ہفتہ، 5 جولائی، 2025

بعد از کربلا زینب (س)وارث امامت کی محافظ بن گئیں

 

ہنگام عصر تمام ہوا تو ایک جانب  صحرائے کربلا میں لاشہء ہائے شہدا ء بے گوروکفن تھے تو دوسری جانب یزید ی ملعون فوج کی انتقام کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئ تھی چنانچہ شمرلعیں نے اپنے بدخو ساتھیوں کے ہمراہ غشی کے عالم میں بے ہوش جناب سیّد سجّاد بیمار کربلاکے خیمے پر دھاوا بولا کسی سپاہی نے بیمار کربلا کا بستر کھینچا کسی نے نیزے کی انی چبھوئ اورشمر لعین اپنی تلوار سونت کر اپنے سپاہیوں سے چلّا کر کہنے لگا خبردار حسین کی نسل سے ایک مرد کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا ہئے اور اسی لمحے جناب زینب سلام اللہ علیہا جو بیمار بھتیجے سے لمحے بھر کو بھی غافل نہیں تھیں اپنی بے ردائ کی پرواہ نا کرتے ہوئے اسی لمحے شمر کی تلوار اور سیّد سجّاد کے درمیا ں آ گئیں اور پھر آپ سلام اللہ علیہا نے شمر کو للکار کر کہا او سنگ دل ! تف ہئے تیری اوقات پر کہ تو ایک مریض کو قتل کرنے چلا ہئے ,جناب زینب کی تنبیہ پر وہ بد بخت  بیمار کربلا کے خیمے سے جھلّایا ہوا باہر نکلا اور اپنی ناکامی پر اپنے ساتھیوں سے چلّا کر کہنے لگا ،،خیمو ں میں جلدی آگ لگاؤ


    بی بی زینب تو ابھی بیمار کربلاکی دلداری میں مصروف تھین کہ خیام اہلبیت سے ننھے بچّوں اور مخدرات کی فلک شگاف چیخیں بلند ہونے لگیں بی بی زینب بیمارکربلا کو  اپنی پشت پر  سنبھال کر  خیمے سے جیسے ہی باہر آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ خیام اہلبیت میں آگ لگائ جا چکی تھی اور ننھے بچّے اور بیبیاں اپنی جانیں بچانے کو ادھر سے ادھر تک بھاگ رہئے اور ان بھاگتے ہوئے ننھے بچّوں پر اور بیبیوں پر فوج اشقیاء تازیانے برسا رہی تھی ایسے وقت میں بی بی زینب سیّد سجّاد کو   گرم ریتی پر لٹا کر چھوٹے بچّوں  اور بیبیوں کی  جانب متوجہ ہوئیں اور سب کوایک جگہ جمع   کیا اور آج کی قیامت خیز رات میں بھی نماز شب کا وقت بتانے والے ستاروں نے اپنی پرنم آنکھوں سے صحرا کی گرم ریت پربے وارثوں کے قافلے کی حفاظت پر معمو رایک بی بی کو سر بسجود  یہ منظردیکھا،جس کے لب ہائے حزین پر مناجات پروردگار تھی ،،پروردگارا تو ہماری ان قربانیوں کو قبول فرما ،،اور ہمیں کبھی بھی اپنی حمائت سے محروم نا رکھنا ،،ہمیں ہماری منزل مقصود تک ضرور پہنچا دے ،


وہ منزل جس کے لئے ہم آل محمّد کو تو نے خلق فرمایا،،زینب حزیں کی دعائے نیم شب تمام ہوئ تو صبح کے اجالے پھیل رہے تھے اور زینب نے اپنی جگہ ایستادہ ہو کر منظر دیکھا ایک جانب مقتل کربلا تھا جس میں آل محمّد کے سر بریدہ بے گوروکفن لاشے گرم ریت پر بکھرے ہوئے تھے دوسری جانب نگاہ اٹھی تو جلے ہوئےخیام اہلبیت اپنی جلی ہوئ راکھ اڑاتے ہوئے  گریہ کناں تھے تیسری جانب دیکھا تو بے ردا بیبیا ں تھیں جن کی گودیاں اجڑ چکی تھیں اور سر سے وارث کا سایہ بھی اٹھ چکا تھا اور ننھے ننھے بچّے جنکے وارث کربلا کے بن میں شہید کئے جاچکے تھے اور پھر جو نگاہ ایک اور سمت گئ تو زینب نے اپنے بہتّر پیارون کے بہتّر کٹے ہوئےسر چمکتے ہوئے نیزوں پر آویزاں دیکھے تو آپ سلام اللہ علیہا نے گھبرا کر آسمان کی جانب دیکھا اور آپ کے لب ہائے مقدّس پر دعاء آئی ,,اے مالک ہماری قربانیوں کو قبول فرما۔  قتل گاہ کربلا میں پیہم سلگتے ہوئے خیموں سے کچھ فاصلے پرگرم ریت کے اوپر شب غم بسر کرنے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی ایک اور صبح غم طلوع ہوئ 


سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ فوج اشقیاء کے سپاہیوں نے ہاتھوں میں تازیانے اور رسیّاں لئے ہوئے لٹے ہوئے قافلے کے قریب آ کر حکم دیا کہ قیدی اپنے اپنے ہاتھ پس گردن بندھوالیں اور اسی لمحے بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو اب  حضرت عبّاس کی جان نشین اور سالار قافلہ تھیں للکار کر فوج اشقیاء سے مخاطب ہوئیں ہم آل رسول( صلّی اللہ علیہ واٰوسلّم )ہیں کوئ غیر ہمیں ہاتھ لگانے کی جراءت نہیں کرے اور پھر بی بی زینب سلام اللہ علیہانے رسّیان اپنے ہاتھ میں لے کر ایک بی بی کے ہاتھ  فوج اشقیاء کے حکم سے  پس گردن بندھوائے  ( زیارت ناحیہ میں اما م زمانہ علیہالسّلام فرمارہے ہیں ،، سلام ہو میری دادی زینب پر جن کے ہاتھ پس گردن بندھے ہوئے تھے )اور بے کجاوا اونٹوں پر ایک دوسرے کو سوار کروایا ،،اور اب اونٹوں کے قافلے کی مہا ر بحیثیت سارباں,,امام سیّد سجّاد کے ہاتھ میں دے کر حکم دیا گیا  کہ قیدی اپنے قافلے کی  مہا ر پکڑ کر ساربانی کرے گا ،،


میرا بیمار امام جب مہار تھام کر دو قدم چلا تو فوج اشقیاء کی جانب سے حکم ملا کہ قافلہ کربلا کی قتل گاہ سے گزارا جائے نیزوں پر بلند سر ہائے شہداء کو قافلے کے آگے آگے رہنے کا حکم دیا گیا ،اور اس طرح سے آل محمّد کے گھرانے کےمعصوم بچّے اور باپردہ بیبیا ں بے ردائ کے عالم میں اونٹوں پر سوار پہلے مقتل کربلا لائے گئے تاکہ اپنے پیارون کے بے گورو کفن سر بریدہ لاشے دیکھیں ،پس سیّد سجّاد کی نظر جو اپنے بابا کے سر بریدہ بے گورو کفن لاشے پر پڑی آ پ کے چہرے کا رنگ متغیّر ہوگیااور بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو وارث امامت اپنے بھتیجے سے پل بھر کو بھی غافل نہیں تھیں ان کی نظر جو اما م وقت پر گئ آپ سلام اللہ علیہا خیال کیا کہ کہیں امام سجّاد کو صدمے سے کچھ ہو ناجائے اور اسی لمحے بی بی زینب سلا م اللہ علیہا نے اپنے آپ کو کھڑے ہوئے اونٹ کی پشت سے نیچے زمین پر گرا دیا ،،امام زین العابدین سکتے کے عالم میں اپنے بابا حسین کے سر بریدہ خون میں ڈوبے ہوئے اور لاتعداد پیوستہ تیروں سے آراستہ لاشے کو دیکھ رہے تھے 

تحریر و تلخیص سیدہ زائرہ عابدی

بریمپٹن'کینیڈا

شریکۃ الحسینؑ کے خطبات 'دربار یزید میں


شریکۃ الحسینؑ  ثانئ  زہرا سیدہ زینب سلام اللہ علیہ نےشام دمشق کے یزیدی درباروں اور بازاروں میں یادگار خطبے دیے۔شام کے زندان کو اپنے مظلوم بھائی کے عزاخانے میں تبدیل کردیا اور اس طرح ستمکاروں کے محل لرزنے لگے۔ابن زیاد ملعون اس باطل خیال میں تھا کہ ایک خاتون اس قدر مصائب اور رنج و آلام دیکھ کر ایک جابر ستمگر کے سامنے جواب دینے کی سکت و جرأت نہیں رکھتی،کہنے لگا:اُس خدا کا شکرگزار ہوں جس نے آپ لوگوں کو رسوا کیا،تمہارے مردوں کو مارڈالا اور تمہاری باتوں کو جھوٹا ثابت کیا''علی کی بیٹی نے کمال عظمت کے ساتھ اس سرکش ظاغوت کی طرف حقارت بھری نظروں سے دیکھا اور فرمایا یابن مرجانہ۔۔(یاد رہے کہ ابن زیاد لعین کی ماں مرجانہ اس وقت عرب کی زانی خواتین میں مشہور تھی اور یہ بھی مشہور تھا کہ ابن زیاد حرام زادہ ہے) ،لیکن اس کے باوجود یزید ملعون نے ابن زیاد کو اپنا منہ بولا بیٹا بناکر گورنر بنایا تھا:تعریفیں اُس خدا کیلیے ہیں جس نے ہمیں اپنے پیغمبرص کے ساتھ منسوب کرکے عزت بخشی آلودگی و ناپاکی سے دور رکھا اور تجھ جیسے ویران گر شخص کو رسوا کردیا۔ہر تعریف خدا کے لۓ ہے جس نے جوانان بہشت کے سرداروں حسن و حسین علیہ سلام کو کامیابی عطا کی ، جنت کو ان کے لۓ واجب قرار دیا۔


دربار یزید لعین دمشق میں ،حضرت زینب سلام اللہ علیہا کاتاریخی خطبہ

بی بی زینب سلام اللہ علیہا   اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراء  سلام اللہ علیہا کی طرح ظالموں کے سامنے آواز بلند کرکے صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں ، بھرے دربار میں خدا کی حمدو ستائش کرتی ہیں اور رسو ل و آل رسول (علیہ سلام) پر درود بھیجتی ہیں اور پھر قرآن کی آيات سے اپنے خطبہ کا اس طرح آغاز کرتی ہیں :یزید تویہ سمجھتا تھا کہ تونے زمین و آسمان کو ہم پر تنگ کردیا ہے تیرے گماشتوں نے ہمیں شہروں شہروں اسیری کی صورت میں پھرایا تیرے زعم میں ہم رسوا اور تو باعزت ہوگیا ہے ؟ تیرا خیال ہے کہ اس کام سے تیری قدر میں اضافہ ہوگیا ہے اسی لۓ ان باتوں پر تکبر کررہا ہے ؟ جب تو اپنی توانائی و طاقت  اور اپنی  باطل فوج  کو تیار دیکھتا ہے اور اپنی بادشاہت کے امور کو منظم دیکھتا ہے تو خوشی کے مارے آپے سے باہر ہوجاتا ہے ۔تو نہیں جانتا کہ یہ فرصت جو تجھے دی گئی ہے کہ اس میں تو اپنی فطرت کو آشکار کرسکے کیاتو نے قول خدا کو فراموش کردیا ہے ۔ آیت: کافر یہ خیال نہ کریں کہ یہ مہلت جو انھیں دی گئي ہے یہ ان کے لئے بہترین موقع ہے ، ہم نے ان کو اس لۓ مہلت دی ہے تاکہ وہ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کرلیں ، پھر ان پر رسوا کرنے والا عذاب نازل ہوگا


۔کیا یہ عدل ہے تیری بیٹیاں اور کنیزیں باعزت پردہ میں بیٹھیں اور رسول  زادیو ں کو تو اسیر کرکے سربرہنہ کرے ، انہیں سانس تک نہ لینے دیا جاۓ ، تیری فوج انھیں اونٹوں پر سوار کرکے شہر بہ شہر پھراۓ ؟ نہ انہیں کوئي پناہ دیتا ہے ، نہ کسی کو ان کی حالت کاخیال ہے ، نہ کوئی سرپرست ان کے ہمراہ ہوتا ہے لوگ ادھر ا‍‌‌‌دھر سے انہیں دیکھنے کے لۓ جمع ہونے ہیں ، لیکن جس کے دل میں ہمارے طرف سے کینہ بھرا ہوا ہے اس سے اس کے علاوہ اور کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟تو کہتا ہے کہ کاش جنگ بدر میں قتل ہونے والے میرے بزرگ موجود ہوتے اور یہ کہہ کر تو فرزند رسول سید الشہدا امام حسین علیہ سلام کے دندان مبارک پر چھڑی لگا کر بے حرمتی کرتا ہے ؟ کبھی تیرے دل میں یہ خیال نہیں آتا ہے کہ تو ایک بہت  بڑے اور کریہہ ترین  گناہ اور برے کام کا مرتکب ہوا ہے ؟ تونے آل رسول اور خاندان عبدالمطلب بنی ہاشم کا خون بہا کر اپنے آپ کو ابوجہل و ابوسفیان کی اولاد بنی امیہ ثابت کیا ہے۔


خوش نہ ہو کہ تو بہت جلد  اس جبار اور قہار  کی بارگاہ میں حاضر ہوگا ، اس وقت یہ تمنا کرے گا کہ کاش تو اندھا ہوتا اور یہ دن نہ دیکھتا تو یہ کہتا ہے کہ اگر میرے بزرگ اس مجلس میں ہوتے تو خوشی سےاچھل پڑتے ، اے اللہ تو ہی ہمارا انتقام لے اور جن لوگوں نے ہم پرستم کیا ہے ان کےدلوں کو ہمارے کینہ سے خالی کردے ،خداکی قسم تو اپنے آپے سے باہر آ گیا ہے اور اپنے گوشت کو بڑھالیا ہے ۔جس روز رسول  خدا ،محمد  صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کے اہل بیت علیہ السلام، اور ان کے فرزند رحمت خدا کے سایہ میں آرام کرتے ہوں گے تو ذلت و رسوائی کےساتھ ان کے سامنے کھڑا ہوگا ۔یہ دن وہ روز ہے جس میں خدا اپنا وعدہ پورا کرے گا وہ مظلوم و ستم دیدہ لوگ جو کہ اپنے خون کی چادر اوڑھے ایک گوشے میں محو خواب ہیں ، انہیں جمع کرے گا ۔خدا خود فرماتا ہے : " راہ خدا میں مرجانے والوں کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کی نعمتوں سے بہرہ مند  ہوتے ہیں ، تیرے باپ   نے تجھے ناحق مسلمانوں پر مسلط کیا ہے ،


 جس روز محمد  صلی اللہ علیہ والہ وسلم داد خواہ ہوں گے اور فیصلہ کرنے والا خدا ہوگا ، اور عدالت الہی میں تیرے ہاتھ پاؤں گواہ ہوں گے اس روز معلوم ہوگا کہ تم میں سے کون زیادہ نیک بخت ہے ۔اگر تو یہ سمجھتا ہے کہ تونے ہمارے مردوں کو شہید اور ہمیں اسیر کرکے فائدہ حاصل کر لیا ہے تو عنقریب تجھے معلوم ہوجاۓ گا کہ جسے تو فائدہ سمجھتا ہے وہ نقصان کے سوا کچھ نہیں ہے ، اس روز تمہارے کۓ کے علاوہ تمارے پاس کچھ نہ ہوگا ، تو ابن زیاد سے مدد مانگے گا اور وہ تجھ سے ، تو اور تیرے پیروگار خدا کی میزان عدل کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔تجھے اس روز معلوم ہوگا کہ بہترین توشہ جو تیرے اجداد نے تیرے لئے جمع کیا ہے وہ یہ ہے کہ تو نے رسول خدا کے بیٹوں کو قتل کردیا ۔قسم خدا کی میں خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اور اس کے علاوہ کسی سے شکایت نہیں کرتی ، جس نیرنگی سے کام لینا چاہے لے لے، اپنی ہردشمنی کا اظہار کرکے دیکھ لے، قسم خدا کی جو ننگ کا دھبہ تیرے دامن پر لگ گيا ہے وہ ہرگز نہ چھوٹے گا ،  

جمعرات، 3 جولائی، 2025

میں چلا ہوں علی سے ملاقات کو

 

کہا جاتا ہے  اور ریکارڈ پر بھی موجود ہے کہ  شہید سبط جعفر زیدی نے سوز خوانی کی ترویج کے لیےروزنامہ جنگ سمیت دیگر قومی اخبارات میں سوز خوانی کے حوالے سےتکنیکی و تحقیقی سلسلہ وار مضامین بھی لکھے جو بعد ازاں کتابی شکل میں منظر عام پر آئے۔ مستند زرائع  بتاتے ہیں  کہ ہارڈ ورڈ یونیورسٹی ،کولمبیا یونیورسٹی اور فلوریڈا میں امریکی محققین و ماہرین پروفیسر سبطِ جعفر زیدی کے دبستان سوز خوانی اور فن سوز خوانی پر تحقیقی کام کر رہے ہیں اور یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات ماہرین فن اساتذہ اور محققین کی نگرانی میں باقاعدہ استفادہ کررہے ہیں۔تاکہ سوز خوانی کا یہ ورثہ اگلی نسل کو منتقل کیا جاسکے۔شہید استاد سبط جعفری زیدی کی کاوشوں سے کراچی بھر میں ایک سو سے زائد سوز خواں اپنی خدمات بغیر معاوضہ کے انجام دے رہے ہیں ۔اور اُن کے ہی شاگرد پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کار خیر کو  جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔ مختلف شہروں میں مقبول سوز خوانوں کا مختصر تعارف اور نام بھی لکھ دیئے  گئے ہیں استاد سبط جعفر زیدی کو 18 مارچ 2013ء کو پیر کے دن دوپہر کے وقت کالعدم سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں نے اس وقت شہید کیا جب لیاقت آباد میں قائم کالج سے اپنے فرائض کی انجام دہی کے بعد اپنی موٹرسائیکل پر گھر جارہے تھے


شہادت کے وقت آپ 56 برس کے تھے۔آپ کی نماز جنازہ امروہہ گراوٴنڈ انچولی میں ادا کی گئی جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء، شعراء، مدارس اور کالجز کے اساتذہ اور اپنی تعلیم سے سرفراز ہونے والے شاگردوں نے شرکت کی۔ اان کی شہادت پر صوبہ سندھ کے تمام کالجز بطور احتجاج ایک دن بند رہے۔ آپ کو وادی حسینؑ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔سبط جعفر سے نقل کیا جاتا ہے کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ "مرنا تو سب کو ہے تو پھر کینسر یا روڈ ایکسیڈنٹ میں مرنے سے بہتر ہے کہ چلتے ہاتھ پاؤں شہادت کی موت نصیب ہو۔ ان کے کسی قریبی دوست نے باہر آنے جانے میں احتیاط برتنے کا کہا تو از راہِ مذاق کہنے لگے کہ "تم لوگ تو مجھ سے جلتے ہو، چاہتے ہی نہیں ہو کہ مجھے شہادت ملے۔" وہ ہمیشہ شہادت کے متمنی رہتے تھے یہاں تک کہ شہادت سے کئی ماہ قبل اپنے وصیت نامے کو دو منظوم کلام کی شکل میں لکھ کر گئے۔ایک کلام احباب کے نام اور دوسرا قاتلوں کے نام۔ ان دونوں کلاموں کے آخر میں انہوں نے اپنا نام شہادت سے قبل ہی *"شہید سبط جعفر بقلم خود" لکھا۔آپ نے پسماندگان میں بیوہ، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑا ہے۔ سبط جعفر زیدی سنہ 1990ء سے ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے اور پاکستان ٹیلی ویژن پر آپ نے صوتی علوم و فنون اسلامی  پر "لحنِ عقیدت" کے نام سے پروگرام نشر کئے


 آپ بین الاقوامی ادارہ ترویج سوز خوانی انجمن محبان اولیاء کے بانی، انجمن وظیفہ سادات پاکستان اور انجمن محمدی کے صدررہےکر ایسوسی ایشن، سندھ پروفیسرز لیکچررز ایسوسی ایشن، انجمن سوز خوانان کراچی اور آرٹس کونسل کے رکن رہے۔آپ J.D.C بورڈ کے بانی اور خادمان علم جامعہ امامیہ کے سرپرست بھی رہے۔سبط جعفر نے سندھ بھر میں 7 کالجز پانچ خیراتی ادارے، مختلف تعلیمی ادارے اور ٹنڈو آدم میں ایک سکول بنوایا جس میں بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی کہا جاتا ہے کہ آپ کو امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے ایک ایوارڈ بھی ملا ہے۔ سنہ 1957ء کو آپ کراچی میں پیدا ہوئے۔ سبط جعفر گورنمنٹ کالج کے پرنسپل تھے۔ آپ نے کئی کالجز، سکول اور فلاحی ادارے قائم کئے اور اردو زبان میں سوزخوانی کو حیات نو بخشی۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے آپ کو ایوارڈ ملا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ بین الاقوامی ادارہ ترویج سوزخوانی اور بعض دیگر اداروں کے بانی اور عہدے دار بھی رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر سوزخوانی کے متعدد پروگرام کئے۔


سبط جعفر اپنے اشعار میں اہل بیتؑ کے صرف مصائب ہی نہیں بلکہ عقائد اور احکام پر بھی تاکید کرتے تھے۔زیدی اپنے آپ کو شاعر کے بجائے سوزخواں سمجھتے تھے۔ برصغیر میں سوز خوانی کو مجلسِ امام حسینؑ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ شہید سبط جعفر زیدی سوز خوانی سے اپنی وابستگی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سکول کے زمانے سے ہی سوز خوانی سے شغف تھا اور سنہ 1988ء میں شاعر اہل بیت ریحان اعظمی نے انہیں پاکستان ٹیلی ویژن لے گئے اور اسی سال ریحان اعظمی کی کوششوں سے پہلا کیسٹ منظر عام پر آگیا۔ یہ سلسلہ سنہ 2006ء تک جاری ریا اور اس وقت تک پچاس سے زائد آڈیو ویڈیو کیسٹس اور سی ڈیز منظر عام پر آگئیں -شہید استاد سبط جعفری زیدی کی کاوشوں سے کراچی بھر میں متعدد سوز خواں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اُن کے ہی شاگرد پاکستان سمیت دنیا بھر میں سوز خوانی کی مجالس میں مصائب اہل بیتؑ بیان کرتے ہیں۔سید سبط جعفر کو مختلف راگ اور سُروں کے علم پر بھی عبور حاصل تھا مگر ان کی بندشوں یعنی کمپوزیشنز میں کہیں بھی گانے یا غنا و موسیقی کا گمان تک نہیں ہوتا تھا اور وہ ذکرِ اہل بیتؑ کو گانوں کی طرز پر بیان کرنے کے سخت مخالف تھے


سوز فارسی کا لفظ ہے، جس کے معنی دکھ درد اور جلن کے ہیں اور خوانی کے معنی پڑھنے سنانے اور دہرانے کے ہیں اور سوزخوانی کے معنی دکھ درد کا بیان کے ہیں۔ اصطلاح میں مصائب اہل بیت علیہ السلام اور بالخصوص واقعہ کربلا کے منظوم کلام کو لحن یا طرز میں اور وضع کردہ طریقوں میں ادائیگی کو "سوز خوانی" کہا جاتا ہے-تالیفات -سبط جعفر زیدی نے سوز خوانی کی ترویج کے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے سنہ 1418ھ میں ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے میں باصلاحیت نوجوانوں کو سوز خوانی سکھانے کے لئے عزاداری اور عزاداروں کا تحفۃ العوام "بستہ" کے نام سے کتاب تالیف کیانٹرمیڈیٹ اور ڈگری کلاسز کے نصاب تعلیم کیلئے کئی کتابیں تصنیف کیں جو 1985ء سے 1988ء تک متعدد بار شائع ہوئیں۔مطالعہ پاکستان، عمرانیات اور اطلاقی عمرانیات وغیرہ؛ نیز منتخبات نظم و نثر، زاد راہ، نشان راہ اور صوتی علوم و فنون اسلامی وغیرہ ان کی تالیف کردہ نصابی کتب میں شمار کیا جاتاےسوز خوانی کی ترویج کے لیے "روزنامہ جنگ" سمیت دیگر قومی اخبارات میں سوز خوانی کے حوالے سے تکنیکی تحقیقی سلسلہ وار مضامین بھی لکھتے رہے، جو بعد ازاں سنہ 1995ء کو کتابی شکل میں منظر عام پر آئ آپ کا پہلا تکنیکی تحقیقی مضمون سوزخوانی کے نام سے سنہ 1989ء کو روزنامہ جنگ کراچی کے مڈ ویک میگزین میں شائع ہوا۔



قبرستان وادی امام حسین کراچی میں شہید سبط جعفر کی آرامگاہ

منگل، 1 جولائی، 2025

شیر نیستان حیدر(عباس علمدار)




ولادت باسعادت قمر بنی ہاشم -معروف یہ ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت جمعہ کے دن چار شعبان سال ٢٦ ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ امیر المومنین نے اپنے نو مولود کا نام عباسؑ رکھا چونکہ مولائے کائنات حضرت  علی  علیہ السلام  جانتے تھے کہ ان کا یہ فرزند ارجمند  باطل کے مقابلے میں سخت اور ہیبت والے اور حق کے سامنے شاداب و تسلیم ہے۔  عباس اس شیر کو کہتے ہیں جس کو دیکھ کر دوسرے شیر بھاگ جاتے ہیں۔حضرت عباس علیہ السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو  آپ کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی آپ  کا ساتھ نہیں چھوڑا۔


 لفظ وفا آپ کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اور اسی لئے  آپ کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے ۔جنگ صفین-جنگ صفین امیر المومنین خلیفتہ المسلمین حضرت علی علیہ السلام کے خلاف شام کے گورنر نے مئی۔جولائی 657 ء مسلط کروائی۔ اس جنگ میں حضرت عباس علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کا لباس پہنا اور بالکل اپنے والد علی علیہ السلام کے طرح زبردست جنگ کی حتیٰ کہ لوگوں نے ان کو علی ہی سمجھا۔ جب علی علیہ السلام بھی میدان میں داخل ہوئے تو لوگ ششدر رہ گئے ۔ اس موقع پر علی علیہ السلام نے اپنے بیٹے عباس کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ عباس ہیں اور یہ بنو ہاشم کے چاند ہیں۔ اسی وجہ سے حضرت عباس علیہ السلام کو قمرِ بنی ھاشم کہا جاتا ہے۔واقعہ کربلا اور حضرت عباس علیہ السلام-واقعہ کربلا کے وقت حضرت عباس علیہ السلام کی عمر تقریباً 33 سال کی تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کو لشکر حق کا علمبردار قراردیا۔


 امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 72 افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد تیس ہزارسے ذیادہ تھی مگر حضرت عباس علیہ السلام کی ہیبت و دہشت لشکر ابن زياد پر چھائی ہوئی تھی ۔ کربلامیں کئی ایسے مواقع آئے جب عباس علیہ السلام جنگ کا رخ بدل سکتے تھے لیکن امام وقت نے انھیں لڑنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس جنگ کا مقصد دنیاوی لحاظ سے جیتنا نہیں تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت ابوالفضل العباس کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے : ”چچا عباس کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پرفائز ہوگئے آپ نےبڑ اہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے“ ۔امام حسینؑ کے پاسدار ، وفاؤں کے درخشان مینار، اسلام کے علمبردار، ثانیِ حیدرِ کرّار، صولتِ علوی کے پیکر ، خاندانِ رسول ص کے درخشان اختر ، اسلام کے سپاہ سالارِ لشکر ، قلزمِ علی کے نایاب گوہر، فاطمہ زہرا کے پسر، ثانیِ زہرا کے چہیتے برادر ،علمدار کربلا حضرتِ ابوالفضل العبّاس علیہ السلام ۔کسی کے قلم میں اتنی طاقت کہاں کہ انکی فضیلت  کا حق اداکر سکے 8 محرم کا دن علمدار کربلا سے منسوب ہے ، جرات اور شجاعت کے پیکر ر حضرت عباس علمدار واقعہ کربلا میں اپنے بھائی حضرت امام حسین کے شانہ بشانہ رہے۔


 انکی بہادری اور دلیری سے یزیدی لشکر پر بھی لرزہ طاری رہا۔حضرت عباس ابن علی فاطمہ بنت خذام کے صاحبزادے اور امام حسین کے لاڈلے چھوٹے بھائی، ان کو شجاعت اور بہادری اپنے والد حضرت علی سے ملی جس کو دیکھ کر دشمنوں پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ واقعہ کربلا کے موقع پر وہ امام حسین کے ساتھ ساتھ رہے۔یزیدی لشکر کی جانب سے پانی بند ہونے پر جہاں بڑوں نے صبر کیا۔ وہیں بچے پیاس سے نڈھال تھے  اور اپنے ننھے ننھے کوزے ا ٹھا ئے العطش العطش کہہ رہے تھے  اور پھر اپنی پیاری بھتیجی سکینہ کے پانی مانگنے پر عباس رہ نہ سکے، مشک و علم تھاما اور دریائے فرات کی جانب روانہ ہوگئے، فرات پر پہنچ کر انھوں نے جناب سکینہ کے مشکیزے میں پانی بھرا اور خیموں کی طرف روانہ ہوئے تو یزیدی لشکر نے  پشت سے حملہ کر دیا آپ کے ہاتھوں میں کوئ ہتھیار نہیں تھا -نیزوں اور تیروں کی بارش میں جناب عباس کے دونوں بازو  قطع ہوگئے۔ بازوؤں کے  کٹ جانے   کے بعد مشک کو دانتوں میں لے لیا ، لیکن لشکرِیزید کی جانب سے برسنے والے تیروں نے مشک کو بھی نہ چھوڑا۔


آقا حسین علیہ السلام فرات کے نشیب میں  اپنے زخموں سے چور بھائ کے پاس پہنچے  اور جناب عباس کا سر مبارک  اپنی آ غوش میں لیا  پھر آنکھ میں لگا ہوا تیر نکالا   اور جناب عباس سے فرمایا  عباس تم نے مجھے ہمیشہ آقا کہ کر مخاطب کیا اب اس وقت  مجھے بھائ کہہ کرمیرا دل ٹھنڈا کر دو مولا عباس نے امام حسین علیہ السلام کے حکم کی تعمیل کی اور جان جان آفریں کے سپرد کر دی - حضرت عباس  کی شہادت نے نہ صرف کربلا کے دشت میں  آل رسول  کو غم و اندوہ میں مبتلا کر دیا  عباسِ باوفا شہادت کے وقت بھی امام حسین اور اہل بیت رسول سے وفا نبھاتے رہے انکی شہادت کے موقع پر امام حسین نے فرمایا کہ آج میری کمر ٹوٹ گئی۔ جناب عباس کی شہادت کے بعد ٍ امام عالی مقام نے علمِ غازی عباس کو اپنی ہمشیرہ بی بی زینب کے سپرد کیا اور جناب زینب شہادتِ حضرتِ عباس کے بعد قافلہ حسینی کی سالار بن گئیں  - اما م سجاد علیہ السلا فرماتے ہیں  کہ خدا وند عالم کے نزدیک میرے چچا  عبّاس کی وہ منزلت ہے کہ تمام شہدا قیامت کے دن رشک کر ینگے 


پیر، 30 جون، 2025

شیعہ قوم میں ذوالجناح کیوں محترم اور معزز ہے

 


ذوالجناح کی شبیہ نکالنے کا آغاز برصغیر پاک و ہند کے علاقوں سے ہوا برصغیر پاک و ہند میں جب اسلام پھیلا اور مجالس و عزاداری کا سلسلہ قائم ہوا تو عقیدت کی بنا پر لوگ مزارات آل محمد ع تک تو نہیں پہنچ سکتے تھے لہذا روحانی القا کی خاطر شبیہ حرم بنانے کا سلسلہ شروع ہوا جسکو تعزیہ کا نام دیا گیا اکی طرح مصائب اہل بیت ع میں غیر انسانی کردار ذوالجناح کی شبیہ کا سلسلہ شروع ہوا عام روایات کے مطابق اکثر لوگوں کو بذریعہ بشارت اس شبیہ کو نکالنے کے احکامات ملے یقینا" اس بشارت میں کوئی راز قدرت موجود ہے برصغیر میں شبیہ ذوالجناح کا آغاز تعزیہ داری کے ساتھ ہی ملتان سے شروع ہوا پھر لاہور جس شہر کو ہمشیرہ امام حسین ع کی جائے سکونت کا اعزاز بھی حاصل ہے شبیہ عزاداری کا آغاز ہوا اسکے بعد یہ سلسلہ ریاست اودھ اور دکن کے علاوہ بنگال اور بہار تک پھیل گیا دکن میں شیعہ ریاستیں قائم ہوئیں پھر لکھنو اور دہلی میں عزاداری کو فروغ ملا امیر تیمور نے برصغیر پر جب چڑھائی شروع کی تو یہاں عزاداری پوری طرح قائم ہو چکی تھی مگر عہد تیمور میں باقاعدہ شبیہ تعزیہ ذوالجناح برآمد کرواگیا



اسلام میں جانور کی شبیہ کا تصور موجود ہے اسکی مثال قربانی کے جانور ہیں جو اس دنبے کی شبیہ ہیں جو حضرت اسماعیل ع کی جگہ ذبح ہوا تھا آج اس دنبے کی شبیہ بنا کر ہر سال لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں حالانکہ ہم خود ہی ان جانوروں کو اس دنبے سے نسبت دیتے ہیں پھر اسکے احترام میں اسکی رسی یا کیل کو جس جگ جسکے ساتھ اسماعیل نبی ع کی جگہ پر ذبح ہونے والے دنبہ کی شبہہ بندھی ہو ہم گستاخی نہیں کرتے ایسی کامل شبیہ بناتے ہیں کہ اسطرح اسے ذبح بھی کرتے ہیں یہاں اس سوال کا بھی جواب مل جاتا ہے کہ ذوالجناح تو ایک تھا پھر ہر شہر ہر گاؤں سے الگ الگ شبیہ کیوں نکالی جاتی ہیں کیوں جسطرح حضرت اسماعیل ع کی یاد میں ذبح ہونے والا دنبہ بھی ایک ہی تھا لیکن اس کی یاد میں لاکھوں جانور شبیہ بنا کر ذبح کیے جاتے ہیں لہذا جسطرح اس دنبے کی شبیہ کا مقصد ہے کہ قربانی حضرت اسماعیل ع یاد رہے اسی طرح شبہہ ذوالجناح کا مقصد ہے قربانی امام حسین ع یاد رہے  ذوالجناح کو سجانا اور گردن میں دو پٹے ڈالنے کی  رسم  -


کہا جاتا ہے کہ جب امام حسین ع نے ذوالجناح پر سوار ہو کر مقتل کی طرف رخ کیا تو تمام مستورات نے دررویہ  قطار بنا لی جیسے ہی ذوالجناح نے مستورات کی قطار کے درمیان چلنا شروع کیا تو تمام مستورات نے اپنے سروں پر بندھے کپڑےکھول کر ذوالجناح کی گردن میں باندھنے لگیں اور کہتی گئیں ہمارے سر کے اس بندھے کپڑے کی لاج رکھنا اور مشکل وقت میں امام حسین ع کو نہ چھوڑنا یاد رہے عرب خواتین برقعے کو سر پر سنبھالنے کے لیے دوپٹے کی طرح کا ایک کپڑا استمعال کرتی تھیں جو ماتھے سے سر کی پشت کی جانب باندھا جاتا تھا یہ بالکل دوپٹے کی مانند ہوتا تھا یوم عاشور مستورات نے ذوالجناح کی گردن میں یاددہانی کے طور پر سر کے دو پٹے باندھے آج خواتین نے ان مظلوم مستورات کی یاد میں بطور منت شبیہہ ذوالجناح کی گردن پر دوپٹہ باندھتی ہیں اور اللہ راہوار حسینی کے صدقے میں خواتین کی شرعی حاجات مستجاب فرماتا ہے


ذوالجناح کے پاؤں کی خاک -اللہ نے سورہ العادیات میں مجاہدین کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اٹھنے والے غبار کی قسم کھائی ہے جب مجاہدین کے گھوڑوں کے پاؤں کی خاک اتنی متبرک ہے کہ اللہ قرآن میں اسکی قسمیں کھاتا ہے تو رسول خدا ع اور امام حسین ع کے گھوڑے  کے سموں کی خاک کتنی متبرک ہو گی-جب دس محرم کو امام مظلوم علیہ السلام نے ریت کربلا پر سجدہ کے لیے سر جھکایا تو ذوالجناح نے پروانے کی طرح شمع امامت کا طواف کرنا شروع کر دیا ہر آگے بڑھنے والے کم بخت کا راستہ کاٹا کسی کو ضرب لگائی کسی کو دولتی کے مزے سے آشنا کیا اگر کوئی بہت قریب آیا تو دانتوں سے اسکی خبر لی۔ اس دوران اس کے جسم پر تیر پیوست ہوتے رہے، سنگ باری ہوتی، مگر یہ اپنے جسم پر کھاتا رہا۔ اس دوران شہزادی سکینہ سلام اللہ علیہا محبت پدر میں بیقرار ہو کر بابا کے پاس آ گئیں۔ امامؑ نے ذوالجناح کو حکم دیا کہ جنگ بند کر دے اور شہزادی سکینہؑ کو خیام تک پہنچا۔


یہاں یہ روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ جب امامؑ نے سجدہ شکر ادا کیا تو امامؑ نے غیب سے سورہ فجر کی آخری آیت کی آواز سنی تو ذوالجناح سے کہا جنگ کو چھوڑ دے کیونکہ اب رب نے اپنے سے راضی نفس کو راضی ہو کر بلا بھیجا ہے۔ ذوالجناح آگے بڑھا، آقا کے بہتے ہوئے خون سے پیشانی کو رنگین کیا، سرپٹ دوڑتا ہوا خیام میں آیا اور کربلا کی شیر دل خاتون کو امامؑ کی شہادت کی خبر سنا دی۔ اس خبر کو سن کر مستورات نے ذوالجناح کے گرد حلقہ بنا کر ماتم کرنا شروع کر دیا۔ اکثر روایات کے مطابق ذوالجناح اس حلقہ ماتم  کے درمیان سے ہی غائب ہو گیا۔ بعض روایات کے مطابق ذوالجناح مستورات کے حلقہ ماتم سے نکل کر نہر علقمہ کی جانب گیا جہاں حضرت عباس علیہ السلام کا لاشہ تھا اور خود کو نہر علقمہ کے پانی میں اتار کر غائب ہو گیا۔ چند مؤرخین کا خیال ہے کہ ذوالجناح خیمہ گاہ سے واپس مقتل میں آیا جہاں جنگ کرتے کرتے شہید یا غائب ہو گیا۔ بعض اہل علم کا نظریہ ہے کہ ذوالجناح پردہ غائب میں ہے، جب امام آخر زمان علیہ السلام کا ظہور ہو گا تو ذوالجناح ان کی خدمت کے لیے دوبارہ حاضر ہو گا۔ 

اتوار، 29 جون، 2025

پیکر علم و عرفان-مرزا سلامت علی دبیر



 مرزا سلامت علی دبیر (1875ء۔1803ء) اردو کےان نامور شعراء میں سے تھےجنہوں نے مرثیہ نگاری کو ایک نئی جدت اور خوبصورتی سے نوازا۔ آپ کو میر انیس کے ساتھ مرثیہ نگاری کا موجد اور بانی کہا جاتا ہے۔مرزا دبیر 1803ء کو دلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بچپن میں ہی محرم کی مجالس میں مرثیے پڑھنے شروع کر دیئے تھے۔ انہوں نے میر مظفر ضمیر کی شاگردی میں شاعری کا آغاز کیا۔ دبیر اپنے زمانے کے بہت بڑے دانشور بھی تھے۔۔مولانا محمد حسن آذاد اپنی کتاب ’’آب حیات‘‘ میں ’’تذکرۂ سراپا سکون‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ۔ دبیر اپنے زمانے کے بہت بڑے دانشور بھی تھے۔لکھنؤ شہر کو سلاطین  وقت  جو ایران سے ہجرت کر کے آئے تھے   ادب کا تراشا ہو نگینہ بنا دیا تھا  -  شعراء کی سرپرستی کرتے تھے تاکہ وہ فکر معاش سے آزاد ہو کر  اپنی  توجہ اپنے علم پر رکھیں -مرزادبیر   نے اپنی مزاجی کیفیت محسوس کر تے ہوئے  دہلی سے لکھنؤ ہجرت کی جہاں انہیں مرثیہ نگاری پر ذیادہ بہتر کام کرنے کا ماحول دستیاب ہوا۔


انہوں نے اپنی زندگی میں تین ہزار (3000) سے زائد مرثیے لکھےجس میں نوحے اور سلام شامل نہیں ہیں۔’’ہم طالع ہما مراد ہم رسا ہوا‘‘اس بے نقطہ نظم میں مرزا دبیر نے اپنے تخلص دبیر کی جگہ اپنا تخلص ’’عطارد‘‘ استعمال کیا اور اس پوری نظم میں شروع سے آخر تک ایک نقطے کا استعمال بھی نہیں کیا۔ ایک انگریز مصنف ، پرو فیسر اور قدیم اردو شاعری کے ماہر پروفیسر فرانسس ڈبلیو پرچیٹ نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ’’ اس طرح کا مکمل مرثیہ نگار، شاعر اور انسان دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا‘‘شاعری  کے میدان  میں ان کو الفاظ کی اتنی مہارت تھی  کہ انہوں نے بغیر نقطوں کے ایک کلام لکھا -آپ  کا ایک مشہور مرثیہ ۔کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے -ہر قصر سلاطین زمن کانپ رہا ہے -سب ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے-شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو- جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو -راحت کے محلوں کو بلا پوچھ رہی ہے- ہستی کے مکانوں کو فنا پوچھ رہی ہے- تقدیر سے عمر اپنی قضا پوچھ رہی ہے- دونوں کا پتہ فوج جفا پوچھ رہی ہے- غفلت کا تو دل چونک پڑا خوف سے ہل کر 

 
 

اگرچہ مرزا دبیر کی وجہ شہرت مرثیہ نگاری تھی لیکن انہوں نے شاعری کی دوسری اصناف پر بھی بہت کام کیا جس میں سلام، رباعی، قطعات اور غزلیات بھی شامل ہیں۔ آپ کی غزلوں کا اسلوب مرزا غالب سے ملتا جلتا ہے۔اردو ادب کی تاریخ میں مرزا دبیر اور میر انیس کی مرثیہ نگاری کا بہت زیادہ تقابل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ دونوں کی ہی وجہ شہرت مرثیہ نگاری تھی تاہم دونوں کا انداز اور اسلوب ایک دوسرے سے بہت مختلف تھا۔ بعد میں آنے ولےاردو ادب کے بہت سے ماہرین نے اس پر بہت ذیادہ کام کیا۔ اس عظیم ورثہ کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔دنیا کے مختلف مصنفین اور محققین نے مرزا دبیر کے فن شاعری  پر لاتعداد کتابیں لکھیں - اردو ادب کے شعراء کو سلام  عربوں میں مرثیہ نگاری کا رواج عام تھا۔ عبدالمطلب اور ابوطالب کے کہے ہوئے مرثیے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ حسان بن ثابتؓ نے حضرت   محمد  مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے وصال  پر بڑے دردناک پیرائے میں مرثیہ کہا۔ اسی حوالے سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا  نے بھی مرثیہ کہا۔ اور حضرت علی  علیہ السلام نے حضرت فاطمہ ؑکی وفات پر مرثیہ لکھا۔


انیس اور دبیر اکیڈمی لندن نے ان دونوں عظیم شعراء کی سالگرہ پر ’’اردو ادب میں انیس اور دبیر کا مقام‘‘ کے عنوان سے ایک عالمی سیمینار کا انعقاد کیاجس میں پاکستان، بھارت، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیااور برطانیہ کے علاوہ دنیا کے بہت سے ممالک کے ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کی اور مرزا دبیر و انیس کی شخصیات اور کام پر روشنی ڈالی۔اسی طرح کا ایک سیمینار 27 اکتوبر 2009ء کو کراچی میں بھی منعقد کیا گیا جس میں کینیڈا کے ڈاکٹر سیّد تقی عابدی   کے مطابق  اردو شاعری میں میر انیس اور مرزا دبیر نے دنیا کے کسی بھی اردو شاعر سے ذیادہ الفاظ استعمال کیےہیں۔مرزا دبیر کو جب  ضعف بصارت کا مرض لاحق ہوا  جس  کا علم نواب واجد علی شاہ  کو ہو گیا اور پھر نواب صاحب کی  خواہش پر بغرض ضعف بصارت علاج کے لئے  کلکتہ تک گئے اور مٹیا برج میں مہمان ہوئے ۔  مرزا دبیر نے بہ کثرت مرثیے لکھے جو کئی جلدوں میں چھپ کر شائع ہو چکے ہیں۔ ایک پورا مرثیہ بے نقط لکھا ہے۔دوسو سالہ جشن دبیر -2003ء میں پوری دنیا میں ان کا دو صد سالہ جشن ولادت منایا گیا۔


3 جنوری 2014ء کو مفس نوحہ اکیڈمی ممبئ انڈیانے مرزا دبیر کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئےمرزا دبیر کے مرثیوں پر مشتمل 35 وڈیوز کی ایک سیریز جاری کی۔جس کا عنوان تھا ’’مرزا سلامت علی دبیر کے سوز‘‘ جو کہ 8 مرثیوں پر مشتمل ہے (مدینہ تا مدینہ مکمل، 28 رجب سے 8 ربیع الاول) بھارت کے مشہور نوحہ خواں راحیل رضوی نے یہ مرثیے پڑہنے کا شرف حاصل کیا۔ان کے مرثیے اپنے فکری گہرائی، جذباتیت اور زبان و بیان کی خوبصورتی کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے واقعہ کربلا اور اہل بیت کی شہادت کو اپنے کلام کا موضوع بنایا اور اردو مرثیے کو ایک نئی بلندیوں تک پہنچایا.جب بھی مرثیہ نگاری اور اردو ادب میں خدمات کا ذکر کیا جائے گا مرزا دبیر کا  نام  ہمیشہ  سنہری حرفوں سے  لکھا جائے گا۔ شاعر اہلبیت مرزا دبیر کا 1875ء میں انتقال ہوا اور انہیں ان کے مکان کے اندر   ہی دفن کیا گیا۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 72 سال تھی
مرزا دبیر کے کچھ غیر منقوط اشعار
اول سرور دل کو ہو ، اس دم وہ کام کر
ہر اہل دل ہو محو ، وہ مدح امام کر
حاصل صلہ کلام کا دارالسلام کر
کر اس محل کو طور وہ اس دم کلام کر


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

لبنانی عیسائی مصنف جارج جرداق حضرت علیؑ کا بڑا عاشق تھا

       امام  دنیا امام عقبیٰ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ نے مجھ کو علوم اس طرح  سے سکھائے جس طرح چڑیا  اپنے بچوں کو  چ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر