ہفتہ، 11 مارچ، 2023

آو سات سمندر پار چلیں میری کینیڈا بیتی

<\head>

 


قران کریم میں ارشاد ربّ العزّت ہے -تم میں سے کسی کو نہیں معلوم کہ کون کہاں مرے گا اور کہاں گڑے گا -اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی روشنی میں جب میں نے اپنی زندگی کے فلسفہ پر غور کیا تب میں نےدیکھا میں کہاں دنیا میں آئ -کہاں میں نے اپنے خاندان کے ہمراہ پہلے ہجرت کی پھر تمام زندگی بسر کی اور اب زندگی کے آخری کنارے پر میں اپنے وطن سے ہزاروں میل دور سات سمند رپار بیٹھی ہوئ ہوں تو اب میری مٹّی کہاں کی ہے یہ میرارب جانے

-اب آپ میری آپ بیتی پڑھئے 

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

 نحمدہ  و نصلّی علٰی  رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین 

 میں خدائے ذوالجلال والاکرام کی بے حد شکر گزار ہوں کہ بحیثیت ایک انتہائ قلیل و کم علم رکھنے والی طالبہ کے آج مجھے اپنے قارئین کے سامنے اپنی داستان حیات پیش کرنے کا موقع میسّر آیا ہے،میری کوشش ہو گی کہ  اپنی اس کتاب زندگی میں اپنے ہوش کی زندگی سے لے کرتادم تحریرمیں نے کارزارزندگی سے جو پایا ہے اسے من وعن پیش کر سکوں  اورمیرے قلم کا لکھا ہوا ایک ایک حرف صدقہ ہے میرے پیارے نبی حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم شہر علم اورباب علم سلطان اولیاء مولائے کائنات حضرت علی ابن طالب کے علم کا میری جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان کے ما ئہ ناز خطّہ زمین حیدرآباد  دکن تاریخ پیدائش آٹھ نو مبر سن انّیس سو  اڑتالیس  

ہجرت , جون انیس سو  انچاس بوجوہ سقوط حیدرآباد دکن 

 سقوط حیدرآبا د کا ظالما نہ عمل تو قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے انتقال کے اگلے روز ہی پنڈت جواہر لعل نہرو نے باقاعدہ اعلان کر کے کیا تھا   

 سقوط حیدار آباد میں بھی ہزاروں کی تعداد میں وہاں کی مسلمان آباد ی تہ تیغ کی گئ ,,بعد از سقوط ناگفتہ بہ فرقہ وارانہ حالات کے 

 پاکستان ہجرت کی اوربعد از ہجرت تمام عمر اپنے پیارے محبوب وطن پاکستان کے قلب کراچی میں بسر ہوئ ۔سولہ جنوری دو ہزار سات کو ہو نے کواپنے عزیز از جان شریک زندگی کی وفات  کے بعد کینیڈا آنا ہوا اور پھر یہیں کی مٹّی نے قدم پکڑ لئے  میں اپنی داستان زندگی کے آغاز پر ہی اللہ کریم رحمٰن و رحیم , کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ اپنے والدین مر حومین کی بھی بے حد شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے مجھے قرطاس وقلم کی اہمیت سےروشنا س کیا,اور زندگی کے لق ودق صحرا میں پیش آنے والی  اونچ نیچ سمجھائ ,,مشکلات کی کٹھن گھڑیوں میں  صبر اور نماز سے مدد کی  نصیحت کی  اور زندگی کے ہر ہر قدم پر میری رہنمائ کی ان ہستیوں کے ہمراہ اپنے محترم علم دوست شوہر  کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ جن کی قریب قر یب بیالیس سالہ رفاقت میں مجھےا ن کے آ  نگن میں سائبا ن  علم نصیب ہوا

 اب میں قارئین کو اپنا خاندانی پس منظر بتانا چاہوں گی 

میری والدہ کے اجد ا دسرزمین ہند کے زی وقار اور منفرد تہزیب رکھنےوالے شہر لکھنؤ میں سادات کے سو سالہ دور حکومت  میں ایران سے وارد ہند ہوئے،ان کا شجرہء نسب نجیب الطرفین سادا ت سے ہوتا ہوا چوتھے امام حضرت اما م زین العابدین علیہ السّلام سے جا ملتا تھا اور وہ  ایران کے شاہی دربار سےمنسلک شاہانہ طرز حیات رکھنے والے  لوگ تھے   ان میں ادباء و فضلاء شعراءصاحبان علم وحکمت  تھے چنانچہ ان کی لکھنؤ میں آمد پر شاہی دربار میں بھی ان کی خاص پذیرائ ہوئ اور یہ یہاں بھی شاہی دربار سے ہی وابستہ ہوئےان کی امارت کا یہ عالم تھا کہ جب میری والدہ شادی ہو کر حیدرآباد دکن آئیں اسوقت ان کا جہیز ریل کی بوگی ریزرو کر کے لایا گیا ،ان کی شادی کے جوڑے سونے کے تاروں اور ریشم کی آمیزش سے تیّار کئے گئے تھے

 ( ہجرت نے ہماری والدہ کواور ہم کو ان چیزوں سے فیضیاب ہونے کی مہلت نہیں دی اور سب کچھ بھرا گھر چھوڑ کر جان بچانے کو گھر سے نکل آ ئےامارت کے باوجود علم و ادب کےان شیدا ئیو ں میں  خواتین کے علم سے بھی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اس دور میں جب ہند وستان میں عورت کی تعلیم ایک جرم سمجھی جاتی تھی یہ لوگ اپنے گھر کی بچّیوں کی تعلیم پر بھی بھرپور توجّہ دیتے تھے  مجھے میری نانی جان نے بتایا تھا کہ سن انّیس سو تیس میں جب میری والدہ پانچ برس کی ہوئیں تب ان کو پڑھانے کے لئے ایک بزرگ استاد گھر پر رکھّے گئے اور میری والدہ نے اپنے استاد محترم سے فارسی عربی اردو اور انگلش کی تعلیم حاصل کی جبکہ ان کا داخلہ بھی ایک مسلم اسکول میں اسی عمر میں کروادیا گیا ،، صبح آٹھ بجے ان کی ڈیوڑھی پر پردے لگا ہوا یکّہ آکر رکتا تھا اور میری والدہ کو گھر کے کوئ  بزرگ لے جا کرایکّے میں  سوار کرواد یتے تھے  اور شام چار بجے پھر اسی طرح سے واپسی کے وقت یہی عمل دہرایا جاتا تھا

 اس طرح میری والدہ نے غیر منقسم ہندوستان میں ہی مڈل کلاس پاس کرلی تھی میری والدہ اور دادی جان مرحومہ کا تعلّق اسی خانوادے سے تھاچنا نچہ ہوش سنبھالنے پر میں نے اپنے گھر کے آنگن میں ادبی محفلیں سجتی ہوئ دیکھیں اور ان کا اثر بھی قبول کیا دراصل ہمارا گھرانہ بنیادی طور پر ایک ادبی لیکن ساتھ ساتھ  مذہبی گھرانہ تھا اس لئے مجھے ادب سے اپنے گھرانے کی وابستگی آہستہ آہستہ میرے مزاج میں بھی رچتی اور بستی گئ میری والدہ کے قبلہ محترم رئیس امروہوی صا حب  سے  گھریلو مراسم تھے ،جبکہ  محترم سجّاد ظہیر صاحب کے گھر ا نے سے  بھی والدہ کے ہمراہ آنا جانا لگا رہتا تھا-میری والدہ صاحبہ کے  یہ خا ندانی  مراسم تقسیم ہند سے پہلے لکھنؤ سے ہی چلے آرہے تھے جیسا کہ میں نے بتایا کہ میری والدہ محترمہ کا تعلّق لکھنؤ کے سادات سے تھا 

جبکہ والد بھی یوپی کے سادات کے اہم خانوادے سادات نو گانواں میں عابدی سادات کےجیّد علمائے دین کے قبیلے  سے تعلعق رکھتے تھے ،میرے محترم دادا جان جنوبی ہندوستان میں قطب شاہی دور حکومت میں اپنا آبائ شہر چھوڑ کر حیدرآباد دکن آئے اور انہون نے یہیں پر مستقل سکونت اختیار کی ،جسے ازاں بعد ہم بھی چھوڑ کر پاکستان آگئے  

جاری ہے

جمعہ، 10 مارچ، 2023

لپروسی ہسپتال منگھو پیر کراچی

 





 قیام پاکستان سے پچاس برس پہلےکراچی سے چالیس میل کے فاصلے پر منگھوپیر کی پہاڑیوں  کے  دامن میں قائم ہونے والا جذام اسپتال اس وقت کے دور میں بہترین اور مثالی کارکردگی،انسانیت کی خدمت اور جذام کے خلاف جدوجہد کی ایک داستان لپروسی اسپتال منگھوپیر کراچی ہے اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ عہد قدیم سے ہی جذام یا کوڑھ کے مرض نے ہمیشہ دنیا بھر کے انسانوں کو انتہائی دہشت زدہ رکھا ہوا ہے، اس مرض میں مبتلا مریضوں کی جلد سن اور رنگت تبدیل ہوتی ہے، گرم و سرد کا احساس جاتا رہتا ہے، عضلات شل ہوجاتےاور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، بھنوؤں کے بال گرنے لگتے ہیں، چہرا سوج جاتا ہے،ہاتھ پاؤں اور جسم کے دوسرے اعضاء موم کی طرح پگھلنے لگتے ہیں ،جس سے مریض انتہائی خوف ناک شکل اختیار کرجاتا ہے۔ ابتداء میں جب اس مرض کا علاج شروع نہیں ہوا تھا تو مریض کو مرنے کے لئے دور دراز علاقوں میں چھوڑ دیا جاتا تھا تاکہ یہ مرض دوسرے کسی شخص کو منتقل نہ ہوسکے۔اللہ تعالیٰ کا کرنا یہ ہوا کہ 1896ء میں ایک بنگالی ڈاکٹر، بی ایل رائے ایک تقریب میں منگھوپیر میں گرم چشمے کے کنارے پکنک منانے آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کھلے آسمان تلے جذام میں مبتلا مریض بے یار و مددگارکھلے آسمان تلے پڑے ہیں، ان مریضوں میں بھارت، ایران، افغانستان اور دیگر ملکوں کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے مریض شامل تھے۔

 

انہیں اس بات کا یقین دلایا جاتا تھا کہ وہ گرم پانی کے چشمے سے نہا کرصحت یاب ہوجائیں گے، دوسری بات یہ تھی کہ عزیز و اقارب اس خوف میں مبتلا رہتے کہ کہیں یہ مرض انہیں نہ لگ جائے ان مریضوں کو یہاں چھوڑ دیتے تھے ،اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتے تھے۔ ڈاکٹر بی ایل رائے نے اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے کچھ پیسے جمع کئے اور ایک خانقاہ تعمیر کرائی، تاکہ ان مریض کو جنہیں مرنے کے لئے ان کے خاندان کے افراد یہاں چھوڑ گئے ہیں کچھ سہارا ملے، خانقاہ کا افتتاح بھی 1896 ء میں ہی کیا گیا، 27 برس تک اس خانقاہ کے علاوہ ان مریضوں کے لئے کچھ نہ ہوسکا اور جذام میں مبتلا کئی مریضوں نے تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دی۔ 

 

خانقاہ کے علاوہ علاج معالجے کی کوئی خاطر خواہ سہولیات میسر نہیں تھی، پھر 1923 ء میں چار ممتاز افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں کلکٹر آف کراچی کو صدرآر ایس سیٹھ، آر ایس جوکا رام ڈنومل کو نائب صدر، جمشید نسروانجی مہتا اوربھگو مل کو ممبران کے طور پر کمیٹی میں رکھا گیا،ان ممبران کے علاوہ بھی دیگر اہم شخصیات کو ان مریضوں کی دیکھ بھال کی دعوت دی گئی تاکہ زندگی سے مایوس ان مریضوں میں امید کی کرن جاگ جائے اور یہ شخصیات ان

 

کی دیکھ بھال میں معاونت کرسکیں۔
کمیٹی نے مریضوں کو کھانا کھلانے کی سہولتیں فراہم کرنا شروع کیں اور 1923 ء میں ہی دو نئے وارڈ تعمیر کئے جن میں 34 مریضوں کو علاج معالجے، کھانے پینے اور کپڑے فراہم کرنے کی سہولت دی گئی۔1944 ء میں ہیلتھ سروے اینڈ ڈویلپمنٹ کمیٹی مرکزی حکومت انڈیا کی اس وقت کی سروے رپورٹ کے مطابق یہ اسپتال ایک بڑا ادارہ بن چکا تھا ،جس میں 200 سے زائد مریضوں کی گنجائش تھی یہاں مریضوں کے قیام، طعام اور علاج کا بہترین انتظام تھا، کراچی کے پہلے میئر اور ممتاز سماجی شخصیت جمشید نسروانجی مہتا جو اس کمیٹی کے ممبر تھے اگلے تیس برس تک انتہائی سرگرمی کے ساتھ ان مریضوں کی خدمت کرتے رہے۔ 1952 ء میں جمشید نسروانجی نے اپنی زندگی کے آخری ایام بھی اس اسپتال میں مریضوں کے ساتھ گزارے 

 

۔ان کا کہنا تھا کہ ان مریضوں کو علاج کے علاوہ محبت اور دوستی کی اشد ضرورت ہے۔ جمشید نسروانجی آخری دم تک جذام کے ان مریضوں کے ساتھ رہے، جو ہمدردی، محبت اور تیمارداری کی ایک روشن مثال ہے
1947ء میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس اسپتال کی دیکھ بھال پاکستان لپروسی ریلیف ایسوس ایشن نے اپنےذمے لے لی ، اس تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر امین عبدالحفیظ تھے،1960ء تک یہ اسپتال اسی ادارے کے زیر انتظام رہا۔ جولائی 1960 ء میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسپتال کا انتظام و انصرام بلدیہ کے سپرد کردیا جائے تاکہ اسپتال کو مزید بہتر بنایا جائے، صاف پانی کے حصول کے لئے تگ و دو کی جائے اور مریضوں کو بہتر سہولیات مہیا کی جائیں، ڈاکٹر ایم مظفر کو میڈیکل سپرنٹنڈنٹ آفیسر مقرر کیا گیا، جبکہ 1962ء میں بلدیہ کے ایک اور ڈاکٹر سید جعفر علی ہاشمی کو اسپتال کا میڈیکل انچارج مقرر کیا گیا۔ 

بلدیہ کراچی نے 1963 ء میں لپروسی اسپتال کے لئے پہلی مرتبہ باقاعدہ بجٹ مختص کیا جو دو لاکھ روپے تھا، اس میں 70 ہزار 500 روپے انتظامی اخراجات اور ایک لاکھ 22ہزار 500 روپے مریضوں کے علاج اور سہولتوں کی فراہمی کے لئے مختص کئے گئے، یہ اقدام جذامی مریضوں کو باقاعدہ اور مسلسل طبی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے اٹھایا گیا جو اس سے قبل ایسوسی ایشن کے اشتراک سے کیا جاتا تھا، یوں یہ اسپتال بلدیہ کے زیر انتظام ایک باقاعدہ طبی ادارہ بن گیا۔
1963ء میں ہی دو عیسائی بہنوں نے اعزازی طور پر لپروسی اسپتال میں خدمات انجام دینا شروع کیں، مریضوں کو صحت کی ضروری بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ دوائیں، خوراک اور کپڑے بھی فراہم کئے جانے لگے، بلدیہ کراچی نے ایک اور سماجی تنظیم جرمن ویلفیئر سوسائٹی کے تعاون سے ایک ڈاکٹر اور دو اسٹاف نرسوں کو اسپتال میں تعینات کردیا ،تاکہ مریضوں کو بروقت طبی امداد دی جاسکے۔1966 ء میں لپروسی انٹرنیشنل مشن نے ڈاکٹر گریس وارن ،کو اسپتال بھیجا، ان کا تعلق آسٹریلیا تھا اور یہ ماہر ڈاکٹر 
اکٹر رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ (جرمن: Ruth Katherina Martha Pfau)  رتھ فاؤ (1929ء تا 10 اگست 2017ء) ایک جرمن ڈاکٹر، سرجن اور سوسائیٹی آؤ ڈاٹرز آف دی ہارٹ آؤ میری نامی تنظیم کی رکن تھیں۔ انہوں نے 1962ء سے اپنی زندگی پاکستان میں کوڑھیوں کے علاج کے لیے وقف کی ہوئی تھی۔ 1996ء میں عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کو قابو میں قرار دے دیا۔ پاکستان اس ضمن میں ایشیا کے اولین ملکوں میں سے تھا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ کا انتقال 10 اگست 2017ء کو کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں ہوا۔

ابتدائی زندگی
9 ستمبر 1929 کو جرمنی کے شہر لیپزگ میں پیدا ہونے والی رُتھ کیتھرینا مارتھا فائو کے خاندان کو دوسری جنگ عظیم کے بعد روسی تسلط والے مشرقی جرمنی سے فرار پر مجبور ہونا پڑا۔ مغربی جرمنی آکر رُتھ فائو نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کا آغاز کیا اور 1949 میں "مینز" سے ڈگری حاصل کی۔ زندگی میں کچھ کرنے کی خواہش ڈاکٹر رُتھ کو ایک مشنری تنظیم "دختران قلب مریم" تک لے آئی اور انہوں نے انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصد حیات قرار دے لیا۔
پاکستان کے لیے خدمات-سن 1958ء میں ڈاکٹر رُتھ فاؤ نے پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی‘ کوڑھ اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے‘ کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘ یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔ پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘ یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘ ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔ 1960 کے دوران مشنری تنظیم نے ڈاکٹر رُتھ فائو کو پاکستان بھجوایا۔ یہاں آکر انہوں نے جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھی تو واپس نہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ کوڑھیوں کی بستی میں چھوٹا سے فری کلینک کا آغاز کیا جو ایک جھونپڑی میں قائم کیا گیا تھا۔ "میری ایڈیلیڈ لیپرسی سنٹر" کے نام سے قائم ہونے والا یہ شفاخانہ جذام کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین کی مدد بھی کرتا تھا۔ اسی دوران میں ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا۔ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر 1963 میں ایک باقاعدہ کلینک خریدا گیا جہاں کراچی ہی نہیں، پورے پاکستان بلکہ افغانستان سے آنے والے جذامیوں کا علاج کیا جانے لگا۔ کام میں اضافے کے بعد کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے کلینک قائم کیے گئے اور ان کے لیے عملے کو تربیت بھی ڈاکٹر رُتھ فائو ہی نے دی۔ جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ڈاکٹر رُتھ نے پاکستان کے دورافتادہ علاقوں کے دورے بھی کیے اور وہاں بھی طبی عملے کو تربیت دی۔ پاکستان میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے انہوں نے پاکستان کے علاوہ جرمنی سے بھی بیش بہا عطیات جمع کیے اور کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی کئی ہسپتالوں میں لیپرسی ٹریٹمنٹ سنٹر قائم کیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نیشنل لیپرسی کنٹرول پروگرام ترتیب دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر رُتھ فاو، ان کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل کی بے لوث کاوشوں کے باعث پاکستان سے اس موذی مرض کا خاتمہ ممکن ہوا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے1996 میں پاکستان کو ایشیا کے ان اولین ممالک میں شامل کیا جہاں جذام کے مرض پر کامیابی کے ساتھ قابو پایا گیا۔

جمعرات، 9 مارچ، 2023

اثنا ء عشری نجیب الطرفین سید''خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ

 

 

 آفتابِ طریقت اور ماہتابِ شریعت۔سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ’۔۔جو پاسبانِ حقیقت بھی تھے اور صاحبِ نسبت بھی۔۔۔جورہبرِ گمگشتگانِ راہ بھی تھے اور شبستانِ ہدایت بھی۔۔۔جو آلِ رسول بھی تھے اور بدرِ ولایت بھی۔ خواجہ اجمیری کی زندگی سادہ تھی،لباس پیوند دار تھا۔ خوراک سوکھی روٹی تھی،رہنے کیلئے ایک جھونپڑی تھی مگر بڑے بڑے اولوالعزم شاہانِ زمانہ آپ کے آستانہ پر حاضر ہو کر آپ کی قدم بوسی کو اپنے لئے سب سے بڑی سعادت اور اعزاز سمجھتے تھے۔سلطان شہاب الدین غوری آپ کی قدم بوسی کیلئے آیا۔کبھی سلطان شمس الدین التمش نے آپ کے سامنے سر ارادت جھکایااور یہ سلسلہ صرف ظاہری حیات میں ہی نہیں بلکہ بعد میں بھی جاری رہا۔ کبھی سلطان محمود خلجی آپ کے روضہ انوار پر حاضرہو کر فتح کی دعا مانگتا ہے

 سلسلہ نسب -سلطان الہند ’’  اثنا ء عشری سادا ت میں نجیب الطرفین سید‘‘ ہیں نجیب الطّرفین کے معنی  والدہ کا بھی اہلِ سادات سے تعلّق ہونا اور والد کا بھی سیّد ہونا اس طرح آپ حسنی اور حسینی سیّد  ہیں ۔  کفر کے اندھیروں میں حق پرستی کی شمع جلانے کے واسطے بحکم پروردگار عالم آپ وارد ِ ہند ہوئے اور بستی سے کچھ فاصلے پر  ایک ویرانے میں جھیل اناساگر کے پہلو میں ایک پہاڑ ی پر گوشہ نشین ہو گئے ،یہ ہندوستان میں راجہ پرتھوی راج کا دور تھا اور اسی کی سلطنت کا ہندوستان  کی عظیم الشّان حکومت میں  چار دانگ عالم ڈنکا بج رہا تھا ،ایسے میں ناجانے  کس طرح ایک درویش کی کٹیا کا کیونکر  شہرِ میں شہرہ ہوا کہ پرتھوی راج کے محل  مین عوام الناّ س کی حاضری کم ہونےلگی راجہ نے اپنے خدّام سے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ شہر سے باہر ایک درویش نے اپنا فقیرانہ آشیانہ جب سے بنایا ہے عوام کا ہجوم صبح ہوتے ہی اسی درویش کی کٹیا  کی جانب چلا جاتا ہے  بس یہیں سے راجہ پرتھوی راج کے زوال کا وقت شروع ہو گیا کیونکہ اس نے خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کو شہر بدر کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے سپاہیوں کو بھیجا کہ فقیر سے کٹیا خالی کروا کر اسےاس کی سلطنت بدر کیا کر کے  جنگل میں بھیجا جائے جب سپاہی راجہ کا حکم لے کر آئے تو خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ میں تمھارے راجہ کے لئے خطرہ نہیں ہوں لیکن اگر مجھے یہاں سے ہٹایا گیا تو یہ تمھارے راجہ کے لئے اچھّا نہیں ہو گا ،سپاہیوں نے جب خواجہ جی کا پیغام راجہ کو پہنچایا لیک اس نے سپاہیوں سے کہا کہ فقیر کو ہر صورت ہٹانا ہے اس بار جب سپاہی خواجہ جی  رحمۃ اللہ علیہ کے پاس راجہ کا حکم نامہ لے کر آئےتب خواجہ جی نے ان سے کہااچھّا مجھے جھیل سے ایک کٹوراپانی لے لینے دو آپ پہاڑی سے اتر کر جھیل تک آئے اور جونہی پا نی کا کٹوارا بھرا جھیل کاپانی مکمّل خشک ہو گیا یہ منظر دیکھ کر سپاہی خوفزدہ ہو کر واپس لوٹ گئے اور راجہ پھر سے خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کو شہر بدر کرنے کی ترکیبیں سوچنے لگا اور آپ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیرچمنستان اسلام  کی آبیاری میں لگے رہے ، آپ اپنی  مخالفت  اور ناسازگار ہوائے زمانہ کی پرواہ کئے بغیر،بدسے بدتراورسخت سے سخت تر حالات میں بھی مشنِ تبلیغِ اسلام سے شمّہ بھر بھی پیچھے نہیں ہٹےاوربالآخر کامیابی  آپ ہی کی رکابِ قدم ہوئ۔چنانچہ کچھ ہی عرصے میں راجہ پرتھوی راج کے سب سے بڑے مندرکا سب سے بڑا پجاری ’’سادھورام‘‘سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوا۔اس کے بعد اجمیرکے مشہور جوگی’’جے پال‘‘نے بھی اسلام قبول کرلیااوریہ دونوں قبولِ اسلام کے ساتھ ہی خواجہ جی کے ساتھ اسلامی مشن میں ہاتھ بٹانے لگے اور پھرہندوستان کے کفرستان میں سینکڑوں سال سے بڑے بڑے تاجدار  شہنشاہوں، بادشاہوں و گداؤ ں کے دلوں پر بلا تفریق  مذ ہب و مسلک راج کرنے والا بے تاج  بادشاہ تاجدار ہند جنہوں نے اپنے کاملہ اخلاق سے ہندوستان کے کفرستان میں علم ِ دین کا کبھی نا بجھنے والا ایسا چراغ جلایا کہ آج تک کوئ اس کو گل کرنے کی ہمّت بھی نہیں پیدا کر سکا  سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے مقتدائے زمانہ ہستیوں سے علومِ دینیہ یعنی علم قرآن،علم حدیث،علم تفسیر،علم فقہ ، علم منطق اورعلم فلسفہ اور دیگر علوم ظاہری وباطنی کی تعلیم حاصل کی۔آپ نے علمِ حصولی کے حصول  کی خاطر  اپنی عمرِعزیز کے  تقریباًچونتیس برس صرف کیے،جب کہ علوم دینیہ کے حصول سے فارغ ہونے کے بعدعلم معرفت وسلوک کی تمناآپ کوایک جگہ سے دوسری جگہ کُشاں کشاں لے جاتی رہی۔

چنانچہ  سرزمین   عجم میں پہنچ کرعلمِ معرفت وسلوک کی تحصیل کے لیےآپ نے اپنے علم ِ معرفت کی خاطر مرشدکامل کو تلاش کیا اور بالآخرآپ کونیشاپورکے قصبہ ’’ہاروَن‘‘میں مل گیا۔جہاں آپ حضرت خواجہ شیخ عثمان ہاروَنی رحمۃ اللہ علیہ ایسے عظیم المرتبت اورجلیل القدربزرگ کی خدمت میں حاضرہوئے اورآپ کے دست مبارک پرشرف ِبیعت سے فیض یاب ہوئے۔حضرت شیخ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ نے نہ صرف آپ کودولت بیعت سے نوازابلکہ آپکوخرقۂ خلافت کے ساتھ ساتھ آپ کواپناخاص مصلّٰی، عصااورپاپوش مبارک بھی د یا-بارگاہِ  خاتم المر سلین حضرت محمّد  صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم  میں حاضری

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیرو مرشد کے ہمراہ بیس سال تک رہے اور بغداد شریف سے اپنے شیخ طریقت کے

 ہمراہ زیارتِ حرمین شریفین کا مبارک سفر اختیار فر ما یا ۔ چنانچہ اس مقدس سفر میں اسلامی علوم و فنون کے عظیم مراکز مثلاً بُخارا،

 سمر قند، بلخ، بد خشاں وغیرہ کی سیرو سیاحت کی۔ بعد ازاں مکہ مکرمہ پہنچ کر مناسکِ حج ادا کر کے حضرت خواجہ شیخ عثمان ہا روَنی

 رحمۃ اللہ علیہ نے حضر ت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ پکڑ ا اور میزابِ رحمت کے نیچے کھڑے ہو کر با رگاہِ خدا وندی میں

 اپنے ہاتھ پھیلا کر یوں دُعا فر ما ئی

’’اے میرے پروردگار! میرے معین الدین حسن کو اپنی با ر گاہ میں قبول فر ما‘‘!

اسی وقت غیب سے آوازآئی’’معین الدین !ہمارا دوست ہے ، ہم نے اسے قبول فر ما یا اور عزت و عظمت عطا کی ‘‘۔

یہاں سے فراغت کے بعد حضرت خواجہ عثمان ہا رونی ، خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو لے کر مدینہ منورہ میں بار گاہِ  رسولِ

 دوسرا  صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پہنچے اورآپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم کی بار گاہِ مقدسہ میں اپنا ہدیہ درودو سلام پیش کیا الصلوٰ ۃ والسلام

 علیکم یا سید المرسلین و خاتم النبین۔روضۂ اقدس سے یوں جواب عنایت ہوا وعلیکم السلام یا قطب المشائخ حضرت خواجہ معین

 الدین چشتی علیہ الرحمۃ با ر گاہ ِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے سلام کا جواب اورقطب المشائخ کا خطاب سن کر بہت ہی

 خوش ہوئے ۔

چنا نچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ سیروسیاحت کرتے کرتے مختلف شہروں سے ہو تے ہوئے اور اولیاءِ کرام کی

 زیا رت و صحبت کا فیض حاصل کر تے ہوئے جب لا ہور تشریف لا ئے تو یہاں حضور دا تا گنج بخش سید علی ہجویری علیہ الرحمۃ کے

 مزار شریف پر حاضری دی اور چالیس دن تک معتکف بھی رہے اور یہاں بے بہا انوارو تجلیات سے فیضیاب ہو ئے تو رخصت ہو

 تے وقت یہ شعر بہ طورِ نذرانۂ عقیدت حضور داتا صاحب کی شان میں پیش کیا ۔

گنج بخش ، فیض عالم ، مظہر نورِ خدا

ناقصاں را پیر کامل ، کا ملاں را راہنما

حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ کو جو فیوض برکا ت اور انوار و تجلیات یہاں سے حاصل ہوئیں ، اس کا اظہار و اعلان اس

 شعر کی صورت میں کر دیا۔ اس شعر کو اتنی شہرت ہو ئی کہ اس کے بعد حضور داتا گنج بخش سید علی ہجویری علیہ الرحمۃ کو لوگوں نے

 ’’داتا گنج بخش‘‘کے نام سے مو سوم اور مشہور کر دیا۔

سیرت و کردار-حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی انقلاب آفرین شخصیت ہندوستان کی تاریخ میں ایک نہایت ہی زریں با ب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ کے اس دور میں جہاں ایک طرف آپ کی توجہ اور تبلیغی مسا عی سے ظلمت کدہ ہند میں شمع ِ اسلام کی روشنی پھیل رہی تھی ، دلوں کی تاریکیاں ایمان و یقین کی روشنی میں تبدیل ہو رہی تھیں ، لو گ جو ق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ تودوسری طرف ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی غلبہ بھی بڑھ رہاتھا۔حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مندوں اور مریدوں میں شامل سلطان شہاب الدین غوری اوراُن کے بعدسلطان قطب الدین ایبک اور سلطان شمس الدین التمش ایسے با لغ نظر ، بلند ہمت اور عادل حکمران سیاسی اقتدار کو مستحکم کر رہے تھے ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغ اسلام ، احیائے دین و ملت ، نفاذِ شریعت اور تزکیۂ قلوب واذہان کا

 اہم ترین فریضہ جس موثر اور دل نشین انداز میں انجام دیا ، وہ اسلامی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ آپ کی

 تشریف آوری کے بعد تو اس ملک کی کا یا ہی پلٹ گئی ۔ لا کھوں غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام لائے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ قرآن و سنت کا قابل رشک نمونہ تھی ۔آپ کی تمام زندگی

 تبلیغ اسلام ، عبادت و ریاضت اور سادگی و قناعت سے عبارت تھی۔ آپ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام میں گزارتے

 تھے ۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اوراخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل نمونہ تھے ۔

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ غرباء اور مساکین کے لیے سرا پا ر حمت و شفقت کا مجسمہ تھے اور غریبوں سے بے مثال

 محبت و شفقت کی وجہ سے دنیا آپ کو ’’غریب نواز‘‘کے عظیم لقب سے یا د کر تی ہے ۔دنیا سے بے رغبتی اورزہد و قناعت کا یہ

 عالم تھا کہ آپ کی خدمت عالیہ میں جو نذرانے پیش کیے جا تے وہ آپ اسی وقت فقراء اور غرباء میں تقسیم فر ما دیتے تھے۔ سخاوت

 و غریب نوازی کا یہ حال تھا کہ کبھی کوئی سائل آپ کے در سے خالی ہا تھ نہ جا تا تھا۔ آپ بڑے حلیم و بر د بار ، منکسر المزاج اور

 بڑے متوا ضع تھے۔

آپ کے پیش نظر زندگی کا اصل مقصد تبلیغ اسلام اور خدمت خلق تھا۔آپ کے بعض ملفوظاتِ عالیہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ

 بڑے صاحب دل،وسیع المشرب اور نہایت دردمند انسان تھے۔ آپ عمیق جذبہ انسانیت کے علمبردار تھے۔ آپ اپنے مریدین

 ، معتقدین اور متوسلین کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ وہ اپنے اندر دریا کی مانند سخاوت و فیاضی، سورج ایسی گرم جوشی و شفقت اور زمین

 ایسی مہمان نوازی اور تواضع پیدا کیاکریں۔

اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ : ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کو اپنی محبت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ

 اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہمہ وقت اس کی رضا وخوشنودی کے لیے وقف کر دیتا ہے تو خداوند قدوس اس بندے کو اپنیرحمتِ خاص

 سے نواز دیتا ہے  یہاں تک کہ وہ صفات الٰہی کا خودمظہر بن جاتا ہے اور آپ حقیقت میں اس کا عملی نمونہ بن گئے تھے ‘۔تبلیغ و اشاعت دین-تاجدارِ ہند حضرت خواجہ معین الدین  حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جب علم وعرفاں اورمعرفت وسلوک کے منازل طے کرچکے اوراپنے شیخ طریقت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ کے علمی وروحانی فیضان سے فیض یاب ہوئے توپھراپنے وطن واپس تشریف لے گئے۔وطن میں قیام کئے ابھی تھوڑی ہی مدت ہوئی تھی کہ آپ کے دل میں بیت اللہ اورروضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے تڑپ پیدا ہوئی۔چنانچہ اسی وقت آپ اس مقدس سفرکے لئے چل پڑے۔حرمین طیبین پہنچنے کے بعداپنے دل کی مرداپائی اور قلب کوتسکین حاصل ہوئی۔ حضورسیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس کئی دنوں تک عبادت و ریاضت اورذکروفکرمیں مشغول رہے۔(آپ کی اجمیر آمد )آپ ایک دن اسی طرح عبادت اورذکرو فکر میں مستغرق تھے کہ روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سعادت افروزآوازآئی:

’’اے معین الدین!توہمارے دین کامعین ومددگار ہے،ہم نے تمھیں ہندوستان کی ولایت پرفائزکیاہے، لہٰذااجمیرجاکر اپناقیام

 کروکیوں کہ وہاں کفرو شرک اورگمراہی وضلالت کی تاریکیاں پھیلی ہوئی ہیں اور تمھارے وہاں ٹھہرنے سے کفروشرک کا

 اندھیرادور ہوگااوراسلام وہدایت کے سورج کی روشنی چہارسوپھیلے گی‘‘۔ابھی آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ہندو ستان میں اجمی

 کس جگہ پر ہے کہ اچانک اونگھ آگئی اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے شرف یا ب ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ

 وسلم نے مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب تمام ہندوستان کی سیر کر ادی اور اجمیر کا پہاڑ بھی دکھا دیا ۔

اجمیرشریف!وسطیٔ ہندکاایک مشہورشہرہے۔جس طرح یہ شہرمرکزِ سلطنت بننے کیلئے موزوں تھا،اسی طرح یہ

 شہرتوحیدورسالت کے انوارو تجلیات اور علم وعرفاں کاروحانی مرکزومنبع بننے کیلئے بھی بے حد مناسب تھا۔حضرت ِوالانے ایک

 مناسب جگہ منتخب کرکے اس کواپنامسکن بنالیااور ذکروفکراوریادخداوندی میں مشغول ہوگئے۔لوگوں نے جب آپ کے سیرت

 وکردار،علم وفضل اورذکروفکر کے اندازو اطور کودیکھاتووہ خودبہ خودآپ کی طرف متوجہ ہوتے گئے۔چنانچہ اجمیر کا جوبھی آدمی

 ایک مرتبہ آپ کی خدمت ِعالی میں حاضرہوجاتاوہ اسی وقت آپ کا مریدو معتقد اور گرویدہ ہو جاتا۔تھوڑے ہی عرصہ میں

 ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں نے آپ کی صحبت کیمیا اثراورآپ کے عظیم اخلاق وکردارکے باعث اسلام قبول گیا۔چنانچہ ایک

 مشہورروایت کے مطابق تقریباًنوے لاکھ (90لاکھ) غیر مسلم اسلام کی دولت سے فیض یاب ہوکرمسلمان ہوئے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مقام و منصب کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ کو با ر

 گاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’قطب المشائخ‘‘کا لقب عطا ہوا۔آپ نے دین حق کی تبلیغ کا مقدس فریضہ نہایت شاندار

 طریقے سے سر انجام دیا۔ آج ہندوستان کا گوشہ گوشہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات سے ما لامال ہے ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدین و معتقدین کو اشاعت اسلام اور رشد و ہدایت کی مشعل

 روشن کر نے کے لئے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں روانہ کیاتا کہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ اسلام کی ضیاء پا شیوں سے روشن و

 تاباں ہو جائے ۔ آپ نے اپنے عظیم کر دار اور اچھے اخلاق سے بہت جلد غیر مسلموں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور وہ فوج در فوج اسلام

 قبول کر نے لگے اور یوں انتہائی قلیل مدت میں اجمیر شریف اسلامی آبادی کا عظیم مر کز بن گیا اور آپ کے حسنِ اخلاق سے آپ

 کی غریب نو ازی کا ڈنکا چہار دا نگِ عالم بجنے لگا۔ یہ تھا ایمان ویقین اور علم و عمل کا وہ کرشمہ اور کرامت جو ایک مر د ِ مو من نے سر

 زمینِ ہند پر دکھا ئی اور جس کی بدولت اس ملک میں جہاں پہلے ’’نا قوس ‘‘ بجا کر تے تھے  بت خانوں میں اپنی اپنی پسند کے بتوں کی

 پوجا ہوتی تھی وہاں جائے نمازوں کی صفیں بچھائ جانے لگیں ، اور معاشرے میں  اللہ اکبر‘‘کی دلفریب و دلآویز صدائیں  گونجنے

 لگیں۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اثر آفرین جدو جہد سے اس وسیع و عریض ملک کے باشندوں کو کفر و

 شرک اور گمراہی و ضلالت کے زنداں سے آزاد فر ما یا ۔ تبلیغ دین حق کے لئے آپ سراپا عمل بن کر میں میدان میں آئے اور

 استقامت کا بے نظیر ثبوت دیا اور لو گوں کو اسلام ، حق و صداقت اور علم و عمل کی دعوت دی ، لا کھوں افراد آپ کی طرف متوجہ

 ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُن کے دل درست عقائد، عملِ صالح اور پا کیزہ اخلاق  سے سیراب ہو  گئے اور اصلاحِ

 معاشرہ کی تحریک کو روز افزوں استحکام نصیب ہوا۔ یوں تو ہزاروں کرامتیں آپ سے ظہور پذیر ہوئیں اور آفتاب و مہتاب بن

 کر نمایاں ہوئیں لیکن آپ کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ کے انقلاب آفرین جدو جہد اور اثر آفرین تبلیغ اسلام کے

 طفیل ہندوستان میں دین ِ اسلام کی حقانیت و صداقت کا بو ل با لا ہوا۔سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ  نے عوام

 النّاس کے قلوب کو اپنی اخلا ق اور حلم سے سنوارا   اور شہر اجمیر کو  اجمیر  شریف کا لقب دے کر  جنت ِمعرفت بنا دیا۔ آپ کے فیضِ

 با طنی سے اسلام کا آفتاب ہندوستان میں طلوع ہوا تو لاکھوں غیر مسلم آپ کی توجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔تقریباً 45برس

 تک آپ اجمیر شریف میں حیات ظاہری کے ساتھ مخلوقِ خدا کو فیض یاب فر ما تے رہے ۔ہندوستان میں اشاعتِ اسلام اور رشد

 وہدایت کی شمع روشن کر نا آپ کا سب سے تاریخی او ر عظیم کا ر نا مہ ہے  آپ فرماتے تھےجس نے اسلام میں کسی نیک کا م کی

 ابتداء کی اوراس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے نامہ اعمال میں بھی اس طرح اجر لکھ دیا جائے گا جیسا کہ عمل کرنے والے

 کے اعمال نامہ میں لکھاجائے گا‘‘)

چنانچہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق آپ کی دعوت وتبلیغ، سیرت و کردار کی برکت سے دنیامیں جس قدر مسلمان ہو ئے اور آئندہ قیامت تک جتنے مسلمان ہوں گے اور اُن مسلمانوں کے ہاں جو مسلمان اولاد پیدا ہو گی، اُن سب کا اجر و ثواب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی روحِ پر انوار کو پہنچتا رہے گا،کیونکہ یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے کہ جس کا اجروثواب قیامت تک ملتا رہے گا۔اجمیر شریف آمداورپرتھوی راج کی مخالفت-سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ لاہورسے دہلی تشریف لے گئے،جہاں اس دورمیں ہر طرف کفرو شرک اورگمراہی کادوردورہ تھا۔حضرت خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ نے یہاں کچھ عرصہ قیام فرمایااورپھراپنے خلیفۂ خاص حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ کو مخلوق کی ہدایت اورراہنمائی کے لئے متعین فرماکرخودحضور سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اجمیرجانے کاقصد فرمایا،آپ کی آمدسے نہ صرف 

اجمیربلکہ پورے ہندوستان کی قسمت جاگ اٹھی ۔  

راجہ پرتھوی راج کاستانا اور اس کا بد انجام

اجمیرکاراجہ پرتھوی راج روزانہ نت نئے طریقوں سے خواجہ جی کو تکلیف پہنچانے اور پریشان کرنے کی کوششیں کرتا رہتا  تھا - اللہ

 تعالٰی  کے فضل و کرم اور عنائت سے اس کی ہر تدبیر الٹی ہو جاتی تھی اکبر بادشاہ نے اپنے یہاں اولادِ نرینہ کی دعاء حضر خواجہ معین

 الدّین سے کروائ تھی اور ساتھ ہی منّت مانی تھی کہ اگر بیٹا ہو گیا تو وہ م آستانہ پر ننگے پاؤں حاضری دے گا اور چار من  چاول کی

 دیگ چڑھائے گا جب اس کی منّت پوری ہوئ تب وہ پاپیادہ دیگ لے حاضر آستانہ ہوا اور آستانہ ء مبارک پر اس دیگ میں چاول

 پکائے جانے لگے اللہ کی مخلوق ان چاولوں سے فیضیاب ہونے لگی راجہ پرتھوی راج نے اپنے سپاہی بھیج کر خواجہ جی کو پیغام بھیجا کہ

 اس طرح رعایا کی عادتیں خراب ہوتی ہیں اور آستانے پر چاول پکانے اور کھلانے کا ،

سلسلہ موقوف کیا جائے

خواجہ جی نے راجہ کو جواب میں کہلوایا کہ جس روز میرا اللہ مجھ کو چاول دینا بند کر دے گا میں اس کی مخلوق کو کھلانا بند کر دوں گا

پھر ایک دن خواجہ جی نے اپنے مریدین سے با اطمینان کہا

’’میں نے پرتھوی راج کوزندہ سلامت لشکراسلام کے سپردکردیا‘‘۔

چنانچہ آپ کافرمان درست ثابت ہوااورتیسرے ہی روزفاتح ہند سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان کوفتح

 کرنے کی غرض سے دہلی پرزبردست لشکرکشی کی۔راجہ پرتھوی راج لاکھوں کا لشکر لے کرمیدان جنگ میں پہنچا اور معرکہ

 کارزارگرم کردیا۔کفرواسلام اورحق وباطل کے درمیان زبردست معرکہ جاری تھا اوردست بہ دست لڑائی اپنے عروج پرتھی

 کہ سلطان غوری نے پرتھوی راج اوراس کے لشکرکوشکستِ فاش دے کرپرتھوی راج کوزندہ گرفتارکرلیا اوربعدازاں وہ قتل

 ہوکرواصلِ جہنم ہوگیا۔ راجہ پرتھوی کے عبرت ناک قتل اور ذلت آمیزشکست اور سلطان شہاب الدّین غوری کے لشکراسلام

 کی عظیم الشان اور تاریخی فتح کے نتیجے میں ہزاروں لوگ فوج درفوج اسلام قبول کرنے لگے۔یوں اجمیر شریف میں سب سے

 پہلے پرچم  اسلام سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ  کے دستِ حق پرست سے بلند ہو ا۔

سلطان شہاب الدین غوری کاشرفِ بیعت

فاتح ہندسلطان شہاب الدین غوری بہ صدعجزوانکسارسلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی

 خدمت عالیہ میں حاضرہوا اورآپ سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔چنانچہ روایت ہے کہ دہلی فتح کرنے کے بعدجب سلطان شہاب

 الدین غوری اجمیرشریف میں داخل ہوئے تو شام ہوچکی تھی۔ مغرب کاوقت تھا،اذانِ مغرب سنی تودریافت کرنے پرمعلوم

 ہواکہ ایک درویش کچھ عرصے سے یہاں اقامت پذیرہیں۔ چنانچہ سلطان غوری فوراًمسجد کی طرف چل پڑے۔جماعت کھڑی

 ہوچکی تھی اور سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ مصلیٔ امامت پرفائزہوکرامامت فرما رہے ہیں ۔

 سلطان غوری بھی جماعت میں شامل ہوگئے۔

جب نمازختم ہوئی اوراُن کی نظر خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ پرپڑی تویہ دیکھ کرآپ کوبڑی حیرت ہوئی کہ آپ کے سامنے وہی

 بزرگ جلوہ فرماہیں، جنہوں نے آپ کوخواب کے اندر’’فتح دہلی‘‘ کی بشارت دی تھی۔سلطان شہاب الدین غوری فوراًآگے

 بڑھے اورخواجہ غریب نوازکے قدموںمیں گرگئے اور آپ سے درخواست کی کہ حضور!مجھے بھی اپنے مریدوں اورغلاموں

 میں شامل فرمالیں ۔چنانچہ حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی اس خواہش کو شرف ِقبولیت بخش کرآپ کودولت

 بیعت سے نوازکر اپنامرید بنالیا۔

یہ وہی سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے نام نامی اسم گرامی سے ہمارے پیارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان

 کا سپرپاور اسلامی ایٹمی میزائل’’غوری میزائل‘‘موسوم ہے،جو محسنِ پاکستان  فرزندپاکستان   وقومی ہیروڈاکٹرعبدلقدیر خان اور

 آپ کے دیگرسائنس داں ساتھیوں نے تخلیق کیاہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان سلطان شہاب الدین غوری خاندان

 سے تعلق رکھتے ہیں۔

خواجہ غریب نوازکافیض عام  تو فتح یاب ہوتا ہے اور کبھی اکبر بادشاہ آپ کی درگاہِ عالیہ میں اولاد کی درخواست پیش کرتا ہے تو بامراد لوٹتا ہے۔ کبھی جہانگیر اپنی شفایابی پر سرِ دربار آپ کا حلقہ بگوش غلام ہو جاتا ہے۔

اس وقت سے لے کر آج تک ہندوستان کے سارے حکمران بلا امتیاز عقیدہ و مسلک، اس آستانہ عالیہ پر اپنا سر نیاز جھکاتے آئے

 ہیں اور آپ کے  مبارک قدموں کے طفیل  سرزمینِ ہندوستان رشک فردوس بن  گئ اور  آپ کی دہلیز کی خاک ہزاروں قلوب کی

 شفائے  دوا بن گئ  ۔ آج بھی آپ کی شانِ غریب نوازی کار فرما ہے۔ آپ کا پیغامِ محبت فضائے عالم میں گونج رہا ہے۔اللہ کی مخلوق

 سے بے غرض  الفت و محبّت  دھرتی کے سینے پر امر ہو گئ اوراہلِ طریقت آپ کے حسنِ باطن اور عشقِ حقیقی کے تصرفات سے

 آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ آپ کے نورِ ولایت کا آفتاب آج بھی چمک اور دمک رہا ہے۔ آپ کا قلبی نور آج بھی ضیاء بخش

 عالم ہے۔آپ کی آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو آج بھی آبِ حیات اور بارانِ رحمت کی طرح فیض رساں ہیں۔نامورخلفاء

 کرامحضرت خواجہ خواجگان، قطب الاقطاب، سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمہ اللہ سے حسب ِ ذیل جلیل القدر ہستیوں کو بھی خلافت حاصل ہوئی:

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت بابا فرید گنج شکر، حضرت علاءو الدین علی بن احمد صابر کُلیری، حضرت خواجہ نظام

 الدین اولیاء محبوب ِالٰہی، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ شامل ہیں۔۔۔یہ برگزیدہ اور عظیم المرتبت بزرگ اپنے وقت

 کے ولیٔ کامل اور باکرامت اولیاء اللہ ہوئے۔ ان حضرات نے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی جلائی ہوئی شمعِ توحید سے نہ صرف خود

 روشنی حاصل کی بلکہ کروڑوں لوگوں کو اس شمعِ توحید کی ضیاء پاشیوں سے فیض یاب کیا، جس کی بدولت آج چہار عالم روشن و

 تاباں ہیں۔۔۔ چناں چہ خانقاہِ چشتیہ سلیمانیہ تونسہ شریف، گولڑہ شریف، سیال شریف،مکھڈشریف، چشتیاں شریف وغیرہ کی

 خانقاہوں کے چراغ اسی شمع کی بدولت روشن ہیں اور دوسروں کو بھی نور ایمان و ایقان اور نورِ علم و معرفت سے روشن کر رہے ہیں۔

وصال مبارک

تاجدارعلم ومعرفت، آفتابِ رشدوہدایت، قطب المشائخ، سلطان الہند،خواجہ غریب نوازحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ایک طویل مدت تک مشارق ومغارب میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کرتے رہے۔ رشدوہدایت کی شمع جلاتے رہے۔ علم ومعرفت کوچہارسوپھیلاتے رہے۔ لاکھوں افراد کومشرف بہ اسلام کیا۔ لاتعدادلوگوں کو صراطِ مستقیم پر گامزن کیا۔ ہزاروں کو رشدوہدایت کا پیکر بنایا۔ الغرض یہ کہ آپ کی ساری زندگی امربالمعروف ونہی عن المنکرپر عمل کرتے ہوئے گزری۔بالآخریہ عظیم پیکرعلم وعرفاں، حامل سنت وقرآں، محبوبِ یزداں،محب سروروکون ومکاں،شریعت وطریقت کے نیرتاباں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ 6رجب المرجب633ھ/1236ء کو باغ عدن کی جانب کوچ کر گئےروایات میں آتا ہے کہ جس وقت آپ کا وصال ہوا،آپ کی پیشانی مبارکہ پرنورانی خط میں تحریرتھااللہ کا دوست، اللہ کی محبت میں وصال کرگیاخواجہ غریب نوازحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مزارپرانوار اجمیر شریف ہندوستان  میں مرجع خلائق ہے ۔آپ کے مزارِ مبارک  پر صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے بھی لا کھوں افراد بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ حاضر ہو تے ہیں ۔ اجمیر شریف میں آپ کی درگاہِ عا لیہ آج بھی ایمان و یقین اور علم و معرفت کے نو ر بر ساتی ہے اور ہزاروں خوش نصیب لو گ فیض یاب ہو تے ہیں۔

آپ کا عرس مبارک ہر سال نہ صرف اجمیرمیں بلکہ پورے پاک وہند میں پورے عقیدت واحترام اورتزک واحتشام کے ساتھ

 منایاجاتا  ہے،تاجدارِ معرفت اوررشدو ہدایت کے پیکر عارف باللہ  قطب الاقطاب اس عظیم سورج کو غروب ہوئے کئی سوسال

 گزرچکے ہیں مگراس کی گرمی وحرارت سے آج بھی طالبانِ علم و معرفت اسی طرح فیض یاب ہو رہے ہیں، جس طرح آپ کی

 حیاتِ مبارکہ میں ہوتے تھے

آ پ کے مزار پر فارسی زبان میں جو شعر تحریر ہے اس کے معنی ہیں میرے اجداد کربلا میں پانی کے محتا ج  نہیں تھے لیکن انہوں

 نے دینِ حق بقاء کی خاطرپیاس کی شدّت میں شہادت کو ترجیح دی

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے


بدھ، 8 مارچ، 2023

"خواتین کا عالمی دن"میرا جسم میری مرضی

 

 

"خواتین کا عالمی دن" خواتین اسلام کی نظر میں

8 مارچ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے. غور کریں تو بہت سے سوالات سر اٹھاتے

 ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ آیا اس دن کو کیوں منایا جاتا ہے؟ اس دن کو منانے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟ اور اس دن کو منانے کے 

پیچھے کون سے حقائق پوشیدہ ہیں جن کی بنا پر اس دن کو خواتین کے دن سے منسوب کر دیا گیا ہے؟ اگر اس دن کے حوالے سے 

تاریخی مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 8 مارچ 1907ء کو امریکا کے شہر نیویارک میں ایک گارمنٹس فیکٹری میں 1

0 گھنٹے روزانہ کام کرنے والی خواتین نے اوقات کار کم کرنے کے لیے مظاہرہ کیا تھا۔ ان خواتین کا مطالبہ تھا کہ انھیں مردوں

 کے برابر حقوق دیئے جائیں۔ پولیس نے ان خواتین پر تشدد کیا۔ مظاہرہ کرنے والی خواتین کے خلاف گھڑسوار دستوں کو استعمال 

کیا گیا۔ نیویارک پولیس نے مظاہرہ کرنے والی خواتین کو گرفتار کر لیا۔


اس واقعے کے بعد یورپی ممالک میں ہر سال عالمی کانفرنس برائے خواتین کا انعقاد ہونے لگا۔ سب سے پہلے 1909ء میں

 سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے عورتوں کا دن منانے کی قرارداد منظورکی۔ 1913ء تک ہر سال فروری کے آخری اتوارکو عور

توں کا دن منایا جاتا تھا۔ پھر 1913ء میں پہلی دفعہ روس میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔پہلی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین 

نے سرکاری طور پر 8 مارچ کو خواتین کا قومی دن قرار دیا۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ 

ریاست کی ذمے داری ہے مگر خواتین دوہرے استحصال کا شکار ہیں۔ پاکستان کے بیشتر خاندانوں میں خواتین کی حیثیت ثانوی ہ

ے۔ اس روایت پر ریاستی اداروں اور غیر ریاستی اداروں میں یکساں طور پر عمل ہوتا ہے۔ اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو 

ان کے حقوق کا تحفظ تقریباً چودہ سو سال پہلے کیا.

اسلام نے عورت کو مقام و مرتبہ عطا فرمایا. ماں ہے تو اس کے قدموں میں جنت رکھ دی. بیٹی ہے تو اس کا اپنا مقام اور بیوی ہے تو

 اس کا الگ مقام رکھا. بہن ہے تو اس کو الگ مقام عطا کیا. جس دور میں عورت کو نفرت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور بیٹی کی پیدائش

 پر افسوس کا اظہار کیا جاتا تھا بلکہ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ ایسے دور میں اسلام کی آفاقی تعلیمات عورت کے عزت و مقام کا پرچار کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں. بلکہ اس کے ساتھ عورت کے حقوق کا تحفظ بھی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں. اسلام نے عمل اور اجر میں مرد و عورت کو مساوی کیا ہے. چنانچہ قرآن پاک میں واضح کردیا گیا کہ'مردوں کو اپنی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کو 

اپنی کمائی کا حصہ ہے اور (دونوں ) اللہ سے اس کا فضل مانگو' (سورۃ النساء 32 )

عورت کے حقوق کے حوالے سے متعدد آیات اور احادیث ملتی ہیں. جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ 'عورتوں

 کےمعاملے میں ﷲ سے ڈرو' (الحدیث)

اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو ہر حقوق عطا کیا. اسلام نے عورت کو ذلت و پستی سے نکال کر شرف انسانیت بخشا

. لیکن ہماری آج کی مسلم خواتین نہ جانے کس روش پر چل نکلی ہیں.! اسلام نے تمام حقوق عطا کیے ہیں یہاں تک کہ جائیداد میں 

بھی حصہ رکھ دیا. مگر آج کی خواتین پھر اپنا حق مانگنے کے لیے مغرب کے دکھائے گئے راستوں پر چل رہی ہیں. اور یہ حق وہی خ

واتین مانگنے کے لیے سڑکوں پر نکل آتی ہیں جو پہلے سے خود مختار ہیں. جن کو انصاف یا حق چاہیے وہ تو آج بھی سفید پوش بنی گھر 

والوں کی عزت کی خاطر ہر ظلم سہہ جاتی ہے اور کوئی اولاد کی خاطر خاموش ہے.آج کی عورت کو اپنے 'عورت ' ہونے کا مفہوم

 سمجھنے کی ضرورت ہے. عورت کا مطلب پردہ ہے. مگر عورت وہ آزادی چاہ رہی ہے جو ہمارے اسلا م میں نہیں ہے

. اسلام نے

 عورت کو تمام تر حقوق عطا کیے ہیں. اس کو ضرورت کے وقت گھر سے باہر نکل کر کام کرنے کی اجازت دی ہے.عورتیں تمام

 شعبہ ہائے زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی رہی ہیں اور کرتی آ رہی ہیں. اگر اسلام میں دیکھا جائے تو غزوات میں بھی 

خواتین شامل تھیں. مگر ہماری آج کی عورت مرد کی برابری چاہتی ہے جب کہ قرآن مجید میں ﷲپاک نے واضح طور پر فرمایا ہے 

کہ ' اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور ﷲتعالی غالب اور حکمت والا ہے.' (سورہ البقرہ آیت 228)اگر دیکھا جائے تو ہما

ری آج کی عورت تربیت چھوڑ کر کفالت کے پیچھے بھاگ رہی ہے.کفالت سے صرف گھر بنتا ہے. جب کہ تربیت عورت کو امن 

کی جگہ پر ٹھہرا کر سنوارتی، سجاتی اور قائم رکھتی ہے. ہماری آج کی عورت مرد کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے کہ اگر مرد نے چار قدم اٹھائ

ے ہیں تو عورت کو پانچ اٹھانے پڑتے ہیں. لیکن عورتیں مقابلے کی زد میں آ کر چار کے مقابلے میں چار اٹھانے کی کوشش میں اپ

اپنا حسن کھو بیٹھے گی. احساس، محبت، شائستگی، حیا، ممتا، نزاکت، یہی تو زن کا حسن ہے. مرد و زن سائیکل کے دو پہیوں کی طرح

 ہوتے ہیں. آگے پیچھے ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے. اگر پچھلا پہیہ آگے والے سے مقابلہ شروع کر دے تو سائیکل تو ٹوٹ جائے گی 

نا. محافظ ہی آگے چلتے ہیں، محبوب نہیں. عورت محبوب اور مرد اس کا محافظ ہے. لیکن آج کی خواتین آزادی کے نام پر بے بہود 

قسم کے پوسٹرز بنا کر اور 'میرا جسم میری مرضی' جیسے نعرے لگا کر مرد کی غیرت کو للکار رہی ہیں.آج کی عورت ہر مرد کو ہرانا چ

اہتی ہے جب کہ ﷲ پاک نے تمام جانداروں کو جوڑوں میں پیداکیا. انسان کے علاوہ کوئی جاندار اپنے ساتھی سے مقابلہ نہیں کرتا

 ہے. ہمارے ہاں مرد و زن نے آپس میں ہی مقابلہ شروع کر رکھا ہے. ہر کوئی انا کا مسئلہ بنا کر چلنا چاہتا ہے. مرد اور عورت مل کر

 معاشرہ بناتے ہیں، دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے لہذا دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق دینے پڑیں گے۔-

خواتین کا عالمی دن ایک مزدور تحریک کے طور پر شروع ہوا تھا اور اب یہ اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ ایک سالانہ دن

 ہے۔اس کو عالمی سطح پر لے جانے کا خیال کلارا زتکن نامی خاتون کا تھا جو کہ ایک کومیونسٹ اور خواتین کے حقوق کی کارکن تھ

یں۔اس دن کا آغاز 1908 میں نیو یارک شہر سے ہوا جب 15000 خواتین نے کم گھنٹے کام، بہتر تنخواہوں اور ووٹ کے حق 

کے لیے مارچ کیا۔ اس سال بعد سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے پہلا قومی یومِ نسواں منایا۔

اس کو عالمی سطح پر لے جانے کا خیال کلارا زتکن نامی خاتون کا تھا جو کہ ایک کمیونسٹ اور خواتین کے حقوق کی کارکن تھیں۔ انھوں 

نے 1910 میں کوپن ہیگن میں انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن میں یہ خیال پیش کیا۔ وہاں 17 ممالک سے 100

 خواتین موجود تپیں جنھوں نے متفقہ طور پر اس کی تائید کی- ہ پہلی مرتبہ آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں 1911 میں منایا گیا۔ اس کے سو سال 2011 میں منائے گئے چنانچہ اس سال ہم 111واں یومِ خواتین منائیں گے۔سنہ 1975 میں اسے سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا جب اقوام متحدہ نے اسے منانا شروع کر دیا۔ سنہ 1996 میں پہلی مرتبہ اس کو ایک تھیم دیا گیا جب اقوام متحدہ نے اسے ‘ماضی کا جشن اور مستقبل کی منصوبہ بندی‘ کے عنوان سے منایا۔

جس دن روس میں خواتین کی ہڑتال شروع ہوئی تھی 

کلارا نے خواتین کے عالمی دن کے لیے کوئی خاص تاریخ منتخب نہیں تھی اور یہ 1917 تک متعین بھی نہیں ہوئی تھی جب پہلی

 عالمی جنگ کے دوران روسی خواتین نے ‘روٹی اور امن‘ کے مطالبات کے ساتھ ہڑتال کر دی اور چار دن کے بعد روسی سربراہ کو 

حکومت چھوڑنی پڑی اور خواتین کو ووٹ کا عبوری حق مل گیا۔جس دن روس میں خواتین کی ہڑتال شروع ہوئی تھی وہ جولیئن 

کیلنڈر میں 23 فروری تھی جو موجودہ کیلنڈر میں 8 مارچ ہے اور اسی لیے یہ آج کی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔

3۔ لوگ جامنی رنگ کیوں پہنتے ہیں؟

جامنی رنگ انصاف اور وقار کی علامت ہے۔

عالمی یومِ خواتین کے رنگوں میں جامنی، ہرا، اور سفید شامل ہیں۔

۔ ہرا رنگ امید ظاہر کرتا ہے۔ سفید پاکیزگی کے لیے رکھا گیا ہے تاہم یہ قدرے متنازع ہے۔ یہ رنگ برطانیہ میں 1908 میں

 ویمنز سوشل این پولیٹیکل یونین سے نکلے ہیں۔

۔ خواتین کا عالمی دن کیسے منایا جاتا ہے؟اٹلی میں اس دن مموسا بلوسمز پھول دیے جاتے ہیں۔ اس روایات کا آغاز کیسے ہوا یہ تو کسی

 کو معلوم نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ یہ روم میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد شروع ہوا۔خواتین کا عالمی دن کئی ممالک میں قومی تعطیل

 کا دن ہے، بشمول روس کے جہاں 8 مارچ کے آس پاس تین چار دنوں میں پھولوں کی فروخت دگنی ہو جاتی ہے۔چین میں

 حکومت کی جانب سے خواتین کو آدھے دن کی چھٹی دی جاتی ہے مگر بہت سی کمپنیاں یہ چھٹی اپنے ملازموں کو نہیں دیتیں۔اٹلی م

یں اس دن مموسا بلوسمز پھول دیے جاتے ہیں۔ اس روایات کا آغاز کیسے ہوا یہ تو کسی کو معلوم نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ یہ روم میں 

دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہوا۔

امریکہ میں مارچ کا مہینہ تاریخِ نسواں کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک صدارتی اعلان بھی کیا جاتا ہے جس

 میں سال بھر کی خواتین کی کامیابیوں کو اعزاز دیا جاتا ہے۔ اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے تقریبات آن لائن کی جانی ہیں۔

کملا ہیرس امریکہ کی تین سو سالہ تاریخ میں نائب صدر بننے والی پہلی خاتون ہیں

اقوام متحدہ نے 2022 کے لیے اس دن کا عنوان رکھا ہے ‘ایک پائیدار کل کے لیے صنفی مساوات‘۔ اس سال تقریبات میں یہ دیکھا جائے گا کہ خواتین ماحولیاتی تبدیلی سے کیسے نمٹ رہی ہیں۔مگر دنیا بھر میں اس کے علاوہ عنوانات بھی رکھے گئے ہیں۔ #BreakTheBias لوگوں کو ایسی دنیا تصور کرنے کا کہہ رہا ہے جہاں امتیازی سلوک، دقیانوسی سوچ اور تعصب نہ ہو۔۔ ہمیں اس کی ضرورت کیوں ہے؟

گذشتہ ایک سال میں دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ہم کچھ پیچھے چلے گئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار 

سنبھالنے سے لاکھوں افغان خواتین کی زندگی بدل گئی ہے۔ لڑکیوں کو سکول جانے سے روکا گیا ہے، خواتین کے امور کی وزارت

 ختم کر دی گئی اور بہت سی خواتین کی ملازمتیں ختم ہوئیں۔برطانیہ میں پولیس اہلکار سارہ ایورارڈ کے قتل کے بعد خواتین کے تحفظ

 پر بحث شروع ہوئی۔ امریکہ میں اسقاطِ حمل کے حق پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔کورونا وائرس کی عالمی وبا نے بھی خواتین کے حقوق پر منفی اثر ڈالا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی 2021 کی صنفی رپورٹ کے مطابق صنفی امتاز ختم کرنے کے لیے درکار تحمینے کو 99.5 سال سے بڑھا کر 135.6 سال کر دیا گیا ہے۔

سنہ 2021 میں اقوام متحدہ کی 13 ممالک میں ایک تحقیق میں پتا چلا کہ ہے تقریباً ہر دو میں سے ایک (45 فیصد) خواتین نے  

 تشدد سہا یا پھر کسی جاننے والی خاتون کے بارے میں تشدد کی کہانیاں سنیں۔سنہ 2021 میں کورونا وائرس کی وبا کے باوجود

 عالمی دن کی ریلیاں نکالی گئی تھیں۔تیونس میں پہلی مرتبہ خاتون صدر کو چنا گیا جبکہ ایسٹونیا، سوئیڈن، ساموئا، اور تیونس میں پہلی

 مرتبہ خواتین وزیرِ اعظم کے عہدوں پر پہنچیں

اور اس کے علاوہ می ٹو موومنٹ کو کون بھول سکتا ہے جو کہ 2017 میں ہالی وڈ میں شروع ہوئی تھی مگر اب دنیا بھر میں پھیل چکی 

اس مضمون کی تیّاری میں انٹر نیٹ سے مدد لی ہے!

ممّا ممّم دے دو

 

یوں تو حوادث زمانہ اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن بہر حال کبھی 'کبھی کچھ ایسے حادثے بھی رونما ہو جاتے ہیں جن کے

 رونما ہونے سے پہلے بر وقت اچھے فیصلے کر لئے جائیں تو ان سے بچا جا سکتا ہے ایسے کچھ واقعات جو میری نظروں کے سامنے پیش

 آئے اور پھر زندگی ان کا ازالہ نا کر سکی --پہلی سچّی کہانی-شادی کا گھر تھا ،رات ہوئ توڈھول ڈھمکّے سے فراغت کے بعد منچلے تاش

 کھیلنے بیٹھ گئے ایک لڑکی کے گھر پہلا پھول کھلا تھا جو صرف ایک مہینے کا ہوا تھا بچّے کو برابر کے کمرے میں چار پائ پر سلا کر ماں بھی

 کھیل میں شامل ہونے دوسر ے کمرے میں آگئ اور پھر سب ہی تاش کے پتّو ں میں ایسے گم ہوئے کہ جب کھیل ختم ہوا تب

 خیال  آیا کہ بچّہ دیکھ لیا جائے ،اب تو بہت دیر ہو چکی تھی کیونکہ کسی مہربان نے گھر کے سا رے لحاف گدّ ے اس پلنگ پر لا کر بغیر

 دیکھے ڈ ھیر کر دئے تھے جو جلدی جلد ی ہٹائے گئے تب تک پھول کو مرجھا ئے ہوئے کئ گھنٹے بیت چکے تھے ،کیا تمام عمر اس

 نقصان کی تلافی ہو سکتی ہے

دوسری  کہانی --ایک لڑکی کے یہاں پہلا بچّہ چند دن کا ہوا تھاکہ ایک دیرینہ سہیلی ملنے آگئ ،بچّے کی ما ن کو ہاسپٹل جانا تھا اس نے

 اپنی سہیلی سے کہا کہ اسٹور میں جھولا رکھا ہے اگر بچّہ روئے تو جھولا نکال کر اس میں لٹا دینا یہ کہ کر بچّے کے ما ں باپ بے فکری

 سے چلے گئے اور جب بچّہ رویا تو سہیلی نے اسٹور سے جھولا نکال کر اس میں بچّے کو  لٹایا لیکن جیسے ہی بچّے کو لٹایا بچّہ ایک دلخراش

 چیخ مار کر رویا پھر نیلا ہو کر ساکت ہو گیا ،جھولے میں بڑا سا سیا ہ رنگ کا بچھّو چھپا ہوا تھا بچّے کے ماں باپ جب گھر آئے تو سہیلی

 قدموں میں گر پڑی اور کہنے لگی میں نے کچھ نہیں کیا ،جو یہ ایسا ہو گیا جب جھولے سے بچّے کو نکالا گیا تو بچھّو اس کی ننھی سی پیٹھ

 سے چپکا ہوا تھا یہ کیس سراسر بچّے کے ماں باپ کی غفلت کی نشاندہی کرتا ہے کہ بچّے کے جھولے کی دیکھ بھال انہی کا فرض بنتا تھا ،

تیسری  کہانی --اس بات کو کافی عر صہ گزرا لیکن میری نظروں میں آج تک اس پھول کا چہرہ محو نہیں ہو سکا بچّی میرے محلّے میں

 اپنے ماں باپ کے ساتھ آئ ،میری اپنی تین برس کی چھوٹی بیٹی جتنی اور اتنی پیاری بھی تھی دونو ں میں خوب دوستی ہوگئ ،بچّی صبح

 سے لے دوپہر تک بھی رہتی تو گھر سے کوئ پوچھنے نہیں آتا تھا کہ بچّی کس حال میں ہے بہر حال وہ دوپہر کو کچھ دیر کے لئے گھر

 چلی جاتی اور پھر واپس آ جاتی ،مجھے بھی اپنی بیٹی کی جانب سے سکون رہتا کہ وہ بھی اس کے آ جانے سےہہلی رہتی تھی اور میں

 سکون سے اپنے کام کاج نمٹا لیتی تھی  ،کئ مہینے یوں ہی گزر گئے


،پھر ایک دن وہ سہ پہر میں میرے گھر نہیں آئ ،مغرب سے کچھ

 پہلے اس کے بڑے بھائ نے آکر اس کے لئے پوچھا تو میں نے بتا یا کہ آج تو سہ پہر میں آئ ہی نہیں ہے،پھر محلّے میں اس کو تلاش

 کیا گیا تو بھی نہیں ملی کسی نے کہا ٹینک تو جھانک لو ،ٹینک دیکھا گیا تو بچّی کی لاش پانی پر تیر رہی تھی،پوچھنے پر معلوم ہواکہ سہ پہر

 میں بچّی کی امّاں کے پاس ان کے ا یک چہیتے دوست آئے ہوئے تھے بچّی امّاں کو بات نہیں کرنے دے رہی تھی تو امّاں صاحبہ نے

 بچّی کے ہاتھ میں کچھ پیسے دے کر کہا جاؤ دکان سے سپاری لے کر کھا لو بچّی نے دکان سے سپاری خریدی اور گھر کے اندر تک آگئ

 لیکن ٹوٹی لکڑی کے ڈھکنے والے ٹینک کے اندر گر کر مر گئ ،داکٹر نے بچّی کی ماں کی سونے کی چوڑیوں سے بھری کلائ دیکھ کر

 طنزیہ کہا تھا کہ محترمہ اگر آپ اپنی ایک چوڑی بھی فروخت کرتیں تو ٹینک کا لوہے کا ڈھکّن خریدا جاسکتا تھا .

ما ں کی بے حسی کی کہانی

ممّا ممّم دے دو ....وہ معصوم جان ما ں سے کہتی رہی ،ماں نے کہا جاؤ بھائ سے لے لو

اس معصو م نے ابھی چند الفاظ ہی بولنے سیکھے تھےگرمیوں کے دنوں کی سخت جلتی دوپہر تھی ما ں باورچی خانے میں کھانا پکا رہی

 تھی ایسے میں ننھی بچّی اپنے پانی پینے کی چھوٹی سی کٹوری لے کر ماں کے پاس آئ اور اس نے ماں سے کہا ممّا ممّم دے دو-ماں نے

 جواب میں کہا جا ؤ بھائ سے لے لو میں کام کر رہی  ہوں بچّی چلی گئ اس نے جا کر بھائ سے پانی کی فرمائش کی بھائ میٹرک کے

 امتحان کی تیاری کر رہا تھا اس نے کہا جا کر ممّا سے کہو ، بچّی بھائ کے پاس سے بھی چلی گئ اب ماں سمجھ رہی تھی بچّی بیٹے کے پاس

 ہئے اور بھائ سمجھا کہ بہن ماں کے پاس ہئے جب ماں کام سے فارغ ہوئ تواس نے بیٹے سے پوچھا کہ بچّی کہاں ہے بیٹے نے کہا میں

 نے تو اس کو آپ کے پاس بھیج دیا تھا اب بچّی جو گھر میں ڈھو نڈی گئ تو گھر کے آنگن میں دھوپ میں رکھّئ ہوئ جلتے پانی کی بالٹی

 میں بچّی کی لاش اپنے پانی پینے کی کٹوری سمیت پڑی ہوئ تھی

 مضمون کے آخر میں معذرت خواہ ہوں اگر کسی ماں کو اس تحریر میں اپنا چہرہ نظر آئے


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر