پیر، 30 ستمبر، 2024

جے پور میں ہوا محل کیوں بنایا گیا


  گلابی عمارات کا  جے پور شہر نہ صرف گلابی رنگت کے باعث سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے،بلکہ شہر کا تعمیری انداز بھی نہایت زبردست کشش رکھتا ہے۔پوری عمارت 1799ء میں جے پور کے بانی جے سنگھ دوم کے پوتے سوائی پرتاپ سنگھ کے زمانہ میں بن کر تیار ہوئ۔  ہوامحل سرخ اور گلابی سینڈ اسٹون کا بنا ہے۔ اس کے قریب جنتر منتر، جےپور اور سٹی پیلیس، جےپور واقع ہیں- مہاراجا پرتاپ سنگھ نے جب  کھتری محل  دیکھا تو اس سے بہت  متاثر  ہوا اور پھر اس نے ایک ایسی  یادگار عمارت بنا نے کا فیصلہ کیا  جو منفرد ہو اور اس طرح ہوا محل  بن کر تیار ہوا  'ہوا محل کے آرکیٹیکٹ  استاد لال چند  تھے ۔ اس محل  کی سب سے بڑی خوبی اس کی پانچوں منزلوں پر بنی چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں ہیں جنہیں جھروکا کہا جاتا ہے۔  ان جھروکوں کو بنانے کا مقصد راجپوت خاندان کی شاہی خواتین کے لیے شہر میں ہونے والے تہوار اور جلسے جلوس کو دیکھنے کا انتظام کرنا تھا کیونکہ ان خواتین پر پردہ کی سخت پابندی تھی اور انھیں عوام می بغیر حجاب کے آنا سخت منع تھا۔


 ان جھروکوں سے وہ تو باہر دیکھ سکتی تھیں مگر انھیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ کھڑکیوں میں ایسی نقش نگاری کی گئی ہے کہ اس میں کئی سارے سوراخ ہیں جن سے ہر وقت ہوائیں آتی رہتی ہیں اور موسم گرما میں درجہ حرارت معتدل رہتا ہے۔  ہوا محل کے سامنے کا حصہ دراصل اس کے عقب کا حصہ ہے اور اس کا دروازہ دوسری جانب ہے۔  سال 2006ء میں ہوا محل میں تزئین کی گئی جس کا کل خرچ 4.568 ملین روپئے تھا۔ہوا محل پانچ منزلہ اہرامی شکل کی عمارت ہے جس کی کل اونچائی 50 فٹ (15 میٹر) ہے۔اوپر کی تین منزلیں محض ایک کمرے کے برابر ہیں جبکہ نیچے کی دو منزلیں کے سامنے وسیع برآمدے ہیں۔  استاد لال چند عظیم ماہر تعمیر تھے اور انھوں نے ہوا محل کو ایک منفرد شکل دی اور اسے سرخ اور گلابی پتھروں کا بنایا۔


 گلابی پتھر جے پور کے تمام محلات اور عمارتوں میں لگے ہیں جس کی وجہ جے پور   کوگلابی نگر کہا جاتا ہے۔ ہوا محل راجپوت فن تعمیر، اسلامی فن تعمیر اور مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ ہوا محل کا باب الداخلہ سٹی پیلیس کی جانب سے ہے۔ ایک شاہی دروازہ وسیع صحن میں کھلتا ہے جس کے تینوں جانب دو منزلہ عمارتیں ہیں۔ تینوں جانب سے ہوا محل میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔راجستھان کا ہوا محل ہوا میں محل بنانا ایک مشہور محاورہ ہے لیکن 18ویں صدی میں راجستھان کے ایک راجپوت راجہ نے اس کہاوت کو عملی جامہ پہنایا۔ اگرچہ وہ ہوا میں محل نہ بنا سکے لیکن اس نے ایک وسیع محل بنایا جسے ہوا محل کہا جاتا ہے جو آج بھی راجستھان کا نشان ہے۔


ہر طرف سے ہوا اس محل میں داخل ہوتی ہے۔ شدید گرمی میں بھی محل کا اندرونی ماحول ٹھنڈا اور آرام دہ محسوس ہوتا ہے۔ اس محل میں راجستھانی اور مغل طرز کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1799 میں مہاراجہ سوائی پرتاب نے جے پور شہر میں اس محل کی تعمیر کروائی تھی۔ یہ محل ان شاہی خواتین کے لیے تیار کیا گیا تھا جنہیں پردے کی پابندیوں کی وجہ سے بازار جانے اور شہر کی رونقوں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ چنانچہ یہ محل اس طرح بنایا گیا تھا کہ شاہی خاندان کی خواتین محل کی کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر پورے شہر کا نظارہ کر سکتی تھیں۔ اس محل کو ہوا کا محل بھی کہا جاتا ہے اور یہ تاریخی شہر جے پور میں اب بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس محل کی خاص خصوصیت اس کا ڈیزائن ہے جو دور سے شہد کے چھتے کی طرح نظر آتا ہے۔ 


محل میں 953 چھوٹی کھڑکیاں ہیں جن میں گلابی پتھر کا خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔ پانچ منزلہ محل آج 200 سال گزرنے کے باوجود اپنی شان و شوکت اور منفرد خوبصورتی کے ساتھ لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔محل کی تعمیر میں محراب کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ جو مغل فن تعمیر کی خاص نشانی ہے۔ محل کا مرکزی حصہ ہندو دیوتا ہنومان کے تاج سے بھی مشابہت رکھتا ہے۔ وسیع رقبے پر بنے اس محل میں چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں، جن پر کھڑکیاں بنائی گئی ہیں۔ ہر کھڑکی کے اوپر ایک محراب بھی بنایا گیا ہے۔ ان کھڑکیوں کی وجہ سے محل ہمیشہ ہوا دار رہتا ہے۔ اس محل کا ڈیزائن لال چندر شاہ نے بنایا تھا۔ محل کا پچھلا حصہ بالکل سادہ ہے جبکہ سامنے والا حصہ خوبصورت نقش و نگار سے مزین ہے۔ 

اگر کوئی محل کا صرف عقبی حصہ ہی دیکھ لے تو اسے اس میں کوئی خاص چیز نظر نہیں آئے گی۔ یہ حصہ راجستھان کے عام مکانوں کی طرح بنایا گیا تھا لیکن سامنے کی طرف دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محل ایک شاہکار اور فن تعمیر کا ایک نمونہ ہے۔ سیاحوں کے مطابق محل کی خوبصورتی طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت دیکھی جا سکتی ہے۔ جب سورج کی سنہری کرنیں محل کی گلابی اینٹوں پر پڑتی ہیں تو محل کی خوبصورتی دوبالا ہو جاتی ہے اور اس کی چمک دور سے محسوس ہوتی ہے۔صحن میں آثار قدیمہ کا ایک میوزیم بھی موجود ہے جو اس کی شان بڑھاتا ہے اور اس کی منفرد تاریخ کا گواہ بھی ہے

 

1 تبصرہ:

  1. ہندوستان کے چپے چپے پر یادگار عمارتی ہیں جن کو دیکھ کر دل عش عش کر اٹھتا ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر