایک نارمل انسان کی طرح لوگوں کے دماغ میں رکھنا چاہتی تھی اور میں اس میں مکمل طور پر کامیاب رہی.



 میں آج میں اپنے خاندان میں اچھی ڈسکشن کی وجہ سے مشہور ہوں جس نے مجھے ہمیشہ تنہائی اور اکیلے رہنے سے بچائے  رکھاہے - اور اس کے ساتھ ہی میں نے موبائل فون کے استعمال سے ایسے آنلائن کام کی تلاش شروع کی جو میری جیسے انسان کو گھر بیٹھے آرام سے معاشی طور پہ مضبوط بنا سکے اور میں نے آنلائن سکلز پہ کام شروع کیا. سب سے پہلے میں نے وائس اوور آرٹسٹ کے طور پہ آنلائن کام شروع کیا مجھے لگا اپنی اواز کے استعمال سے بھی انسان کام کر سکتا ہے بس انفارمیشن کی کمی تھی اسکے بعد آہستہ آہستہ میں نے آنلائن فلیڈز کو جوائن کیا اور گیارہ سال گزر جانے کے بعد میں اپنی زندگی سے بہت خوش اور مطمئن ہوں. میرا ماننا ہے اللہ پاک نے ہر انسان کی زندگی میں کی کوئی نا کوئی مشکل ضرور رکھی ہوتی ہے  ہمیں اپنی مشکل میں ہمت  بھی کرنی چاہئے اور اپنی زندگی کو آسان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے -الحمداللہ میں نے سپیشل افراد کے لیے معذور فاونڈیشن کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے جس کا مقصد معذور افراد کو ویل چیئرز کی فراہمی، آلہ سماعت کی فراہمی، انکی میڈیسن اور تعلیم وغیرہ کے لئے مالی مدد فراہم کرنا ہے گورنمنٹ کی طرف سے معذور افراد کے لیے جاری کیے گئے پروگرامز کے متعلق معذور افراد کو آگاہ کرنا انکی بہترین طریقے سے تربیت کرنا اسکے علاوہ معذور افراد کو اپنے حقوق کے بارے میں شعور دینا اور زندگی سے مایوس ہوچکے لوگوں کو موٹیویٹ بھی کرنا ہے تاکہ انکے اندر کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہو اور وہ بھی معاشرے کے مفید شہری بن کر جی سکیں

یہ اسٹوری انٹر نیٹ سے لی ہے

لالہ زار باغوں کا شہرلاھور

 

 لاہور  کو ویسے تو  اس کے حاکموں نے ہر دور میں عزت و تکریم دی لیکن لاھور کو مرکزی حیثیت اس وقت نصیب ہوئی جب پہلے مسلمان حکمران قطب الدین ایبک نے اس شہر کو دہلی کے بعد دوسرا پایہ تخت قرار دیا تاہم غزنوی، غوری، غلاماں، تغلق اور لودھی حکومتوں میں یہ شہر دہلی کے راستے صرف ٹھہرنے کے مقام کے طور پر ہی جانا جاتا رہا، لیکن جب مغل دور حکومت شروع ہوا تو مغلوں نے اس شہر کی طرف توجہ دی اور اس میں باغ، پارک، کنوئیں اور درخت لگائے۔ ان کی پرداخت کی اور یوں یہ شہر اب تک باغوں کا شہر کہلاتا ہے۔مغلوں کی آمد سے قبل یہاں چند باغ تھے جو باغ ملک ایاز، باغ زنجانی، باغ شاہ اسماعیل، باغ قطب الدین ایبک، باغ شاہ کاکو چشتی اور باغ دولت آباد کے نام سے مشہور تھے۔ لیکن مغلوں کے دور میں لاہور جب ہندو پاک کا تیسرا بڑا شہر بنا تو اس شہر کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ وہ لاہور کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ اکبر یہاں پندرہ سال تک رہا اور اس نے لاہور کی ترقی پر بھرپور توجہ دی۔ جہانگیر بھی لاہور کا گرویدہ تھا۔ حتیٰ کہ وہ فوت ہوا تو اس نے وصیت کی تھی کہ اسے لاہور میں دفن کیا جائے۔



 ملکہ نور جہاں بھی لاہور ہی میں رہی اور یہیں دفن ہوئی۔ شاہ جہاں بھی لاہور میں پیدا ہوا اور اس نے بھی اس کی طرف پوری توجہ دی۔ اس کے دور میں یہاں عمارتیں تعمیر ہوئیں اور باغ معرض وجود میں آئے۔شاہ جہاں کا بڑا بیٹا داراشکوہ ہمیشہ لاہور ہی میں رہا۔ وہ حضرت میاں میرؒ کا مرید تھا اور صوفیاء سے محبت کرتا تھا۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد جب مغلوں کو زوال آیا تو لاہور کی شان میں بھی کمی آنے لگی۔ سکھوں نے تو اس شہر کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔مغل بادشاہ باغات سے بہت محبت کرتے تھے۔ انہوں نے لاہور، دہلی، آگرہ اور کشمیر میں بے شمار باغ بنائے، حویلیاں تعمیر کیں، اورمسجدیں بنائیں۔ انہوں نے مخصوص پھلوں کے جو باغ لگائے وہ انگوری باغ اور انار باغ کے نام سے مشہور ہوئے۔ اس طرح ہمایوں کے زمانے میں نولکھا باغ، باغ کامران اور اکبر کے زمانے میں باغ دل افروز، باغ خان اعظم، باغ اندر جان باجو باغ، باغ مالک علی کوتوال، باغ مرزا نظام الدین احمد، باغ زین خان کوکلتاش قائم ہوئے۔ جہانگیر کے دور میں باغ دلکشا(مقبرہ جہانگیر) باغ انار کلی لگائے گئے۔



 باغ دلکشا جسے اب مقبرہ جہانگیر کہا جاتا ہے کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ ڈاکٹر سیف الرحمن ڈار کے مطابق سید محمد لطیف نے اسے باغ دلآمیز کا نام بھی دیا ہے اور فوق نے باغ مہدی قاسم خان کے نام سے بتایا ہے۔ یہ باغ 1775ء میں لگایا گیا بعد ازاں جب ملکہ نور جہاں نے اس پر قبضہ کیا تو اسے باغ دلکشا کا نام دے دیا گیا۔شالیمار باغ:شاہ جہاں جسے عمارتیں اور باغ تعمیر کرنے کا بے پناہ شوق تھا، مقبرہ جہانگیر کے بعد اس نے فردوس سے ملتا جلتا باغ بنانے کا خواب دیکھا چنانچہ اس نے اپنے مصاحب خلیل اللہ خان کو بلایا اور اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ اس مقصد کیلئے راوی کے قریب ساٹھ ایکڑ اراضی حاصل کی گئی۔ ایک روایت کے مطابق یہ اراضی میاں افتخار الدین کے جدا مجد مہر مہنگا سے لی گئی تھی۔ شاہ جہاں نے جب اسے قیمت دینا چاہی تو اس نے قیمت لینے سے انکار کر دیا چنانچہ شاہ جہاں نے حکم دیا کہ اس باغ کی دیکھ بھال اس کے سپرد رہے گی۔ میاں صاحب کے جد امجد اس باغ کی دیکھ بھال کرتے رہے اور محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے سے قبل تک یہی خاندان شالیمار کا باغبان تھا اور باغبانپورہ اس کی ہی وجہ سے مشہور ہے۔اس باغ کی تعمیر پر 17ماہ چار دن لگے۔ یہ باغ 1642ء میں مکمل ہوا



۔ شالیمار باغ کی درمیانی منزل کے مشرق کی طرف جھروکہ ہے۔ دولت خانہ خاص و عام اور نقارخانہ ہے۔ مغرب کی طرف خواب گاہ بیگم صاحبہ ہے۔ بیگم صاحبہ شاہ جہاں کی بڑی لڑکی جہاں آراء بیگم تھی۔1631ء میں ماں کی وفات کے بعد تمام مراعات بیٹی کو حاصل ہو گئیں۔درمیانے تختہ پر سنگ مر مر کی آبشار گرتی ہے جس کا نظارہ اورنگ زیب کی بیٹی زیب النساء کیا کرتی تھی۔باغ نور جہاں:جہانگیر کی وفات کے بعد نور جہاں اٹھارہ سال تک لاہور میں رہی۔ وہ 72سال کی عمر میں 1636ء میں فوت ہوئی۔ اسے جہانگیر اور آصف جاہ کے قریب اسی کے باغ میں دفن کیا گیا۔ اس باغ کو چہار چمن کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس کے درمیان میں جو عمارت ہے اسے اب مقبرہ نور جہاں کہا جاتا ہے۔شاہ جہاں کے دور میں ہی فیض باغ، باغ بلاول شاہ، نخلا وزیر خاں، مقبرہ بدر الدین شاہ عالم بخاری، مقبرہ حضرت سید محمد، باغ آصف جاہ، پرویز باغ، مشکی باغ، باغ عبدالحسن، باغ خواجہ ایاز، باغ نصرت، جنگ بہادر، باغ احسان، باغ علی مردان خان اور چوبرجی پارک تعمیر ہوئے۔چوبرجی:چوبرجی زیب النساء کے باغ کا دروازہ تھا۔ یہ دروازہ لاہور باغ کی دیوار 1646ء میں تعمیر ہوئی ۔ چوبرجی کے شروع میں ہی چار برج تھے۔


بدھ، 1 اکتوبر، 2025

ماریشس قدرت کی لہلہاتی ہوئ سر زمین

 

خوبصورت نظاروں سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )پارت 1خوبصورت  اور لہلہاتے  قدرتی نظاروں  سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )کے ائر پورٹ 'پورٹ لوئس کے سرشِو ساگر رام غلام انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اگر آپ سورج غروب ہونے کے بعد اتریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ ایک برقی روشنی میں نہائے ہوئے شہر میں اتر رہے ہیں - بحرِہند پر واقع قدرتی خوبصورتی سے مالامال جزیرہ ماریشس ہند وستان  کے باشندوں  کا بسایا  ہوا ایک   بے مثال ملک  ہے -اس ملک میں  مشرقی اور مغربی معاشرے کا عمومی عکس پایا جاتا ہے کیونکہ یہاں کی غالب آبادی انڈیا سے تعلق رکھتی ہے، ماریشس (موریطانیہ) بحر ہند کے انتہائی جنوب میں سیر و سیاحت کے حوالے سے دنیا میں مشہور ہے۔اس کی ملکیت  مختلف جزیرے ہیں جو  نباتات اور سبزہ  سے مالامال ہیں ۔ پورے ملک میں گنے کی فصل کے علاوہ آم اور پپیتے کے درخت کثرت سے ہیں ۔ماہرینِ زراعت کے مطابق ماریشس کی زمین بہت زرخیز ہے۔ماریشس کے جزائر قیمتی پودوں اور جڑی بوٹیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔



 ایک سروے رپورٹ میں سامنے آیا کہ یہاں کئی پودے ایسے ہیں جو کینسر کے علاج میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ طبی ماہرین پر مشتمل ٹیموں نے یہاں پائی جانے والی نباتات پر تحقیق شروع کردی ہے۔ لیچی اور ناریل کے پھل یہاں بہت مرغوب ہیں۔ناری کے درخت بہتات میں ہیں اس لئے ناریل کا پانی بہت پیا جاتا ہے۔ پورے ملک میں گنے کی بھر پور فصل نظر آئے گی۔ اس کے علاوہ آپ کواکثر گھروں میں ناریل، لیچی، آم اور پپیتا کا درخت نظر آئے گا۔ اس کے علاوہ سڑکوں پر آم کے پیڑ اور پپیتے کے درخت بہتات میں نظر آئیں گے۔ پھلوں کا بادشاہ کہلانے والا پھل آم ماریشس میں بے قدری کا شکار ہے۔ یہ یہاں زیادہ نہیں کھایا جاتا بلکہ سڑکوں پر گاڑیوں کے ٹائروں تلے بے دردی سے کچلا جاتا ہے۔ اور تقریباً یہی حال پپیتے کا ہے۔ یہ بھی مرغوب پھل نہیں۔ماریشس کی زمین اس قدر زرخیز ہے کہ آپ یہاں فصل کاشت کر سکتے ہیں سوائے دھان کے ۔


 عجیب بات ہے کہ چاول جو یہاں کے باشندوں کی بنیادی غذا ہے تمام باہر کے ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں نے اب سبزی ترکاری بھی اگانی شروع کر دی ہے۔ پیاز، آلو، ٹماٹر، چقندر، گوبھی، کریلا، بھنڈی، کدو، کھیرے، پالک، بینگن، اروی اور بہت سی ایسی سبزیاں مقامی طور پر اگائی جا رہی ہیں۔ لیکن بہت سی زمین قابل کاشت پڑی ہے۔ پہاڑوں میں آپ کو بندراور ہرن بھی نظر آئیں گے۔ ماریشس کے بڑے شہر قابل دید شہر ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے طول عرض میں پھیلے ہوئے چھوٹے چھوٹے گاؤں ، قصبے اوربیچز قابل دید نظارے پیش کرتی ہیں،



سائنس دانوں نے حیرت انگیز انکشاف یہ کیا ہے کہ ان جزائر پر بعض ایسے پودے پائے جاتے ہیں جو کسی اور خطہ زمین پر موجود نہیں۔ان میں تین نباتات کو ایسالائفا انٹیگریفولیا، یوجینیا ٹینی فولیا، اور لیبروڈونیسیا گلوکا کہا جاتا ہے جو صرف اسی ملک میں پائے جاتے ہیں۔ طبی تحقیق  کے مطابق  یہاں کی کچھ مخصوص  نباتات میں سرطان کی رسولیا ں  ختم کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ماریشس کے نباتاتی خزانے کے ایک تہائی پودے برسوں سے مختلف  امراض کے علاج میں استعمال ہورہے ہیںجہاں سفر کرتے ہوئے آپ خود کو بہت ہی ہلکا پھلکا محسوس کریں گے اور قدرت کی اس صناعی کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ یہ سب نظارے ایسے ہیں کہ بار بار دیکھنے پر بھی آپ کا جی نہیں بھرتا۔

نگاہوں کو مسحور کر دینے والا سوات کا سفید مرمریں محل

  میاں گل عبدالودود (المعروف بادشاہ صاحب) بہت خوبیوں کے م بڑے بازوق  صاحب اقتدار انسان  تھے۔  سفید محل کی تعمیر کے حوالے سے شاہی خاندان کے میاں گل شہر یار امیر زیب باچا (بادشاہ صاحب کا پڑپوتا) کا کہنا ہے کہ 'در اصل بادشاہ صاحب ہندوستان گئے تھے جہاں ایک دن ان کا گزر راجھستان کے علاقہ سے ہوا۔ وہاں انھوں نے سفید  سنگ مر مر  دیکھا۔ ان دنوں راجھستان   کے  علاقے میں یہ سنگ مر مر  بہت شہرت رکھتا تھا۔ بادشاہ صاحب نے راجھستان کے اس وقت کے مہاراجا کا محل دیکھا جس میں اسی سفید  سنگ مر مر  کا استعمال کیا گیا تھا۔ بادشاہ صاحب اس محل سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ بعد میں جے پور سے اسی سفید سنگ مرمر  کو لایا گیا'۔سفید محل کے اندر سے صحن کا منظرایک روایت یہ بھی مشہور ہے کہ سفید محل میں استعمال ہونے والا ماربل دراصل وہی  سنگ مر مر  ہے جو تاج محل (آگرا، ہندوستان) میں استعمال ہوا ہے۔ اس محل کے گراؤنڈ فلور پر قائم کمر ےریاستی دور میں وزیروں اور مشیروں کے لیے مخصوص تھے۔سفید محل کے اندر لگے ریاستی دور کے برقی قمقمے اور پنکھے جو اَب نایاب ہیں۔بادشاہ صاحب کا ٹیبل لیمپ بادشاہ صاحب کا ٹیلی فون۔اور بادشاہ صاحب کے وقت کی نایاب اشیاء موجود ہیں 


’مرغزار‘‘ ضلع سوات کا واحد پرفضا مقام ہے جو مرکزی شہر مینگورہ سے تقریباً بارہ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ سیاح صرف قدرتی حسن اور معتدل موسم کی وجہ سے مرغزار کا رخ نہیں کرتے بلکہ وہاں پر قائم ریاست سوات دور کی ایک تاریخی عمارت سفید محل (1941ء) کی سیر کرنے بھی جاتے ہیں۔کیونکہ سیاح اگر سوات آیا اور اسنے مرغزار کی حدود میں اس نایاب سفید محل کی سیر نہیں کی تو پھر اس نے  سوات کی سیر کو ادھورا چھوڑا مینگورہ: جدید ریاست سوات کے بانی میاں گل عبدالودود المعروف بادشاہ صاحب (1881ء تا 1971ء) کے حکم سے جب سنہ 1941 کو سفید محل کی تعمیر مکمل ہوئی، تو اس محل کی بدولت مرغزار کا علاقہ ایک طرح سے ریاست سوات کے موسم گرما کا دارالحکومت ٹھہرا۔ گرمیوں میں یہاں سے شاہی فرمان جاری ہوا کرتے تھے۔ آج بھی سات دہائیاں گزرنے کے باوجود سفید محل مرجع خلائق ہے۔مگر سفید محل کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کا اولین نام ’’موتی محل‘‘ تھا۔



سفید محل کے اندر دیوار پر ٹانکی گئی میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب کی ایک نایاب تصویر بھی موجود ہے۔سفید محل تاریخی حوالہ سے اس لیے بھی مشہور ہے کہ یہاں سے ریاستی دور میں رعایا کے مستقبل کے فیصلے ہوا کرتے تھے۔شہر یار امیر زیب باچا کے مطابق جب محل تعمیر ہوا، تو گرمیوں کے موسم میں حکومت کے امور سیدو شریف کی بجائے مرغزار میں طے ہوتے تھے۔ باالفاظ دیگر سردیوں میں ریاست سوات کا دارالخلافہ سیدو شریف اور گرمیوں میں سفید محل کی بدولت مرغزار ہوا کرتا تھا۔ریاستی دور کی تصاویر جن میں بادشاہ صاحب اور والئی سوات کی تصاویر نمایاں ہیں۔شہر یار کا کہنا ہے کہ مین بلڈنگ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے، تو اس میں ایک ڈرائننگ روم، ایک ڈائننگ ہال، ایک میٹنگ روم اور ایک بادشاہ کا اپنا کمرہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کے احاطے میں دو تین درجوں میں کمرے بنائے گئے ہیں۔ جب بادشاہ صاحب گرمیوں میں مرغزار کا رخ کرتے، تو ان کے وزیر مشیر اور خان خوانین ان کے ہمراہ ہوتے۔



دوسرے درجے پر تعمیر شدہ کمروں میں یہی وزیر مشیر اور خان خوانین ہوتے اور تیسرے درجے میں تعمیر شدہ کمروں میں فیملی ممبران ہوا کرتے تھے۔بادشاہ صاحب کے بیڈ روم کے متصل ان کے خاص مہمانوں کے لیے مخصوص شدہ کمرہ۔ یہ وکٹورین طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ یہ اس وقت اپنی نوعیت کی پہلی عمارت تھی۔س عمارت کے تین حصے ہیں۔ محل کا پہلاحصہ بادشاہ صاحب کے لیے مخصوص تھا۔ دوسرا حصہ جس کے لیے سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں،وی آئی پی شخصیات کے لیے اور تیسرا اور آخری حصہ خواتین اور انگریزوں کے لیے مخصوص تھا جب کہ محل کی بیک سائٹ   کی جگہ  با ورچیوں اور دیگر خدام کے لیے تھی ۔بادشاہ چوں کہ مذہبی شخصیت تھے، اس لیے جا بجا مساجد نظر آتی ہیں۔ سفید محل کے کھلے علاقے میں جو مسجد تعمیر کی گئی ہے، اس میں بادشاہ نماز پڑھنے اور قرآن شریف کی تلاوت کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن پھر    بادشاہ  صاحب  کی وفات کے بعد یہ  نایاب محل  ان کے وارث کے حصے میں آیا۔ جنہوں نے اس کی  دیکھ بھال کی اور رینو ویٹ  کر  کے  اس کو ہوٹل میں کنورٹ کر دیا  اور  اب  سفید محل  مرغزار آ نے  والے سیاحوں کےلئے ایک اچھا پکنک پوائنٹ بن چکاہے ۔‘‘ 

پیر، 29 ستمبر، 2025

پاکستانی ادیبہ ملک کا برطانیہ کے بادشاہ چارلس سوم کی لارڈ لیفٹیننٹ کے عہدے پر تقرر

 

 یہ  برطانیہ  کا دستور ہے  کہ لارڈ لیفٹیننٹ   برطانیہ کے بادشاہ ہر کاؤنٹی سےوزیراعظم کی مشاورت سے اپنا ایک نمائندہ چنتے ہیں جو بادشاہ کے مفادات اور وقار کے لیے کام کرتا ہے۔ یہ ان کی  ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق ہے -ادیبہ ملک کے والد محمد صادق کا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ 1958 میں برطانیہ منتقل ہو گئے تھے۔ ان کی والدہ فہمیدہ کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ ادیبہ ملک 30 ستمبر 1966 کو بریڈ فورڈ میں پیدا ہوئیں (مسلم ویمنز کونسل فیس بک)ویسٹ یارک شائر کے شہر بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والی پاکستانی نژاد خاتون ادیبہ ملک کو برطانوی بادشاہ چارلس سوم کی جانب سے لارڈ لیفٹیننٹ مقرر کیا گیا ہے۔اس طرح وہ اس عہدے پر براجمان ہونے والی پہلی خاتون، مسلمان اور ایشیائی خاتون بن گئی ہیں۔ ادیبہ ملک کون ہیں؟ یہ عہدہ کیا ہوتا ہے اور موجودہ حالات میں بادشاہ کی جانب سے اس تقرری کو کیوں اہم قرار دیا جا رہا ہے؟ادیبہ ملک کون ہیں؟58 سالہ پروفیسر ادیبہ ملک بریڈ فورڈ کےغیر سرکاری ادارے کیو ای ڈی فاؤنڈیشن سے بطور ڈپٹی چیف ایگزیکٹو آفیسر وابستہ ہیں،



ادیبہ ملک گذشتہ 30 سال سے اقلیتی طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہی ہیں۔ اس ادارے کے چیف ایگزیکٹو اور بانی ڈاکٹر محمد علی ہیں جن کا تعلق ضلع اٹک کی تحصیل حضرو سے ہےادیبہ ملک کے والد محمد صادق کا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ 1958 میں برطانیہ منتقل ہو گئے تھے۔ ان کی والدہ فہمیدہ کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ ادیبہ ملک 30 ستمبر 1966 کو بریڈ فورڈ میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے گرنج سکول بریڈ فورڈ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہل یونیورسٹی سے گریجویشن اور پھر ماسٹرز کیا جس کے بعد بطور استاد پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ وہ کابینہ آفس کی سٹیٹ آنرز کمیٹی اور ہوم آفس کے سٹریٹیجک ریس ایڈوائزری بورڈ کی ممبر ہیں،شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی کی گورنر بھی ہیں۔ انہیں ویمن اور ہوم میگزین نے جولائی 2023 کے ایڈیشن میں ’برطانیہ کی حیران کن خواتین‘ کی فہرست میں ٹاپ ٹین میں شمار کیا تھا۔انہیں گذشتہ سال ویسٹ یارک شائر کی ہائی شیرف بھی مقرر کیا گیا تھا۔ 


انہیں 2004 میں ایم بی ای اور 2015 میں سی بی ای کے قومی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔نہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کاؤنٹی کی 24 لاکھ سے زائد آبادی کے لیے بادشاہ معظم نے مجھے اپنا نمائندہ مقرر کر کے میری ہی نہیں تمام اقلیتی طبقوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ میں لارڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے ویسٹ یارک شائر کے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے پر جوش ہوں۔‘لارڈ لیفٹیننٹ کا عہدہ کیا ہے؟لارڈ لیفٹیننٹ کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق برطانیہ کے بادشاہ ہر کاؤنٹی سے وزیراعظم کی مشاورت سے اپنا ایک نمائندہ چنتے ہیں جو بادشاہ کے مفادات اور وقار کے لیے کام کرتا ہے۔بادشاہ یا شاہی خاندان کے جتنے دورے کاؤنٹی میں ہوتے ہیں ان کا انتظام و انصرام بھی لارڈ لیفٹیننٹ کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بادشاہ کی جانب سے رائل گارڈنز میں جتنی بھی تقریبات ہوتی ہیں ان میں جو جو لوگ شریک ہوتے ہیں انہیں بھی لارڈ لیفٹیننٹ ہی بادشاہ کی جانب سے مدعو کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ مسلح افواج کی حمایت بھی انہی فرائض کا حصہ ہے۔


بادشاہ کی جانب سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی جن جن شخصیات کو ایوارڈز دیے جاتے ہیں ان کی نامزدگی میں سب سے اہم کردار بھی لارڈ لیفٹیننٹ کا ہی ہوتا ہے۔ لارڈ لیفٹیننٹ اپنے علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے خیراتی اداروں کے ساتھ مل کر کام بھی کرتا ہے۔ ان سب عوامل کے باوجود ادیبہ ملک کو بادشاہ کا نمائندہ نامزد کرنا غیر معمولی ہی سمجھا جا رہا ہے۔انگلینڈ میں 48 کاؤنٹیز ہیں جن میں ویسٹ یارک شائر آبادی کے لحاظ سے چوتھی بڑی کاؤنٹی ہے۔بریڈ فورڈ کی مساجد کی تنظیم کونسل برائے مساجد کے سابق ترجمان اشتیاق احمد نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ادیبہ ملک یہ عہدہ پانے والی پہلی غیر سفید فام، ایشیائی اور مسلمان خاتون  بور لارڈ لیفٹیننٹ تقرری کو کیوں اہم قرار دیا جا رہا ہے؟لارڈ لیفٹیننٹ کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق برطانیہ کے بادشاہ ہر کاؤنٹی سے وزیراعظم کی مشاورت سے اپنا ایک نمائندہ چنتے ہیں جو بادشاہ کے مفادات اور وقار کے لیے کام کرتا ہے۔

یہ تحریر انٹرنیٹ سے لی گئ ہے 


اتوار، 28 ستمبر، 2025

مرکزروحانیت و تجلیات 'مسجد جمکران 'ایران

 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مسجد مقدس جمکران کے 1073 ویں سالگرہ کے موقع پر آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی نے اپنے پیغام میں ماہ مبارک رمضان کی عبادات کی قبولیت اور ایام شہادت حضرت علی (علیہ السلام) پر تسلیت پیش کرتے ہوئے مسجد جمکران کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی۔انہوں نے شیخ صدوق (رحمت اللہ علیہ) کے حوالے سے بیان کیا کہ یہ مسجد صرف ایک خواب کا نتیجہ نہیں بلکہ حضرت صاحب الامر (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی براہ راست ہدایت پر حسن بن مثله جمکرانی کے ذریعے تعمیر کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مسجد جمکران ایک ہزار سال سے زائد عرصے سے اللہ سے راز و نیاز اور امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجه الشریف) کی طرف توجہ کا مقام رہی ہے۔آیت اللہ مکارم شیرازی نے اس مسجد میں انجام دیے جانے والے مخصوص اعمال کو توحیدی اور مؤمنین کی روح و جان کو پرووان چڑھانے والے اعمال قرار دیا۔ انہوں نے زائرین کے توسل اور دعاؤں کی کیفیت کو صحرائے عرفات میں حاجیوں کی مناجات سے تشبیہ دی



 اور کہا کہ ہر زائر یہاں اپنے دل کے بوجھ کو ہلکا کرنے آتا ہے اور یہاں سے روحانی تازگی اور اجابت کے ساتھ واپس جاتا ہے۔ نہ  ۔محدث اور فقیہ بزرگوار مرزا حسین نوری نے ایک شخص بنام حسن بن مثلہ جمکرانی سے نقل کیا ہے کہ امام مہدیؑ سے ان کی ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے مجھے اس جمکران نامی گاؤں میں مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔حسن بن مثلہ کی روایت کے مطابق 17 ماہ رمضان المبارک 373 ہجری(22 فروری، 984 عیسوی)کو جب وہ اپنے گھر سویا ہوا تھا تو ایک گروہ نے اسے آکر بیدار کیا اور کہا : اپنے مولا وآقا، امام مہدیؑ کی نداء پر لبیک کہو۔حسن بن مثلہ جمکرانی کہتاہے:میں اپنے گھر سے اس جگہ پر آیا جہاں پر ابھی مسجد جمکران موجود ہے وہاں پر میری ملاقات ایک 33 سالہ جوان اور ایک بوڑھے شخص سے ہوئی، وہ 33 سالہ جوان امام مہدیؑ اور وہ بوڑھا شخص حضرت خضرؑ تھے جنہوں نے مجھے بیٹھنے کو کہا۔ اس کے بعد امام مہدیؑ نے مجھے اس جگہ پر مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ اس وقت سے یہ مسجد ہر خاص و عام کی توجہات کا مرکز ہے



 لیکن اسلامی انقلاب کے بعد مسجد جمکران ایک عظیم الشان عمارت میں تبدیل ہو چکی  ہے جہاں ہر ہفتے شبِ بدھ کو ہزاروں کی تعداد میں زائرین مغرب کی نماز کے بعد دعائے توسل کی تلاوت اور اپنی حاجات طلب کرتے ہیں اور  15 شعبان امام مہدیؑ کی ولادت کی شب جشن منانے کی خاطر لاکھوں کی تعداد میں مومنین اور عاشقانِ مہدیؑ جمع ہوتے ہیں اور مناجات ، دعا ، نماز اور عبادات میں شب گزارتے ہیں    انہوں نے زور دیا کہ صوبے کی مرکزی توجہ ایک بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد پر تھی جس کا موضوع "انتظار" تھا۔ انہوں نے بتایا کہ تخمینے کے مطابق چار دن کے دوران قم صوبے میں چار ملین سے زائد زائرین نے شرکت کی، یہ وسیع شرکت اس وقت ہوئی جب کہ بہت سے ملک کے بہت سے صوبے شدید سردی اور برفباری کا سامنا کر رہے تھے۔



حجت الاسلام حسینی مقدم نے زائرین کی سہولت کے لیے قائم کردہ اسٹاف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس اسٹاف نے 12 کمیٹیوں کے ذریعے زائرین کو بہترین خدمات فراہم کرنے کی کوشش کی۔ ان کمیٹیوں میں سے ایک عوامی کمیٹی تھی جس کے تحت 800 عوامی گروپوں اور انجمنوں نے بلوار پیامبر اعظم کے سات کلو میٹر طویل راستے پر اپنی خدمات پیش کیں۔ اس کے علاوہ، مقامی گروپوں نے مختلف محلوں میں بھی پروگرام منعقد کیے۔انہوں نے اس دوران وسیع ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ثقافتی پروگراموں کا اہتمام بڑے پیمانے پر کیا گیا اور زائرین میں انتظار امام اور معنویت کا جذبہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ مختلف قسم کی میزبانی، طبی اور صحت کی خدمات، نیز ہلال احمر کے 200 سے زائد اراکین کی جانب سے ضروری مدد کی فراہمی، زائرین کو پیش کی گئی خدمات میں شامل تھیں۔

اب تو بھیڑیا مجھے کھا جائے گا -زرا عمر رفتہ کو آواز دینا

 مجھے  اپنے بچپن کے یہ دن بھلائے نہیں بھولےلاکھوں جھگیوں میں ہندوستان سے آئے ہوئے بے خانماں  شرفاء کے گھرانے  جو بس چاہتے تھے کہ  وہ  زمانے سے اپنے آپ کو چھپا کر رکھیں کیونکہ یہ دور بہت ہی نا آسودہ اور مشکل دور تھا اس  جب ہمارے گھرانے نے  ائر فورس کی چھاؤنی سے  لالوکھیت نقل مکانی کی تھی  اس وقت میری عمر   میری  عمر چار برس  تھی   عمر کے اس دور کے خوف بھی عجیب تھے ،راتوں کوبھیڑیوں کے  بڑے بڑے غول کے غول جھگیّوں کے آس پاس اپنی مکروہ آوازوں میں بولتے ہوئے اور غرّاتے ہوئے پھرتے تھےاس پر گھر کے بڑوں نے یہ باور کروا دیا تھا کہ بھیڑئے بچّوں کو منہ میں دبا کر اٹھا لے جاتے ہیں ہمارے بڑوں نے ہمیں اس لئے ڈرایا تھا کہ ہم بچّے دن میں گھر سے باہر نہیں پھریں لیکن اس ڈرانے کا نتیجہ میرے اوپر یہ ہوا کہ میں راتوں کو ڈر کے مارے جاگنے لگی،پھر یہ یہ خوف مستقل میرے زہن سے چپک گیا تھا کہ کسی رات کو بھیڑیا مجھے بھی سوتے میں اپنے منہ میں دبا کر چل دے گا



اور  مجھے کھا جائے گا یہ خوف مجھے ساری ساری رات جگائے رکھتا تھا نہی دنوں ایک رات  ہمارے یہاں   زور زور کی چیخ پکار ہونےلگی -میری آنکھ کھل گئ تب مجھے معلوم ہوا سچ مچ  ہماری جھگی کی چٹائ کو جانور پھاڑ رہا تھا کہ اباجان کی آنکھ کھل گئ اور انہوں نے اس جانور کو بھگا یا لیکن   وہ وقت  مجھے    بچّوں کی نفسیا ت کا یہ تجربہ بھی دے گیا کہ بچّے کی سوچوں کی دنیا صرف اپنی زات کے گرد ہی گھومتی ہے ،میں یہ کیوں نہیں سوچتی تھی کہ بھیڑیا میری چھوٹی بہن یا ننھے بھائ کو بھی تو لے جاسکتا ہے ڈر تھا تو بس اس بات کاکہ بھیڑیا مجھے لے جائے گااور پھر کھا جائے گا   بہر حال وہ کڑا وقت بھی آخر گزر ہی رہاتھا  پھر یون ہوا کہ میرے چھوٹے ماموں  سید سرکار حیدر (ان دنوں ایک 15/سولہ برس کے دبلے پتلے   سے نو عمر نوجوان ہوتے تھے )   لکھنؤ چلے گئے گھر میں معلوم ہواکہ کلیم کے کاغذات لینے گئے ہیں  ماموں جان  واپس آئے تو انہوں  نے سخت خفگی کا اظہار کیا تو میری امی جان نے میرے مامو ں جان سے کہا شکر کرو کہ زندہ سلامت لوٹ آ ئے ہو 


کیونکہ ان کے گھر پر  میرے نانا جان کے وہ عزیز قبضہ کر چکے تھے جن کو وہ اپنی امانت سپرد کر کے آئے تھے -اب سوچئے کہاں ایک پندرہ سولہ برس کا بچہ کہاں ایک زورآور قبضہ گروپ  'بس ماموں جان نے باغ وہیں لکھنؤ میں ہی فروخت کر دیا اور پیسہ کراچی لے کر آ گئے -یہ پیسہ اتنا تھا کہ میرے دو ما موؤوں اور میری امی سمیت تین بہنوں میں ترکہ تقسیم ہوا اور میری امی جان نے اس رقم سے ہمارے تنکے کے آ شیانے  کو پختہ گھر میں بدل دیا -ا ب میرا  ابتدائ تعلیمی سفر بھی شروع ہو چکاتھا اس زمانے میں رواج تھا کہ بچّے کو پہلے گھر پر ہی تین یا چار جماعتیں پڑھائ جاتی تھیں پھر اسکول میں داخلہ ہوتا تھا ،یہ بچّے اور اس کے گھر والوں کے لئے ایک اعزاز کی بات تھی کہ وہ گھر سے اتنا سیکھ کر اسکول آیا ہے چنانچہ میری تعلیمی زندگی کی باگ ڈور حسب حال میری والدہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی  تھی  


،اب تختی کے ایک جانب وہ گہری پنسل سےالف  'ب لکھتی تھی اور دوسری جانب ایک سے دس تک گنتی ہوتی تھی اور ان کے لکھے ہوئے  برو کے قلم کو دوات میں ڈبو کر پھر اسے احتیاط سے نکال کر کہ سیاہی ادھر ادھر گرے نہیں مجھے ان کی تحریر پر قلم سے لکھنا ہوتا تھا   'اب تختی کی پریکٹس اپنی جگہ اہم تھی تو دوسری جانب میری امی جان نے  ہم بہن بھائیوں کو  سلیٹ اور چاک کے زریعہ بھی  لکھائ کے ہنر میں طاق کیا  - وہ ایک لفظ کو سلیٹ پر بار بار لکھواتی تھیں 'پہاڑے یاد کرنا  میرے لئے مشکل ترین کا م ہوتا تھا '  بہر حال  میں اپنی پیاری ماں کے کہنے کے مطابق سب  کام کر لیا کرتی تھی ،،پڑھنے لکھنے کے علاوہ میرا اہم کام اپنے والدین کے گھر تین برس یا اس کچھ کم یا اس کچھ زیادہ کی مدّت پر آنے والے اپنے چھوٹے بھائیوں کی دیکھ بھال تھی 






















زرا عمر رفتہ کو آواز دینا -جب مجھے ادب کا چسکہ لگا

 

میرا بچپن عام بچّوں کا بچپن نہیں تھا یہ وہ زمانہ تھا جب مہاجروں کے گھروں میں پانی کے لئے علاقے میں پانی کے ٹینکر آیا کرتے تھے اور میں بہت چھوٹی سی عمر میں ٹینکرکی آواز محلّے میں آتے ہی اپنا کنستر لےکر پانی لینے والوں کی لائن میں کھڑی ہو جاتی تھی ،اور ہمارے محلّے کا کوئ خداترس انسان میرا کنستر بھر کر ہمارے دروازے تک یا گھر کے اندر تک رکھ جایا کرتا تھا اس کے علاوہ پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ماشکی بھی صبح شام ایک ایک مشک پانی  معمو لی قیمت پر ڈال جاتا تھا پھر یوں ہوا کہ کچھ عرصے بعد پانی کے ٹینکر کا آنا موقو ف ہو گیا اورہماری گلی کے ختم پر  ایک عدد حوضی بنا کر اس میں سرکاری نل سے پانی کی ترسیل کا انتظام کیا گیا،میرے والد صاحب ،،اپنے والد صاحبکے تذکرے کے تصّور سے ہی   بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ہین کیونکہ مجھے اپنے والدکا بنک جانے سے پہلے نمازفجر کے وقت حوضی سے پانی بھرنا یاد آرہا ہے میں ابھی اتنی بڑی نہیں تھی کہ ان کاموں میں والد کا ہاتھ بٹا سکتی لیکن زرا سا وقت گزرنے پر  گھر میں پانی کی کمی پوری کرنے کے لئے میں نے یہ ڈیوٹی اپنے زمّے لے لی تھی 




،میرے بھائ جان مجھ سے صرف سوا سال ہی بڑے تھے اور باجی جان ان سے تین برس بڑی تھین  ،یعنی ابھی ان کا کوئ بچّہ باہر کے کام کرنے کے قابل نہیں ہوا تھا ,,اسوقت ایک خدا ترس انسان نے اپنے گھر کے سامنے ایک کنواں بنوا کر وقف عام کر دیا تھا چنانچہ میں نے زرا سا ہوش سنبھانے پر یہ اہم ڈیوٹی اپنے زمّہ لے لی تھی کہ والد صاحب کے لائے ہوئے پانی کے علاوہ جو بھی کمی ہوتی اسے خود سے چھوٹے چھوٹے ڈول لے جا کر پانی بھر کر لے آیا کرتی تھی اور گھر میں پانی کی کمی   پوری کر دیا کرتی تھی اس وقت ہمارے محلّے میں کوئ حوضی نہیں بنی تھی لیکن اپنے گھر سے بیس منٹ کے فاصلے سے  کنوئین سے پانی بھر کر لانے لگی اس کنوئیں میں چمڑے کی بالٹی ایک مو ٹے رسّے کے زریعے کنوئیں کی تہ تک اتار کر بھر لی جاتی اور پھر الٹی چرخی چلا کر پانی کھینچ لیا جاتا تھا ،یہ ایک بہت محنت طلب کام ہوتا تھا لیکن میں اس کام کو بھی سر انجام دے لیا کرتی تھی  اس کے علاوہ جھٹ پٹا ہوتے ہی گھر کی لالٹینیں اور لیمپ روشن کرنا بھی میرے زمّے تھا 


میں سب لالٹینوں کی چمنیاں نکال کر ان کو چولھے کی باریک سفید راکھ سے پہلے انہیں  صاف کرتی پھر صابن سے دھو کر خشک کرتی تھی تو لالٹین کی روشنی بہت روشن محسوس ہوتی تھی،کوئلو ں کی سفید راکھ بنانے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ دہکتے ہوئے کوئلوں کو یونہی چھوڑ دیا جاءے تووہ خود بخود بجھتے جاتے ہیں اور ان کے اوپر سفید راکھ کی موٹی تہ جمتی جاتی ہے یہ راکھ دیگچیوں کے پیندوں کو اجلا کرنے کے لئے بھی استعمال کی جاتی تھی میں اس راکھ کو ایک ڈبّے میں محفوظ کر لیتی تھی اس کے ساتھ ساتھ میری ایک اہم ڈیوٹی گھر میں جلانے کے لئے ٹال سے لکڑیاں لانے کی بھی تھی ،اور یہ کام کوئ مجھ سے جبریہ نہیں کرواتا تھا بلکہ میں اپنی والدہ کے لئے کام کی سہولت چاہتی تھی با لآخرزمانے کے ان نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے ہمارے گھرانے کی علمی صحبتیں برقر ار ہی تھیں اور ان ادبی صحبتوں کارنگ بھی میری زات پر نمایاں ہو نے لگا تھا  اور میں نے بہت جلد برّصغیر کے نامور ادیبو ں کیلا تعداد کتابیں پڑھتے ہوئے حفظ کر لی تھیں ،ان نامور ادباء میں کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی عصمت چغتائ ،قرّۃ العین حیدر ،عظیم بیگ چغتا ئ ،را م لعل ،ساحر لدھیا  اور اس وقت کے جو بھی مشہور ادیب اور شاعر تھے  


 

سب کو بار بار پڑھایہ وقت جب ادب کے آسمان پر پاکستانی ادب بھی بھر پور انداز سے اپنا آپ منوانے کی جستجو مین جٹا ہواتھا اور یہاں کے ادیب بھی ہندوستانی ادیبوں سے کسی طور پر بھی کم نہیں تھے کرنل محمّد خان ،مشتاق احمد یوسفی  بریگیڈئیر صدّیق سالک ،ممتاز مفتی جبکہ خواتین بھی ادب کے میدان پر جلوہ افروز ہو چکی تھِن اور بھی کہنہ مشق ادیب و شاعر پاکستانی ادب کے آسمان پرجگمگا رہے تھے چنانچہ شادی سے پہلے تو میں بس پڑھتی ہی چلی گئ لکھنے کی باری  شادی کے بعد میں آئ جب کہ یہ احساس دل میں اجاگر ہواکہ میں کچھ کچّا پکّا ادب بھی تحریر کر سکتی ہوں لیکن میرے ادبی شوق کی ابتدا میرے بچپن کے ابتدائ دور میں ہی ہو چکی تھی بس اردو پڑھنی آئ ہی تھی کہ مجھے بچّوں کی کہانیاں پڑھنے کا چسکہ لگ گیا تھا اور شاعری میں بھی خاص دلچسپی لینے لگی تھی  مجھے ابھی بھی اچھّی طرح یاد ہے کہ میں نے  چھٹی کلاس میں ایک نظم اپنے وطن سے محبّت کے اوپرپڑھی تھی یہ ہمارے اسکول کی جانب سے طالبات کا مشاعرہ تھا جو بیگم رعنا لیاقت علی خان کے قائم کردہ فلاحی ادارے  اپوا کے زیر اہتما م ہواتھا اس مشاعرے میں ایک مشہور علمی گھرانے کی قد آور  شخصیت محترمہ وحیدہ نسیم صاحبہ مہمان خصوصی کے طور پر بلائ گئیں تھیں ،

 

انہوں نے میری نظم سن کر مجھے شاباشی بھی دی تھیاور پھر کلاس ہشتم کے بعد ہی اس زمانے کے رواج کے مطابق میری شادی ہوگئ -پچّیس اپریل انّیس سو پینسٹھ کی ایک سہانی شام میں اپنے والدین کے گھر سے اپنےمحترم شوہر نامد ار سیّد انوار حسین رضوی کے گھر آگئ ،میرے شوہر صاحب تو مجھے بہت ارمان سے بیاہ کر لائے تھے لیکن  در حقیقت اپنے سسرالی عزیزوں کے لئے میرا وجودایک دھچکے سے کم نہیں تھا وہ سر خ وسفید رنگت کے حامل مردانہ وجاہت اور حسن کا پیکر تھے اور میں قبول صورت سے بھی شائد کچھ کم اس پر میری رنگت گہری سانو لی ،مجھے اچھّی طرح یاد ہئے جب میرے شوہر صاحب نے میری والدہ سے میرا رشتہ مانگا تھا میری والدہ نے ان سے پہلی بات یہی کہی تھی کہ میاں میری لڑکی کا رنگ گہرا سانولا ہئے تم اس کو کا لی رنگت کے طعنے تو نہیں دو گے میرے شوہر اس بات پر کچھ جز بز تو ہوئے لیکن پھر انہوں نے میری والدہ سے کہا تھا کہ مجھے گہرا سانولا رنگ ہی پسند ہئے دراصل خاندان میں ا ن کو شادی کرنی نہیں تھی اس لئے سب ہی قریبی عزیز ان کی ہونے والی شریک حیات کو  ان کی ہی طرح کی خوبصورت  دیکھنے کے متمنّی تھے 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر