ہفتہ، 30 مارچ، 2024

شہادت حضرت علی علیہ السلام


19حضرت  علی ابن ابی طالب  علیہ السلام  پر خارجی ابن ملجم نے 26 جنوری 661ء بمطابق 19 رمضان، 40ھ کو کوفہ کی مسجد میں زہر آلود تلوار کے ذریعہ نماز کے دوران میں قاتلانہ حملہ کیا۔یہ تلوار امیر شام کے محل میں پورے ایک مہینے اپنے وقت کے سب خطرناک زہر میں ڈبو کر رکھّی گئ تھی  - مولا کو شہادت سے بہت انسیت تھی اور شہادت کے طلبگار تھے۔ امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں شہادت، شہد کی طرح شیرین و خوبصورت ہے۔یہ ایک ایسا احساس ہے جس میں ، اپنی تمام خواہشات ، مال و دولت،  اور اپنا ہر عمل خدا کیلئے انجام دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ شہادت کی شیریں لذت کو محسوس کرتا ہے-امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں شہادت شُکر اور خوشی کا مقام ہے۔امیر المومین علی علیہ السلام بہترین پیشوا ، عادل امام ، حق طلب خلیفہ ، یتیم نواز اور ہمدرد حاکم ، کامل ترین انسان ، خدا کا ولی ، رسول خدا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین، کو روئے زمین پر سب سے شقی انسان عبد الرحمنٰ ابنِ ملجم نے شدّت سے مجروح کرڈالا اورآپ  علیہ السلام  زخمی ہونے کے بعد شہادت کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہوکر ۔۔پیغمبروں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہمنشین ہوے اور امت کو اپنے وجودِ بابرکت سے محروم کر گئے۔


۔دنیا میں بادشاہوں اور حکمرانوں کو انکی نا انصافیوں اور ظلم و جبر کی وجہ سے قتل کیا جاتا ھے لیکن مولا علی علیہ السلام وہ ہستی ہیں کہ جنکو انکے شدت عدل کی وجہ سے شہید کیا گیا۔حضرت علی بن ابی طالب پر خارجی ابن ملجم نے 26 جنوری 661ء بمطابق 19 رمضان، 40ھ کو کوفہ کی مسجد میں زہر آلودر کے ذریعہ نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا، اگلے دو دن تک آپ زندہ رہے لیکن زخم گہرا تھا، چنانچہ جانبر نہ ہو سکے اور 21 رمضان 40ھ کو وفات پائی، آپؓ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہٖ وآلہٖ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اور امت مسلمہ کے خلیفہ راشد چہارم تھے۔حضرت    علی علیہ السلام ہجرت سے 24 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش کی فضیلت  ہے کہ آپ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے، حضرت علی ؓعلیہ السّلام  کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ؐ ان کی بہت عزت کرتے تھے اورخصوصی التفات بھی برتتے تحھے اپنے قول و فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں احادیث نبوی ﷺمیں موجود ہیں کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔


 حضرت علیؓ  علیہ السلام کا حسبِ نسب:آ پ ؓکے والد حضرت ابو طالب اور والدہ جنابِ فاطمہ بنت ِ اسد دونوں قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں بزرگوں نے بعدِ وفات حضرت عبدالمطلب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی تھی۔حضرت علی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں، بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اوروہیں پرورش پائی۔ پیغمبرکی زیرنگرانی آپ کی تربیت ہوئی، وہ ایک لمحہ کے لیئے بھی حضورؐ ان کو تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔روزہ دار پر سجدے میں وار کیا:کون تھا یہ قاتل؟ ایک مسلمان کلمہ گو نماز پڑھنے والا، اللہ اکبر ہم ایسے مسلمانوں کو مسلمان کیسے کہہ سکتے ہیں جو دل میں بُغض رکھتے ہوں۔کیا شان ہے ہمارے خلیفہ علی علیہ السلام کی انھیں علم تھا آج انھیں قتل کردیا جائے گا اور قاتل کو جانتے تھے


حضرت  علی علیہ السلام کی تین فضیلتیں:وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علیؓ علیہ السلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا، حضرت علیؓ علیہ السلام کا عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی علیہ السلام کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی   کو پیغمبر نے اپنا دنیا وآخرت میں بھائی قرار دیا۔آخر میں غ دیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔ حضرت   پر 19 رمضان 40 ہجری میں شام سے آئے ایک شقی القلب شخص عبد الرحمن بن ملجم نامی شخص نے قطامہ نامی خارجی عورت کی مدد سے مسجد کوفہ میں حالتِ سجدہ میں پشت سے سر پر زہر بجھی تلوار سے وار کرکے زخمی کردیا، زخمی ہونے پر آپ کے لبوں پر جو پہلی صدا آئی وہ تھی کہ ”ربِ کعبہ کی قسم آج علی کامیاب ہوگیا“


شب ضربت آپ علیہ السلام مسجدِ کوفہ میں تشریف لائے تو ابنِ مُلجم مسجد میں اُلٹا لیٹا ہوا سو رہا تھا اس نے اپنے نیچے زہر میں بُجھی  تلوار چھپا کر رکھّی   ہوئی تھی ۔۔مولا مسجد تشریف لائے اور ابن ملجم کوسوتا دیکھ کر اس سے کہا ”اے ابنِ مُلجم اُٹھ جا،نماز کا وقت نکلا جارہا ہے نماز ادا کر۔۔جب مولا علی نے آخری سجدہ ادا کیا وہ ملعون اٹھا اوریکایک تلوار سےایسا وار کیا کہ مولا سرِ مبارک پر ایک ہی وار میں اپنے ہی لہو میں تر بتر ہوگئے زہر میں بجھا ہوا خنجر اپنا اثر کر گیا روزہ میں روزدار کو ایسا زخم لگا کہ پھر اُٹھ نہ سکے مسجدکوفہ میں شور برپا ہوگیا قیامت کا منظر تھا۔ تمام چاہنے والے نالہ و فریاد کرنے لگے حسن و حسین علیہم السلام مسجد میں تشریف لائے اپنے بابا کی ریشِ مبارک خون سے تر دیکھی اور گِریہ کرنے لگے۔۔۔اصحاب حضرت علیؓ کو کاندھوں پہ ڈال کر گھر لے گئے گھر میں کہرام برپا ہوگیا زینب و کلثوم تڑپ گئیں باپ کی حالت دیکھ کر۔حکیم نے علاج شروع کیا مگر زہر اپنا کام کرچکا تھا۔تین دن تک آپ زخمی حالت میں اضطراب میں رہے اور اکیسویں روزے کو مالک یزداں کے حضور حاضر ہو گئے۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را




 

جمعہ، 29 مارچ، 2024

ملکہ سبا جنات کی اولاد تھیں

  اللہ تعالیٰ ملکہ بلقیس کی ماں جنّات میں سے تھی: ملکۂ سبا کا نام تاریخی کتب میں ’’بلقیس بنتِ شراحیل‘‘۔ بتایا گیا ہے کہ ملکہ بلقیس کے باپ، دادا ملکِ یمن کے بادشاہ تھے۔ روایت کے مطابق ۔ اُن کے باپ نے ایک جن عورت سے شادی کی تھی، جس کا نام ’’بلعمہ بنتِ شیعان‘‘ تھا۔ اس کے بطن سے بلقیس پیدا ہوئیں-اللہ تعالیٰ   نے ملکہ بلقیس کو وسیع مملکت، شان و شوکت، مال و دولت، ہیرے جوہرات کے علاوہ خوب حسن و جمال بھی عطا فرمایا تھا۔  ۔ اُن کی قوم سورج کی پرستش کرتی تھی۔ بعض نے لکھا کہ مجوسی تھے، جو آگ سمیت ہر روشنی کی پرستش کرتے ہیں۔ (قصص الانبیاء، مفتی محمد شفیع، صفحہ 559)۔ انہوں نے اپنے پہاڑی علاقوں میں بہت سے بند تعمیر کر رکھے تھے، جن میں سب سے بڑے بند کا نام ’’سدِّمآرب‘‘ تھا۔ انہوں نے ان بندوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک مربوط و موثر نظام بھی بنا رکھا تھا، جس کی وجہ سے باغات کے سلسلے سیکڑوں میل دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں یمن، تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا، جس کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، مگر پھر آہستہ آہستہ وہ قوم مذہبی و اخلاقی زوال کا شکار ہوئی، تو اللہ ذوالجلال نے اُنھیں نبیوں کے ذریعے متنبہ فرمایا۔قومِ سبا پر سیلاب کا عذاب: قومِ سبا800سال قبلِ مسیح کے لگ بھگ یمن کے علاقے میں آباد تھی۔

انہوں نے اپنے پہاڑی علاقوں میں بہت سے بند تعمیر کر رکھے تھے، جن میں سب سے بڑے بند کا نام ’’سدِّمآرب‘‘ تھا۔ انہوں نے ان بندوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک مربوط و موثر نظام بھی بنا رکھا تھا، جس کی وجہ سے باغات کے سلسلے سیکڑوں میل دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں یمن، تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا، جس کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، مگر پھر آہستہ آہستہ وہ قوم مذہبی و اخلاقی زوال کا شکار ہوئی، تو اللہ ذوالجلال نے اُنھیں نبیوں کے ذریعے متنبہ فرمایا۔  بالآخر انہیں اُن کی ناشکری اور سرکشی کی سزا دی گئی اور اُنھیں فراہم کردہ تمام نعمتیں سلب کرلی گئیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُن کا سب سے بڑا بند، سدِمآرب ٹوٹ گیا اور یوں ایک خوف ناک سیلاب قہرِ خداوندی بن کر اُن پر ٹوٹ پڑا اور اس قوم کا نام و نشان ایسا مٹا کہ دنیا میں اُن کی صرف داستانیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ قومِ سبا پر سیلاب کے عذاب کا یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے تقریباً سوا سو سال قبل یعنی450عیسوی کے لگ بھگ پیش آیا۔ بند ٹوٹنے کی وجہ سے یہ علاقہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا، سیلاب کے عذاب سے زندہ بچ جانے والے لوگ عراق اور عرب کے دوسرے علاقوں میں ہجرت کرگئے۔ یثرب میں آباد ہونے والے قبائل اوس اور خزرج کا تعلق بھی یمن سے تھا۔ قومِ سبا کی تباہی کے بعد مذکورہ تجارتی شاہ راہ پر قریشِ مکّہ کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ (بیان القرآن، ڈاکٹر اسرار، 72/6)۔ 

چیونٹیوں کی ملکہ نے جب انبوہِ کثیرِ، لشکر کو دیکھا، تو کہا۔ ’’اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو، ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں سلیمانؑ اور اُن کا لشکر تمہیں روند ڈالے۔‘‘ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُس کی بات سنی تو مسکرادیے اور اللہ سے دُعا کی۔ ’’اے میرے پروردگار! تُو مجھے توفیق دے کہ مَیں تیری ان نعمتوں ، احسانات کا شُکر بجا لائوں، جو تُونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پرکیے ہیں۔‘‘ (سورئہ نمل، آیات 18-19)۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے منقول ہے کہ ’’نبیؐ نے چار جانوروں (حشرات )کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہُدہُد اور لٹورا۔‘‘ (سنن ابو دائودؑ، 5267)۔ہُدہُد کو حاضر ہونے کا حکم: ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے سفر کے دوران ہُدہُد کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔ ہُدہُد اُس وقت موجود نہیں تھا۔ اُس کے بغیر اطلاع غیر حاضر ہونے پر آپ کو غصہ آگیا اور فرمایا۔ ’’اگر ہُدہُد نے غیرحاضری کی معقول وجہ نہیں بتائی، تو اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کردوں گا۔‘‘ (سورۃ النمل،21)۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے سوال کیا گیا کہ تمام پرندوں میں سے صرف ہُدہُد کو کیوں بلایا گیا؟ آپ نے جواب دیا، ’’ 

اللہ تعالیٰ نے ہُدہُد کو یہ خاصیت عطا فرمائی ہے کہ وہ زمین کے اندر کی چیزوں اور زمین کے اندر بہنے والے چشموں کو دیکھ لیتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ ہُدہُد سے معلوم کریں کہ اس میدان میں کتنی گہرائی میں پانی ہے؟ ہُدہُد کی نشان دہی کے بعد وہ جنّات کو حکم دیتے کہ زمین کھود کر پانی نکالو۔ ’’ہُدہُد زمین کے اندر کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسے زمین کے اوپر شکاری کا بچھایا ہوا جال نظر نہیں آتا اور عموماً جال میں پھنس جاتا ہے۔‘‘ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیر، صفحہ 556)۔قومِ سبا پر سیلاب کا عذاب: قومِ سبا800سال قبلِ مسیح کے لگ بھگ یمن کے علاقے میں آباد تھی۔ انہوں نے اپنے پہاڑی علاقوں میں بہت سے بند تعمیر کر رکھے تھے، جن میں سب سے بڑے بند کا نام ’’سدِّمآرب‘‘ تھا۔ انہوں نے ان بندوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک مربوط و موثر نظام بھی بنا رکھا تھا، جس کی وجہ سے باغات کے سلسلے سیکڑوں میل دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں یمن، تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا، جس کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، مگر پھر آہستہ آہستہ وہ قوم مذہبی و اخلاقی زوال کا شکار ہوئی، تو اللہ ذوالجلال نے اُنھیں نبیوں کے ذریعے متنبہ فرمایا۔ 

قومِ سبا پر تیرہ انبیاء کا نزول:   ’’سبا، یمن کے بادشاہوں اور اُس ملک کے باشندوں کا لقب ہے۔ ملکہ بلقیس بھی اُسی قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُس قوم کو بے حساب رزق اور آرام و آسائش کے تمام اسباب مہیّا فرمانے کے علاوہ اپنے تیرہ انبیاء کا نزول بھی فرمایا، تاکہ یہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار، احکام کی اطاعت کریں اور نعمتوں، انعام و اکرام اور کا شکر ادا کرتے رہیں، لیکن وہ لوگ اپنی غفلت و نافرمانی سے باز نہ آئے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر ایک سیلاب کا عذاب نازل فرمایا، جس نے اُن کے شہر اور باغات سمیت ہر چیز کو ویران و برباد کردیا۔‘‘ امام احمد بن حنبل، حضرت عبداللہ بن عباسؐ سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ’’سبا، جس کا قرآن میں ذکر ہے، وہ کسی مرد یا عورت کا نام ہے یا زمین کے کسی حصّے کا؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’یہ ایک مرد کا نام ہے، جس کی اولاد میں دس لڑکے ہوئے۔ جن میں سے چھے یمن میں آباد رہے اور چار ملکِ شام چلے گئے۔‘ دنیا کی سب سے مال دار قوم: سبا کا اصل نام عبدشمس (بندئہ آفتاب یا سورج کا پرستار) اور لقب سبا تھا۔ قومِ سبا جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ قوم تھی۔ جس کا دارالحکومت مآرب تھا، جو موجودہ یمن کے دارالسلطنت ’’صنعاء‘‘ سے55میل بجانب شمال مشرق میں واقع تھا۔ اس کا زمانۂ عروج 1100 قبل مسیح سے شروع ہوا اورلگ بھگ ایک ہزار برس تک عرب میں اس کی عظمت کے ڈنکے بجتے رہے۔  لیکن ان کی نافرمانی کے سبب اللہ تعالیؑ نے ان پر سیلاب کا عذاب بھیج کر انہیں ڈبو مارا-

جمعرات، 28 مارچ، 2024

ایڈز کا مہلک مرض اور پاکستان

  ACOUIRED AIMMUNO DEFICENCY SYNDROME عالمی ادارہ صحت نے پا کستان کو ایڈز کے خطرناک زون میں شامل کرلیا-سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ ایڈز کے مرض کی ابتداء کہاں سے ہوتی ہے تو اس کی سب سے پہلی شروعات ہم جنس پرستی سے ہوتی ہے--پھر جب یہ مرض کسی شخص میں بنیا د بنا چکا ہوتا ہے اور وہ متاثّرہ شخص کسی دوسرے فرد کے ساتھ جنسی ملاپ کرتا ہے تو پھر یہ مرض کے پھیلنے کا دوسرا مرحلہ ہو تا ہے اور یوں یہ مرض پورے معاشرے کو ناسور کی شکل میں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے-معاشرے کی قبیح مکروہات سے بچنے کے لئے اللہ پاک نے نکاح جیسی نعمت انسان کے لئے رکھِّی ہے ایڈز کا مرض غربت کا شکار معاشروں کے لیے ایک ناسور بنا ہوا ہے، کیونکہ وہاں اتنا شعور ہی نہیں ہوتا کہ یہ مریض کس مرض سے مرا ہے-یکم دسمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایڈز کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ ایڈ ز کا عالمی دن دنیا میں پہلی مرتبہ 1987 میں منایا گیا ۔اس کے مقاصد میں عوام الناس کو اس مہلک مرض کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا شامل ہے ۔ایڈ ز ہے کیا؟اس کی علامات کیا ہیں؟اسباب اور علاج کے بارے میں اور سب سے اہم اس کی وجوہات بارے لوگوں میں شعور و آگاہی فراہم کرنا ہے ۔اس دن کی مناسبت سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کالم اور پروگرام کیے جاتے ہیں ۔زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ ایچ آئی وی وائرس کا آغاز بیسویں صدی میں شمالی افریقہ کے علاقہ سحارہ سے شروع ہوا۔ لیکن اب یہ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے ، اور ایک اندازہ کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں تین کروڑ چھیاسی لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ایڈز ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے، جسے ایچ آئی وی کہتے ہیں، جس میں یہ وائرس ہو اس کی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے، یعنی بیماریوں کے خلاف جو قوت ہوتی ہے، وہ ختم ہو جاتی ہے، AIDS اس وقت کہا جاتا ہے کہ جب 


علامات اور تشخیص میں فرق ہوتا ہے، تشخیص کسی مرض کی موجودگی کی تصدیق ،ثبوت کو کہتے ہیں ۔ایڈز کی علامات عام سی ہی ہیں، مثلاََ بخار، سردی کا لگنا اور پسینہ ( خاص کردوران نیند پسینہ)دست ،وزن میں بہت زیادہ کمی،کھانسی اور سانس میں تنگی ،مستقل تھکاوٹ،جلد پر زخم ،مختلف اقسام کے نمونیائی امراض ،آنکھوں میں دھندلاہٹ ،جوڑوں کا درد ،گلے میں سوجن اور نزلہ زکام کا ہونا اور مسلسل سردردوغیرہHIV کیسے جسم میں داخل ہوتا ہے ؟ ایڈز وائرس یعنی HIV دیگر وبائی امراض کی طرح کسی متاثرہ شخص کے قریب ہونے ، بات کرنے ، اسکو چھونے یا اسکی استعمال کردہ چیزوں کو ہاتھ لگانے سے جسم میں داخل نہیں ہوجاتا۔ بلکہ مردوں اور عورتوں کے جنسی اعضاء سے ہونے والے (اخراجات) یا رطوبتیں ، متاثرہ شخص کے خون سے ،لعاب (saliva) یعنی آب دھن یا تھوک ،انجکشن کی سرنج ، ایڈز میں مبتلا ماں کا دودھ،کان ،ناک چھدوانے کے لیے جو اوزار استعمال ہوتے ہیں، ان کی مناسب صفائی نہ ہونا ، متاثرہ فرد کاشیونگ بلیڈ سے شیو کرنا اور دانتوں کی صفائی کے دانتوں کے ڈاکٹر جو اوزار وغیرہ استعمال کرتے ہیں، ان کا مناسب صحت کے اصولوں کے مطابق نہ ہونا وغیرہ ، اس کا سبب بنتی ہیں ۔اب کوئی معمولی بیماری بھی حملہ کرے تو انسان میں قوت مدافعت نہ ہونے کے سبب اس کا علاج ممکن نہیں رہتا ۔

اس مرض کا سب سے اہم سبب انفیکشن ہے ۔ایڈز کے بارے میں سنا کرتے تھے کہ اس کا علاج ممکن نہیں ہے، اس بات میں کافی سچائی ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ تازہ ترین تحقیقات میں امید کی کرن بھی نظر آتی ہے جن کا ذکر آگے کریں گے ۔اس بیماری سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا چاہیے یہ کہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے سے ہی یہ مرض لگتا ہے۔جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے تا حال اس کا علاج دریافت نہیں ہو سکا ،اس کے لیے اس کی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے، اس لیے بھی کہ یہ عین اسلامی تعلیمات ہیں مثلا َصفائی جسے اسلام میں نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے اور جن اوزار وغیرہ سے دانت ،ناخن صاف کیے جائیں ان کا صاف ہونا ۔ایک مرد کے اپنی بیوی سے ہٹ کر زیادہ عورتوں سے تعلقات رکھنا خاص کر پیشہ ور عورت سے تعلقات رکھنا اسی طرح عورتوں کو یہ مرض مردوں سے منتقل ہوتا ہے ۔

ایک بہت ہی خاص بات جس سے میں اپنی قوم کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ۔ ایڈز یقینا ایک خطرناک بیماری ہے مگر جنسی ذرائع سے اس کے پھیلنے کا تناسب بارہ فیصد ہے ۔ جبکہ دیگر ذرائع سے پھیلنے کا تناسب اندازاََ اٹھاسی فیصد ہے ،پھر صرف جنس پر ہی اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے ۔یہ ایک پراپیگنڈہ ہے، جس کا مقصد آگاہی کے پردے میں معاشرہ بے باکی و جنس پر گفتگو کی راہ ہموار کرنا ہے ۔اس کا مقصد ہمارے معاشرے سے فطرہ شرم و جھجک کا خاتمہ ہے ۔کچھ لوگوں کا مشن ہے کہ ہمارے نصاب میں جنسی تعلیم کو شامل کیا جائے تاکہ معاشرہ میں بے حیائی پھیل سکے اور عطائی کالم نویس اس کو پڑھ کر اس کے حق میں لکھ رہے ہیں ۔جیسے ایڈز سے بچاؤ کی صرف ایک یہ ہی صورت رہ گی ہو اس لیے ان دیگر وجوہات پر بھی بات ہونی چاہئے ،جو اس کا سبب بن رہی ہیں ۔خیر اب آتے ہیں، اصل موضوع کی طرف ۔یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایڈز کوئی چھوت کی بیماری نہیں ہے، جو کسی مریض کے ساتھ بیٹھنے ،چھونے سے منتقل نہیں ہوتی اس لیے جو اس کے مریض ہوں، ان سے ہمدری کا اظہار کرنا چاہیے، اس سے نفرت کا نہیں، بات احتیاطی تدابیر کی ہو رہی تھی تو کسی کا بھی خون لگواتے وقت اس کے خون کے مکمل ٹیسٹ کروا لینے چاہیے ۔

پاکستان کو عالمی ادارہ صحت نے ایڈز کے خطرناک زون میں شامل کر لیا ہے، اب تک پاکستان میں تقریبا 8 ہزار مریض اس مرض میں مبتلارجسٹرڈہوئے ہیں اور اس سے کئی گنا زیادہ اس مرض میں مبتلا ہونے کا امکان ہے، پاکستان میں لوگ شرم کے مارے خود کو رجسٹرڈ نہیں کرواتے بلکہ اپنے گھر والوں سے اس مرض کو چھپاتے ہیں اور اسی حالت میں موت کو گلے لگا لیتے ہیں پھر پاکستان میں جہاں مردم شماری نہ ہوئی ہوں وہاں کسی قسم کے اعداد و شمار کا درست حالت میں ملنا ممکن نہیں ہے۔ جہاں نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو وہاں میڈیکل چیک اپ کا تصور کہاں ،خانہ بدوش اور بھیک مانگنے والے یا وہ جن کی زندگی قرض اور خیرات پر گزر رہی ہو وہ جب بیمار ہوتے ہیں تو ٹیسٹ کہاں کرواتے ہیں اور کروا بھی کیسے سکتے ہیں چپ چاپ قبر میں جا اترتے ہیں اور اپنے پیچھے اسی مرض کے اور مریض چھوڑ جاتے ہیں ۔  


 

جناب خدیجة الکبریٰ سلام اللہ علیہا

جناب خدیجة الکبریٰ سلام  اللہ علیہا وہ ہستی ہیں جن کے  دین اسلام پر بے انتہا احسانا ت ہیں -،سب سے پہلے تو آپ وہ  عظیم ہستی  ہیں جن کے شوہر نبی  ءخدا، خاتم النبیین، جن کی بیٹی  سید ۃالنسا العالمین جنھیں خاتون جنت کا خطاب ملا اور داماد وہ جو آئمہ طاہرین کے والد اور وصی خدا۔ جناب خدیجۃ الکبریٰ کی ذات مقدس  بے شمار اوصاف کی مالک ہستی ہیں  لیکن دوسری جانب دین اسلام کے لئے اتنی قربانیاں ہیں کہ شاید ہی ان کا شمار ممکن ہو۔ نبی کریم نے حضرت خدیجہؑ کے بارے میں ارشاد فرمایا: "خدا نے خدیجہ سے بہتر کوئی  بیوی  مجھے نہیں دی، جب لوگ مجھے جھوٹا کہتے تو وہ میری سچائی کی گواہی دیتی اور جب لوگوں نے مجھ پر پابندیاں لگائیں تو اس نے اپنی دولت کے ذریعے میری مدد کی اور خدا نے اس سے مجھے ایسی اولاد عطا کی، جو دوسری زوجات سے عطا نہیں کی۔"(شیخ مفید، الافلاح، ص ۷۱۲)

جناب خدیجہ بنت خویلد (متوفی سنہ ۰۱ھ) جو کہ خدیجۃ الکبریٰؑ اور ام المومنین کے نام سے مشہور ہیں، پیغمبر اکرم کی پہلی زوجہ تھیں، جن سے نبی کریم نے بعثت سے قبل نکاح کیا تھا۔ نبی کریم حضرت محمد، حضرت خدیجہؑ کا اتنا احترام کرتے تھے کہ ان کی زندگی میں دوسری شادی نہ کی بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ اچھے الفاظ سے انہیں یاد فرمایا۔ ۔ حضرت خدیجہؑ جو کہ خاتون حجاز یا ملیکة العرب کے نام سے مشہور تھی، نہایت ہی عقلمند خاتون تھیں۔ آپؑ کی مادی قوت اور مال و دولت سے زیادہ اہم آپؑ کی روحانی اور معنوی دولت تھی۔ آپ نے قریش کے ان اشراف زادوں سے شادی کی درخواست مسترد کر دی بلکہ آپ نے حضرت محمد کو اپنے شریک حیات کے طور پر منتخب کیا اور اپنی تمام مادی اور دنیاوی دولت اسلام کی راہ میں خرچ کر دی۔" ایک دفعہ نبی کریم بہت پریشان بیٹھے تھے، بی بی خدیجہؑ نے دریافت کیا کہ ”یارسول اللہ! اتنے  پریشان  کیوں ہیں؟" فرمایا: لوگ میری بات نہیں سنتے ہیں۔ اس موقع پر آپؑ نے پورے عرب میں منادی کروا دی کہ جس جس نے میرا قرض دینا ہے، آئے اور اپنا قرض معاف کروا لے۔ اس طرح لوگوں کی ایک کثیر تعداد جو آپؑ کی مقروض تھی، وہ آگئے۔ وہ پہلے نبی کریم کے پاس جاتے ان کی بات سنتے (تبلیغ اسلام) پھر بی بیؑ اس کے عوض ان کا قرض معاف فرما دیتیں۔

نبی کریم فرماتے ہیں: "کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا، جتنا فائدہ مجھے خدیجہؑ کی دولت نے پہنچایا۔   رسول کریم کی وفادار شریک حیات کے بارے میں جتنا بیان کیا جائے، اتنا ہی کم معلوم ہوتا ہے۔ محسنہ اسلام، وہ خاتون جنھوں نے نبی کریم کے دین اسلام کو لبیک کہا۔ جو ہر قدم پر نبی پاک کے ساتھ ساتھ رہیں اور ان کا حوصلہ بڑھاتی رہیں، یہاں تک کہ جب اہل قریش نے شعب ابی طالب جیسی گھاٹی میں بنی ہاشم کو محصور کر دیا تو  اپنے شوہر رسول خدا کے ساتھ رہیں۔اسی لیے جب وہ محاصرہ ختم ہوا اور نبی کریم کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی تو حضرت خدیجہؑ اور نبی کریم کے چچا جان (والد حضرت علیؑ) جناب ابو طالب بستر مرگ تک پہنچ چکے تھے۔ تقریباً محاصرہ کے اختتام کے دو ماہ کے اندر اندر بعض روایات کے مطابق حضرت خدیجہ حضرت ابو طالبؑ کی رحلت یا شاید شہادت کہنا بھی غلط نہ ہوگا کے 54 دن بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ یہ نبوت کا دسواں سال تھا۔ اس سال کو نبی کریم نے ”عام الحزن“ یعنی غم کا سال قرار دیا۔

؎ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓمکہ کی ایک نہایت معزز اور دولت مند خاتون تھیں۔ آپؓ کا لقب طاہرہ اور کنیت اُمّ ہند تھی، رسول اکرم ﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ جو قریش کے ممتاز خاندان اسد بن عبدالعزیٰ سے تھیں۔  حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کے صدق و دیانت کا تذکرہ سن کر آپ ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ’’میرا مال تجارت لے کر شام جائیں، میرا غلام آپﷺ کے ہمراہ ہوگا۔ آپ ﷺ نے حامی بھرلی اور بصریٰ (شام) کی جانب روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر جو سامان ساتھ لے گئے تھے اسے فروخت کیا اور دوسرا سامان خرید لیا۔ نیا سامان جو مکہ آیا تھا اس میں بھی بڑا نفع ہوا۔ حضرت خدیجہؓ نے آمدنی سے خوش ہوکر جو معاوضہ ٹھہرایا تھا اس کا دگنا ادا کیا۔ نبی کریم ﷺ کی نیک نامی، حسن اخلاق اور امانت و صداقت کی شہرت کے چرچے ہونے لگے جو ہوتے ہوتے حضرت خدیجہؓ تک بھی پہنچے۔ چنانچہ واپس آنے کے تقریباً 3 ماہ بعد حضرت خدیجہ ؓ نے آپ ﷺ کے پاس شادی کا پیغام بھیجا اس وقت آپؓ کے والد کا انتقال ہوچکا تھا لیکن آپؓ کے چچا عمرو بن اسد زندہ تھے۔ تاریخ معین پر آنحضرت ﷺ ، حضرت ابوطالبؓ اور تمام رئوسائے خاندان جن میں حضرت حمزہؓ بھی تھے، حضرت خدیجہؓ کے مکان پر آئے، حضرت ابوطالبؓ نے آنحضرت ﷺ کا خطبۂ نکاح پڑھا اور 500 درہم طلائی مہر قرار پایا۔ شادی کی تقریب بعثت سے 15 سال پیشتر انجام پذیر ہوئی۔ یہ 25 عام الفیل تھا۔ آغازِ وحی کے وقت سے ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے نبی اکرم ﷺ کی حمایت و معاونت کا فیصلہ کرلیا تھا اور آپؓ نبوت ملنے کی ابتدائی گھڑیوں میں ہی آنحضور ﷺپر ایمان لے آئی تھیں مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ آنحضرت ﷺ پر ایمان لائیں۔  پھر آ نے اپنی  دولت و ثروت تبلیغ دین و اشاعت اسلام کے لیے وقف  کر دی۔اور آنحضرت ﷺ تجارتی کاروبار چھوڑ کر عبادتِ الٰہی اور تبلیغِ اسلام کے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے۔

حضرت خدیجہؓ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ حضرت ابراہیمؓ کے علاوہ آنحضرت ﷺ کی تمام اولاد انہی سے پیدا ہوئی۔ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آپ ﷺ انہیں اکثر یاد کیا کرتے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرکے فرمایا کرتے کہ: ’’خدیجہؓ نے اس وقت میری تصدیق کی اور مجھ پر ایمان لائیں جب لوگوں نے میری تکذیب کی۔ خدیجہؓ نے مجھے اپنے مال میں شریک کرلیا۔‘‘ ام المومنین حضرت خدیجہؓ میں اتنی خوبیاں تھیں کہ آپ ﷺزندگی بھر انہیں یاد کرتے رہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام بھی ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا سلام لے کر آتے تھے۔ مولانا صفی الدین مبارک پوریؒ اپنی کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ کے صفحہ 634 پر ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ ’’ہجرت سے قبل مکہ میں نبی ﷺ کا گھرانہ آپﷺ اور آپؐ کی زوجۂ مبارکہ حضرت خدیجہؓ پر مشتمل تھا۔ آپ ﷺ کی اولاد میں حضرت ابراہیمؓ کے ماسوا تمام اولاد حضرت خدیجہؓ کے بطن سے تھی آپؐ جب تک   زندہ رہیں نصرت و حمایت کا حق ادا کرتی رہیں اور رسالت مآبؐ کی ہر طرح معین و مددگار رہیں  اور دس  رمضا ن  کو   مالک  بر حق کی جانب لوٹ گئیں -وقت ِ تدفین رسول اکرم ﷺ خود قبر میں اترے، آپؓ کواپنے دست مبار ک سے قبر میں اتارا ۔حضرت ابو طالبؓ اور حضرت خدیجہؓ کی وفات کے سال کو’’ عام الحزن‘‘ قرار دیا


بدھ، 27 مارچ، 2024

گوند کتیرا -قدرت کی ایک بڑی نعمت


 اللہ پاک کی نعمتوں میں ایک نعمت گوند کتیرہ جس کی عام افادیت  سے زیادہ تر  لوگ لاعلم ہیں -تو آئے جانتے ہیں کہ ہم اس نعمت سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں  -گوند کتیرا سب سے زیادہ ایران میں پیدا ہوتا ہے، جب کہ اس کے علاوہ یہ سوڈان، پاکستان، بھارت، ویتنام، اور انڈونیشیا میں پایا جاتا ہے۔گوند کتیرا Tragacanth gum ایک کانٹے دار پودے tragacanth کی اندرونی رطوبت سے حاصل کیا جاتا ہے، یہ پودا عام طور پر پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے اور دُنیا میں سب سے زیادہ گُوند کتیرا ایران میں پیدا ہوتا ہے۔اس پودے کی گُوند کی کوئی خوشبو اور ذائقہ نہیں ہوتا یہ پودے کی اندرونی رطوبت کو خُشک کرکے بنایا جاتا ہے اور اس کو کئی طرح استعمال کیا جاتا ہے، کھانے کیساتھ ساتھ اس کو انڈسٹری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔گوند کتیرا کے فوائدگرمیوں کے موسم میں گوند کتیرا کو باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔مدافعتی نظام کی مضبوطی میں اضافہ -گوند کتیرا میں پائے جانے والے مفید غذائی اجزاء میتھی دانہ کی طرح قوتِ مدافعت کو مضبوط بناتے ہیں۔ قوتِ مدافعت مضبوط ہونے سے جسم میں اضافی توانائی جمع ہوتی ہے اور طاقت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔جِلد کے لیے بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات کی وجہ سے انسان کے چہرے پر جھریاں آنا شروع ہو جاتی ہیں، جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے گوند کتیرا کو بہت مفید سمجھا جاتا ہے۔ گوند کتیرا جِلد میں موجود خلیوں کو صحت مند رکھتا ہے اور ان جراثیم کو ختم کرتا ہے جو جِلد کو خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ اینٹی آکسیڈنٹس اور سوزش کو کم کرنے والی خصوصیات کی بنیاد پر چہرے پر ظاہر ہونے والے دانوں اور داغ دھبوں سے بھی بچاتا ہے۔


ناک سے خون بہنااگر کسی کی  ناک سے اکثر خون بہتا ہے یا نکسیر پھوٹتی ہے تو گوند کتیرے کا پانی نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ عام طور گرم مزاج والی غذائیں وافر مقدار میں استعمال کرنے یا شدید گرمی کے موسم میں ناک سے خون بہنا شروع ہوتا ہے۔ گوند کتیرا کے پانی استعمال کرنے سے جسم کا درجہ حرارت معتدل رہتا ہے، جس کی وجہ سے نکسیر پھوٹنا بند ہو جاتی ہے۔کمزوری کا خاتمہ -گوند کتیرا بھی گنے کے رس کی طرح کمزروی کو دور کرنے کے لیے بہت مفید سمجھا جاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے بہت مفید سمجھا جاتا ہے جو کافی عرصے سے طویل بیماری کا شکار رہے ہوں یا اینٹی بائیو ٹکس استعمال کر رہے ہوں۔ گوند کتیرا میں دوا جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو بیماری کے بعد ہونے والی کمزروی کو ختم کرتی ہیں۔اس کے علاوہ جو لوگ سگریٹ اور شراب نوشی سے چھٹکارا حاصل کرنے چاہتے ہوں، ان کے لیے بھی گوند کتیرا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ہیٹ اسٹروک کا بہترین علاج شدید گرمی کے موسم میں بہت سے لوگوں کو ہیٹ اسٹروک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر آپ بھی ایسے لوگوں میں شامل ہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ گوند کتیرا کو ہیٹ اسٹروک کا بہترین علاج سمجھا جاتا ہے۔ گرمی کے موسم میں گوند کتیرا کو باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے سے آپ سخت گرمی اور لو سے محفوظ رہتے ہیں۔


 شوگر کے لیے مفید-طبی ماہرین کی جانب سے شوگر کے مریضوں کو گرمی کے موسم میں باقاعدگی کے ساتھ گوند کتیرا استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ ان کے لیے بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔ گوند کتیرا خون میں شوگر کی سطح کو بڑھنے نہیں دیتا اور شوگر لیول کو متوازن رکھتا ہے۔دل کی صحت میں بہتریگوند کتیرا کو بھی سنا مکی کی طرح دل کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔ ایسے افراد جو کولیسٹرول کی بیماری میں مبتلا ہوں، ان میں دل کی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کولیسٹرول کا لیول بڑھنے کی وجہ سے فالج اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ گوند کا باقاعدگی کے ساتھ استعمال کولیسٹرول کی سطح کو متوازن رکھتا ہے، جس کی وجہ سے ان تمام جان لیوا بیماریوں کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔قبض کا خاتمہ- -ہاگر آپ کو قبض کی علامات کا سامنا ہے تو گوندے کتیرے کو استعمال کرنا شروع کر دیں، کیوں کہ یہ قبض کا قدرتی علاج ہے، اس کے استعمال سے اس مرض کی علامات میں کمی آئے گی اور بواسیر کی علامات کی صورت میں بھی افاقہ ہو گا۔ یہ علامات ختم ہونے سے آپ کا معدہ اچھے طریقے سے افعال سر انجام دے گا اور ہاضمہ کے نظام میں بھی بہتری آئے گی۔


وزن میں کمی کے لیے بھی مفیدجسم میں میٹابولزم سست ہونے کی وجہ سے فالتو چربی سے چھٹکارا پانے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گوند کتیرا کے استعمال سے میٹابولز تیز ہوتا ہے جس کی وجہ سے فالتو چربی ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ چربی ختم ہونے کی وجہ سے وزن میں بھی کمی آنا شروع ہوتی ہے۔خواتین کے لیے بھی مفیدایسی خواتین جن کو چھاتی کے مسائل کا سامنا ہو یا وہ بریسٹ سائز میں اضافہ کرنا چاہتی ہوں تو ان کے لیے گوند کتیرا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ طبی ماہرین ایسی خواتین کو گوند کتیرا باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ گوند کتیرا سے ایسی مصنوعات بھی بنائی جاتی ہیں جو چھاتی کے مسائل کے لیے مفید سمجھی جاتی ہیں۔ایسے افراد جو پیشاب کی بے قاعدگی کا شکار ہوں، ان کے لیے گوند کتیرا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ پیشاب کی نالی کی سوزش کو کم کرتا ہے اور اس نالی کے پٹھوں کو سکون فراہم کرتا ہے، جس سے پیشاب کی بے قاعدگی کا خاتمہ ہوتا ہےگوند کتیرا کے مزید فوائد کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے آپ کسی ماہرِ غذائیت سے رابطہ کر سکتے ہیں، کسی بھی ماہرِ غذائیت کے ساتھ رابطہ کرنے کے لیے آپ ہیلتھ وائر کا پلیٹ فارم استعمال کر سکتے ہیں، کیوں کہ ہیلتھ وائر نے رابطوں کو بہت آسان بنا دیا ہے۔

لُو لگ جانے کی صورت میں گوند کتیرا جسم کے درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے اکسیر کا کام کرتا ہے اور اسے عام طور پر گرمی لگنے کی صورت میں پانی میں بگھو کر نرم کیا جاتا ہے اور ٹھنڈے شربت میں ڈال کر پیا جاتا ہے۔گوند کتیرا دستوں کی بیماری میں بھی انتہائی مُفید ہے یہ نظام انہطام کو بہتر بناتا ہے اور جسم کو ڈی ہائیڈریشن سے بچاتا ہےاوراس کا استعمال مردوں کی صحت پر انتہائی حیرت انگییز نتائج پیدا کرتا ہے۔گوند کتیرا جلد کو بُوڑھا نہیں ہونے دیتا اور اُسے تروتازہ اور جوان رکھتا ہے۔یہ خواتین کی چھاتی کو بڑھانے والی ہربل ادویات میں کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے، طبیب حضرات صدیوں سے اسے زچہ خواتین کی کمزوری دُور کرنے کے لیے خواتین کو کھلاتے ہیں کیونکہ کہ یہ زچہ اور بچہ دونوں کے لیے انتہائی مُفید ہے۔گوند کتیرے کا استعمالاس گوند کو بہت سے کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے خاص طور پر سلاد کی ڈریسنگ میں ، مایونیز میں، ائس کریم کو گاڑھا کرنے ، پوڈینگ میں اور لڈو بنانے میں اور کیک وغیرہ کی ڈریسنگ کیساتھ ساتھ بہت سے ڈرنکز میں اسے استعمال کیا جاتا ہے۔مزید استعمالگوند کتیرا لیدر کو پالش کرنے میں استعمال ہوتا ہے، یہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں سلک کو رنگ دینے کے علاوہ مختلف کاسمیٹکس میں بھی استعمال ہوتا ہے اس کے علاوہ ٹوتھ پیسٹ میں اور سیگار کے پتے کو بند کرنے کے لیے بطور گم گوند استعمال کیاجاتا ہے۔گوند کتیرے کے نقصاناتگوند کتیرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پانی کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ یہ سانس کی نالی کو بند نہ کرے وگرنہ سانس کی بیماریوں کےلاحق ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے

منگل، 26 مارچ، 2024

فرزند نبی 'امام دوئم -حضرت امام حسن (ع)

 امام حسن علیہ السّلام-حسن بن علی بن ابی‌ طالب امام علیؑ و حضرت فاطمہؑ کے بڑے فرزند اور پیغمبر اکرمؐ کے بڑے نواسے ہیں اور آپ کی کنیت میں چند مشہور القاب ابو محمد ، جبکہ چند مشہور القاب میں سے "تقی" ہے جبکہ دیگر القاب میں الطیب، الزکی، السید، المجتبی۔ السبط اور کریم اہل بیت علیہم السلام ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی جانب سے حضرت امام حسین علیہ السلام کو دیا گیا لقب السید تھا۔حسن بن علی بن ابی طالب (3-50ھ) امام حسن مجتبیؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپ کی مدت امامت دس سال (40-50ھ) پر محیط ہے۔ آپ تقریبا 7 مہینے تک منصب خلافت پر فائز رہے۔ آپ حضرت علیؑ و حضرت زہراؑ کے پہلے فرزند اور پیغمبر اکرمؐ کے بڑے نواسے ہیں۔ تاریخی شواہد کی بنا پر پیغمبر اکرمؐ نے آپ کا اسم گرامی حسن رکھا اور حضورؐ آپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ آپ نے اپنی عمر کے 7 سال اپنے نانا رسول خداؐ کے ساتھ گزارے، بیعت رضوان اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ میں اپنے نانا کے ساتھ شریک ہوئے۔اہل سنت آپ کو خلفائے راشدین میں آخری خلیفہ مانتے ہیں۔شیعہ اور اہل سنت منابع میں امام حسنؑ کے فضائل و مناقب کے سلسلے میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں۔

 آپؑ اصحاب کسا میں سے تھے جن کے متعلق آیہ تطہیر نازل ہوئی ہے جس کی بنا پر شیعہ ان ہستیوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔ آیہ اطعام، آیہ مودت اور آیہ مباہلہ بھی انہی ہستیوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ آپ نے دو دفعہ اپنی ساری دولت اور تین دقعہ اپنی دولت کا نصف حصہ خدا کی راہ میں عطا کیا۔ اسی بخشش و سخاوت کی وجہ سے آپ کو "کریم اہل بیت" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے 20 یا 25 بار پیدل حج کیا۔خلیفہ اول اور دوم کے زمانے میں آپ کی زندگی کے بارے میں کوئی خاص بات تاریخ میں ثبت نہیں ہوئی ہے۔ خلیفہ دوم کی طرف سے خلیفہ منتخب کرنے کیلئے بنائی گئی چھ رکنی کمیٹی میں آپ بطور گواہ حاضر تھے۔ خلیفہ سوم کے دور میں ہونے والی بعض جنگوں میں آپ کی شرکت کے حوالے سے تاریخ میں بعض شواہد ملتے ہیں۔ حضرت عثمان کے خلاف لوگوں کی بغاوت کے دوران امام علیؑ کے حکم سے آپ ان کے گھر کی حفاظت پر مأمور ہوئے۔ امام علیؑ کی خلافت کے دروان آپ اپنے والد کے ساتھ کوفہ تشریف لائے اور جنگ جمل و جنگ صفین میں اسلامی فوج کے سپہ 

امام حسن علیہ السلام کی سخاوت -امام حسن علیہ السلام کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ میں اتنا ہی بیان کافی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار تمام اموال اور اپنی تمام پونجی خدا کے راستہ میں دیدی اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا_ آدھا راہ خدا میں دیدیا اور آدھا اپنے پاس رکھا۔امام حسن علیہ السلام کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ میں اتنا ہی بیان کافی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار تمام اموال اور اپنی تمام پونجی خدا کے راستہ میں دیدی اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا_ آدھا راہ خدا میں دیدیا اور آدھا اپنے پاس رکھا۔ایک دن آپ نے خانہ خدا میں ایک شخص کو خدا سے گفتگو کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا خداوندا: مجھے دس ہزار درہم دیدے_ امام _اسی وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص کو دس ہزار درہم بھیج دیئے۔ایک دن آپ کی ایک کنیز نے ایک خوبصورت گلدستہ آپ کو ہدیہ کیا تو آپ(ع) نے اس کے بدلے اس کنیز کو آزاد کردیا_ جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ خدا نے ہماری ایسی ہی تربیت کی ہے پھر اس کے بعد آپ(ع) نے آیت پڑھی: "و اذاحُيّیتم بتحيّة فحَيّوا باحسن منہا"  سالاروں میں سے تھے۔اکیس رمضان 40ھ میں امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپ امامت و خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور اسی دن 40 ہزار سے زیادہ لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔ معاویہ نے آپ کی خلافت کو قبول نہیں کیا اور شام سے لشکر لے کر عراق کی طرف روانہ ہوا۔

امام حسنؑ نے عبید اللہ بن عباس کی سربراہی میں ایک لشکر معاویہ کی طرف بھیجا اور آپؑ خود ایک گروہ کے ساتھ ساباط کی طرف روانہ ہوئے۔ معاویہ نے امام حسن کے سپاہیوں کے درمیان مختلف افواہیں پھیلا کر صلح کیلئے میدان ہموار کرنے کی کوشش کی یہاں تک کہ ایک خارجی کے حملہ کے نتیجے میں آپؑ زخمی ہوئے اور علاج کیلئے آپ کو مدائن لے جایا گیا۔ اسی دوران کوفہ کے بعض سرکردگان نے معاویہ کو خط لکھا جس میں امامؑ کو گرفتار کر کے معاویہ کے حوالے کرنے یا آپ کو شہید کرنے کا وعدہ دیا گیا تھا۔ معاویہ نے کوفہ والوں کے خطوط امامؑ کو بھیج دیئے اور آپ سے صلح کرنے کی پیشکش کی۔ امام حسنؑ نے وقت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے معاویہ کے ساتھ صلح کرنے اور خلافت کو معاویہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ معاویہ قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوگا، اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے گا اور تمام لوگوں خاص کر شیعیان علیؑ کو امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے گا۔ لیکن بعد میں معاویہ نے مذکورہ شرائط میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا۔ معاویہ کے ساتھ ہونے والی صلح کی وجہ سے بعض شیعہ آپ سے ناراض ہوگئے ۔صلح کے بعد آپ سنہ 41ھ میں مدینہ واپس آ گئے اور زندگی کے آخری ایام تک یہاں مقیم رہے۔ مدینہ میں آپؑ علمی مرجعیت کے ساتھ ساتھ سماجی و اجتماعی طور پر بلند مقام و منزلت کے حامل تھے۔

۔آپؑ کی احادیث اور مکتوبات کا مجموعہ نیز آپ کے 138 راویوں کے اسماء مسند الامام المجتبیؑ نامی کتاب میں جمع کئے گئے ہیں۔"حَسَن" عربی زبان میں نیک اور اچھائی کے معنی میں ہے اور یہ نام پیغمبر اکرمؐ نے آپ کیلئے انتخاب کیا تھا  بعض احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے یہ نام خدا کے حکم سے رکھا تھا۔ حسن اور حسین عبرانی زبان کے لفظ "شَبَّر" اور "شَبیر"(یا شَبّیر)،  کے ہم معنی ہیں جو حضرت ہارون کے بیٹوں کے نام ہیں۔  اسلام حتی عربی میں اس سے پہلے ان الفاظ کے ذریعے کسی کا نام نہیں رکھا گیا تھا۔ آپ کا یہ اسم مبارک اللہ تعالیؑ کے پاس لوح محفوظ میں روز ازل سے موجودتھا-معاویہ نے جب اپنے بیٹے یزید کی بعنوان ولی عہد بیعت لینے کا ارادہ کیا تو امام حسنؑ کی زوجہ جعدہ کیلئے سو دینار بھیجے تاکہ وہ امام کو زہر دے کر شہید کرے۔ کہتے ہیں کہ آپؑ زہر سے مسموم ہونے کے 40 دن بعد شہید ہوئے۔ ایک قول کی بنا پر آپؑ نے اپنے نانا رسول خداؑ کے جوار میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی لیکن مروان بن حکم اور بنی امیہ کے بعض دوسرے لوگوں نے  روضہء رسول پر آپ کی تدفین نہیں ہونے دی اور جنازے پر تیروں کی بارش کی، یوں آپ کو بقیع میں سپرد خاک کیا گیا  


پیر، 25 مارچ، 2024

چلو بھاگ چلتے ہیں

 

بڑی مشہور مثل ہے عشق نا پوچھے زات-لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک عورت جب ماں بن جاتی ہے تب اس کے لئے دنیا کے رشتہ پر اس کی اولاد کارشتہ حا وی آجاتا ہے -تو پھر یہ کون سی مائیں ہوتی ہیں جو اپنی آغوش میں کھلے ہوئے ننھے پھولوں کو نوچ کرزمانے کی دھوپ کے حوالے کر کے کسی کی محبت  میں  دور   دیس سدھار  جاتی ہیں -اور وہ مرد کتنے بد بخت ہوتے ہیں جو دوسروں کے آنگن اجاڑ کر اپنے آنگن بساتے ہیں -تریپورہ کا ایک شخص اور بنگلہ دیش کی ایک خاتون چہارشنبہ کی رات بنگلہ دیش کے ضلع مولوی-اگرتلہ: تریپورہ کے ایک شخص کے ساتھ بنگلہ دیشی گرل فرینڈ کے غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہونے پر اسے گرفتار کرکے عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔ بازار سے بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کی کڑی نگرانی سے بچ کر اور خاردار تاروں کی باڑھ کو عبور کرکے ہندوستانی علاقے میں داخل ہوئے تھے۔ پولیس کے مطابق بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی دو بچوں کی ماں 24 سالہ فاطمہ نصرت کو دو ماہ قبل بنگلہ دیش میں قیام کے دوران آسام تری پورہ سرحد پر واقع گاؤں پھولباری کے روایتی رہائشی 34 سالہ نور جلال سے محبت ہوگئی۔ جلال اکثر اپنے پیشے کو آگے بڑھانے کے لئے جڑی بوٹیاں اور پودے خریدنے بنگلہ دیش جاتا تھا۔نصرت نے پولیس کو بتایا کہ جلال نے فاطمہ نصرت سے مولوی بازار میں اس کے سسرال کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور وہ باقاعدگی سے ملتے رہتے تھے

جوں جوں ان کا رشتہ پرانا ہوتا گیا، انہوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن وہ پہلے سے شادی شدہ  اور دو کم عمر بچوں کی  ماں بحی تھی، اس لئے اگر ان کا رشتہ عام ہو جاتا تو جلال کے لئے پیچیدگیاں پیدا ہو جاتیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک ہفتہ قبل بھاگ کر ہندوستان میں داخل ہوگئے۔ایک خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے جمعرات کو شمالی تریپورہ کے پھولباری میں جلال کے گھر پر چھاپہ مارا اور نصرت کو حراست میں لے لیا لیکن پولیس کی موجودگی کو دیکھ کر جلال فرار ہو گیا۔بعد ازاں نصرت کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ شمالی تریپورہ کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ نے اسے غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہونے کے الزام میں 14 دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا اور پولیس کو جلال کو گرفتار کرنے کی ہدایت دی۔او سی چورائے باڑی سمریش داس نے کہا کہ کہ ہم  نے نور جلال کے خلاف دھوکہ دہی کا مقدمہ درج کر لیا ہے اور تلاش شروع کر دی ہے--ایک اور داستان محبت-

چار بچّوں کی ماں پاکستانی عورت انڈین لڑکے سے پب جی کھیلتے ہوئےاس کی محبت میں  گرفتار ہوئیں اور کئ ملکوں سے ہوتے ہوئے انڈیا  پہنچی-انڈین پولیس کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ خاتون مئی 2023 سے دلی کے نواحی علاقے میں غیرقانونی طور پر سچن نامی انڈین شہری کے ساتھ مقیم تھی۔ انڈین پولیس نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ پاکستانی خاتون سچن سے محبت کرتی ہیں اور یہ محبت ہی انھیں سرحد پار سے انڈیا کھینچ لائی۔پولیس کے مطابق پاکستانی خاتون کی ملاقات سچن سے پب جی گیم پر ہوئی تھی، دونوں میں تعلقات بڑھے اور پھر وہ ایک دوسرے سے واٹس ایپ کے ذریعے باتیں کرنے لگے اور دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی، جس کے بعد سیما نے انڈیا آنے کا فیصلہ کیا۔گریٹر نوئیڈا کے پولیس افسر اشوک کمار کا کہنا ہے کہ چند روز قبل پولیس کو ایک مخبر کے ذریعے اطلاع ملی کہ ایک پاکستان خاتون دلی کے نواحی علاقے ربو پورہ میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں، جس پر پولیس نے مزید معلومات حاصل کرنے کے بعد انھیں حراست میں لے لیا ہے۔عدالت میں پیشی کے موقع پر خاتون نے میڈیا کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں بتایا کہ وہ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران پب جی کھیلا کرتی تھیں جہاں پر اُن کی ملاقات انڈین شہری سچن سے ہوئی، دونوں میں تعلق بڑھا اور محبت ہو گئی، جس کے بعد دونوں نے  شادی کا فیصلہ کیا۔گریٹر نوئیڈا کے ڈپٹی پولیس کمشنر سعد میاں خان نے بتایا کہ خاتون کا تعلق پاکستان کے صوبہ سندھ سے ہے

عورت جس کا نام سیما ہے اس کے خاوند کا کہنا ہے  اہلیہ سے رابطہ نہ ہونے پر انھوں نے اُس کے بھائی کو فون کیا جس نے پتہ کر کے بتایا کہ اُن کی بیوی نے مکان فروخت کر دیا ہے اور وہ بچوں کے ساتھ کہیں چلی گئی ہیں۔شوہر کے مطابق چونکہ وہ سعودی عرب میں مقیم تھے اس لیے انھوں نے اپنے والد کے ذریعے اپنی اہلیہ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔انھوں نے بتایا کہ ’جاننے والوں کی مدد سے معلوم کیا تو ابتدا میں پتا چلا کہ وہ دبئی گئی ہے۔ بعد میں نیپال جانے کا پتہ چلا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ انڈیا کی جیل میں ہے۔‘پاکستانی شوہر کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی اہلیہ کو طلاق نہیں دی اور وہ اب بھی ان کے نکاح میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کو میڈیا کے ذریعے پتا چلا ہے کہ ان کی بیوی واپس پاکستان نہیں آنا چاہتی ہیں۔اور اب وہ اپنے ہندو دوست کا مذ ہب اختیار کر چکی ہے -یاد رہے کہ گھر کے مالی حالات کی بہتری کے لئے سیما کا شوہر باہر مقیم تھا-

انٹر نیٹ پر لوڈو کھیلتے ہو ئے محبت ہو گئ اور پھر لڑکی اپنے دو کم سن بچّے چھوڑ کرپاکستان کے علاقے بالا کوٹ آ گئ جہاں نصر اللہ نامی لڑکے سے اس کا نکاح ہوا اور لڑکی کرسچئین سے مسلمان ہوئ -اس لڑکی کے بھی دو نوں بچّے ہندوستان میں ہیں -واضح رہے کہ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے حکام نے تصدیق کی ہے انڈیا سے پاکستان آنے والی خاتون انجو نے پاکستانی نوجوان نصراللہ کے ساتھ نکاح کر لیا ہے تاہم سرکاری حکام، نکاح خواں اور دیگر ذرائع کی جانب سے تصدیق کے باوجود انجو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’شادی کی خبر میں کوئی صداقت نہیں۔‘بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مالاکنڈ کے ریجینل پولیس آفیسر (آر پی او) ناصر محمود ستی نے انڈین خاتون انجو اور نصراللہ کے نکاح کی تصدیق کی جبکہ نکاح خواں قاری شمروز خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے فاطمہ (انجو) کا نصراللہ کے ساتھ نکاح دس ہزار روپے اور دس تولے سونا حق مہر کے عوض پڑھایا۔قاری شمروز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے نکاح پڑھانے کے لیے نصر اللہ نے بلایا تھا جو میرے جاننے والے ہیں۔ ہم ایک --ہی علاقے کے رہنے والے ہیں۔ وہ دونوں اب قانونی طور پر میاں بیوی ہیں--

ایک انڈین خاتون کی موجودگی سے اہل علاقہ بھی خوش ہیں۔نصر اللہ کے مقامی علاقے کی سیاسی و سماجی شخصیت فرید اللہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’انجو جمعہ کے روز صبح کے وقت دیر بالا پہنچیں جب شدید بارش ہو رہی تھی۔‘فرید اللہ کا کہنا تھا کہ ’انجو پختونوں کی مہمان اور بہو ہے۔ وہ جب تک رہنا چاہے، رہ سکتی ہے۔ اس کو کوئی تکلیف، کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ ہم اس بات کو ہر صورت میں یقینی بنائیں گے کہ اس کو ہمارے پاس کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اس کو ساری سہولتیں میسر ہوں۔‘انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے علاقے میں خوشی کا سماں ہے۔ ہمارے گھروں کی خواتین جوق در جوق انجو کو ملنے جا رہی ہیں، اس کو تحفے تحائف بھی دے رہی ہیں  -نصراللہ کا کہنا تھا کہ ’انجو کے لیے پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا بہت مشکل تھا، مگر ہماری نیت تھی اور خلوص تھا جس کی وجہ سے ہم دونوں نے بالکل ہمت نہیں ہاری ہے۔‘ایک جانب انجو دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کے چکر لگاتی رہیں جبکہ نصر اللہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزارت خارجہ اور دیگر دفاتر کے چکر کاٹتے رہے۔نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ’وہ وہاں پر حکام کو قائل کرتی رہیں اور میں یہاں پر حکام کو قائل کرتا رہا کہ ویزہ انجو کا حق ہے اور ہم اگر ملنا چاہتے ہیں تو ہمیں ملنے دینا چاہیے۔‘ان کے مطابق اس پورے عمل میں دو سال کا عرصہ لگا جس کے بعد انجو کو پاکستان کا ویزہ بھی مل گیا اور ان کو دیر بالا جانے کی اجازت بھی دے دی گئی




میری دھرتی ماں کے ڈاکو بیٹے


 

ایک خبر ہے کہ کچے میں آپریشن کے لئے دو ارب سے زائد کے فنڈ مختص کئے گئے ہیں -میں سوچتی ہوں یہ ڈاکو بھی تو کسی ماںکے بیٹے ہیں کسی بہن کے بھائ ہیں تو ان کو سندھ کے با اثر لوگوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کرائے پر ہائر کیا ہوا ہے - یہ فند ان کی فلاح اور بہبود پر خرچ کی جائے اور ان کو عام معافی دے کر قومی دھارے میں شامل کیا جائے توکتنا اچھا ہو - رحیم یار خان ، صادق آباد اور راجن پور سے ملحقہ کچے کے علاقے میں، نیشنل سکیورٹی کونسل کے حکم پر  گرینڈ آپریشن کیا گیا ، جس میں پنجاب پولیس کی 11 ہزار سے زائد نفری اور افسران نے حصہ لیا۔ سب میں بڑی بات اس میگا آپریشن کو خود آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے بطور فرنٹ مین کمانڈ کیا، اس موقع پر انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ’’ تمام منظم گینگز اور ان کے سہولت کاروں کو جلد قانون کی گرفت میں لایا جائے گا، اورکریمینلز اور ملک دشمن عناصر کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے لیے تمام سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں، جلد ہی سندھ پولیس بھی اپنے علاقوں میں میگا آپریشن کا آغاز کر رہی ہے‘‘ ۔ پاکستان کے اہم ترین دریا دریائے سندھ کے دونوں اطراف مٹی کی موٹی دیواریں ہیں جوکہ دریا کا پانی باہر نکلنے سے روکتی ہیں، دریا کے دونوں اطراف کی دیواروں کے درمیان والے علاقے کو کچا کہا جاتا ہے ۔ ان دیواروں کے درمیان دریا کا فاصلہ کہیں دس کلومیٹر ہے تو کہیں دو کلومیٹر۔

دریائے سندھ جیسے جیسے جنوب کی جانب بڑھتا ہے اس کی موجوں کی روانی سست اور اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔جون اور جولائی کے بعد جب مون سون بارشیں ہوتی ہیں تو دریا کی پوری چوڑائی پانی سے بھری ہوتی ہے مگر سردیوں میں دریا صرف درمیان میں ایک پتلی لکیر کی طرح بہتا ہے اور باقی علاقہ خالی رہتا ہے ۔ شمالی سندھ کے قریب کچے کا علاقہ عرصہ دراز سے ڈاکوؤں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے ، جوکہ یہاں پناہ گاہیں بنا کر آس پاس کے علاقوں میں دہشت پھیلاتے اور پولیس کی دسترس سے دور یہاں پناہ بھی لیتے اور وقت پڑنے پر قانون نافذ کرنے والوں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں-ڈکیتی ، اغواء برائے تاوان اور ملکی سلامتی کونقصان پہنچانے جیسے سنگین جرائم میں ملوث ان جرائم پیشہ عناصر نے نہ صرف صادق آباد، رحیم یار خان، راجن پور، تونسہ، ڈیرہ غازیخان، مظفر گڑھ ، ملتان بلکہ پاکستان بھر کے شہریوں کی زندگی اجیرن بنارکھی ہے۔ کچے کے علاقے میں عرصہ دراز سے سنگین جرائم میں ملوث ڈاکوؤں کے پاس نہ صرف جدید اسلحہ، بلٹ پروف جیکٹس موجود تھیں، بلکہ سرویلنس اور پولیس کی پوزیشن معلوم کرنے کے لیے ڈرون کا بھی استعمال کرتے تھے۔ماضی میں متعدد بار یہاں آپریشن کئے گئے، پولیس کی بکتربند گاڑیوں میں جانے والے پولیس افسران بھی بچ نہ سکے اور ڈاکوؤں سے مقابلہ کرتے ہوئے کئی پولیس افسران شہید ہوگئے ۔ ان ڈاکوؤں کے پاس ایسے جدید ہتھیار تھے جن کے سامنے بلٹ پروف گاڑیاں بھی بے کار ہوجاتیں۔ ماضی میں پولیس نے آپریشن کے بعد ان ڈاکوؤں کے قبضے سے اینٹی ایئر کرافٹ گن بھی برآمد کی تھی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شمالی سندھ کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرنا کس قدر مشکل تھا ۔ شمالی سندھ کے ڈاکو نیشنل ہائی وی پر ناکہ لگا کر ایک ہی رات میں سینکڑوں مسافر بسوں کو لوٹ لیتے تھے۔

جس کے بعد اس علاقے میں رات میں سفر کرنا مشکل ہوتا تھا اور بعد میں پولیس موبائلوں کے سا تھ قافلہ بنا کر مساف بسوں کو یہاں سے گزارا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکو بیوپاریوں اور کاروباری لوگوں کو بھتے کی پرچی بھیجتے اور بھتہ نہ دینے پر ان کو قتل کردیا جاتا۔ ماضی میں شمالی سندھ کے امیر ترین سمجھے جانے والے ہندو ان ڈاکوؤں کے پسندیدہ شکار تھے جس کے باعث گذشتہ کچھ سالوں میں شمالی سندھ سے ہندوؤں کے بڑی تعداد کراچی منتقل ہوگئی ۔اسی طرح جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور اضلاع میں دریائے سندھ کے کچے کا علاقہ جو صوبہ سندھ تک تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر تک پھیلا ہے ، جہاں ایک دہائی سے زائد عرصے تک ’’چھوٹو گینگ ‘‘کا راج تھا۔ اس گروہ کا سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو تھا، جس نے جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ تک اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ یہ گینگ کچا جمال اور کچا مورو کے نزدیک 2010 ء کے سیلاب کے بعد ظاہر ہونے والے دس کلومیٹر لمبے اور تین کلومیٹر چوڑے ’’ چھوٹو جزیرے ‘‘ پر منتقل ہو گیا تھا اور یہ جزیرہ تمام فورسز کے لیے کئی سالوں تک نوگو ایریا بنا ئے رکھا۔ اپریل 2016 ء میں راجن پور سے متصل کچے میں پاک فوج کی جانب سے جدید ہتھیاروں اور فوجی ہیلی کاپٹروں کے ساتھ 23 روز تک کئے جانے والے آپریشن ’’ضرب آہن ‘‘ میں چھوٹو گینگ کے سربراہ غلام رسول عرف چھوٹو نے اپنے 13 ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال دیے تھے۔

اس آپریشن کے بعد پاکستانی فوج نے ملزمان کے پاس موجود24 مغوی پولیس اہلکاروں کو بھی باحفاظت بازیاب کروا لیا تھا۔ گزشتہ دنوں کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے دوران آئی جی پنجاب کے قافلے پر حملہ اور پولیس ٹیم پر فائرنگ کی گئی ، اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں آر پی او بہاولپور کا گن مین زخمی ہوا جسے ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے بعد مزید بہتر نگہداشت کیلئے لاہور منتقل کردیا گیا جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں ایک ڈاکو ہلاک، 6 ڈاکو گرفتار کرلئے گئے۔سندھ اور پنجاب کی سرحد پر شہریوں اور انتظامیہ کے لئے درد سر بنے ڈاکو آپریشن کے دوران ڈاکو اپنی کمین گاہیں چھوڑ کر فرار ہوگئے ، اور کچے کے علاقے میں کریمنل گینگز کا مکمل صفایا کرکے قانون کی رٹ قائم کردی گئی ہے۔ علاقے میں پولیس چوکیاں مکمل بحال کردی گئی ہیں جبکہ اندرونی علاقوں کو کلیئر کرانے کیلئے پیش قدمی جاری ہے۔ اس گرینڈ آپریشن پر جنوبی پنجاب کی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور قوی امید کی جارہی ہے کہ برس ہا برس سے دہشت گردوں کے زیر تسلط یہ علاقہ بہت جلد امن کا گہوارہ بنے گا  

اتوار، 24 مارچ، 2024

جیسے ہی ماچس کی تیلی جلائی

  بڑے ہی افسوس کا مقام ہے کہ رمضان کے مقدس مہینہ  کے آغاز میں ہی کئ  افراد  جا ن کی بازی ہار  گئے-لوگ ان واقعات کا   الزام گیس کمپنی پر عائد کرتے ہیں  جبکہ  اگر  حقیقت کی  نظر سے دیکھا جائے تو  گیس  صارفین کی غفلت  کو بھی بری الزمہ نہیں  کیا جا سکتا ہے-اس سال رمضان کے پہلے دو دنوں میں کوئٹہ میں گیس لیک کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہوچکے ہیں -بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے عبدالہادی اور ان کے بچے گھر میں گیس لیک سے ہونے والے دھماکے میں زندہ بچ گئے مگر جھلس جانے کے باعث وہ ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں۔اس دھماکے میں عبدالہادی، ان کی بیوی اور چھ بچے زخمی ہوگئے تھے جن میں سے پانچ کی حالت تشویشناک ہے۔بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے برن وارڈ میں ایک کمرے میں اپنے ساتھ زیر علاج اپنے بچوں کی جانب اشارہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے عبدالہادی نے کہا کہ ’وہ لمحہ میرے خاندان کے لیے قیامت سے کم نہیں تھا کیونکہ اس نے ہمیں برباد کردیا۔‘اس سال رمضان کے پہلے دو دنوں میں کوئٹہ کے چارمختلف علاقوں میں سحری کے اوقات میں گھروں میں گیس لیکیج کے واقعات کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور 15 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔لوگ ان واقعات کا الزام گیس کمپنی پر عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ واقعات گیس کی ناہموار سپلائی کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔تاہم، گیس کمپنی کے حکام اس الزام کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق لوگوں کی بے احتیاطی ایسے واقعات کا سبب بنتی ہے۔

معلوم نہیں یہ معصوم بچے زخموں کی تکلیف کس طرح سہہ رہے ہیں‘عبدالہادی اور ان کے دو بچے ایک ہی کمرے میں زیر علاج ہیں جبکہ ان کی اہلیہ اور چار دیگر بچوں کو زخموں کی شدت کے باعث برن وارڈ کے آئی سی یو میں رکھا گیا ہےعبدالہادی نے بتایا کہ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ سحری کی تیاری کے لیے رات کو ڈھائی تین بجے کے قریب اٹھے تھے۔ ’جیسے ہی چولہہ جلانے کے لیے ماچس کی تیلی جلائی تو ایک زوردار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں گھر کے تمام افراد شدید زخمی ہوگئے جبکہ گھر کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا۔‘عبدالہادی اپنے بچوں کو لے کر بہت پریشان ہیں۔ ان کے ساتھ موجود ان کا چھوٹا بچہ زخموں کی تکلیف کی وجہ سے لیٹ بھی نہیں پا رہا تھا۔میں جس اذیت سے گزر رہا ہوں وہ مجھے پتہ ہے۔ معلوم نہیں یہ معصوم بچے زخموں کی تکلیف اور درد کو کس طرح سہہ رہے ہیں۔‘عبدالہادی اپنے گھر کے واحد کفیل ہیں اور اپنے بچوں کے لیے روزی روٹی کا انتظام کرنے کے لیے رکشہ چلاتے ہیں۔وہ اپنے کرائے کے گھر کی مرمت کو لے کر بھی پریشان ہیں۔گیس دھماکے نے میرے چچا زاد بھائی کا گھر ہی اجاڑ دیا'بدھ کو کوئٹہ میں شیخ ماندہ کے علاقے میں گیس لیکیج کی وجہ سے ایک ہی خاندان کے تین افراد ہلاک اور دو شدید زخمی ہوگئے تھے۔

اس سال، رمضان کی پہلی سحری کے موقع پر گھروں میں گیس لیکیج کی وجہ سے ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں تین خاندان کے 15 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ جبکہ دوسرے روز سحری کے دوران واقعات میں تین افراد ہلاک ہوئے۔ہلاک ہونے والوں میں 32 سالہ شفیع اللہ اور ان کے دو بچے شامل ہیں جبکہ ان کی بیوی اور ایک بچہ شدید زخمی ہیں جو بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے برن وارڈ کے آئی سی یو میں زندگی کی جنگ لڑرہے ہیں۔زخمیوں کی تیمارداری کے لیے شفیع اللہ کے چچازاد بھائی فیض اللہ وہاں موجود تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے چچا زاد بھائی کے گھر والے سحری کی تیاری کے لیے اٹھے تھے کہ ان کے کمرے میں گیس بھرنے کی وجہ سے دھماکہ ہوا۔انھوں نے بتایا کہ گیس لیکیج نے تو ان کے چچازاد بھائی کے پورے گھر کواجاڑ کررکھ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گھر کے تین افراد اس واقعے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ بچ جانے والوں کے متعلق یہ نہیں معلوم کہ وہ کس حالت میں زندہ رہیں گے۔عبدالہادی کی اہلیہ اور پانچ بچوں کو زخموں کی شدت کے باعث برن وارڈ کے آئی سی یو میں رکھا گیا ہے-کوئٹہ کے دو سرکاری ہسپتالوں بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال اور سنڈیمن پرووینشل ہسپتال میں برن وارڈز قائم ہیں۔   فیض اللہ کا کہنا کہ وہ یہ تو نہیں جانتے کہ کمرے میں گیس کس طرح بھر گئی تھی لیکن یہ حقیقت ہے کہ گیس کے پریشرمیں کمی کے باعث کبھی کبھی جلتے ہوئے ہیٹر اور چولہے بند ہوجاتے ہیں۔

اس سال، رمضان کی پہلی سحری کے موقع پر گھروں میں گیس لیکیج کی وجہ سے ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں تین خاندان کے 15 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ جبکہ دوسرے روز سحری کے دوران واقعات میں تین افراد ہلاک ہوئے۔سنڈیمن ہسپتال میں 20 بستروں پر مشتمل برن وارڈ نے گذشتہ سال کام شروع کیا ہے جس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری سے 14 مارچ کے درمیان گیس لیکیج کے باعث آگ سے جھلسنے سے مجموعی طور پر 43 افراد زخمی حالت لائے گئے تھے جن میں سے سات ہلاک ہوگئے۔ولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے برن وارڈ میں گیس لیکیج سے ہونے والی ہلاکتوں کے واقعات کا الگ سے ریکارڈ دستیاب نہیں۔تاہم گذشتہ سال کوئٹہ میں گیس لیکیج کے واقعات میں ایک درجن سے زائد افراد کی ہلاکت کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔گیس لیک کے حادثات سے کیسے بچا جائے؟انور بلوچ نے بتایا کہ اس بات کو لازمی بنایا جائے کہ ہر ہیٹر اور چولہے کے ساتھ منسلک ربڑ کے پائپ کو کلپ لگا کر محفوظ کی جائے۔کلپ کو اچھی طرح ٹائٹ کرنا چاہیے تاکہ کسی طرح کی کی لیکیج کا اندیشہ نہ ہو۔ان کا مشورہ ہے کہ سونے سے پہلے گھروں میں یا دفاتر میں کام ختم کرنے کے بعد تمام ہیٹرز اور چولہوں کو بند کردیں۔وہ کہتے ہیں کہ نیند سے بیدار ہونے کے بعد یا بند گھر میں داخل ہونے کے بعد اگر گیس کی بو محسوس ہو تو قطعاً ماچس کی تیلی یا بجلی جلانے سے گریز کریں اور فوری طور پر گیس کے اخراج کو یقینی بنائیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر جلتا ہوا ہیٹر یا چولہہ بند ہوجائے تو ان کو کھلا نہ چھوڑیں۔ گیس کی بحالی کی صورت میں ہی ان کو آن کرنا چاہ۔اس کے علاوہ، گھروں میں لگے گیس کے لوہے یا ربڑ کے پائپوں کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہیں اور ان کی مرمت میں کبھی تاخیر سے کام نہ لیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ معیاری ہیٹروں اور چولہوں کے استعمال کو یقینی بنائیں۔دھماکے سے جھلسنے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے ڈاکٹر محمد بلال نے بتایا کہ گیس یا کسی اور آگ کی وجہ سے جھلس کر زخمی ہونے کی صورت میں پندرہ سے بیس منٹ تک زخم پر ٹھنڈا پانی ڈالتے رہنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ درد کو کم کرنے کے لیے اس پر ٹوتھ پیسٹ، مہندی یا کوئی اور مواد نہیں لگانا چاہیے۔ڈاکٹر بلال کا کہنا ہے کہ ٹوتھ پیسٹ یا اس طرح کے دیگر مواد نہ صرف زخم کو گہرا کرتے ہیں بلکہ ان کو صاف کرنا بھی طبی عملے کے لیے ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ زخمی شخص کو فوری طور برن وارڈ یا قریبی طبی مرکز پہنچانا چاہیے کیونکہ جلنے کی صورت میں انسان کے جسم کے متاثرہ حصے سے پانی کا اخراج ہوتا ہے۔ جسم میں پانی کی کمی کے باعث متاثرہ شخص شاک میں جاسکتا ہے۔برن وارڈ کے ڈاکٹر مبارک کہتے ہیں کہ آگ لگنے کی صورت میں سب سے پہلے اس کے سورس کو بند کرنا چاہیے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں خود ریسکیو کرنے والوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔انھوں نے بتایا کہ اگر کسی شخص کے جسم بڑا حصہ متاثر ہو تو یہ جان لیوا بھی ہوسکتا ہے، اس لیے ایسے مریض کو طبی مرکز پہنچانے میں بالکل تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر