جمعرات، 5 جون، 2025

سفیر امام ع حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ)

  


حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابوطالب کے فرزند تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو  حال مناسب لگی اور انہوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں   حضرت مسلم بن عقیل حضرت امام حسین ؑ مدینے سے ہی آپ کے ہمراہ تھے ۔ مکے میں کوفیوں کے خطوط کی کثرت کو دیکھتے ہوئے امام نے عراق کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے حضرت مسلم کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ۔اگر وہاں کے حالات کوفیوں کے خطوط کی غمازی کرتے ہوں تو آپ کوفہ کی جانب سفر کریں گے ۔جناب مسلم بن عقيل امام حسين عليہ السلام كے خط كے ساتھ كوفہ ميں جناب مختار كے گھر پہنچے ،


 خط ميں امام حسين عليہ السلام نے جناب مسلم كو اپنا بھائي اور مورد اعتماد قرار ديا تھا ۔باطل نظام کے خلاف قیام کی جدوجہد میں عوامی رابطہ مہم کی ذمہ داری جس شخصیت کے ذمہ لگائی گئی وہ حضرت مسلم بن عقیل بن ابی طالب تھے۔ حضرت مسلم بن عقیل نے حقیقی اسلام کے سفیر کا کردار ادا کیا۔مسلم اور کوفہ -حضرت مسلم جب کوفہ پہنچے تو وہاں مختار بن ابی عبیدہ کے نام سے گھر میں ساکن ہوئے ۔شیعیان اس گھر میں آپ کو ملنے آتے۔ مسلم نے حضرت امام حسین کا خط انہیں پڑھ کر سنایا   ۔ابن عساکر کہتا ہے کہ 12000 افراد نے مسلم کے ہاتھ پر حضرت امام حسین کی بیعت کی  بعض نے بیعت کرنے والوں کی تعداد 18000 لکھی ہے   دیگر بعض نے 30000 افراد ذکر کی  ۔مسلم کی اس قدر حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے یزید کے جاسوسوں نے یزید کو خط میں کوفہ کے حالات لکھے اور کہا کہ حاکم کوفہ نعمان بن بشیر کمزور ہے یا کمزوری کا اظہار کر رہا ہے اگر کوفہ چاہتے ہو تو بصرے کے موجودہ حاکم عبید اللہ کو کوفہ کا حاکم بنا دو پس یزید نے عبید اللہ کو کوفے کا حاکم مقرر کر دیا ۔ امام حسین ؑ کے نمائندے مسلم بن عقیل کی تلاش عبید اللہ کا پہلا اقدام تھا عبید اللہ نے کوفیوں ڈرانے اور لالچ دینے کے بعد "حر بن یزید ریاحی" کو سپاہیوں کے ہمراہ حضرت امام حسین ؑ کا راستہ روکنے کیلئے روانہ کیا نیز انہیں حکم دیا کہ حسین ؑ کو کسی ایسی جگہ پڑاؤ نہ ڈالنے دے جہاں پانی وغیرہ نہ ہو  


عبید اللہ کے کوفہ آنے پر مسلم بن عقیل مختار کے گھر سے نکل کر ہانی بن عروۃ کے گھر منتقل ہوئے جو کوفہ کے ایک بزگ شخصیت مانے جاتے تھے ۔ہر چند مسلم کے شیعیاں کوفہ سے روابط پوشیدہ تھے لیکن عبید اللہ کے ذریعے مسلم کی رہائشگاہ کا پتہ لگا لیا ۔لہذا اس نے ہانی کو اپنے قصر میں طلب کیا اور تقاضا کیا کہ وہ مسلم اس کے حوالے کر دے لیکن ہانی نے ایسا کرنے سے انکار کیا ۔ ہانی کی قصر میں حاضر طلبی کی وجہ سے قبیلۂ مذجج نے قصر کا گھیراؤ کر لیا لیکن عبید اللہ نے قاضی شریح کے ذریعے انہیں دھوکہ دے کر منتشر کر لیا ۔ کیونکہ وہ جس ہستی کے حکم پر مدینہ سے کوفہ کی طرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لئے روانہ ہوئے وہ ہستی (امام حسین ) دین اسلام اور شریعت محمدی ۖ کے دفاع اور تحفظ کے لئے کمربستہ تھی اور حضرت مسلم بن عقیل نواسہ رسول ۖ کے شانہ بشانہ اس جہاد میں شریک تھے اور اپنی شہادت کے ذریعہ واقعہ کربلا کی بنیادیں استوار کرگئے۔جس وقت كوفہ والوں كو جناب مسلم كے آنے كي خبر ملي تو ۱۸ہزار افراد نے آكر جناب مسلم كے ہاتھوں پر بيعت كي ، اور جب جناب مسلم كو ان كي باتوں پر اطمينان ہو گيا تو آپ نے امام حسين عليہ السلام كو خط لكھا كہ ۱۸ ہزار اہل كوفہ نے آپ كے نام پر ہمارے ہاتھوں پر بيعت كر لي ہے لہذا خط ملتے ہي آپ كوفہ كے لئے روانہ ہو جائيں ۔ 



امويوں نے جناب مسلم كے اس عظيم استقبال كو ديكھتے ہوئے يزيد كو خط لكھا كہ اگر كوفہ بچانا چاہتے ہو تو كسي لائق والي كو يہاں بھيجو ۔ چنانچہ يزيد نے عبيداللہ بن زياد كو كوفہ كا والي مقرر كيا اور وہ بصرہ سے كوفہ آيا اور لوگوں كو ڈرانا دھمكانا شروع كيا جس كي وجہ سے اہل كوفہ نے جناب مختار كي حمايت كم كر دي اور جيسے جيسے عبيداللہ كا منحوس سايہ اہل كوفہ پر پڑتا گيا جناب مسلم كے حامي كم ہوتے گئے ۔جب عبيداللہ نے ڈرا دھمكا كر اہل كوفہ كو مسلم سے دور كر ديا تو جناب مسلم كي تلاش شروع كي اور جناب مسلم كا پتہ بتانے والے كو انعام و اكرام سے نوازنے كا وعدہ كيا ۔ جناب مسلم كے ميزبان ہاني بن عروہ كو دار الامارہ ميں بلا كر سزا دي ۔ جناب مسلم نے چار ہزار افراد كے ساتھ دارالامارہ كا محاصرہ كيا ليكن عبيداللہ كي سازشوں كي وجہ سے لشكر كے درميان پھوٹ پڑ گئي اور لوگ جناب مسلم كا ساتھ چھوڑنے لگے يہاں تك كہ نماز مغرب و عشاء كے بعد جناب مسلم تنہا ہو گئے ۔


آخر كار كوفہ كي گليوں ميں عبيداللہ كے سپاہيوں سے مقابلہ ہوا اور جناب مسلم نے تنہا ۴۱ سپاہيوں كو واصل جہنم كيا ليكن پياس كي شدت اور شديد زخموں كي وجہ سے مقابلے كي تاب نہ لا سكے ۔ ايك سپاہي نے پيچھے سے نيزہ مارا آپ زمين پر گر پڑے ۔ لشكر والوں نے آپ كو گرفتار كر ليا اور دارالامارہ لے گئے ، عبيداللہ بن زياد نے حكم ديا كہ آپ كو دارالامارہ كي چھت سے نيچے پھينك ديا جائے جس سے آپ كي شہادت واقع ہو گئي اس كے بعد ابن زياد نے جناب ہاني بن عروہ اور جناب مسلم رضوان اللہ عليھم كے سر اقدس كو يزيد كے پاس بھيج ديا ۔ "آپ كي شہادت ۹ ذي الحجہ سن ۶۰ ہجري ميں واقع ہوئي ۔ آپ كي شہادت سے ايك دن قبل امام حسين عليہ السلام نے كوفہ كے ارادہ سے مكہ كو چھوڑا اس لئے آپ كو شہادت كي خبر راستے ميں ملي ۔ جس وقت امام حسين عليہ السلام نے جناب مسلم اور جناب ہاني كي شہادت كي خبر سني تو آپ نے كئي مرتبہ يہ آيت پڑھي "" انا للہ وانا اليہ راجعون"" اور جناب مسلم كے حق ميں دعا كي- 

منگل، 3 جون، 2025

مشعل اوباما- علم کی جھلملاتی قندیل



   مشعل اوباما- علم کی جھلملاتی قندیل مشعل   اوبامہ  وہائٹ ہاؤس سے جاتے ہوئے صرف امریکی خواتین کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام  خواتین کے لئے اپنے نقش قدم چھوڑ گئ ہیں  اور اس کے علاوہ ان کی تحریریں ان لاکھوں دلوں میں   روشن  قندیل کی  مانند  جھملاتی رہیں گی  جو خواتین ان سے رہنمائ چاہیں گی -جی ہاں  یہ پیشورانہ لحاظ سے وکیل ہیں' ایک خاتون خا نہ ہیں جو اپنے شوہر اور اپنے گھر بار پر اور بچوں پر بھرپور توجہ دیتی ہیں-سماجی تقریبات ہوں یا خاندانی سلسلے یہ آپ کو ہر جگہ ایکٹیو نظر آئیں گی لیکن انکی سب  سے بڑی خوبی ان کی تحریریں  ہیں جن کو یہ کتابی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں   - مشعل اوبامہ جن کی پہلی  کتاب نے  کسی بھی لکھاری کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دئے ہیں- اور یہ پہلی کتاب  ان کی لائف کی بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ اس کتاب کی دنیا بھر میں 17 ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔  سابق خاتون اول مشعل اوباما نے دنیا میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور قوموں کے نئے بحرانوں کے حوالے سے ایک اور کتاب 'دی لائٹ وی کیری' لکھی۔ اس کتاب کا اعلان انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے کیا۔ سابق خاتون اول نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ان کی پہلی کتاب کے بعد دنیا میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ بہت سے بحرانوں کے علاوہ ایک عالمی وبا کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 


ان تمام وجوہات کی وجہ سے ہم کمزور ہو چکے ہیں۔  انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کا سامنا کیسے کریں؟ اپنے خوف کا سامنا کیسے کریں؟ اپنی مایوسی اور پریشانی کو مثبت انداز میں کیسے ہینڈل کریں۔ مشعل نے اس ویڈیو میں اپنی کتاب کے بارے میں کہا کہ یہ ایک ٹول باکس کی طرح ہوگی۔ مشعل کی دوسری کتاب کا ٹائٹل 'دی لائٹ وی کیری' ہے۔ یہ کتاب 15 نومبر سے کتابوں کے شائقین کے لئے تھی۔مشعل اوباما کی پہلی کتاب 2018 کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کے طور پر درج کی گئی تھی، جس کی دنیا بھر میں تقریباً 17 ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ سابق امریکی صدر براک اوباما کی اہلیہ اور امریکی تاریخ کی پہلی سیاہ فام خاتون اول، 54 سالہ مشیل اوباما نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے مصنوعی حمل کے ذریعے اپنی بیٹیوں کو جنم دیا۔مشیل اوباما نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں اپنی شادی کے ابتدائی سالوں کے بعد حاملہ ہونے میں مشکل پیش آئی تھی۔


 سابق امریکی خاتون اول کے مطابق حمل ضائع ہونے کے بعد ان کے شوہر براک اوباما نے انہیں بچے پیدا کرنے کے لیے ’ان وٹرو فرٹیلائزیشن‘ (IVF) کی تکنیک کا سہارا لینے کا مشورہ دیا۔خبر رساں ایجنسی 'ایسوسی ایٹڈ پریس' (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق مشعل اوباما نے اپنی آنے والی کتاب میں نہ صرف اپنی بیٹیوں کی پیدائش کے حوالے سے اہم انکشافات کیے ہیں بلکہ کئی دیگر معاملات پر بھی کھل کر بات کی ہے۔20رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشیل اوباما نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ جب وہ 33 یا 34 سال کی تھیں تو ان کا حمل ضائع ہوا، جس کے بعد انہوں نے آئی وی ایف کی مدد سے لڑکیوں کو جنم دینے کا فیصلہ کیا۔ مشیل اوباما نے یہ اعتراف اپنی آنے والی کتاب میں کیا ہے۔ سابق خاتون اول نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے شوہر کے مشورے پر IVF کے ذریعے اپنی دونوں بیٹیوں کو جنم دیا۔ 


واضح رہے کہ آئی وی ایف کے لیے بچوں کو دوبارہ پیدا کرنے کا عمل مصنوعی طریقے سے کیا جاتا ہے، اس کے لیے ماں کے رحم سے انڈوں کو نکال کر لیبارٹری میں والد کے سپرم کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ دونوں کے ملاپ کے صرف ایک ہفتے کے اندر حمل پیدا ہو جاتا ہے جس کے بعد حمل کو دوسری  ۔ مشیل اوباما نے  کے ذریعے جن بیٹیوں کو جنم دیا تھا ان کی عمریں اب 17 اور 20 سال ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی مالیہ کی عمر 20 سال ہے جبکہ چھوٹی بیٹی ساشا کی عمر 17 سال ہے۔ مالیا اور ساشا کی پیدائش کے بعد انہوں نے اپنی تمام توجہ بیٹیوں کی تعلیم تربیت پر رکھی  -مشیل اوباما نے 1992 میں سابق امریکی صدر براک اوباما سے شادی کی، لیکن ان کا رشتہ 1980 میں شروع ہوا، جب وہ طالب علم تھیں۔


 مشعل اوباما ریاستہائے متحدہ کی 44 ویں خاتون اول اور پہلی سیاہ فام خاتون اول تھیں۔ ان کے شوہر 59 سالہ باراک اوباما امریکہ کے پہلے سیاہ فام اور 44ویں صدر منتخب ہوئے۔ باراک اوباما پہلی بار 20 جنوری 2009 اور دوسری بار 2013 میں امریکی صدر منتخب ہوئے اور وہ 20 جنوری 2017 تک خدمات انجام دیتے رہےریٹائرمنٹ کے بعد سابق امریکی صدر نے اوباما فاؤنڈیشن کے نام سے ایک سماجی تنظیم قائم کی جس کے تحت دنیا بھر میں صحت، تعلیم، خواتین کی خود مختاری اور غربت کے خاتمے کے لیے منصوبے جاری ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں قیام کے دوران سابق صدر کی بیٹیاں میڈیا کی توجہ کا مرکز رہیں  -مشعل اوباما کی یادداشتیں جلد شائع ہونے والی ہیں، جس میں انہوں نے امریکی خاتون اول کے طور پر اپنے بچپن، شادی اور واقعات کے بارے میں بھی لکھا۔ مشعل اوباما نے اپنی کتاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سابق امریکی صدر براک اوباما کی اہلیہ مشعل اوباما کی سوانح عمری 'بیکمنگ' نے رواں سال صرف 15 دنوں میں امریکا میں شائع ہونے والی تمام کتابوں کی فروخت کا ریکارڈ توڑ دیا  ہے -میری دعاء ہے کہ اللہ تعالٰی  ان کے قلم کو یوں ہی رواں دواں رکھے آمین ہے-


تحریر و تلخیص بقلم خود     




اتوار، 1 جون، 2025

قدرت کبھی خاموش نہیں رہتی ہے

 

 نظام قدرت ہے کہیں سمندر میں جوار بھاٹا ہے تو کہیں دریا اپنے رخ بدل رہے ہیں  تو کہیں بلند و بالا پہاڑ اپنی جگہ سے سرک رہے ہیں  میں نے ابھی حال ہی میں  انٹر نیٹ پر  ایک وڈیو دیکھی جس میں دکھایا جا رہا ہے کہ  سوئٹزرلینڈ کی ایک پوری بستی کیسے  دنیا کے  نقشے سے اچانک غائب ہو رہی ہے۔یہ  سانحہ سوئٹزرلینڈ کے جنوب میں واقع خوبصورت پہاڑی بستی "بلاتن"میں پیش آیا ۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، وادی "بِرش" کے گلیشیئر میں شدید دراڑیں اور کمزوری پیدا ہونے کے بعد برف اور مٹی کی  چٹانوں کا ایک عظیم تودہ اچانک نیچے آ گرا، جس نے بلاتن گاؤں کے ہر گھر کو  مکمل طور پر اپنے نیچے دفن کر دیا۔ یہ تودہ کئی میٹر موٹا اور دو کلومیٹر سے زیادہ لمبا تھا۔خوش قسمتی سے، مقامی حکام نے جدید سرویلیئنس سسٹمز کے ذریعے زمین میں پیدا ہونے والی دراڑوں اور ممکنہ خطرے کو پہلے ہی محسوس کر لیا تھا، جس کے باعث حادثے سے دو دن قبل ہی گاؤں کے تمام مکینوں کو بحفاظت منتقل کر لیا گیا۔فرانسیسی روزنامے "لوباریزیان" نے اس المیے کو ایک "غیر معمولی قدرتی سانحہ" قرار دیا ہے۔ -اس سانحہ میں انسانی جانوں کا زیاں اس لئے نہیں ہوا کہ سوئس حکومت نے اپنے شہریوں کو وہاں سےپہلے ہی بحفاظت نکال  لیا تھا 


 ماحولیاتی ماہر رافائیل لودووِک کے مطابق، اس پیمانے کا واقعہ شاذ و نادر ہی دیکھا جاتا ہے، وہ بھی صرف ہمالیہ یا اینڈیز جیسے پہاڑی سلسلوں میں، نہ کہ یورپ کے قلب میں واقع الپس جیسے نسبتاً مستحکم پہاڑی سلسلے میں۔ لودووِک نے مزید انکشاف کیا کہ  گلیشیئر کی چوٹی میں غیر معمولی دراڑیں اور جھکاؤ نوٹ کیا گیا تھا، جو بالآخر اس ہولناک سرکنے کا سبب بنا۔خطرے کی دوسری لہر؟ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ پہاڑ سے نیچے آنے والی چٹانوں اور برف نے دریائے "لونزا" کو تقریباً دو کلومیٹر تک بند کر دیا ہے، جس سے وہاں ایک مصنوعی جھیل بن چکی ہے جو مسلسل پھیلتی جا رہی ہے۔ اگر اس جھیل کو قابو میں نہ رکھا گیا تو اس کے پھٹنے سے ایک تباہ کن مٹی اور پانی کا سیلاب آسکتا ہے۔ سوئس حکام نے فوری طور پر فوج اور سول ڈیفنس کی ٹیموں کو متحرک کر دیا ہے تاکہ وہ مصنوعی جھیل سے پانی نکالنے کے لیے پمپوں اور پائپوں کے ذریعے کام کر سکیں۔


لودووِک نے کہا: "جیسے جیسے برف پگھلے گی، پانی کی مقدار بڑھے گی اور اگر نکاسی کا مؤثر بندوبست نہ ہوا تو وادی کے نچلے علاقے شدید طوفانی سیلاب کی زد میں آ سکتے ہیں۔"ماحولیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات -ماہرین کے مطابق، اس سانحے کی جڑیں "کلائمٹ چینج" یعنی ماحولیاتی تبدیلی سے جا ملتی ہیں۔ الپس میں گہرائی تک جما ہوا برفانی جُبہ(permafrost) تیزی سے پگھل رہا ہے، جس کی وجہ سے پہاڑوں کی ساخت کمزور ہو رہی ہے۔ ایسے میں چٹانوں کے سرکنے اور گلیشیئرز کے ٹوٹنے جیسے واقعات مستقبل میں مزید بڑھ سکتے ہیں۔ ماہرین نے فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک کو بھی خبردار کیا ہے۔ رافائیل لودووِک کے مطابق "ہم فرانس کے الپائن علاقوں میں بھی عدم استحکام کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، گزشتہ نومبر میں فرانس کے وانویز سلسلے میں ''مونٹ بوری'' نامی پہاڑ سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر لمبا تودہ گرا تھا، جس میں سینکڑوں ٹن چٹانیں نیچے آ گریں۔"


-اب یہ دوسری  کہانی ہے جس کا تعلق پاکستان سے ہے   

عطا آباد بالا کے پہاڑوں پر جب دراڑیں بہت واضح ہو گئیں تو حکومت نے اس گاؤں کے رہائشیوں کو دسمبر دو ہزار نو کے شروع میں جھیل والے حصے کو شدید خطرناک قرار دے کر وہاں کے رہائشیوں کو دوسری جانب منتقل ہونے کو کہا تاہم حکومت نے عطا آباد پائن کو محفوظ قرار دے دیاسنہ دو ہزار نو کے وسط میں عطا آباد بالا کے رہائشیوں نے حکومت پاکستان اور فوکس پاکستان سے دوبارہ کہا کہ پہاڑ سرک رہا ہے اور شگاف بڑے ہوتے جا رہے ہیں۔عطا آباد بالا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ چٹانیں سرکنے کا عمل جاری رہا اور دراڑیں مزید گہری اور بڑی ہوتی گئیں۔چار جنوری کو عطا آباد بالا کے دائیں ہاتھ پر پہاڑ کا پورا حصہ سرکا نہیں بلکہ سیدھا دریائے ہنزہ میں آ گرا۔ عطا آباد کے سامنے سے دریائے ہنزہ کی چوڑائی کم ہے۔ 


پہاڑ جب نیچے دریا میں گرا تو اس کا ملبہ زمین سے ٹکرانے کے بعد دوبارہ ہوا میں اچھلا اور یہ ملبہ عطا آباد پائن پر جا گرا جو عطا آباد بالا سے درے نیچا تھا اور اس عمل کے نتیجے میں وہاں انیس ہلاکتیں ہوئیں۔ کیونکہ  ہماری حکومت نے رہائشیوں کی جانوں کی حفاظت سے چشم پوشی برتی -عطا آباد پائن وہی گاؤں ہے جس کو حکومت نے محفوظ قرار دیا تھا تاہم اب جھیل بن جانے کے بعد اب عطا آباد بالا اور عطاآباد پائن دونوں ایک ہوچکے ہیں۔عطا آباد بالا کے ایک رہائشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’سنہ دو ہزار نو میں پوزیشن یہ ہو گئی تھی کہ کھیتوں کو پانی دو تو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ پانی کہاں گیا۔ ہماری زمین ناہموار ہو گئی تھی۔‘ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ زمین ’ناہموار‘ سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا کہ انکے  کھیت کی زمین ایک جگہ سے اوپر ہو گئ  اور تھا اس کے ساتھ کا حصہ نیچے ہو گیا۔ ’کئی جگہوں پر تو ایسا لگ رہا   تھا جیسے سیڑھیاں بنی ہوں۔‘یہ مصنوعی جھیل عطا آباد بالا کے قریب بنی تھی جوقدرے اونچائی پر ہے، جبکہ عطا آباد پائن نیچے کی جانب ہےپہاڑ گرنےاور ملبے کا زمین پرگر کر اچھلنے کو گلگت بلتستان کی انتظامیہ ’سپلیش‘ کا نام دیتے ہیں


تحریر و تلخیص  بقلم خود

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر