جمعرات، 17 اگست، 2023

ضرورت ایجاد کی ماں ہے

 

ایک پراٹھے میں لپٹے ہوئے مزیدار چٹنی کے ساتھ بھنے ہوئے گوشت کے چھوٹے ٹکڑے جن کو پراٹھا رول کہا جاتا ہے، پاکستان میں عام شہریوں کے لیے ویسے ہی ہیں جیسے امریکی عوام کے لیے ہاٹ ڈاگ۔کی تیز رفتار  کراچی میں یہ خوراک کا اہم جزو سمجھے جاتے ہیں۔ مختلف نسلوں اور زبانوں کے متنوع شہر میں پراٹھا رول کو فخریہ انداز میں مقامی تخلیق قرار دیا جاتا ہے۔یہاں یہ سوال نہیں ہوتا کہ کیا کسی نے پراٹھا رول کھایا ہے یا نہیں بلکہ سوال کیا جاتا ہے کہ سب سے اچھا پراٹھا رول کون بناتا ہے۔اس کی ترکیب سادہ ہے۔ کباب کو پراٹھے میں لپیٹ دیں۔ لیکن معصومہ یوسفزئی، جو کراچی میں ہی پلی بڑھی ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ دو پکوانوں کی شادی جیسا ہے۔عام طور پر کباب اور پراٹھا الگ الگ کھایا جاتا ہے لیکن ان دونوں کو اکھٹا کرنے سے ان کا ذائقہ اور مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔معصومہ کہتی ہیں کہ ’اس ترکیب کی مدد سے اسے ہاتھ میں پکڑ کر ایک ساتھ کھایا جا سکتا ہے، اور چٹنی کے ساتھ تو ہر نوالہ ذائقے کا سر محسوس ہوتا ہے۔ یہ اس تجربے کو بہت بہتر بنا دیتا ہے اور زیادہ ذائقے دار بھی۔‘پراٹھا رول کی کہانی بھی اتنی ہی مزیدار ہے۔ 1970 کی دہائی میں حافظ حبیب الرحمان نے کراچی کی مشہور طارق روڈ پر ’سلور سپون سنیکس‘ نامی دکان میں کباب رول کی ایک نئی ترکیب تیار کی جو کافی لذیذ ثابت ہوا۔

اس زمانے میں سلور سپون نئی دکان تھی جہاں ایک پلیٹ میں کباب اور پراٹھا الگ الگ پیش کیا جاتا تھا۔ یہاں چاٹ اور آئس کریم بھی ملتی تھی۔ایک دن ایک گاہک کو جلدی تھی اور وہ بیٹھ کر کھانے کے بجائے اپنا کھانا ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ حبیب نے جلدی میں کباب کو پراٹھے میں لپیٹ کر اس کے گرد کاغذ چڑھایا اور گاہک کے ہاتھ میں تھما دیا۔قریب ہی موجود ایک اور گاہک نے جب یہ دیکھا تو اس نے بھی فرمائش کی۔ حبیب کو سمجھ آئی کہ یہ طریقہ تو اچھا ہے۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ان کو زیادہ برتن نہیں دھونے پڑتے تھے۔ گاہکوں کو بیٹھنے کے لیے جگہ بھی درکار نہیں ہوتی اور ان کو کھانا بھی جلد مل جاتا۔یہ ایک نئی چیز بھی تھی۔حبیب کہتے ہیں ’جب ہم نے پہلی بار کباب رول متعارف کروایا تو ویٹرز کو سمجھانا پڑتا کہ کاغذ اتار کر اسے روٹی کی طرح نہیں کھانا۔‘حافظ حبیب الرحمان 1970 سے پراٹھا رول بنا رہے     ہیں -شروع شروع میں حبیب نے مفت پراٹھا رول بانٹا۔ وہ زیادہ بکنے والے کھانوں جیسا کہ چاٹ کے ساتھ رکھ دیتے یا پھر لبرٹی چوک پر کھڑی گاڑیوں میں کسی اخبار والے کی طرح پراٹھا رول بانٹتے کہ یہ مشہور ہو جائے۔اور ایسا ہی ہوا۔س زمانے میں کراچی میں فاسٹ فوڈ کا چرچہ تھا اور برگر اور سینڈوچ کھانے والے حبیب کے پراٹھا رول کو ناک چڑھا کر دیکھتے تھے۔لیکن تقریبا نصف صدی بعد پراٹھا رول جنوبی ایشیا کی ایک معروف سٹریٹ فوڈ بن چکا ہے جو پاکستان کے علاوہ انڈیا، بنگلہ دیش میں بھی مشہور ہے اور خطے کی خوراک کا چہرہ بن چکا ہے۔

کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈاکٹر سحر ندیم حامد کے مطابق پراٹھا رول نے روایتی خوارک کو جدت کا روپ دیا۔وہ کہتی ہیں کہ ’1970 کی دہائی میں ہمارے پاس گھر کے باہر سستے کھانے کے زیادہ مواقع نہیں ہوتے تھے۔ زیادہ لوگ ایرانی کیفے جاتے تھے لیکن وہ کافی مہنگے ہوتے تھے۔ ٹھیلے سستے تھے لیکن وہاں یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ آپ باہر جا کر کھانا کھا رہے ہیں۔ سلور سپون نے مقامی ذائقہ لے کر اسے فاسٹ فوڈ کی طرح پیش کیا جو سستا بھی تھا۔‘تیزرفتاری سے پھیلتے ہوئے اس بڑے شہر میں ایسی خوراک کی ضرورت بھی تھی۔ سحر کہتی ہیں کہ ’اگر آپ کو شاپنگ کرتے ہوئے مال میں بھوک لگی ہے تو آپ رول کھا سکتے ہیں یا دفتر میں کام کرنے والوں کو کم وقت میں کھانا مل سکتا ہے۔ یہ خاندان کے لیے تفریح کا بندوبست بھی ہے اور گھر کے کھانے سے الگ بھی۔‘1970 کی دہائی میں اپنی قیمت اور آسانی کی وجہ سے پراٹھا رول کی مقبولیت رفتہ رفتہ آسمان کو چھونے لگی۔ انھیں چلتے پھرتے یا ڈرائیونگ کرتے ہوئے بھی کھایا جا سکتا تھا اور وہ اتنے صاف ہوتے تھے کہ تیل اوپر لپٹے کاغذ کے ساتھ چپکا رہتا جبکہ ہاتھ صاف رہتے۔

واتین کے لیے بھی معاشرتی اعتبار سے یہ ایک موزوں پکوان تھا۔ وہ آرام سے پراٹھا رول لے کر کھا سکتی تھیں اور ان کو کسی جگہ بیٹھنا نہیں پڑتا تھا۔ سلور سپون میں بیٹھنے کی محدود جگہ کی وجہ سے زیادہ تر مرد گاہک ہی موجود ہوتے تھے۔جلد ہی سلور سپون نے ایک پوری انڈسٹری کو جنم دیا۔ ریڈ ایپل، ہاٹ اینڈ سپائسی، مرچیلی جیسے ناموں کے ساتھ پراٹھا رول بیچنے والی اور دکانیں بھی میدان میں آ گئیں۔

لیکن 1970 میں پراٹھا رول کا مزہ چکھنے والے افراد کو حبیب الرحمان کے توا پراٹھا کا وہ ابتدائی مزہ اور ذائقہ اب بھی یاد ہے۔حبیب بتاتے ہیں کہ جب بیرون ملک مقیم پاکستانی کراچی آتے تو وہ ایئر پورٹ سے سیدھا ان کی دکان پر پہنچتے چاہے وہ 20 یا 30 سال بعد بھی واپس آ رہے ہوتے۔ ان کے لیے پراٹھا رول گھر واپسی کا اظہار تھا۔2019 میں بین الاقوامی فوڈ چین کے ایف سی نے بھی ’زنگریتھا‘ نام کا پراٹھا رول متعارف کروایا جو زنگر برگر اور پراٹھے کے امتزاج تھا۔اشتہاری مہم میں ایسے نوجوان گاہکوں کے لیے اسے ایک حل کے طور پر پیش کیا گیا جو دیسی اور مغربی کھانوں کے بیچ پھنسے ہوئے تھے۔کے ایف سی نے کہا ’یہ کنفیوژن نہیں، فیوژن ہے۔‘پاکستان میں کافی لوگوں نے اسے کھایا لیکن ان کو زیادہ پسند نہیں آیا۔ ان کے نزدیک پراٹھا رول دو مقامی پکوانوں کا امتزاج تھا نا کہ مقامی اور مغربی ذائقے کا۔زلیخا احمد کراچی فوڈ ایڈونچر نامی فوڈ بلاگ چلاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کے ایف سی کے پراٹھے میں بہت زیادہ میاونیز اور میٹھی چٹنی تھی۔ ہمارے خیال میں کے ایف سی کو اپنے فرائیڈ چکن تک محدود رہنا چاہیے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’مقامی پراٹھا رول کا مخصوص ذائقہ چٹنی اور پیاز سے آتا ہے، جبکہ چکن کے گوشت کو کوئلوں کی آگ سے تیار کیا جاتا ہے جس کا ایک مخصوص ذائقہ ہوتا ہے۔ زنگریتھا کا صاف ستھرا فیوژن گلی میں تیار ہونے والے پراٹھے کے ذائقے کے قریب بھی نہیں تھا۔‘

ضیا تبارک سٹریٹ فوڈ پی کے نام ی کے نام سے یو ٹیوب چینل چلاتے ہیں۔ وہ بھی اس نکتے سے متفق ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’زنگریتھا کا نام ہی غیر مقامی نہیں لگتا بلکہ اس میں پاکستانی ذائقہ بھی نہیں تھا جو پراٹھا رول میں ہوتا ہے۔‘زنگریتھا اب بھی کے ایف سی میں دستیاب ہے اور اس کے گاہک بھی ہیں۔ لیکن کراچی کی گلیوں میں بکنے والے پراٹھا رول سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ضیا کہتے ہیں کہ ’میرے نزدیک یہ پراٹھا رول کی بڑی کامیابی ہے کہ کے ایف سی جیسی فوڈ چین نے اس کی نقل کرنے کی کوشش کی لیکن اصل تو اصل ہی ہوتا ہے، اس کی مکمل نقل نہیں کی جا سکتی۔‘

امام حسین ع سے ہندو شعرا و مشاہیرکی عقیدت

 

 

جھانسی کی رانی لکشمی بائی کو امام حسین سے غیر معمولی عقیدت تھی۔ پروفیسر رفیعہ شبنم نے اپنی کتابہندوستان میں شیعیت اور عزاداری میں جھانسی کی رانی کے تعلق سے لکھا ہے کہ وہ یوم عاشورہ بڑے خلوص وعقیدت کے ساتھ مجلس عزا برپا کرتی تھی۔ مہارانی لکشمی بائی کی قائم کردہ مجلس اب تک جھانسی پولیس کوتوالی میں منعقد کی جاتی ہے جہاں پہلے اس رانی کا قلعہ تھا جس نے امام حسین علیہ السلام سے حق پر ڈٹے رہنے کا سبق حاصل کیا تھا ۔ منشی جوالہ پرشاد اختر لکھتے ہیں کہصوبہ اودھ میں امام حسین کی فوج کے سپہ سالار اور علمبردار عباس کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھا جس کے اٹھانے کا سہرا مغلیہ فوج کے ایک راجپوت سردار دھرم سنگھ کے سر ہے۔ اودھ سلطنت میں لکھنؤ کی عزاداری کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ محرم کی مجلسوں اور جلوسوں میں ہندوں کی شرکت و عقیدت ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کا ایک ایسا نمونہ ہے جس نے قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

لکھنؤ کے ہندوؤں کی امام حسین سے عقیدت

مسز میر حسن علی نے لکھنؤ کی عزاداری کے سلسلہ میں اہل ہنود کی امام حسین سے غیر معمولی عقیدت و احترام کا ذکر اپنی ایک تحریر میں کرتی ہوئی لکھتی ہیں کہ لکھنؤ کا مشہور روضہ کاظمین ایک ایسے ہی ہندو عقیدت مند جگن ناتھ اگروال نے تعمیر کرایا تھا۔ اسی طرح راجا جھالال کا عزاخانہ جو آج بھی لکھنؤ کے ٹھاکر گنج محلہ میں واقع ہے جسے نواب آصف الدولہ کے دور میں راجا جھالال نے تعمیر کرایا تھا۔ راجا بلاس رائے اور راجا ٹکیل رائے نے بھی عزاخانے تعمیر کرائے اور ان میں علم اور تعزیے رکھے۔ گوالیار کے ہندومہاراجاں کی امام حسین سے عقیدت خصوصی طور پر قابل ذکر ہے جو ہر سال ایام عزا کا اہتمام بڑی شان و شوکت سے کرتے تھے۔مدھیہ پردیش کے علاقہ گونڈوانہ کے ضلع بیتول میں بلگرام خصوصًا بھاریہ نامی قصبہ میں ہریجن اور دیگر ہندو حضرات امام حسین سے بے پناہ عقیدت و محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے اہم اور ضروری کاموں میں کامیابی کے لیے حسین بابا کا تعزیہ اٹھانے کی منت مانتے ہیں۔

عصر حاضر کے نامور صحافی جمناداس اختر نے ہندوں کی عزاداری کے بیان میں حسینی برہمنوں میں عزاداری کی تاریخی روایات کی طرف نشان دہی کرتے ہوئے لکھاہے۔ حسینی برہمنوں میں دت اور موہیال ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو عقیدت مندوں کا تعلق زیادہ تر صوبہ پنجاب سے ہے حسینی برہمنوں کے بزرگ راہیب نے نصرت امام میں اپنے بیٹوں کو قربان کر دیا تھا۔ راہیب کو سلطان کا خطاب بخشا گیا تھا اسی مناسبت سے انہیں حسینی برہمن یا حسینی پنڈت بھی کہا جاتا ہے وہ امام حسین کے تقدس و احترام کے بڑے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہمیراتعلق موہیالیوں کی دت ذات سے ہے اور ہمیں حسینی برہمن کہا جاتا ہے۔ عاشورہ کے روز ہم لوگ سو گ مناتے ہیں۔ کم از کم میرے خاندان میں اس دن کھانا نہیں کھایا جاتا ہے۔ سری نگر کے امام باڑے میں حضرت امام حسین کا موئے مبارک موجود ہے جو کابل سے لایا گیا ہے۔ ایک حسینی برہمن اسے سو سال قبل کابل کے امام باڑے سے لایا تھا۔

کشمیر سے کنیا کماری تک پھیلے ہوئے ہندوستان میں ماہ محرم آتے ہی یہاں کے مختلف شہروں، قصبوں، پہاڑی بستیوں اور دیہاتوں میں عزاداری سیدالشہدا کی مجالس اور جلوس عزا میں مشترکہ تہذیب کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں ہندو عقیدت مند مسلمان عقیدت مندوں کے ساتھ شریک عزا ہوتے ہیں۔ کہیں ہندو حضرات عزاداروں کے لیے پانی و شربت کی سبیلیں لگاتے ہیں تو کہیں عزاخانوں میں جا کر اپنی عقیدتوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں اور اپنی منتیں بڑھاتے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ عقیدت مند ہندو خواتین اپنے بچوں کو علم اور تعزیوں کے نیچے سے نکال کر حسین بابا کی امان میں دیتی ہیں۔اجستھان اور آندھرا میں ہندوؤں کی عزاداریا مام حسینؑ کو غیر مسلم شعراء کا خراجِ عقیدت -آندھراپردیش کے لاجباڑی ذات سے تعلق رکھنے والے اپنے منفرد انداز میں تیلگو زبان میں دردناک لہجہ میں پر سوز المیہ کلام پڑھ کر کربلا کے شہیدوں کو اپنی عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح راجستھان کی بعض ہندو ذات کے لوگ کربل اکی جنگ کا منظرنانہ پیش کرتے ہیں اور ان کی عورتیں اپنے گاں کے باہر ایک جلوس کی شکل میں روتی ہوئی نکلتی ہیں۔ یہ عورتیں اپنی مقامی زبان میں یزیدی ظلم پر اسے کوستی ہیں اور اپنے رنج وغم کا اظہار اپنے بینوں کے ذریعے کرتی ہیں۔

 راجستھان میں ہندوں کی عزاداری کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ مہاراجے جو ہندو سوراج کے لقب سے جانے جاتے تھے شب عاشور سر و پا برہنہ نکلتے تھے اور تعزیہ پر نقدی چڑھایا کرتے تھے۔پریم چند کا مشہور ڈراما کربلا حق و باطل سے پردہ اٹھاتا ہے۔ اسی طرح اردو ادب میں ایسے ہندو شاعروں کی تعداد کچھ کم نہیں جنہوں نے اپنی معرکہ آرا منظوم تخلیقات میں معرکہ کربلا سے انسانیت کے اعلیٰ کرداروں کی خوشہ چینی کی ہے۔ ایسے قابل ذکر شعرا بیجاپور کے راماروا، مکھی داس، منشی چھنولال دلگیر، راجا بلوان سنگھ، لالہ رام پرشادبشر، دیاکشن ریحان، راجا الفت رائے، کنوردھنپت رائے، کھنولال زار، دلورام کوثری، نانک لکھنوی، منی لال جوان، روپ کماری، یوگیندر پال صابر جوش ملیشانی منشی گوپی ناتھ امن، چکبست، باواکرشن مغموم، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، کرشن بہاری، ڈالٹر دھرمیندر ناتھ، ماتھر لکھنوی، مہیندر سنگھ اشک، بانگیش تیواری، گلزاردہلوی، بھون امروہوی وغیرہ کا کلام امام حسین سے ان کی غیر معمولی عقیدتوں کا مظہر ہے۔

۔ اسلام کی بقاء کا راز کربلا ہے۔ جس طرح نبی کی نبوت کسی ایک قوم یا قبیلے کے لئے نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح امام ؑ کی امامت بھی تمام عالمِ بشریت و جن و انس کے لئے ہوتی ہے۔ میرے پاس ہندو اور سکھ شاعروں کا نعتیہ کلام بھی موجود ہے اور ان کا رثائی کلام بھی۔  ۔ میں سوچتا ہوں کہ حسین ؑ تو مسلمانوں کے نبی (ص) کے لاڈلے نواسے تھے۔۔ پھر ڈاکٹر ستنام سنگھ خمار کو حسینؑ سے اتنا عشق کیوں؟ نکتہ یہی ہے جو ہندو شاعرہ روپ کماری نے کہا تھا۔ جوش ملیح آبادی کا مصرع بھی لمحہ بہ لمحہ اس حقیقت کا گواہ بنتا چلا جا رہا ہے کہ ‘‘ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ -امام حسینؑ کو غیر مسلم شعراء کا خراجِ عقیدت -امام حسین ؑ صرف مسلمانوں کے لئے ہی قابلِ تعظیم نہیں بلکہ دنیا کا ہر عدل پسند انسان امامِ عالی مقام کی قربانی اور ہدف کو تعظیم و تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بے شک مسلم مشاہیر، مفکرین، علماء اور شعراء واقعہ کرب و بلا کو اپنے اپنے انداز میں خراجِ تحسین پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر