ہفتہ، 29 جولائی، 2023

شہادت حضرت عباس علمدار علیہ السلام

 

ہر تشنہ ہدایت کے لیے ہادی برحق   وہ نہ صرف شجاعت اور جنگ کے میدان میں نمونہ اور سرمشق ہیں۔ بلکہ ایمان اور اطاعت حق کی منزل میں، عبادت اور شب زندہ داری کے میدان میں اور علم اور معرفت کے مقام پر بھی انسان کامل ہیں-مولائے  کائنات حضرت علی علیہ السّلام  کی خصوصی تربیت نے  شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا جناب عباس  علیہ السّلامکا وہ عظیم فہم و ادراک اسی تربیت کا نتیجہ تھا۔ ایک دن مولاءے کائنات حضرت علی علیہ السّلام  عباس کو اپنے پاس بٹھائے ہوئے تھے حضرت زینب(س) بھی موجود تھیں امام نے اس بچے سے کہا: کہو ایک۔ عباس نے کہا : ایک۔ فرمایا : کہو دو۔ عباس نے دو کہنے سے منع کر دیا۔ اور کہا مجھے شرم آتی ہے جس زبان سے خدا کو ایک کہا اسی زبان سے دو کہوں۔ امام، عباس کی اس زیرکی اور ذہانت سے خوش ہوئے اور پیشانی کو چوم لیا۔ آپ کی ذاتی استعداد اور خاندانی تربیت اس بات کا با عث بنی کہ جسمی رشد و نمو کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معنوی رشد و نمو بھی کمال کی طرف بڑھی۔ جناب عباس   علیہ السّلامنہ صرف قد و قامت میں ممتاز اور منفرد تھے بلکہ خرد مندی، دانائی اور انسانی کمالات میں بھی منفرد تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کس دن کے لیے پیدا ہوئے ہیں تاکہ اس دن حجت خدا کی نصرت میں جانثاری کریں۔ وہ عاشورا ہی کے لیے پیدا ہوئے تھے۔

جنگ صفّین اور حضرت عبّاس علمدار- 

حضرت علی علیه السلام نے حضرت عباس علمدار کی تربیت و پرورش کی تهی۔ حضرت علی علیه السلام سے انهوں نے فن سپه گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجه اسلامی علوم و معارف خصوصا´ علم فقه حاصل کئے۔ 14 سال کی معمولی عمر تک وه ثانی حیدر کهلانے لگے۔ حضرت عباس علیه السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکهتے تهے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے هوئی تهی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بهبود کے لئے خاص طور پر مشهور تهے۔ اسی وجه سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل هوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ هے جو ان کے روحانی کمال کی بهترین دلیل هے۔ وه اپنے بهائی امام حسین علیه السلام کے عاشق و گرویده تهے اورسخت ترین حالات میں بهی ان کا ساته نهیں چهوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساته وابسته هوگیا هے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شهنشاهِ وفا هے ۔ 

جنگ صفین حضرت علی علیه السلام اور شام کے گورنر معاویه بن ابی سفیان کے درمیان مئی۔جولائی 657 ء میں هوئی۔ اس جنگ میں حضرت عباس علیه السلام نے حضرت علی علیه السلام کا لباس پهنا اور بالکل اپنے والد علی علیه السلام کی طرح زبردست جنگ کی حتیٰ که لوگوں نے ان کو علی هی سمجها۔ جب علی علیه السلام بهی میدان میں داخل هوئے تو لوگ ششدر ره گئے ۔ اس موقع پر علی علیه السلام نے اپنے بیٹے عباسؑ کا تعارف کرواتے هوئے کها که یه عباسؑ هیں اور یه بنو هاشم کے چاند هیں۔ اسی وجه سے حضرت عباس علیه السلام کو قمرِ بنی هاشم کها جاتا هے۔  مروی ہے کہ ابو الشعثاء نے انتہائی غیظ و غضب کی حالت میں نکل کر رجز خوانی کرتے ہوئے نکلا اور کہا: اے نوجوان تم نے میری پوری اولاد کو قتل کیا خدا کی قسم میں تمہارے باپ اور ماں کو تمہاری عزا میں بٹھا دوں گا۔ چنانچہ لڑا اور مارا گیا اور جب یہ نقاب پوش نوجوان واپس لشکرگاہ میں آیا تو امیرالمؤمنین علیه السلام نے اس کے چہرے سے نقاب ہٹایا اور سب نے دیکھا کہ وہ عباس بن علی علیه السلام تھے۔ 

شائد علی  علیہ السّلام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب آپ کی تمام اولاد آپ کے اطراف میں نگراں وپریشاں اور گریہ کناں  حالت میں جمع تھی، عباس کا ہاتھ حسین کے ہاتھ میں دیا ہوگا اور یہ وصیت کی ہوگی عباس تم اور تمہارا حسین کربلا میں ہوں گے کبھی اس سے جدا نہیں ہونا اور اسے اکیلا نہ چھوڑنا۔شہادت حضرت عباس علمدار علیہ السلام-لشکر حسینی کا علمبردار قمر بنی ہاشم-ایمان ،شجاعت اور وفا کی بلندیوں پر جب نگاہ کرتے ہیں تو وہاں ایک شخص نظر آتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی جو فضل و کمال میں ، قوت اور جلالت میں اپنی مثال آپ ہے۔جو اخلاص ،استحکام ، ثابت قدمی اور استقلال میں نمونہ ہے اور ہر اچھی صفت جو انسان کی بزرگی کو عروج عطا کرتی ہے اس شخص میں دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک لشکر کا علمبر دار نہیں بلکہ مکتب شہادت کا سپہ سالار ہے جس نے تمام دنیا کی نسل جوان کو درس اطاعت،وفاداری ،جانثاری اور فداکاری دیا ہے۔ اور وہ حیدر کرار کا لخت جگر عباس ہے۔ شدید پیاس کے عالم میں جانے کس ادا سے علم اٹھایا کہ علم کا نام سنتے ہی بے ساختہ غازی عباس علیہ اسلا م کا نام گرامی ذہن میں آتا ہے- غازی، جری، شیر ،پیکر ایثار ، باوفا، سقہ سکینہ ، حسین علیہ اسلام کی ہمت ، لشکر حسینی کا علمبردار،بچوں کی آس ،عباس علمدار علیہ اسلام ہیں 

جب اطفال  کربلا پیاس کے سبب  ناله و زارى کررہے تهے، تب عباس  علیہ السّلام پانى لانے کے لئے اجازت طلب کرنے تب اعباس  علیہ السّلام پانى لانے کے لئے اجازت لینےمو لا حسین  کے پاس تشریف لاۓ اس وقت امام مظلوم کے چہرے پر افسردگی چھا گی اور آپ نے فرمایا بھائی ،، تم ہمارے لشکر کے علم بردار ھو، اور تم بھی ہم کو چھوڑے جارہے ہو۔ غازی نے ایک طرف گرم ریت پر پائمال لاشوں کی طرف اشارہ کیا مولا جس لشکر کا میں علمبردار تھا وہ تو زمیں کربلا کی گرم ریت پر پائمال ہوگیا ہے مجھہ سے سکینہ اور چھوٹے بچوں کی پیاس نہین دیکھی جاتی ۔ معصوم سکینہ اپنی چھوٹی سی خشک مشکیزہ اٹھا کر لائ اور چچا کے گلے میں ڈال دی ۔بی بی سکینہ نے سارے پیاسوں بچوں کو جمع کیا اور کہا اپنے اپنے کوزے لے آؤ میرے عمو اب پانی لینے جاتےہیں ۔ تین دن کے بھوکے پیاسے بچے اپنے اپنے ۔کوزے اٹھا کر در خیمہ پر بیٹھ گئےادھر علم لیکر لشکر حسینی کا علمبردار چلا ۔ امام نے حکم دیا تھا ،عباس جنگ نہیں کرنی ۔ حکم امام نے غازی کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں صرف ایک تلوار لی ، حضرت عباس کو دیکھتے ھی لشکر یذید میں ہیبت پھیل گی –

حضرت عباس باوفا نے اپنی تلوار کی طاقت سےیزیدی فوجوں میں انتشار پیدا کیا اور فرات کی جانب پیش قدمی کی ایک طرف ہزاروں کی تعداد میں تازہ دم لشکر ایک
   طرف تین دن کا بھوکا پیاسہ   عباس باوفا نے اسد اللہی طاقت کا مظاہرہ کیا کہ فوج بھاگ گی ۔غازی نے فرات پر قبضہ کیا مشکیزہ بھرا ، ایک دفعہ پانی چلو میں لیا اور پھر پھینک دیا سکینہ کی علی اصغر کی پیاس یاد آئی۔مشک بھر کر کے گھوڑے پر سوارہوۓ آگے بڑھنے لگے ۔ لشکر یذیذ کو شکست کا یقین ہوگیا -چنانچہ کمیں گاہ سے تیروں کی بارش ہونے لگی پہلے دایاں ہاتھہ قلم کیا گیا پھر بایاں ہاتھہ قلم ہوا تب آپنے دانتوں سے مشک پکڑ لی - آپ ّپھر بھی بہادری سے مشک کی حفاظت کرتے ہوے   آگے بڑھتے گے یہاں تک کے ایک تیر مشک سکینہ پر لگا اور سارا پانی بہہ گیااس کے ساتھ سر پر پپیچھے سے گرز کا وار ہوا اور آپ نے مولا حسین کو آواز دی- غازی کے جسم میں اس قدر تیر ونیزے تھے کہ اب گھوڑے پر ٹکنا مشکل ہوگیا تھا۔ کوئی بھی سوار جب گھوڑے سے زین سے زمین پر آتا ہے تو اپنے دونوں ہاتھوں کا سہارا لیتا ہے    غازی کی اس مصبیت کو کیسے بیان کروں حسین کا شیر زمین پر کیسے آیا

۔ امام دریا کی ترائ میں پہنچے اور ذخموں سے چور 'چور بھائ کا سر اپنے زانو پر رکھّا مولا عباس نے امام حسین  سے کہا مولا میری لاش خیمہ    میں مت لے جایئےگا میں سکینہ سے شرمندہ ہوں پھر آپ نے کہا  کہ آقا میں نے آنکھیں کھول کر سب سے پہلے آپکی زیارت کی تھی  اب دنیا سے جاتے ہوے بھی آپکی زیارت کرنا چاھتاہوں- ایک  ایک آنکھہ میں خون بھرا ہے اور دوسری آنکھ بھی زخمی ہے مولا حسین نے اپنی عبا کے دامن سے مولا عباس کی آنکھ کا لہو صاف کیااور پھر   امام اعلی مقام نے فرمایا ، اے میرے باوفا بھائی ساری زندگی ھم کو آقا کہہ کر پکارا ہے ایک بار بھائی کہہ دو۔ حضرت عباس بھی ان اولیاء الٰہی میں سے ایک ہیں جو ہر سالک الی اللہ کے لیے مشعل راہ بنتے ہیں مولا عبّاس نے بھائ کہ کر چہرہ ءامام کی زیارت کی اور آخری ہچکی کے ساتھ اور خلد بریں کو سدھار گئے 

بعد شہادت آپ کا سر مبارک بھی اور شہدا کے سروں کے ہمراہ دربار یزید میں بھیجا گیا۔  اور جسمِ مبارک کو گھوڑوں کے سموں سے پامال کیا گیا۔   روضہ اقدس عراق کے شہر کربلا میں ہے جہاں پہلے ان کا جسم دفن کیا گیا اور بعد میں شام سے واپس لا کر ان کا سر دفنایا گیا۔ دریائے فرات جو ۔ غازی کے روضے سے کچھ فاصلے پر تھا اب   قبر مبارک کے اردگرد چکر لگاتا ہے۔ 

جمعہ، 28 جولائی، 2023

شہادت پسران زینب عون و محمّد

 

 

 

 

 

 روائت ہے کہ بعد از ولادت امام حسین علیہ السّلام حضرت جبرئیل امیں تشریف لائے اور جناب رسول خدا کو نومولود بچّے کی مبارکباد کے ساتھ اس کی شہادت کی سے بھی آگاہ کیا تو رسول اللہ نے بے اختیار گریہ کیا -جب بی بی سیّدہ نے آپ کے گریہ کرنے کا سبب پوچھا تب آ پ نے جبرئیل امیں کا پیغام بی بی سیدہ کو بتایا تب بی بی سلام للہ علیہ  روئیں اور پھر اپنے بابا جان سے دریافت کیا کہ جب میں آپ اور علی علیہ السّلام کوئ بھی دنیا میں نہیں ہو گا میرے بچّے کی نصرت کے لئے کون ہو گا  فرمایا کہ جب دنیا میں آپ وعلی مرتضےٰ کوئی نہ ہوں۔تو اللہ ایک قوم پیدا کرے گا جو تا قیامت تمھارے حسین پر گریہ کرے ۔یہ تمہاری نور نظر زینبؑ اپنے بھائی کی عزادار ہو گی۔اور اپنے دو جگر کے ٹکڑے حسینؑ پر قربان کرئے گی  -الغرض جب وہ زمانہ آیا اور امام ؑ مظلوم دشمنوں کے ظلم وجور سے تنگ آکر مدینہ سے کربلا پہنچے اور نرغہ کفار میں گھر گئے۔ تو آخر صبح عشرہ محرم بعد فراغت نماز ناخدائے جہاز آل نبیؑ یعنی فرزند زہراؑ وعلیؑ مع عزیز وانصار آمادہ پیکار ہوا۔

  بعد شہادت اصحاب باوفا جب عزیزان  ماہ لقا کی باری آئی ۔تو حضرت عون و محمدؑ کو جوش شجاعت نے بے تاب کیا تو جناب امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر اجازت جہاد طلب کی۔مگر آپ ادھر عون محمدؑ جناب امام حسینؑ سے رخصت پر مصر تھے۔آخر دونوں کو لیے ہوئے امام کون ومکان داخل عصمت سرائے ہوئے۔ان کے پیچھے پیچھے جناب علی اکبرؑ بھی تشریف لائے۔ حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مقدسہ جس طرح کائنات کی اعلیٰ ترین ہستی ہیں اسی طرح اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے آپ کی قربانیاں بھی سب سے اعلیٰ ہیں جیسے آپ کی قربانیاں سب سے اعلیٰ ہیں ویسے ہی آپ کے خاندان کی قربانیاں بھی سب سے اعلیٰ ہیں ۔کربلامیں معرکہ آرائی ان کی کم عمری کے باوجود بھی بے مثال اور لازوال ہے ۔ حضرت امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام جب مکۃ المکرمہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہوئے تو اس وقت یہ دونوں صاحبزادگان ہمراہ نہ تھے لیکن جب حضرت امام عالی مقام کا قافلہ مکہ سے ابھی تھوڑی دور ہی پہنچا تو اس وقت حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک غلام کے ہمراہ ان دونوں شہزادوں کو آپ کے پیچھے روانہ کیا

  مشہور مفسرو محدث و مؤرخ امام طبری نے اپنی تاریخ میں بایں الفاظ نقل کیا ہے : میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپ آگے نہ جائیں کیونکہ میں آپ کے بارے میں اس حوالے سے انتہائی پریشان ہوں کہ آپ نے کوفہ جانے کا قصد کیا ہے تووہاں آپ کے لئے اور باقی اہل بیت کے لئے انتہائی ابتلاو تکالیف ہیں اگر خدا نخواستہ آپ کو کوئی نقصان پہنچا تو روئے زمین سے نور ہدایت بجھ جائے گا ۔ آپ ہدایت یافتہ لوگوں کے پرچم ہیں اور مومنوں کے لئے امید ہیں سفر میں جلدی نہ کریں ۔ ۔ میں بھی اپنے خط کے پیچھے پہنچ رہا ہوں ۔ ان دونوں شہزادوں نے اپنے والد محترم کا یہ پیغام آپ تک پہنچادیا ۔ چنانچہ اس کے بعد گورنر مکہ سے ضمانت حاصل کرکے حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بھی آ پہنچے ۔ آپ کو مکہ میں روکنے کے لئے تمام معاملات آپ کے گوش گذار کئے تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ میں نے خواب میں نانا جان کی زیارت کی ہے اور آپ نے مجھے ایک کام کرنے کا حکم فرمایا ہے اور میں وہ کام ضرور کروں گا خواہ مجھے اس کی کچھ بھی قیمت ادا کرنی پڑے ۔

 انہوں نے پوچھا کہ آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا حکم ارشاد فرمایا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں وہ حکم آپ کو جیتے جی نہیں بتا سکتا حتیٰ کہ میں اللہ تعالیٰ سے جا ملوں ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں فرزند حضرت عون اور حضرت محمد علیہم السلام کو آپ کے ہمراہ روانہ کردیا اس طرح یہ دونوں شہزادگان امام عالی مقام علیہم السلام کی معیت میں کربلا تک پہنچے ۔ جب معرکہ کربلا شروع ہوا تو اس وقت امام عالی مقام کی غمگسار ہمشیرہ محترمہ حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے اپنے برادر مکرم کی خدمت میں دلگیر انداز میں بصد ادب و احترام عرض گذاری : پیارے بھائی جان اس وقت جب کہ ہم انتہائی مصائب و آلام کا شکار ہیں نانا جان نے ارشاد فرمایا تھا کہ صدقہ مصیبتوں کو ٹالتا ہے تو کیوں نہ ہم بھی صدقہ پیش کریں ؟

۔ آپ نے ارشاد فرمایا پیاری بہن اس بے سرو سامانی کے عالم میں ہم کیا پیش کرسکتے ہیں تو حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے عرض کی کہ یہ میرے دونوں شہزادے ہیں میں انہیں آپ پر صدقہ کے لئے قربان کر رہی ہوں ۔ آپ انہیں میدان جنگ میں جانے کی اجازت مرحمت فر ما دیں ۔ آپ نے تڑپ کر ارشاد فرمایا تمہارا بھائی اپنی جان بچانے کے لئے کبھی بھی اپنے بہن کے گھر کو ویران نہیں کرسکتا۔ سیدہ نے عرض کی آپ نے زندگی میں کبھی بھی میری کوئی بات نہیں ٹالی اس لئے آج بھی میری بات ضرور مان لیں میں یہ کیسے گوارہ کرسکتی ہوں کہ دشمن آپ کی شہادت کے درپے ہو اور میں اپنے بچوں کو بچاتی پھروں ۔ بہر حال آپ کے اصرار بالتکرار سے مجبور ہو کر آپ نے اشکبار آنکھوں سے اجازت مرحمت فرمادی ۔ چنانچہ حضرت عون و محمدعلیہما السلام تیار ہو کر میدان کارزار میں پہنچ گئے اور دشمن کو للکارا ۔ان دونوں نے لشکر یزید پر دائیں اور بائیں دونوں اطراف سے زوردار حملہ کر دیا ہر چند کہ عمرو بن سعد ، شمر اور دیگر کچھ لوگوں نے انہیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی یہ کوششیں رائگاں ہو گئی کہ جب انہوں نے اپنی تمام تر قوت مجتمع کرکے ان پر حملہ کر دیا اور یوں ہاشمی شیروں نے کشتوں کے پشتے لگانے شروع کردئیے قوتِ خیبر شکن کا بھر پور اظہار ہو رہا تھا اور دشمن ان اچانک حملوں سے حیران و ششدر تھا کہ کس طرح ان بچوں کو روکا جائے جبکہ دوسری طرف یہ بچے تھے کہ بجلی کی سی سرعت کے ساتھ حملہ آور ہو رہے تھے اور دشمن گاجر مولی کی طرح کٹتے جارہے تھے ۔

چشم فلک عجیب نظارہ کر رہی تھی کہ دو بچوں کے آگے ایک تجربہ کار فوج بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگی پھر رہی تھی اور ان بچوں کے حملے تھے کہ تھمنے کانام نہیں لے رہے تھے اچانک دشمنوں نے یکبارگی حملہ کر دیا جبکہ اس دوران اکتیس دشمن ان کے ہاتھوں واصل جہنم ہو چکے تھے ۔ اشقیاء میں سے عبد اللہ بن قطنہ نے حضرت عون علیہ السلام اور عامر بن نہشل تمیمی نے صاحبزادہ محمد علیہ السلام کو اپنی اپنی تلواروں کے وار سے شہید کر دیا یوں ان جان نثار بھانجوں نے اپنے پیارے ماموں جان پر اپنی اپنی جانیں نثار کرکے اپنے ننھیالوں کو حق وفاداری ادا کرکے شہیدانِ کربلا میں شامل ہوتے ہوئے ایک عظیم داستان رقم کر دی اور درجہ شہادت پر فائز ہوتے ہوئے ہمیشہ کی زندگی پاتے ہوئے جنت کی راہ لی اوراللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی رضا حاصل کر لی ۔ حضرت عون و محمد علیہم السلام نے اپنے کردار سے ثابت کردیا کہ کامیابی طاقت کے ساتھ نہیں بلکہ جرأت ایمانی کے ساتھ حاصل ہوتی ہے ۔

جمعرات، 27 جولائی، 2023

حضرت مسلم ابن عقیل ا ورکو فیو ں کے خطو ط

 

حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابوطالب کے بیٹے تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو  حال مناسب لگی اور انہوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر بعد میں یزید بن معاویہ نے عبید اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا حکمران بنا کر بھیجا جس نے آل رسول صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم پر حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابوطالب کے بیٹے تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان مظالم کی انتہا کر دی اور جس نے آپ کے خانوادے کا ساتھ دینا چاہا  اس کو بھی شہید کر دياکا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو  حال مناسب لگی اور انہوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر بعد میں یزید بن معاویہ نے عبید اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا حکمران بنا کر بھیجا جس نے آل رسول صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم پر مظالم کی انتہا کر دی اور جس نے آپ کے خانوادے کا ساتھ دینا چاہا  س ا

کوفیوں کے خطوط امام حسین کے نام سے مراد کوفیوں کے وہ خطوط ہیں جو کوفہ کے رہنے والوں نے معاویہ بن ابی سفیان کی وفات کے بعد، یزید کے تخت نشین ہونے پر فرزند رسول حضرت امام حسین کو لکھے ۔کوفہ کے بزرگوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کے بعد یہ خطوط اس وقت امام حسین کو لکھے جب آپ مکہ میں قیام پزیر تھے اور ان خطوط میں امام کو کوفہ آنے کی دعوت دی نیز ان خطوط میں اپنی مدد کی یقین دہانی کروائی۔ان خطوط کے لکھنے والوں میں سلیمان بن صرد خزاعی، حبیب بن مظاہر اور رفاعہ بن شداد جیسے کوفہ کے اشراف اور شیعہ شامل تھے۔لیکن عبید اللہ بن زیاد نے کوفہ میں آنے کے بعد کوفہ کے لوگوں پر نہایت سختی گیری کی اور کوفہ میں خوف وہراس کو پھیلا دیا جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں نے امام کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جس کے نتیجے میں واقعۂ کربلا رونما ہوا اور فرزند رسول کو ان کے اہل خانہ اور ان کے اصحاب کے ہمراہ شہید کر دیا گیا۔ انھوں نے امام حسینؑ کو خط لکھا جو کچھ یوں تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم حسین بن علی علیہما السلام کے نام، سلیمان بن صرد، مسیب بن نجبہ، رفاعہ بن شداد، حبیب بن مظاہر اور شیعیان و مؤمنین و مسلمینِ کوفہ کی طرف سے۔سلام ہو آپ پر اور ہم آپ کی طرف حمد و ثناء کرتے ہیں اس خدا کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے امّا بعد، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے مختص ہیں  جس نے اس امت پر حملہ کیا اور خلافت کو غارت کر دیا اور امت کے اموال کو غصب کر دیا اور ان کی رضا کے بغیر ان کی فرمانروائی پر قبضہ کیا، بعد ازاں اس نے اس امت کے نیک انسانوں کو قتل کر دیا اور اشرار اور برے انسانوں کو   مسلط کر دیا اور اللہ کے مال کو ظالموں اور صاحبان ثروت کے درمیان بانٹ دیا۔ پس دور رہے اللہ کی رحمت سے جس طرح کہ قوم ثمود خدا کی رحمت سے دور ہو گئی۔بے شک ہمارے اوپر کوئی امام و پیشوا نہیں ہے، پس ہماری طرف آئیں شاید اللہ آپ کے واسطے سے ہمیں حق کے گرد متحد کرلے اور نعمان بن بشیر امارت کے محل میں ہے اور ہم نہ تو جمعہ کے دن اس کے ساتھ نماز بجا لاتے ہیں اور نہ ہی عید میں اس ک

ے ساتھ باہر نکلتے ہیں؛ اور جب بھی خبر ملے کہ آپ ہماری طرف آئے ہیں تو ہم اس کو شہر سے نکال باہر کریں گے حتی کو اس کو شام کی طرف روانہ کریں۔ ان شاء اللہ۔ انھوں نے خط عبداللہ بن مسمع ہمدانی اور عبداللہ بن وائل کے ہاتھوں روانہ کیا ۔ وہ تیزرفتاری سے روانہ ہوئے حتی کہ 10 رمضان سنہ 60 ہجری کو مکہ پہنچے۔پہلے خط کے دو روز بعد اہلیان کوفہ نے قیس بن مسہر صیداوی، عبد الرحمٰن بن عبداللہ ارحبی اور عمارہ بن عبد سلولی کو امام حسینؑ کے پاس روانہ کیا اور ان کے ہاتھوں تقریبا 150 خطوط ارسال کیے۔ ان خطوط میں بعض ایک ایک شخص کی طرف سے تھے اور بعض دو اور چار افراد نے مل کر لکھے تھےدوسرا خط بھجوانے کے بعد ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کو امام حسینؑ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہاتھوں ایک خط ارسال کیا جس کا مضمون کچھ یوں تھا:بسم اللہ الرحمن الرحیم-یہ خط ہے حسین بن علی کے نام، آپ کے پیروکاروں کی جانب سے جو مؤمنین اور مسلمین میں سے ہیں۔ہماری طرف آئیے کیونکہ لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور سب آپ کے آنے پر متفق  ہیں، ! والسلام۔

چوتھا خط-شبث بن ربعی، حجار بن ابجر، یزید بن حارث بن رویم، عروہ بن قیس، عمرو بن حجاج زبیدی اور محمد بن عمرو تیمی نے امام حسینؑ کو خط لکھا کہ اغات ہرے بھرے ہیں اور پھل پکے ہوئے ہیں، پس جب بھی ارادہ کریں ہماری طرف آجائیں کیونکہ یہاں تیار سپاہی آپ کی نصرت کے لیے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ والسلام۔کوفیوں کے قاصدین سب امام حسین ؑ کے ہاں جمع ہوئے اور آپؑ نے سب کے خطوط پڑھ لیے اور قاصدوں سے لوگوں کا حال پوچھا۔ اور پھر ایک خط لکھا اور ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کے ہاتھوں ـ جو کوفیوں کے آخری قاصد تھے ـ، اہل کوفہ کے لیے روانہ کیا۔ خط کا متن کچھ یوں تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم، حسین بن علی کی طرف سے مسلمین اور مؤمنین کی جماعت کے نام۔اما بعد، ہانی اور سعید تمہارے خطوط لے کر میرے پاس آئے اور یہ دو افراد تمہارے آخری ایلچی تھے جو میرے پاس آئے اور میں سمجھ گیا کہ جو کچھ تم نے بیان کیا اور جس چیز کا تم نے ذکر کیا اور تمہاری اکثریت کا بیان کہ: ہمارا کوئی امام نہیں ہے پس ہماری طرف آؤ تاکہ شاید خداوند متعال تمہارے سبب ہمیں حق کے گرد متحد کر دے۔ اب میں اپنے بھائی اور چچا زاد اور میرے خاندان کے قابل اعتماد فرد کو تمہاری جانب روانہ کررہا ہوں؛ چنانچہ، اگر وہ میرے لیے لکھے کہ تمہاری اکثریت کی رائے اور تمہارے دانا افراد اور اکابرین کی رائے مطابقت رکھتی ہے اس چيز کے ساتھ جو میں نے تمہارے خطوط میں پڑھا، بہت جلد تمہاری طرف آؤں گا۔ ان شاء اللہ۔ کیونکہ میری جان کی قسم! امام کوئی بھی نہیں ہے سوا اس فرد کے جو کتاب خدا کے مطابقت حکم کرے اور فیصلہ کرے اور عدل و انصاف کی خاطر قیام کرے اور دین حق کا پابند ہو اور اور اپنے آپ کو اللہ کے کلام اور اس کے احکام کا پابند کر دے۔ والسلام۔اس کے ساتھ اما م عالی مقام نے حضرت مسلم بن عقیل کو اپنی جانب سے سفیر کی حیثیت سے روانہ کیا تاکہ  وہ  تمام حالات سے آگاہ کریں  اور یہ  ابتداء تھی کربلا کے سانحہ کو وقوع پذیر ہونے کی 

اتوار، 23 جولائی، 2023

علامہ طالب جوہری ۔عالم بے بدل

 

 

ہرزمانے میں کچھ بندگان خدا ایسے بھی پیدا ہوتے ہیں جن کے لئے سارا زمانہ سوچتا ہے ان کو کبھی نہیں مرنا چاہئے۔ لیکن کیا کریں اللہ کے دستور میں کوئ ردوبدل نہیں ہو سکتا ہےاور پھر اللہ نے ایک عالم بے بدل طالب جوہری کو اپنے پاس بلا لیا۔طالب جوہری 27 اگست 1939ء کو بھارت کی ریاست بہار کے شہر پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور اعلی مذہبی تعلیم کے لیے نجف اشرف عراق چلے گئے۔ وہاں آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی کے زیر انتظام حوزہ میں داخلہ لیا۔طالب جوہری آیت اللہ شہید باقر الصدر کے شاگرد رہے۔ وہ آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کے ہم جماعت تھے۔ اگرچہ آیت اللہ سیستانی ان سے کچھ بڑے تھے۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی بھی نجف میں ان کے ہم درس رہے -علامہ طالب جوہری کو نجف اشرف کے ممتاز عالم آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی،آیت اللہ سید علی رفانی،آیت اللہ سید محمد بغدادی،آیت اللہ باقر الصدر نے فارغ التحصیل ہونے کی سند دی،وہ 1965 کو کراچی واپس آئے،پانچ سال جامعہ امامیہ کے پرنسپل رہے،گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں اسلامیات کے لیکچرر مقرر ہوئے،انہیں حکومت نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا،انہوں نے تفسیر قرآن پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔لامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔

ان کے خطبات کا موضوع احکام اللہ کی پیروی، اتباع سنت رسول اور حب اہل بیت ہوا کرتا تھا۔ انہیں شیعہ اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام حاصل رہا ہر دو انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں۔عقلیات معاصر  علّامہ طالب جوہری کیونکہ اکثر اپنے مداحوں میں گھرے رہتے تھے لہٰذا کبھی کبھار وہ ان معمولات کو توڑ کر لانگ ڈرائیو یا پرندوں کے مشاہدے کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ کسی بھی دور دراز سڑک سے ہٹے ہوئے چارپائی ہوٹل پر بیٹھ کر بہت خوش ہوتے جہاں انھیں کوئی پہچاننے والا نہ ہو۔علامہ طالب جوہری علومِ قرانی پر بہترین دسترس  رکھتے ہی تھے مگر نہ خود زاہدِ خشک تھے نہ زاہدانِ خشک کی ہمراہی میں خوش رہتے تھے۔ان کی شرارت آمیز خوش دلی اور حسِ جمالیات ہمیشہ توانا و تر و تازہ رہی-لامہ طالب جوہری کو نجف اشرف کے ممتاز عالم آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی،آیت اللہ سید علی رفانی،آیت اللہ سید محمد بغدادی،آیت اللہ باقر الصدر نے فارغ التحصیل ہونے کی سند دی،وہ 1965 کو کراچی واپس آئے،پانچ سال جامعہ امامیہ کے پرنسپل رہے،گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں اسلامیات کے لیکچرر مقرہوئے،

انہیں حکومت نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا،انہوں نے تفسیر قرآن پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔اسّی کے عشرے میں پی ٹی وی سے فہم القران کی طویل سیریز نشر ہوئی جس میں علامہ نہایت عام فہم اور زود ہضم انداز میں پیغامِ قران سمجھاتے تھے۔ شاعری کا آغاز انہوں نے آٹھ برس کی عمر سے کیا  تھا، اب تک علامہ نے خاصی تعداد میں غزلیں، قصیدے، سلام، نظمیں اور رباعیات کہی، 1968 میں علامہ نے وجود باری کے عنوان سے پہلا مرثیہ کہا،علامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔ان کے خطبات کا موضوع احکام اللہ کی پیروی، اتباع سنت رسول ص اور حب اہلبیت ع ہوا کرتا تھا۔ انہیں شیعہ اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام حاصل رہا ہر دو انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں ۔سنی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے بے شمار افراد یہ علامہ کے انتقال کے وقت سوشل میڈیا پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ وہ علامہ کو محرم میں سنا کرتے تھے۔بین المسالک ہم آہنگی کی اگر بات کی جائے تو بلا شبہ علامہ طالب جوہری کا بیان ایک شیعہ عالم ہونے کے باوجود سرکاری ٹی وی چینل پر طویل عرصے تک اس لیے چلتا رہا کیونکہ انہوں نے مسلک کی بنیاد پر تفریق اور فرقہ واریت پھیلانے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ وہ بین المسالک ہم آہنگی کے علمبردار سمجھے جاتے تھے-ان کی پسندیدہ جگہ ا نکی لائبریری تھی جو ان کے گھر واقع انچولی سوسائٹی میں اوپر کی منزل پر تھی۔

 لائبریری کی ہزاروں کتابوں میں سے ہر کتاب علامہ کی انگلیاں پہچانتی تھیں چنانچہ انھیں کسی بھی ریفرینس کے لیے کوئی بھی کتاب نکالنے میں زیادہ سے زیادہ دو منٹ لگتے تھے۔ بقول محمد علی سید علامہ نے بلاشبہ ہزاروں مجالس پڑھیں مگر ہر مجلس کی تیاری وہ ایسے انہماک اور محنت سے کرتے گویا سپریم کورٹ میں آخری پیشی ہو۔لباس میں ان کی وضع داری تادم حیات قائم رہی سفید پاجامہ سیاہ اچکن اور سر پر عمامہ وہ نہائت نرم خو مزاج اور نکتہ سنج شخصیت کے مالک تھے وہ اپنی ایک ایک مجلس پر بہت توجّہ دیتے تھے انہوں قرانی اسلوب کو اپنی شبانہ روز زندگی  کا حصّہ بنا لیا تھا -اس کے بعد نو دس دن تک علامہ روزانہ کوئی ایک موضوع لے لیتے جیسے الحمد، رب العالمین، یوم الدین، نستعین وغیرہ۔ اور آدھا پونا گھنٹہ پرت در پرت سببِ نزول، ماخذ، تاریخی پس منظر اور منطق کے سہارے ایسے لے کر چلتے گویا بچے کو کہانی سنا رہے ہوں -عراق میں لگ بھگ ابتدائی دس برس حضرت قاسم الخوئی، باقر الصدر اور دیگر علمائے عظام کے آگے زانو تہہ کرنے، عربی و فارسی پر عمومی دسترس اور عرب و عجم کی تاریخ فہمی کا فیض تھا کہ علامہ کی مذہبی و غیر مذہبی گفتگو ادق مسائل کا احاطہ ضرور کرتی تھی مگر ان کی اجتہادیت مشکل پسندی اور علمیت کے مصنوعی دبدبے سے بالکل آزاد تھی۔ اسی لیے عام آدمی بھی بلا امتیازِ مسلک و نظریہ بلا دھڑک ان کی جانب کھنچتا تھا اور پورا پورا ابلاغی لطف کشید کرتا تھا۔علامہ طالب جوہری معروف خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کے شاعر بھی تھے،آٹھ برس کی عمر سے آپ نے شاعری کا آغاز کیا تھا،علامہ طالب جوہر نے یادگار غزلیں،قصیدے،سلام،نظمیں اور رباعیات کہی، 1968میں آپ نے وجود باری کے عنوان سے پہلا مرثیہ بھی کہا۔

علّامہ طالب جوہری کی وفات -عالمِ اسلام کی مشہور و معروف شخصیت، عالمِ دین اور مفسرِ قرآن علامہ طالب جوہری کے انتقال سے آج واقعۂ کربلا بیان کرنے کے ایک مدلل انداز اور ذکرِ اہلِ بیت کے ایک سنہرے باب کا اختتام ہوگیا۔اور  وہ اپنے کروڑوں مدّاحوں کو سوگوار چھوڑ کر خلد بریں کے سفر پر روانہ ہوگئے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر