گنیز ورلڈ ریکارڈ رکھنے والی یہ اے ٹی ایم مشین دنیا کی بلند ترین کیش مشین چین اور پاکستان کے درمیان خنجراب پاس سرحد پر واقع ہے-سوست برانچ کے منیجر خنجراب میں بنے اے ٹی ایم کو کیش سے بھرنے کے لیے سخت موسم، دشوار پہاڑی گزرگاہوں اور بار بار لینڈ سلائیڈنگ کا مقابلہ کرتے ہوئے باقاعدگی سے سرحد تک سفر کرتے ہیں -خنجراب پاس پر بنی دنیا کی بلند ترین اے ٹی ایم جہاں پہنچنے کے لیے بادلوں سے گزرنا پڑتا ہےہم دنیا کی بلند ترین ’کیش مشین‘ (یعنی اے ٹی ایم) کی طرف جا رہے تھے جو پاکستان کے شمالی صوبہ گلگت بلتستان میں چین اور پاکستان کے درمیان خنجراب پاس کی سرحد پر واقع ہے۔ برف سے ڈھکی قراقرم کی چوٹیوں کے درمیان بنی سڑک خنجراب نیشنل پارک سے گزرتی ہے جہاں پاکستان کے قومی جانور مارخور کے علاوہ برفانی چیتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ا س دور دراز اور بلند پہاڑی علاقے کے بیچ میں ایک اے ٹی ایم کیوں لگایا گیا ہے؟2016 میں نیشنل بینک آف پاکستان کی طرف سے تعمیر کی گئی، شمسی توانائی اور ہوا سے چلنے والی اے ٹی ایم مشین اس سرحدی کراسنگ کے اردگرد رہنے والے رہائشیوں، سرحدی فوجیوں اور سیاحوں کے کام آ رہی ہے۔کسی دوسرے اے ٹی ایم کی طرح ہی کام کرتی ہے۔ اسے نقد رقم نکالنے، یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی اور انٹر بینک فنڈ ٹرانسفر کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔بے شک اوپر پہنچنے پر آکسیجن کی کمی کا مسلہ ہوتا ہے لیکن اوپر پہنچنے کے بعد علاقہ کی دلداری سب بھول جانے پر مجبور کر دیتی ہے نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کی طرف سے سنہ 2016 میں بنائے گئی، شمسی اور ہوا کی توانائی سے چلنے والی یہ اے ٹی ایم مشین اس سرحدی کراسنگ کے اردگرد کے رہائشیوں اور سرحدی فوجیوں کی محدود تعداد کے کام آ رہی ہے۔ سیاح اس اے ٹی ایم میں جانا ایک اعزاز سمجھتے ہیں، اور یہاں سے رقم نکالنے کی ایسی تصویریں لیتے ہیں جو ’کولڈ ہارڈ کیش‘ کے فقرے کو نئے معنی دیتی ہیں۔
دنیا کی بلند ترین کیش مشین چین اور پاکستان کے درمیان خنجراب پاس سرحد پر واقع ہےجنوبی افریقہ سے آئی ریٹائرڈ پرنسپل عائشہ بیات، جو اپنے شوہر کے ساتھ چھٹیوں پر آئی تھیں نے مزاحیہ انداز میں کہا ’میرا اکاؤنٹ فریز ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’ہم ایک ایسے ملک سے آئے ہیں جہاں ہمارے پاس بھی پہاڑی سلسلے ہیں۔۔۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں خوبصورت نظارے دیکھ رہی ہوں۔‘
بیات کے شوہر فاروق نے کہا ’ایفل ٹاور کی طرح تاریخی نشانیوں کا ہونا ضروری ہے۔ یہ باقی علاقے کو دیکھنے کا بہانہ بن جاتی ہیں۔‘لیکن اس تاریخی نشانی کی تعمیر کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں تھا۔ اور نہ ہی اسے فعال رکھنا آسان ہے۔اس اے ٹی ایم کی نگرانی کرنے والی افسر شاہ بی بی نے بتایا کہ اس منصوبے کی تکمیل میں تقریباً چار ماہ لگے۔ قریب ترین این بی پی بینک سوست میں ہے جو یہاں سے 87 کلومیٹر دور ہے۔سوست برانچ کے منیجر زاہد حسین چوٹی پر بنے اس اے ٹی ایم کو رقم سے بھرنے کے لیے سخت موسم، دشوار پہاڑی گزرگاہوں اور بار بار لینڈ سلائیڈنگ کا مقابلہ کرتے ہوئے باقاعدگی سے یہاں تک کا سفر کرتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ’اوسطاً 15 دنوں کے اندر یہاں سے تقریباً 40-50 لاکھ روپے نکالے جاتے ہیں۔
‘اس دوران بی بی ریئل ٹائم ڈیٹا مانیٹر کرتی اور سوست برانچ کو فراہم کرتی ہیں۔ انھیں سیٹلائٹ کنیکٹیویٹی، سولر پاور بیک اپ، نقد رقم واپس لینے اور پھنسے کارڈز (پچھلے سال تیز ہواؤں نے اے ٹی ایم کو عارضی طور پر بند کر دیا) سے متعلق ہنگامی صورتحال سے بھی نمٹنا ہے۔بی بی نے بتایا ’زمین پر موجود ایک شخص کو اے ٹی ایم تک پہنچنے اور مرمت کرنے میں تقریباً دو سے ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں۔‘کچھ لوگ ایسے دور دراز مقام پر اے ٹی ایم کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ لیکن حسین کہتے ہیں کہ ’ہم ان لوگوں کو بھول جاتے ہیں جو ہماری سرحدوں کی 24/7 حفاظت کرتے ہیں۔ وہ تعداد میں معمولی ہو سکتے ہیں، لیکن وہ ایک بڑے پارک میں رہتے ہیں اور ان کے پاس اپنے پیاروں اور خاندان والوں کو اپنی تنخواہیں منتقل کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے- برانچ کے منیجر خنجراب میں بنے اے ٹی ایم کو کیش سے بھرنے کے لیے سخت موسم، دشوار پہاڑی گزرگاہوں اور بار بار لینڈ سلائیڈنگ کا مقابلہ کرتے ہوئے باقاعدگی سے سرحد تک سفر کرتے ہیں -بختاور نے مجھے بتایا ’صرف پچھلے چند گھنٹوں میں، میں نے تین خواتین کو آکسیجن دی ہے۔ کل سات تھیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ چڑھائی پر آنے سے پہلے اگر آپ نے تیل والا یا زیادہ کھانا کھایا ہے تو اس سے آپ کی حالت خراب ہو گی۔انھوں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ سیاحوں کے لیے ایک بڑی پریشانی ان کا کارڈ پھنس جانا ہے، حالانکہ انھوں نے اندازہ لگایا کہ کسی دوسرے اے ٹی ایم کی طرح ایسا یا تو کسی دن بہت بار ہوتا ہے یا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔کارڈ پھنس جائے تو پھر آپ کو یہاں کے شدید موسم میں کم از کم دو گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے یا اگلے دن دوبارہ واپس آنا ہوتا ہے ، بختاور نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا ’اسے دوبارہ حاصل کرنے کا آسان سفر نہیں ہے۔‘تاہم بینک مینیجر زاہد کے لیے یہ خنجراب پاس اے ٹی ایم پر کام کرنے کے شوق کا حصہ ہے۔ اپنے کام کی اہمیت جانتے ہوئے اور اس حوالے سے شدید دباؤ کے باوجود وہ کہتے ہیں ’میں ان شاندار قدرتی مناظر پر بنی ٹیکنالوجی کے پیراڈائم شفٹ کا حصہ بننا اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔‘