جمعرات، 8 فروری، 2024

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا

   -گھرکے انگن سے میری تعلیم کی ابتداء  تختی لکھنے سے ہوئ اب میں اس دور کے بارے میں سوچتی ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے وہ وقت ایک خوب صورت رنگین تتلی کی مانند تھا -اب مجھے ناشتہ کے فوراً بعد باورچی خانے میں ہی امّی جان قران پاک پڑھایا کرتی تھیں -قران پاک کے بعد کچھ دیر کا وقفہ مل جاتا تھا جیسے آدھا گھنٹہ اس ٹائم میں میرا چھوٹا بھائ میری گود میں رہتا تھا آدھے گھنٹے کے بعد حساب کا وقت ہو تا تھا -میں نے پہاڑے اس طرح سیکھے تھے -دو ایکم دو-دو دونی چار-پہاڑَ ے بس تین چار تک ہی یاد کیئے تھے کی امّی جان نے ایک دن مجھ سے کہا باہر جا و اور کچھ کنکریاں  لے آو -کنکریوں کا سائز شیشے کی کنچے کی گولیوں سے کچھ کم  ہونا چاہئے-میں کچھ دیر میں پچاس کنکریا ں چن کر لے آئ -مجھے اس وقت گنتی روانی سے نہیں آتی تھی اس لئے میں زمین پر دس-دس کنکریا             ں لگ الگ رکھتی گئ جب پانچ جگہ رکھ لیں تب جمع کر کے ڈبّے میں ڈالا اور لاکر امیّ جان کے سامنے ڈبّہ رکھ دیا  - -امّی جان نے ان کنکریوں کو صابن سے دھویا اور ساتھ ہی ڈبّہ بھی دھو کر اوندھا رکھ دیا -جب ڈبّہ اور کنکریا ں خشک ہو گئیں  کنکریا ں  اس میں رکھتے ہوئے امّی جان مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں -دیکھو بیٹا یہ تمھارا گنتی اور حساب کا ڈبّہ ہے اب میں اس سے تم کو حساب سکھاوں گی 

 میری قلم کہانی میری زبانی جی تو میں بات کر رہی تھی تختی کی ،اس زمانے کا رواج تھا کہ اسکولوں میں بھی ابتدا ئ جماعتوں میں تختی لازمی لکھوائ جاتی تھی ،اس کے لئے میری محنتی ، جفاکش اور سمجھدار ماں نے ا ضافی کام یہ کیا ہوا تھا کہ ہم لکھائ سیکھنے والے بچّوں میں ہر ایک کے لئےکے لئے دو تختیاں رکھی تھیں تا کہ ایک تختی اسکول جائے تو دوسری گھر میں استعمال ہواس زمانے میں ہمارے گھرمیں ا یک مٹّی کے کٹورے میں ہمہ وقت ملتانی مٹّی بھیگی رہتی تھی ،ایک دن میں نے کٹورے سے نکال کرجست کے پیالے میں رکھنی چاہی تو امّی جان نے کہا کہ اس پیالے میں مٹّی نہیں رکھنا ورنہ ملتانی مٹّی کا پانی اوپر ہی تیرتا رہے گا اورتختی کی لپائ میں مشکل پیش آئے گی ،اسوقت میں نے جانا کہ مٹّی کے برتن پانی اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں-میں نے بہت جلد تختی تیّار کرنے کا ہنر سیکھ لیا اور پھر جب تختی سوکھ جاتی تھی تب میری پیاری ماں اس پر چوڑی لکیریں کھینچ کر اپنے ہاتھ سے خوش خط تحریر لکھ کر ہم بہن بھائ کو دیتیں اور ہم بچّے برو کے قلم کو سیاہ روشنا ئ میں بھگو کران کے پنسل سے لکھے ہوئے حروف کو دوبارہ لکھتے یوں ہمارا رسم الخط بہتر ہوتا گیا-

اس زمانے کی زندگی مین برو کے قلم کی بہت اہمیت تھی ،یہ قلم دراصل بہت پتلے بانس کی لکڑی سے بنائے جاتے تھے میری معلومات کے مطابق ۔اگر ایسا نہیں ہے تو جس کسی کے بھی علم میں ہو وہ برائے مہربانی بتا کر ثواب دارین حاصل کرےخیر تو اس کے بنانے کا بھی ایک خاص طریقہ تھا چونکہ وہ بہت سخت لکڑی کا ہوتا تھا اس لئے اس کے واسطے بہت تیز چھری استعمال کی جاتی تھی اورقلم کا تحریری حصّہ ترچھا رکھّا جاتا تھامیری امّی جان کی جانب سے ہر گز اجازت نہیں تھی کہ کوئ بچّہ اپنا قلم خود بنائے گا ،لیکن میں نے امّی جان سے چھپ کر حسب معمول یہ ہنر بھی جلد سیکھ لیا اور پھر امّی جان سے بتایا کہ آپ خود دیکھ لیجئے کہ میں چھری کو محفوظ طریقے سے چلاتی ہوں کہ نہیں ،بس پھر امّی جان میرے طریقہ کار سے مطمئین ہو گئیں اور مجھے ا پنا قلم خود تیّار کرنے کی اجازت مل      گئ س زمانے میں بنی بنائ روشنائ کے بجائے گھر میں تیّار کی ہوئ روشنائ استعمال کی جاتی تھی تختیوں پر سیاہ اور کاغذ پر نیلی ہر دو روشنائ کی بنی بنائ پڑیاں بازار سے دستیاب ہوتی تھیں جن کو گھول کر استعمال کیا جاتا تھا ،

اس کے بعد کے دور میں بنی بنائ روشنائ نے معاشرے میں رواج پایاہم بہن بھائیوں  میں صفائی سے سلیٹ اورتختی لکھنے  کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔۔ کس کے پاس سرکنڈے کے چھوٹے اور بڑے  عمدہ قلم ہیں۔ کون اپنے قلم سے لفظوں کی گولائیاں خوب صورت بناتا ہے۔ نقطے کیسے لگانے ہیں اور کہاں لگانے ہیں۔  اس زمانے میں خوشخطی کی بہت اہمیت اس لئے ہوتی تھی   کیونکہ کسی بھی شخص کی شخصیت کا اندازہ اس کی تحریر سے لگایا جاتا تھا ۔شائد یہی وجہ تھی کہ امی جان ہم بچوں کی خوشخطی پر بہت توجہ دیتی تھی- کون جھوم جھوم کر اونچی آوازمیں گنتی، پہاڑے اور نظمیں سنا سکتا ہے۔ یہ ہمارے اولین  جماعتوں کے مشاغل تھے۔

ت کے

معراج کی رات -سوئے منتہا کا سفر

 ۔27 رجب  -یہ رات وہ ہے جب اللہ رب العزت نے اپنے محبوب  حضرت محمد  کو ملاقات کا شرف بخشنے کو عرش بریں پر بلایا   معراج مصطفیٰ ﷺ، اللہ تعالیٰ کے بےشمار احسانات و انعامات میں ایک اہم نعمت اور حضور ﷺ کی انگنت معجزات میں سے ایک ہے، جو بظاہر ایک آن میں وقوع پذیر ہوا مگر اس کی حقیقی مسافت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی جانتے ہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ احادیث و تفاسیر کی رو سے جو کروڑوں یا اربوں کھربوں سال یا اس سے بھی کہیں زیادہ کی مسافت تھی اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے اسے ایک آن یا اس سے کم میں سمیٹ کر رکھ دیا اور جہاں یہ اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی قدرت کی عظیم الشان نشانی ہے وہیں سید المرسلین کا عظیم الشان معجزہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے خاص اپنے آخری نبی کو عطا فرمایا۔

شب معراج تفاسیر کی رو سے-آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ یہ گھڑی کس قدر دلنواز تھی کہ جب مکاں سے لامکاں تک نور ہی نور پھیلا ہوا تھا، سواری بھی نور تو سوار بھی نور، باراتی بھی نور تو دولہا بھی نور، میزبان بھی نور تو مہمان بھی نور، نوریوں کی یہ نوری بارات فلک بوس پہاڑیوں، بے آب و گیاہ ریگستانوں، گھنے جنگلوں، چٹیل میدانوں، سرسبز و شاداب وادیوں، پرخطر ویرانوں پر سے سفر کرتی ہوئی وادی بطحا میں پہنچی جہاں کھجور کے بیشمار درخت ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ حضور یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے یہ آپ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔ نفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے۔ راستے میں ایک سرخ ٹیلا آتا ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ معراج کی رات میں سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیت المقدس بھی آگیا جہاں قدسیوں کا جم غفیر سلامی کے لئے موجود ہے۔ حوروغلماں خوش آمدید کہنے کے لئے اور تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین استقبال کے لئے بے چین و بے قرار کھڑے تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر تشریف فرماہوئے جسے باب محمد( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا جاتا ہے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا معمول تھا کہ جب 27ویں شب رجب آتی تو وہ اعتکاف میں بیٹھتے اور بعد نماز ظہر کے دوران نفل پڑھنے میں مشغول ہو جاتے اس کے بعد دو چار رکعتیں پڑھتے تھے اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ ایک مرتبہ سورہ القدر تین بار اور سورہ اخلاص پچاس مرتبہ پڑھتے اور پھر عصر تک دعاؤں میں مشغول رہتے۔ ان سے مروی ہے کہ سرور کونینؐ کا یہی معمول تھا۔ آج اگر انسان تسخیر کائنات کی جانب قدم اٹھاتا ہے تو محمدؐ اس کام کی ابتدا بھی تھے اور انتہا بھی اس طرح معراج تسخیر کائنات کی عزت بنی نوع انسان کے لئے خوش خبری کی عمدہ مثال بھی ہے اور تکمیل انسانیت کی علامت بھی

معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معنی و مفہوم

عربی لغت میں ’’معراج‘‘ ایک وسیلہ ہے جس کی مدد سے بلندی کی طرف چڑھا جائے اسی لحاظ سے سیڑھی کو بھی ’’معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔روایات اور تفسیر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمان کی طرف اور پھر اپنے وطن لوٹ آنے کے جسمانی سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ اسریٰ کی پہلی آیت میں اس کی وضاحت کی گئی۔

سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيٰـتِنَا ط اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ.

(بنی اسرائيل، 17: 1)

’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مسافت خدا کی نشانیاں دیکھنے کا پیش خیمہ بنی مذکورہ آیت میں معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے مرحلے کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ اس سفر کے دوسرے مرحلے کی عکاسی سورہ نجم کی ابتدائی آیات میں اس طرح کی گئی۔

وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰی. مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی.

(النجم، 53: 1،2)

’’قسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔ تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (رسول   جنہوں نے تمہیں اپنا صحابی بنایا) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے‘‘۔

اس کے ساتھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ معراج کیوں کروائی گئی؟ اس سلسلے میں معراج کی حکمتیں درج ذیل ہیں۔

معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمتیں -ارباب حل و عقد نے سفر معراج کی کچھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں مگر حقیقت حال اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ان حکمتوں سے دلجوئی محبوب سے لے کر عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک منشائے ایزدی کے کئی پہلو انسانی زندگی پر واہ ہوتے ہیں۔

رجب کی ستائیسویں شب کی فضیلت

رجب میں ایک رات ہے کہ اس میں نیک عمل کرنے والوں کو سو برس کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے جو اس میں بارہ رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی سی ایک سور ت اور ہر دو رکعت  میں تشہد اور قنوت  پڑھے-بارہ رکعتیں پوری ہونے پر 100 مرتبہ سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر، استغفار سو بار، درود شریف سو بار پڑھے اور پھر دنیا و آخرت سے جس چیز کی چاہے دعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کی سب دعائیں قبول فرمائے گا۔ سوائے اس دعا کے جو گناہ کے لئے ہو۔

رجب کا خصوصی وظیفہ

 روزانہ 1200 مرتبہ الله الصمد پڑھنا چاہئے۔    

پیر، 5 فروری، 2024

لقوہ ہونے کے اسباب کیا ہیں، اس کا علاج کیسے ممکن ہے


 

لقوہ یا چھوٹا فالج جسے انگریزی میں ’بیلز پالسی‘ کہا جاتا ہے، اس بیماری میں آدھا چہرہ بے جان ہوجاتا ہے متاثرہ شخص درست انداز میں کھانے، پینے اور گفتگو سے محروم ہوجاتا ہے۔یہ مرض انسان کو کب کیسے اور کیوں لاحق ہوتا ہے؟ لقوہ یا بیلز چہرے کے پٹھوں کی کمزوری یا فالج کی ایک چھوٹی شکل ہے، یہ عمر کے کسی بھی حصے میں اچانک حملہ آور ہوتا ہے اور 48 گھنٹوں کے دوران بگڑ جاتا ہے، خاص طور پر موسم سرما میں۔س کی بہت سی وجوہات اور علامات ہوتی ہیں، لیکن بعض اوقات ان علامات کو پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم 60 سال بعد اس بیماری کے ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں  کا کہنا تھا کہ بعض افراد میں ’بیلز پالسی‘ کی علامات کئی ہفتے قبل نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں لیکن ان علامات کو پہچاننا بہت مشکل ہوتا ہے۔

 

 عام طور پر یہ بیماری چہرے کے ایک طرف کو متاثر کرتی ہے اور متاثرہ شخص کئی ہفتوں تک درست انداز میں کھانے، پینے اور بات کرنے سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ڈاکٹر ز کا کہنا ہےکہ اگرچہ ’بیلز پالسی‘ اعصاب کے انفیکشن کی وجہ سے ہوتی ہے تاہم ڈپریشن، ہائی بلڈ پریشر، شوگر کے امراض بھی اس کا سبب بن سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس بیماری سے دماغ کو خون کی ترسیل متاثر نہیں ہوتی بلکہ دماغ سے چہرے کی طرف جانے والی ایک نس کو خون کی ترسیل متاثر ہوتی ہے۔اس بیماری کے علاج سے متعلق انہوں نے بتایا کہ متاثرہ شخص کو اینٹی وائرل اور اسٹیرائڈ ادویات دی جاتی ہیں اور پر قابو پانے میں کم از کم تین ماہ کا وقت لگ جاتا ہے، تاہم زیادہ تر افراد پر ادویات کے کوئی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے، اس کیلئے چہرے کی خاص قسم کی ورزش کی ضروری ہے-

لقوہ کی وجہ سے انسان اپنے چہرے کو حرکت دینے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے مسکرانے اور چہرے کی دیگر حرکات متاثر ہوتی ہیں۔ لقوہ کی وجہ سے انسان اپنے جذبات و خیالات دوسروں تک منتقل نہیں کرسکتا۔ عموما چہرے کے ایک طرف لقوہ ہوتا ہے جس سے اس کی حرکت بند ہو جاتی ہے۔چہرے کی جلد، آنکھوں، گال اور منہ کے گرد کھسک کر جمع ہوجاتی ہے اورعضلات کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔بعض اوقات لوگ اپنے چہرے کے پٹھوں میں کھچاؤ محسوس کرتے ہیں۔ انسان اپنی پلکیں بند کرنے سے -قاصر ہوتا ہے۔لقوہ ہونے کے اسباب۔لقوہ ہونے کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں۔لقوہ اعصاب میں جلن، کان میں انفیکشن یا دیگر سوزش کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔لقوہ ہونے کی صورت میں جہاں متاثرہ جگہ کی تیل سے مالش کریں وہی اینٹی بائیٹک دوائیں استعمال کریں  کچھ لوگوں میں یہ نامیاتی طور پر ہوتا ہے، جس سے عضلات حرکت کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور لقوہ ہو جاتا ہے۔اس کی سب سے عام وجہ آدھے چہرے کا مفلوج ہو جانا ہوتا ہے۔ عموما یہ اچانک ہوتا ہے اور چہرے کا صرف ایک حصہ متاثر ہوتا ہے۔فالج کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نروس سسٹم  جو ہمارے  برین سے نکلتے ہیں۔ اور ہمارے پورے جسم کو میسیج پہنچاتے ہیں۔ مگر جب ہمارے اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں۔ تو یہ اپنا پیغام اس آرگن تک پہنچا نہیں پاتے جس کی وجہ سے وہ عضو کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

ہائی بلڈپریشر مرگی رعشہ اختناق الرحم، چوٹ ضرب اور سردی لگنے سے مرض فالج لقوہ پیدا ہو جاتے ہیں- اور ایسے افراد جن کے بدن میں بلغم کی زیادتی ہوتی ہے۔ ان امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عورتوں میں حیض کی خرابی سے بھی ہو جاتا ہے۔ اب یہ اعصاب کمزور کیوں ہوتے ہیں؟اس کی سب سے بڑی وجہ آپ کا خون گاڑھا ہونا ہے۔ جب خون آپ کا گاڑھا ہوجاتا ہے تو خون نالیوں میں پروپر درست سرکولیشن ہونی چاہیے۔ویسے سرکولیٹ نہیں کر پاتا۔ جب خون گاڑھا ہوجاتا ہے تو ہمارے نروس سسٹم میں مسئلہ ہوجاتا ہے۔ ان نروس سسٹم میں مسئلے کی وجہ سے جسم میں میسیج صیحح طریقے سے نہیں پہنچ سکتا ۔اس اعصابی کمزوری کی وجہ سے فالج ہوتا ہے۔ اگر کسی کو فالج کی بیماری ہے ۔ اگر کسی کے والدین میں سے کسی ایک کو ہے۔ 

اس کی وجہ چہرے کے اعصاب میں سوجن ہوتی ہے جو عارضی طور پر اس کے خون کے بہاؤ کو روک دیتی ہے۔ چہرے  کا فالج عام طور پر ایک سال کے عرصہ میں ٹھیک ہوجاتا ہے۔لقوہ کا علاج -ڈاکٹر  لقوہ کے علاج کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں اس  کے علاج کا زیادہ تر انحصار کارٹیسون پر ہوتا ہے۔ یہ مرض کے چار سے پانچ  دن بعد تجویز کیا جاتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ مریض کو اپنی آنکھ کی خاص حفاظت کرنی چاہیے کیونکہ وہ اس بیماری میں آنکھ بند یا کھولنے پر قادر نہیں ہوتا۔ اس میں چند ہفتوں یا مہینوں میں بہتری آتی ہے۔ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ کسی ٹھنڈی جگہ سے ایک دم گرم جگہ منتقل  نہ ہوں۔ اسی طرح اس کے برعکس بھی نہ کریں تاکہ چہرے کے اعصاب میں سوجن نہ ہو۔لقوہ ہونے کی صورت میں جہاں متاثرہ جگہ کی تیل سے مالش کریں وہی اینٹی بائیٹک دوائیں استعمال کریں اور وٹامن بی 12 کی مقدار میں اضافہ کر دیںدیر ہضم ثقیل اور نفخ پیدا کرنے والی چیزوں سے پرہیز کرنا لازمی ہے۔سرد ٹھنڈی ہوا سے بچنا ضروری ہے۔ مفلوج کے لئے پرہیز سرد اور ترش اشیاء کھانے پینے سے پرہیز اور سرد پانی سے نہانے سے پرہیز-  گوبھی آلو اروی دال ماش   ٹھنڈی چیزیں برف ٹھنڈا پانی، کولڈڈرنک مشروبات لسی دہی وغیرہ ہرگز استعمال نہ کریں۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر