ہفتہ، 27 ستمبر، 2025

پاکستان زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہے

  بارش، جو کبھی خوشحالی اور زرخیزی کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب تباہی، سیلاب اور انسانی المیوں کی شکل میں نمودار ہو رہی ہے ۔ دنیا کے مختلف خطوں میں معمول سے ہٹ کر ہونے والی شدید بارشیں ایک نئے اور غیر متوقع مظہر کی صورت اختیار کر چکی ہیں، جسے سائنسدان موسمیاتی تبدیلی کا براہِ راست نتیجہ قرار دے رہے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بارشوں کے اس بگڑتے ہوئے انداز کا تعلق عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے ہے ؟ اگر ہاں، تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں ؟ماہرین کے مطابق ، زمین کا ماحولیاتی نظام نہایت متوازن اور حساس ہے ۔ جب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھتی ہے، تو نہ صرف درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ فضائی نمی میں بھی غیر معمولی تبدیلی آتی ہے ۔نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) کے مطابق، ہر ایک ڈگری سیلسیس درجہ حرارت کے اضافے کے ساتھ فضا میں 7 فیصد زیادہ نمی جذب ہو سکتی ہے، جو مستقبل میں شدید بارشوں اور طوفانی موسم کی شدت کو بڑھا سکتی ہے ۔


 

بین ا لحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ (2023) میں خبردار کیا گیا کہ کہ ہر گزرتے عشرے کے ساتھ دنیا میں بارش کے پیٹرن میں شدت، طوالت اور بے ترتیبی بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا، وسطی افریقہ اور لاطینی امریکہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ۔عالمی موسمیاتی تنظیم کی 2024کی رپورٹ میں بتایاگیا کہ عالمی درجہ حرارت 1.5 ڈگری کے قریب پہنچ چکا ہے، اس وجہ سے بارش کے سائیکل میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے ، کہیں طوفانی بارشیں ہیں تو کہیں مکمل خشک سالی ۔اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی 2025 رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اربن فلڈنگ، مٹی کے تودے گرنے اور زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام اور آئی ایم ایف کی 2024میں کی جانے والی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ غیر متوقع بارشیں ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو ہر سال اوسطاً 235 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ان میں زراعت، انفراسٹرکچر اور انسانی جان و مال شامل ہے۔

  

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 151 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے، جبکہ خیبر پختونخوا میں 64، بلوچستان میں 20، سندھ میں 25، گلگت بلتستان میں 9، اسلام آباد میں 8 اور آزاد کشمیر میں 2 اموات رپورٹ ہوئی ہیں ۔شدید بارشوں نے نہ صرف انسانی جانیں لیں بلکہ 1,500 سے زائد مکانات کو تباہ یا نقصان پہنچایا، 370 کے قریب مویشی ہلاک ہوئے اور کئی اہم انفراسٹرکچر، سڑکیں اور پل منہدم ہو گئے ۔جولائی کے وسط تک پاکستان میں ہونے والی بارشیں گزشتہ برس 2024 کے مقابلے میں 82 فیصد زیادہ ریکارڈ کی گئیں ۔ جبکہ پہاڑی علاقوں میں شدید گرمی کے باعث گلیشیئر کے پگھلنے سے بھی فلش فلڈز اور گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈز (جی ایل او ایفس) کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ماہرین کے مطابق ملک پاکستان کے شمالی علاقوں میں مزید شدید بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات موجود ہیں، جو آنے والے ہفتوں میں صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں 

 

ورلڈمیٹررولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) کی سن 2025 کی رپورٹ کے مطابق ، شدید بارشوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کا براہِ راست تعلق ماحولیاتی تبدیلی سے ہے ۔ موجودہ صدی کے وسط تک ایسے واقعات کی شدت دو گنا ہونے کا امکان ہے ۔اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی 2025 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اربن فلڈنگ، مٹی کے تودے گرنے اور زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں ۔فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق، سن 2025 میں صرف پاکستان اور بھارت میں زرعی پیداوار میں 11 فیصد کمی کا اندیشہ ہے ۔ا قوام متحدہ کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے سیلاب اور بارشوں کے باعث سن 2024 میں تقریباً 33 ملین افراد نے اندرونِ ملک نقل مکانی کی ۔یہ صورتحال شہری نظام پر مزید دباؤ بڑھا رہی ہے جس کے نتیجے میں ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے جبکہ ہم  سب جانتے ہیں سمندروں کا کھارا نمکین پانی انسانی استعمال کے قابل نہیں ہے۔ اب لے دے کر دو فیصد گلیشیئر یا برف پوش چوٹیاں ہیں جہاں سے کچھ پانی رفتہ رفتہ برف کے پگھلنے پر تازہ پانیوں میں شامل ہوتا ہے۔

 یہ تحریر انٹرنیٹ کی مدد سے تلخیص کی گئ ہے 

برطانیہ کی نئ وزیر داخلہ بیرسٹر شبانہ محمود

    پاکستانی معاشرے میں  یہ خبر بہت خوشی اور حیرت کا باعث بنی جب  لوگوں کو معلوم ہوا کہ شبانہ  محمود وزیرِ داخلہ کی ذمہ داری سنبھالنے والی پہلی پاکستانی نژاد مسلمان خاتون ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم نے کابینہ میں اہم تبدیلیاں کی ہیں اور پہلی بار ایک مسلم خاتون کو وزارت داخلہ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے جمعے کو اپنی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کرتے ہوئے ڈیوڈ لامی کو ڈپٹی وزیراعظم اور لیبر پارٹی کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جسٹس سیکریٹری شبانہ محمود کو نیا وزیر داخلہ مقرر کر دیا۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق کابینہ میں یہ تبدیلیاں ڈپٹی وزیر اعظم اینجلا رینر کے پراپرٹی ٹیکس کم ادا کرنے کے الزام پر مستعفیٰ ہونے کے بعد ہوئی ہیں۔لیبر پارٹی کے بائیں بازو میں نمایاں حیثیت رکھنے والی رینر نے ایک فلیٹ کی خریداری سے متعلق تحقیقات میں وزارتی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ثابت ہونے کے بعد عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ان کے استعفے کے بعد سٹارمر نے اپنی 14 ماہ پرانی حکومت میں پہلی بڑی رد و بدل کی۔ 


نئے ڈپٹی وزیر اعظم ڈیوڈ لامی اس سے قبل برطانیہ کے وزیر خارجہ تھے۔ ان کا عہدہ اب یویٹ کوپر سنبھالیں گی، جو اس سے پہلے وزیر داخلہ تھیں شبانہ محمود سات جنوری 2025 کو سینٹرل لندن میں 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں کابینہ کے اجلاس کے لیے پہنچ رہی ہیں  نئی وزیر داخلہ شبانہ محمود برطانیہ کی سینیئر مسلمان سیاست دان ہیں اور انہیں لیبر پارٹی کی ابھرتی ہوئی قیادت سمجھا جاتا ہے۔ سابق بیرسٹر شبانہ محمود 2010 سے رکن پارلیمان ہیں اور اپوزیشن کے دور میں متعدد شیڈو وزارتیں سنبھال چکی ہیں۔تاہم انہوں نے جیرمی کوربن کی کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کیا تھا۔شبانہ محمود کون ہیں؟برطانوی حکومت کی سرکاری ویب سائٹ گورنمنٹ ڈاٹ یو کے کے مطابق شبانہ محمود پانچ جولائی، 2024 کو لارڈ چانسلر اور سیکریٹری آف سٹیٹ فار جسٹس بنی تھیں۔وہ جولائی 2024 میں برمنگھم لیڈی ووڈ کی رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئیں۔شبانہ محمود 17 ستمبر، 1980 کو برمنگھم میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ کا نام زبیدہ اور والد کا نام محمود احمد ہے۔


 وکی پیڈیا کے مطابق ان کے والدین پاکستانی نژاد ہیں اور تعلق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے میرپور سے ہے۔برطانیہ دوبارہ منتقل ہونے سے پہلے وہ 1981 سے 1986 تک سعودی عرب کے شہر طائف میں اپنے خاندان کے ساتھ رہیں جہاں ان کے والد ڈی سیلینیشن شعبے میں سول انجینیئر کے طور پر کام کر رہے تھے۔بعد میں ان کی پرورش برمنگھم میں ہوئی جہاں انہوں نے سمال ہیتھ سکول اور کنگ ایڈورڈ   کیمپ ہل سکول فار گرلز سے تعلیم حاصل کی۔ان کی والدہ ایک کارنر شاپ میں کام کرتی تھیں جسے ان کے خاندان نے انگلینڈ واپس آنے کے بعد خریدا تھا۔ان کے والد مقامی لیبر پارٹی کے چیئرمین بنے تو نوعمری میں ہی شبانہ محمود نے بلدیاتی انتخابات میں مہم چلانے میں ان کی مدد کی اور اپنے والد کے شانہ بشانہ  کھڑی رہیں 


     انہوں نے پچھلے برس نک رابنسن کے ساتھ ایک انٹرویو میں شبانہ محمود نے کہا کہ اگرچہ سیاست ’ہمیشہ سے ان کی زندگی کا حصہ رہی ہے لیکن چھوٹی عمر سے ہی انہیں بیرسٹر بننے کی خواہش تھی۔‘انہوں نے لنکن کالج، آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی جہاں وہ جونیئر کامن روم کی صدر تھیں۔شبانہ محمود لیبر پارٹی سے وابستہ ہیں اور 2010 سے برمنگھم لیڈی وڈ کی رکن پارلیمنٹ (ایم پی) رہی ہیں۔اس سے قبل وہ 2010 اور 2024 کے درمیان لیڈرز ایڈ ملی بینڈ، ہیریئٹ- وہ برطانوی حکومت میں وزیرِ داخلہ کا عہدہ سنبھالنے والی پاکستانی نژاد پہلی مسلمان خاتون بن گئی ہیں جو برطانیہ کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم اور تاریخی سنگِ میل تصور کیا جا رہا ہے۔برطانیہ میں ہوم افیئرز کمشنر کی حیثیت سے شبانہ محمود امیگریشن، قومی سلامتی اور انگلینڈ و ویلز کی پولیس فورس کی نگرانی کرتی ہیں۔ہرمن اور کیئر سٹارمر کے تحت مختلف شیڈو جونیئر وزارتی اور شیڈو کابینہ کے عہدوں پر فائز رہی ہیں۔


 


کراچی میں منی بس کا سفر


اگر پاکستان میں چاند پر جانے کے لئے خلانوردوں کے انتخاب کی بات ہو کراچی کے شہری یہاں کی منی بسوں کے ڈرائور ز کو اس مقا بلے میں شا مل ہونے کا مشورہ ضرور دیں گے کیونکہ کراچی کی سڑکوں پر بنے ہوئے ٹیلے نما اسپیڈ بریکرز اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے غار نما گڑھوں پر بھی منی بسوں کو رواں رکھنا انہی کا کمالِ مہارت ہو تا ہے اور منی بس کی ہئت کدائ تو ہے ہی عالمی مقابلہ ء ٹریفک میں رکھّے جانے کے قابل چھتوں پر چمکتے دمکتے رنگ برنگے خوبصور ت کئریر اور ان پر بیٹھے ہوئےکراچی کے فاقہ مست محنت کش مزدور،، اندر کی سیٹوں پر براجمان دفتریبابو اور ملازمین لیجئے یہ آ رہی ہے پیلے رنگ کی حسینہ چار سوبیس بلکل دلہن کی طرح سجی ہوئ ،زرا رونمائ تو کیجئے تو آپ کو اندر ٹیکہ جھومر ست لڑا گہنے پاتے-سب کچھ اس کی ونڈ اسکرین کے ماتھے پر سجا ہوا مل جائے گا ، لیجئے بھئ یہ آ گئ بلکل خلائ راکٹ اپالو گیارہ کی طرح اب زرا جلدی سے گولی کی طرح سوار ہو جائیے

ارے ! یہ کیا آپ تو قدم رنجہ فرماتے ہی گر گئے ،چلئے کوئ بات نہیں اٹھ جائے ،،شاباش ،،چوٹ تو نہیں لگی ویسے لگنی نہیں چا ہئے اللہ نے بچایا ورنہ گرے تو اوندھے منہ تھے یہ بھی اچھّا ہوا کیونکہ گرے تو نامعلوم گود میں تھے کیا پہلی مرتبہ منی بس کا سفر ہے ورنہ کراچی کے باسی تو ان چوٹوں اور خراشوں کے عادی ہو چکے ہیں کوئ بس سے اتر کر کہنی سہلا رہا ہوتا ہے اور کسی کے سر پرگومڑ پڑ چکا ہوتا ہے لیکن بس رواں دواں رہتی ہے جی اب زرا سنبھل کر ڈنڈا پکڑ لیجئے یہ دیکھئے وہ رہا آپ کے سر پر بس ڈیڑھ دو فٹ کے فاصلے پر-جی ہاں! یہ ہے کراچی کے شہریوں کا مقدّر جس کو انہوں نے اپنی تقدیر کالکھا ہوا جان کر صبر کر لیا ہے ہم بھی اس کڑوے تجربے سے اس طرح گزرے کہ بھیّا بھابھی نے فیصلہ کیا اب شہر کی گنجان آبادی میں رہنے کے بجائے آلودگی سے پاک کسی پر فضاء مقام پر رہا جائے چنانچہ شہر سے کچھ پرے یونیورسٹی روڈ پر ایک نئ تعمیر شدہ بستی میں ہم سب شفٹ ہو گئے

 اور ہوا یوں کہ بھیّا جو ہم کو پہلے ہمارے اسکول پر ڈراپ کر کے اپنے دفتر جاتے تھے ان کے لئے مشکل ہو گیا کہ وہ پہلے ہم کو ہماری جاب پر کھارا در چھوڑیں اور پھر اپنے دفتر جائیں تب ہم نے فیصلہ کیا کہ منی بس کے زریعے اسکول وقت پر پہنچنا ہی بہتر رہے گا ،جب ہم پہلی بار بس میں سوار ہونے کےلئے کھڑے ہوئے تھے ہمیں مسافروں نےسمجھا دیا تھا کہ بس آئے تو جلدی کئے گا ورنہ بس والا چلتی بس سے گرادے گا اس لئے ہم نے مسافروں کو دیکھ بھی لیا تھا کہ وہ بس میں پستول کی گولی کی مانند سوار ہو رہے ہوتے ہیں اور اس طرح نکل بھی رہے ہوتے ہیں چنانچہ جیسے ہی ہماری مطلوبہ بس آئ ہم بھی اس میں مسافروں کی بھیڑ کے ہمراہ دھکّم پیل کرتے ہوئے سوار ہوئے اور ابھی کھڑے ہونے کے لئے سنبھل ہی رہے تھے کہ بس ایک جھٹکے سے چل پڑی اور ہمارا توازن جو بگڑا تو ہم ایک خاتون کی گود میں جا گرے

 شرمندگی کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کی تو بریک کے جھٹکے نے ہلا ڈالا اور اس کے ساتھ ہی کنڈکٹر نے کرایہ طلب کر لیا ،،کرائے سے فارغ ہوتے ہی کنڈکٹر نے لیڈیز کمپارٹمنٹ میں گھس پِل کر جگہ بنائ اور ڈرائیور کے برابر میں موجود ٹیپ ریکارڈ آن کر دیا اور ٹیپ سے لتا کی پرسوزغزل کے بو ل برآمد ہوئے دھڑکتے دل کا پیام لے لو اب بس میں مکمّل خاموشی تھی اور بس کا ہر مسافر اپنے طور پر لتا کا سلام و پیام لے رہا تھااور پھر بس نے اوور ٹیکنگ کے نتیجے میں اپنا توازن جو کھویا تو بس ایک دم لہرا سی گئ اوربس میں چیخیں بلند ہوئیں ساتھ ہی اور لتا کی غزل آگے کے بولوں پر آئ اٹھےجنازہ جو کل ہمارا-قسم ہے تم کو نا دینا کاندھا اب بس چند ثانئے کو رکی ہی تھی کہ بس کا اگلا حصّہ رنگین آنچلوں کی معطّر خوشبو سے مہک سا گیا تب ہمیں معلوم ہوا بس کراچی یونیورسٹی کے بس سٹاپ پر رکی تھی-اور بس پھر چل پڑی لتا کی غزل بھی آگے بڑھی اٹھے جنازہ جو کل ہمارا قسم ہے تم کو نادینا کاندھا-

بس خلائ راکٹ کی رفتار سے اپنی منزلِ مقصود کی جانب جا رہی تھی کہ پھر بس نے ایک اور بھاری ٹرک کو اوور لوڈ کیا بس اس طرح لہرائ جانو ابھی الٹی بس میں پھر مسافر ایک دوسرے پر گرے اور چیخیں بلند ہوئیں پیچھےسے کوئ مسافر چیخا ابے رفتار کم کرتا ہے یا اور اس کے ساتھ کنڈکٹر نےمسافر کو منہ توڑ جواب دیا ابے امیر کے بچّے ٹیکسی میں جایا کر اورلتا کی غزل ٹیپ کی سوئ پر اٹک گئ اٹھے جنازہ جو کل ہمارا،، اٹھے جنازہ جو کل ہمارا ،،اٹھے جنازہ جو کل ہمارا اور ایک عورت نے اپنے پرس سے تسبیح نکال کر ورد شروع کیا جل تو جلال تو آئ بلا کو ٹال تو اب ہمیں بھی بس میں بیٹھنے کی جگہ مل گئ تھی اور ہمارے برابر میں بیٹھی خاتون منہ ہی منہ میں بُدبُدا رہی تھی یا اللہ خیر سے سب کے پیاروں ملائیو سب کے صدقے میرے پیاروں کو ملائیو ،یاللہ اگلے پچھلے گناہ معاف کر دے ،یا للہ اب میں پڑوسنوں کی غیبتیں بھی نہیں کروں گی ،میاں سے چھپ کر میکے بھی نہیں جاؤں گی -کنڈکٹر نے ٹھوک بجا کر ٹیپ ٹھیک کر دیا تھا اور اب غزل کے بول مرگِ مفاجات سے بچنے کی دعاؤں کی یاد دلا رہے تھے تمھاری دنیا سے جا رہے ہیں- اٹھو ہمارا سلام لے لو ہم نے بھی اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر اللہ میاں سے پیشگی مغفرت طلب کی اور گولی کی رفتار سے بس سے باہر آگئے کیونکہ ہماری منزلِ مقصود آ چکی تھی

جمعہ، 26 ستمبر، 2025

کراچی منگھو پیر کا قدیم قصبہ اور اس کی روایات

 

کراچی  سے سولہ کلو میٹر کے فاصلے پر منگھو پیر کے قصبے میں ہزاروں سالہ قدیم تہذیب کے آثار بکھرے ہوئے ہیں  جن میں ٹیلے، مساجد، مقابر،مزارات وغیرہ اشامل ہیں، خطے کی ارتقائی تہذیب و تمدن کی خاموش داستان بیان کرتے ہیں۔  پہاڑی ٹیلوں اور کیکرکی جھاڑیوں و جنگلات سے گھرا ہوا ’’منگھوپیر‘‘کا  یہ وہ قصبہ ہے، جہاں ہزاروں سال قدیم تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں۔ اس قصبے کے بارے میں مؤرخین کی رائے ہے کہ یہ علاقہ کسی دور میں آباد اور ہنستا بستا شہر تھا جو کسی قدرتی آفت یا حادثے کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سےمٹ گیا لیکن اس کے آثار اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔منگھوپیر کا علاقہ کراچی کے شمال مشرق میں واقع ہے جو اسے بند مراد کے ذریعے لسبیلہ سے ملاتا ہے۔ اس کے ٹیلوں پر واقع چوکنڈی طرز کی منقش قبریں، مکانات،تالاب اور دیگر آثار اس کی تاریخی حیثیت کی گواہی دیتے ہیں۔قدیم دور میں یہ علاقہ مکران اور ایران کے ساتھ تجارت کے لیے راہ داری کا کام دیتا تھا۔اسلام پھیلنے کے بعد عربوں کی آمد و رفت ایران اور مکران کے راستے ہوتی تھی 


ان کے قافلے اسی راستے سے گزرکر اگلے مستقرکی جانب  عازم سفر ہوتے تھے۔ دوران سفر ان کا پڑا و لسبیلہ اور اس کے گردونواح کے قصبات میں ہوتا تھا،جن میں سے ایک منگھوپیر کا قصبہ بھی تھا۔اس کی پہاڑیوں کے دامن میں موجود شکستہ،ٹوٹی پھوٹی پرانی قبریں صدیوں قدیم ہیں، ان میں چوکنڈی طرز کی قبریں بھی ہیں۔ یہاں تمام قبریں جنگ شاہی پتھر سے تعمیر کی گئی ہیں جو تیز پیلے اور قریب قریب زرد رنگ سے ملتا جلتا ہے۔ مؤرخین کے مطابق ،یہاں ایسی قبریں بھی دیکھی گئیں جن پر تلوار بازی، گھڑ سواری اورآات حرب کے نقوش بھی پائے جاتے تھے جبکہ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات کنندہ کئے گئے ہیں۔بعض قبریں چبوترے پر بنائی گئی تھیں جبکہ بعض کے نیچے ایک طرح کے طاق بنائے گئے ہیں جن کے آر پار دیکھا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کچھ خواتین کی قبروں پر ڈولی اور جنازے کی علامت گہوارے سے مشابہہ نقوش بھی موجود تھے جن کا مطلب تھا کہ یہ قبریں شادی شدہ خواتین کی ہیں ۔مردوں کی قبروں پر خوبصورت کلاہ نما ڈیزائن بنائے گئے ہیں،اس کے علاوہ تلوار بازی، گھڑسواری اور خنجر وغیرہ کے نقش نگار بھی بنائے گئے ہیں۔ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات کنندہ کئے گئے ہیں۔ ان نقوش سے مرد و زن کی قبروں کی باآسانی شناخت کی جاسکتی ہے۔


 شہر کے شمالی حصے میں واقع یہ علاقہ ایک صوفی بزرگ منگھو پیر کی مزار کی وجہ سے شہرت کا حامل ہے۔صدیوں پرانے مزار کی انوکھی بات، یہاں پر موجود بہت بڑا تالاب اور گرم پانی کا چشمہ ہے۔ تالاب میں درجنوں مگرمچھ رہتے ہیں، جنہیں مزار پر آنے والے عقیدت مند باقاعدگی کے ساتھ کھانا کھلاتے ہیں۔ عقیدت مندوں کا ماننا ہے کہ مگر مچھ صوفی بزرگ سے منسوب ہیں۔ علاقے کی قدیم کتب اور 19ویں صدی کی برٹش راج کی تحریروں میں مزار کا ذکر ملتا ہے۔ کچھ مؤرخین کے مطابق یہ مگرمچھ صدیوں سے یہاں پر موجود ہیں۔ کچھ ماہرینِ آثار قدیمہ کا دعویٰ ہے کہ انہیں یہاں مگرمچھوں کی ہزاروں سال پرانی باقیات ملی ہیں اور کالونیل دور کے برطانوی مصنفین کے مطابق بھی مگرمچھ وہاں 'ہزاروں سالوں سے موجود ہیں۔منگھوپیر کراچی کی تند و تیز مکرانی/شیدی برادریوں کے روحانی پیشوا ہیں۔ یہ لوگ ان افریقی غلاموں کی اولادیں ہیں جنہیں 10 ویں اور 17 ویں صدی کے دوران عر، فارسی، ترک اور یورپی حملہ آور یہاں لائے تھے۔ یہ لوگ زیادہ تر بلوچی بولنے والے مسلمان محنت کش مرد و عورت ہیں جن میں فٹ بال، باکسنگ، گدھوں کی ریس اور رقص کا جنون پایا جاتا ہے۔ مزار کے سالانہ میلے کو شیدی اپنی بنیادی افریقی طرز کے ساتھ مناتے ہیں۔



  ماہرین آثار قدیمہ      کے مطابق یہاں ملنے والی ہڈیاں کانسی کے دور (3300-1200 قبلِ مسیح) سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہاں کچھ پیتل کی قدیم اشیاء بھی ملی ہیں، جن پر موجود نقش و نگار سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ہزاروں سال پہلے کانسی دور کا ایک قدیم گاؤں آباد ہوگا،  کہا جاتا ہے کہ 13ویں صدی میں جب بزرگ نے یہاں سکونت اختیار کی اور ان کی وفات ہوئی ، اس وقت علاقے میں بہت زیادہ سبزہ موجود تھا۔سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اس وقت تک مگرمچھ انسانوں سے مانوس ہو چکے تھے اور خوراک کے لیے بزرگ کے پیروکاروں پر انحصار کرنے لگے تھے۔ دنیا میں دیگر مقامات پر پائے جانے والے مگرمچھوں کے برعکس مزار پر موجود مگرمچھ گوشت سے لے کر مٹھائی تک تقریباً سب کچھ کھا لیتے ہیں۔ سائنسدانوں کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ نسل در نسل پیروکاروں کے ہاتھوں سے طرح طرح کی خوراک کھا کر اب یہ مگرمچھ تمام چیزیں کھانے کے عادی ہوگئے ہیں۔یہ قبریں تعمیراتی فن کا اعلیٰ نمونہ ہیں لیکن اس طرز کی زیادہ تر قبریں ناپید ہوچکی ہیں صرف دو قبریں منگھوپیر کے مزار کے سامنے موجود ہیں ، ان کی حالت بھی مخدوش ہے۔

قصہ حضرت صالح علیہ السلام کا




قوم ثمود کے لوگ زیادہ ترکھیتی باڑی کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی زمین کو بڑی زرخیزی عطا   کی تھی۔  ان کے وطن کی مٹی میں بڑی طاقت  اور زرخیزی تھی۔، وافر پانی  ہونے کی بدولت فصلیں خوب لہلہاتی تھیں ۔ لوگوں نےکنویں کھودے ہوئے تھے۔ دراصل یہ اپنے وقت کے بہترین انجینئر تھے۔ان کے محلات، قلعے اور مکان ان کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ میدانوںمیں بڑے بڑے محل تو ہر زمانے میں بنائے جاتے ہیں لیکن قوم ثمود کا حیران کن ہنر پہاڑ تراشنا تھا۔یہ لوگ کسی مناسب پہاڑ کا انتخاب کرتے، پھر اسے تراشنا شروع کر دیتے،یہاں تک کہ پہاڑ میں مکان بنا ڈالتے۔ یہ مکان غار نما ہر گز نہیں تھےبلکہ ان میں ہوا اور روشنی کا مناسب انتظام ہوتا۔ پہاڑ میں تعمیر ہونے کیوجہ سے یہ بہت مضبوط ہوتے تھے۔ انھی خوبیوں کی وجہ سے پورے علاقے میں ان    جتنا خوش حال اور طاقت ور ملک کسی کا نہیں تھا۔ اور یہ خوش حالی اور طاقت ہی کا گھمنڈ تھا جس نے انھیں مغرور اور ظالم بنا دیا تھا۔ ارد گرد کی بستیوں پر ظلم کرنا ان کے لیے ایک کھیل کا درجہ رکھتا تھا۔



خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں کی وجہ سے ثمود کے لوگ عیش عشرت  کی زندگی بسر کر رہےتھے اور اپنے نبی اور رسول حضرت ہود علیہ السلام کی تعلیمات کو بھلا چکےتھے۔انھی حالات میں ایک نوجوان کا چرچا ہوا۔ سرخ و سفید رنگ، لمبے قد اورمضبوط جس کا مالک یہ نوجوان عام لوگوں سے الگ تھلگ رہتا تھا۔ اسے اپنےزمانے کی فضول رونقوں سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ اسے بت کدوں میں  رکھےہوئے بتوں سے بھی سخت نفرت تھی۔ لوگ اس کی زبان سے بتوں کے متعلق نفرت کےکلمات کئی دفعہ سن چکے تھے۔ لیکن اس کی شرافت اور دیانت کی وجہ سے اسےکچھ نہیں کہتے تھے۔اس نوجوان کا نام ’’صالح‘‘ تھا۔ ایک معزز قبیلے کا باوقار شخص، جسے بعدمیں اللہ نے اپنا نبی بنایا۔ حضرت صالح علیہ السلام نے شہر کے بڑے بڑےلوگوں کی دعوت کی۔ انھوں نے کھاناکھلانے کے بعد لوگوں کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور انھیں بلانے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا:’’اے لوگو! آج میں نے تمھیں وہ باتیں یاد کرانے کے لیے بلایا ہے، جن کوتم بھول چکے ہو۔ 



مجھے علم ہے کہ تم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ اللہ ہی نے تمھیں اور تمھاری زمین کو بنایا ہے۔ لیکن اس کے باوجود تم اس کی عبادت کرنے کے بجائے جھوٹے خداؤں کے سامنے جھکتے ہو۔ اے میری قوم کے سردارو! یہ گمراہی چھوڑ دو، ایک اللہ کی عبادت کرو۔ وہی تمھارا اصل رب ہے، اسی سےاپنے گناہوں کی معافی مانگو اور سرکشی کا رویہ چھوڑ دو۔‘‘حضرت صالح علیہ السلام کی گفتگو کے جواب میں ان سرداروں نے کہا: ’’اےصالح! ہمیں تم سے بہت سی امیدیں تھیں۔ ہم تمھیں بہت معزز اور باوقار شخص سمجھتے تھے لیکن تم نے ہمیں ’’گمراہ‘‘ کہہ کر ہمارے باپ دادا کے دین کوگالی دی ہے۔ تمھاری کوئی بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ آخر ہم ان خداؤںکی پوجا کیوں چھوڑ دیں جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے رہے ہیں۔ تم نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے۔‘‘حضرت صالح علیہ السلام نے انھیں سمجھانا چاہا لیکن وہ ناراض ہو کر وہاں سے اٹھ آئے۔



انھوں نے حضرت صالح علیہ السلام کو خبردار کیا کہ اگر انھوں نے یہ باتیں عام لوگوں میں کیں تو نتائج کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔حضرت صالح علیہ السلام نے سرداروں کی دھمکی کو کوئی اہمیت نہ دی اور اپنی رسالت کا عام اعلان کر دیا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ صالح        نے رسول اللہ ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے-انھوں نے اپنی قوم کو بتایا کہ وہ حضرت نوح ؑ اور ہودؑ کی طرح کے رسول ہیں۔ ان کا انکار کرنے پر اللہ ان پر عذاب نازل کرے گا۔ مگر طاقت کے غرورمیں پڑے ہوئے سرداروں اور مذہبی لیڈروں نے لوگوں کو یہ کہہ کر تسلی دی کہاگر وہ اللہ کی نافرمانی کر رہے ہوتے اور گناہ کی زندگی بسر کر رہے ہوتےتو اللہ انھیں پورے عرب میں اتنی عزت نہ دیتا، ان کی زمینوں کو اتناسرسبز نہ بناتا



اور ان کے محل اور پہاڑوں میں تراشے ہوئے مکان اتنے عمدہ    نہ ہوتے۔بت خانوں کے مالک یعنی کاہن کہتے: ’’اے لوگو! خود سوچو، جو ہاتھ گناہ گارہوں، ان ہاتھوں میں اللہ یہ ہنر کیوں پیدا کرے گا جن کی وجہ سے وہ پوریدنیا میں معزز بن جائیں...‘‘کچھ جھوٹے دانش ور دور کی کوڑی لائے اور کہنے لگے: ’’دراصل اس (صالح علیہالسلام) کا علیحدہ اور تنہا رہنے سے (نعوذ باللہ) ذہنی توازن بگڑ گیا ہے۔اس لیے یہ اپنے باپ دادا کو گمراہ قرار دے کر ایسی بہکی بہکی باتیں کررہا ہے۔‘‘کچھ زیادہ ہمدردی جتاتے تو کہتے: ’’بے چارے صالح پر کسی بد روح کا سایہ  پڑ  گیا ہے۔‘‘بعض تو یہ کہنے سے بھی باز نہ آئے کہ صالح جادوگر ہو گیا ہے۔ کچھ سردار کہتے:’ہمیں یقین ہے کہ صالح نے یہ سارا چکر اس لیے چلایا ہے کہ وہ لوگوں کوبے وقوف بنا کر ا ن کا سردار بن جائے۔ یہ بہت چالاک شخص ہے۔لیکن حضرت صالح علیہ السلام نے سرداروں اور بت کدوں کے کاہنوں کی باتوںکی کوئی پروا نہ کی اور اپنی تبلیغ جاری رکھی۔

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا -میری کتاب زندگی ' ہجرت

  

 سقوط حیدرآبا د کا ظالما نہ عمل تو قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے انتقال کے اگلے روز ہی پنڈت جواہر لعل نہرو نے باقاعدہ اعلان کر کے کیا تھا   سقوط حیدار آباد میں بھی ہزاروں کی تعداد میں وہاں کی مسلمان آبادی تہ تیغ کی گئ ,,بعد از سقوط ناگفتہ بہ فرقہ وارانہ حالات کے  پاکستان ہجرت کی اوربعد از ہجرت تمام عمر اپنے پیارے محبوب وطن پاکستان کے قلب کراچی میں بسر ہوئ عرصہ سات سال ہو نے کو ہیں کہ اپنے عزیز از جان شریک زندگی کی وفات  کے بعد کینیڈا آنا ہوا اور پھر یہیں کی مٹّی نے قدم پکڑ لئے-میں اپنی داستان زندگی کے آغاز پر ہی اللہ کریم رحمٰن و رحیم , کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ اپنے والدین مر حومین کی بھی بے حد شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے مجھے قرطاس وقلم کی اہمیت سےروشنا س کیا,اور زندگی کے لق ودق صحرا میں پیش آنے والی  اونچ نیچ سمجھائ ,,مشکلات کی کٹھن گھڑیوں میں  صبر اور نماز سے مدد کی  نصیحت کی  اور زندگی کے ہر ہر قدم پر میری رہنمائ کی ان ہستیوں کے ہمراہ اپنے محترم علم دوست شوہر  کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ جن کی قریب قر یب بیالیس سالہ رفاقت میں مجھےا ن کے آ  نگن میں سائبا ن  علم نصیب ہوا اب میں قارئین کو اپنا خاندانی پس منظر بتانا چاہوں گی 


میری والدہ کے اجد ا دسرزمین ہند کے زی وقار اور منفرد تہزیب رکھنےوالے شہر لکھنؤ میں سادات کے سو سالہ دور حکومت  میں ایران سے وارد ہند ہوئے،ان کا شجرہء نسب نجیب الطرفین سادا ت سے ہوتا ہوا چوتھے امام حضرت اما م زین العابدین علیہ السّلام سے جا ملتا تھا اور وہ  ایران کے شاہی دربار سےمنسلک شاہانہ طرز حیات رکھنے والے  لوگ تھے   ان میں ادباء و فضلاء شعراءصاحبان علم وحکمت  تھے چنانچہ ان کی لکھنؤ میں آمد پر شاہی دربار میں بھی ان کی خاص پذیرائ ہوئ اور یہ یہاں بھی شاہی دربار سے ہی وابستہ ہوئےان کی امارت کا یہ عالم تھا کہ جب میری والدہ شادی ہو کر حیدرآباد دکن آئیں اسوقت ان کا جہیز ریل کی دو بوگیاں ریزرو کر کے لایا گیا ،ان کی شادی کے جوڑے سونے کے تاروں اور ریشم کی آمیزش سے تیّار کئے گئے تھے ( ہجرت نے ہماری والدہ کواور ہم کو ان چیزوں سے فیضیاب ہونے کی مہلت نہیں دی اور سب کچھ بھرا گھر چھوڑ کر جان بچانے کو گھر سے نکل آ ئےامارت کے باوجود علم و ادب کےان شیدا ئیو ں میں  خواتین کے علم سے بھی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اس دور میں جب ہند وستان میں عورت کی تعلیم ایک جرم سمجھی جاتی تھی یہ لوگ اپنے گھر کی بچّیوں کی تعلیم پر بھی بھرپور توجّہ دیتے تھے  


مجھے میری نانی جان نے بتایا تھا کہ سن انّیس سو تیس میں جب میری والدہ پانچ برس کی ہوئیں تب ان کو پڑھانے کے لئے ایک بزرگ استاد گھر پر رکھّے گئے اور میری والدہ نے اپنے استاد محترم سے فارسی عربی اردو اور انگلش کی تعلیم حاصل کی جبکہ ان کا داخلہ بھی ایک مسلم اسکول میں اسی عمر میں کروادیا گیا ،، صبح آٹھ بجے ان کی ڈیوڑھی پر پردے لگا ہوا یکّہ آکر رکتا تھا اور میری والدہ کو گھر کے کوئ  بزرگ لے جا کرایکّے میں  سوار کرواد یتے تھے  اور شام چار بجے پھر اسی طرح سے واپسی کے وقت یہی عمل دہرایا جاتا تھا اس طرح میری والدہ نے غیر منقسم ہندوستان میں ہی مڈل کلاس پاس کرلی تھی میری والدہ اور دادی جان مرحومہ کا تعلّق اسی خانوادے سے تھاچنا نچہ ہوش سنبھالنے پر میں نے اپنے گھر کے آنگن میں ادبی محفلیں سجتی ہوئ دیکھیں اور ان کا اثر بھی قبول کیا دراصل ہمارا گھرانہ بنیادی طور پر ایک ادبی لیکن ساتھ ساتھ کافی حد تک مذہبی گھرانہ تھا اس لئے مجھے ادب سے اپنے گھرانے کی وابستگی آہستہ آہستہ میرے مزاج میں بھی رچتی اور بستی گئ میری والدہ کے قبلہ محترم رئیس امروہوی صا حب  سے  گھریلو مراسم تھے ،جبکہ  محترم سجّاد ظہیر صاحب کے گھر ا نے سے  بھی والدہ کے ہمراہ آنا جانا لگا رہتا تھا


میری والدہ صاحبہ کے  یہ خا ندانی  مراسم تقسیم ہند سے پہلے لکھنؤ سے ہی چلے آرہے تھے جیسا کہ میں نے بتایا کہ میری والدہ محترمہ کا تعلّق لکھنؤ کے سادات سے تھا جبکہ والد بھی یوپی کے سادات کے اہم خانوادے سادات نو گانواں میں عابدی سادات کےجیّد علمائے دین کے قبیلے  سے تعلعق رکھتے تھے ،میرے محترم دادا جان جنوبی ہندوستان میں قطب شاہی دور حکومت میں اپنا آبائ شہر چھوڑ کر حیدرآباد دکن آئے اور انہون نے یہیں پر مستقل سکونت اختیار کی ،جسے ازاں بعد ہم بھی چھوڑ کر پاکستان آگئے یہاں پر پہلے ہم نے اچھے دن اپنے والد کی ائر فورس کی سروس کے طفیل دیکھےاسوقت ہم سب ملیر کے علاقے کی ایک فوجی چھاؤنی میں مقیم تھے ہجرت کے بعدکی زندگی میں کچھ کچھ ٹہراؤ سا محسوس ہونے لگا تھا مگر پھرہمارے گھر میں کچھ ماورائےفطرت حالات پیش آ ئےاور پھرتقدیر کی گردش نے ہم کو بارہ سال ہمارے خاندان کوبڑی مشکلات میں  رکھا،ان حالات کے گرداب میں ہمارا خاندان اس طرح آیا کہ والد صاحب اتنے شدید بیمار ہوئے کہ ان کی ائرفورس کی سروس بھی چھوٹ گئ اور ہم کو چھاؤنی کا مکان بھی بہت عجلت میں چھوڑنا پڑا اور والد صاحب

جمعرات، 25 ستمبر، 2025

حضرت جعفر طیار کی غزوۂ موتہ میں شرکت و شہادت

 

حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی غزوۂ موتہ میں شرکت  و شہادت -جما دی الاول سن آٹھ  ہجری میں موتہ پر فوج کشی ہوئی،حضور نبی کریم ﷺ نے فوج کا علم حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو عطا کر کے فرمایا ؛؛اگر زید (رضی اللہ عنہ) شہید ہوں تو جعفر ( رضی اللہ عنہ ) اور اگر جعفر (رضی اللہ عنہ ) بھی شہید ہوں تو عبداللہ ابن رواحہ (رضی اللہ عنہ) اس جماعت کے امیر ہوں گے۔۔۔(بخاری شریف کتاب المغازی) حضور نبی کریم ﷺ اس غزوہ کے انجام و نتیجہ سے آگاہ تھے، اسی لئے فرمایا کہ اگر زید رضی اللہ عنہ شہید ہوں تو جعفر رضی اللہ عنہ علم سنبھالیں ،اگر وہ بھی شہید ہوں تو عبداللہ ابن رواحہ رضی اللہ عنہ انکی جگہ لیں ۔۔۔(طبقات ابن سعد)موتہ پہنچ کر معرکۂ کار زار گرم ہوا، تین ہزار غازیانِ اسلام کے مقابلہ میں غنیم کا ایک لاکھ ٹڈی دل لشکر تھا،امیر فوج حضرت زید رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ گھوڑے سے کود پڑے اور علم کو سنبھال کر غنیم کی صفیں چیرتے ہوئے آگے بڑھے ،دشمنوں کا ہر طرف سے نرغہ تھا،تیغ و تبر،تیر وسنان کی بارش ہو رہی تھی،یہاں تک کہ تمام بدن زخموں سے چھلنی ہو گیا،دونوں ہاتھ بھی یکے بعد دیگرے شہید ہوئے مگر اس مجاھدِ اسلام نے اس حالت میں بھی توحید کے جھنڈے کو سرنگوں ہونے نہ دیا(اسدالغابہ) بالآخر شہادت کا جام نوش فرمایا


 حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما بھی اس جنگ میں شریک تھے،فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی لاش کو تلاش کر کے دیکھا تو صرف سامنے کی طرف پچاس(50) زخم تھے،تمام بدن کے زخموں کا شمار تو نوّے (90) سے بھی متجاوز تھا،لیکن اُن میں کوئی زخم پشت پر نہ تھا (بخاری شریف ) اللہ اکبر کبیرا-حضور نبی کریم ﷺ کا حزن و ملال ۔!میدانِ جنگ میں جو کچھ ہو رہا تھا ،اللہ تعالی کے حکم سے حضور نبی کریم ﷺ کے سامنے تھا،چنانچہ خبر آنے سے پہلے ہی آپ ﷺ نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حال بیان فرمایا۔اس وقت آپ ﷺ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے اور روئے انور پر حزن وملال کے آثار نمایاں تھے( اسدالغابہ)حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں آٹا گوندھ چکی تھی اور  بچو ں کو نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنا رہی تھی کہ حضور نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا جعفر کے بچوں کو لاؤ،میں نے ان کو حاضرِ خدمت کیا، تو آپ ﷺ نے آبدیدہ ہو کر ان کو پیار فرمایا ،میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں,حضور ﷺ آبدیدہ کیوں ہیں


   کیا جعفر (رضی اللہ عنہ ) اور ان کے ساتھیوں( رضی اللہ عنھم) کے متعلق کوئی اطلاع آئی ہے،فرمایا ہاں! وہ شہید ہو گئے ،یہ سن کر میں رونے لگی۔۔۔محلہ کی عورتیں میرے اردگرد جمع ہو گئیں،حضور نبی کریم ﷺ واپس تشریف لے گئےاور ازواجِ مطہرات(رضی اللہ عنھن) سے فرمایا کہ آل جعفر (رضی اللہ عنہ) کا خیال رکھنا،آج  انہیں شدید صدمہ ہے خاتونِ جنت سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنھا کو بھی اپنے عمِ محترم کی مفارقت کا شدید غم تھا،شہادت کی خبر سُن کر بادیدۂ تر واعماہ! واعماہ! کہتے ہوئے بارگاۂِ نبوت ﷺ میں حاضر ہوئیں،حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ! بیشک ! جعفر رضی اللہ عنہ جیسے شخص پر رونے والیوں کو رونا چاہیئے،آپ ﷺ کو عرصہ تک شدید غم رہا،یہاں تک کہ روح الامین نے یہ بشارت سنائی کہ اللہ تعالی نے جعفر ( رضی اللہ عنہ ) کو دو کٹے ہوئے بازوؤں کے بدلہ میں دو نئے بازو عنایت کیے ہیں ،جن سے وہ ملائکہ جنت کے ساتھ مصروفِ پرواز رہتے ہیں ۔(مستدرک حاکم) چنانچہ ذوالجناحین اور طیار ان کا لقب ہو گیا۔(رضی اللہ عنھم ورضو عنہ ) حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے فضائل و محاسن -حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کشادہ دست و فیاض تھے،غرباء و مساکین کو کھانا کھلانے میں انکو خاص لطف حاصل ہوتا تھا ،


اسی لئے حضور نبی کریم ﷺ ان کو ابو المساکین کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے،حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اکثر بھوک کے باعث پیٹ کو کنکروں سے دبائے رکھتا تھا اور آیت یاد بھی رہتی تو اس کو لوگوں سے پوچھتا پھرتا  کہ شاید کوئی مجھ کو اپنے گھر لے جائے اور کچھ کھلائے لیکن میں نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کو مسکینوں کے حق میں سب سے زیادہ بہتر پایا ، وہ ہم لوگوں (اصحاب صفہ رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین) کو اپنے گھر لے جاتے تھے،اور جو کچھ ہوتا تھا ،سامنے لا کر رکھ دیتے تھے،یہاں تک کہ بعض اوقات گھی یا شہد کا خالی مشکیزہ تک لا دیتے اور اسکو کاٹ کر ہمارے سامنے رکھ دیتے اور ہم اس کو چاٹ لیتے تھے۔(بخاری شریف )حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کا پایہ نہایت بلند تھا ،خود حضور نبی کریم ﷺ ان سے فرمایا کرتے تھے کہ "جعفر" (رضی اللہ عنہ)! تم میری صورت وسیرت دونوں میں مجھ سے مشابہ ہو۔(بخاری شریف)حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے پہلے جس قدر نبی (علیھم السلام) گزرے ہیں ان کو صرف سات رفیق دیئے گئے تھے ،لیکن میرے رفقائےِ خاص کی تعداد چودہ(14) ہے ، ان میں سے ایک جعفر (رضی اللہ عنہ) بھی ہیں۔۔

دل وہیں چھوڑ آیا تھا

 


 

 ·

 

 

اسلام آباد کے ریکٹر ملک معراج خالد تھے۔ وائس چانسلر ہی کہہ لیجیے۔ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی کے دوسرے سمسٹر کا طالب علم تھا۔یونیورسٹی نے فیسوں میں دو سو فیصد اضافہ کر دیا۔ میں نے ملک معراج خالد کے خلاف ایک مقامی روزنامے میں کالم لکھ دیا۔ میں نے لکھا کہ ایک دودھ بیچنے والا ریکٹر بن جاتا ہے تو اس کی گردن میں سریا آ جاتا ہے اور وہ اپنا ماضی بھول جاتا ہے۔ یاد نہیں اور کیا کچھ لکھا لیکن وہ بہت ہی نا معقول تحریر تھی۔اگلے روز میں کلاس میں پہنچا تو ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ جناب ایس ایم رؤوف صاحب نے مجھے اپنے دفتر میں بلا کر کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ تمہیں ریکٹر صاحب نے طلب کیا ہے۔مجھے خوب یاد ہے جب میں ان کے کمرے سے نکل کر جا رہا تھا تو انہوں نے غصے سے کہا: جنٹل میں گو اینڈ فیس دی میوزک۔خیر میں ریکٹر آفس کی جانب چل پڑا اور راستے میں یہی سوچتا رہا کہ یہ تو طے ہے آج یونیورسٹی میں میرا آخری دن ہے،



 لیکن سوال یہ ہے کہ آج یونیورسٹی سے نکالا جاؤں گا تو گھر والوں سے کیا بہانہ بناؤں گا کہ کیوں نکالا گیا۔وہاں پہنچا تو ریکٹر کے پی ایس اسماعیل صاحب کو بتایا میرا نام آصف محمود ہے، مجھے ریکٹر صاحب نے بلایا ہے۔مجھے شدید حیرت ہوئی جب اسماعیل کے سپاٹ چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور کہنے لگے جائیے وہ آپ کے منتظر ہیں۔ لیکن اندر داخل ہوا توحیرتوں کے جہان میرے منتظر تھے۔ ملک صاحب اکیلے بیٹھے تھے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا: سر میں آصف، آپ نے بلایا تھا؟آپ ہی نے کالم لکھا تھا؟جی سر میں نے لکھا تھا۔تشریف رکھیے مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنا ہیں۔۔۔۔اور میں جل تو جلال تو کا ورد کرتے ہوئے بیٹھ گیا۔کافی دیر یونہی گزر گئی۔ملک صاحب ولز کی ڈبیا گھماتے رہے۔ ایک ایک لمحہ اعصاب پر بھاری تھا۔پھر ملک صاحب نے خاموشی کو توڑا اور کہا: کالم تو آپ نے اچھا لکھا لیکن آپ کی معلومات ناقص تھیں۔ میں صر ف دودھ فروش نہیں تھا۔میرے ساتھ ایک اور معاملہ بھی تھا۔



میں نے اسی لیے آپ کو بلایا ہے کہ آپ کی معلومات درست کر دوں۔ میں صرف دودھ نہیں بیچتا تھا۔ میرے ساتھ یہ مسئلہ بھی تھا کہ جوتے نہیں تھے۔میں دودھ بیچ کر سکول پہنچتا اور سائیکل وہیں کھڑی کر دیتا۔ گھر میں جوتوں کا ایک ہی جوڑا تھا جو والد صاحب کے زیر استعمال تھا۔ اس کا حل میں اور میرے ابا جی نے مل کر نکالا۔ ہمارے درمیان یہ طے ہوا کہ صبح میں یہ جوتے پہن کر جایا کروں اور جب میں واپس آ جاؤں تو یہی جوتے پہن کر ابا جی چوپال میں جا کر بیٹھا کریں۔ اب ڈر تھا کہ سائیکل چلانے سے جوتا ٹوٹ نہ جائے۔ اس لیے میں انہیں سائیکل کے ساتھ لٹکا لیتا تھا۔جب دودھ گھروں میں پہنچا کر کالج کے گیٹ کے پاس پہنچتا تو جوتا پہن لیتا۔ واپسی پر پھر سائیکل کے ساتھ لٹکا لیتا اور ننگے پاؤں سائیکل چلاکر گھر پہنچتا۔ملک صاحب پھر خاموش ہو گئے۔ یہ دورانیہ خاصا طویل رہا۔پھر مسکرائے اور کہنے لگے: سریے والی بات تم نے ٹھیک کہی۔ واقعی ، اللہ نے دودھ فروش کو نوازا تو اس کی گردن میں سریا آ گیا۔



بار بار دہراتے رہے:اللہ نے دودھ فروش کو نوازا لیکن اس کی گردن میں سریا آ گیا۔پھر اسماعیل کو بلایا اور پوچھا کہ کیا قواعد و ضوابط کے مطابق میں فیس میں کیا گیا یہ اضافہ واپس لے سکتا ہوں۔اسماعیل نے کہا سر ریکٹر کے اختیار میں نہیں ہے۔ کہنے لگے اختیار میں تو نہیں ہے لیکن اگر میں نوٹیفیکیش جاری کر دوں تو پھر؟ اسماعیل کہنے لگے: سر آپ نوٹی فیکیشن جاری کر دیں تو ظاہر ہے اس پر عمل ہو گا۔ملک صاحب نے کہا جلدی سے نوٹیفیکیشن بنا لاؤ، فیسوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔میں کمرے سے باہر نکلا تو اس حکم نامے کی کاپی میرے ساتھ تھی،*دل البتہ وہیں چھوڑ آیا تھا* ۔ڈیپارٹمنٹ پہنچا تو ایس ایم اے رووف صاحب نے پوچھاہاں کیا ہوا؟میں نے نوٹی فیکیشن آگے رکھ دیا، سر یہ ہوا۔رووف صاحب کی آنکھوں میں جو حیرت تھی، مجھے آج بھی یاد ہے۔ آج اگر کوئی مجھ سے پوچھے: وائس چانسلر کیسا ہونا چاہیے؟ میں کہوں گا اسے ملک معراج خالد مرحوم جیسا ہوناچاہیے۔

تحریر: آصف محمود کالم نگار/ اینکر

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی

بدھ، 24 ستمبر، 2025

اللہ کی بھی ایک سپریم کورٹ ہے


زندگی کے المیوں کی کہانیا ن لکھنا میرے لئے مشکل ہوتا ہے لیکن میں پھر بھی اپنے دل پر جبر کر کے لکھتی ہوں  کہ شائد کوئ بھٹکتی نظر  میری  تحریر پڑھ کر راہ راست پر آجائے تو میری تحریر کا  صلہ   مجھے مل جائے گا یہ ایک محفل تھی  بہت سے جانے پہچانے چہرے تھے اور کئ چہرے  نا شناسا بھی تھے ان نا شناسا چہروں میں ایک لڑکی اپنی ننّھی منّی سی  بیٹی کو لئے بیٹھی تھی  لڑکی بھی شکل و صورت کی اچّھی تھی  لیکن اس کی گود میں بچّی ماشاللہ بہت پیاری تھی  میں نے  پیار سے دیکھا تو میرے پاس ہمک کر آ گئ ، میں کچھ دیر اس سے کھیلتی رہی پھر وہ  بچّی اپنی ماں کے پاس واپس چلی گئ ،محفل تمام  ہو چکی تھی لیکن کھانا  نہیں   آسکا تھا  صاحب خانہ بوکھلائ ہوئ تھیں لیکن مہمانو ں نے کہا پریشان نا ہوں ابھی وقت زیادہ نہیں ہوا ہے صاحب خانہ  ہمارے پاس سے دوسری جانب چلی گئیں  ان کے جانے  کے بعد میں پھر لڑکی سے مخاطب ہوئ مین نے لڑکی سے کہا  معلوم ہوتا ہے تمھارے والد بہت خوبصورت ہوں گے  اس نے سوال کیا آپ کس بنیاد پر کہ رہی ہیں  میں نے کہا کیونکہ بنیاد یہ ہے کہ جینیاتی طورپر    بیٹی کی اولاد اکثر اپنے نانا  کی شکل پر ہوتی ہے ،


 جو میں نے پڑھا ہے اس کے علاوہ  کوئ اور لاجک ہو تو میں نہیں جانتی ہوں لڑکی نے اپنے سینے سے ایک گہری سرد  آہ کھینچی ،،میں نے پوچھا کیا ہوا تو   کہنے لگی آپ نے  ٹھیک پہچانا   لیکن میرے والد کا مقدّر ان کی ساری وجاہت کے بر عکس بڑا کھوٹا نکلا-لڑکی پھر گویا ہوئ  ،امّی نے  ابّو کو زبردستی باہر یہ کہ کر بھیجا کہ میرا  اس پیسے میں گزارہ نہیں ہوتا ہے ابّو بلکل نہیں جانا چاہتے تھے  اور پھر  ابّو نے بالآخر امّی کے آگے ہا ر مان لی اور باہر چلے گئے ،ابّو کے باہر جانے کے بعد ہمارے ایک عزیز امّی سے کچھ چھوٹی عمر  کے امّی کے پاس آنے لگے اور ابّو کا بھیجا ہوا پیسہ ہمارے گھر میں خوشحالی تو لایا لیکن ساتھ امّی  کی بے راہروی  بھی ساتھ لایا  اور میرے ابّو کی پردیس کی خون پسینے کی کمائ امّی بے دریغ اُن پر اور اپنے بناو سنگھار پر  خرچ کرنے لگیں، ہم بہن بھائیوں کو ان کا آنا بہت ناگوار گزرتا تھا  اور ہم سب بہن بھائ  ان کے آنے پر اپنے اپنے طور پر اپنی خفگی کا اظہار کرتے تھے لیکن امّی نے سختی سے کہ دیا کہ کوئ بچّہ ان کے معاملات میں دخیل ناہو  اور ہم بہن بھائ چپ ہو گئے


اور پھر دو برس تو جیسے پلک جھپکتے میں گزر گئے اور ابّو پاکستان چھٹّیوں پر آ گئے اور  امّی نے ابّو کے آگے طلاق کا مطالبہ رکھ دیا  ابوّ نے پہلے  تو امّی کو سمجھا یا کہ بچّوں کی خاطر گھر برباد نا کریں   ابّو بہت ، بہت روئے لیکن حالات اس نہج پر تھے کہ ابّو کو با لآخر طلاق دیتے بنی  اور پھرطلاق ہوتے ہی   امّی کی تقدیر کی بساط الٹ گئ،وہ شخص جو دو برس سے امّی کا پل پل رات اور دن کا ساتھی تھا  وہ  جو امّی سے کہتا تھا کہ طلاق لے   لو   میں تم سے شادی کروں گا وہ ا مّی کی زندگی کے آسمان  سے دھواں بن کر اس طرح تحلیل ہو گیا کہ جیسے وہ امّی کی زندگی میں آ یا ہی نا ہوگیا   ابّو کے طلاق دینے کے بعد اب امّی ہم سب  کو چھوڑ کر اپنے میکہ  جاچکی  تھیں  ،اور ابّو  پردیس دوبارہ جانے سے انکاری  تھے  کیونکہ پھر ہم تینوں بھائ بہن  اکیلے رہ جاتے  -پھر ابو نے  سب سے پہلے مکان بیچ کر دوسرا مکان  پچھلے گھر سے بلکل دور  دوسرا مکان لیا   اور ہم  بچوں کو سمجھا دیا کہ یہاں ماں کے لئے سوال ہو تو کہ دینا  کہ کافی پہلے انتقال ہو گیا -


پھر نئے گھر میں زندگی بہت اچھی طرح چل پڑی -میں نے نئے گھر میں شفٹ ہو کر  گھر کی دیکھ بھال کے ساتھ 'ساتھ اپنی تعلیم پر توجہ دی 'بھائ   کو ابو نے نگرانی میں  رکھا جس کی وجہ سے وہ بھی بہتر ہوا کچھ برس اسی طرح گزرے اس عرصہ میں، میں انّیس برس کی  مجھ سے چھوٹی بہن  ستّرہ برس کی  اور بھائ پندرہ برس  کا  ہو گیا تھا اور    ابّو نے  پردیس جانے کے بجائے گھر کے قریب ہی مارکیٹ میں  ریسٹورینٹ  کھول لیا اور تاکہ ہم بہن بھائ گھر میں اکیلے نہیں رہیں  ایسے میں میرا ایک اچھّا رشتہ آیا  جسے ابّو نے دیکھ بھال کر میری شادی کر دی   اس سنگین حادثہ کی وجہ سے   میرا انتہائ  نفیس مزاج  معصوم بھائ  نفسیاتی مریض ہو گیا تھا   جس کو میں نے  ابّو کے ساتھ ملکر بہت سمجھداری سے سنبھالا اور پھر   وقت گزرتا رہا بس  رشتے داروں سے ہمیں اتنا پتا چلا کہ امّی کے بھائیوں نے ان کی شادی  کراچی کے بجائے سندھ کے کسی اور شہر میں کر دی ہے،ظاہر سی بات ہے کہ میرے ماموؤں کی اپنی فیمیلیز تھیں اور حقیقت بھی یہ تھی کہ امّی کے کردار کو ان کے میکہ  میں  سب ہی برا کہہ رہے تھے  


next part-2

کاڈ لیور آئل 'کب اور کیوں ضروری ہے

 

   یہ مضمون ان گھریلو خواتین کے لئے ہے جو مچھلی پکانے میں  مشکل کا شکار ہوتی ہیں -انسانی صحت کیلئے جس طرح مچھلی مفید ہے اسی طرح اسکا تیل بھی گوناگوں خوبیوں سے آراستہ ہوتا ہے۔ سائنسدانوں نے حالیہ تحقیق کے بعد بتایا کہ اگر گٹھیا کے مریض مچھلی کا تیل استعمال کریں تو انہیں کافی افاقہ ہوسکتا ہے۔کاڈ لیور آئل کے نام سے مشہور تیل اب تک سانس کی بیماریوں اور تپ دق کے متاثرہ افراد کو صحت مند بنانے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ تازہ خصوصیت جو گٹھیاکے مریضو ں کے فائدے کیلئے سامنے آئی ہے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں 20فیصد افراد اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ واضح ہو کہ مچھلی کا تیل کیپسول کی شکل میں دستیاب ہوتا ہے تاہم چونکہ یہ تیل مچھلی کے جگر کے حصوں کو استعمال کرکے بنایا جاتا ہے اسلئے عام مچھلی کے مقابلے میں زیادہ مفید اور کارگر ثابت ہوتا ہے۔


 امریکی سائنسدانوں کی یہ رپورٹ اپنی قسم کی پہلی ہے جو 2012ءمیں آنے والی اس رپورٹ سے زیادہ مفصل ہے جس میں گٹھیا کے مختلف علاج کی بات کی گئی تھی  در حقیقت  کاڈ لیور آئل صدیوں سے ہی انسان کی  غذا کا اہم حصہ رہا ہے۔ یہ اپنے بھرپور غذائیت کے پروفائل کے لیے مشہور ہے، خاص طور پر اس میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز، وٹامن اے، اور وٹامن ڈی کی اعلیٰ سطح۔ ا  ہم کوڈ لیور کے تیل کے صحت کے فوائد، اس کے غذائیت کے فوائد، اور اسے کیوں شامل کیا جائے اس کا جائزہ لیں گے۔ آپ کی خوراک میں فائدہ مند ہو سکتا ہے.کوڈ لیور آئل کیا ہے؟-کاڈ لیور آئل مچھلی کے تیل کا ایک قسم کا   سپلیمنٹ  ہے، جو کوڈ فش کے جگر سے نکالا جاتا ہے۔ مچھلی کے دیگر تیلوں کے برعکس، کاڈ لیور آئل خاص طور  پر وٹامن A اور D سے بھرپور ہوتا ہے۔  کاڈ لیور آئل کے غذائی فوائد-اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کی مقدار زیادہ ہے۔اومیگا 3 فیٹی ایسڈ ضروری چربی ہیں جو جسم خود پیدا نہیں کر سکتا۔


 وہ دماغی کام، سوزش میں کمی، اور دل کی صحت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کوڈ لیور آئل EPA اور DHA کا ایک بہترین ذریعہ ہے، جو اومیگا 3s کی سب سے زیادہ فائدہ مند شکلیں ہیں۔وٹامن اے اور ڈی سے بھرپور-کاڈ لیور آئل وٹامن A اور D کے امیر ترین قدرتی ذرائع میں سے ایک ہے۔ وٹامن A صحت مند بصارت، مدافعتی افعال اور جلد کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے، جب کہ وٹامن ڈی ہڈیوں کی صحت، مدافعتی افعال، اور موڈ ریگولیشن کے لیے اہم ہے۔اینٹی سوزش کی خصوصیات-کوڈ لیور آئل میں موجود اومیگا 3 فیٹی ایسڈز طاقتور اینٹی  سوزش کے اثرات  کے حامل ہوتے  ہیں  اور اس کا باقاعدہ استعمال جسم میں سوزش کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے جو کہ گٹھیا اور دیگر سوزش کی بیماریوں جیسے حالات کے لیے فائدہ مند ہے۔کوڈ لیور آئل کے صحت سے متعلق فوائد-دل کی صحت -تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز دل کی بیماری کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کرسکتے ہیں۔ 


کم بلڈ پریشر، ٹرائگلیسرائڈز کو کم کرتا ہے، اور شریانوں کی تختیوں کی تشکیل کو روکتا ہے۔ کوڈ لیور آئل، ان فیٹی ایسڈز سے بھرپور ہونے کی وجہ سے، قلبی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔دماغی افعال کو بڑھاتا ہے۔ڈی ایچ اے، کوڈ لیور آئل میں بنیادی اومیگا 3 فیٹی ایسڈز میں سے ایک، دماغ کا ایک اہم ساختی جزو ہے۔ کاڈ لیور آئل کا باقاعدگی سے استعمال علمی افعال کو سہارا دے سکتا ہے، یادداشت کو بہتر بنا سکتا ہے، اور یہاں تک کہ نیوروڈیجنریٹیو بیماریوں کے خطرے کو بھی کم کر سکتا ہے۔مدافعتی نظام کو بڑھاتا ہے۔وٹامن اے اور ڈی صحت مند مدافعتی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہیں۔ وٹامن اے مدافعتی ردعمل کو منظم کرنے اور انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے،  - خون کے سفید خلیے جو آپ کے مدافعتی دفاع کے اہم حصے ہیں۔ہڈیوں کی صحت کو فروغ دیتا ہے-کوڈ جگر کے تیل میں وٹامن ڈی کیلشیم جذب اور ہڈیوں کی صحت کے لیے ضروری ہے۔ یہ روکنے میں مدد کرتا ہے۔ ہڈیوں کی خرابی جیسےآسٹیوپوروسس اور رکٹس۔ وٹامن ڈی کی مناسب مقدار ان لوگوں کے لیے خاص طور پر اہم ہے جہاں سورج کی روشنی محدود ہوتی ہے۔کاڈ لیور آئل کیسے حاصل کیا جائے تو جناب آج کے دور  میں ایما زون آ پ کے اس مسلئہ کا حل لے کر حاضر ہے ایمازون پر لاتعداد  کمپنیز کاڈ لیور آئل سیل کر رہی ہیں 

مضمون انٹرنیٹ کی مدد سے لکھا گیا ہے

پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ ، کینیڈا کا ایک صوبہ ہے

  




پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ ، کینیڈا کا ایک صوبہ ہے جو اسی نام کے ایک جزیرے پر مشتمل ہے۔ پورے ملک میں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے یہ صوبہ دیگر تمام صوبوں سے چھوٹا ہے۔ اس کے کئی مختلف نام ہیں۔خلیج کی جنت کے نام سے مشہور یہ جزیرہ سینٹ لارنس کی خلیج میں کیپ بریٹن آئی لینڈ کے مغرب، نووا سکوشیا جزیرہ نما کے شمال اور نیو برنزوک کے مشرق میں واقع ہے۔ اس کے جنوبی ساحل نارتھمبر لینڈ سٹریٹ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ جزیرے میں دو شہری علاقے ہیں۔ بڑا علاقہ چارلٹ ٹاؤن بندرگاہ کے ارد گرد موجود ہے جو جزیرے کے جنوبی ساحل پر واقع ہے اور یہاں چارلٹ ٹاؤن نامی شہر صوبے کا صدر مقام ہے۔ اس کے کناروں پر کارن وال اور سٹراٹفورڈ کے قصبے ابھر رہے ہیں۔ نسبتاً بہت چھوٹا شہری علاقہ سمر سائیڈ بندرگاہ کے ارد گرد موجود ہے جو چارلٹ ٹاؤن کے شہر سے چالیس کلومیٹر دور ہے۔ یہ دراصل سمر سائیڈ کے شہر ہی پر مشتمل ہے۔ دنیا کی دیگر تمام قدرتی بندرگاہوں کی طرح یہ دونوں بندرگاہیں بھی سمندری عمل کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھیں۔



جزیرہ بہت خوبصورت مناظر رکھتا ہے۔ یہاں اونچی نیچی پہاڑیاں، گھنے جنگل، سرخ و سفید ساحل، سمندر اور سرخ مٹی کی وجہ سے یہ جزیرہ اپنے قدرتی حسن کی بدولت شہرت رکھتا ہے۔ صوبے کی حکومت نے یہاں کے ماحول کو بچانے کے لیے کئی قوانین بنائے ہیں تاہم ان کے پوری طرح نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی تعمیرات میں موجودہ چند سالوں میں کوئی نظم و ضبط نہیں دکھائی دیتا۔جزیرے کی سر سبز لینڈ سکیپ کا صوبے کی معیشت اور ثقافت پر گہرا اثر ہے۔ آج بھی سیاح ان مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے ادھر جوق در جوق آتے ہیں۔ یہاں پرتعیش سرگرمیوں میں ساحل، بے شمار گولف کے میدان، ایکو ٹورزم اور شہر کے باہر سیر وغیرہ یہاں کے عام مشاغل ہیں۔چھوٹی دیہاتی آبادیوں، قصبوں اور شہروں میں آج بھی سست رفتار زندگی دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ سے یہاں لوگ بکثرت آرام کرنے آتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش چھوٹے پیمانے پرکاشت کاری ہے۔



 یہ چھوٹا پیمانہ کینیڈا کے دیگر صوبوں کے حوالے سے۔ یہاں اب صنعتیں لگ رہی ہیں اور پرانے فارموں کی عمارتیں نئے سرے سے اور جدید طور پر بنائی جا رہی ہیں۔ساحل سمندر پر طویل ساحل، کھاڑیاں، سرخ ریتلی چوٹیاں، کھارے پانی کی دلدلیں اور بہت ساری خلیجیں اور بندرگاہیں ہیں۔ ساحلوں، کھاڑیوں اور چونے کی چٹانیں بھربھری ہیں اور یہاں فولاد کی کثرت ہے جو کھلے ماحول میں فوراً زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے بیسن ہیڈ میں موجود سفید ریت کی خصوصیات صوبے بھر میں بے مثال ہیں۔ جب ان پر چلا جائے تو یہ ایک دوسرے سے رگڑ کھا کر عجیب سی آواز پیدا کرتے ہیں۔ انھیں عرف عام میں گنگناتی ہوئی ریت کہا جاتا ہے۔ شمالی ساحل پر بیرئر جزیرے پر بڑی پہاڑیاں پائی جاتی ہیں۔ گرین وچ میں موجود ریت کی پہاڑیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔


 یہ متحرک ریت کا علاقہ بے شمار پرندوں اور نایاب نسل کے پودوں کا مسکن ہے اور یہاں آثار قدیمہ کے حوالے سے بھی کافی کچھ موجود ہے۔فروری کے آغاز تک درجہ حرارت گرتا چلا جاتا ہے۔ دسمبر سے لے کر اپریل تک یہاں اکثر برفانی طوفانوں کے باعث زندگی کئی کئی دنوں تک معطل ہو جاتی ہے۔ بہار کے آغاز میں اطراف میں موجود برف یہاں کے د رجہ حرارت کو کم رکھتی ہے۔ نتیجتاً یہاں بہار کا موسم چند ہفتے کی تاخیر سے شروع ہوتا ہے۔ برف کے پگھلتے ہی یہاں کا درجہ حرارت ایک دم بڑھنے لگ جاتاہے۔ مئی کا درجہ حرارت 25 ڈگری تک ہو سکتا ہے۔29 نومبر 1798 کو فیننگ کی گورنری کے دوران برطانیہ نے کالونی کا نام سینٹ جان آئی لینڈ سے بدل کر پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ اسے دیگر جزیروں جیسا کہ سینٹ جان اور سینٹ جانز کے شہروں سے فرق کیا جا سکے۔ کالونی کا نیا نام برطانوی باشادہ جارج سوم کے چوتھے بیٹے کے نام پر رکھا گیا جو پرنس ایڈورڈ آگسٹ تھے۔ انھیں ڈیوک آف کینٹ بھی کہا جاتا ہے۔

 


صوبائی معیشت میں زراعت کو اہمیت حاصل ہے۔ یہ اہمیت نوآبادیاتی دور سے چلی آ رہی ہے۔ بیسویں صدی کے دوران آلوؤں نے مخلوط کاشت کی جگہ لے لی اور اسے نقد آور فصل کہا جاتا ہے۔ یہ صوبے کی کل زراعت کا ایک تہائی ہے۔ صوبہ اس وقت کینیڈا کے آلوؤں کی کل پیدوار کا ایک تہائی پیدا کرتا ہے جو ایک اعشاریہ تین ارب کلو ہے۔ امریکی ریاست ایڈاہو کل چھ اعشاریہ دو ارب کلو آلو سالانہ پیدا کرتی ہے جس کی آبادی پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ کی آبادی سے ساڑھے نو گنا بڑی ہے۔ صوبہ آلوؤں کے بیج کی پیداوار کا بھی اہم مرکز ہے اور یہ بیس سے زیادہ ممالک کو بیج برآمد بھی کرتا ہے۔

منگل، 23 ستمبر، 2025

حضرت فاطمہ بنت اسد تاریخ کے آئینہ میں

ِ


  مولائے کائنات حضرت  علی علیہ السلام  اور نبئ کریم  صلی اللہ  علیہ   واٰلہ وسلم کے پردادا جنابِ ہاشم کے ایک فرزند جنابِ اسد بن ہاشم بھی تھے۔  حضرت فاطمہ بنت اسد جنابِ ہاشم کے اسی فرزند کی بیٹی تھیں۔ فاطمہ بنتِ اسد کا نکاح اپنے چچا زاد ابوطالب بن عبدالمطلب بن ہاشم سے ہوا۔ گویا بنی ہاشم کی ایک شاخ بنی عبدالمطلب تھی تو دوسری شاخ بنی اسد تھی۔ مولا علی کا ددھیال بنی عبدالمطلب تھا اور ننھیال بنی اسد۔ یوں مولا علی علیہ السلام  نجیب الطرفین ہاشمی تھے۔ اسد بن ہاشم قریش کے معزز سرداروں میں سے تھے۔ حجاج کو کھانا کھلانا بنی ہاشم کی ذمہ داری تھی۔ اسد اس فرض کی ادائیگی میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ ایثار اور ہمدردی کا جذبہ بہت زیادہ تھا۔ سخاوت کے حوالے سے پورے عرب میں مشہور تھے۔جناب اسد بن ہاشم عرب کے ان شرفاء میں سے بھی تھے جو دینِ ابراہیمی پر قائم تھے اور بت پرستی سے بیزار تھے۔ آپ کا انتقال رسول اللہ ص کی ولادت سے کچھ عرصہ پہلے ہی ہوگیا تھا۔ بعثتِ نبوی کے بعد سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں بنی اسد پیش پیش تھےآپ سلام اللہ علیہا کوقبر مبارک میں نبئ مکرم نے خود اتارا - آپ کو اپنی قمیض کا کفن دیا  آپ کی قبر مبارک میں لیٹ کر اس کی کشادگی دیکھی سبحان اللہ


حنین بہت فصیح شاعری بھی کرتے تھے۔ اپنے والد کی طرح توحید پر قائم تھے۔حنین کے دو فرزند عبداللہ بن حنین اور عبدالرحمان بن حنین بھی صحابی ہیں اور کتبِ احادیث میں ان سے روایات بھی مروی ہیں۔ جناب اسد کی ایک دوسری بیٹی یعنی فاطمہ بنت اسد س کی ایک بہن، مولا علی ع کی خالہ خلدہ بنتِ اسد تھیں۔ خلدہ رض اور ان کی بیٹی امِ سائب بھی سابقون الاولون میں سے ہیں۔ مادرِ مولا علی ع اس خاندان کی شہزادی تھیں۔ رسولِ خدا ص سے آپ کا رشتہ چچی کا بھی تھا اور پھپھی کا بھی کیونکہ آپ سلام اللہ علیہا جنابِ عبداللہ بن عبدالمطلب کی چچا زاد بہن بھی تھیں۔ فاطمہ بنت اسد ان چھ خواتین میں سے ہیں جنہیں رسول اللہ ص نے ماں کہا ہے۔ ان میں سیدّہ آمنہ سلام اللہ علیہا، جنابِ ام ایمن سلام اللہ علیہا، حلیمہ سعدیہ رض، ثویبہ اور امِ ابیہا جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی شامل ہیں۔ ان خواتین میں رسول اللہ ص کا سب سے زیادہ وقت ام ایمن س اور فاطمہ بنت اسد س کی محبت کی چھاؤں میں گزرا۔


فاطمہ بنت اسد ان چھ خواتین میں سے ہیں جنہیں رسول اللہ ص نے ماں کہا ہے۔ ان میں سیدّہ آمنہ سلام اللہ علیہا، جنابِ ام ایمن سلام اللہ علیہا، حلیمہ سعدیہ رض، ثویبہ اور امِ ابیہا جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی شامل ہیں۔ ان خواتین میں رسول اللہ ص کا سب سے زیادہ وقت ام ایمن س اور فاطمہ بنت اسد س کی محبت کی چھاؤں میں گزرا۔ جب جنابِ عبدالمطلب کا انتقال ہوا تو آپ وصیت کرگئے کہ میرے بعد ابوطالب بنی ہاشم کے سردار ہوں گے اور محمد ص کی کفالت کے ذمہ دار بھی۔ یوں آٹھ برس کی عمر میں رسولِ خدا ص ابوطالب کے گھر آگئے اور نکاح ہونے، یعنی پچیس برس کی عمر تک وہیں رہے۔ گویا رسالتماب نے سترہ سال تک فاطمہ بنت اسد س کی مادرانہ شفقت کی چھاؤں میں زندگی بسر کی۔ خدا کے حبیب ص فاطمہ بنت اسد کے ہاتھ کا بنا کھانا کھا کر جوان ہوئے۔ اس وقت تک 
مولا علی ع کی ولادت نہیں ہوئی تھی مگر ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد س کی دیگر اولاد موجود تھی۔ 


مولا علی ع کے تین بڑے بھائیوں اور تین بہنوں کا تذکرہ تاریخ اور رجال کی کتب میں ملتا ہے۔ فاطمہ بنت اسد اپنی اولاد سے زیادہ خیال رسول اللہ ص کا رکھتی تھیں۔ کھانے میں سب سے پہلے اور سب سے بہتر حصہ رسول اللہ ص کے لیے نکال کر رکھتیں۔ سب سے بہتر اور پرسکون بستر اپنے یتیم بھتیجے کو دیتیں۔ ابوطالب یمن، شام اور یثرب کے تجارتی سفر کرکے آتے تو اہل خانہ کے لیے بھی کپڑے لاتے۔  حضرت فاطمہ بنت اسد  سب سے بہتر کپڑا نبی علیہ السلام کے لیے علیحدہ کردیتیں.  جنابِ ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد کے درمیان غیر معمولی مثالی محبت تھی۔ عرب میں تعددِ ازدواج عام تھا اور اکثر مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرتے تھے لیکن ابوطالب نےحضرت  فاطمہ بنتِ اسد کے سوا کسی سے عقد نہیں کیا۔  جب جنابِ حضرت  عبدالمطلب کا انتقال ہوا تو آپ وصیت کرگئے کہ میرے بعد ابوطالب بنی ہاشم کے سردار ہوں گے اور محمد ص کی کفالت کے ذمہ دار بھی۔ یوں آٹھ برس کی عمر میں رسولِ خدا ص ابوطالب کے گھر آگئے اور نکاح ہونے، یعنی پچیس برس کی عمر تک وہیں رہے۔


 گویا رسالتماب نے سترہ سال تک حضرت  فاطمہ بنت اسد س کی مادرانہ شفقت کی چھاؤں میں زندگی بسر کی۔ خدا کے حبیب ص فاطمہ بنت اسد کے ہاتھ کا بنا کھانا کھا کر جوان ہوئے۔ اس وقت تک مولا علی ع کی ولادت نہیں ہوئی تھی مگر حضرت ابوطالب اورحضرت  فاطمہ بنت اسد س کی دیگر اولاد موجود تھی۔ مولا علی ع کے تین بڑے بھائیوں اور تین بہنوں کا تذکرہ تاریخ اور رجال کی کتب میں ملتا ہے۔حضرت  فاطمہ بنت اسد اپنی اولاد سے زیادہ خیال رسول اللہ ص کا رکھتی تھیں۔ کھانے میں سب سے پہلے اور سب سے بہتر حصہ رسول اللہ ص کے لیے نکال کر رکھتیں۔ سب سے بہتر اور پرسکون بستر اپنے یتیم بھتیجے کو دیتیں۔ حضرت ا بوطالب یمن، شام اور یثرب کے تجارتی سفر کرکے آتے تو اہل خانہ کے لیے بھی کپڑے لاتے اور بی بی فاطمہ بنت اسد سب سے اچھا پیرہن حضرت محمد  مصطفےٰ کے لئے رکھتی تھی -اللہ آپ سلام اللہ علیہا پر تاابد اپنی  ٹھنڈی چھاؤ ں کا سایہ رکھے آمین۔ 

پنجہ صاحب -سکھوں کا مشہور گردوارہ ضلع اٹک کے مقام پر واقع ہے

 


 پنجہ صاحب -سکھوں کا مشہور گردوارہ جو حسن ابدال ضلع اٹک کے مقام پر واقع ہے۔ وہاں ایک پتھر پر گرونانک جی کا پنجہ لگا ہوا ہے۔ یہ پتھر قصبے کے اندر ایک مکان میں محفوظ ہے، جو بالعموم مقفل رہتا ہے اور سکھ زائرین یا دوسرے زائرین کی آمد پر کھولا جاتا ہے۔ اسے 1823ء میں سردار ہری سنگھ نے تعمیر کرایا تھا۔ 1920ء تک یہ ہندو مہنتوں کے قبضے میں رہا۔ سکھوں کی مزاحمت کے بعد دوسرے گردواروں کے ساتھ یہ بھی سکھ پنتھ کے زیر انتظام آگیا۔ 1933ء میں اس عمارت کی تجدید کی گئی۔گردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال اٹک گردوارہ پنجہ صاحب سکھوں کا سب سے بڑا گردوارہ ہے۔ اس کا گھیرائو 396 گز ہے۔ اس کے چاروں طرف دو منزلہ کمرے ہیں۔ کئی کمرے زیرزمین بھی ہیں باہر اطراف میں تین طرف دکانیں بنی ہوئی ہیں گردوارے کی ملکیت میں صرف دکانیں ہی نہیں بلکہ حسن ابدال میں کئی مکان‘ راولپنڈی‘ اٹک اور حضرو میں کافی جائداد گردوارے کے نام ہے۔ گردوارہ پنجہ صاحب‘ مہاراجا رنجیت سنگھ کے جرنیل سردار ہری سنگھ نلوہ نے بنوایا تھا۔


یہ وہی ہری سنگھ نلوہ ہے جس کے نام سے ہری پور منسوب ہے۔ پنجہ صاحب کی تعمیر نو کا کام 1920ء میں شروع ہوا جو 1930ء تک وقفے وقفے سے جاری رہا پنجے کی چھتری 1932ء میں تعمیر ہوئی۔ پنجہ کے معنی پنجابی زبان میں ہاتھ کا پنجہ اور صاحب کے معنی عربی میں مالک کے ہوتے ہیں یعنی جناب مالک کا پنجہ‘ تاریخ سکھ میں روایات ہیں کہ مذہب کے بانی بابا گرونانک اور بابا ولی قندھاری میں کافی پنجہ آزمائی ہوتی رہتی تھی اور ایک روز بابا گرونانک علیل ہو گئے۔ بابا گرونانک نے اپنے شاگرد بھائی مردانہ سے کہا کہ وہ بابا ولی قندھاری کے آستانہ سے پانی لے آئے۔ بھائی مردانہ پانی لینے کے لیے بابا ولی قندھاری کے پاس گیا لیکن بابا قندھاری نے پانی دینے سے انکار کر دیا۔ بھائی مردانہ ناکام لوٹا۔ بابا گرونانک نے پھر بھائی مردان کو کہا کہ وہ ولی بابا قندھاری کے آستانہ سے پانی بھر لائے۔ بھائی مردانہ پھر بابا قندھاری کے پاس گیا۔ بابا قندھاری نے پھر جواب دے دیا اور بھائی مردانہ کو کہا کہ اگر بابا گرونانک کو اپنے عقائد پر یقین ہے تو اسے کہو کہ وہ خود پانی نکال لے آپ کو میرے پاس کیوں بار بار بھیج رہا ہے۔  


 بھائی مردانہ نے بابا گرونانک کو بابا قندھاری کی یہ بات سنائی تو بابا گرونانک نے اپنا عصا زمین پر مارا اور زمین سے چشمہ پھوٹ پڑا۔ چشمہ پھوٹنے کے بعد بابا گرونانک نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور بھائی مردانہ کو کہا کہ وہ بابا ولی قندھاری کو بھی بتا دے کہ ہم نے پانی نکال لیا ہے۔ بھائی مردانہ بابا ولی قندھاری کے دربار پر گیا اور آگاہ کیا کہ پانی نکل آیا ہے۔ تاریخ سکھ کی روایات کے مطابق بابا ولی قندھاری نے اس چشمہ کو بند کرنے کے لیے اپنے آستانہ سے پتھر پھینکا جسے گرونانک نے پنجہ سے روکا۔ بابا گرونانک کا پنجہ اس میں نقش ہو گیا پتھر رک گیا اور چشمہ جاری رہا اس چشمہ کے پانی کو سکھ انتہائی مقدس خیال کرتے ہیں۔ بیساکھی کے موقع پر اس چشمہ کے پانی میں غسل کرتے ہیں اور پھر بابا گرونانک کے نقش شدہ پنجہ پر اپنا پنجہ رکھتے ہیں سکھ عقائد و نظریات کے مطابق ایسا کرنے سے ان کے گناہ ختم ہو جاتے ہیں اور وہ پاک صاف ہو جاتے ہیں۔


 پنجہ صاحب کی زیارت سکھوں کے لیے گناہ دھو دیتی ہے۔پنجہ صاحب پر دیا جانے والا لنگر سکھوں کے لیے متبرک تو ہے ہی لیکن وہ اسے صحت کے لیے بھی بڑا مفید قرار دیتے ہیں۔ لنگر میں خالص دیسی گھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے سکھ دیسی گھی کے چڑھاوے چڑھاتے ہیں اس کے علاوہ صفائی اور حفظان صحت کے اصولوں کا بھی بڑا خیال رکھا جاتا ہے،ہر سال اپریل کے مہینے میں ’بیساکھی‘ کا میلہ یہاں سجتا ہے اور پوری دنیا سے، خاص طور پر ہندوستان سے ہزاروں کی تعداد میں سکھ یاتری ’پنجا صاحب‘ کی زیارت کرنے یہاں آتے ہیں۔ اس سال بھی بھارت سے تقریباً ساڑھے تین ہزار سکھ یاتری اور دوسرے ممالک سے جن میں یورپ کے ممالک بھی شامل ہیں لگ بھگ پندرہ سو یاتری اس میلے میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔ اگر ملک بھر سے آنے والے یاتریوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس میلے میں شرکت کرنے والے یاتریوں کی تعداد تقریباً دس سے بارہ ہزار ہو جاتی ہے۔ 

پیر، 22 ستمبر، 2025

بیگم وقار النسا نون تحریک پاکستان کی پر عزم سپاہی


فیروز خان نون نے اپنی خود نوشت 'چشم دید' میں لکھا ہے کہ 'ان ایام کی کوئی بھی یادداشت اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک میں اپنی بیوی وقار النسا نون کا تذکرہ شامل نہ کروں۔ انھوں نے ہماری گرفتاریوں کے خلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عورتوں کے احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی تھی۔ اس دفعہ کے تحت پانچ سے زائد افراد کا اجتماع ممنوع تھا۔'قانون کی خلاف ورزی کی بنا پر انھیں کئی بار جیل جانا پڑا۔ ہر جلوس کے بعد انھیں چند دوسری خواتین کے ساتھ جیل پہنچا دیا جاتا اور پھر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ ایک دن پولیس انھیں چند دوسری عورتوں کے ساتھ ایک بس میں بٹھا کر شہر سے سات آٹھ میل دور لے گئی وہاں سے کہا گیا کہ گاڑی سے نیچے اتریں، جب انھوں نے اترنے سے انکار کر دیا تو بس کے اندر گیس کے بم پھینک کر دروازے بند کر دیے گئے۔ وہ اور کچھ دوسری عورتیں بے ہوش ہو گئیں۔'وہ لکھتے ہیں کہ 'لاہور کی چند خواتین ان دنوں جیل کے صدر دروازے پر رات دن پہرا دیتی تھیں اور کچھ خواتین مظاہرین کے ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔



 ان کے پاس کاریں ہوا کرتی تھی، چنانچہ جب پولیس کی گاڑی مظاہرین کو بھر کر کسی طرف کو روانہ ہوتی تو یہ کارکن خواتین فوراً ان کا پیچھا کرتیں اور جب پولیس انھیں شہر سے دور لے جا کر چھوڑتی تو وہ انھیں کاروں میں بٹھا کر لے آتی تھیں۔ وقار النسا اور ان کے ساتھیوں کو میرا بڑا بیٹا نور حیات کار میں واپس لایا تھا۔ فیروز خان نون بعد ازاں ہندوستان کے وزیر دفاع کے منصب پر فائز ہوئے مگر 1945 میں وہ مسلم لیگ کے لیے کام کرنے کی غرض سے اس عہدے سے استعفیٰ دے کر لاہور آ گئے جہاں بیگم وقار النسا نون نے حصول پاکستان کی جدوجہد میں حصہ لیا۔'نورالصباح بیگم نے اپنی کتاب 'تحریک پاکستان اور خواتین' میں لکھا ہے کہ 'سنہ 1947 میں فیروز خان نون نے ضلع کانگڑا میں اپنی اہلیہ کے قیام کے لیے ایک خوب صورت بنگلہ خریدا۔ ان دنوں کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ لوگوں کو اپنی آبائی جائیدادوں کو چھوڑ کر جانا پڑے گا اور یہ جائیدادیں یا تو تباہ کر دی جائیں گی یا وہاں کی حکومت ان پر قبضہ کر لے گی۔نھوں نے خواتین کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے اور ان میں جوش و ولولہ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا



مارچ 1940ء کا سورج ایک ایسے ناقابل فراموش دن کا اجالا لے کر طلوع ہوا، جس نے مسلمانانِ ہند کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔ لاہور کے اقبال پارک میں منظور کی گئ قرار دار کی بدولت اس دن کو پاکستانی تاریخ میں نہایت اہمیت حاصل ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تحریکِ پاکستان میں کس طرح مسلسل جدوجہد کے ذریعےمسلمانوں نے انگریزوں اور ہندؤں کی ایذارسائی سے نجات حاصل کی۔تحریکِ پاکستان میں مردوں کی طرح خواتین کا کردار بھی خاصا نمایاں رہا ہے۔ فاطمہ علی جناح، امجدی بانو بیگم، سلمیٰ تصدق حسین، بی اماں، رعنالیاقت علی خان اور فاطمہ صغریٰ کے شانہ بشانہ بے شمار خواتین تھیں جنھوں نےاپنی زندگیاں جدوجہدِ پاکستان کے لیے وقف کیں۔اس طرح  خواتین کی فعال شرکت نے تحریک پاکستان میں ایک نئی روح پھونکی۔


آج کی تحریر میں تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی چند خواتین پر بات کرتے ہیں۔وہ دھیمے مزاج کے انسان تھے مگر گوادر پر انہوں نے بہت سخت اقدامات اٹھائے تھے۔ اگر اس وقت انہوں نے گوادر خریدا نہ ہوتا تو آج پاکستان کا نقشہ نامکمل ہوتااور پاکستان جغرافیائی طور انتہائی کمزور ہوچکا ہوتا ۔اس بات کو ذرا اس زاویہ سے دیکھیں کہ کشمیر پاکستان کی رگ ہے جس کو ابھی تک دشمن سے نہیں چھڑوایا جاسکااورہمارادشمن کشمیر پر قبضہ کرکے پاکستان کو جس انداز میں نقصان پہنچا رہا ہے اگر گوادر بھی ملک فیروز خان نون نے حاصل نہ کیا ہوتا تو افغانستان ،بلوچستان،سندھ ،خلیجی ممالک اور ایران سے اٹھنے والی بہت سی سازشیں پاکستان کولپیٹ میں لئے رکھتیں ۔چھیالیس بلین سے تیار ہونے والی سی پیک کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوتا ۔ 


بیگم وقار النساء نون فخر پاکستان لیڈی

 

بیگم وقار النساء نون ساتویں پاکستانی وزیر اعظم فیروز خان نون کی دوسری بیوی ہیں محترمہ کا سابقہ نام وکٹوریہ ریکھی تھا یہ آسٹریا میں پیدا ہوئیں تعلیم و تربیت برطانیہ میں ہوئی، ملک فیروز خان نون جب برطانیہ میں حکومت ہند کے ہائی کمشنر تھے تب ان سے ملاقات ہوئی، ملک صاحب کی دعوت پر حلقہ بگوش اسلام ہوئیں، 1945میں بمبئی میں ان سے شادی کی اور اپنا نام وکٹوریہ سے وقار النساء نون رکھ لیا، انہیں وکی نون بھی کہا جاتا ہے۔ حلقہ بگوش اسلام  ہونے والی  جب  فیروز خان نون کے عقد میں آئیں  تو انہوں نے اپنا اسلامی نام   وقار النسا نون  رکھا اور پھر اپنی زندگی  کا ہر پہلو مشرقی  رنگ میں رنگ لیا  - محترمہ نے تحریک پاکستان کو اجاگر کرنے کے لیے خواتین کے کئی دستے بھی مرتب کئے اور سول نافرمانی کی تحریک میں انگریز کی خضر حیات کابینہ کیخلاف احتجاجی مظاہرے اور جلوس منظم کرنے کی پاداش میں تین بار گرفتار بھی ہوئیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے لٹے پٹے مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے بڑا متحرک کردار ادا کیا، خواتین ویلفیئر کی اولین تنظیم اپواء کی بانی ارکان میں آپ بھی شامل ہیں



، وقار النساء گرلز کالج راولپنڈی اور وقار النساء اسکول ڈھاکہ کی بنیاد بھی انہوں نے رکھی، ہلال احمر کے لیے بھی آپ نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں. ضیاء الحق کے دور میں بطور منسٹر ٹورازم کے فروغ کے لیے دنیا بھر کو پاکستان کی طرف بخوبی راغب کیا، پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن انہی کی نشانی ہے -1956ء میں جب ملک فیروز خان نون نے وزارت خارجہ سنبھالی تو ہر قیمت پر گوادر کو واگزار کرانے کا عہد کیا اور نہایت باریک بینی سے تمام تاریخی حقائق و کاغذات کا جائزہ لے کر یہ مشن محترمہ کو سونپ دیا، محترمہ نے دو سال پر محیط یہ جنگ تلوار کے بجائے محض قلم،دلائل اور گفت و شنید سے جیتی جس میں برطانیہ کے وزیر اعظم مکمیلن جو ملک صاحب کے دوست تھے انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا، یوں دو سال کی بھرپور جنگ کے بعد 8ستمبر 1958 کو گوادر کی 24مربع میل یا 15 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ پاکستان کی ملکیت میں شامل ہو گیا۔گوادر کا علاقہ اٹھارویں صدی کے خان آف قلات میر نصیر نوری بلوچ کی ملکیت تھا جسکاآدھا ریوینیو خان صاحب کو دیا جاتا تھا



لیکن انتظام سارا گچکی قبائل کے ہاتھ میں تھا۔1783 میں جب عمان کے حکمران کو اپنے بھائی کے ہاتھوں شکست ہوئی تو اس نے خان آف قلات نے اس کی بہتر گزر بسر کی خاطر یہ علاقہ اس شرط پر اسکے سپرد کیا کہ جب سلطان کو ضرورت نہیں رہے گی تب تمام حقوق خان آف قلات کے پاس واپس چلے جائیں گے لیکن ایسا ممکن نہ ہو پایااور جب معاملہ مزید خرابی کی طرف گیا توثالثی کے بہانے برٹش نے مداخلت کردی لیکن عمان سے کچھ مراعات لیکر قلات خاندان کا دعویٰ ٹھکرا دیا اور بہانہ یہ بنایا کہ مزید گواہیاں سامنے آرہی ہیں حتمی فیصلہ کسی کے حق میں نہیں دیا جاسکتا۔اس خدمت کے بدلے برٹش نے عمان سے گوادر کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنی افواج گوادر میں داخل کر دیں ہاں البتہ عمان کو آدھا ریوینیو جاتا رہا اس طرح ایک عرصہ تک برطانیہ اس علاقہ پر قابض رہا،قیامِ پاکستان کے بعد جب خان آف قلات نے اپنی جائیداد پاکستان میں شامل کرنے کا ارادہ کیا تو گوادر کا معاملہ پھر اٹھایا گیا


 لیکن کوئی فائدہ نہ ہوسکا اور پھر اسی دور میں ایک امریکی سروے کمپنی نے گوادرکی بندرگاہ کے بہت سارے فوائد بتائے۔ ایران کو جب یہ پتہ لگا تو اس نے اسے چابہار کے ساتھ ملانے کی کوششیں شروع کردیں اس دور میں شاہِ ایران کا طوطی بولتا تھا اور سی آئی اے اس کی پشت پناہی پر تھی امریکی صدر کے ذریعے کافی دباو ڈالا گیا کہ گوادر کو شاہِ ایران کے حوالے کیا جائے۔لیکن کوئی کامیابی نہ حاصل ہوسکی۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اس جنگ کو محترمہ نے دوسال لڑا اور قلم ، دلائل اور گفت و شنید سے اسے جیتا۔عمان کے سلطان سعید بن تیمور نے بھی وطن عزیز پر کمال احسان کیا اور حامی تو بھر لی اور گوادر کو پاکستان کے حوالے کر دیا۔اس گراں قدر خدمت کے بدلے محترمہ کو 1959 میں سرکار کا سب سے بڑا سول اعزاز’’ نشان ِامتیاز‘‘ عطا کیا گیا۔محترمہ وقار النسا نون طویل علالت کے بعد 16 جنوری 2000 کو اسلام آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں


 ایک عمرہ کے بعد انہوں نے وصیت کی تھی کہ مجھے غیر سمجھ کر نہ چھوڑ دینا بلکہ میری تدفین بھی ایک کلمہ گو مسلمان کی طرح انجام دینا    اصل نام وکٹوریہ ریکھی تھا اور وہ 23 جولائی 1920 کو آسٹریا کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں جو نازیوں کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر انگلینڈ میں آباد ہو گیا-فیروز خان سے ان کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ لندن میں انڈیا کے ہائی کمشنر کے منصب پر تعینات تھے۔ یہ ملاقات سنہ 1942 میں اس وقت شادی پر منتج ہوئی جب فیروز خان نون دہلی میں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر تھے۔ اس وقت فیروز خان نون کی عمر 49 سال اور وکٹوریہ کی عمر 22 سال تھی، یہ شادی بمبئی میں ہوئی۔فیروز خان نون نے ان کی ملاقات قائداعظم سے کروائی جسکے بعد وقار النسا نون نے خود کو مسلمانوں کے الگ وطن کے مطالبے اور نظریہ پاکستان کو سمجھانے کے لیے خود کو اس عظیم جدوجہد کا حصہ بنا لیا۔

اتوار، 21 ستمبر، 2025

آزاد کشمیر کی بہترین سیاحتی جنت’بنجوسہ جھیل ‘

 





آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ میں راولا کوٹ سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بنجوسہ جھیل کو پاکستان کے بہترین سیاحتی مقامات میں شمار کیا جاتا ہے۔راولا کوٹ سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر گھنے جنگلات میں واقع بنجوسہ جھیل کی خوبصورتی دیکھنے والوں کو حیران کر دیتی ہے، سر سبز وادی میں گھری جھیل سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بنی رہتی ہے۔جھیل کے ارد گرد گھنے جنگل اور پہاڑوں نے اسے اور بھی دلکش بنا دیا ہے، جھیل کے اطراف پھیلا ہوا سبزہ ہی سبزہ، تازا ہوا اور نیلا پانی سیاحوں کی تسکین کا باعث بنتا ہے، بنجوسہ جھیل آنے والے بوٹنگ سے بھی خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔یہاں گرمیوں میں بھی موسم خوش گوار رہتا ہے جبکہ سردیوں میں شدید سردی ہوتی ہے اور درجۂ حرارت منفی 5 سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے، دسمبر اور جنوری میں برف باری بھی ہوتی ہے۔بنجوسہ جھیل میں سیاحوں کی آمد سارا سال جاری رہتی ہے، جن کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ مل کر سیاحوں کو بھی جھیل کی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے تاکہ قدرت کے اس شاہکار کا حسن ماند نہ پڑے۔بنجوسہ جھیل کی خوبصورتی کا خیال رکھتے ہوئے آزاد کشمیر میں سیاحت کو مزید فروغ دیا جاسکتا ہے تاکہ قدرت کے دیے ہوئے اس تحفے سے بھرپور لطف حاصل کیا جا سکے۔آج کل جب پاکستان کے اکثر علاقے قیامت خیز گرمی کی لپیٹ میں ہیں وہیں کچھ ایسے بھی علاقے ہیں جو لوگوں کے لیے تفریح اور راحت کا سبب ہوتے ہیں۔پاکستان کو قدرت نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ بلند وبالا برف پوش پہاڑ اور حسین وادیاں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ اسی پاکستان میں آسمان کو چھوتے درخت، سبز رنگ اوڑھے پہاڑ، ٹھنڈی ہوائیں، جھیل کا شفاف پانی، پرندوں کی چہچہاہٹ اور ہر قسم کی آلودگی سے پاک ایک ایسی جگہ بھی ہے جو زمین پر جنت کا ٹکڑا لگتی ہے۔


یہ دلکش اور دلفریت تفریحی مقام راولا کوٹ آزاد کشمیر کی بنجوسہ جھیل ہے۔ جو آپ کو دعوت نظارہ دیتی ہے۔ جب ملک بھر میں گرمیاں عروج پر ہوں تو یہ مقام گرمی کے ستائے لوگوں کو راحت بخشتا ہے۔اس جھیل پر کراچی، ملتان سمیت ملک کے ان مختلف گرم ترین علاقوں سے فیملی سمیت تفریح کے لیے آئے ہوئے ہیں، جہاں درجہ 45 ڈگری سے بھی تجاوز کر رہا ہے۔ لیکن یہاں کا ٹھنڈا موسم انہیں خوب لطف دے رہا ہے۔ سیاحوں کا کہنا ہے کہ گرمی اور آلودگی سے پاک یہ ماحول ٹھنڈی ہوائیں، ماحول، قدرتی نظارے ان کے مزاج پر خوشگوار اثر ڈال رہے ہیں-بڑے تو بڑے بچے بھی بہت یہاں آکر مبہوت ہو گئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اتنی حسین جگہ انہوں نے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی۔ جو پنجوسہ جھیل آ رہا ہے وہ اس کے قدرتی حسن کا ایسا دیوانہ ہو رہا ہے کہ دیگر لوگوں کو بھی یہاں آنے کی دعوت دے رہا ہے۔



گرمی کے ماروں کو جب حسین نظارے دیکھنے کا موقع ملے تو فرصت کے لمحات میں جنت جیسی زمین پر کیوں نہ کھنچے چلے آئیں۔یہاں ملک بھر سے آنے والے سیاح خوب انجوائے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی کشتی رانی کرتا ہے، تو کوئی گھڑ سواری سے حسین وادی کے چپے چپے کو دیکھنا چاہتا ہے اور کوئی تفریح کے ساتھ لذت کام ودہن کے لیے بار بی کیو کرتا دکھائی دیتا ہے کہ دلفریب موسم میں کھانا کھانے کا مزا ہی الگ ہے۔وادی کشمیر کی ایک جھیل۔ سری نگر کا شہر اسی کے کنارے آباد ہے۔ دنیا کی چند ممتاز سیرگاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ چونکہ دریائے جہلم اس کے بیچ سے ہو کر نکلتا ہے اس لیے اس کا پانی شریں ہے۔سرینگر شہر کے بیچ 25 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی اس جھیل میں دلہن کی طرح سجائی گئی ہاؤس بوٹس اور شکارے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ڈل جھیل کو دنیا بھر میں اس خطے کی پہچان سمجھا جاتا ہے


ڈل جھیل میں ہاؤس بوٹ مالکان اور شکارا چلانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ جھیل 2012ء میں سیاحوں، مقامی سیلانیوں اور بچوں کی موجودگی سے چہکتی  ہے کشمیر میں ہاوس بوٹ نا صرف اس خوبصورت جھیل ڈل کا زیور ہیں بلکہ یہ کشمیر کی دستکاری کا بھی نمونہ ہیں۔ دیودار کی لکڑی سے بنا ہاوس بوٹ ایک چھوٹے بحری جہاز کی طرح ہوتا ہے جس میں ہوٹل کی طرح کمرے اور اوپر ایک دالان ہوتا ہے۔ لکڑی پر خوبصورت اور دلکش نقاشی کی جاتی ہے اور سیاح ہاؤس بوٹ میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔1880ء کی دہائی میں نارائن داس نامی ایک کشمیری تاجر کی دکان آگ سے تباہ ہو گئی تو ااس نے جھیل ڈل میں کشتی کو دکان کی شکل دے دی، جس میں وہ رہنے بھی لگے۔بعد میں جب اس وقت کے ڈوگرہ مہاراجہ نے غیر کشمیریوں کے وادی میں زمین یا مکان خریدنے پر پابندی عائد کردی تو انگریزوں کو مشکلات پیش آئیں۔نارائن داس نے اپنی کشتی ایک انگریز کو فروخت کر دی۔ اس طرح کشمیر کا پہلا ہاؤس بوٹ وجود میں آیا جس کا نام 'کشمیر پرنسیس ' رکھا گیا۔ نارائن داس کو جب لگا کہ یہ منافع بخش کام ہے  


البرٹا اپنے بے شمار دریاؤں اور جھیلوں کی وجہ سے مشہور ہے

 



کینیڈا کا نام زہن میں آتے ہی بس انسان خیالوں کی دنیا میں کھو جاتا ہے-تو آئیے دیکھتے ہیں البرٹا کیسا خطہء زمین ہے -ایڈ منٹن کا  موسم گرما اور خزاں   دلکش ہوتے ہیں۔  گرمی میں چہار جانب سبزہ نظر آتا ہے۔ اس ملک کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پہاڑ، جھیلیں اور جنگل اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ پانی اور سبزہ کا شمار نہیں۔  تیز ہوائیں، بارش اور پتوں کا مسلسل گرنا خزاں کے بعد موسم سرما کی آمد کی نوید ہوتا  ہے اور گرمیوں میں امریکہ سے ہجرت کرکے کینیڈا کے مختلف علاقوں میں آنے والے پرندے اب سردی اور برفباری سے پہلے یہاں سے واپس  اپنے آشیانوں کو  جانے کے لئےبڑے بڑے میدانوں میں اکٹھے نظر آتے ہیں۔سردیوں میں، البرٹا کلپر، ایک قسم کا شدید، تیز رفتار موسم سرما کا طوفان جو عام طور پر صوبے کے اوپر یا اس کے آس پاس بنتا ہے اور براعظمی قطبی جیٹ اسٹریم کے ذریعے بڑی رفتار سے دھکیلتا ہے، بقیہ جنوبی کینیڈا اور ریاستہائے متحدہ کے شمالی حصے پر اترتا ہے۔ جنوب مغربی البرٹا میں، سرد سردیوں میں اکثر پہاڑوں سے چلنے والی گرم، خشک  ہواؤں کی وجہ سے خلل پڑتا ہے، جو بہت ہی کم عرصے میں درجہ حرارت کو ٹھنڈے حالات سے نقطہ انجماد سے اوپر تک لے جا سکتی ہے۔ 


البرٹا اپنے بے شمار دریاؤں اور جھیلوں کی وجہ سے مشہور ہے جہاں تیراکی، واٹر سکیینگ اور مچھلی کا شکار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر آبی کھیل بھی کھیلے جا سکتے ہیں۔ یہاں تین بڑی جھیلیں ہیں اور 260 مربع کلومیٹر سے چھوٹی بے شمار جھیلیں ہیں۔ جھیل اتھابسکا کا 7898 مربع کلومیٹر جتنا حصہ ساسکچیوان میں موجود ہے۔ جھیل کلائیر کا رقبہ 1436 مربع کلومیٹر ہے اور یہ جھیل اتھابسکا کے مغرب میں موجود ہے۔ یہ جھیل وڈ بفیلو نیشنل پارک میں واقع ہے۔ لیسر سلیو جھیل 1168 مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور ایڈمنٹ کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ البرٹا کا سب سے لمبا دریا دریائے اتھابسکا ہے جو 1538 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ دریا برٹش کولمبیا کے منجمد علاقے سے نکل کر راکی پہاڑوں سے ہوتا ہوا جھیل اتھابسکا میں جا گرتا ہے۔ایڈمنٹن تھوڑا سا جنوب میں ہے۔ ایڈمنٹن کینیڈا کے تیل کی صفائی اور دوسری شمالی صنعتوں کا مرکز ہے۔ موجودہ اندازوں کے مطابق کلیگری اور ایدمنٹن ان دونوں شہروں کی آبادی دس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔



 دوسرے بڑے شہروں میں ریڈ ڈئیر، لتھ برج، میڈیسن ہٹ، فورٹ مکمری، گرانڈ پریری، کیمروز، لائڈز منسٹر، بروکس، وٹاسکیون، بینف، کولڈ لیک اور جیسپر ہیں۔البرٹا کا نام پرنسس لوئز کیرولن البرٹا کے نام پر رکھا گیا ہے جو 1848ء سے 1939ء تک بقید حیات رہیں۔ یہ ملکہ وکٹوریا اور پرنس البرٹ کی بیٹی تھیں۔ پرنسس لوئز مارکوس آف لورن کی بیوی تھیں جو 1878 تا 1883 تک کینیڈا کے گورنر جنرل تھے۔ کیرولن کی بستی اور ماؤنٹ البرٹا کو انہی شہزادی کے نام پر رکھا گیا ہے۔البرٹا مغربی کینیڈا میں واقع ہے اور اس کا کل رقبہ 661848 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ علاقہ ٹیکساس سے پانچ فیصد کم اور فرانس کے کل رقبے سے بیس فیصد زیادہ ہے۔ اس لیے کیوبیک، اونٹاریو اور برٹش کولمبیا کے بعد یہ کینیڈا کا چوتھا بڑا صوبہ کہلاتا ہے۔ جنوب میں صوبے کی سرحدیں امریکی ریاست مونٹانا سے، شمال میں نارتھ ویسٹ ریاست سے، مشرق میں ساسکچیوان سے اور مغرب میں برٹش کولمبیا سے ملتی ہیں۔البرٹا کینیڈا کا ایک زرعی صوبہ ہے۔ اسے صوبے کا درجہ یکم ستمبر 1905ء میں ملا۔کیوبیک، اونٹاریو اور برٹش کولمبیا کے بعد یہ کینیڈا کا چوتھا بڑا صوبہ کہلاتا ہے۔



 جنوب میں صوبے کی سرحدیں امریکی ریاست مونٹانا سے، شمال میں نارتھ ویسٹ ریاست سے، مشرق میں ساسکچیوان سے اور مغرب میں برٹش کولمبیا سے ملتی ہیں۔جنوب مشرقی علاقے کے سوا صوبے میں پانی کی کثرت ہے۔۔ یہاں تین بڑی جھیلیں ہیں اور 260 مربع کلومیٹر سے چھوٹی بے شمار جھیلیں ہیں۔ جھیل اتھابسکا کا 7898 مربع کلومیٹر جتنا حصہ ساسکچیوان میں موجود ہے۔ جھیل کلائیر کا رقبہ 1436 مربع کلومیٹر ہے اور یہ جھیل اتھابسکا کے مغرب میں موجود ہے۔ یہ جھیل وڈ بفیلو نیشنل پارک میں واقع ہے۔ لیسر سلیو جھیل 1168 مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور ایڈمنٹ کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ البرٹا کا سب سے لمبا دریا دریائے اتھابسکا ہے جو 1538 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ دریا برٹش کولمبیا کے منجمد علاقے سے نکل کر راکی پہاڑوں سے ہوتا ہوا جھیل اتھابسکا میں جا گرتا ہے۔


البرٹا کا صدر مقام ایڈمنٹن ہے اور صوبے کے وسط سے تھوڑا سا جنوب میں ہے۔ یہاں کینیڈا کی زیادہ تر تیل کی صفائی کی ریفائنریاں موجود ہیں۔ کینیڈا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر بھی یہاں نزدیک ہی موجود ہیں۔ ایڈمنٹن کینیڈا کا سب سے بڑا شمالی شہر ہے۔ اس کے علاوہ یہ شمالی کینیڈا میں تعمیر و ترقی کے لیے راستے کا کام دیتا ہے۔ البرٹا کا ایک اور بڑا شہر کیلگری ایڈمنٹن سے 240 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ اس کے چاروں طرف رینچوں کی کثرت ہے۔ صوبے کی 75 فیصد آبادی کیلگری ایڈمنٹن'  ان دونوں شہروں  میں آباد ہے۔صوبے کی شمالی نصف کا زیادہ تر حصہ بوریل جنگلات سے بھرا ہوا ہے جبکہ راکی پہاڑی سلسلے کی جنوب مغربی حدوں پر زیادہ تر جنگلات موجود ہیں۔ 


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر