Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
ہفتہ، 8 نومبر، 2025
فرزند نبی (ص) امام چہارم علی زین العابدین علیہ السلام
جمعہ، 7 نومبر، 2025
استاد قمر جلالوی 'شہرہء آفاق شاعر
دو شاعری کی دنیا کا کون سا فرد ہو گا جو اس نام سے ناواقف ہو گا اور حیران کن بات یہ ہے کہ شہرہء آفاق شا عر قمر جلالوی نے کسی اسکول یا کالج میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی بس ان کی تعلیم فا رسی اور اردو میں گھر کی حد تک محدود رہی تھی ۔لیکن انہوں نے دنیا کا مطالعہ کیا تھا، سماج کی ٹھوکریں کھائی تھیں اور اس سے ہی سبق حاصل کیا تھا۔ پھر اسی سبق کو انہوں نے اپنی شاعری میں دہرایا۔ اس لیے ان کی شاعری اکتسابی اور فطری ہے۔ انہوں نے جو کچھ کہا ہے دل سے کہا ہے حالانکہ اس کا مقصد نام و نمود نہیں تھا۔ شاید اسی لیے انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے کلام کی اشاعت کی جانب کوئی توجہ نہیں کی۔قمر جلالوی کی پیدائش 1887ء میں علی گڑھ کے قریب ایک تہذیبی قصبہ جلالی میں ہوئی تھی اور انہوں نے آٹھ سال کی عمر سے ہی اشعار موزوں کرنے شروع کردیے تھے۔ ان کی آواز میں غضب کا درد اور کرب تھا، اور ترنم بھی اچھا تھا جس کی وجہ سے سامعین ان کے کلام سے متاثر ہو تے تھے۔
نیویارک کی مئر شپ ظہران کوا مہ ممدانی اہلاً و سھلاً مرحبا
گھانا کی آزادی میں کوامے نکرومہ کا روشن کردار
مارچ 1957 ء کو گولڈ کوسٹ اور برٹش ٹو گولینڈ پر مشتمل گھانا کی آزاد ریاست وجود میں آئی اور کوامے نکرومہ آزاد گھانا کے پہلے صدر منتخب ہوئے ۔ تاریخ ہمیشہ اُن انسانوں کو سنہرے الفاظ میں یاد کرتی ہے جو اپنی زندگی کو اپنے جیسے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں کے لئے نجات کا سامان بن جاتے ہیں -جو اپنے کردار سے ان کو اندھیروں سے نکال کر روشن دن میں لے آتے ہی - ان کے کردار ان کی سوچ ،فکرو فلسفہ ہمیشہ اپنی قوم کے گرد گھومتی نظر آتی ہے کوامہ نکرومہ کی جدوجہد آل افریقن سمیت پوری دنیا کے مظلوم انسانوں کیلئے تھی۔ گھانا جو زرعی اجناس ، کوکو ، ناریل ، کافی ،ربر ، سونے ، ہیرے ، باکسائٹ ، نکل ، لوہے اور کئی بے شمار قسم کی معدنیات سے مالامال سرزمین پر کئی صدیوں تک بیرونی طاقتوں کی غلامی میں رہا ۔ کوامہ نکرومہ ان دنوں ایک ٹیچر تھے جو گھانا کی آزادی کے لئے میدان عمل میں اترے جنہوں نے اپنی زندگی گھانا کے مظلوم انسانوں کی خوشحالی اور انسانیت کی دفاع کیلئے وقف کردی
کوامہ نکرومہ اپنی تمام زندگی میں سامراجی طاقتوں سے غلامی کے خلاف جدوجہد کرتے رہے اور تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کیلئے امر ہوگئےانہوں نے سمجھ لیاتھا کہ اپنی قوم کے مظلوم لوگوں کو نجات کامل دلوا کر چین سے بیٹھنا ہے ۔ پندرویں صدی میں پرتگیزی سامراج نے مغربی افریقہ کی سرزمین پر اپنے قدم جمانا شروع کردی اور 1471 ء میں (گولڈ کوسٹ ) گھانا پر قابض ہوگیا ۔ گھانا جو زری اجناس ، کوکو ، ناریل ، کافی ،ربر ، سونے ، ہیرے ، باکسائٹ ، نکل ، لوہے اور کئی معدنیات سے مالامال سرزمین ہے۔ یہ سرزمین کئی صدیوں تک گھانا کے بالا دست قوتوں کی غلامی میں سسکیاں لیتی رہی اس سرزمیں سے نکلنے والی معدنی دولت سے اغیا امیر ہوتے رہے اور گھانا کے عوام روٹی کو ترستے رہے ۔ کوامے نکرومہ 1909 ء میں پیدا ہوئے اس وقت گھانا سامراجی طاقتوں کے بوجھ تلے غلامی کی چکی میں پس چکا تھا ۔ نکرومہ نے ابتدائی تعلیم عکرہ کے ایک مشن اسکول میں حاصل کی 1931 ء میں کالج سے گریجویشن کیا اور ایک اسکول ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔
1935 ء میں نکرومہ مزید تعلیم کیلئے امریکہ چلے گئے لنکن اور پنسلوینیا یونیورسٹی میں دس سال تک تعلیم حاصل کی۔ نکرومہ نے طلبہ سیاست اور امریکہ کے سیاہ فام باشندوں کی تحریک میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ اسی زمانے میں نکرومہ کی پہلی کتاب ’’نوآبادیات آزادی کی جانب ‘‘ شائع ہوئی ، کچھ عرصے تک لنکن یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے لیکچرار کے طور پر پڑھاتے رہے اور بعدازاں لندن چلے گئے جہاں اکنامکس یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا ، 1947ء میں نکرومہ اپنے وطن لوٹ آئے اور سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا اسی سال گھانا کے قوم پرستوں کی سیاسی جماعت ’’یونائٹیڈ گولڈ کوسٹ کنونشن ‘‘ کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے ۔ کوامے نکرومہ کی قیادت میں تحریک آزادی کی جدوجہد میں عوام کی مقبولیت میں تیزی آتی گئی ۔بھلا قابض قوتیں یہ کیسے برداشت کر سکتی تھیں چنانچہ نکرومہ کو سیاسی سرگرمیوں کی پاداش میں 1948 ء میں گرفتار کرلیاگیا ۔ عوام کی بھرپور احتجاج سے ایک سال بعد جب رہا ہوئے تو اپنے چار جانب نسل پرستی کا خوفناک رجحان دیکھا
جب کہ کوامے نکرومہ مارکس ازم ، لینن ازم کی تعلیمات سے ہی قومی اور طبقاتی جدوجہد کو لازم و میں ملزوم سمجھتے تھے ، یہی وجہ نکرومہ کی پارٹی نے گھانا کے مزدور ، کسان ، دہقان سب نکرومہ کی قیادت میں اس طرح یک جان کیا کہ گھانا کے عوام کوامہ پر فخر کرنے لگے،1951 ء میں انگریزوں نے گھانا میں نیا آئین منظور کیا جس کے تحت عام انتخابات کا اعلان ہوا ، نکرومہ کی’’ کنونشن پیپلز پارٹی ‘‘ ان انتخابات میں ایک بڑی قوت کے ساتھ آئی اور مرکزیت میں وزارت بنائی ۔ کوامہ نکرومہ پوری دنیا میں سیاست کے حوالے سے مہا رت رکھتے تھے، اتنا ہی جنگی محاذ پر قابلیت رکھتے تھے۔ نکرومہ کی صدارت میں گھانا کی تعمیر نو اور ترقی کی راہیں پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ عام عوام کی زندگی میں تبدیلیاں آئیں ، نکرومہ کی کوششوں کی نتیجے میں دسمبر 1958 ء میں گھانا کے شہر عکرہ میں ’’ آل افریقن پیپلز کانفرنس ‘‘ منعقد کی گئی۔ جس میں افریقہ بھر سے انقلابی قائدین نے اپنے وفود کے ساتھ شرکت کی ۔ اور 1960 ء میں نکرومہ نےگھانا کو عوامی جمہوریہ قرار دیا ۔
جمعرات، 6 نومبر، 2025
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اللہ پاک سے ایک مکالمہ
بدھ، 5 نومبر، 2025
ہری ونش رائے بچن ایک ہمہ صفت شاعر و ادیب
منگل، 4 نومبر، 2025
ڈیجیٹل کرائم -اپنے بچوں کو بچائیے
پیر، 3 نومبر، 2025
منجھلی آپا کے ہاتھوں میں جڑاؤ کنگن بھی نہیں تھے
اب میں نے دیکھا منجھلی آپا ہر وقت امّاں کے نشانے پر رہتی تھیں ،اور بس امّاں کی زبان پر ایک جملہ ہوتا پرائے گھر جانا ہے اپنی عادتیں سدھارلو،منجھلی آپا بھی اپنی جگہ اچھّی تھیں لیکن ان کی زبان پر امّاں کی ہربات کا جواب موجود ہوتا تھا جس سے امّا ں بہت ناراض ہوتی تھیں اورمنجھلی آپا کو صبر کی تلقین کا سبق بھی پڑھاتی رہتی تھیں اور بالآخر بڑی آپا کے محض چھ مہینے بعد منجھلی آ پا بھی گھر سے رخصت ہو کرسدھار گئیں ،مہندی مایوں سے لے کر رخصت کی گھڑی تک منجھلی آپاکی آنکھو ں سے آنسو کا ایک قطرہ بھی گھر میں کسی نے ٹپکتے نہیں دیکھا،،یہاں تک کہ جب ابّا نے آگے بڑھ کر ان کو رخصت کرنے کو گلے لگا یا تب بھی وہ سرجھکائےہوئے ابّا کے سینے سے جا لگیں لیکن روئیں پھر بھی نہیں اس وقت ابّاکاچہرہ شدّتِ جذبات سے سرخ ہو گیا تھا اور منجھلی آپا اپنے قدموں پرجھول سی گئیں تھین پھر کسی کی آواز آئ جلدی کرو دلہن بے ہوش ہو جائے گی اور ان کو بہکتے قدموں پر چلاتے ہوئے دولہا کی سجی ہوئ گاڑی میں بٹھا دیاگیا تھا ،
ناجا نے ان کو ہو کیا گیاتھا کہ ان کے دلہناپے کو سکوت تھا اور وہ اسی طرح ساکت ہی رخصت ہو گئںلیکن میرے لئے اچنبھے کی بات تھی کہ اگلے دن بڑے بھیّا رسم کے مطابق منجھلی آپا کوسسرال جاکر لے آئے تھے لیکن انکے ساتھ ان کے دولہا رفاقت بھائ بھی نہیں آئےتھے میں نے سب سے پہلے منجھلی آپ کی کلائیاں دیکھیں شائد میری نظریں ان کے ہاتھوں میں بھی جڑاؤ کنگن تلاش کر رہے تھے 'میرے خیال میں ہر دولہا شادی کے بعد اپنی دلہن کو جڑاؤ کنگن پہناتا ہےلیکن ان کے ہاتھوں میں جڑاؤ کنگن نہیں تھے اور وہ بڑی آپا کی طرح خوش نہیں تھیں بلکہ آنسو انکی آنکھوں میں چھلکے چھلکے آرہے تھے امّا ں بیٹی کے پر ملال چہرے پر نظر ڈال کر کچھ چونکیں تو ضرور تھیں لیکن انہوں نے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا نا ہی کچھ پوچھ کر ان کو کچھ کہنے کا حوصلہ دیاتھا
اور پھر شادی کے صرف چند ہفتوں بعد منجھلی آپا امّاں کے سامنے بیٹھی رو رو کر کہ رہی تھیں امّا ں آپ نے مجھ کو یہ کیسی سسرال بھیج دیا جس کو گھر نہیں جہنّم کہنا زیادہ بہتر ہےاور شوہر ایسا ہے جو اپنی امّاں کے پلّو سے بندھا پھرتا ہے'یہ کام کرنا ہے تو جواب ملتا اما ں سے پوچھ لو جو بات کروامّاں سے پوچھ لو ،جو کام کہو امّاں راضی نہیں ہو ں گی ,,جب اسے اپنی امّاں کے پہلو سے لگ کر بیٹھنا اتنا ہی پسند تھا تو پھر شادی کی کیا ضرورت تھی او رامّاں کی آوازایک دھاڑکی شکل میں سنائ دی ،بس اب ایک لفظ جو منہ سے نکالامگر منجھلی آپا کے اوپر امّاں دھاڑ بھی بے اثر رہی اور وہ رو رو کر بتاتی رہیں
وہ بتا رہی تھیں کہ ان کی ساس کس طرح گھر کے سارے کام کرواتی ہیں اور کھانا پکاکر سب سے آخر میں کھانا کھانے دستر خوان پر بیٹھتی ہیں تب ان کی ساس منجھلی آپا کے کھانا کھائے بغیر ہی دستر خوان سمیٹ دیتی ہیں،منجھلی آپا نے یہ بھی بتایا کہ ان کو طبیعت کی خرابی میں بھی ڈاکٹر کےپاس جانے کی اجازت نہیں ہے ،اور رفاقت کا کہتے ہیں کہ ہماری ماں کے حکم کے مطابق ہی گھر چل رہا ہے اب اگر تم کو کوئ اعتراض ہے تو تم میکے جا سکتی ہو
اتوار، 2 نومبر، 2025
چنیوٹ کی تاریخی تعزیہ داری کی تاریخ
حضرت امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا سے محبت و عقیدت میں بنائے گئے چنیوٹ کے ماہر کاریگروں کے ہاتھوں لکڑی کے خوبصورت تعزیہ جات دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہیں، جن کی بناوٹ اور خوبصورت کا کوئی ثانی نہیں۔ لفظ 'تعزیہ' اعزا سے نکلا ہے۔ ، چونکہ امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام نے واقعہ کربلا میں صبر کی انتہا کی۔ چنیوٹ کے ماہر کاریگروں نے امام عالی مقام کو جنت میں ملنے والے محل کا خیالی ماڈل بنایا ہے۔ تعزیے کے پیڈسٹل یعنی تخت پر گلاب، سوسن اورانگوروں کی بیل کی منبت کاری کر کے کاریگروں نے شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ تعزیہ کے تخت پر بنہ جات ڈیزائن کیے گئے ہیں اور ہر کونے پر بنہ میں 5 گنبد ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ یہ 5 گنبد پنجتن کو ظاہر کرتے ہیں۔ تعزیہ کی ہر منزل کو کاریگروں نے 2 حصوں میں ڈیزائن کیا ہے جو 6 آسمانوں کو تشبہہ دیتے ہیں۔ درمیان والا حصہ برآمدہ اور دائیں بائیں حصے متن کہلاتے ہیں۔ تعزیے کی ہرمنزل میں بالکونیاں، دروازہ جات اور کھڑکیوں کو بڑے خوبصورت انداز میں سجایا جاتا ہے۔
پالکی میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی رہائشگاہ دکھائی گئی ہے۔ پالکی کا پہلا گنبد سبز اور دوسرا سرخ رنگ کا ہوتا ہے۔ سبز حسنی جبکہ سرخ حسینی رنگ ہے۔ تعزیہ کا بالائی گنبد پالکی پر نصب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے تعزیہ کے کاریگر کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے شہدائے کربلا سے محبت اور عقیدت میں دیار کی لکڑی پر منبت کر کے بارہ منازل پر مشتمل تعزیہ جات بنائے ہیں اور ان تعزیہ جات کو دیکھ کر واقعہ کربلا کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ ہر سال نویں اور دسویں محرم کو یہ تعزیہ جات نکالے جاتے ہیں۔ چنیوٹ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ ہر سال نویں اور دسویں محرم الحرام کو چنیوٹ کے مختلف علاقوں سے یہ تعزیہ جات اپنے مقررہ راستوں سے نکالے جاتے ہیں اور ہم شہدائے کربلا کی یاد کو تازہ اور ان سے عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے ان تعزیوں کو اٹھاتے ہیں اور میدان ترکھاناں میں عزاداری اور پرسہ دیا جاتا ہے۔
چنیوٹ کے ماہر کاریگروں کے ہاتھوں سے تراشیدہ یہ تعزیہ جات امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا سے محبت اور عقیدت کا منفرد انداز ہیں جو واقعہ کربلا کی یاد کو تازہ کرتے ہیں-سفید تعزیہ۔ شہر میں بے شمار سفید تعزیے نکلتے تھے۔ دو تعزیے اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ ان دونوں تعزیوں کے تختوں اور مونڈھوں پر مختلف رنگوں کے تال میل سے ابرق کے پتر پر دیدہ زیب قلم کاری ہوتی تھی جو رات کے وقت جگمگ جگمگ کر کے آنکھوں میں چکا چوند پیدا کرتی تھی۔شاگرد کا تعزیہ تیار کرنے والے ہنرمند کا نام اِلہی بخش بتایا جاتا ہے الہی بخش کے دل میں اپنے استاد کا تعزیہ بناتے بناتے عشق امام عالی مقام جو جاگا تو اس نے اپنا بھی ایک تعزیہ بنانے کی ٹھان لی کیونکہ الٰہی بخش استاد کا تعزیہ بنانے والے گروہ کا حصہ تھے جو دن کو استاد کے پاس کام کرتا تھا اور رات میں ایک خفیہ جگہ اپنا الگ تعزیہ بنانے مشغول رہا۔ اور 1854ء میں اسے مکمل کردیا۔ شاگرد کا تعزیہ 32 فٹ لمبا تھا۔ شاگرد کا تعزیہ اٹھانے کے لئے 200 افراد درکار ہوتے ہیں۔
ہر سال دس محرم کواستاد کا تعزیہ ملتان میں محلّہ پیر قاضی جلال اندرون پاک گیٹ سے جبکہ شاگرد کا تعزیہ خونی برج ملتان سے برآمد ہوتا ہے۔استاد کا تعزیہ جلوس کے آگے اور شاگرد کا تعزیہ جلوس کے پیچھے رکھا جاتا ہے۔استاد اور شاگرد دونوں کے تعزیہ کا لائسنس سنّی بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کےنام ہے-ملتان میں دو تعزیے استاد اور شاگرد کے تعزئے سے مشہور ہیں۔ استاد اور شاگرد دونوں کا تعلق سنی مذہب سے تھا۔ استاد کا نام پیر بخش بتایا جاتا ہے۔ لکڑی پر کندہ کاری اور چوب کاری کے ماہر اُستاد پیر بخش نے حضرت امام حسین سے عقیدت کے اظہار کے لیے 1812ء میں بنانا شروع کیا اور 22 ساتھیوں کی مدد سے 13 سال کے عرصے میں 1825ء میں مکمل ہوئی۔ استاد کا تعزیہ 27 فٹ لمبا، 8 فٹ چوڑا اور سات منزلوں پر مشتمل ہے۔ ہر منزل کئی چھوٹے بڑے ساگوان کی لکڑی کے ایسے ٹکڑوں سے بنی ہے جو مِنی ایچر محرابوں، جھروکوں، گنبدوں اور میناروں پر مشتمل ہوتے ہیں اور اسے بنانے میں کوئی میخ استعمال نہیں ہوئی۔ یہ تعزیہ آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ اس کو 150 افراد اٹھاتے ہیں
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل
باؤ فاضل کا جب بچپن کا زمانہ تھا اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے 1960 ء...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
خوبصورت اور لہلہاتے قدرتی نظاروں سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )کے ائر پورٹ 'پورٹ لوئس کے سرشِو ساگر رام غلام انٹرنیشنل ائیرپ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...