جب سے دنیا وجود میں آئ ہے تب سے لے کر وہ آج تک ارتقا ئ مدارج طے کرتی چلی آئ ہے -انہی مدارج میں ایک درجہ یہ بھی ہے کہ انسانوں کے اس بے کراں ہجوم میں کچھ لوگ صرف زندگی نہیں گزارتے وہ زندگی کی کہانیا ں لکھتے ہیں ۔ایسی کہانیاں جو لوگوں کے دلوں میں اور وقت کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتی ہے۔ سلطانہ صدیقی کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے ایک ایسی عورت جس نے ادب کی دنیا میں جھلمل کرتا خواب دیکھا اور پھر اسے خواب کو اپنے قلم سے تعبیر بھی دے کر حقیقت میں بدلا۔ سلطانہ صدیقی ایسی ہستی جس نے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں نہ صرف اپنا مقام بنایا بلکہ اسے ایک نئی شناخت دی ۔ یہ 1974 کی بات ہے جب ایک باہمت خاتون نے پی ٹی وی کے دروازے پر دستک دی ، آنکھوں میں ایک نئے سفر کی چمک اور دل میں کچھ انوکھا کرنے کی لگن لیے وہ اس میدان میں اتریں۔ پی ٹی وی میں ان کا پہلا تخلیقی کام بچوں کے پروگرام "رنگ برنگ" کی صورت میں سامنے آیا مگر یہ تو محض شروعات تھی۔ اصل معرکہ تب سر ہوا جب نوے کی دہائی میں انہوں نے "ماروی" جیسا شاہکار تخلیق کیا
یہ ڈرامہ نہ صرف فنی معراج کو چھوا بلکہ ثقافتی رنگوں میں لپٹا ایک امر داستان بن گیا۔سلطانہ صدیقی کے خواب صرف ایک ڈرامے یا ایک کامیابی تک محدود نہیں تھے۔ ان کا خواب تھا کہ پاکستان میں ایسا پلیٹ فارم ہو جہاں کہانیاں سانس لے سکیں کردار بولیں اور جذبات ایک تصویر میں ڈھلیں۔ ناظرین صرف ڈرامے دیکھیں نہیں بلکہ محسوس بھی کریں اور یہی خواب ہم ٹی وی کی صورت میں حقیقت میں ڈھل گیا ۔2004میں جب انہوں نے ہم ٹی وی کی بنیاد رکھی تو شاید کسی کو اندازہ بھی نہ تھا کہ یہ چینل دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر کی پہچان بن جائے گا۔"زندگی گلزار ہے" جیسے ڈرامے نے جہاں پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو بین الاقوامی شناخت دی وہیں سلطانہ صدیقی کے وژن پر بھی مہر ثبت کر دی۔ فواد خان اور صنم سعید جیسے اداکاروں کو شہرت کی معراج بخشنے والا یہ ڈرامہ نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور دیگر ممالک میں بھی بے حد پسند کیا گیا۔ایک خواب پورا ہو جائے تو دوسرا خواب آنکھوں میں بس جاتا ہے۔
سلطانہ صدیقی نے ہم ٹی وی کو محض ایک چینل نہیں رہنے دیا بلکہ اسے ایک میڈیا ایمپائر میں تبدیل کر دیا۔ ان کی بہو مومنہ درید نے ایم ڈی پروڈکشن کی صورت میں اس سفر کو آگے بڑھایا اور ان کا بیٹا درید قریشی ہم ٹی وی کے انتظامی معاملات کو دیکھنے لگا۔ یوں ایک خواب نے حقیقت کی زمین پر جڑیں پکڑ لیں اور ایک خاندان نے مل کر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کیا ۔ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کے لیے انہوں نے دبئی اور لندن میں ہم ایوارڈز کا انعقاد کیا۔ اس کا مقصد صرف ایوارڈ دینا نہیں تھا بلکہ پاکستان کی کہانی کو دنیا کے سامنے رکھنا تھا اور یہ بتانا تھا کہ ہم بھی تخلیق کی دنیا میں کسی سے کم نہیں۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے ایک اور شاندار پروجیکٹ "تن من نیل و نیل" پروڈیوس کیا جو ناظرین میں بے حد مقبول ہوا۔ پاکستان کے ڈرامہ شائقین کو پی ٹی وی کا سنہرا دور یاد آیا ۔ سلطانہ صدیقی کی میڈیا انڈسٹری میں شاندار کاوشوں کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا ہے مگر اصل اعزاز وہ محبت اور عزت ہے جو انہیں عوام نے دی۔
سلطانہ صدیقی کی کہانی صرف ایک فرد کی کہانی نہیں، یہ جستجو کی کہانی ہے ایک خواب کے حقیقت بننے کی کہانی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر حوصلہ، ہنر اور ہمت ہو تو دنیا کی کوئی رکاوٹ راستہ نہیں روک سکتی۔سلطانہ صدیقی جنوبی ایشیا کی ایک تجربہ کار ٹیلی ویژن پروڈیوسر، جنہیں جنوبی ایشیا کی ایسی واحد خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو کئی ٹیلی ویژن چینلز کی مالک ہیں اور نہایت کامیابی سے اس شعبے میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔ سلطانہ صدیقی حیدرآباد، سندھ میں پیدا ہوئیں۔ سلطانہ کا تعلق سندھ کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے۔ بے اے آنرز کے بعد ہی ان کی شادی ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ سلطانہ صدیقی نے عورت ہو کر عورت کو ایکسپو لائٹ کیا ہے۔ اِس سے پہلے عورتوں پر اِتنے بولڈ ڈرامے نہ تو لکھے گئے اور نہ بنائے گئے کہ جن سے عورت کا تقدس مجروح ہوا ہے۔تعلیم-حیدرآباد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد سندھ یونیورسٹی سے انھوں نے علم نفسیات اور تقابلی مذاہب کے شعبے میں بی اے آنرز کیا۔مشاغل اور پیشہ- انھیں بچپن ہی سے کھیل کود، فنونِ لطیفہ و موسیقی اور تقریری مقابلوں میں حصہ لینے کا شوق تھا۔ انھوں نے اپنے شوق اور اپنے اندر پائی جانے والی صلاحیتوں کو کبھی دبایا نہیں، بلکہ انھیں اپنی تخلیقی قوت کے بھرپور اظہار کا ذریعہ بنایا۔
انیس سو تہتر، چوہتر سے انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کی دنیا میں قدم رکھا۔1981ء سے لے کر 2008ء تک انھیں 15 مختلف اعزازات سے نوازا گیا۔ سلطانہ صدیقی نے پاکستان ٹیلی وژن پر بحثیت پروڈیسر اور ڈائریکٹر کام کرنا اس وقت شروع کیا، جب میڈیا میں بہت کم خواتین دیکھی جاتی تھیں۔ ان کا غیر معمولی شہرت حاصل کرنے والا ڈراما ’ماروی‘ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا، جس کے بعد سے انھوں نے بے شمار ڈرامے پیش کیے اور اُن کی ہدایات دیں۔ سلطانہ سماجی کاموں میں بھی پیش پیش نظر آتی ہیں۔ وہ ’فخر امداد فاؤنڈیشن ‘ نامی ایک این جی او کی ڈائریکٹر اور ایک مشہور پروڈکشن ہاؤس ’مومل‘ کی بانی بھی ہیں۔سندھ گریجوایٹس ایسوسی ایشن وومن ونگ، میڈیا وومن جرنلسٹس اینڈ پبلشرز آرگنائزیشن کی سربراہ ہیں۔ سندھ مدرستہ الاسلام کے بورڈ آف گورنر کی رکن ہیں۔ایوارڈز-صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی (2007ء۔2008ء) سمیت مزید چھ مختلف ایوارڈز حاصل کرچکی ہیں۔سی سی او سمٹ ایشیا 2013ء کی جانب سے حال ہی میں منعقدہ ایک اجلاس میں ہم نیٹ ورک لمیٹڈ کی صدر سلطانہ صدیقی کو اُن کی پیشہ ورانہ خدمات کے اعتراف میں ٹرافی پیش کی گئی۔اس کے ساتھ ہی انھیں ایک کتاب ”100بزنس لیڈرز آف پاکستان“ کا2013کا ایڈیشن بھی پیش کیا گیا جس میں ایسے 100 نمایاں صنعت کاروں کے پروفائل ہیں جنھوں نے پاکستانی صنعت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کتاب میں سلطانہ صدیقی کا پروفائل بھی شامل کیا گیا ہے۔یادش بخیر سلطانہ صدیقی کو یہ اہم ایوارڈ پہلی مرتبہ نہیں دیا گیاہے قبل ازیں انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دیا جاچکا ہے۔یہ تقریب منیجر ٹوڈے اور سی ای او کلب پاکستان کی جانب سے منعقد کی گئی تھی- وہ کہانیوں کی دنیا میں روشنی کا مینار ہیں اور جب تک کہانیاں لکھی جاتی رہیں گی سلطانہ صدیقی کا نام سنہرے الفاظ میں لکھا جاتا رہے گا۔