ہفتہ، 5 اکتوبر، 2024

نواب صادق خان عباسی پنجم-علم کا شیدائ فر مانروا

   نواب صادق خان عباسی  حالانکہ  بہت دولت مند نواب تھے لیکن  اپنی نجی زندگی میں وہ  بہت سادہ مزاج تھے   -لندن  میں رہتے ہوئے ایک مرتبہ کا زکر ہے ان کا بازار جانے کا موڈ بن گیا  اور وہ یونہی اپنا گھریلو لباس  کرتا پاجامہ پہنے ہوئے رولز رائس گاڑیوں کے شو روم پہنچ گئے   رولز رائس کے شوروم پر کھڑی رولز رائس گاڑی پسند   آگئی، اندر گئے اور سیلز مین سے قیمت معلوم کی تو سیلز مین نے انہیں ایک عام ایشیائی شہری سمجھ کر ان کی خاصی بے عزتی کی تو نواب صاحب واپس ہوٹل آئے اور اگلے روز پورے شاہی ٹھاٹھ کے ساتھ ملازمین کی ایک پوری فوج لے کر اس شوروم پر گئے اور وہاں موجود چھ کی چھ رولز رائس گاڑیاں خرید لیں اور ملازمین کو کہا کہ ان گاڑیوں کو فوراً بہاولپور پہنچا کر میونسپلٹی کے حوالے کرو اور ان سے شہر کا کچرا صاف کرنے اور کچرا اٹھانے کا کام لیا جائے اور  اگلی  صبح سے بہاول پور کی سڑکوں  پر رولز رائس   جھاڑو باندھے  کچرا  صاف کر رہی تھیں -یہاں تک کہ پوری دنیا میں یہ بات پھیل گئی اور رولز رائس کی مارکیٹ ڈاﺅن ہونے لگی۔رولز رائس کا نام سن کر لوگ ہنستے ہوئے کہتے کہ وہی جو ریاست بہاولپور میں شہر کا کچرا اٹھانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔


 کچھ عرصہ بعد رولز رائس کمپنی کے مالک نے خود بہاولپور آکر نواب صاحب سے معذرت کی اور چھ نئی رولز رائس گاڑیاں بھی بطور تحفہ دیں اور درخواست کی کہ گاڑیوں کو اس گندے کام سے ہٹایا جائے۔ ان چھ نئی گاڑیوں میں سے ایک نواب صاحب نے قائداعظم کو تحفہ میں دی۔در اصل  اسلام سادگی اور سادہ طرزِ زندگی کا دین ہے،اسلامی ثقافت اور اسلامی طرز ِمعاشرت میں سادگی اور سادہ طرزِ زندگی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس حوالے سے آپ کا جو اُسوۂ حسنہ ہمارے سامنے ہے، وہ یہ ہے کہ رسولِ اکرم  کو کھانے پینے، اوڑھنے، اُٹھنے، بیٹھنے کسی چیز میں تکلّف نہ تھا۔ کھانے میں جو حلال اور پاکیزہ رزق سامنے آتا، تناول فرماتے، پہننے کو جو سادہ لباس مل جاتا، پہن لیتے۔ زمین پر، چٹائی پر فرشِ زمیں پر جہاں جگہ ملتی  بیٹھ جاتے لیکن علمی معاملات میں وہ سخی داتا تھے بہاولپور کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر صو بو ں میں تعلیمی ، تعمیر ی اور صحت کی بہتر ی کے لیے کبھی نقد تو کبھی زمینو ں کا قیمتی سر ما یہ پیش خد مت کیا ۔ یونیورسٹیوں کی تعمیر یا تعلیمی اصطلاحات ، مہما ن نو از ی یا قا ئد کے عزم پر لبیک ،غر ض ہر سمت چرا غ رو شن کرنے والی اس شخصیت نے پاکستان سے عشق کی مثا ل رقم کی۔ آج معاشرے میں ڈپریشن، بے اطمینانی اور مسائل کا انبار صرف اس لیے ہے کہ ہماری تمنّائیں اور خواہشیں لامحدود ہیں۔


اور اس قدر سادہ طرز  زندگی رکھنے والے   نواب کے فلاحی کاموں پر نظر ڈالئے تو دل ایک گونہ خوشی سے بھر جاتا ہے نواب صادق  نے  عام آدمی فلاح کے لئے کیا کیا کام کئے-ا ن کو لکھنے کے لئے تو کئ کتابیں درکار ہوں گی  یہاں میں صرف چند فلاحی کاموں کا تذکرہ کروں گی صادق محمد خان پنجم نے 1928ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ کا افتتاح جس کے تحت دریائے ستلج پر تین ہیڈ ورکس سلیمانکی، ہیڈ اسلام اور ہیڈ پنجند تعمیر کیے گئے اور پوری ریاست میں نہروں کا جال بچھا دیا گیا اور غیر آباد زمینوں کی آباد کاری کے لیے مختلف علاقوں سے آبادکاروں کو ریاست میں آباد ہونے کی ترغیب دی گئی۔ نئی منڈیاں اور شہر ہارون آباد، فورٹ عباس، حاصل پور، چشتیاں ، یزمان، لیاقت پور اور صادق آباد بسائے گئے۔  1942ء میں بہاولپور میں ایک بڑا چڑیا گھر اپنے عوام کی سیر و تفریح کے لیے بنوایا اور ڈرنگ اسٹیڈیم بھی بنوایا جس میں پہلی بار پاکستان اور بھارت کا پہلا کرکٹ میچ کھیلا گیا تھا

نواب صادق محمد خان نے 1925ء میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ دینی تعلیم کے لیے مدرسہ صدر دینیات کو ترقی دے کر جامعتہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم کیا گیا۔ 1926ء میں جامعہ عباسیہ کا ایک ذیلی ادارہ طبیہ کالج قائم کیا گیا جو اس وقت واحد پنجاب کا سرکاری کالج تھا۔ یہ ادارہ ترقی کرتے ہوئے آج دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کے نام سے ایک نامور ادارہ ہے۔3 دسمبر 1930ء کو سر راس مسعود (وائس چانسلر) کی دعوت پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سالانہ کانووکیشن کی صدارت کی اور اس وقت ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم بطور عطیہ دی۔ 28 دسمبر 1930ء کو انجمن حمایت اسلام لاہورکے سالانہ جلسہ کی صدارت کی اور گرانقدر مالی امداد کی۔ اپریل 1931ء میں طبیہ کالج دہلی کے کانووکیشن کی صدارت کی اور گرانقدر مالی امداد کا اعلان کیا۔27 فروری 1934ء کو نواب صاحب کی تعلیمی خدمات کے اعتراف کے طور پر رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر وُلز نے بہاول پور آ کر صادق گڑھ پیلس میں منعقدہ تقریب میں نواب کو L.L.D کی اعزازی ڈگری دی۔ 1952ء میں پیرا میڈیکل اسکول، نرسنگاسکول اور ایل ایس ایم ایف کلاسز کا اجرا کیا گیا۔


 اس سال علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کی سربراہی میں ریاست میں تعلیمی اصلاحات اور نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کمیشن قائم کیا گیا۔ 1954ء میں صادق محمد پنجم نے ایچیسن کالج کی طرز پر صادق پبلک اسکول قیام کیا جس کی تعمیر کے لیے نواب نے اپنی ذاتی زمین سے 450 ایکڑ زمین عطا کی۔ اس کے علاوہ اس کی تعمیر و ترقی کے لیے فنڈز فراہم کیے۔ نواب نے ایچیسن کے معروف استاد اور ماہر تعلیم خان انور مسعود سکندر خان کو اساسکول کا پرنسپل مقرر کیا پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کے لٹے پٹے قافلوں کو آپ نے نہ صرف اپنی ریاست میں جگہ دی بلکہ ان کے سکول جانے والے بچوں کو نواب آف بہاولپور کی طرف سے مالی وظائف دئیے جاتے تھے آپ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ ساری زندگی اسلام اور مسلمانوں کی خدمت گزاری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ممتاز سیرت نگارسید سلمان ندویؒ نے کہا تھا کہ اگر ریاست بہاوپور کی مالی اعانت حاصل نہ ہوتی توبرصغیر پاک و ہند کے عظیم ادارے ندوة العلماءکا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکتا تھا۔ نواب سر صادق محمد خان عباسی مرحوم نے حضور اکرم کی سیرت طیبہ پر ایک کتاب ”رسول صادق“ تحریر فرمائی جو آپ کی حضور سے دلی محبت کی عظیم نشانی ہے۔ بہاولپور کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کے سنہری عہد حکومت میں ریاست بہاولپور کو شرف حاصل ہے کہ آپ کے سنہری عہد حکومت میں ریاست بہاولپور کی عدالت کے جج محمد اکبر خان نے 7 فروری 1935ءکو اپنے تاریخی فیصلے میں قادیانیوں کو کافر اور خارج از دائرہ اسلام قرار دے دیا۔ 1926ءمیں  ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نواب آف بہاولپور کی دعوت پر ریاست میں تشریف لائے تو ہر طرف اسلامی تہذیب و تمدن کے مناظر دیکھ کر ان کی زبان سے فی البدیہہ یہ شعر نکلا

زندہ ہیں تیرے دم سے عرب کی روائتیں

اے یادگار خلوت اسلام زندہ باد

سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش

آپ کا شجرہ یوں ہے: ’’حضرت سید علی ہجویری بن حضرت سید عثمان بن حضرت سید علی بن حضرت سید عبدالرحمن بن سید عبداللہ (شاہ شجاع) بن حضرت سیدالوالحسن علی بن حضرت سید حسن (اصغر) بن حضرت سید زید بن حضرت امام حسنؓ بن حضرت سیدنا علیؓ ‘‘۔ آپ کا قد میانہ جسم سڈول اور گھٹا ہوا تھا۔ جسم کی ہڈیاں مضبوط اور بڑی تھیں۔ فراخ سینہ اور ہاتھ پاؤں مناسب تھے چہرہ زیادہ گول تھا نہ لمبا۔ سرخ وسفید چمکدار رنگ تھا۔ کشادہ جبیں اور بال سیاہ گھنے تھے۔ بڑی اور غلافی آنکھوں پر خم دار گھنی ابرو تھیں۔ ستواں ناک، درمیانے ہونٹ اور رخسار بھرے ہوئے تھے چوڑے اور مضبوط شانوں پر اٹھتی ہوئی گردن تھی۔ ریش مبارک گھنی تھی۔ آپ بڑے جاذب نظر اور پرکشش تھے۔آپؒ تن ڈھانپنے کیلئے کسی خاص وضع قطع کے لباس کا تکلف نہ فرماتے تھے، جو میسر آتا پہن لیتے تھے۔ لباس کے بارے میں خود فرماتے ہیں۔


آپؒ سلطان مسعود غزنوی کے دور میں وارد لاہور ہوئے ان کے ہمراہ حضرت ابو سعید ہجویری اور حضرت حماد سرخسی رحمتہ اللہ علیہم تھے۔ اس وقت لاہور میں شہزادہ مجدد بن مسعود نائب السلطنت غزنویہ تھا اور لاہور ایاز کی سرپرستی میں پنجاب کے سید علی ہجویریؒ کے ورودِ لاہور کے بارے ’’فوائد الفواد‘‘ میں ۲۹ ذیقعدہ 708 ؁ / ۱۰ مئی 1309 ؁ء کی ایک مجلس کے حوالے سے یوں لکھا ہے کہ ’’شیخ علی ہجویری اور شیخ حسین زنجانی ایک مرشد سے بیعت تھے۔اسلام کے وہ بزرگانِ دین جن کی کوششوں سے بُت کدہ ہندوستان میں اسلام کی شمع روشن ہوئی اُن میں حضرت شیخ علی ہجویری عرف داتا گنج بخشؒ بہت اُونچا مقام رکھتے ہیں۔ آپؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپؒ کی تعلیمات نے نہ صرف اُس وقت کفر کے اندھیروں میں اسلام کی شمع روشن کی جب مشکل سے ہی کوئی اللہ کا نام لیوا نظر آتا تھا بلکہ اُن کی تعلیمات اور اقوالِ زریں تقریباً گیارہ سو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی قدم قدم پر دین و دنیا کا صحیح راستہ دکھانے میں رہنمائی کرتیں ہیں۔


 جس طرح خوش خطی کے لئے بچوں کو عبارت کی پہلی سطر کی نقل کرنی چاہیے اسی طرح آج کے نوجوانوں کو بھی یہ بتانے کی بے حد ضرورت ہے کہ کئی سو سال پہلے ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے اپنا وطن گھر بار چھوڑ کر تبلیغِ دین کے لئے لاہور تشریف لانے والے ، یگانہ روزگار درویش اور فقید المثال مردِ حق کے حالاتِ زندگی اور برصغیر ہندوپاک کے مذہبی حالات کیا تھے۔ اس تاریک خطہ زمین میں نورِ اسلام کس طرح پھیلا جس کی بدولت ہم آج حضورِ اکرمؐ کے اُمتی ہونے پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں چونکہ اپنے محسنوں کے احسانوں کو یاد کرنا بھی مسلمان کی شان ہے اس لئے تاریخ کے اوراق کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنا ہی ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔شیخ سیّد علی ہجویریؒکی زندگی کے حالات کا آپؒ کی معرکتہ لآراتصنیف کشف المحجوب سے پتہ چلتا ہے۔ آپؒ کی ولادت اُس دور میں ہوئی جب سلطان محمود غزنوی حکومت کے آخری دن تھے۔ تاریخی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ کا سنِ ولادت 400 ہجری ہے۔ 


   آپؒ نے افغانستان کے علاقہ غزنی کے محلہ ہجویر میں ولادت پائی۔ آپؒ نے بچپن کا کچھ عرصہ وہاں بھی گزارا۔ والد کا نام عثمان اور دادا کا نام علی تھا۔ آپؒ کا سلسلہ نسب حضرت حسنؓ سے جا کر ملتا ہے اس لئے آپؒ ہاشمی حسنی سادات ہیں۔ ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کرنے کے بعد روحانی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے لئے دور دراز علاقوں اور ملکوں کا پیدل سفر اختیار کیا ۔ مختلف دینی مدرسوں، عالموں، بزرگوں اور اللہ کے نیک بندوں سے نہ صرف دینی تعلیم حاصل کی بلکہ اُن کی صحبت میں رہ کر اُن سے فیض بھی حاصل کیا۔ ایران، ترکستان، عراق، بغداد، شام اور عرب کے دور دراز علاقوں کا سفر اختیار کیا۔ اس دوران ہر قسم کی سفر کی صعوبتیں برضا و خوشی برداشت کیں۔ اس طرح اُن کے کردار میں پختگی اور شخصیت میں بزرگی اُبھر کر سامنے آ گئی۔ خراسان میں تین سو مشائخ کی خدمت میں حاضر ہو کر اکتسابِ فیض حاصل کیا۔ تحصیلِ علم کے بعد مرشد کامل کی تلاش میں دور دراز علاقوں کا پُرخطر سفر اختیار کیا۔ اور آخر کار شیخ کامل کو پانے میں کامیاب ہو گئے


۔ اور اُن کے حسنِ تربیت اور فیضِ نظر سے آفتابِ ہدایت بن کر طلوع ہوئے۔ آپؒ کے اُستاد شیخ کامل کا نام شیخ ابوالفضل بن حسن ختلی تھا جو سلسلئہ جنیدیہ سے منسلک تھے۔ شیخ علی ہجویریؒ لکھتے ہیں کہ "اُن کے شیخ تصوف میں حضرت جنید کا مذہب رکھتے تھے اور طریقت میں میری بیعت الہیٰ سے ہے"۔ آپؒ نے کئی سالوں تک اپنے مرشد کی خدمت کی۔ اور جب اُن کا انتقال ہوا تو اُن کا سر اپنے شاگرد سیّد علی ہجویریؒ کی گود میں تھا۔ آپؒ کے قابلِ ذکر اُستادوں میں ابوسعید ابوالخیر اور امام ابو القاسم قشیری شامل ہیں۔ جب آپؒ نے خود دینوی اور روحانی علوم پر دسترس حاصل کر لی تو دوسروں کی رہنمائی کے لئے ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا پختہ عزم کر لیا۔خواب میں ملنے والی پیر و مرشد کی ہدایات کے مطابق آپؒ نے لاہور کا سفر اختیار کیا۔ 431ہجری میں لاہور پہنچے تو خواجہ حسن زنجانی اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے اور اُن کی نمازِ جنازہ آپؒ نے پڑھائی۔


 

جمعہ، 4 اکتوبر، 2024

یونانی تہذیب میں ابتدائ تھیٹر کا آغاز

 تھیٹر کی تاریخ  جاننے کے لئے ہم کو زمانے کی کچھ  قدیم تاریخ میں جانا پڑے گا -انسان نے    جب اپنے لئے عام زندگی سے ہٹ کر کچھ تفریح طبع   چاہی تب ابتدائی تھیٹر کا آغاز یونانی سرزمین سے  پانچویں صدی عیسوی میں ہوا اور پھر دنیا کے کونے کونے میں اس کھیل نے اپنی شناخت بنالی۔ قیام پاکستان کے وقت    صدر کے علاقے میں رام باغ ہوا کرتا تھا  جو بعد میں آرام باغ ہو گیا  -اسی آرام باغ میں لوگوں نے رات کو اسٹیج ڈرامے پلے کرنا شروع کر دئے -اس  باغ میں تھیٹر سے لطف اندوز ہونے لئے  آس پاس کے شہریوں  کی بڑی تعداد آیا کرتی تھی - ویسے تو تھیٹر ڈرامہ تین قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ المیہ، طربیہ اور رزمیہ لیکن ہر دور میں تھیٹر کی کئی نئی اقسام اسٹیج پر پیش کی گئیں، جن میں میوزیکل تھیٹر کو بے حد پذیرائی ملی۔پاکستان کے شہرکراچی اور لاہور میں متواتر جب کہ اسلام آباد میں کبھی کبھار تھیٹر سرگرمیاں ہوتی رہی ہیں۔ کراچی میں آرٹس کونسل ناپا بڑے پیمانے پر جبکہ وہیں دوسرے پرائیویٹ ادارے بھی چھوٹے پیمانے پر تھیٹر کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔1982اسی کی دہائی سے 2000ء کے آس پاس تک بہت سے مزاحیہ کھیل اسٹیج ہوئے۔  محترم  جناب  انور مقصود ہمارے وطن کے مایہ ء ناز لکھاری ہیں -جنہوں نے پاکستانی عوام کو   تفریح  طبع کے لئے بہترین  ڈرامے لکھ کر دئے 

جبکہ  بھارت میں 1950ء میں ہی مولانا ابوالکلام آزاد  نے تین تھیٹر اکیڈمیاں قائم کیں۔ ایک ہی عشرے بعد ہندوستان میں یہ تینوں اکیڈمیز نئے ٹیلنٹ کی آبیاری مستقل بنیادوں پر کرنے لگیں۔ ایسے اداروں کے لیے حکومت کی جانب سے فنڈز کی مسلسل ترسیل سے تھیٹر ہر اسٹیٹ میں مفت تفریح کا ذریعہ بنا۔اس کے نتیجے میں انڈین معاشرے میں نا صرف ایک صحت مند مقابلے کی فضا پیدا ہوئی بلکہ لوگوں میں تھیٹر کی اہمیت اور افادیت کا تصور بھی بحال ہوا۔ انڈین فلم انڈسٹری کے منجھے ہوئے بیشتر اداکاروں نے شوبز کا آغاز ہی تھیٹر سے کیا۔ہندوستان کے مایہ ناز اداکار شاہرخ خان نے اور ہمارے دنیا کے جانے مانے  معین اختر نے بھی ابتداء تھیٹر سے ہی کی - دنیا میں ہر جگہ فنکار خود کو تھیٹر ایکٹر کہلوانا قابل فخر سمجھتے ہیں۔  اس کے برعکس پاکستان میں جیسے فلم انڈسٹری کا زوال بتدریج دیکھنے میں آیا بلکل اُسی طرح سنجیدہ اور معیاری تھیٹر کی جگہ 'گھٹیا کمرشل تھیٹر‘  نے لے لی۔ پاکستان میں تھیٹر کو کبھی بھی سنجیدگی سے آرٹ کا درجہ نہیں دیا گیا۔یہاں تھیٹر سے مراد سنجیدہ اور بامقصد ڈراموں کی پیشکش ہے ورنہ کراچی اور خاص کر لاہور میں اسٹیج ڈراموں کے نام پر جو کچھ پیش کیا جاتا رہا ہے اسے پھکڑ پن، عامیہ مزاح اور غیر معیاری رقص کے سوا کچھ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔بے شک کراچی میں معین اختر اور عمر شریف نے اسٹیج کے لئے بہت کام کیا۔ یہاں تک کہ اسی کی دہائی سے 2000ء کے آس پاس تک بہت سے مزاحیہ کھیل اسٹیج ہوئے۔


گو کہ کراچی میں پہلے کئی آڈیٹوریم ہوا کرتے تھے جن میں ’ریکس‘ ، ’ریو‘ اور’بحریہ آڈیٹوریم‘ وغیرہ شامل تھے۔ لیکن، اب سب سے زیادہ کامیاب آڈیٹوریمز میں دو نام آرٹس کونسل اور ایف ٹی سی سر فہرست ہیں جبکہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس میں بھی کچھ اسٹیج ڈرامے پیش ہوتے رہے ہیں۔ یہ کراچی کی واحد انسٹی ٹیوٹ ہے جہاں فنون لطیفہ کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔کراچی کے وسط میں شانزے کے نام سے بھی ایک آڈیٹوریم گزشتہ کئی سال سے کام کر رہا تھا۔ لیکن  اسے جدید ترین سنیما ہال میں تبدیل کردیا گیا ہے جس کا نام ’سنے پلیکس‘ رکھا گیا ہے۔کراچی میں تھیٹر کی زبردست مقبولیت کے ساتھ ساتھ آڈیٹوریم میں کمی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آرٹس کونسل کا تھیٹر آڈیٹوریم     کافی'کافی مہینوں تک کے لئے مسلسل بک  رہتا ہے- اس واقت خواتین  تھیٹر رائٹرز میں مدیحہ گوہر کا نام میرے زہن میں  آ رہا ہے وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کے ڈراما گروپس کو لاہور بلا لیتی اور کبھی ‘ پنج پانی تھیٹرفیسٹیول’، کبھی ‘ ہمسایا تھیٹرفسٹیول ‘، کبھی ‘ زنانی تھیٹرفیسٹیول ‘، کبھی ‘ دوستی تھیٹرفیسٹیول ‘ تو کبھی ‘ امن تھیٹرفیسٹیول ‘ کرتی رہتی تھی۔دونوں ممالک کے فنکاروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لئے انہوں  نے ‘ آل پرفارمنگ آرٹس نیٹ ورک ‘ (APAN) کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم تھا۔


   کراچی اور لاہور میں دور  آمریت میں مزاحمتی اور علامتی تھیٹر نے بہت اچھا کام کیا۔ ان میں دستک گروپ ایک اعلی معیار کا حامل تھیٹر گروپ تھا جس کو منصور سعید   اور پی ٹی وی کے پہلے سربراہ اسلم اظہر نے قائم کیا تھا۔دستک نے بریخت ، میکسم گورکی، چیخوف اور ابسن کے ڈراموں  کو اردو میں ترجمہ کر کے جہاں سیاسی شعور بیدار کرنے کا بیڑا اٹھایا وہیں شیما کرمانی کا تھیٹر گروپ " تحریک نسواں " اور مدیحہ گوہر کے ” اجوکا” نے خواتین اور سماجی موضوعات کو اپنے ڈراموں کا موضوع بنایا۔آمریت کے اس دور میں سرکاری اداروں میں ایسے سیاسی اور سماجی تھیٹر کرنے  پر پابندی عائدتھیں۔ اس لئے مختلف غیر ملکی کلچرل سینٹر جیسے گوئٹے انسٹیٹیوٹ، برٹش کونسل اور پی اے سی سی ان تھیٹر گروپس  کی جائے پناہ ہوتی تھیں۔1985ء میں پنجاب لوک رہس گروپ نے پنجابی زبان میں تھیٹر کی بنیاد رکھی، جس میں پنجاب کی روایت اور کلچر کے علاوہ زبان کو فروغ دینے کا نصب العین بھی اپنایا۔   اسی دوران سندھ کی سندھیانی تحریک کے پلیٹ فارم سے بھی ایسے تھیٹر ڈراموں نے سندھ کے عوام میں ایک جوش اور ولولہ پیدا کیا اور خواتین کی تھیٹر کے ذریعے سیاسی  دارے میں  سشمولیت کے مواقع بھی ملے کیونکہ تھیٹر کے زریعہ شعور نے ان کے زہنوں پر دستک دی۔لیکن، ان کی کلاس دوسری تھی جبکہ اب جو اسٹیج ڈرامے پیش ہو رہے ہیں ان کے ’جنم داتا‘ منجھے ہوئے فنکاروں کے ساتھ ساتھ انور مقصود جیسے ماہر’ لکھاری‘ ہیں۔


  ماضی کی بات ہے انور مقصد کا اسٹیج پلے ’آنگن ٹیڑھا‘ کراچی کے آرٹس کونسل میں پیش کیا گیا۔ یہ ڈرامہ اسی نام سے پی ٹی وی سے پیش ہو چکا ہے اور اس نے بے انتہا کامیابی اور شہرت حاصل کی تھی۔ یہ ڈرامہ آج بھی پی ٹی وی کے عروج کی زندہ مثال ہے۔کراچی کے ساتھ ساتھ یہ ڈرامہ لاہور اور اسلام آباد میں بھی اسٹیج ہوا اور خوب شہرت پائی۔ صرف کراچی میں ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصے تک اس کی نمائش جاری رہی۔اس سے پہلے انور مقصد کا ایک اور ڈرامہ ’پونے چودہ اگست‘ اسٹیج کی دنیا پر چھایا رہا۔ اس کے بعد ’دھانی‘ اور اب ’سواچودہ اگست‘ ۔


بدھ، 2 اکتوبر، 2024

شہنشاہ مزاح-معین اختر پارٹ '1


تقسیم ہند کے وقت مراد آباد سے ایک خاندان نے ہجرت کی اور  آگرہ تاج کالونی کے ایک کھولی نما کمرے سے زندگی کی ابتداء کی اس گھر کے سربراہ کا مراد آباد میں پرنٹنگ کا بزنس تھا  جو پاکستان میں پھلنے پھولنے سے قاصر ر رہا   چنانچہ اس خاندان  میں24 دسمبر1950 میں    آنکھ کھولنے والے بچے  معین اختر نے اپنے بچپن  کی  عمر سے ہی گھر میں غربت کے سائے دیکھے اور    پھر کھیلنے کودنے  کی عمر میں ننھا سا معین اختر ایک موٹر میکینک ورکشاپ پر  کام پر لگا دیا گیا یہ بچہ ورکشاپ پر کام کرتے ہوئے جب بڑا ہوا تو میکینک کی جاب چھوڑ دی اور نئ منزلوں کی تلاش میں لگ گیا -معین اختر کا خود کہنا ہے کہ "میں نوجوان تھا، ادھر ادھر بھٹک رہا تھا، اور مکینک کی اپنی نوکری چھوڑ دی تھی۔ اب  یہ معلوم نہیں تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے، لیکن میرے اندر ایک آواز مجھ سے کہہ رہی تھی، 'دیکھو، جو بھی کرنا، زبردست طریقے سے کرنا۔اور پھر محض  سولہ برس کی عمر میں اس نے شوبز کی دنیا میں قدم رکھ دیا -  فن مزاح  کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والی اس شخصیت نے  6 ستمبر  1966 میں ایک ورائٹی شو سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کر دیا


لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا وہ جیسے اسٹیج پر آیا  چاروں طرف سے لوگ  اس پرہوٹنگ کر نے لگے ، لیکن اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات دور دور تک نہیں تھے۔ وہ دھیمے انداز میں مائیک کی جانب بڑھا، اور حاضرین سے درخواست کی کہ اسے اس کا ٹیلنٹ دکھانے کے لیے صرف 10 منٹ دیے جائیں، اور اگر اس دوران کسی کو پسند نہیں آیا، تو وہ خود اسٹیج سے اتر جائے گا۔ اس نے انتہائی پراعتماد پرفارمنس دی، اور لوگوں نے پلکیں جھپکائے بغیر دیکھا۔ حاضرین میں ساٹھ سالہ شخص بھی ویسے ہی ہنس رہا تھا جیسے کہ کوئی آٹھ سال کا بچہ۔ اور جب 10 منٹ کا مانگا گیا وقت 45 منٹ بعد ختم ہوا، تو ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ ہر کچھ عرصے بعد اس دنیا میں ایک شخص ایسا آتا ہے، جو اپنے آس پاس موجود ہر چیز کو تبدیل کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دیکھنے والے بھی یہ جانتے ہیں کہ ایسے شخص کی موجودگی میں انہیں ضرور کچھ زبردست دیکھنے کو ملے گا۔اپنی ہارٹ سرجری کے صرف 20 دن بعد کینسر کے شکار بچوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے شو کرنا ہو، یا ساتھیوں کے واجبات وقت پر ادا کرنے کے لیے اپنی گاڑی بیچنا ہو


 

 کسی بھی اجنبی کی مدد کرنے کے لیے دوسروں سے پیسے ادھار لینے ہوں، یا چھت پر ستاروں سے باتیں کرتے ہوئے راتیں گزار دینی ہوں۔ نئے آنے والوں کو موقع دینے کے لیے خود کو پیچھے کرنا ہو، یا گرم گرم آنسوؤں کو بھرپور ہنسی سے تبدیل کر دینا ہو، معین اختر ہر رنگ میں  با کمال تھے۔معین اختر کا انتقال2011 میں حرکت قلب بند ہوجانے سے ہوا وہ دھیمے انداز میں مائیک کی جانب بڑھا، اور حاضرین سے درخواست کی کہ اسے اس کا ٹیلنٹ دکھانے کے لیے صرف 10 منٹ دیے جائیں، اور اگر اس دوران کسی کو پسند نہیں آیا، تو وہ خود اسٹیج سے اتر جائے گا۔ اس نے انتہائی پراعتماد پرفارمنس دی، اور لوگوں نے پلکیں جھپکائے بغیر دیکھا۔ حاضرین میں ساٹھ سالہ شخص بھی ویسے ہی ہنس رہا تھا جیسے کہ کوئی آٹھ سال کا بچہ۔ اور جب 10 منٹ کا مانگا گیا وقت 45 منٹ بعد ختم ہوا، تو ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ ہر کچھ عرصے بعد اس دنیا میں ایک شخص ایسا آتا ہے، جو اپنے آس پاس موجود ہر چیز کو تبدیل کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دیکھنے والے بھی یہ جانتے ہیں کہ ایسے شخص کی موجودگی میں انہیں ضرور کچھ زبردست دیکھنے کو ملے گا۔اپنی ہارٹ سرجری کے صرف 20 دن بعد کینسر کے شکار بچوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے شو کرنا ہو،  معین اختر حاضر ملتا تھا-


جہاں اہم شخصیات کے انداز کی نقالی پر ملکہ حاصل تھا وہیں انہوں نے ٹی وی پر شائقین کو مزاح کے ایک نئے انداز سے بھی روشناس کرایا جو کہ ان ہی کا خاصا تھا۔ ٹی وی پر جہاں انہوں نے انور مقصود اور بشریٰ انصاری کے ساتھ مل کر کئی شاہکار پروگرام پیش کئے وہیں منچلے نوجوان سے لے کر ایک سنکی بوڑھے تک کے جو کردار انھوں نے ادا کئے انہیں دیکھ کر آج بھی ہونٹوں پر ہنسی مچل جاتی ہے۔ ان کے یادگار ڈراموں میں روزی، ہاف پلیٹ، شو ٹائم، اسٹوڈیو ڈھائی، ففٹی ففٹی، آنگن ٹیڑھا، انتظار فرمائیے اور عید ٹرین شامل ہیں۔اسٹیج ہو، ٹی وی یا پھر فلم معین اختر نے کبھی پھکڑ پن کا استعمال نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ بچے ہوں یا بڑی عمر کے افراد معین اختر ہر عمر کے لوگوں میں ہر دل عزیزتھے۔ ان کے فن کی گواہی ناصرف پاکستان بلکہ بھارت کے مشہور و معروف اداکار بھی دیتے ہیں۔ معین اختر کو ان کی ہمہ جہت فنکارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سمیت کئی اہم قومی اور بین الاقوامی سطح ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ عوام نے کامیابی کا جو تاج معین اختر کے سر پہ سجایا تھا اسے انہوں نے آخری لمحے تک گِرنے نہیں دیا۔ ،


 ان کے  صاحبزادے   اپنے والد  معین  اختر کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے  کہتے ہیں ۔معین اختر کے لفظی معنیٰ 'مددگار ستارہ' کے ہیں۔ اور ان کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے نام کی لاج رکھی۔ دنیا میرے والد کو ایک آرٹسٹ کی حیثیت سے جانتی ہے، جبکہ میں انہیں ایک سخی شخص کے طور پر جانتا ہوں۔یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں انہیں اپنے گھر اور انسانیت کی بے لوث خدمت کرتے دیکھتا ہوا بڑھا۔ ہر ضرورت مند شخص کے لیے وہ ایک گمنام مددگار تھے۔ ان کی کئی سخاوتیں ایسی ہیں، جن پر میں پردہ پڑا رہنا چاہتا ہوں، کیونکہ یہی ان کی خواہش تھی۔لیکن میں ایک بات ضرور کہوں گا، کہ ان میں دوسروں کی مشکلات اور مسائل سمجھنے کی حیرت انگیز صلاحیت تھی۔ وہ لوگوں کی دلجوئی کرتے، ان کے غموں کو اپنا غم سمجھتے، اور ان کا بوجھ تقسیم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتےتھے

پیر، 30 ستمبر، 2024

جے پور میں ہوا محل کیوں بنایا گیا


  گلابی عمارات کا  جے پور شہر نہ صرف گلابی رنگت کے باعث سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے،بلکہ شہر کا تعمیری انداز بھی نہایت زبردست کشش رکھتا ہے۔پوری عمارت 1799ء میں جے پور کے بانی جے سنگھ دوم کے پوتے سوائی پرتاپ سنگھ کے زمانہ میں بن کر تیار ہوئ۔  ہوامحل سرخ اور گلابی سینڈ اسٹون کا بنا ہے۔ اس کے قریب جنتر منتر، جےپور اور سٹی پیلیس، جےپور واقع ہیں- مہاراجا پرتاپ سنگھ نے جب  کھتری محل  دیکھا تو اس سے بہت  متاثر  ہوا اور پھر اس نے ایک ایسی  یادگار عمارت بنا نے کا فیصلہ کیا  جو منفرد ہو اور اس طرح ہوا محل  بن کر تیار ہوا  'ہوا محل کے آرکیٹیکٹ  استاد لال چند  تھے ۔ اس محل  کی سب سے بڑی خوبی اس کی پانچوں منزلوں پر بنی چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں ہیں جنہیں جھروکا کہا جاتا ہے۔  ان جھروکوں کو بنانے کا مقصد راجپوت خاندان کی شاہی خواتین کے لیے شہر میں ہونے والے تہوار اور جلسے جلوس کو دیکھنے کا انتظام کرنا تھا کیونکہ ان خواتین پر پردہ کی سخت پابندی تھی اور انھیں عوام می بغیر حجاب کے آنا سخت منع تھا۔


 ان جھروکوں سے وہ تو باہر دیکھ سکتی تھیں مگر انھیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ کھڑکیوں میں ایسی نقش نگاری کی گئی ہے کہ اس میں کئی سارے سوراخ ہیں جن سے ہر وقت ہوائیں آتی رہتی ہیں اور موسم گرما میں درجہ حرارت معتدل رہتا ہے۔  ہوا محل کے سامنے کا حصہ دراصل اس کے عقب کا حصہ ہے اور اس کا دروازہ دوسری جانب ہے۔  سال 2006ء میں ہوا محل میں تزئین کی گئی جس کا کل خرچ 4.568 ملین روپئے تھا۔ہوا محل پانچ منزلہ اہرامی شکل کی عمارت ہے جس کی کل اونچائی 50 فٹ (15 میٹر) ہے۔اوپر کی تین منزلیں محض ایک کمرے کے برابر ہیں جبکہ نیچے کی دو منزلیں کے سامنے وسیع برآمدے ہیں۔  استاد لال چند عظیم ماہر تعمیر تھے اور انھوں نے ہوا محل کو ایک منفرد شکل دی اور اسے سرخ اور گلابی پتھروں کا بنایا۔


 گلابی پتھر جے پور کے تمام محلات اور عمارتوں میں لگے ہیں جس کی وجہ جے پور   کوگلابی نگر کہا جاتا ہے۔ ہوا محل راجپوت فن تعمیر، اسلامی فن تعمیر اور مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ ہوا محل کا باب الداخلہ سٹی پیلیس کی جانب سے ہے۔ ایک شاہی دروازہ وسیع صحن میں کھلتا ہے جس کے تینوں جانب دو منزلہ عمارتیں ہیں۔ تینوں جانب سے ہوا محل میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔راجستھان کا ہوا محل ہوا میں محل بنانا ایک مشہور محاورہ ہے لیکن 18ویں صدی میں راجستھان کے ایک راجپوت راجہ نے اس کہاوت کو عملی جامہ پہنایا۔ اگرچہ وہ ہوا میں محل نہ بنا سکے لیکن اس نے ایک وسیع محل بنایا جسے ہوا محل کہا جاتا ہے جو آج بھی راجستھان کا نشان ہے۔


ہر طرف سے ہوا اس محل میں داخل ہوتی ہے۔ شدید گرمی میں بھی محل کا اندرونی ماحول ٹھنڈا اور آرام دہ محسوس ہوتا ہے۔ اس محل میں راجستھانی اور مغل طرز کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1799 میں مہاراجہ سوائی پرتاب نے جے پور شہر میں اس محل کی تعمیر کروائی تھی۔ یہ محل ان شاہی خواتین کے لیے تیار کیا گیا تھا جنہیں پردے کی پابندیوں کی وجہ سے بازار جانے اور شہر کی رونقوں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ چنانچہ یہ محل اس طرح بنایا گیا تھا کہ شاہی خاندان کی خواتین محل کی کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر پورے شہر کا نظارہ کر سکتی تھیں۔ اس محل کو ہوا کا محل بھی کہا جاتا ہے اور یہ تاریخی شہر جے پور میں اب بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس محل کی خاص خصوصیت اس کا ڈیزائن ہے جو دور سے شہد کے چھتے کی طرح نظر آتا ہے۔ 


محل میں 953 چھوٹی کھڑکیاں ہیں جن میں گلابی پتھر کا خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔ پانچ منزلہ محل آج 200 سال گزرنے کے باوجود اپنی شان و شوکت اور منفرد خوبصورتی کے ساتھ لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔محل کی تعمیر میں محراب کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ جو مغل فن تعمیر کی خاص نشانی ہے۔ محل کا مرکزی حصہ ہندو دیوتا ہنومان کے تاج سے بھی مشابہت رکھتا ہے۔ وسیع رقبے پر بنے اس محل میں چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں، جن پر کھڑکیاں بنائی گئی ہیں۔ ہر کھڑکی کے اوپر ایک محراب بھی بنایا گیا ہے۔ ان کھڑکیوں کی وجہ سے محل ہمیشہ ہوا دار رہتا ہے۔ اس محل کا ڈیزائن لال چندر شاہ نے بنایا تھا۔ محل کا پچھلا حصہ بالکل سادہ ہے جبکہ سامنے والا حصہ خوبصورت نقش و نگار سے مزین ہے۔ 

اگر کوئی محل کا صرف عقبی حصہ ہی دیکھ لے تو اسے اس میں کوئی خاص چیز نظر نہیں آئے گی۔ یہ حصہ راجستھان کے عام مکانوں کی طرح بنایا گیا تھا لیکن سامنے کی طرف دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محل ایک شاہکار اور فن تعمیر کا ایک نمونہ ہے۔ سیاحوں کے مطابق محل کی خوبصورتی طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت دیکھی جا سکتی ہے۔ جب سورج کی سنہری کرنیں محل کی گلابی اینٹوں پر پڑتی ہیں تو محل کی خوبصورتی دوبالا ہو جاتی ہے اور اس کی چمک دور سے محسوس ہوتی ہے۔صحن میں آثار قدیمہ کا ایک میوزیم بھی موجود ہے جو اس کی شان بڑھاتا ہے اور اس کی منفرد تاریخ کا گواہ بھی ہے

 

اتوار، 29 ستمبر، 2024

وینس -ایک دیو مالائ شہر

 

 

وینس کا نام اس کے قدیم ’’وینیٹی‘‘باشندوں سے اخذ کیا گیا ہے جو دسویں صدی قبل از مسیح میں وہاں پر آباد تھے۔تاریخی طور پر بھی یہ شہر ریاست وینس کا صدر مقام تھا۔ریاست وینس زمانہ  قرون وسطیٰ کی ایک بڑی بحری طاقت تھی اور ان علاقوں میں سے ایک تھی جہاں سے صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا تھا۔یہ اپنے زمانے کا اہم تجارتی مرکز تھا جہاں پر ریشم ، اناج اور مصالحوں کی تجارت ہوتی تھی۔ تیرھویں سے سترھویں صدی تک یہ آرٹ کے اہم مراکز میں بھی شامل تھا۔ان تمام خصوصیات کی وجہ سے تاریخ کے زیادہ تر ادوار میں وینس ایک دولت مند شہر رہا تھا۔وینس کے علاوہ اس شہر کو اور بھی کئی ناموں سے جانا جاتا ہے جو اس کے پیار کے نام ہیں جیسے ’’ایڈریاٹک کی ملکہ‘‘، ’’پانیوں کا شہر‘‘، ’’نقابوں کا شہر‘‘، ’’پلوں کا شہر‘‘، ’’تیرتا شہر‘‘، ’’نہروں کا شہر‘‘ وغیرہ۔نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں اس شہر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ بلاشبہ انسانی تاریخ کا خوبصورت ترین شہر ہے۔ اسے یورپ کا سب سے رومانوی شہر بھی کہا جاتا ہے۔یہ اٹلی کا ایک مردم خیز خطہ بھی تھا جس نے انٹونیو ویوالڈی سمیت کئی نابغہ ء روزگار شخصیات کو جنم دیا۔


تاریخ-اگرچہ ایسا کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہیں جو ہمیں براہ راست آگاہی فراہم کرتا ہو کہ وینس شہر کا قیام کب اور کیسے عمل میں آیا۔ تاہم دستیاب روایات اور شواہد سے متعدد مورخ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وینس کی اصل آبادی مختلف رومن شہروں جیسے پاڈوا ، ایکویلیا ، ٹریویسو ، الٹینو اور کونکورڈیا اور دیگر دفاع سے محروم دیہاتی علاقوں کے مہاجروں پر مشتمل تھی جو جرمن اور ہن حملہ آوروں سے جانیں بچانے کے لیے وہاں سے فرار ہورہے تھے۔بعد کے کچھ رومن ذرائع کے مطابق وینس کے اصل دلدلی جزیرے پر کچھ ماہی گیروں کا بھی پتہ چلتا ہے۔وینس کے مشہور مقامات اور تفریحات:گھومنے کے شوقین لوگ وینس ضرور جاتے ہیں۔وینس اپنے محل وقوع ، اپنے آرکی ٹیکچر اور آرٹ کی وجہ بھی دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔یہ شہر کس قدر انوکھا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ نے اس پورے شہر اور اس کی سمندری کھاڑی کو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ یعنی عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔وینس اٹلی کے صوبے یا ریاست وینیٹو کا صدرمقام ہے۔ 2009ء کے اعدادوشمار کے مطابق اس شہر کے مرکزی حصے میں لگ بھگ پونے تین لاکھ نفوس رہتے ہیں جبکہ آس پاس کے علاقوں اور مضافات کو ملا کر اس کی آبادی سولہ لاکھ سے زائد ہے۔اس کے اہم علاقوں میں کمیون آف وینیزیا ، ٹیرافرما ، پاڈوا اور ٹریویسو شامل ہیں۔ پاڈوا ، ٹریویسو اور وینس کو ملا کر یہ شہر میٹرو پولیٹن بن جاتا ہے ۔


St. Mark’s Square ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ ایک چوراہا ہے جو ممکنہ طورپر دنیا کا سب سے مشہور چوک یا سکوائر ہے۔اطالوی زبان میں اس کا پورا نام Piazza di San Marco ہے اور اس کے ارد گرد شاندار تاریخی عمارات ہیں جن کو دیکھ کر قدیم وینس سلطنت کی طاقت اور دولت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔St. Mark’s Basilica وینس کا سب سے مشہور گرجا گھر ہے۔اس کے عظیم الشان فن تعمیر سے بھی وینس کے قدیم جلال وحشمت کا اندازہ ہوتا ہے۔Bridge of Sigh بھی وینس کا قابل دید مقام ہے۔ یہ چھت دار پل ڈاگس محل کو ریو ڈی پلازو کے قیدخانوں سے ملاتا ہے۔ یہ پل وینس کے چند مشہور ترین مقامات میں سے ایک ہے۔Grand Canal وینس کی مرکزی نہر اور واٹر ٹریفک کا ذریعہ ہے۔ یہ نہر پورے شہر میں سے گذرتی ہوئی جاتی ہے۔ اس کے آس پاس دیکھنے کو شاندار عمارتیں اور رہائشی مقامات ہیں۔


Doge’s Palace کا محل گوتھک طرز تعمیر کا شاہکار ہے جو ایک زمانے میں وینس کی حکمرانی کا مرکز تھا۔ یہاں سے ڈاگ اور ان کی حکومت نے وینس کی سلطنت پر طویل عرصہ حکمرانی کی۔Rialto Bridge طویل عرصہ تک سان مارکو اور سان پولو اضلاع کے درمیان گرینڈ کینال کو پار کرنے کا واحد ذریعہ تھا۔ یہ پل سولہویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا ۔ اس پر بہت سی دکانیں موجود ہیں۔Gondola وینس کی ایک قسم کی کشتیاں ہیں جو کسی زمانے میں ٹرانسپورٹ کا اہم ترین ذریعہ تھیں۔ اب یہ کشتیاں وینس کی سب سے پرکشش تفریح ہیں۔ ان کشتیوں کے ذریعے بڑی تعداد میں سیاح گرینڈ کینال اور دیگر چھوٹی نہروں کی سیر کرتے ہیں۔Scuola Grande di San Marco وینس میں تیرھویں صدی میں تعمیر کیا گیا مدرسہ ہے جسے انیسویں صدی میں ہسپتال میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس کا ماتھا یا سامنے والا حصہ پندرھویں صدی میں تعمیر کیا گیا۔Lido وینس کی کھاڑی میں ہی واقع ایک طویل اور تنگ جزیرہ ہے جسے دنیا کا پہلا خصوصی تفریحی مقام قرار دیا جاتا ہے۔ لیڈو کا طویل ساحل گرمیوں کے موسم میں مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کے لیے زبردست کشش رکھتا ہے۔Vaporetto وینس کی سیر کے لیے گنڈولا ہی واحد ذریعہ نہیں ہیں۔ Vaporetto شہر کی مقبول ترین ٹرانسپورٹ ہے۔ یہ اصل میں بحری بسیں ہیںجو شہر میں سفر کے لیے ایک آرام دہ اور سستا ذریعہ ہیں۔Teatro La Fenice یہ یورپ کا مشہور ترین اوپیرا ہاؤس ہے۔


  Storico Navale یہ اں شہر کا بحری عجائب گھر  بھی ہے جسے دیکھ کر آپ وینس کی شاندار بحری تاریخ کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس میں بحری فوج سے متعلقہ مختلف چیزیں جیسے توپخانہ ، گنڈولا کشتیاں ، بحری جہاز اور ماڈل بوٹس رکھی گئی ہیں۔Madonna dell’Orto وینس میں کئی خوبصورت کلیسا موجود ہیں -جن میں اینٹوں سے بنا یہ چرچ بھی ہےSt. Mark’s Campanile وینس کا بلند ترین گھنٹہ گھر۔یہ چرچ کناریگیو میں واقع ہے جو چودھویں صدی میں ایک مقامی مذہبی فرقے ہیومیلیاٹی کی جانب سے تعمیر کیا گیا تھا۔Squero di San Trovaso یہ سترھویں صدی میں قائم کیا جانے والا ایک چھوٹا سا شپ یارڈ ہے جو ان چھوٹے چھوٹے شپ یارڈز میں سے ایک ہے جہاں آج بھی وینس کی مشہور گنڈولا کشتیوں کی تیاری اور مرمت کا کام کیا جاتا ہے۔

میں نے یہ مضمون انٹرنیٹ سے لیا ہے-شکریہ گوگل 


 

نظم کا بے نظیر شاعر-نظیر اکبر آبادی

 

  برصغیر  میں  اردو رومانوی افسانوں  کا جب بھی زکر نکلے گا  تو سید سجاد حیدر یلدرم کا نام ضرور آئے گا اور اسی طرح  اردو نظم کے ابتدا ئ دور میں  جب رومانوی شاعری سماج میں جڑیں مظبوط کر رہی تھی  تب نظیر اکبر آبادی  نے ایک نئ  شاعری نظم کی بنیاد رکھ دی  -نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ’’بنجارا‘‘ کے اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ ٹک حرص و ہوا کو چھوڑدنیا  میاں مت دیس بدیس پھرے مارا قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا یہ دھوم دھڑکا ساتھ لیے کیوں پھرتا ہے جنگل جنگل اک تنکا ساتھ نہ جائے گا موقوف ہوا جب ان اور اجل سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زرمغرور نہ ہو تلواروں پر مت پھول بھروسے ڈھالوں کےسب پٹا توڑ کے بھاگیں گے منہ دیکھ اجل کے بھالوں کےہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خا ک لحد کی پھانکے گااس جنگل میں پھر آہ نظیرؔ اک تنکا آن نہ جھانکے گاسب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا ۔

یہاں صرف ان کی شعری عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس عظیم شاعر کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا- نظیر اکبر آبادی کے ہم عصروں میں مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر، شیخ قلندر بخش، جرأت، انشااللہ خان انشا اور غلام ہمدانی مصحفی شامل ہیں۔ میر اور سودا کے زمانے میں وہ نوجوان تھے اور ہو سکتا ہے کہ جرأت، انشا اور مصحفی کے دور میں وہ ادھیڑ عمر ہوں۔ اگرچہ جدید نظم کے دور کا کریڈٹ الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد کو جاتا ہے لیکن نظیر اکبر آبادی کو بجا طور پر ’’اردو نظم کا باپ‘‘ سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کا دور ان سے پہلے کا ہے۔ 1954ء میں حبیب تنویر نے اپنا معروف ڈرامہ ’’آگرہ بازار‘‘ لکھا اور اس کی ہدایات بھی دیں۔ اس ڈرامے میں نظیر اکبر آبادی کی شاعری کا مکمل طور جائزہ لیا گیا ہے۔ نظیر اکبر آبادی جن کا اصل نام ولی محمد تھا، 1735ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ جب انہوں نے غزل اور نظم لکھنی شروع کی تو نظیر تخلص رکھ لیا

جب نظیر اکبر آبادی صرف چار برس کے تھے، نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کر دیا۔ اس وقت محمد شاہ رنگیلا کی حکومت تھی۔ نادر شاہ نے محمد شاہ رنگیلا کو گرفتار کر لیا۔ بعد میں اسے رہا کر دیا گیا لیکن اس وقت تک دہلی میں بے شمار لوگوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ابھی اس خونریزی اور لوٹ مار کی داستانیں لوگوں کے ذہن سے محو نہیں ہوئی تھیں کہ 17 سال بعد احمد شاہ ابدالی نے دہلی پر حملہ کر دیا۔ لوگوں نے دہلی چھوڑ کر محفوظ جگہوں پر جانا شروع کر دیا۔ نظیر اور ان کے خاندان کے افراد دہلی چھوڑکر اکبرآباد چلےگئے۔ اس وقت نظیر کی عمر 18 برس تھی۔ کہا جاتا ہے کہ نظیر اکبرآبادی نے دو لاکھ اشعار کہے لیکن اس شعری خزانے کا بہت سا حصہ ضائع ہو گیا اور صرف چھ ہزار اشعار بچے۔ یہ اشعار چھپ چکے تھے۔ کسی اور اردو شاعر نے اتنے الفاظ کا استعمال نہیں کیا جتنا نظیر نے کیا

 نظیراکبر آبادی  نے اپنی شاعری میں عام آدمی کی حالت زار کا احاطہ کیا ہے اور اس کے لیے روزمرہ کی زبان استعمال کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری عوام میں بہت مقبول ہوئی۔ لیکن نظیر اکبر آبادی کو اس وقت وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔ البتہ کچھ عرصہ بعد ان کے شعری مرتبے کو تسلیم کر لیا گیا۔ اگرچہ ان کا بہت سا کلام ضائع ہو گیا لیکن اس کے باوجود ان کی نظمیں ’’بنجارا نامہ، کلجگ نہیں کرجگ ہے یہ، اور آدمی نامہ‘‘ کو شہرت دوام ملی۔ایسی نظمیں سکولوں کی درسی کتابوں میں ملتی ہیں اور اردو شاعری کے دلدادہ نظیر اکبر آبادی کی شعری عظمت کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتے۔ انہوں نے قارئین کے لیے 600 غزلیں چھوڑی ہیں۔ اگرچہ ان کی نظموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زیادہ قابل تعریف ہیں۔

 درحقیقت نظیر اکبر آبادی کی مقبولیت ان کی نظموں کی وجہ سے ہے۔ وہ مکمل طور پر ’’عوامی شاعر‘‘ تھے اور ان کی نظمیں روزمرہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتی تھیں۔ ان نظموں میں مذہبی اور سماجی تہواروں کے حوالے سے بھی بہت کچھ ملتا ہے اور ان میں چھوٹی چھوٹی تفصیلات بھی ملتی ہیں جن میں عام آدمی کو ہنستے ہوئے، گاتے ہوئے اور کھیلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔انہوں نے دیوالی، ہولی، عید، شب برات کے علاوہ پھلوں، جانوروں اور پرندوں کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ پھر انہوں نے موسموں کے بارے میں بھی لکھا اور حتیٰ کہ ایسے موضوعات پر لکھا جن پر پہلے کبھی نہیں لکھا گیا۔ جیسے روپیہ، روٹیاں، آٹا، دال، پنکھا وغیرہ۔ انہوں نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر لکھا۔ نظیر اکبر آبادی کی شاعری کا کینوس بہت وسیع تھا اور یہ انسانی رویے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ اس طرح ہر آدمی کو اس کے مزاج کی نظمیں مل جاتی ہیں۔ 1830ء میں نظیر اکبر آبادی کا آگرہ میں 95 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر