منگل، 22 اگست، 2023

شہادتِ بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا



حبیبِ خدا، رحمت العالمین، خاتم المرسلین فخرِ انبیأ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے چھوٹے اور لاڈلے نواسے ، علی و فاطمہ (س) کے دل کا چین، نورِ عین شافیِ محشر حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ سکینہ میری نمازِ شب کی دعاؤں کا نتیجہ ہے ۔حضرت سکینہ خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراؓ کی پوتی، حضرت امام حسینؓ کی لاڈلی بیٹی اور حضرت ام رباب سکینہ کی والدہ ماجد تھیں۔ حضرت سکینہ اپنی والدہ محترمہ حضرت سکینہ ام رباب کیطرح رضا، صبر کا پیکر تھیں، تاریخ گواہ ہے کہ معصوم سکینہ کا سارا بچپن اذیت اور پریشانی میں بسر ہوا، جس نے چھوٹی سی عمر میں کربلا کا خونچکاں سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور انتہائی صبر و استقلال کا ثبوت دیاحضرت سکینہ خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہرا کی پوتی، حضرت امام حسین علیہ السلام کی لاڈلی بیٹی اور حضرت ام رباب سلام اللہ علیہا سکینہ کی والدہ ماجد تھیں۔ حضرت سکینہ اپنی والدہ محترمہ حضرت سکینہ ام رباب کیطرح رضا، صبر کا پیکر تھیں، تاریخ گواہ ہے کہ معصوم سکینہ کا سارا بچپن اذیت اور پریشانی میں بسر ہوا، جس نے چھوٹی سی عمر میں کربلا کا خونچکاں سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور انتہائی صبر و استقلال کا ثبوت دیا۔

28 رجب 60ہجری کو امام عالی مقام نے اپنے گھر مدینہ سے سفر کیا تو ساڑھے چار سال کا سن سکینہ کا تھا۔ اور جس طرح ہر بہن بھائی کو بھائی سے محبت ہوتی ہے، اسی طرح، سکینہ کو بھی اپنے چھوٹے بھائی علی اصغر سے محبت کرتی تھی، گھر والے سکینہ کو اپنی گود میں اٹھائے رکھتے، سکینہ اپنے بھائی اصغر کو ہر وقت اپنی ننھی سی گود میں رکھتی تھیں -حشر خیز میدان کربلا کا ایک راوی یوں بیان کرتا ہے کہ سفر کربلا میں امام عالی مقامؓ نے ایک جگہ قیام کیا، خیموں کے عین درمیان امامؓ کا خیمہ لگایا گیا، اتنے میں خیمہ سے ایک کنیز نکلی، جس کی گود میں ایک چھوٹی بچی تھی، جس کے دونوں کانوں میں چمکتے ہوئے موتیوں کی بالیاں تھیں، امام حسینؓ بچی کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور معصوم بچی کو گود میں لے کر پیار کرنے لگے، یہ معصوم بچی امامؓ کے سینے سے چمٹ گئی، اس وقت حضرت امامؓ کی آنکوں سے آثار مسرت نمایاں تھے اور یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ آپ کو اس بچی سے بے پناہ محبت ہے۔

راوی کہتا ہے کہ جب میں نے اس بچی کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا، کہ یہ بچی سکینہ بنت الحسینؓ حضرت سکینہ خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہرا کی پوتی، حضرت امام حسین علیہ السلام کی لاڈلی بیٹی اور حضرت ام رباب سلام اللہ علیہا سکینہ کی والدہ ماجد تھیں۔ حضرت سکینہ اپنی والدہ محترمہ حضرت سکینہ ام رباب کیطرح رضا، صبر کا پیکر تھیں، تاریخ گواہ ہے کہ معصوم سکینہ کا سارا بچپن اذیت اور پریشانی میں بسر ہوا، جس نے چھوٹی سی عمر میں کربلا کا خونچکاں سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور انتہائی صبر و استقلال کا ثبوت دیا۔
28 رجب 60ہجری کو امام عالی مقام نے اپنے گھر مدینہ سے سفر کیا تو ساڑھے چار سال کا سن سکینہ کا تھا۔ اور جس طرح ہر بہن بھائی کو بھائی سے محبت ہوتی ہے، اسی طرح، سکینہ کو بھی اپنے چھوٹے بھائی علی اصغر سے محبت کرتی تھی، گھر والے سکینہ کو اپنی گود میں اٹھائے رکھتے، سکینہ اپنے بھائی اصغر کو ہر وقت اپنی ننھی سی گود میں رکھتی تھیں -حشر خیز میدان کربلا کا ایک راوی یوں بیان کرتا ہے کہ سفر کربلا میں امام عالی مقامؓ نے ایک جگہ قیام کیا، خیموں کے عین درمیان امامؓ کا خیمہ لگایا گیا، اتنے میں خیمہ سے ایک کنیز نکلی، جس کی گود میں ایک چھوٹی بچی تھی، جس کے دونوں کانوں میں چمکتے ہوئے موتیوں کی بالیاں تھیں، امام حسینؓ بچی کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور معصوم بچی کو گود میں لے کر پیار کرنے لگے، یہ معصوم بچی امامؓ کے سینے سے چمٹ گئی، اس وقت حضرت امامؓ کی آنکوں سے آثار مسرت نمایاں تھے اور یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ آپ کو اس بچی سے بے پناہ محبت ہے۔
راوی کہتا ہے کہ جب میں نے اس بچی کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا، کہ یہ بچی سکینہ بنت الحسینؓ ہے، لیکن اس کے تھوڑے ہی دن بعد جو عظیم انقلاب اس معصومہ کو دیکھنا پڑا، خداند کریم ایسا انقلاب کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔حضرت امام حسین 2 محرم 61 ہجری کو وارد سرزمین نینوا ہوگئے، اگلے روز یزیدی فوجوں کی آمد شروع ہوگئی، پانچ محرم سے فرات پر ظالموں کا قبضہ ہو گیا، ساتویں محرم کو خیام حسین میں قحط آب ہوگیا۔ نویں محرم کو مظلوم امامؓ نرغہ اعدا میں گھر گئے۔ روز عاشور یزید کے کم از کم تیس ہزار سپاہیوں اور حضرت امام حسین کے 72 اصحاب کے درمیان قیامت خیز جنگ ہوئی اور عصر کا ہنگام آتے آتے حضرت امام حسین مع اپنے جملہ اصحاب اور افراد خاندان کے کئی روز کے بھوکے پیاسے اللہ کی راہ میں قربان ہوگئے۔

جب حضرت امام عالی مقام شہید ہوگئے، تو یزید کی فوج نے آل محمد کے خیموں کو لوٹ کر ان کو آگ لگادی، راوی کہتا ہے کہ میں اس وقت دیکھ رہا تھا، جب خیمہ عصمت، طہارت کو آگ لگی۔ تو وہی معصوم سیکنہ خیمہ عصمت و طہارت سے باہر آئی جس کے دامن کو آگ لگی ہوئی، وہ بہت پریشان اور بے چین تھی واویلا کر رہی تھی۔مگر یتیم سکینہ کی فریاد کون سنتا، اس کے دامن کی آگ کون بجھاتا، حضرت امام حسین کی لاڈلی بیٹی، دہشت زدہ ہو کر ہائے بابا، پکارتی ہوئی مقتل میں جاپہنچی۔ شہدا کے سرتن سے جدا کر کے لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جا رہے تھے۔ شمر نے سکینہ کو انکے باباؓ کے سینے سے لپٹا دیکھ لیا اور بے دردی کے ساتھ سکینہ کو باپ کی نعش مبارک سے الگ کیا،
راوی کہتا ہے کہ شمر نے سکینہ کے کانوں سے چمکتے ہوئے موتیوں والی بالیاں اس بیدردی سے نوچیں کہ معصوم بچی کے نازک کانوں سے خون بہنے لگا۔ سکینہ شدت کرب سے چلائی اور اپنے شہید بابا کو پکارا، جس پر ظالموں نے طمانچے مارے آخر شدید درد کی تاب نہ لا کر زمین پر گرپڑیں معصوم بچی کو کوفہ و شام میں اسیروں کے ساتھ مصائب و آلام کا سامنا رہا، سکینہ کے گلے میں دوسرے اسیروں کی طرح رسی باندھی گئی، جس سے ان کا گلا گھٹنے لگا، اس قدر سخت گرہیں لگائی گئی تھی کہ جب اس معصوم کے گلے سے رسی کھولنے کا وقت آیا، تو گرہ کھل نہ سکی، آخری یہ رسی چھری سے کاٹنا پڑی۔
پھر ایام اسیری میں  وہ دن بھی آیا جب بی بی سکینہ اپنے بابا کو بہت یاد کررہی تھیں اور کسی کی گود میں بھی ان کو قرار نہیں آ رہا تھا  ۔۔۔۔۔ تمام بیبیاں بھی ان کی اس کیفیت کے سبب  رو رہی تھیں یزید کے محل میں جب اس نالہ و شیون کی آواز پہنچی تو اس نے اپنے غلام سے پوچھا  کہ کیا معاملہ ہے اس کو بتایا گیا کہ حسین علیہ السلام کی چھوٹی بچی اپنے بابا کو یاد کر کے رو رہی ہے ۔۔۔ یزید ملعون نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ اس کو کس طرح خاموش کیا جائے یزید کو بتایا گیا کہ اگر سرِ حسین علیہ السلام زندان میں بجھوادیں تو یہ بچی خاموش ہوجائے گی ، پھر ایسا ہی ہوا سرِ امام حسین زندان میں لایا گیا ۔۔۔ اک حشر برپا ہوا ، تمام بیبیاں احتراماً کھڑی ہوگئیں۔

سید سجاد ، عابدِ بیمار طوق و زنجیر سنبھالے بابا حسین  علیہ السلامکے سر کو لینے آگے بڑھے سکینہ کی گود میں جب بابا کا سر آیا بے چینی سے لرزتے ہونٹ امامِ عالی مقام کے رخسار پر رکھ دیے ، کبھی ماتھا چومتی کبھی لبوں کا بوسہ لیتیں روتی جاتیں اور شکوے کرتی جاتیں۔بابا ۔۔۔ بابا مجھے طمانچے مارے گئے ۔۔۔۔بابا میرے کانوں سےگوشوارے چھینے گئے ۔۔۔۔ میرے کان زخمی ہوگئے میرے دامن میں آگ لگی بابا نہ آپ آئے نہ عمو آئے نہ بھائی اکبر آئے ۔۔۔۔ بابا ہمیں بازاروں میں گھمایا گیا بابا اس قید خانے میں میرا دم گھٹتا ہے ۔۔۔۔ پیاسی سکینہ روتی رہی ہچکیوں کی آواز بتدریج ھم ہوتی گئی ۔۔۔ پھربالآخر خاموشی چھاگئی ۔۔۔۔۔۔ سید سجاد کھڑے ہو گئے پھوپی زینب کو سہارا دیا اور بلند آواز میں فرمایا: - انا للہِ وانا الیہِ راجعون سکینہ ہمیشہ کے لیئے خاموش ہو گئی شام میں یزید کے محل کے ساتھ اس چھوٹے سے قید خانہ میں ہی اس معصوم بچی کو اسی خون آلود کرتے میں دفنا دیا گیا جو لوگ شام میں زیارات کے لیے جاتے ہیں اس بی بی کے مزار پر ضرور دیا جلاتے ہیں۔اے پروردگار اس معصوم سکینہ کی یتیمی کے صدقے کسی بچی کو اس کم سنی میں یتیم نہ کرنا ۔۔آمین۔۔
یارب کوئی معصومہ زنداں میں نہ تنہا ہو
پابند نہ ہوں انہیں رونے پہ نہ پہرا ہوہے،

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر