مومنہ عباسی نام کی لڑکی کی اس اسٹوری نے مجھے بہت متاثر کیا -کیونکہ اس تحریر میں مجھے ہمت اورحوصلہ نظر آیا اس لئے میں اپنے قارئین سے بھی شئر کر رہی ہوں -میرا نام مومنہ عباسی ہے اور میں مری کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتی ہوں امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے. میں آج اپنی زندگی کی کہانی لے کر آئی ہوں کہ کیسے ایک چھوٹی سی غفلت سے میری پوری زندگی بدل گی. یہ سال 2013 کی بات ہے جب میری عمر 13 سال تھی اور میں مری کے ایف جی سکول میں ساتویں جماعت کی تعلیم حاصل کر رہی تھی. اسی سال اچانک میری کمر اور ٹانگوں میں شدید درد رہنے لگا. مری کے ڈاکٹرز سے کافی چیک اپ کرایا لیکن ڈاکٹرز کا کہنا تھا سکول چل کر جانے کی وجہ سے کمزوری ہو گی اور پٹھے کمزور ہو گے ہیں. 5 سے 6 ماہ تک یہی چلتا رہا اور multi vitamin جیسی دواؤں کا استعمال چلتا رہا لیکن درد کے ساتھ ساتھ میری ٹانگوں سے حرکت بھی ختم ہو گی اور 16 اکتوبر 2013 کو میں مکمل طور پر ویل چئیر پہ آ گی تھی. اسلام آباد کے ڈاکٹرز سے چیک اپ اور ٹیسٹ کرانے کے بعد پتہ چلا کے ریڑ کی ہڈی میں رسولی ہو گئ ہے. جسکا آپریشن کرانا پڑا
. جس میں آپریشن کے دوران حرام مغز کو ہلکا سا کٹ لگ گیا جسکی وجہ سے میں مکمل طور پہ معذور ہو گئ.اسکے بعد کے چار سال تک تھوڑا مشکل ٹائم تھا اس بات کا یقین کرنا مشکل تھا کے ایک دم سے زندگی اتنی بدل کیسے گئی ہے. . میری پوری فیملی نے مجھے بہت سپورٹ کیا خیال رکھا. لیکن انسان کو خود اپنی زندگی کو صحیح کرنا ہوتا۔ ہمارے آس پاس کے لوگ زندگی میں آسانی لانے کا سبب بن سکتے ہیں لیکن ہمیں اپنی زندگی کو آسان اور خوبصورت صرف اپنی کوشش میں کرنا ہوتا ہے . مجھے بھی یہ بات سمجھنے میں 4 سال لگ گے اور پھر میں نے اپنی تعلیم دوبارہ سے شروع کی. میں نے تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ گھر والوں کی چھوٹے چھوٹے کاموں میں مدد کرنا شروع کر دی میں بس یہی دیکھتی کے ایسا کون سا کام ہے جو میں بیٹھ کے کر سکتی ہوں اور گھر والوں کی مدد کر سکتی ہوں تا کہ میں کسی پر بوجھ نا رہوں.. اور ایسے ہی میں نا صرف گھر کے سارے کام کرنے کے قابل ہو گی بلکہ خود بھی اپنا آپ سنبھالنے میں مکمل طور پر independent ہو گی.
اس حوصلہ افزائ نے میرے اندر یہ احساس اجاگر کیا کہ مجھے کسی انسان کے ایسے ساتھ کی ضرورت نہیں رہی کہ وہ میری مدد کرے. یہ سوچ میرے اندر بہت کانفیڈینس لائ اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے احساس ہوا کہ آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اس دور میں بہت سے چیزیں آسان اور ممکن ہو گئ ہیں انسان گھر بیٹھے ایک فون سے بھی پوری دنیا سے کونٹکٹ کر سکتا ہے اور بہت سے کام کر سکتا ہے اور میں نے اپنے فون کا استعمال اس انداز میں کرنا شروع کیا ہے اپنے ہر فارغ ٹائم میں کسی نا کسی طرح کی نالج گین کرتی فیشن سے لے کر پڑھائ تک بزرگوں کی باتوں سے بچوں کے شوق تک ہر ایک بات کی معلومات رکھتی تا کہ میں ویل چیئر پر رہتے ہوۓ اپنی باتوں اور الفاظ کے استعمال سے اپنی فیملی دوست رشتہ داروں سے انکی ذات کے مطابق گفتگو کروں تا کہ میری ذات کسی کو بورنگ اور ایک بیمار معذور انسان جیسی نا لگے میں اپنے آپ کو ایک نارمل انسان کی طرح لوگوں کے دماغ میں رکھنا چاہتی تھی اور میں اس میں مکمل طور پر کامیاب رہی.
میں آج میں اپنے خاندان میں اچھی ڈسکشن کی وجہ سے مشہور ہوں جس نے مجھے ہمیشہ تنہائی اور اکیلے رہنے سے بچائے رکھاہے - اور اس کے ساتھ ہی میں نے موبائل فون کے استعمال سے ایسے آنلائن کام کی تلاش شروع کی جو میری جیسے انسان کو گھر بیٹھے آرام سے معاشی طور پہ مضبوط بنا سکے اور میں نے آنلائن سکلز پہ کام شروع کیا. سب سے پہلے میں نے وائس اوور آرٹسٹ کے طور پہ آنلائن کام شروع کیا مجھے لگا اپنی اواز کے استعمال سے بھی انسان کام کر سکتا ہے بس انفارمیشن کی کمی تھی اسکے بعد آہستہ آہستہ میں نے آنلائن فلیڈز کو جوائن کیا اور گیارہ سال گزر جانے کے بعد میں اپنی زندگی سے بہت خوش اور مطمئن ہوں. میرا ماننا ہے اللہ پاک نے ہر انسان کی زندگی میں کی کوئی نا کوئی مشکل ضرور رکھی ہوتی ہے ہمیں اپنی مشکل میں ہمت بھی کرنی چاہئے اور اپنی زندگی کو آسان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے -الحمداللہ میں نے سپیشل افراد کے لیے معذور فاونڈیشن کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے جس کا مقصد معذور افراد کو ویل چیئرز کی فراہمی، آلہ سماعت کی فراہمی، انکی میڈیسن اور تعلیم وغیرہ کے لئے مالی مدد فراہم کرنا ہے گورنمنٹ کی طرف سے معذور افراد کے لیے جاری کیے گئے پروگرامز کے متعلق معذور افراد کو آگاہ کرنا انکی بہترین طریقے سے تربیت کرنا اسکے علاوہ معذور افراد کو اپنے حقوق کے بارے میں شعور دینا اور زندگی سے مایوس ہوچکے لوگوں کو موٹیویٹ بھی کرنا ہے تاکہ انکے اندر کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہو اور وہ بھی معاشرے کے مفید شہری بن کر جی سکیں
یہ اسٹوری انٹر نیٹ سے لی ہے
اسی لئے تو کہتے ہیں ہمت مرداں مددے خدا
جواب دیںحذف کریں