منگل، 20 دسمبر، 2022

سنگا پور کی ترقّی کاراز

 ۔ سنگاپور کے شمال ميں ملیشيا واقع ہے جو اس کا واحد پڑوسی ہے۔ سنگاپور جو کے دنیا بھر سے آئے ہوئےتارکین وطن کا مرکز ہے- اس کا رقبہ کل ۶۸۳ مربع کلو میٹر ہے۔ سنگاپور میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں انگریزی، چینی، مالے اور انگریزی شامل ہیں، تاہم انگریزی تقریباً ہر کوئی سمجھ لیتا ہے۔ سنگاپور ایک ترقی یافتہ ملک ہے-اس کی ترقّی کا راز اس کے ایماندار حاکموں کے ہاتھ میں ہےجنہوں نے بہترین طرز حکمرانی کی پوری دنیا میں منفرد مثال قائم کی ہے
لیکن اس کی ترقّی کا اصل سفر سنہ ۱۹۶۰ سے شروع ہوا ہے جو اس وقت ایک پسماندہ سنگا پور ہوا کرتا تھا -پھر اس کو  بہترین حکومت ملی اور اس کے عوام کی تقدیر بدل گئ-سنگاپور نے پبلک کارپوریشنوں کو کامیابی سے چلا کر دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ کامیابی میرٹ اور صرف میرٹ پر عمل کرنے کی بنا پر حاصل ہوسکی۔لیکوان نے سنگاپور میں ایسی مصنوعات تیار کرنے کیلئے صنعتیں لگائیں جن کو برآمد کیا جا سکے۔ آج سنگاپور اعلیٰ کوالٹی کی مصنوعات برآمد کرنے والا بڑا ملک بن چکا ہے۔ اسکی ترقی کا انحصار جدید ٹیکنالوجی ٹیکس کی کم شرح اور بیرونی سرمایہ کاری کیلئے انتہائی سازگار  ماحول ہےسنگا پور کے لوگ سبزہ کے دلدادہ ہیں -یہ اپنی زمین کے ہر قطعہ پر سبزہ لگاتے ہیں 

۔سنگاپور میں نیت دیانت اور محنت کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔ ۔ اس طرح سنگاپور قانون پر عمل کرنے والا دنیا کا اہم ترین ملک بن چکا ہے۔لیکوان نے اپنے ملک کے شہریوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی اور ان میں نظم و ضبط پیدا کیا۔سنگاپور دنیا کا صاف ترین ملک ہے   سنگاپور ائرلائن کا شمار دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں ہوتا ہے

سنگاپور ائرلائن پبلک سیکٹر میں ہے حکومت اس کو کامیابی کے ساتھ چلا رہی ہے۔سنگاپور میں انفراسٹرکچر پر بہت توجہ دی گئی ہے تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ کم وقت میں مارکیٹوں اور دفتروں اور سکولوں تک پہنچ سکیں۔ سنگاپور میں بہترین انڈسٹریل پالیسی تشکیل دی گئی ہے ۔ کوالٹی یعنی معیار پر پوری توجہ دی جاتی ہے۔ لیبر کو مطمئن رکھا جاتا ہے سیونگ کی شرح بلند ہے بجٹ متوازن رہتا ہے۔ ٹیکس کم لگائے جاتے ہیں شرح سود بھی کم رکھی گئی ہے۔ سنگاپور کی معاشی پالیسی میں مہارت  استعداد اور پیداوار پر توجہ دی گئی ہے۔ سنگاپور میں نسلی امتیاز کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ بہترین لوکیشن کی وجہ سے سنگاپور دنیا کا ٹریڈ سینٹر بن چکا ہے اس کا اپنا دفاعی نظام ہے اور خوبصورتی کی وجہ سے ٹورسٹ کیلئے پر کشش ہے۔  چین سنگاپور کے کامیاب معاشی ماڈل کو فالو کر کے دنیا کی عظیم معاشی طاقت بن چکا ہے۔
چین اور سنگاپور دونوں ملکوں کی ترقی اور خوشحالی اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ جب   کسی ملک کا نظام صاف شفاف مساوی  ہوتا ہے اور جہاں  قانون کی حکمرانی  ہوتی ہے جہاں پر میرٹ کو ترجیح دی جاتی ہے وہ ملک کبھی نا کبھی ترقی یافتہ ملکوں کی صفوں میں کھڑے ہو سکتے ہیں کرسکتے ۔پاکستان کو اللہ تعالی نے ہر قسم کی نعمتیں عطا کر رکھی ہیں جو سنگاپور کے پاس نہیں تھیں۔ سنگا پور کی ترقّی کیسے ہوئ جو وہ  آج ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ یہ ایک پسماندہ ملک سے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ سوشل میڈیا پر کسی نے ایک کہانی شائع کی ہے جس میں اس راز سے پردہ ایک دلچسپ انداز سے اٹھایا گیا ہے-اس کے صدر نے اپنی کہانی لکھتے ہوئے بتایا
 ۔در حقیقت، سنگا پور میں، جہاں میں نے 31سال حکومت کی، توقع حیات مردوں کی 80سال اور عورتوں کی85 سال ہے۔اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ میں توقع حیات سے بھی11 سال زیادہ زندہ رہا۔ میری زندگی اچھی گذری جو میں نے اپنی قوم کی ترقی اور خوشحالی پر صرف کی۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں جو کچھ کیا اپنی قوم کی بہتری اور بھلائی کے لیے کیا، اور اپنی ذاتی مفاد کے لیے نہیں،۔میں نے دنیاایک مطمئن شخص کی طرح چھوڑی، جس کا مجھے کوئی افسوس نہیں۔تو یہ اصل حقیقت ہے جس کی بناء پر آج دنیا میں سنگاپور کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ ہم ایک چھوٹے سے ،مایوس کن جزیرہ تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ہماری بقا نا ممکن تھی۔ہم نے 1963 میں ملایا اور دوسرے ملکوں کے ساتھ ملکر ایک اتحاد بنایا۔ کہ سنگا پور ترقّی کر سکے ہمارے پاس پینے کا پانی نہیں تھاجو باہر سے لانا پڑتا تھا۔کوئی قدرتی وسائل نہیں تھے۔ نہ تیل، نہ سونا، نہ معدنیات۔ کچھ بھی نہیں۔جو کچھ تھا وہ ہمارے عوام  اور بندرگاہیں، ہم نے ہمت نہیں ہاری۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اسی سے شروعات کریں گے۔اور اپنی قسمت بدلیں گے۔

آج ہماری کہانی بالکل بدل چکی ہے او۔ہم ایشیا کے چار شہروں میں سے ایک ہیں، جو اپنی حیرت انگیز ترقی کی وجہ سے مشہور ہیں۔سنگا پور ایشیا کا واحد ملک ہے جس کی تمام کریڈٹ ایجنسیوں میں AAA کی ریٹنگ ہے۔ہم دنیا کا چوتھا سب سے بڑا مالی مرکز ہیں۔ ہمارا ملک دنیا کی پانچویں مصروف ترین بندرگاہ ہے ۔ صنعت کاری ہماری معیشت کا تیس فیصد حصہ ہے۔سنگاپور ، فی کس کل ملکی پیداوار کے حساب سے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے اور سنگا پور ہر دن کی ہر گھڑی ترقّی کا سفر آگے ہی آگے طے کرتا جا رہا ہے-

پیر، 19 دسمبر، 2022

شہزادئ کونین( س )کا عملی تربیت کا انداز



 دین اسلام نے انسان کی پیدائش سے پہلے رشتہ ازواج کے وقت سے ہی اولاد کے اخلاق و کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے قدم اٹھانے کی تاکید کی ہے اور تربیت اولاد کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے اسے والدین پر فرض قرار دیا ہے۔

اب اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ہمیں ایک آئیڈیل کی ضرورت ہے۔کائنات میں مولائے کائنات ؑ اور سیدہ کونین ؑ کے گھرانے سے بڑھ کر اور کس کا گھرانہ ہو سکتا ہے جو تربیت اولاد کے حوالے سے تمام اولین و آخرین کے لئے نمونہ عمل ہو۔ کیونکہ اس گھرانے میں مولی المتقین و ایمان کل علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسا فخر موجودات عالم باپ کا کردار ادا کر رہے ہیں تو سیدۃ النساء العالمین جیسی ہستی ماں کا کردار ادا کر رہی ہے۔ 

یہی وہ گھرانہ ہے جس سے امام حسن ؑ و امام حسین ؑ جیسے جوانان جنت کے سردار اور جناب زینب ؑ و ام کلثوم ؑجیسی عظیم ہستیاں افق عالم پر منور ہوئیں ۔ آج اگر والدین اپنی اولاد کی بہترین انداز میں تربیت کرنا چاہتے ہیں اور ان کو ایمان و اخلاق و نیک کردار میں کمال پر پہنچانا چاہتے ہیں تو در سیدہ کونین علیھا السلام سے ہی اولاد کی پرورش کے سنہرے اصولوں اور عملی نمونوں کو اخذ کر کے ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جناب فاطمہ زھراء س کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؑ اولاد کی تربیت زبانی وعظ و نصائح سے زیادہ اپنے عمل و کردار سے کیا کرتیں تھیں۔

 ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے "واما ابنتی فاطمۃ،فانھا سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الآخرین "” بے شک میری بیٹی فاطمہؑ عالمین میں موجود اولین و آخرین کی تمام عورتوں کی سردار ہیں

حدیث کساءسے ہم کو درس ملتا ہے کہ ہم اپنے معصوم بچّوں سے کس طرح مخاطب ہوں- کہ جب امام حسن مجتبی و امام حسین علیھما السلام باری باری گھر تشریف لاتے ہیں اور آپ پر سلام کرتے ہیں۔ تو آپ کس خوبصورتی اور محبت بھرے انداز میں جواب دیتی ہیں ملاحظہ فرمائیں جو کہ جناب فاطمہ زھراء سے ہی روایت ہے۔

"اور پھر میرے بیٹے حسن ؑ تشریف لائے اور کہا مادر جان ! آپ پر سلام ہوِ،تو میں نے کہا تم پر بھی سلام ہو اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میرا میوہ دل۔۔۔ اورجب میرے بیٹے حسین ؑ تشریف لائے اور کہا مادر جان ! آپ پر سلام ہوِ،تو میں نے کہا تم پر بھی سلام ہو اے میرے لخت جگر، میری آنکھوں کی ٹھنڈک اورمیرے میوہ دل۔۔”

جب آپ کے دونوں باری باری تشریف لاکر آپ کو سلام کرتے ہیں تو آپ نہ صرف سلام کا جواب دیتی ہیں بلکہ ان سے پیار و محبت کا اظہار بھی فرماتی ہیں۔ جیسے صرف و علیک السلام نہیں کہا بلکہ دونوں کے سلام کے جواب میں فرمایا وعلیک السلام اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میوہ دل۔۔ 

آپ اپنے بچوں سے کس قدرمحبت کرتیں تھیں اس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ  دین مقدس اسلام کی نگاہ میں ایمان و کردار کے لحاظ سے اولاد کی تربیت اور پرورش کس حد تک اہم ہے اور اس کی کس قدر ضرورت ہے اس کو واضح کرنے لئے ہم قرآن و حدیث سے چند نمونے یہاں پیش کرینگے۔ ۔ رسالتمآب ؐ نے ارشاد فرمایا: أدبوا أولادكم على ثلاث خصال: حب نبيكم، وحب أهل بيته، وقراءة القرآن

"اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تربیت دو: اپنے نبی کی محبت، اپنے نبی کے اہل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن مجید”تربیت اولاد کس قدراہم ترین ذمہ داری ہے اور اس کی کس قدر ضرورت و اہمیت ہے ا سکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام جیسی ہستی اپنی دعاؤں میں اولاد کے حق میں دعا کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

اللھم اعنّی علی تربیتھم و تادیبھم و برّھم

(اے اللہ! (میری اولاد) کی تربیت و تادیب اور ان سے اچھے برتاو میں میری مدد فرما”  

سیرت سیدہ کونین علیھا السلام میں تربیت اولاد کے عملی نمونے

کائنات میں سیدہ کونین جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام کی ذات گرامی ان ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کی حیات طیبہ کو حدود و قیود کے بغیر عالمین کی مخلوقات کے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ خداون عالم ہم سب خواتین کو ہماری بیٹیوں کو اور آنے والی نسلوں کی بیٹیوں کو بہ بہ پاک سلام اللہ علیہا کے نقش مبارک پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر