منگل، 1 جولائی، 2025

شیر نیستان حیدر(عباس علمدار)




ولادت باسعادت قمر بنی ہاشم -معروف یہ ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت جمعہ کے دن چار شعبان سال ٢٦ ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ امیر المومنین نے اپنے نو مولود کا نام عباسؑ رکھا چونکہ مولائے کائنات حضرت  علی  علیہ السلام  جانتے تھے کہ ان کا یہ فرزند ارجمند  باطل کے مقابلے میں سخت اور ہیبت والے اور حق کے سامنے شاداب و تسلیم ہے۔  عباس اس شیر کو کہتے ہیں جس کو دیکھ کر دوسرے شیر بھاگ جاتے ہیں۔حضرت عباس علیہ السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو  آپ کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی آپ  کا ساتھ نہیں چھوڑا۔


 لفظ وفا آپ کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اور اسی لئے  آپ کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے ۔جنگ صفین-جنگ صفین امیر المومنین خلیفتہ المسلمین حضرت علی علیہ السلام کے خلاف شام کے گورنر نے مئی۔جولائی 657 ء مسلط کروائی۔ اس جنگ میں حضرت عباس علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کا لباس پہنا اور بالکل اپنے والد علی علیہ السلام کے طرح زبردست جنگ کی حتیٰ کہ لوگوں نے ان کو علی ہی سمجھا۔ جب علی علیہ السلام بھی میدان میں داخل ہوئے تو لوگ ششدر رہ گئے ۔ اس موقع پر علی علیہ السلام نے اپنے بیٹے عباس کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ عباس ہیں اور یہ بنو ہاشم کے چاند ہیں۔ اسی وجہ سے حضرت عباس علیہ السلام کو قمرِ بنی ھاشم کہا جاتا ہے۔واقعہ کربلا اور حضرت عباس علیہ السلام-واقعہ کربلا کے وقت حضرت عباس علیہ السلام کی عمر تقریباً 33 سال کی تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کو لشکر حق کا علمبردار قراردیا۔


 امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 72 افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد تیس ہزارسے ذیادہ تھی مگر حضرت عباس علیہ السلام کی ہیبت و دہشت لشکر ابن زياد پر چھائی ہوئی تھی ۔ کربلامیں کئی ایسے مواقع آئے جب عباس علیہ السلام جنگ کا رخ بدل سکتے تھے لیکن امام وقت نے انھیں لڑنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس جنگ کا مقصد دنیاوی لحاظ سے جیتنا نہیں تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت ابوالفضل العباس کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے : ”چچا عباس کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پرفائز ہوگئے آپ نےبڑ اہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے“ ۔امام حسینؑ کے پاسدار ، وفاؤں کے درخشان مینار، اسلام کے علمبردار، ثانیِ حیدرِ کرّار، صولتِ علوی کے پیکر ، خاندانِ رسول ص کے درخشان اختر ، اسلام کے سپاہ سالارِ لشکر ، قلزمِ علی کے نایاب گوہر، فاطمہ زہرا کے پسر، ثانیِ زہرا کے چہیتے برادر ،علمدار کربلا حضرتِ ابوالفضل العبّاس علیہ السلام ۔کسی کے قلم میں اتنی طاقت کہاں کہ انکی فضیلت  کا حق اداکر سکے 8 محرم کا دن علمدار کربلا سے منسوب ہے ، جرات اور شجاعت کے پیکر ر حضرت عباس علمدار واقعہ کربلا میں اپنے بھائی حضرت امام حسین کے شانہ بشانہ رہے۔


 انکی بہادری اور دلیری سے یزیدی لشکر پر بھی لرزہ طاری رہا۔حضرت عباس ابن علی فاطمہ بنت خذام کے صاحبزادے اور امام حسین کے لاڈلے چھوٹے بھائی، ان کو شجاعت اور بہادری اپنے والد حضرت علی سے ملی جس کو دیکھ کر دشمنوں پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ واقعہ کربلا کے موقع پر وہ امام حسین کے ساتھ ساتھ رہے۔یزیدی لشکر کی جانب سے پانی بند ہونے پر جہاں بڑوں نے صبر کیا۔ وہیں بچے پیاس سے نڈھال تھے  اور اپنے ننھے ننھے کوزے ا ٹھا ئے العطش العطش کہہ رہے تھے  اور پھر اپنی پیاری بھتیجی سکینہ کے پانی مانگنے پر عباس رہ نہ سکے، مشک و علم تھاما اور دریائے فرات کی جانب روانہ ہوگئے، فرات پر پہنچ کر انھوں نے جناب سکینہ کے مشکیزے میں پانی بھرا اور خیموں کی طرف روانہ ہوئے تو یزیدی لشکر نے  پشت سے حملہ کر دیا آپ کے ہاتھوں میں کوئ ہتھیار نہیں تھا -نیزوں اور تیروں کی بارش میں جناب عباس کے دونوں بازو  قطع ہوگئے۔ بازوؤں کے  کٹ جانے   کے بعد مشک کو دانتوں میں لے لیا ، لیکن لشکرِیزید کی جانب سے برسنے والے تیروں نے مشک کو بھی نہ چھوڑا۔


آقا حسین علیہ السلام فرات کے نشیب میں  اپنے زخموں سے چور بھائ کے پاس پہنچے  اور جناب عباس کا سر مبارک  اپنی آ غوش میں لیا  پھر آنکھ میں لگا ہوا تیر نکالا   اور جناب عباس سے فرمایا  عباس تم نے مجھے ہمیشہ آقا کہ کر مخاطب کیا اب اس وقت  مجھے بھائ کہہ کرمیرا دل ٹھنڈا کر دو مولا عباس نے امام حسین علیہ السلام کے حکم کی تعمیل کی اور جان جان آفریں کے سپرد کر دی - حضرت عباس  کی شہادت نے نہ صرف کربلا کے دشت میں  آل رسول  کو غم و اندوہ میں مبتلا کر دیا  عباسِ باوفا شہادت کے وقت بھی امام حسین اور اہل بیت رسول سے وفا نبھاتے رہے انکی شہادت کے موقع پر امام حسین نے فرمایا کہ آج میری کمر ٹوٹ گئی۔ جناب عباس کی شہادت کے بعد ٍ امام عالی مقام نے علمِ غازی عباس کو اپنی ہمشیرہ بی بی زینب کے سپرد کیا اور جناب زینب شہادتِ حضرتِ عباس کے بعد قافلہ حسینی کی سالار بن گئیں  - اما م سجاد علیہ السلا فرماتے ہیں  کہ خدا وند عالم کے نزدیک میرے چچا  عبّاس کی وہ منزلت ہے کہ تمام شہدا قیامت کے دن رشک کر ینگے 


1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام-فضائل و مناقب

     حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت 195 ہجری میں ہوئی آپ کا اسم گرامی ،لوح محفوظ کے مطابق ان کے والد  گرامی  حضرت امام رضا علیہ الس...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر