ہفتہ، 28 اکتوبر، 2023

ایک جنازے پرشہد کی مکھیوں کا حملہ

مولوی مشتاق اور بھٹو کے درمیان مخاصمت بہت پرانی تھی جب انیس سو ساٹھ کی دہائی کی شروعات میں بھٹو ایوب خان کی ہ میں وزیر تھے اور مولوی مشتاق مرکزی حکومت میں سیکرٹری قانون۔جب بھٹو وزیر اعظم انیس سو اکہتر میں اقتدار میں آئے تو انہوں نے مولوی مشتاق کو لاہور ہائیکورٹ میں ترقی دینے سے انکار کیا تھا۔ مولوی مشتاق جو خود بھی بھٹو کی طرح دشمن کو معاف نہ کرنے والا اور انتقام پسند  تھے،   جنہوں                      نے بھٹو کو کبھی معاف نہیں کیا۔مولوی مشتاق حسین نے جو کیا وہی کچھ سپریم کورٹ کے ججوں نے بھی کیا جس کا بعد میں جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی اعتراف کیا کہ بھٹو کے ساتھ ناانصافی ہوئی -اور    بتا تے ہیں کہ جسٹس مولوی مشتاق حسین کا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تعصب ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ میں نے انہیں بھٹو کی پھانسی روکنے کی درخواست کی لیکن وہ نہ مانے اور انتقال کے بعد جب مولوی مشتاق حسین کا جنازہ جا رہا تھا تو میں بھی اس میں شریک تھا۔اداکار شاہد بتاتے ہیں کہ اس جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا اور جسٹس نسیم حسن شاہ سمیت ان سب ججوں کو مکھیوں نے کاٹا، جنہوں نے بھٹو کو سزائے موت دی تھی، اس وقت صورتحال یہ ہوگئی تھی کہ لوگ جنازہ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے شائد یہ اس فیصلے کا ردعمل تھا۔جسٹس مولوی مشتاق حسین کا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تعصب ڈھکا چھپا نہیں تھا۔بھٹو نے سینیارٹی نظرانداز کرتے ہوئے انہیں چیف جسٹس نہیں بنایا تھا لہذا مولوی مشتاق حسین نے بھٹو کے خلاف فیصلہ سنانے میں انصاف کے سب تقاضوں کو پامال کیا۔

 مولوی مشتاق حسین نے جو کیا وہی کچھ سپریم کورٹ کے ججوں نے بھی کیا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی اعتراف کیا کہ بھٹو کے ساتھ ناانصافی ہوئی لیکن یہاں ہمیں ان ججوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے، جنہوں نے تمام تر دباؤ کے باوجود فوجی جرنیلوں کی مرضی و منشا کے مطابق فیصلے لکھنے سے انکار کیا۔انہی میں سے ایک بہادر جج چوہدری غلام حسین بھی تھے۔ وہ انسدادِ دہشت گردی کی ایک خصوصی عدالت کے سربراہ تھے۔ ان کی عدالت میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لاہور ریلوے اسٹیشن میں بم دھماکا کرانے کا مقدمہ زیرسماعت تھا۔ چوہدری صاحب نے اپنی کتاب ''جج، جرنیل اور جنتا‘‘ میں انکشاف کیا ہے کہ ایک دن لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے مجھے بلایا اور کہا کہ بھٹو کے خلاف فیصلہ سنا دو تو تمہیں ہائی کورٹ کا جج بنا دوں گا۔ چوہدری صاحب نے انکار کر دیا لہذا وہ ہائی کورٹ کے جج نہ بن سکے اور پھر مولوی مشتاق حسین کو نواب محمد احمد خان قتل کیس میں بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانا پڑی۔

چوہدری غلام حسین کی کتاب پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے کبھی کبھی کچھ منصفوں کو انصاف کی بجائے ناانصافی بھی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن ناانصافی کرنے والوں کا انجام وہی ہوتا ہے، جو مولوی مشتاق حسین کا ہوا۔ نہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری مولوی مشتاق ہیں نہ ہی  ذوالفقار علی بھٹو، پھر بھی نہ جانے کیوں وقت کے پرانے گنبد سے یہ سوال باز گشت بن کر ذہن سے ٹکرانے لگا ہے ”مولوی مشتاق کسے یاد ہے؟“۔مولوی مشتاق محض ایک جج کا نام نہیں۔ پاکستان کے اکثر لوگوں کے ساتھ ایک سلوک کا نام ہے۔ تاریخ کے گالوں پر اسی تھپڑ کا نام ہے۔ یاد ہے ملک کے منتخب اور تاریخ کے متنازع لیکن مقبول ترین وزیر اعظم کی پنجاب ہائی کورٹ میں قتل کے مقدمے میں پیشیاں اور پیشیوں کے دوران مولوی مشتاق کا رویہ بھٹو کے ساتھ جلّادوں سے بھی برا تھا۔ یاد رہے ایک ایسے ہی موقع پر چیف جسٹس مولوی مشتاق نے فائل بھٹو کے وکیل ایم ڈی اعوان کے منہ پر دے ماری تھی! بھٹو کو نام کا مسلمان کہا گیا اور اس کے عقیدے کے متعلق بھی سوال اٹھائے گئے۔ وہ سلوک جو ایک وزیر اعظم تو درکنار ایک پاکستانی شہری اور ایک ملزم سے ہونا چاہئے تھا مولوی مشتاق جیسے جج نے وہ بھی ذوالفقار علی بھٹو سے گوارا نہیں کیا تھا۔

کبھی نہیں ہوا کہ اوریجنل حدود اربع والی عدالت یا ٹرائل سیشن عدالت کے بجائے قتل کا مقدمہ براہ راست ہائیکورٹ میں چلایا جائے بھٹو کے کیس میں ان کے ساتھ یہی ہوا کہ ایمرجنسی میں لاہور ہائیکورٹ میں متعین کردہ جج مولوی مشتاق حسین نے مقدمہ سیشن عدالت سے لاہور ہائیکورٹ منتقل کرنے کا حکم دیا اور جو بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا مقدمہ سننے والی بنچ تشکیل دی گئی تھی اس کے سربراہ چیف جسٹس مولوی مشتاق خود تھے۔ جنرل ضیاء جو مولوی مشتاق اور بھٹو کے درمیان اس بیر کے متعلق سب جانتے تھے اور جن کی خود چھ سینئر جنریلوں کو نظرانداز کر کر چیف آف دی آرمی اسٹاف کے عہدے پرترقی دالونے والے ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ جنرل جیلانی تھے (جو بعد میں پنجاب کے گورنر اور شریف خاندان کے اصل محسن اور ان کو سیاست میں لانے والے بھی بنے) نے بھٹو حکومت کے دھڑن تختہ کرنے کے بعد مولوی مشتاق حسین کی بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تقرری کے احکام دیئے۔ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کے نایاب موتی کے ایم صمدانی نے جب بھٹو کی ضمانت کی درخواست منظور کردی تو مولوی مشتاق حسین نے بھٹو کا مقدمہ لاہور ہائیکورٹ منتقل کرنے اور خود کو اس بنچ کا سربراہ مقرر کیا، باقی سب تاریخ ہے۔اصل میں پاکستان کی بدقسمتی چار اپریل انیس سو نواسی کو نہیں اٹھارہ مارچ انیس سو اٹھہترکو شروع ہوتی ہے جب مولوی مشتاق کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی تھی۔

 

جمعہ، 27 اکتوبر، 2023

حضرت اما م حسن عسکری علیہ السّلام

 

حضرت اما م حسن عسکری علیہ السّلام

ولادت مبارک-گلستان نبوّت میں امامت کی منزل پر آپ کا ظہور ہوا تو تمام بنو ہاشم نے تبریک و تہنیت کا اہتمام کیا اور آپ کا نام نامی جو خداوند عالم کے پاس لوح محفوظ میں درج تھا وہ رکھّا گیا

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام 8 ربیع الثانی سن 232 ہجری قمری بروز جمعہ مدینہ منورہ میں جناب حدیثہ خاتون کے بطن مبارک سے متولد ہوئے۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے والد حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے رکھے ہوئے نام، حسن بن علی سے موسوم کیا -آپ کی کنیت ابو محمد تھی اور آپ کے بہت سے القاب تھے۔ -جن میں عسکری، ہادی، زکی خالص، سراج اور ابن الرضا زیادہ مشہور ہیں۔آپ کا لقب عسکری اس لیے زیادہ مشہور ہوا کہ آپ جس محلے میں بمقام سرمن رائے رہتے تھے، اسے عسکر کہا جاتا تھا اور بظاہر اس کی وجہ یہ تھی کہ جب خلیفہ معتصم باللہ نے اس مقام پر لشکر جمع کیا تھا اور خود بھی قیام پذیر تھا تو اسے عسکر کہنے لگے تھے، اور خلیفہ متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے بلوا کر یہیں مقیم رہنے پر مجبور کیا تھا نیز یہ بھی تھا کہ ایک مرتبہ خلیفہ وقت نے امام زمانہ کو اسی مقام پر نوے ہزار لشکر کا معائنہ کرایا تھا اور امام  علیہ السّلام نے اپنی دو انگلیوں کے درمیان سے اسے اپنے خدائی لشکر کا مشاہدہ کرا دیا تھا انہیں وجوہ کی بناء پر اس مقام کا نام عسکر ہو گیا تھا، جہاں امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام مدتوں مقیم رہ کر عسکری مشہور ہو گئے۔

آپ کا عہد حیات اور بادشاہان وقت:

آپ کی ولادت 232 ہجری میں اس وقت ہوئی جبکہ واثق باللہ ابن معتصم بادشاہ وقت تھا جو 227 ہجری میں خلیفہ بنا تھا ۔  پھر 233 ہجری میں متوکل خلیفہ ہوا۔ جو حضرت علی علیہ السّلام  اور ان کی اولاد سے سخت بغض و عناد رکھتا تھا،  ۔ اسی نے 236 ہجری میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت جرم قرار دی اور ان کے مزار کو ختم کرنے کی کوشش کی اور اسی نے امام علی نقی علیہ السلام کو جبرا مدینہ سے سرمن رائے میں طلب کرا لیا، ، اور آپ کو گرفتار کرا کے آپ کے مکان کی تلاشی کرائی ، پھر 247 ہجری میں مستنصر بن متوکل خلیفہ وقت ہوا پھر 248 ہجری میں مستعین خلیفہ بنا، پھر 252 ہجری میں معتز باللہ خلیفہ ہوا، اسی زمانے میں امام علیہ السلام کو زہر سے شہید کر دیا گیا پھر 255 ہجری میں مہدی باللہ خلیفہ بنا، ان تمام خلفاء نے آپ کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جو آل محمد کے ساتھ برتاؤ کیے جانے کا دستور چلا آ رہا تھا۔

تاریخ ابو الفداء

امام حسن عسکری علیہ السّلام کا پتھر پر مہر لگانا:

ثقۃ الاسلام یعقوب کلینی اور امام اہلسنت علامہ جامی نے لکھا ہے کہ:

ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں ایک خوبصورت یمنی آیا اور اس نے ایک سنگ پارہ یعنی پتھر کا ٹکڑا پیش کر کے خواہش کی کہ آپ اس پر اپنی امامت کی تصدیق میں مہر کر دیں حضرت نے مہر نکالی اور اس پر لگا دی آپ کا اسم گرامی اس طرح کندہ ہو گیا جس طرح موم پر لگانے سے کندہ ہوتا ہے۔

اصول کافی، کلینی، یعقوب، ج 1، ص 503

پہلا دور بچپن کے وہ 13 سال ہیں جو انہوں نے مدینہ میں گزارے۔

دوسرا  دور  جوآ  نے امامت سے قبل سامرا میں گزارا۔تیسرا دور ان کی امامت والے 6 سال ہیں۔ ان چھ سالوں میں حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہ تھے۔ اس وقت وہاں پر خلیفہ ہارون کی تقلید کرنے والے اپنی ظاہری طاقت کا مظاہرہ کرتے مگر امام ہمیشہ باطل مقابلے کے لیے میدان عمل میں کار فرما رہے۔ اپنی امامت کے چھ سالوں میں سے تین سال امام علیہ السلام قید میں رہے۔ قید خانے کے انچارج نے دو ظالم غلاموں کو مقرر کر رکھا تھا کہ آنحضرت علیہ السلام کو آزار پہنچائیں لیکن جب ان دو غلاموں نے امام علیہ السلام کے حسن سلوک اور سیرت کو نزدیک سے دیکھا تو وہ امام کے گرویدہ ہو گئے۔جب ان غلاموں سے امام حسن عسکری کا حال پوچھا جاتا تو وہ بتاتے کہ یہ قیدی دن کو روزہ رکھتا ہے اور شب بھر اپنے معبود کی عبادت کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور کسی سے بھی بات چیت نہیں کرتے، وہ (امام حسن عسکری علیہ السلام اس دور کے زاہد ترین انسان ہیں۔

عبید اللہ خاقان کے بیٹے نے کہا ہے کہ:

میں لوگوں سے ہمیشہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس ہوتا کہ لوگوں کے دلوں میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے لیے احترام اور محبت پا‏ئی جاتی تھی۔ امام حسن عسکری  علیہ السلام اپنے خاص شیعوں سے ملا کرتے تھے مگر پھر بھی عباسی خلیفہ اپنی حکومت کو تحفظ دینے کے لیے زیادہ تر ان پر نظر رکھتا اور  قید میں رکھ کر عام لوگوں سے ملاقات سے روکا کرتا تھا۔اہلبیت علیہم السلام محور خیر و برکت:ابو ہاشم جعفری نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے آیت:

ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْکِتابَ الَّذِینَ اصْطَفَیْنا مِنْ عِبادِنا فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سابِقٌ بِالْخَیْراتِ ،

کے بارے میں پوچھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:

کلّهم من آل محمّد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ( الظالم لنفسه ) الّذی لا یقرّ بالإمام و ( المقتصد ) العارف الإمام، و ( السابق بالخیرات ) الإمام.

سب محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے خاندان میں سے ہیں۔ جس نے امام کا اعتراف نہ کیا اس نے خود پر ستم کیا ، اور جس نے امام کو کما حقہ پہچان لیا اس نے میانہ روی اختیار کی۔ خدا کے احکام اور نیکی میں پہل کرنے والی بھی امام ہی کی ذات اقدس ہے

بدھ، 25 اکتوبر، 2023

حضرت سلیمان علیہ السّلام کی وراثت

  حضرت داود علیہ السّلام  کی وفات کا وقت قریب آ چکا تھا جبکہ حضرت داود علیہ السّلام بے پناہ دولت کے مالک تھے اور بروائتے آپ کے سولہ بیٹے تھے جن میں سے ہر بیٹا چاہتا تھا کہ حضرت داود علیہ السّلام کی جانشینی اس کو ملے لیکن ابھی حضرت داود علیہ السّلام کسی فیصلے پر نہیں پہنچے تھے کہ عرش بریں سے حضرت جبرئیل امیں تشریف لے آئے اورایک سر بمہر لفافہ حضرت داود علیہ السّلام کو دیا اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تمام بیٹوں کو جمع کیجئے اور پھر یہ لفافہ کھولئے اس میں جو سوال ہیں جو بیٹا ان کے پورے پورے درست جواب دے گا وہی آپ کی جان نشینی کا حقدار ہو گا -چنانچہ وقت مقررہ پر جب تمام بیٹے جمع ہو گئے تب حضرت داود علیہ السّلام نےلفافہ کی مہر جدا کر کے سوال کئے لیکن سوائے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے کوئ بیٹا درست جواب نہیں دے سکا اور اس طرح حضرت سلیمان علیہ السّلام حضرت داود علیہ السّلام کے جان نشین قرار پائے اور حضرت داود علیہ السّلام کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائدا داور تمام مال مویشی کے وارث ہوئے- شاہی محل کی بارہ دریوں میں بے فکری کی زندگی گزارنے والے اللہ کے فرماں بردار، وہ کم عُمر نوجوان ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم بھی نہ رکھ پائے تھے کہ اُن کے والد محترم اللہ کے نبی اور بادشاہِ وقت حضرت دائود علیہ السلام انتقال فرماگئے۔ انھوں نے عُمر ِمبارک کی صرف تیرہ بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ عظیم الشّان سلطنت کا بوجھ ناتواں کاندھوں پر آگیا۔ تختِ شاہی پر براجمان ہوئے تو اپنے ربّ کے حضور، کام یابی کی دُعا کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے۔ ’’اے میرے پروردگار! مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما کہ جو میرے بعد کسی کو بھی میسّر نہ ہو۔‘‘ (سورئہ ص،آیت 35) رب العالمین نے اپنے محبوب بندے کی دُعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور ہفت اقلیم بناکر دنیا کی ہر شے کو اُن کا مطیع و فرماں بردار بنادیا۔ نبوّت و حکمت سے سرفراز فرما کر، ہوا، سمندر، پہاڑ، دریا، چرند، پرند، انسان، حیوان، جنّات و شیاطین، مال و دولت نباتات و معدنیات، حتیٰ کہ جانوروں اور پرندوں کی بولیوں کا علم تک اپنے نبی ؑ کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔ خود اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ ’’ہم نے تندوتیز ہوا کو سلیمانؑ کے تابع کردیا۔‘‘ (سورۃ الانبیاء، 81)۔ ’’اور ہم نے جنّات کو بھی اور دوسرے جنّات (شیاطین) کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے، اُن کے ماتحت کردیا۔‘‘ (سورئہ ص، آیات 37-38) ’’اور ہم نے بہت سے شیاطین کو بھی اُن کے تابع کردیا۔‘‘ (سورہ الانبیاء، 82) ’’اور ہم نے اُن کے لیے تانبے کا چشمہ بہادیا۔‘‘ (سورہ سبا،آیت 12)۔ دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام جیسی بادشاہت کسی کو نصیب نہ ہوئی۔جانوروں، پرندوں کی بولیوں کا علم: اللہ کے برگزیدہ بندے اور بنی اسرائیل کے نبی حضرت سلیمان علیہ اللام کے والد بھی نبی تھے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’اور ہم نے یقیناً داؤدؑ اور سلیمانؑ کو علم دے رکھا ہے۔‘‘ (سورہ نمل، 15) اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کو جانوروں اور پرندوں کی بولیاں جاننے کا علم دیا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت سلیمان جِن وانس اور حیوانات کے عظیم الشان لشکر کے ساتھ کسی جگہ تشریف لے جارہے تھے، لشکرِ عظیم چلتے چلتے ایک ایسی وادی میں پہنچا، جو بے شمار چیونٹیوں کا مسکن تھی۔ چیونٹیوں کی ملکہ نے جب انبوہِ کثیرِ، لشکر کو دیکھا، تو کہا۔ ’’اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو، ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں سلیمانؑ اور اُن کا لشکر تمہیں روند ڈالے۔‘‘ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُس کی بات سنی تو مسکرادیے اور اللہ سے دُعا کی۔ ’’اے میرے پروردگار! تُو مجھے توفیق دے کہ مَیں تیری ان نعمتوں ، احسانات کا شُکر بجا لائوں، جو تُونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پرکیے ہیں۔‘‘ (سورئہ نمل، آیات 18-19)۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے منقول ہے کہ ’’نبیؐ نے چار جانوروں (حشرات )کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہُدہُد اور لٹورا۔‘‘ (سنن ابو دائودؑ، 5267)۔ہُدہُد کو حاضر ہونے کا حکم: ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے سفر کے دوران ہُدہُد کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔ ہُدہُد اُس وقت موجود نہیں تھا۔ اُس کے بغیر اطلاع غیر حاضر ہونے پر آپ کو غصہ آگیا اور فرمایا۔ ’’اگر ہُدہُد نے غیرحاضری کی معقول وجہ نہیں بتائی، تو اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کردوں گا۔‘‘ (سورۃ النمل،21)۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے سوال کیا گیا کہ تمام پرندوں میں سے صرف ہُدہُد کو کیوں بلایا گیا؟ آپ نے جواب دیا، ’’حضرت سلیمان علیہ السلام نے کسی ایسی جگہ قیام فرمایا تھا، جہاں پانی نہیں تھا۔‘‘ قصہ قومِ ثمود اور حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کااللہ تعالیٰ نے ہُدہُد کو یہ خاصیت عطا فرمائی ہے کہ وہ زمین کے اندر کی چیزوں اور زمین کے اندر بہنے والے چشموں کو دیکھ لیتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ ہُدہُد سے معلوم کریں کہ اس میدان میں کتنی گہرائی میں پانی ہے؟ ہُدہُد کی نشان دہی کے بعد وہ جنّات کو حکم دیتے کہ زمین کھود کر پانی نکالو۔ ’’ہُدہُد زمین کے اندر کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسے زمین کے اوپر شکاری کا بچھایا ہوا جال نظر نہیں آتا اور عموماً جال میں پھنس جاتا ہے۔‘‘ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیر، صفحہ 556)۔قومِ سبا پر سیلاب کا عذاب: قومِ سبا800سال قبلِ مسیح کے لگ بھگ یمن کے علاقے میں آباد تھی۔ انہوں نے اپنے پہاڑی علاقوں میں بہت سے بند تعمیر کر رکھے تھے، جن میں سب سے بڑے بند کا نام ’’سدِّمآرب‘‘ ت انہوں نے ان بندوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک مربوط و موثر نظام بھی بنا رکھا تھا، جس کی وجہ سے باغات کے سلسلے سیکڑوں میل دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں یمن، تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا، جس کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، مگر پھر آہستہ آہستہ وہ قوم مذہبی و اخلاقی زوال کا شکار ہوئی، تو اللہ ذوالجلال نے اُنھیں نبیوں کے ذریعے متنبہ فرمایا۔ بالآخر انہیں اُن کی ناشکری اور سرکشی کی سزا دی گئی اور اُنھیں فراہم کردہ تمام نعمتیں سلب کرلی گئیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُن کا سب سے بڑا بند، سدِمآرب ٹوٹ گیا اور یوں ایک خوف ناک سیلاب قہرِ خداوندی بن کر اُن پر ٹوٹ پڑا اور اس قوم کا نام و نشان ایسا مٹا کہ دنیا میں اُن کی صرف داستانیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ قومِ سبا پر سیلاب کے عذاب کا یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے تقریباً سوا سو سال قبل یعنی450عیسوی کے لگ بھگ پیش آیا۔ بند ٹوٹنے کی وجہ سے یہ علاقہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا، سیلاب کے عذاب سے زندہ بچ جانے والے لوگ عراق اور عرب کے دوسرے علاقوں میں ہجرت کرگئے۔ یثرب میں آباد ہونے والے قبائل اوس اور خزرج کا تعلق بھی یمن سے تھا۔ قومِ سبا کی تباہی کے بعد مذکورہ تجارتی شاہ راہ پر قریشِ مکّہ کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ ،  

منگل، 24 اکتوبر، 2023

ایلو ویرا یا کوار گندل

 

 



 ایلو ویرا آپ کے لئے  کس 'کس طرح فائدہ مند ہو سکتا ہے آئے دیکھتے ہیں ۔قدیم یونان، مصر، ہندوستان، میکسیکو، جاپان اور چین وغیرہ میں اس کا طبی استعمال صدیوں سے ہورہا ہے اور اسے متعدد امراض سے نجات کا نسخہ سمجھا جاتا ہے۔موجودہ عہد میں یہ افریقہ، ایشیا، یورپ اور امریکا میں اگتا ہے اور ہر سال کروڑون افراد اسے مختلف مقاصد کے لیے مختلف شکلوں جیسے جیل، جوس اور کیپسول وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں -درحقیقت کاسمیٹک، فوڈ اور فارماسیوٹیکل انڈسٹریز قدرت کے اس عجوبے پر انحصار کرتی ہیں جو ہزاروں برسوں سے انسان استعمال کررہے ہیں

 ۔تو اس میں ایسا کیا خاص ہے ؟ تو اس کا جواب اس میں چھپنے اینٹی آکسائیڈنٹس اور جراثیم کش خصوصیات میں چھپا ہے، اس پودے کے پتے 3 تہوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور ہر تہہ کا اپنا فنکشن اور استعمال ہے۔

ایلوویرا وٹامنز اور منرلز سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس میں وٹامن اے، سی، ای، بی 1، بی 2، بی 3 اور بی 12؛ پروٹین، لپڈز، امائینو ایسڈز، فولک ایسڈ اور کیلشیئم، میگنیشیئم، زنک، کرومیئم، سیلینیئم، سوڈیئم، آئرن، پوٹاشیئم، کاپر اور مینگنیز جیسے منرلز شامل ہوتے ہیں جو ہماری صحت بہتر رکھنے کے لیے مفید سمجھے جاتے ہیں اور ان کی کمی سے مختلف اقسام کی بیماریاں ابھر آتی ہیں۔ ہم انسانوں کے لئے اسی زمین سے کیا کیا نعمتیں عطا کی ہیں کہ ہم ان کا شمار کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے ہیں -ان پیاری پیاری نعمتوں میں ایک بہترین غذائ نعمت ایلو ویرا بھی ہے جو کہ غ‍‍ذا کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے بہترین شفا کا بھی باعث ہے-آئیے اس کی شفا اور غذا دونوں طرح کی ا فادیت  پر نظر ڈالتے ہیں ایلو ویرا کے فائدے جاننے سے پہلے آیئے ایلو ویرا کا مختصر تعارف ۔ ایلو ویرا ایلو نسل کی ایک خوشگوار پودوں کی ایک خاص نسل ہے۔ تقریبا پانچ سو نسلوں کے ساتھ ایلو ویرا وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جاتا ہے اور دنیا کے بہت سارے علاقوں میں سے ایک ناگوار نوع سمجھا جاتا ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب سے نکلتا ہے۔ ایلوویرا کو پنجابی زبان میں کوار گندل کہا جاتا ہے۔ایلو ویرا(کوار گندل) کے فوائد  کواور گندل کے ان گنت فائدے ہیں جن میں سے کچھ کی فہرست دردج ذیل ہیں-ایلو ویرا جسے گھیکوار یا کوار گندل بھی کہتے ہیں ایک ایسا پودا ہے جو اپنے آپ میں بے شمار طبی فوائد کا خزانہ رکھتا ہے۔ ڈاکٹر ایلو ویرا کو کھانے میں استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کیوں کہ بہت ساری امراض کے علاج میں اپنا عمدہ کردار ادا کرتا ہے۔یہ جلدی امراض جیسا کہ معدے کی خرابی، دانت کا درد، بال کا جھڑنا یا سر کی خشکی جوڑوں اور پھٹوں کی تکلیف، آرائش حسن اور دیگر کئی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔جگر اور تلی کی بیماریوں میں اس کے گودے کو بہت ہی شفا بخش تصور کیا جاتا ہے۔ جو لوگ جگر کی بیماری میں مبتلا ہیں انہیں ایلو ویرا کا استعمال با قاعدگی سے کرنا چاہئیے۔نزلہ زکام اور کھانسی بہت ہی عام سی بیماری ہی جو اکثر کچھ لوگوں میں تو خاندانی پائی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں ایلو ویرا کے بھونے ہوئے پتوں کا جوس شہد کے ساتھ لینا بہترین علاج ہے۔ ایسا کرنے سے پرانے سے پرانا نزلہ زکام بہت کم عرصہ میں ٹھیک ہو جائے گا۔گھیکوار یا ایلوویرا کمر درد، جوڑوں کے درد میں افاقه دیتی ہے۔ اس کے موئثر علاج کے لیے روزانہ ایک پتے کا گودا کھانا مفید ہے۔ اس پتے کو آپ چاہیں تو قیمہ کے ساتھ کھانے میں کھا سکتے ہیں۔

یہ متعدد غدودوں کو دفعال بنانے میں بھی معاون ہے۔ ایک پتے کا گودا  کالے نمک اور ادرک کے ساتھ روزانہ  صبح دس دن تک استعمال کرنا جگر کی خرابی کے لیے مفید ہے۔ اور غدودوں کے مسائل سے چھٹکارا پانے کا مویئژ طریقہ ہے۔ایلو ویرا یا کوار گندل کے جیل یا گودے کا استعمال چہرے کی جھریوں کو کم کرنے کے لیے بے حد فائدہ مند ہے۔ ایلوویرا میں موجود وٹامن E اور C آپ  کی جلد کی نمی کو برقرار رکھتا ہے۔ایلو ویرا جسم کے مدافعتی سسٹم کو بڑھانے،منہ کے چھالوں، السر اور کینسر میں بھی بہت مفید ہے۔ کوار گندل میں کئی معدنیات اور وٹامن پائے جاتے ہیں جو انسانی جسم کے لیے انتہائی مفید ہوتے ہیں۔ ان میں کیلشیم، پوٹاشیم، آئرن، زنک کمیم، میگنیز، کا پروا میگن یشیم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایلو ویرا جیل میں وٹامن B12 کی A,B گروپ C,E اور فولک ایسڈ بھی موجود ہوتا ہے۔ لہذا ایلو ویرا جیل کا با قاعده استعمال ان معدنیات کی کمی کو پورا کرتا ہے۔ایلو ویرا کا جیل یا گودے کا استعمال چہرے کے دانوں اور کیل مہاسوں کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔ یہ جلد کے داغ دھبوں کو دور کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔کوار گندل یا ایلویرا کا گودا آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کو دور کرنے اور آنکھوں کی خوبصورتی کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔رمیوں میں اگر ایلو ویرا کے گودے کو چہرے ،ہاتھوں اور پیروں پر لگایا جائے تو آپ کی دھوپ کی شدت سے نیہں ہوتی اورایسے آپ کی جلد کی نمی رونق دونوں برقرار رہتی ہے۔یہ ایک سن بلاک کا بھی کام کرتی ہے، دھوپ میں نکلنے سے پہلے اسے چہرے پر لگانے سے چہرہ کالا نہیں ہوتا۔ دھوپ میں جانے سے پیلے ایلو ویرا کا استعمال کرنا چہرے کو سن برن سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

لڑکیوں کے چہرے اور ناک پر نظر آنے والے بلیک ہیڈز دراصل کھلے منہ والے دانے ہوتے ہیں جو سکن کو خراب رکھتے ہیں اور سکے ساتھ ساتھ خوبصورتی کا داغ لگاتے ہیں۔ بلیک ہیڈز سے نجات کے لیے بہترین نسخہ ہے ایلو ویرا کا استعمال جو نہ صرف بلیک ہیڈز ختم کرے گا بلکہ چہرے کو پاک صاف کر دے گا۔جل جانے صورت میں ایلو ویرا کا رس لگائیں ، جلن دور اس کے جراثیم کش اثرات زخموں کو خراب ہونے سے بچاتے ہیں اور جہاں چھالے پر جائیں وہ جلد ٹھیک ہو جاتے ہیں۔قبض اوربواسیر کی شکایات کے لیے رات کو سونے سے پہلے دو چمچ ایلو ویرا کھالیں اور ساری رات کی شکائیتوں سے بچیں۔ایلو ویرا کا حلوہ کمر کے درد، جوڑوں کی اینتھن اور مجموعی طور پر جسمانی کمزوری دور کرنے کے لئے اکسیر سمجھا جاتا ہے۔ عرق النساء کے مریض بھی ڈاکٹر کے مشورے کے ساتھ استعمال کر سکتے ہیں۔ایلو ویرا جیل  جلد کے داغ دھبوں کو دور کرنے کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے.مردوں کے لیے چہرے پر شیو کرنے کے بعد ایلو ویرا جیل  کا استعمال بہتر رہتا ہے۔ چونکہ شیو کے دوران مردوں کے چہرے پر معمولی زخم ہوجاتے تو اس ضمن میں اگر وہ ایلو ویرا کے گودے کو چہرے پر لگائیں تو اس سے انھیں ٹھنڈک  کا احساس بھی ہوگا اور انکے زخم بھی جلد بھر جایئں گے۔

معدے کی گرمی سے نجات

ایلو ویرا جیل جلاب جیسی خصوصیات رکھتا ہے جو نہ صرف آنتوں میں پانی کی مقدار بڑھاتا ہے بلکہ فضلے کی حرکت کو بھی آسان کرتا ہے۔ معدے کی جلن پر قابو پانے کے لیے آدھا کپ ایلو ویرا جیل کھانے سے پہلے پی لیں۔ اس سے  معدے میں جلن یا تزابیت کی شکایت پر ضرورت پڑنے پر پی لیں۔پیٹ اندر کرنے کے لئےتین کھانے کے چمچ ایلو ویرا کا جیل، گرائپ فروٹ ایک کپ دونوں کو ملا کر بلینڈ کر کے پی لیں۔ اس کے استعمال سے پیٹ پر جمی اضافی چربی آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی اور جو پیٹ نکلا ہوا ہو گا وہ با آسانی اندر ہو جائے گا۔ایلو ویرا نظام انہضام  کو بہتر کرتا ہےاگر آپکو ہاضمے میں مسلہ درپیش ہو تو آپ ایلو ویرا کے استعمال سے اس سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی مشہور اور مفید طریقہ ہے جس سے آپکا پورا نظام انہضام بلکل درست ہو جاتا ہے۔ یہ قبض اور اسہال کے خاتمے کے لیے بھی انتہائی  کار آمد ہے۔ یہ اخراج کے کے نظام کو بھی درست کرتا ہے۔ایلو ویرا آنتوں کے کیڑوں کا خاتمہ کرتا ہے

پیر، 23 اکتوبر، 2023

ایلی کاٹ سے علی گوہر بننے تک کا سفر

 جب انسان عشق کے راستے کا مسافر بن جاتا ہے تب اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے ایک نیا جنم لیا ہے اور اس کا پچھلا جنم محض ایک خواب و خیال تھا اس پوسٹ میں آپ کو میں ایک ایسے ہی عاشق امام مظلوم کربلا کے بارے میں بتانا چاہوں گی -صوبہ سندھ کے ضلع حیدر آباد میں گذشتہ 52 سال سے محرم کی آٹھ تاریخ کو ایلی کاٹ کے نام سے بھی ایک ماتمی جلوس  نکالاجا  تا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایلی کاٹ کون تھے اور اُن کی کہانی کیا ہے۔حیدرآباد کے چند عمر رسیدہ لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ ایلی کاٹ سفید فام تھے اور وہ ہر سال محرم الحرام میں سیاہ کپڑے زیب تن کیے عزاداری میں پیش پیش نظر آتے تھے۔بیلے ڈانس کے دلدادہ ایلی کاٹ اپنے ڈرائیور کی زبانی واقعہ کربلا سُن کر ایسے مسلمان ہوئے کہ انھوں نے گھر بار اور بیوی بچے سب کچھ چھوڑ دیا اور مرتے دم تک ’غم حسین‘ کو سینے سے لگائے رکھا۔چارلی ایلی کاٹ جنھوں نے مسلمان ہونے کے بعد اپنا نام علی گوہر رکھا، ان کا جنم کہاں ہوا اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تاہم انھیں ایلی کاٹ سے علی گوہر بنے 82 سال ہو چکے ہیں۔والدہ بھی نذر نیاز کرتیں-حکومت سندھ کے مرتب کردہ انسائیکلوپیڈیا سندھیانہ کا دعویٰ ہے کہ ایلی کاٹ عرف علی گوہر کی والدہ لیڈی ڈفرن ہسپتال حیدرآباد میں میڈیکل سپرنٹینڈنٹ تھیں اور ان کے والد آرتھر سڈنی کاٹ حیدرآباد اور میرپورخاص میں کلیکٹر تھے۔

چارلی ایلی کاٹ کی والدہ حیدرآباد کے ہر ماتمی جلوس میں نذر و نیاز کرتی تھیں۔ ایلی کاٹ کی والدہ کے منشی محمد علی کی بیگم سے اچھے مراسم تھے۔ ان کی اولاد نہیں تھی تو ایک بار جب اشرف شاہ کے پڑ سے جلوس آرہا تھا تو سب کو دعا مانگتا ہوا دیکھ کر انھوں نے بھی دعا مانگی اور اسی سال ان کو اولاد نرینہ ہوئی۔انسائکلوپیڈیا سندھیانہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر لیڈی ڈفرن محرم میں ایلی کاٹ کو سیاہ کپڑے پہناتی تھیں۔ بعد میں ایلی کاٹ نے اسلا قبول کیا اور اپنا نام علی گوہر رکھا۔وہ سندھ کے محکمہ ایکسائز میں انسپکٹر بھی رہے۔ وہ اپنا وقت قدم گاہ اور اشرف شاہ کے پڑ میں گزارتے تھے۔وہ لندن بھی گئے جہاں والد نے ان کی شادی کرائی۔ ان کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا بھی تھا۔قیام پاکستان کے بعد انھوں نے واپس جانے سے انکار کیا اور یوں ماں بیٹا یہاں مقیم ہو گئے۔

 ایلی کاٹ کی وفات 1971 میں ہوئی اور اشرف شاہ کے پڑ کا نام ایلی کاٹ کے نام سے مشہور ہوا۔واضح رہے کہ پڑ سندھی میں اس علاقے کو کہتے ہیں جہاں علم لگایا جاتا ہے اور ذوالجناح کا جلوس نکالا جاتا ہے۔ قدیم حیدرآباد میں ہر علاقہ وہاں کے رہائشی افراد کے پیشے کے لحاظ سے آباد ہوا اور تالپور حکومت میں ہر جگہ پڑ اور علم بنائے گئے۔حیدر آباد میں گذشتہ 54 سال سے محرم کی آٹھ تاریخ کو ایلی کاٹ کے نام سے بھی ایک ماتمی جلوس نکالا جاتا ہےایلی کاٹ نے اپنی انگریز بیوی سے کہا وہ ’مومن‘ ہونا چاہتے ہیں -ایلی کاٹ کے ڈرائیور کا نام عبدالغفور چانڈیو تھا اور ان سے ہی واقعہ کربلا اور حضرت علی کے حالات زندگی کے بارے میں سُن کر ایلی کاٹ کو بھی حسینی قافلے میں شامل ہونے کا شوق ہوا۔

عبدالغفور چانڈیو کے بیٹے غلام قادرچانڈیو نے سنہ 2004 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ایلی کاٹ نے اُن کے والد عبدالغفور سے کہا تھا کہ وہ بھی ماتمی جلوس نکالنا چاہتے ہیں لیکن عبدالغفور چانڈیو گریز کرتے رہے اور کہتے رہے کہ اس کے لیے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے۔بقول غلام قادر، چارلی اپنے فیصلہ پر اٹل رہے۔ بالآخر عبدالغفور نے چارلی ایلی کاٹ کی سرپرستی میں ماتمی جلوس نکالنے کے لیے حامی بھر لی، جس پر چارلی کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہیحیدرآباد کے پکے قلعہ میں چانڈیوں کی امام بارگاہ سے پہلی بار ذوالجناح کا جلوس نکالنے کی تیاری کی گئی۔ یکم محرم الحرام کو جب یہ جلوس روانگی کے لیے تیار تھا تو عجیب اتفاق یہ ہوا کہ چارلی کی والدہ کی وفات ہو گئی۔غلام قادر بتاتے ہیں کہ بابا عبدالغفور نے ایلی کاٹ کو یاد دلایا کہ انھیں پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ اس کام میں بڑی قربانی دینی پڑتی ہے جس سے ایلی کاٹ کا ایمان اور پختہ ہو گیا۔

ایلی کاٹ نے صبح کو والدہ کی حیدرآباد کے شمال میں واقع گورا قبرستان میں تدفین کی اور شام کو اپنے غم کو بھول کر اور سیاہ کپڑے پہن کر ننگے پاؤں ماتم میں شامل ہو گئے۔غلام قادر جو ایلی کاٹ کے ساتھی رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ ایلی کاٹ نے اپنی انگریز بیوی کو بتایا کہ وہ ’مومن‘ ہونا چاہتے ہیں۔ اس لیے اُن کے سامنے دو راستے ہیں، پہلا یہ کہ وہ بھی مسلمان ہو جائیں اور دوسرا یہ کہ واپس انگلینڈ چلی جائیں اور اپنی زندگی گزاریں۔اُن کی بیوی نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور وہ بچوں سمیت انگلینڈ چلی گئیں، جہاں سے وہ کبھی بھی چارلی کے لیے لوٹ کر نہیں آئیں۔چارلی اب علی گوہر بن چکے تھے۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر چلے گئے جہاں انھوں نے چھ ماہ تک ملنگوں والی زندگی گزاری۔ چھ ماہ بعد حیدرآباد لوٹ آئے اور بقیہ تمام زندگی اپنے ڈرائیور عبدالغفور کے پاس رہ کر گزار دی۔17 اپریل 1971 کو چارلی ایلی کاٹ کی وفات ہوئی اور انھیں اُسی ماتمی گنبد میں دفن کر دیا گیا، جہاں وہ رہتے تھے۔


اتوار، 22 اکتوبر، 2023

بادشاہ "خدا بندہ” کے شیعہ ہونے کا خوبصورت قصہ

 



علامہ حلی قدس سرہ کے ہاتھوں ، بادشاہ "خدا بندہ” کے شیعہ ہونے کا خوبصورت قصہ -علامہ حلی کی زندگی کی اہم خصوصیت، ان کے ہاتھوں بادشاہ "محمد خان خدا بندہ” کا شیعہ ہونا ہے کہ جس کی وجہ سے اور بھی بہت سارے لوگ شیعہ ہوئے اور شیعہ کتابیں پھیل گئیں۔ اور جس کے بعد ایران میں مذہب جعفری کو ملک کے رسمی مذہب کے طور اعلان کیا گیا ۔تفصیل کچھ یوں ہے کہ 709 قمری کو ایلخانیان سلسلے کے گیارہویں بادشاہ "خدا بندہ "نے شیعہ مذہب اختیار کر لیااور شیعہ مذہب کو پھیلانے میں اہم خدمات انجام دیں اور جب تبریز گیا اور وہاں کے تخت پر بیٹھا تو اسے "بخشے گئے بادشاہ "کا لقب دیا گیا۔ انہی کے حکم سے ملک میں نئے سکے رائج کرنے کا حکم دیا گیا جن کے ایک طرف پیامبر اکرم ﷺ اور ائمہ معصومین کے نام نقش کئے گئے اور دوسری طرف اس کا اپنا نام۔

خدا بندہ اصل میں سنّی تھا، لیکن کچھ وجوہات نے اس کے دل کو شیعیت کی طرف مائل ہونے پر مجبور کیا۔ علماء کی بڑی بڑی مجلسیں ترتیب دینا اسے پسند تھا، انہی مجالس میں سے ایک میں علامہ حلی بھی پہنچے اور شافعی عالم دین شیخ نظام دین کو مناظرہ میں شکست دی۔ بادشاہ علامہ حلی کی دلائل سن کر مبہوت ہوا اور زبان ان کےگن گانے لگی اور کہا: "علامہ حلی کی دلیلیں بالکل واضح ہیں۔ لیکن ہمارے علماء جس راستے پر چلے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے فی الحال اس کی مخالفت کرنا اختلاف اور جھگڑے کا باعث ہے۔ اس لیے ضروری ہے ان باتوں پر پردہ پڑا رہے اور لوگ آپس میں مت جھگڑیں۔”

اس کے بعد بھی مناظروں کا سلسلہ چلتا رہا اور علامہ حلی کی دلیلوں کو سن کر اور علمی مرتبے کو دیکھ کر بادشاہ متاثر ہوتا رہا۔ آخر کار بادشاہ کی طرف سے اپنی بیوی کو تین بار طلاق دینے کا مسئلہ پیش آیا۔ ایک دن بادشاہ کو غصہ آیا اور ایک ہی مجلس میں تین بار اپنی بیوی کو تجھے طلاق ہے کا صیغہ دہرایا۔ بعد میں بادشاہ کو اپنے اس کام پر شرمندگی ہوئی۔ اسلام کے بڑے بڑے علماء کو بلایا گیا اور ان سے اس مسئلے کا حل پوچھا۔ سب علماء کا ایک ہی جواب تھا: "اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ آپ اپنی بیوی کو طلاق دیں، اور پھر وہ کسی مرد کے ساتھ شادی (حلالہ) کر لیں، پھر وہ اگر طلاق دیتا ہے تو آپ دوبارہ اس عورت کے ساتھ شادی کر سکتے ہیں۔” بادشاہ نے پوچھا: "ہر مسئلے میں کچھ نہ کچھ اختلاف اور گنجائش ہوتی ہے۔ اس مسئلے میں ایسا کچھ نہیں ہے؟” سب علماء نے مل کر کہا: "نہیں۔ اس کے علاوہ کوئی راہ حل نہیں۔” وہاں بیٹھا ایک وزیر بولا: "میں ایک عالم دین کو جانتا ہوں جو عراق کے حلًہ شہر میں رہتے ہیں اور ان کے مطابق اس طرح کی طلاق باطل ہے۔” (اس کی مراد علًامہ حلی تھے)۔ خدا بندہ نے علامہ حلی کو خط لکھ کر اپنے پاس بلا لیا۔ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے علامہ حلی نے حلہ سے سلطانیہ (زنجان کے قریب کا ایک علاقہ) کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔ بادشاہ کے حکم سے ایک بہت بڑی مجلس کا اہتمام کیا گیا اور تمام مذاہب کے علماء کو دعوت دی گئی جن میں اہل سنت کے چاروں فقہوں کے بڑے علماء شامل تھےعلامہ حلًی کا اس مجلس میں آنے کا انداز سب سے مختلف اور عجیب تھا۔ جوتے اتار کر ہاتھ میں لیے، تمام اہل مجلس کو سلام کیا اور پھر جا کے بادشاہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے۔ دوسرے مذاہب کے علماء نے فورا اعتراض کیا: "بادشاہ حضور! کیا ہم نے نہیں کہا تھارافضیوں کے علماء میں عقل کی کمی ہوتی ہے۔” بادشاہ نے کہا: ” اس نے یہ جو حرکت کی ہے اس کی وجہ خود اس سے پوچھو۔” علمائے اہل سنت نے علامہ حلی سے تین سوال کیے:

۱۔ کیوں اس مجلس میں آتے ہوئے بادشاہ کے سامنے نہیں جھکے؟ اور بادشاہ کو سجدہ نہیں کیا؟

۲۔ کیوں آدابِ مجلس کی رعایت نہ کی اور بادشاہ کے ساتھ جا کے بیٹھ گئے؟

۳۔ کیوں اپنے جوتے اتار کر ہاتھ میں لیے آگئے؟

علامہ حلی نے جواب دیا: پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ پیامبر اکرم ﷺ حکومت میں سب سے بلند مرتبہ رکھتے تھے، جبکہ لوگ (صحابہ) ان کو صرف سلام کرتے تھے، سجدہ نہیں کرتے تھے۔ قرآن کریم کا بھی یہی حکم ہے: (… فَاِذا دَخَلْتُمْ بُیُوتا فَسَلِّمُوا عَلَی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّةً مِنْ عِنْدِاللّهِ مبارَکَةً طَیِّبَةً…)ترجمہ: پس جب گھروں میں داخل ہوں تو اپنے اوپر سلام کرو، اور خدا کی طرف سے بھی پر برکت اور پاکیزہ سلام ہو۔ اور تمام علمائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ غیر خدا کے لیے سجدہ جائز نہیں۔دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اس مجلس میں سوائے بادشاہ کے ساتھ والی کرسی کے کوئی اور نشست خالی نہ تھی، اس لیے میں وہاں جا کے بیٹھ گیا۔اور جہاں تک تعلق ہے تیسرے سوال کا کہ کیوں اپنےجوتے ہاتھ میں لیے آیا اور یہ کام کوئی عاقل انسان نہیں کرتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے ڈر تھا کہ باہر بیٹھے حنبلی مذہب کے لوگ میرے جوتے نہ چرا لیں۔ چونکہ پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں ابو حنیفہ نے آپ ﷺکی جوتے چرا لیے تھے۔ حنفی فقہ کے علماء بول پڑے: بے جا تہمت مت لگائیں۔ پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں امام ابوحنیفہ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ علًامہ حلی نے کہا: میں بھول گیا تھا وہ شافعی تھے جنہوں نے آپﷺ کے جوتے چرا لیے تھے۔ شافعی مذہب کے علماء نے فریاد بلند کی: تہمت مت لگائیں۔ امام شافعی تو امام ابو حنیفہ کے روز وفات پیدا ہوئے تھے۔ علًامہ حلًی نے کہا: غلطی ہوگئی۔ وہ مالک تھے جنہوں نے چوری کی تھی۔ مالکی مذہب کے علماء فورا بول پڑے: چپ رہیں۔ امام مالک اور پیامبر اکرمﷺ کے درمیان سو سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ علًامہ حلی نے کہا: پھر تو یہ چوری کا کام احمد بن حنبل کا ہوگا۔ حنبلی علماء بول پڑے کہ امام احمد بن حنبل تو ان سب کے بعد کے ہیں۔

اسی وقت علامہ حلی نے بادشاہ کی طرف رخ کیا اور کہا: آپ نے دیکھ لیا کہ یہ سارے علماء اعتراف کر چکے کے اہل سنت کے چاروں اماموں میں سے کوئی ایک بھی پیامبر اکرمﷺ کے زمانے میں نہیں تھے۔ پس کیا بدعت ہے جو یہ لوگ لے کر آئے ہیں؟ اپنے مجتہدین میں سے چار لوگوں کو چن لیا ہے اور ان کے فتوی پر عمل کرتے ہیں۔۔ ان کے بعد کوئی بھی عالم دین چاہے جتنا بھی قابل ہو، متقی ہو، پرہیزگار ہو، اس کےفتوی پر عمل نہیں کیا جاتا بادشاہ خدا بندہ نے اہل سنت کے علماء کی طرف رخ کر کے کہا: سچ ہے کیا کہ اہل سنت کے اماموں میں سے کوئی بھی پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں نہیں تھا؟ علماء نے جواب دیا: جی ہاں۔ ایسا ہی ہے۔ یہاں علامہ حلی بول پڑے: صرف شیعہ مذہب ہے جس نے اپنا مذہب امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ سے لیا ہے۔ وہ علیؑ جو رسول خدا کی جان تھے، چچا زاد تھے، بھائی تھے اور ان کے وصی تھے۔ شاہ خدا نے کہا: ان باتوں کو فی الحا ل رہنے دو، میں نے تمہیں ایک اہم کام کے لیے بلایا ہے۔ کیا ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقیں درست ہیں؟ علامہ نے کہا: آپ کی دی ہوئی طلاق باطل ہے۔ چونکہ طلاق کی شرائط پوری نہیں ہیں۔ طلاق کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ دو عادل مرد طلاق کے عربی صیغے کو سن لیں۔ کیا آپ کی طلاق کو دو عادل لوگوں نے سنا ہے؟ بادشاہ نے کہا : نہیں۔ علامہ نے کہا: پس یہ طلاق حاصل نہیں ہوئی اور آپ کی بیوی اب بھی آپ پر حلال ہے۔ (اگر طلاق حاصل ہوتی بھی تو ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں ، ایک طلاق کے حکم میں ہیں۔)اس کے بعد بھی علامہ نے اہل سنت علماء کے ساتھ کئی مناظرے کئے اور ان کے تمام اشکالات کے جوابات دئیے۔  خدا بندہ نے اسی مجلس میں شیعیت قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد علامہ حلی کا شمار بادشاہ کے مقربین میں سے ہونے لگا اور انہوں نے حکومتی امکانات سے اسلام اور تشیع کو مضبوط کرنے کے لیے استفادہ کیا۔

حسن اتفاق یہ کہ شاہ خدا بندہ اور علامہ حلًی دونوں ایک ہی سال میں ، یعنی 726 ہجری میں اس دنیا سے انتقال کر گئے۔

حوالہ 📚منتخب التواريخ، ص 410،

حكايات علما با سلاطين، ص 69.

تبدیلی سختی سے منع ہے شیئر کرسکتے ہیں ۔شکریہ

نوٹ ۔۔سورہ فاتحہ کی اپیل ہے برائے ارواح علماء حقہ و آیت اللہ عظام

خادم انصار امام زمانہ عجہ

مظھر علی مطھری۔   

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر