ہفتہ، 8 نومبر، 2025

فرزند نبی (ص) امام چہارم علی زین العابدین علیہ السلام

 

                                      خاندان  بنو ہاشم میں  آپ کی ولادت باسعادت    کی بہت خوشی منائ گئ   بعد ازولادت آپ کو پاکیزہ پارچوں میں لپیٹ کر مولا حسین کی آغوش مبارک  میں دیا گیا مولا حسین آپ کو  مسجد نبوی میں لے کر آئے اور محراب عبادت میں دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی  اور اللہ تعالیٰ سے گویا ہوئے یا رب العزت یہ تیری اما نت ہے تجھے واپس کرنے آیا ہوں  اور سید سجاد کو محراب عبادت میں چھوڑ کر خود واپس آ گئے - مولائے کائنات  نے فرزندکو خالی ہاتھ آتا دیکھا تو پوچھا نومولو  د  کہاں ہے؟ مولا حسین نے  بتایا کہ محراب عبادت میں چھوڑ  آیا ہوں   پس راوی  کہتا ہے مولائے کائنات  فوراً مسجد نبوی میں تشریف لائے اور سید سجاد کو اپنے بازوؤں لے کر  بیت الشرف لے آئے  شیخ  مفیدسے روایت کے مطابق حضرت امام علی ابن ابیطالب  نے اپنے دور خلافت میں حریث بن جابر حنفی کو مشرق زمین میں ایک علاقے کا حاکم قرار دیا اور اس نے اپنے دور حکومت میں ایران کے شہنشاہ یزد گردسوم کی دو بیٹیوں کو حضرت  علی علیہ السلام کے پاس بھیج دیا


 امام علی نے ایک بیٹی شھربانوکو امام حسین کے نکاح میں دیا جن سے امام سجادپیدا ہوے اور دوسری کو محمد بن ابی بکر کے نکاح میں دیا جس سے قاسم بن محمد پیدا ہوئے اور اس اعتبار سے امام سجاد  اور قاسم بن محمد بن ابی بکر آپس میں خالہ زاد بھائی تھے ـ -امام سجاد علیہ السلام کے القاب     آپ کے القاب اچھائیوں کی حکایت کرتے ہیں، آپ اچھے صفات ، مکارم اخلاق،عظیم طاعت اور اللہ کی عبادت جیسے اچھے اوصاف سے متصف تھے،    زین العابدین کثرت عبادت کی وجہ سے آپ کو اس لقب سے نوازا گیا ، آپ اس لقب سے معروف ہوئے اور اتنے مشہور ہوئے کہ یہ آپ کا اسم مبارک ہو گیا ،آپ کے علاوہ یہ لقب کسی اور کا نہیں تھا اور حق بات یہ ہے کہ آپ ہرعابد کے لئے زینت اور  اللہ کے مطیع کے لئے مایۂ فخر تھے۔ سید العابدین :آ پ کے مشہور و معروف القاب میں سے ایک "سید العابدین " ہے ، چونکہ آپ  اطاعت کے مظہر تھے ، آپ کے جد امیرالمومنین کے علاوہ کسی نے بھی آپ کے مثل عبادت نہیں کی ہے - ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : "میرے پدر بزرگوار کے اعضاء سجدہ پر ابھرے ہوئے نشانات تھے ، جو ایک سال میں دو مرتبہ کا ٹے جاتے تھے اور ہر مرتبہ میں پانچ گٹّے کاٹے جاتے تھے، اسی لئے آپ کو ذواالثفنات کے لقب سے یاد کیا گیا " 


- سجادآپ کے القاب شریفہ میں سے ایک مشہور لقب "سجاد " ہے یہ لقب آپ کو بہت زیادہ سجدہ کرنے کی وجہ سے دیا گیا ، آپ لوگوں میں سب سے زیادہ سجدے اور اللہ کی اطاعت کرنے والے تھے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کے بہت زیادہ سجدوں کو یوں بیان فرمایا ہے :بیشک علی بن الحسین جب بھی خود پر خدا کی کسی نعمت کا تذکرہ فرماتے تو سجدہ کرتے تھے، آپ قرآن کریم کی ہر سجدہ والی آیت کی تلاوت کرنے کے بعد سجدہ کرتے ، جب بھی خداوند عالم آپ سے کسی ایسی برائی کو دور کرتا تھا جس سے آپ خوفزدہ ہوتے تھے تو سجدہ کرتے ،آپ ہر واجب نماز سے فارغ ہونے کے بعد سجدہ کرتے اور آپ کے تمام اعضاء سجود پر سجدوں کے نشانات مو جود تھے لہٰذا آپ کو اس لقب سے یاد کیا گیا "زکی -آپ کو زکی کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کیونکہ آپ کو خداوند عالم نے ہر رجس سے پاک و پاکیزہ قرار دیا ہے جس طرح آپ کے آباء و اجداد جن کواللہ نے ہر طرح کے رجس کو دور رکھا اور ایساپاک و پاکیزہ رکھا جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔آپ       کے القاب میں سے ایک معروف لقب "امین " - ابن الخیرتین کے مشہور القاب میں سے ایک لقب "الخیرتین " ہے، آپ کی اس لقب کے ذریعہ عزت کی جاتی تھی آپ فرماتے ہیں : "انا ابن الخیرتین " ،اس جملہ کے ذریعہ آپ اپنے جد رسول اسلام ۖ کے اس قول کی طرف اشارہ فرماتے : "اللّٰہ تعالیٰ من عبادہ خیرتان،فخیرتہ من العربھاشم،ومن العجم فارس " ۔


امام علی زین العابدین             علیہ السلام                             کی کنیت :ابو محمد ،ابوالحسن ، اور ایک قول کے مطابق ابو القاسم ہیں  ، شایان ذکر ہے کہ امام حسین                             علیہ السلام      کی نسل امام زین العابدین                            علیہ السلام سے آگے بڑھی ہے اور حسینی سادات کا سلسلہ نسب امام علی زین العابدین                     علیہ السلام سے شروع ہوتا ہے ـ-امام زین العابدین  امیرالمومنین علی ابن ابیطالب                            علیہ السلام      منصف ترین اور شایستہ ترین اسلامی حاکم تھے اور امام حسن مجتبی کے مختصر دور خلافت کہ جس میں امیر المومنین علی                                    علیہ السلام              کے مانند اسلامی حکومت کو چھوڑ کر باقی تمام حاکموں کی طرف سے مصائب اور شداید سے دوچار رہے ، خاص کر یزید بن معاویہ کی طرف سے انتہا ئ  مظالم جھیلے ـ یزید بن معاویہ نے اپنے دور حکومت میں امام حسین                                 علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو کربلا میں شھید کیا اور حضرت کے پسماندگان از جملہ امام زین العابدین کواسیر کیا  اور ابدی لعنت میں گرفتار ہوا                   ـامام زین العابدین  شھادت امام حسین  کے بعد منصب امامت پر فائز ہوے اور 35 سال اس فریضہ الہی کو انجام دیتے رہے اور آخر کار محرم سن 95 ھ کو ولید بن عبد الملک کے ذریعے زہر سے  شھید ہوے اور جنت البقیع میں امام حسن مجتبی  کے جوار میں دفن ہیں ـ

انٹر نیٹ سے استفا دے کے ساتھ مضمون لکھا گیا

جمعہ، 7 نومبر، 2025

استاد قمر جلالوی 'شہرہء آفاق شاعر

 دو شاعری کی دنیا کا کون سا فرد ہو گا جو اس نام سے ناواقف ہو گا  اور حیران کن بات یہ ہے کہ شہرہء آفاق شا  عر قمر جلالوی نے کسی  اسکول یا کالج میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی بس ان کی تعلیم فا رسی اور اردو میں  گھر کی حد تک محدود رہی تھی ۔لیکن  انہوں نے دنیا کا مطالعہ کیا تھا، سماج کی ٹھوکریں کھائی تھیں اور اس سے ہی سبق حاصل کیا تھا۔ پھر اسی سبق کو انہوں نے اپنی شاعری میں دہرایا۔ اس لیے ان کی شاعری اکتسابی اور    فطری  ہے۔ انہوں نے جو کچھ کہا ہے دل سے کہا ہے حالانکہ اس کا مقصد نام و نمود نہیں تھا۔ شاید اسی لیے انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے کلام کی اشاعت کی جانب کوئی توجہ نہیں کی۔قمر جلالوی کی پیدائش 1887ء میں علی گڑھ کے قریب ایک تہذیبی قصبہ جلالی میں ہوئی تھی اور انہوں نے آٹھ سال کی عمر سے ہی اشعار موزوں کرنے شروع کردیے تھے۔ ان کی آواز میں غضب کا درد اور کرب تھا، اور ترنم بھی اچھا تھا جس کی وجہ سے سامعین ان کے کلام سے متاثر ہو تے تھے۔

   

برصغیر کے مشہور زمانہ شاعر قمر جلالوی نے  صرف آٹھ برس کی عمر سے شاعری شروع کی اور 24سا ل کی عمر میں ہی انہوں نے بہت سے نوخیز شعرا کو اصلاح دینی شروع کر دی تھی۔ تقسیمِ ملک کے بعد وہ پاکستان چلے گئے لیکن وہاں بھی ان کے معاشی حالات ویسے ہی رہے البتہ جب علامہ رشید ترابی کو معلوم ہوا  کہ قمر جلالوی جیسا باکمال شاعر بے روزگار ہے تو انہوں نے ان کو بلا کر اپنے پاس رکھا اور پاکستانی حکومت سے ان کا وظیفہ مقرر کروایا۔اپنی قادر الکلامی کے سبب وہ 30 برس کی عمر میں ہی استاد قمر جلالوی کہے جانے لگے تھے۔ یہاں تک کہ یہ لفظ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ انہوں نے بہت سے شعرا کے کلام پر اصلاح دی لیکن اپنے کلام کی اشاعت سے بے نیاز رہے۔ وہ بہت خوددار طبیعت کے مالک تھے اس لیے کبھی انہو ں نے کسی کے سامنے دامنِ طلب دراز نہیں کیا اور شاید یہی وجہ رہی کہ ان کی زندگی میں ان کے مجموعہٴ کلام کی اشاعت تک نہیں ہو سکی۔   ان کا کلام ’رشک قمر‘، ’اوجِ قمر‘ اور ’تجلیاتِ قمر‘ کے عنوان سے ان کی وفات  کے بعد ان کی صاحبزادی کنیز جلالوی نے  شائع  کروایا ۔


  استاد قمر جلالوی کو مرثیہ نگاری میں بھی کمال حاصل تھا انہوں نے خاصی تعداد میں نوحے اور مراثی لکھے ہیں۔ جنہیں ”غم جاوداں“ کے عنوان سے ان کی صاحبزادی نے  شائع کیا۔قمرجلالوی کو زبان پر بلا کی دسترس حاصل تھی۔ ان کے اشعار سہل ہیں جن میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں ہے اور سامع کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ اسی سادگی کی وجہ سے قمر کے کلام کو ایسی زبردست مقبولیت حاصل ہوئی کہ ہندو پاک کا شاید ہی کوئی ا یسا نامور گلوکار اور گلوکارہ ہو جس نے ان کے کلام کو اپنی آواز نہ دی ہو۔ بلکہ ان کی کچھ غزلوں کو پاکستان کے کئی گلو کاروں اور قوالوں نے صدا بند کیا ہے۔ ۔قیام پاکستان کے بعد استاد قمر جلالوی نے کراچی میں رہائش اختیار کی اور بہت جلد ہر مشاعرے کا جزولازمی بن گئے۔ وہ اپنے مخصوص ترنم اور سلاست کلام کی وجہ سے ہر مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے۔ 


جہاں ان کے کلام میں دہلی اور لکھنو‘ دونوں مکاتب شاعری کی چاشنی‘ شوخی اور لطافت نظر آتی تھی۔ وہیں  وہ عاشقانہ غزلیات  سے ہٹ کر انتہائ پائے کے مرثیے‘ سلام‘ منقبت اور رباعیات بھی کہتے تھے اور  یہاں بھی  کربلا کے درد میں ڈوبی ہوئ شاعری  ان کے قلم کی زینت بن جاتی تھی -ان کے عارفانہ کلام  میں  کربلا کا درد رچ جاتا تھا ۔ ان کا عارفانہ کلام بھی عقیدت جاوداں کے نام سے ان کی صاحبزادی نے ہی شائع کروایا ہے وہ جب تک حیات رہے کراچی کے مشاعروں  میں اپنے ترنم سے مشاعروں کی زینت رہے 

ان کی مشہور زمانہ غزل پیش خدمت ہے

مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
مگر ذکر شامِ الم جب بھی آیا چراغِ سحَر بجھ گیا جلتے جلتے
انھیں خط میں لکھا تھا دل مضطرب ہے جواب ان کا آیا "محبت نہ کرتے
تمھیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا؟ بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے 
مجھے اپنے دل کی تو پروا نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ بچپن کی ضد ہے
کہیں پائے نازک میں موچ آ نہ جائے دلِ سخت جاں کو مسلتے مسلتے
بھلا کوئی وعدہ خلافی کی حد ہے، حساب اپنے دل میں لگا کر تو سوچو
قیامت کا دن آ گیا رفتہ رفتہ، ملاقات کا دن بدلتے بدلتے
ارادہ تھا ترکِ محبت کا لیکن فریبِ تبسّم میں پھر آ گئے ہم
ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے
بس اب صبر کر رہروِ راہِ الفت کہ تیرے مقدر میں منزل نہیں ہے
اِدھر سامنے سر پہ شام آ رہی ہے اُدھر تھک گئے پاؤں بھی چلتے چلتے
وہ مہمان میرے ہوئے بھی تو کب تک، ہوئی شمع گُل اور نہ ڈوبے ستارے
قمرؔ اس قدر ان کو جلدی تھی گھر کی کہ گھر چل دیے چاندنی ڈھلتے ڈھلتے 

استاد قمر جلالوی‘ کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کی لوح مزار پر انہی کا یہ شعر کندہ ہے:
ابھی باقی ہیں پتوں پر جلے تنکوں کی تحریریں
یہ وہ تاریخ ہے‘ بجلی گری تھی جب گلستاں پر
 تاریخ  وفات'
Oct 24,1968

نیویارک کی مئر شپ ظہران کوا مہ ممدانی اہلاً و سھلاً مرحبا

 

  امریکا میں تاریخ رقم ہوگئی ظہران ممدانی نیویارک کے پہلے مسلم اور بائیں بازو کے میئر منتخب ہوگئے ، نیویارک ، نیو جرسی اور ورجینیا میں ٹرمپ کے حامی امیدواروں کو شکست کا سامنا ،ظہران ممدانی کے سر پر نیویارک کی میئر شپ کا تاج سج گیا ، 34سالہ ممدانی گزشتہ ایک صدی کے کم عمر اور پہلے ایشیائی میئر بن گئے ،ممدانی کو 50.4 فیصد ، ان کے حریف سابق گورنر اینڈریو کومو کو 41.6 فیصد ووٹ ملے ، ٹرمپ کی حمایت بھی کوموکے کام نہ آئی جبکہ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار کرٹس سلیوا کو تقریباً 8فیصد ووٹ ملے، دنیا بھر سے ظہران ممدانی کو مبارکباد ، نیک تمناؤں کا اظہار ،امریکی ریاست ورجینیا اور نیوجرسی میں بھی ڈیموکریٹس کے دو گورنرز کامیاب ہوگئے ، یں ، ورجینیا میں ہی ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدوار غزالہ ہاشمی نائب گورنر کا الیکشن جیت گئیں ، غزالہ ہاشمی پہلی بھارتی نژاد اور پہلی مسلم نائب گورنر ہیں، ملک بھر میں ڈیموکریٹس کا مورال بلند، ریپبلکنز کیلئے خطرے کی گھنٹی بج گئی ۔





نیویارک میں اسلاموفوبیا کی کوئی گنجائش نہیں،ممدانی نے ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا غور سے سُن لیں ، کرپشن کے اس کلچر کا خاتمہ کریں گے جس نے ٹرمپ جیسے ارب پتیوں کو ٹیکس سے بچ نکلنے کی چھوٹ دی ،موروثی سیاست کو شکست دی ، نیویارک کے شہریوں نے بتادیا اب طاقت امیروں کے ہاتھ میں نہیں ، مسلمان اور ڈیموکریٹک سوشلسٹ ہیں اور اس پر معافی مانگنے کیلئے تیار نہیں ،یونینوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے ، مزدوروں کے حقوق مضبوط بنائیں گے ، آج کی رات سے نیویارک ایک مہاجر کی قیادت میں آگے بڑھے گا ۔ دوسری جانب اینڈریوکومو اور سلیوا نے شکست تسلیم کرتے ہوئے ممدانی کو مبارکباد اور تعاون کی پیشکش کردی ہے ۔دریں اثناء 34 سالہ ڈیموکریٹک سوشلسٹ نے ایک "قابل اور ہمدرد" انتظامیہ تشکیل دینے کا وعدہ کیا ہے جب کہ انہوں نے منتقلی (ٹرانزیشن) ٹیم کے رہنماؤں کا اعلان کیا ہے، جن میں اینٹی ٹرسٹ کی حامی لینا خان بھی شامل ہیں۔نو منتخب میئر نیویارک ظہران ممدانی نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں جواہر لال نہرو کے الفاظ یاد کر رہا ہوں‘، جو بھارت کے پہلے وزیر اعظم تھے۔




 انہوں نے کہا کہ ’تاریخ میں کبھی کبھار ایسا لمحہ آتا ہے جب ہم پرانے دور سے نکل کر نئے دور میں قدم رکھتے ہیں، جب ایک عہد ختم ہوتا ہے اور ایک قوم کی وہ روح، جو طویل عرصے سے دبائی گئی ہو، اپنی آواز پاتی ہے، آج رات ہم پرانے دور سے نکل کر نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں، تو آئیے اب ہم واضح اور پُراعتماد انداز میں بات کریں کہ یہ نیا دور کیا لائے گا، اور کن لوگوں کے لیے لائے گا‘۔ پُرجوش ہجوم سے خطاب میں ظہران ممدانی نے کہا کہ ’یہ وہ دور ہوگا جب نیویارک کے لوگ اپنے رہنماؤں سے بہانے نہیں بلکہ ایک جرات مندانہ وژن کی توقع رکھیں گے، کہ ہم کیا حاصل کریں گے، اس وژن کے مرکز میں زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے نمٹنے کا ایک ایسا جامع منصوبہ ہوگا جو اس شہر نے کئی دہائیوں میں نہیں دیکھا



ظہران ممدانی  کی اہلیہ دواجی ہیوسٹن، ٹیکساس میں پیدا ہوئی تھیں۔ نو سال کی عمر میں وہ دبئی چلی گئیں جس کے بعد انھوں نے قطر میں تعلیم حاصل کی۔عربی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان کے والدین شامی مسلمان ہیں جو بنیادی طور پر دمشق سے تعلق رکھتے ہیں۔کیمروں سے بڑی حد تک دور رہنے کے باوجود دواجی کے متعدد دوستوں نے ممدانی انتظامیہ میں ان کے کردار کے بارے میں قیاس آرائیوں کے حوالے سے انٹرویوز میں ان کے بارے میں بات کی ہے۔‘نیویارک پوسٹ کی خبر کے مطابق کچھ دوستوں نے کہا کہ دواجی پرجوش ہیں لیکن بڑھتی ہوئی توجہ پر جذباتی ہیں۔سی این این کے مطابق دواجی نے سپاٹ لائٹ سے دور رہنے کا انتخاب کیا یہاں تک کہ ان کے شوہر مشہور بھی ہوئے لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ پسِ پردہ ان کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔تاہم وہ ان لوگوں میں شامل تھیں جنھوں نے ممدانی کی برانڈ شناخت کو حتمی شکل دی، جس میں ان کے پیلے، نارنجی اور نیلے رنگ کی مہم کے مواد پر استعمال ہونے والے بولڈ آئیکونوگرافی اور فونٹ شامل ہیں

گھانا کی آزادی میں کوامے نکرومہ کا روشن کردار

  مارچ 1957 ء کو گولڈ کوسٹ اور برٹش ٹو گولینڈ پر مشتمل گھانا کی آزاد ریاست وجود میں آئی اور کوامے نکرومہ آزاد گھانا کے پہلے صدر منتخب ہوئے ۔ تاریخ ہمیشہ اُن انسانوں کو سنہرے الفاظ میں یاد کرتی  ہے  جو  اپنی زندگی کو اپنے جیسے   غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے   انسانوں  کے لئے نجات کا سامان بن جاتے  ہیں -جو اپنے کردار سے   ان  کو اندھیروں سے نکال کر  روشن  دن میں لے آتے ہی - ان کے کردار ان کی سوچ ،فکرو فلسفہ ہمیشہ اپنی قوم کے گرد گھومتی  نظر آتی ہے کوامہ  نکرومہ کی جدوجہد آل افریقن سمیت پوری دنیا کے مظلوم انسانوں کیلئے تھی۔ گھانا جو زرعی اجناس ، کوکو ، ناریل ، کافی ،ربر ، سونے ، ہیرے ، باکسائٹ ، نکل ، لوہے اور کئی بے شمار قسم کی  معدنیات سے مالامال سرزمین پر کئی صدیوں  تک بیرونی طاقتوں  کی غلامی میں رہا  ۔ کوامہ نکرومہ ان دنوں ایک ٹیچر تھے جو گھانا کی آزادی کے لئے میدان عمل میں اترے جنہوں نے اپنی زندگی  گھانا  کے مظلوم انسانوں کی خوشحالی اور انسانیت کی دفاع کیلئے  وقف کردی


کوامہ  نکرومہ اپنی تمام زندگی میں سامراجی طاقتوں سے غلامی کے خلاف جدوجہد کرتے رہے اور تاریخ کے صفحات  میں ہمیشہ کیلئے امر ہوگئےانہوں نے سمجھ لیاتھا  کہ اپنی قوم   کے   مظلوم لوگوں کو   نجات کامل دلوا کر چین سے بیٹھنا ہے ۔ پندرویں صدی میں پرتگیزی سامراج نے مغربی افریقہ کی سرزمین پر اپنے قدم جمانا شروع کردی اور 1471 ء میں (گولڈ کوسٹ ) گھانا پر قابض ہوگیا ۔ گھانا جو زری اجناس ، کوکو ، ناریل ، کافی ،ربر ، سونے ، ہیرے ، باکسائٹ ، نکل ، لوہے اور کئی معدنیات سے مالامال سرزمین ہے۔    یہ سرزمین  کئی صدیوں  تک گھانا کے بالا دست قوتوں کی غلامی  میں سسکیاں لیتی رہی   اس سرزمیں سے نکلنے والی معدنی دولت سے اغیا امیر ہوتے رہے اور گھانا کے عوام روٹی کو ترستے رہے ۔ کوامے نکرومہ 1909 ء میں پیدا ہوئے اس وقت گھانا سامراجی طاقتوں کے بوجھ تلے غلامی کی چکی میں پس چکا تھا ۔ نکرومہ نے ابتدائی تعلیم عکرہ کے ایک مشن اسکول میں حاصل کی 1931 ء میں   کالج سے گریجویشن کیا اور ایک اسکول ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔


 1935 ء میں نکرومہ مزید تعلیم کیلئے امریکہ چلے گئے لنکن اور پنسلوینیا یونیورسٹی میں دس سال تک تعلیم حاصل کی۔ نکرومہ نے طلبہ سیاست اور امریکہ کے سیاہ فام باشندوں کی تحریک میں بھی بھرپور حصہ لیا۔  اسی زمانے میں نکرومہ کی پہلی کتاب ’’نوآبادیات آزادی کی جانب ‘‘ شائع ہوئی ، کچھ عرصے تک لنکن یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے لیکچرار کے طور پر پڑھاتے رہے اور بعدازاں لندن چلے گئے جہاں اکنامکس یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا ، 1947ء میں نکرومہ اپنے وطن لوٹ آئے اور سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا اسی سال گھانا کے قوم پرستوں کی سیاسی جماعت ’’یونائٹیڈ گولڈ کوسٹ کنونشن ‘‘ کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے ۔ کوامے نکرومہ کی قیادت میں تحریک آزادی کی جدوجہد میں عوام کی مقبولیت میں تیزی آتی گئی ۔بھلا قابض قوتیں  یہ کیسے برداشت کر سکتی تھیں  چنانچہ نکرومہ  کو سیاسی سرگرمیوں کی پاداش میں 1948 ء میں گرفتار کرلیاگیا ۔ عوام کی بھرپور احتجاج سے ایک سال بعد جب رہا ہوئے تو  اپنے چار جانب                            نسل پرستی کا خوفناک  رجحان دیکھا 


 جب کہ کوامے نکرومہ مارکس ازم ، لینن ازم کی تعلیمات سے ہی قومی اور طبقاتی جدوجہد کو لازم و  میں ملزوم سمجھتے تھے ، یہی وجہ نکرومہ کی پارٹی  نے  گھانا کے مزدور ، کسان ، دہقان سب نکرومہ کی قیادت میں اس طرح یک جان کیا  کہ گھانا کے عوام کوامہ پر فخر کرنے لگے،1951 ء میں انگریزوں نے گھانا میں نیا آئین منظور کیا جس کے تحت عام انتخابات کا اعلان ہوا ، نکرومہ کی’’ کنونشن پیپلز پارٹی ‘‘ ان انتخابات میں ایک بڑی قوت کے ساتھ آئی اور مرکزیت میں وزارت بنائی ۔ کوامہ نکرومہ پوری دنیا میں سیاست کے حوالے سے مہا رت رکھتے تھے، اتنا ہی جنگی محاذ پر قابلیت رکھتے تھے۔ نکرومہ کی صدارت میں گھانا کی تعمیر نو اور ترقی کی راہیں پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ عام عوام کی زندگی میں تبدیلیاں آئیں ، نکرومہ کی کوششوں کی نتیجے میں دسمبر 1958 ء میں گھانا کے شہر عکرہ میں ’’ آل افریقن پیپلز کانفرنس ‘‘ منعقد کی گئی۔ جس میں افریقہ بھر سے انقلابی قائدین نے اپنے وفود کے ساتھ شرکت کی ۔ اور 1960 ء میں نکرومہ نےگھانا کو عوامی جمہوریہ قرار دیا ۔


جمعرات، 6 نومبر، 2025

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اللہ پاک سے ایک مکالمہ

    

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار اللہ تعالیٰ سے پوچھا’’ یا باری تعالیٰ انسان آپ کی نعمتوں میں سے کوئی ایک نعمت مانگے تو کیا مانگے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’صحت‘‘۔‘صحت اللہ تعالیٰ کا حقیقتاً بہت بڑا تحفہ ہے اور قدرت نے جتنی محبت اور منصوبہ بندی انسان کو صحت مند رکھنے کے لیے کی، اتنی شاید پوری کائنات بنانے کے لیے نہیں کی-‘ ہمارے جسم کے اندر ایسے ایسے نظام موجود ہیں کہ ہم جب ان پر غور کرتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے‘ ہم میں سے ہر شخص ساڑھے چار ہزار بیماریاں ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ بیماریاں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں‘ مگر ہماری قوت مدافعت‘ ہمارے جسم کے نظام ان کی ہلاکت آفرینیوں کو کنٹرول کرتے رہتے ہیں‘ مثلاہمارا منہ روزانہ ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو ہمارے دل کو کمزور کر دیتے ہیں 'مگر ہم جب تیز چلتے ہیں‘ جاگنگ کرتے ہیں یا واک کرتے ہیں تو ہمارا منہ کھل جاتا ہے‘ہم تیز تیز سانس لیتے ہیں‘یہ تیز تیز سانسیں ان جراثیم کو مار دیتی ہیں اور یوں ہمارا دل ان جراثیموں سے بچ جاتا ہے‘ مثلاًدنیا کا پہلا بائی پاس مئی 1960ء میں ہوا مگر قدرت نے اس بائی پاس میں استعمال ہونے والی نالی لاکھوں‘ کروڑوں سال قبل ہماری پنڈلی میں رکھ دی‘ یہ نالی نہ ہوتی تو شاید دل کا بائی پاس ممکن نہ ہوتا‘مثلاً ،گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن 17 جون 1950ء میں شروع ہوئی۔


 مگر قدرت نے کروڑوں سال قبل ہمارے دو گردوں کے درمیان ایسی جگہ رکھ دی جہاں تیسرا گردہ فٹ ہو جاتا ہے‘ ہماری پسلیوں میں چند انتہائی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہیں۔یہ ہڈیاں ہمیشہ فالتو سمجھی جاتی تھیں مگر آج پتہ چلا دنیا میں چند ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے نرخرے جڑے ہوتے ہیں‘ یہ بچے اس عارضے کی وجہ سے اپنی گردن سیدھی کر سکتے ہیں‘ نگل سکتے ہیں اور نہ ہی عام بچوں کی طرح بول سکتے ہیں‘ سرجنوں نے جب ان بچوں کے نرخروں اور پسلی کی فالتو ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا پسلی کی یہ فالتو ہڈیاں اور نرخرے کی ہڈی ایک جیسی ہیں چنانچہ سرجنوں نے پسلی کی چھوٹی ہڈیاں کاٹ کر حلق میں فٹ کر دیں اور یوں یہ معذور بچے نارمل زندگی گزارنے لگے‘ مثلاً ہمارا جگر جسم کا واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے ہماری انگلی کٹ جائے‘ بازو الگ ہو جائے یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ کٹ جائے تو یہ دوبارہ نہیں اگتا جب کہ جگر واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ اگ جاتا ہے‘ سائنس دان حیران تھے قدرت نے جگر میں یہ اہلیت کیوں رکھی؟ آج پتہ چلا جگر عضو رئیس ہے‘ اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں اور اس کی اس اہلیت کی وجہ سے یہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے‘ آپ دوسروں کو جگر ڈونیٹ کر سکتے ہیں'



یہ قدرت کے چند ایسے معجزے ہیں جو انسان کی عقل کو حیران کر دیتے ہیں جب کہ ہمارے بدن میں ایسے ہزاروں معجزے چھپے پڑے ہیں اور یہ معجزے ہمیں صحت مند رکھتے ہیں۔ہم روزانہ سوتے ہیں‘ ہماری نیند موت کا ٹریلر ہوتی ہے‘ انسان کی اونگھ‘ نیند‘ گہری نیند‘ بے ہوشی اور موت پانچوں ایک ہی سلسلے کے مختلف مراحل ہیں‘ ہم جب گہری نیند میں جاتے ہیں تو ہم اور موت کے درمیان صرف بے ہوشی کا ایک مرحلہ رہ جاتا ہے‘ ہم روز صبح موت کی دہلیز سے واپس آتے ہیں مگر ہمیں احساس تک نہیں ہوتا‘ صحت دنیا کی ان چند نعمتوں میں شمار ہوتی ہے یہ جب تک قائم رہتی ہے ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی۔ مگرجوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑتی ہے‘ ہمیں فوراً احساس ہوتا ہے یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی‘ ہم اگر کسی دن میز پر بیٹھ جائیں اور سر کے بالوں سے لے کر پاوں کی انگلیوں تک صحت کا تخمینہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہو گا ہم می سے ہر شخص ارب پتی ہے۔‘ ہماری پلکوں میں چند مسل ہوتے ہیں۔یہ مسل ہماری پلکوں کو اٹھاتے اور گراتے ہیں‘ اگر یہ مسل جواب دے جائیں تو انسان پلکیں نہیں کھول سکتا‘ دنیا میں اس مرض کا کوئی علاج نہیں‘ گردن کے مہروں کی خرابی انسان کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے‘ انگلیوں کے جوڑوں میں نمک جمع ہو جائے تو انسان موت کی دعائیں مانگنے لگتا ہے


دنیا کے 50 امیر ترین لوگ اس وقت اس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ صرف اپنی پلک اٹھانے کے لیے دنیا بھر کے سرجنوں اور ڈاکٹروں کو کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں‘ ہمارے کانوں میں کبوتر کے آنسو کے برابر مائع ہوتا ہے‘ یہ پارے کی قسم کا ایک لیکوڈ ہے‘ ہم اس مائع کی وجہ سے سیدھا چلتے ہیں یہ اگر ضائع ہو جائے تو ہم سمت کا تعین نہیں کر پاتے‘ ہم چلتے ہوئے چیزوں سے الجھنا اور ٹکرانا شروع کر دیتے ہیں ‘ دنیا کے سیکڑوں‘ ہزاروں امراء آنسو کے برابر اس قطرے کے لیے کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں‘لوگ صحت مند گردے کے لیے تیس چالیس لاکھ روپے دینے کے لیے تیار ہیں‘ آنکھوں کا قرنیا لاکھوں روپے میں بکتا ہے‘ دل کی قیمت لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے‘ آپ کی ایڑی میں درد ہو تو آپ اس درد سے چھٹکارے کے لیے لاکھوں روپے دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘ دنیا کے لاکھوں امیر لوگ کمر درد کا شکار ہیں۔ ‘ قبض اور بواسیر نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی مت مار دی ہے‘ دانت اور داڑھ کا درد راتوں کو بے چین بنا دیتا ہے ھے سر کا درد ہزاروں لوگوں کو پاگل بنا رہا ہے شوگر کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کی ادویات بنانے والی کمپنیاں ہر سال اربوں ڈالر کماتی ہیں اور آپ اگر خدانخواستہ کسی جلدی مرض کا شکار ہو گئے ہیں تو آپ جیب میں لاکھوں روپے ڈال کر پھریں گے مگر آپ کو شفا نہیں ملے گی  اس لئے اگر آپ  تو صحت کی دولت سے مالا مال ہیں  آ پ ہر حال میں شکر خدا بجا لایئے
 یہ بلاگ مجھے انٹرنیٹ سے ملا ہے جو میں نے حرف بہ حرف بلاگر کے شکرئے کے ساتھ دیا ہے




بدھ، 5 نومبر، 2025

ہری ونش رائے بچن ایک ہمہ صفت شاعر و ادیب

 

ہری ونش رائے بچن ہندی کے ممتاز شاعر اور بالی وڈ کے میگا سٹار امیتابھ بچن کے والد تھے۔ اتر پردیش میں الہ آباد کے قریب پرتاب نگر میں میں پیدا ہوئے۔ ان کے ماں اور باپ دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھے عہدوں پر فائز تھے  جن کے مراسم نہرو خاندان سے تھے -ہری ونش نے اعلیٰ تعلیم الہ آباد یونیورسٹی اور بنارس ہندو یونیورسٹی سے حاصل کی۔ بچّن جی سنہ 1940ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے ہندوستانی تھے۔ایک زمانے میں جب اردو کے ممتاز شاعر فراق الہ آباد یونیورسٹی کے انگریزی کے شعبے کے سربراہ تھے، بچّن جی اسی شعبے میں انگریزی ادب کے پروفیسر رہے۔ انھوں نے شیکسپیئر کے المیہ ڈراموں کا ہندی میں ترجمہ کیا تھا۔ ہندی شاعری میں ان کی طویل نظم ’مدھوشالہ‘ بہت مقبول ہے۔ہندی شاعری کے اسٹیج پر بچن کی آمد 1953ء میں صرف 28 برس کی عمر میں ہوئی۔ پہلی مرتبہ انھوں نے اسٹیج پر عمر خیام کی رباعیات کی طرز پر اپنی معرکہ آرا تصنیف "مدھو شالا" (1935ء) پیش کیا۔شراب و ساقی اور جام و مینا کے تلازمے چونکہ ہندی شاعری کے لیے یکسر نئے تھے اس لیے مدھو شالا کو ادبی دنیا میں زبردست مقبولیت، شہرت اور پزیرائی حاصل ہوئی


اور اس نئے بچن کو کم سنی ہی میں ہندی کے بڑے شاعروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ اس کے علاوہ "مدھو بالا" (1936ء) اور "مدھو کلش" (1937ء) بھی ان کی ابتدائی تخلیقات ہیں۔ بچن کا طرز تحریر، ان کی زبان کی سادگی اور قوت اظہار نے عوام میں کافی مقبولیت حاصل کی۔بچن انگریزی 1966ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں راجیہ سبھا کی رکنیت سے نوازا گیا۔ اسی سال "64 روسی کویتائیں" کتاب کے لیے سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ ملا۔ 1969ء میں "دو چٹانیں" پر ساہتیہ اکیڈمی اعزاز ملا۔سنہ 1967ء میں میں ہری ونش بچّن کو ہندی زبان کی ترویج و ترقی کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں بھارتی پارلیمان کے ایوانِ بالا کے لیے نامزد کیا گیا۔ اور دیگر 
لوگوں کی طرح انہیں بھی عمر خیام کی رباعیات نے بہت متاثر کیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس کی رباعیات کا ہندی میں ترجمہ بھی کیا، لیکن اس ترجمے کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ 



کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے رباعیات کے ہی رنگ میں مدھوشالہ لکھی، جسے خواص و عوام نے خوب پسند کیا۔ان کی تخلیق مدھوشالہ1935 ) چار چار مصرعوں کے 134 بندوں پر مشتمل ایک طویل نظم ہے جس میں انہوں نے عمر خیام کا اتباع کرتے ہوئے رندانہ زبان میں زندگی کے حقائق اور اپنا فلسفہ  بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ 1929ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے بی۔ اے پاس کیا-   1938ء میں ایم  اے مکمل کیا۔ اس درمیان میں انگریزی اخبار  میں "   ملازمت کر لی۔ یہ مصروفیت بہت تھکا دینے والی تھی بالآخر استعفی دے کر ہندی ماہنامہ "ابھیودی" کے مینجر بن گئے۔ 1941ء سے 1952ء تک الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد رہے



اور بعد میں ریسرچ کے سلسلے میں کیمبرج یونیورسٹی گئے اور وہاں سے بیٹس کی شاعری پر 1954ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ کچھ دنوں آکاش وانی میں پروڈیوسر رہے اور اس کے بعد   مقرر ہو گئے جہاں تقریباً دس برس کام کیا۔اس کے علاوہ پدم بھوشن (1976ء)، افروایشین رائٹرز کا لوئس انعام (1970ء) اور سرسوتی سمان (1992ء) سے بھی نوازا گیا۔اپنے طویل ادبی سفر میں بچن کے تقریباً 30 شعری مجموعے شائع ہوئے۔ وہ کم و بیش 47 کتابوں کے مصنف ہیں۔انھوں نے اوتھیلو اور ہملیٹ، عمر خیام کی رباعیوں اور روسی کویتاؤں کا بھی ہندی میں ترجمہ کیا۔ تذکرے لکھے، مقالے تحریر کیے۔ مذکورہ فہرست کی آخری چار کتابیں بچن کی انوکھی اور بے مثال خودنوشت ہیں۔ انھیں ہندی ادب میں میل کا پتھر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جب بچن ریسرچ کے سلسلے میں لندن میں تھے تو انھوں نے "ہرواس کی ڈائری" (1971ء) کے نام سے ایک ضخیم کتاب ترتیب دی تھی جس میں برطانیہ میں گزارے گئے ان کے ماہ و سال اور وہاں کے علمی و ادبی ماحول کی خوبصورت تصویر کشی ہے۔ یہ ہندی کی ایک انوکھی اور بے مثال خودنوشت ہے۔ جال سمٹنا (1973ء) ان کی آخری کتاب ہے۔ 18 جنوری 2003ء کو ممبئی میں ایک طویل علالت کے بعد انتقال کیا\

منگل، 4 نومبر، 2025

ڈیجیٹل کرائم -اپنے بچوں کو بچائیے

 

آج کل نئے نئے نوجوان بچوں کو امیر بنانے کا لالچ دے کر ڈیفنس/کلفٹن میں عالی شان آفس بنا کر ان کو ایک مہینے تک اس میں ٹریڈ اور کرپٹو ٹریڈنگ وغیرہ کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس ایک مہینے میں ان بچوں کو وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ وی ائی پی لنچ، وی ائی پی ڈنر، گارڈ، سہولت کار، خدمت گار، فل اے سی ہال میں رکھا جاتا ہے۔ بچوں کو گھیرنے کے لیے ان کے ایجنٹ گھومتے رہتے ہیں۔ ان کو اسٹارٹ میں ڈمی اکاؤنٹ بنا کر سکھاتے ہیں پھر جب وہ سیکھ جاتے ہیں تو ان کا بینک اکاؤنٹ اوپن کرواتے ہیں وہ بچہ تو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرتا ہے پھر اس بچے کی چیک بک سے چار یا پانچ بلینک چیک سائن کروا کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ اس کے بعد ان بچوں کے اکاؤنٹ میں ڈالر جمع کروائے جاتے ہیں اور ان کو جو ٹریڈنگ کا کام سکھایا گیا ہوتا ہے اس ٹریننگ کو استعمال کرنے کا کہا جاتا ہے کہ جتنا بھی پرافٹ ہوگا 80 فیصد مالک کا اور 20 فیصد ان بچوں کا۔اس ٹریڈنگ اکاؤنٹ کا مکمل کنٹرول مالک اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے جب تک نفع ہوتا رہتا ہے وہ اپنا نفع خود نکال لیتا ہے 


اور جب نقصان ہوتا ہے تو شروع شروع میں مالک کہتا ہے کہ کوئی بات نہیں میں اور پیسے ڈلوا دیتا ہوں کیونکہ اس کو تو اپنے نفع سے مطلب ہوتا ہے کیونکہ نقصان تو وہ بدمعاشی سے نکلوا ہی لیں گے ہم جیسے غریبوں سے۔ اگر مالک چاہتا تو اس کو وہیں روک لیتا اور مزید نقصان سے بچاتا۔ جب نقصان سے گھبرا کر کوئی بچہ کام چھوڑنے کی بات کرتا ہے تو اس کے چیک میں اپنے نقصان کی رقم لکھ کر بلکہ اس سے کہیں زیادہ رقم لکھ کر، اس چیک کو بینک میں فیل کروا کر اس چیک پر اس بچے کے خلاف ایف ائی ار درج کروا دیتا ہے۔ اس بچے کے گھر والوں کو الگ تنگ کیا جاتا ہے اور ذہنی ٹارچر کیا جاتا ہے کہ اپنا گھر بیچو اور میرا پیسہ ادا کرو۔پھر ایسے بچے یا تو خودکشیاں کرنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہتے ہیں۔ خدارا میں بھی اسی طرح کے ایک ظالم کا ستایا ہوا والد ہوں۔ یاد رکھیں کہ جب پولیس کی وین کسی شریف آدمی کے گھر کے باہر آتی ہے تو اس شریف آدمی کی آدھی موت تو وہیں ہو جاتی ہے۔


 میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا پولیس کے ساتھ کچھ سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگ بھی گھر پر آئے۔ مجھے زد و کوب کیا، تشدد کیا، میرے دوسرے بچوں کو مارا،  گھر کی عورتوں بہو بیٹیوں کو ہراساں کیا، گھر کا سارا سامان تہس نہس کر دیا۔ارباب اختیار سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ خدارا اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان بچوں کو خودکشیاں کرنے سے بچائیں اور ان کے والدین کو اس ذہنی اذیت سے بچائیں اور اس غیر قانونی ٹریڈنگ کا کام کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لائیں۔ ان شاء الله جن ارباب اختیار نے اس کار خیر میں حصہ لیا میرا ایمان ہے کہ وہ دنیا و آخرت میں ضرور سرخرو ہوں گے۔ اگر کسی کے دل میں تھوڑی سی بھی ہمدردی ہو تو وہ اپنے نوجوان بچوں کی نگرانی بھی کریں اور اگر خدانخواستہ کوئی بچہ ان غلط لوگوں کے ہاتھوں پھنس چکا ہے تو اس کی مدد بھی کریں 
اور اس پوسٹ کو آگے شیئر کر کے دوسرے مظلوم والدین کی بھی دعاؤں کے حقدار بنیں


 ۔اب میں آپ کو آج کل کے ڈیجیٹل کرائم کا ایک اور تاریک پہلو بتانے جا رہی ہوں خوب لش پش آفس بنا کرسادہ لوح نوجوانوں کو راغب کیا جاتا ہے کہیں پر یہ آفس پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے شو کرتے ہیں-کسی بھی نام سے جعلی ہاؤسنگ سوسائیٹی شو کر کے اس میں بکنے والے  پلاٹوں کی  جعلی  فائلیں بنا کر آفس میں رکھ دی جاتی ہیں  نوجوانوں کو چیک بکس  بھی دی جاتی ہیں  اورچیک بک کا اختیار اپنے پاس رکھا جاتا ہے'گلشن اقبال کے پوش علاقے میں  ایسا ہی ایک آفس بنا کر پلاٹوں کے نام پر جب بزنس شروع کیا گیا -کاراوبار آگے بڑھا اور اور لگ بھگ 45 لاکھ کی رقم کچھ فائلوں کی فروخت کے زریعہ آ گئ تب ایک شخص نے کہا مجھے پلاٹ دکھایا جائے  اس شخص کو جو جگہ بتائ گئ وہ کسی اور سوسائٹی کی  فروخت شدہ زمین تھی جب فراڈ پکڑا گیا  تو سارے فراڈئے فرار ہوگئے اور لوگوں نے   اس معصوم نوجوان کو پکڑا کہ ہمارے پیسے واپس کرو -اس نوجوان کے والدین نے اپنے بیٹے کی جان بچانے کو قرض دینے والی ایجنسی سے قرضہ لے کر قرضہ واپس کیا جو یہ قرضہ 2029 ء تک ادا کرتے رہیں گے  اس لئے اپنے نوجوان بچوں کی حفاظت کیجئے  -معصوم  نوجوان ان کے جھانسے میں آ کر  ان کے قیدی بن جاتے ہیں 

پیر، 3 نومبر، 2025

منجھلی آپا کے ہاتھوں میں جڑاؤ کنگن بھی نہیں تھے

 

اب    میں نے دیکھا منجھلی آپا ہر وقت امّاں کے نشانے پر رہتی تھیں ،اور بس امّاں کی زبان پر ایک جملہ ہوتا پرائے گھر جانا ہے اپنی عادتیں سدھارلو،منجھلی آپا بھی اپنی جگہ اچھّی تھیں لیکن ان کی زبان پر امّاں کی ہربات کا جواب موجود ہوتا تھا جس سے امّا ں بہت ناراض ہوتی تھیں اورمنجھلی آپا کو صبر کی تلقین کا سبق بھی پڑھاتی رہتی تھیں اور بالآخر بڑی آپا کے  محض چھ مہینے  بعد منجھلی آ پا بھی گھر سے رخصت ہو کرسدھار گئیں ،مہندی مایوں سے لے کر رخصت کی گھڑی تک منجھلی آپاکی آنکھو ں سے آنسو کا ایک قطرہ بھی گھر میں کسی  نے ٹپکتے نہیں دیکھا،،یہاں تک کہ جب ابّا نے آگے بڑھ کر ان کو رخصت کرنے کو گلے لگا یا تب بھی وہ سرجھکائےہوئے ابّا کے سینے سے جا لگیں لیکن روئیں پھر بھی نہیں اس وقت ابّاکاچہرہ شدّتِ جذبات سے سرخ ہو گیا تھا اور منجھلی آپا اپنے قدموں پرجھول سی گئیں تھین پھر کسی کی آواز آئ جلدی کرو دلہن بے ہوش ہو جائے گی  اور ان کو بہکتے قدموں پر چلاتے ہوئے دولہا کی سجی ہوئ گاڑی میں بٹھا دیاگیا تھا  ،




ناجا نے ان کو ہو کیا  گیاتھا کہ ان کے دلہناپے کو سکوت تھا اور وہ اسی طرح ساکت ہی رخصت ہو گئںلیکن میرے لئے اچنبھے کی بات تھی کہ اگلے دن بڑے بھیّا رسم کے مطابق منجھلی آپا کوسسرال جاکر لے آئے تھے لیکن  انکے ساتھ ان کے دولہا رفاقت بھائ بھی نہیں آئےتھے  میں نے سب سے پہلے منجھلی آپ کی کلائیاں دیکھیں شائد میری نظریں  ان کے ہاتھوں میں بھی جڑاؤ کنگن تلاش کر رہے تھے 'میرے خیال میں ہر دولہا شادی کے بعد اپنی دلہن کو جڑاؤ کنگن پہناتا  ہےلیکن ان کے ہاتھوں میں جڑاؤ کنگن نہیں تھے اور وہ بڑی آپا کی طرح خوش    نہیں تھیں بلکہ آنسو انکی آنکھوں میں چھلکے چھلکے آرہے تھے امّا ں بیٹی کے پر ملال چہرے پر نظر ڈال کر کچھ چونکیں تو ضرور تھیں لیکن انہوں نے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا نا ہی کچھ پوچھ کر ان کو کچھ کہنے کا حوصلہ دیاتھا


اور پھر شادی کے صرف چند ہفتوں بعد منجھلی آپا امّاں کے سامنے بیٹھی رو رو کر کہ رہی تھیں امّا ں آپ نے مجھ کو یہ کیسی سسرال بھیج دیا جس کو گھر نہیں جہنّم کہنا زیادہ بہتر ہےاور شوہر ایسا ہے جو اپنی امّاں کے پلّو سے بندھا پھرتا ہے'یہ کام کرنا ہے تو جواب ملتا اما ں سے پوچھ لو جو بات کروامّاں سے پوچھ لو ،جو کام کہو امّاں راضی نہیں ہو ں گی ,,جب اسے اپنی امّاں کے پہلو سے لگ کر بیٹھنا اتنا ہی پسند تھا تو پھر شادی کی کیا ضرورت تھی  او رامّاں کی آوازایک دھاڑکی شکل میں سنائ دی ،بس اب ایک لفظ جو منہ سے نکالامگر منجھلی آپا کے اوپر امّاں دھاڑ بھی بے اثر رہی اور وہ رو رو کر بتاتی رہیں


   وہ بتا رہی تھیں کہ ان کی ساس  کس طرح گھر کے سارے کام کرواتی ہیں اور کھانا پکاکر سب سے آخر میں کھانا کھانے دستر خوان پر بیٹھتی ہیں تب ان کی ساس منجھلی آپا کے کھانا کھائے بغیر ہی دستر خوان سمیٹ دیتی ہیں،منجھلی آپا نے یہ بھی بتایا کہ ان کو طبیعت کی خرابی میں بھی ڈاکٹر کےپاس جانے کی اجازت نہیں ہے ،اور رفاقت کا کہتے ہیں کہ ہماری ماں کے حکم کے مطابق ہی گھر چل رہا ہے اب اگر تم کو کوئ اعتراض ہے تو تم میکے جا سکتی ہو 



 

اتوار، 2 نومبر، 2025

چنیوٹ کی تاریخی تعزیہ داری کی تاریخ

 


  حضرت امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا سے محبت و عقیدت میں بنائے گئے چنیوٹ کے ماہر کاریگروں کے ہاتھوں لکڑی کے خوبصورت تعزیہ جات دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہیں، جن کی بناوٹ اور خوبصورت کا کوئی ثانی نہیں۔ لفظ 'تعزیہ' اعزا سے نکلا ہے۔ ، چونکہ امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام نے واقعہ کربلا میں صبر کی انتہا کی۔ چنیوٹ کے ماہر کاریگروں نے امام عالی مقام کو جنت میں ملنے والے محل کا خیالی ماڈل بنایا ہے۔ تعزیے کے پیڈسٹل یعنی تخت پر گلاب، سوسن اورانگوروں کی بیل کی منبت کاری کر کے کاریگروں نے شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ تعزیہ کے تخت پر بنہ جات ڈیزائن کیے گئے ہیں اور ہر کونے پر بنہ میں 5 گنبد ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔  یہ 5 گنبد پنجتن کو ظاہر کرتے ہیں۔ تعزیہ کی ہر منزل کو کاریگروں نے 2 حصوں میں ڈیزائن کیا ہے جو 6 آسمانوں کو تشبہہ دیتے ہیں۔ درمیان والا حصہ برآمدہ اور دائیں بائیں حصے متن کہلاتے ہیں۔ تعزیے کی ہرمنزل میں بالکونیاں، دروازہ جات اور کھڑکیوں کو بڑے خوبصورت انداز میں سجایا جاتا ہے۔


 پالکی میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی رہائشگاہ دکھائی گئی ہے۔ پالکی کا پہلا گنبد سبز اور دوسرا سرخ رنگ کا ہوتا ہے۔ سبز حسنی جبکہ سرخ حسینی رنگ ہے۔ تعزیہ کا بالائی گنبد پالکی پر نصب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے تعزیہ کے  کاریگر کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے شہدائے کربلا سے محبت اور عقیدت میں دیار کی لکڑی پر منبت کر کے بارہ منازل پر مشتمل تعزیہ جات بنائے ہیں اور ان تعزیہ جات کو دیکھ کر واقعہ کربلا کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ ہر سال نویں اور دسویں محرم کو یہ تعزیہ جات نکالے جاتے ہیں۔  چنیوٹ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ ہر سال نویں اور دسویں محرم الحرام کو چنیوٹ کے مختلف علاقوں سے یہ تعزیہ جات اپنے مقررہ راستوں سے نکالے جاتے ہیں اور ہم شہدائے کربلا کی یاد کو تازہ اور ان سے عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے ان تعزیوں کو اٹھاتے ہیں اور میدان ترکھاناں میں عزاداری اور پرسہ دیا جاتا ہے۔


 چنیوٹ کے ماہر کاریگروں کے ہاتھوں سے تراشیدہ یہ تعزیہ جات امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا سے محبت اور عقیدت کا منفرد انداز ہیں جو واقعہ کربلا کی یاد کو تازہ کرتے ہیں-سفید تعزیہ۔ شہر میں بے شمار سفید تعزیے نکلتے تھے۔ دو تعزیے اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ ان دونوں تعزیوں کے تختوں اور مونڈھوں پر مختلف رنگوں کے تال میل سے ابرق کے پتر پر دیدہ زیب قلم کاری ہوتی تھی جو رات کے وقت جگمگ جگمگ کر کے آنکھوں میں چکا چوند پیدا کرتی تھی۔شاگرد کا تعزیہ تیار کرنے والے ہنرمند کا نام اِلہی بخش بتایا جاتا ہے الہی بخش کے دل میں  اپنے استاد کا تعزیہ  بناتے بناتے عشق امام عالی مقام جو جاگا تو اس نے اپنا بھی ایک تعزیہ بنانے کی ٹھان لی  کیونکہ  الٰہی بخش  استاد کا تعزیہ بنانے والے گروہ کا حصہ تھے جو دن کو استاد کے پاس کام کرتا تھا اور رات میں ایک خفیہ جگہ اپنا الگ تعزیہ بنانے مشغول رہا۔  اور 1854ء میں اسے مکمل کردیا۔  شاگرد کا تعزیہ 32 فٹ لمبا تھا۔  شاگرد کا تعزیہ اٹھانے کے لئے 200 افراد درکار ہوتے ہیں۔



 ہر سال دس محرم کواستاد کا تعزیہ ملتان میں محلّہ پیر قاضی جلال اندرون پاک گیٹ سے جبکہ شاگرد کا تعزیہ خونی برج ملتان سے برآمد ہوتا ہے۔استاد کا تعزیہ جلوس کے آگے اور شاگرد کا تعزیہ جلوس کے پیچھے رکھا جاتا ہے۔استاد اور شاگرد دونوں کے تعزیہ کا لائسنس سنّی بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کےنام ہے-ملتان میں دو تعزیے استاد اور شاگرد کے تعزئے سے مشہور ہیں۔ استاد اور شاگرد دونوں کا تعلق سنی مذہب سے تھا۔ استاد کا نام پیر بخش بتایا جاتا ہے۔ لکڑی پر کندہ کاری اور چوب کاری کے ماہر اُستاد پیر بخش نے حضرت امام حسین سے عقیدت کے اظہار کے لیے 1812ء میں بنانا شروع کیا اور 22 ساتھیوں کی مدد سے 13 سال کے عرصے میں 1825ء میں مکمل ہوئی۔ استاد کا تعزیہ 27 فٹ لمبا، 8 فٹ چوڑا اور سات منزلوں پر مشتمل ہے۔ ہر منزل کئی چھوٹے بڑے ساگوان کی لکڑی کے ایسے ٹکڑوں سے بنی ہے جو مِنی ایچر محرابوں، جھروکوں، گنبدوں اور میناروں پر مشتمل ہوتے ہیں اور اسے بنانے میں کوئی میخ استعمال نہیں ہوئی۔ یہ تعزیہ آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ اس کو 150 افراد اٹھاتے ہیں   

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر