ہفتہ، 17 اگست، 2024

بڑے خواب دیکھنے والا ایک بڑا انسان -آغا حسن عابدی

  

’’آغا حسن عابدی ان عظیم انسانوں میں سے ایک تھے جو  اپنے خوابوں کو پورا کر گئے ۔ وہ ایک  اعلیٰ تعلیم یافتہ  مثالی محب وطن اور لیجنڈری بینکار تھے۔ان کی ولادت 14مئی 1922ء کو  بر صغیر  کے انتہائ اعلیِ  تہذیبی  شہر لکھنؤ میں  ہوئ ۔ان کے آباؤ اجداد نے کئی نسلوں تک نوابوں اور راجوں مہاراجوں کے اتالیق و مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔ 1947 میں برصغیر تقسیم ہوا تو آغا صاحب ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور خود کو اس کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف کردیا۔ انھوں نے انگریزی ادب میں ایم اے اور پھرقانون کی ڈگری لکھنؤ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اس کے بعد بنکاری کا شعبہ اپنایا اور 1946ء میں حبیب بنک سے منسلک ہوئے۔ وہ اس بنک کے متعدد انتظامی عہدوں پر فائز رہے ۔1972ء میں جب پاکستان میں بینکوں کو قومی ملکیت میں لیا گیا تو آغا حسن عابدی نے متحدہ عرب امارات کے شیوخ کے مالی تعاون سے بنک آف کریڈٹ اینڈ کامرس (Bank of Credit and Commerce International۔ BCCI) کے نام سے ایک بین الاقوامی بنک قائم کیا۔ جس کی شاخیں بہت جلد دنیا کے 72 ملکوں میں پھیل گئیں۔


آغا صاحب نے 1940 کے عشرے کے آخر میں ایک بینک سے اپنا بینکنگ کیریئر شروع کیا اور تیزی سے ترقیاں حاصل کیں۔ انھیں بینک کے مالک سے متعارف کرانے والے کوئی اور نہیں خود راجا صاحب محمودآباد تھے۔ 1959 میں انھوں نے ایک دوسرے بینک میں شمولیت اختیار کرلی، وہاں بھی انھوں نے تیزی سے آگے بڑھنے کی روایت برقرار رکھی اور سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ان کی زیر قیادت یو بی ایل نے پاکستان کا بینکنگ کلچر بدل کر رکھ دیا اور ملک کا دوسرا بڑا بینک بن گیا۔ مگر یہ ان کی شمولیت کے بعد بینک کی ترقی کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔1972 میں جب پاکستان میں بینکوں کو قومی تحویل میں لیا گیا، آغا صاحب نے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (بی سی سی آئی) کے نئے پروجیکٹ پر کام شروع کیا، انھوں نے عربوں کو اس میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے قائل کیا جس کے نتیجے میں دنیا کے بڑے بینکوں میں ایک اور ایسے بینک کا اضافہ ہوا جس کے دفاتر دنیا کے 72 ملکوں میں قائم تھے۔ اس کے ملازمین کی تعداد 16 ہزار تھی اور آغا صاحب نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ملازمین کی اکثریت پاکستانیوں پر مشتمل ہو۔ اپنے ملک اور ہموطنوں کے لیے وہ ایسی ہی سوچ اور جذبہ رکھتے تھے۔ بینک کے اعلیٰ انتظامی افسران میں سے 80 فیصد سے زائد کا تعلق بھی پاکستان سے تھا۔


 اور یہ دنیا کے بہتیرین بینکوں میں شمار ہونے لگا ۔ آغا حسن عابدی نے بی سی سی آئی کو ایک کمرشل بینک کی حیثیت سے قائم کیا تھا مگر اسے تیسری دنیا کے ممالک کے محروم پسماندہ اور کم مراعات یافتہ اقوام کی ترقی کے لیے ایک فعال ادارے میں ڈھال دیا۔ انھوں نے اپنے بنک کے زیر اہتمام متعدد خیراتی اور فلاحی ادارے اور فاؤنڈیشن قائم کیے جنھوں نے دنیا کے بہت سے ممالک خصوصاً پاکستان میں فلاحی کام سر انجام دیےوہ ایک مضبوط پاکستان تعمیر کرنے میں ان کے کردار سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔  ۔ فاسٹ نیشنل یونیورسٹی اور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ سے ہر سال ہزاروں گریجویٹ نکلتے ہیں، ان میں سے چند ہی جانتے ہوں گے کہ ان باوقار اداروں کی بنیادیں کس نے رکھی تھیں۔ یہ اسی ایک شخص کا ویژن تھا جس نے پاکستان کی ترقی میں بھرپور کردار ادا آج کے تاریک  دور  میں پاکستانی نوجوانوں کو ایسی متاثر کن شخصیات سے متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے جن کے نقش قدم پر چل کر وہ زندگی میں کامیابیاں و کامرانیاں سمیٹ سکیں۔انھوں نے ثابت کیا کہ قوم کی خدمت کے لیے سیاست واحد ذریعہ نہیں ہے۔ 

 

بی سی سی آئی کی ترقی سب کی توقعات سے کہیں زیادہ تھی۔انہوں  نے نہا ئت برق  رفتاری سے ترقی کی اور بہت جلد  بی سی سی آئی کو دنیا بھر کا سب سے بااثر بینک بنادیا،یہ اعزاز بھی بی سی سی آئی کو حاصل ہے کہ اس نے بینکاری کے شعبے میں کامیاب پیشہ ور لوگوں کی کمی پوری کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں پاکستانیوں کو تربیت دی۔ آج اگر پاکستان کے بینکاری اور مالیات کے شعبے جدید خطوط پر استوار اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں تو یہ کارنامہ بھی آغا صاحب ہی کا مرہون منت ہے۔ آغا صاحب کو ویژنری کہنا غلط نہ ہوگا۔ انھوں نے پاکستان میں بہت پہلے کمپیوٹر سائنس کو متعارف کرایا، جب بہت کم لوگ جانتے تھے کہ یہ کس بلا کا نام ہےپاکستان میں کمپیوٹر سائنس کو فروغ دینے کی خاطر انھوں نے 1980 میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے بی سی سی آئی فاؤنڈیشن (فاسٹ) قائم کرنے کے لیے 100 ملین روپیہ کا عطیہ دیا۔ سال 2000 نے فاؤنڈیشن کی طرف سے فاسٹ نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز کو وجود میں آتے دیکھا۔ اس بڑی یونیورسٹی کے کیمپس اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور میں قائم ہیں۔ غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ (جی آئی کے آئی) بھی انہی کی کوششوں سے معرض وجود میں آیا۔ ان دونوں اداروں نے کئی سائنسدان اور انجینئرز پیدا کیے ہیں جو پاکستانی معیشت کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔آغا صاحب ایک ایسے تاجر تھے جو اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ آدمی کا مقصد حیات غریبوں کی مدد کرنا ہونا چاہیے۔ ان کے سرانجام دیے ہوئے عظیم کارناموں کا ثبوت یہ ہے کہ وفات کے کئی سال بعد آج بھی لوگ ان کی مخیرانہ سرگرمیوں سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ آغا صاحب نے زندگی کی آخری سانسیں کراچی کے ایک بڑے اسپتال میں دوران علاج لی تھیں، وفات کے وقت ان کی عمر 74 برس تھی۔ خرابی صحت کی بنا پر وہ بی سی سی آئی سے بہت پہلے 1988 میں ہی علیحدگی  کرچکے تھے۔ آغا صاحب کو علیحدگی اختیار کیے ہوئے بمشکل 3 سال ہوئے تھے جب تیسری دنیا کا یہ قابل فخر بینک   بند کردیا گیا۔


6 اگست 1995 کو نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ بی سی سی آئی پر لگائے جانے والے الزامات میں کوئی سچائی تھی بھی تو آغا حسن عابدی سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا، ان کا اپنا کہنا بھی یہی تھا کہ انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ وہ ایک شاعر اور مستقبل پر نظر رکھنے والے (ویژنری) آدمی تھے۔انھوں نے بی سی سی آئی کی شکل میں جو بینک قائم کرنے کا خواب دیکھا تھا اس کے ذریعے وہ عوامی بہبود کے کام کرنا اور تیسری دنیا کے ممالک سے غربت ختم کرنا چاہتے تھے۔وہ لندن میں رہتے اور انتہائی نفیس و خوش لباس آدمی تھے۔  شیخ زید بن سلطان النہیان کے علاوہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر بھی آغا صاحب کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔ بقول شاعر ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی۔2انھوں نے نو آزاد متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان کا اعتماد حاصل کیا اور ان کی مالی اعانت سے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل کے نام سے ایک عالمی بینک کے قیام کا ڈول ڈال دیا

  

جمعہ، 16 اگست، 2024

ہمارے جل گئے سارے خیام ائے با با-مجلس بی بی سکینہ

ِ

   مناجات امام حسین  علیہ السلام در نماز شب-اے پروردگار! مجھے ایک ایسی بیٹی عطا کر جس سے میں بہت زیادہ محبت کروں اور وہ بھی مجھ سے بہت زہادہ محبت کرے، وہ میرے سینے پر سوئے اور اس کی قرابت سے مجھے سکون ملے۔اللہ نے آپ کی دعائے نیم شب قبول کر لی اور آپ کو  اس دختر سے نوازا جس  نے کارزار کربلا میں  اور بعد از کربلا اپنے پدر کی محبت کا حق ادا کر دیا سکینہ بنت حسین علیہ السلام (پیدائش: 7 نومبر 676ء 24 ذوالحجہ 56ھ— وفات: 12 نومبر 680ء 13 صفر 61ھ بروز پیر)  سکینہ کے والد گرامی سردار کربلا حسین ہیں۔ جناب سکینہ کے والدہ گرامی امرا القیس کی بیٹی رباب تھیں۔ 56ھ میں جناب سکینہ متولد ہوئیں جو امام  حسین علیہ السلام کی بڑی عزیز اور چہیتی بیٹی تھیں۔ جناب سکینہ بنت الحسین علیہ السلام بروز عید مباہلہ بتاریخ 24 ذوالحجہ 56ھ (بروز جمعہ بمطابق 7 نومبر 676ء) کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں اور جس وقت آپ اپنی مادرگرامی رباب علیہ السلام کے ہمراہ کربلا کے سفر پر روانہ ہوئیں اس وقت آپ کی عمر 3 سال 7 ماہ 4 یوم تھی 



۔ہمارے لاکھوں سلام اس معصومہ پر جو عاشورا کے دن ڈھلنے تک اپنے سے چھوٹے بچوں کو یہ کہہ کر دلاسہ دیتی رہی کہ ابھی عمو عباس پانی لائیں گے۔ معصوم کو کیا خبر تھی کہ اس کے عمو تو آج نہر کے کنارے اپنے بازو کٹائیں گے ۔عصرِ عاشورا سے پہلے جنابِ عباس  کی شہادت کے بعد سکینہ خاموش ہو گئی اور پھر موت کے وقت تک پانی نہ مانگا کیونکہ سکینہ کو آس تھی کہ چچا عباس ہی ہانی لائیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ شہادتِ جنابِ عباس علمدار  کے بعد العطش العطش (ہائے پیاس ہائے پیاس) کی صدائیں نہیں آئیں۔ایک  مستند روائت یہ بھی ہے جب خیام کربلا جل چکے اور سہمے ہوئے تین دن تین راتوں کے بھوکے بچے اور مخدارت عصمت جلتی ریت پر بیٹھے ہوئے تھے اس وقت زوجہ ء حر نان جویں اور پانی لائ اور پانی  کا کوزہ جب بی بی سکینہ کو دیا گیا تو وہ ننھی بچی پانی  کا کوزہ لے کر مقتل کی جانب جانے لگی تو بی بی زینب نے  اس کو جلدی سے اپنی گود میں لے لیا اور پوچھا کہ کہاں جارہی ہو سکینہ تب بی بی سکینہ نے کہا پھپھی اماں آپ ہی نے تو کہا ہے کہ سب سے پہلے چھوٹے کو پانی پلاتے ہیں میں اپنے چھوٹے بھیا علی اصغر کو پانی پلانے جا رہی ہوں 


اما م   حسین   علیہ السلام کی رخصت -روائت  ہے کہ میدان کربلا میں جانے لئے آخری  رخصت کے لیے امام حسین خیام میں آئے اور فرمایا: (ياسُكَيْنَة! يا فاطِمَةُ! يازَينَبُ! يآُمَّ كُلْثُومِ! عَلَيْكُنَّ مِنِّي السَّلامُ!) سکینہ نے رو کر کہا: بابا! کیا مرنے کو جاتے ہیں۔ امام حسین نے فرمایا : کیسے نہ جاؤں کہ اب کوئی یاور و مددگار نہیں ہے۔ سکینہ نے کہا: بابا: ہمیں ہمارے جد کے حرم میں واپس پہنچا دیجیئے۔ امام حسین نے جواب میں  فرمایا آخری وداعئ قبول کرو: ۔ آپ کی یہ باتیں سن کر حرم میں نالہ و شیون کی آوازیں بلند ہونے لگیں، امام حسین نے انھیں تسلی دی اور ام کلثوم سے مخاطب ہو کر فرمایا: بہن میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ ہوش نہ کھونا۔ اسی وقت سکینہ نالہ کناں امام حسین کے پاس آئیں، سکینہ سے امام حسین کو بہت محبت تھی، سینہ سے لگایا اور آنسو صاف کر کے فرمایا:، اے سکینہ میری شہادت کے بعد تمھیں بہت زیادہ رونا پڑے گا اشک حسرت سے بہت زیادہ نہ تڑپاؤ، میرے جیتے جی نہ روؤ اور جب شہید ہو جاؤں تو میرے سوگ میں بیٹھنا

اک جام ہوا شامِ غریباں میں میسر

وہ کوزہ میں رکھ آئی تھی اصغر کی لحد پر

تھا مجھ سے بھی چھوٹا میرا بھیا ،میرا دلبر

شرمندہ میں ہو جاتی چچا پیاس بجھا کر

اب اپنے ہی ہاتھوں سے میری پیاس بجھانا

پیاسی ہے سکینہ

 

مقاتل میں لکھا ہے کہ جب  11 محرم 61 ہجری کو آلِ اطہار کو پابندِ سلاسل کر کے بازاروں سے گزارا گیا تو اس معصوم کو سب سے زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی، کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام اور پھر زندانِ شام کہ آخری آرامگاہ بھی وہی قید خانہ بن گیا -بی بی سکینہ بنت حسین علیہ السلام   امام علی   علیہ السلام کی پوتی اور امام حسین    علیہ السلام کی لاڈلی بیٹی فاطمہ بنت الحسین   علیہ السلام جو تاریخ میں سیدہ سکینہ  کے نام سے معروف ہیں ، جب بنی امیہ کے شجرہ خبیثہ کی علامت ملعون یزید ابن معاویہ نے کربلا میں خاندان عصمت و طہارات اہل بیت آل محمد ص کو شہید کیا تو صرف ان کی شہادت پر اکتفا نہ کیا بلکہ محمد و آل محمد  کےمخدرات عصمت و طہارت پاک بیبیوں حتی کہ یتیم بچوں و بچیوں کو 10 محرم کے بعد قیدی بنا کر بے کجاوہ اونٹوں کے ذریعے اپنے پایہ تخت دمشق و کو فہ کے بازاروں و درباروں تک لے جایا گیا اور یہ پروپیگنڈہ تک کروایا گیا کہ نعوذ باللہ ان اہل بیت اطہار نے خلیفۃ المسلمین یزید ابن معاویہ کے خلاف بغاوت کی تھی، اگر کوئی اس طرح کرے گا تو اس کا بھی یہی انجام ہو گا۔


ایک روز جب بی بی سکینہ اپنے بابا کو بہت یاد کررہی تھیں اور بہت آہ و بکا کیا ۔ تمام بیبیاں رو رہی تھیں یزید نے   طیش  کے عالم میں پوچھا کہ کیا معاملہ ہے اس کو بتایا گیا کہ حسین ابنِ علی (ع) کی چھوٹی بچی اپنے بابا کو یاد کر کے رو رہی ہے ۔ یزید ملعون نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ اس کو کس طرح خاموش کیا جائے یزید کو بتایا گیا کہ اگر سرِ حسین (ع) زندان میں بجھوادیں تو یہ بچی خاموش ہوجائے گی ،  دربان زندان  سرِ امام حسین علیہ السلام زندان میں لے کے آیا ۔ - عابدِ بیمار طوق و زنجیر سنبھالے بابا حسین کے سر کو لینے آگے بڑھے-زندان میں   اک حشر برپا ہوا ، تمام بیبیاں احتراماً کھڑی ہوگئیں -سکینہ کی گود میں جب بابا کا سر آیا بے چینی سے لرزتے ہونٹ امامِ عالی مقام کے رخسار پر رکھ دیے ، کبھی ماتھا چومتی کبھی لبوں کا بوسہ لیتیں روتی جاتیں اور شکوے کرتی جاتیںبابا ۔ بابا مجھے طمانچے مارے گئے ۔بابا میرے کانوں سےگوشوارے چھینے گئے ۔ میرے کان زخمی ہوگئے میرے دامن میں آگ لگی بابا نہ آپ آئے نہ عمو آئے نہ بھائی اکبر آئے ۔ بابا ہمیں بازاروں میں پھرایا گیا بابا اس قید خانے میں میرا دم گھٹتا ہے پیاسی سکینہ روتی رہی ہچکیوں کی آواز بتدریج  مدھم پھربالآخر خاموشی چھاگئی ۔ سید سجاد کھڑے ہو گئے پھوپی زینب کو سہارا دیا اور بلند آواز میں فرمایا:                      انا للہِ وانا الیہِ راجعو ن  - ثانی زہرا سلام اللہ نے بچی کا شانہ ہلایا تو ہاے سکینہ کہ کر خود بھی بچی سے لپٹ گیں اور آواز دی، اے بیٹا سجاد! سکینہ  اپنے بابا کے پاس چلی گئی- چراغ حرم آج قید خانہ شام میں گل ہوگیا-قید خانہ میں کہرام بپا ہوگیا- روایات میں ہے کہ اس بچی کو اسی خون بھرے کرتے میں دفن کیا گیا  -آج لاکھوں زائرین خواتین بی بی سکینہ کی لحد پر چراغ جلانے آتی ہیں 

جمعرات، 15 اگست، 2024

دریائے سندھ کی سوغات ''پلہ مچھلی''

 


پاکستان اللہ کریم  کی ان نعمتوں میں سے ایک ہے جسے اللہ نے دنیا کی ہر نایاب نعمت سے مالامال  کر رکھا ہے۔پھر اس نے  دریاؤں اور سمندر کے بارے میں بھی قران کریم میں کہہ دیا ہے کہ  ہم  نے اس میں تمھارے لئے فائدے رکھے ہیں - دریائے سندھ میں مچھلی کی ایک نایاب قسم پائی جاتی ہے جسے "پلا" مچھلی کہتے ہیں اس پلا مچھلی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مچھلی  سمندر سے دریا میں آتی ہے اس کا مطلب یہ دریا کے بہاؤ کے مخالف چلتی ہے بالکل اسی طرح جیسے پہاڑی علاقوں میں ٹراؤٹ مچھلی جو پہاڑوں پر چڑھائی کرتی ہے اس لئے پلا مچھلی بہت طاقتور ہوتی ہے اور اسے  سب ہی لوگ  بہت شوق سے کھاتے ہیں تاثیر میں بہت گرم ہوتی ہے مقوی تاثیر کے ساتھ توانائی کا موجب ہے  ۔ اسے مچھلی کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے ۔ پلا مچھلی کی افزائش سال میں صرف تین مہینے تک ہوتی ہے ، مگر کئی سالوں سے سندھو دریا میں پانی نہ آنے کے باعث اب بہت ہی کم دستیاب ہے -ادریائے سندھ کیٹی بندر کے قریب ڈیڑھ سو میل سے زائد علاقہ میں ڈیلٹا بناتا بحیرہ عرب میں گرتا ہے ،یہ ڈیلٹا دریائے سندھ کے باقی سترہ سو میل کی لمبائی میں سب سے کم سطح والا علاقہ ہے، چناں چہ دریا کا پانی انتہائی آہستہ سے سمندر میں ملتا ہے اور جوار بھاٹا کے وقت یہ سارا علاقہ سمندری پانی سے بھر جاتا ہے۔ پانی کے اس اتار چڑھائو کی وجہ سے پلا میٹھے پانی سے مانوس ہوجاتی ہے، چناں چہ وہ ڈیلٹا میں ہی پرورش پاتی ہے۔


 ایک وقت تھا کہ پلا سفر کرتی ہوئی سکھر تک پہنچ جاتی تھی ، مگر اب یہ صرف جامشورو تک ملتی ہے۔ پلا مچھلی حساس ہوتی ہے۔ پکڑنے کے فوراً بعد لمحوں میں مرجاتی ہے جیسے ہی وہ جال سے ٹکراتی ہے، دم توڑ دیتی ہے۔آج کل پلا مچھلی کا سیزن ہے ، بڑی تعداد میں افراد کراچی، حیدرآباداور سندھ کے دیگر شہروں سے پلا مچھلی کھانے المنظر کوٹری بیراج جامشورو آرہے ہیں۔ المنظر  کے خوب صورت نظارہ میں دیکھتے ہوئے  اور ’’پلا‘‘ مچھلی  سے لطف اندوز ہوتے ہوئے تفریح کا مزادوبالا ہوجاتا ہے ۔زائقے کے اعتبار سے مچھلیوں کی ملکہ تصور کی جانے والی یہ مچھلی جس کا حیا تیاتی یا سا ئنسی نام tenualosa ilshaہے۔اس کا شہرہ صرف سندھ تک ہی محدود نہیں بلکہ اسے بنگلہ دیش اور بھارت میں بھی بہت پسند کیا جا تا ہے۔اپمے ذائقے اور خوشبو کی طرح اس کی زندگی بھی منفرد نوعیت کی ہے۔یہ مچھلی میٹھے اور کھارے دونوں پا نیوں میں رہتی ہے۔یہ اپنی زندگی کا زیادہ حصہ کھارے پانی میں گزارتی ہے۔مقامی لوگ اسے طاقتور مچھلی کہتے ہیں جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ پانی کے دھارے کی مخالف سمت میں سفر کر کے سمندر سے دریا میں داخل ہوتی ہے۔پلا مچھلی کو بنگلہ دیش کی قومی مچھلی کا درجہ حاصل ہےاور اسے مغربی بنگال،اڈیسہ،تری پورہ،آسام(بھارت)میں بھی بہت مقبولیت حاصل ہے۔


اس کے اندر بڑے تعداد میں باریک باریک کانٹے ہوتے ہیں لہذا اسے کھانے کے لیے خاص مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم اسے شوق سے کھانے والوں کے کیے یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی اور اسے اس طرح پکایا جا تا ہے کہ کانٹے زیادہ سخت نہیں رہ پاتے۔بنگلہ دیش کے تمام بڑے دریاوں میں یہ مچھلی عام طور پر پائی جا تی ہے۔مثلا پدما دریا(زیریں گنگا)،مہگنا(زیریں برہم پرا) اور گوداوری۔تاہم پدما دریا میں پائی جانے والی پلا مچھلی کو بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ لذیذ تسلیم کیا جاتا ہے۔بھارت میں روپ نارائن دریا،گنگا،مہاندی،چھلکا جھیل اور گوداوری دریا میں پائی جانے والی مچھلیاں لذت کے اعتبار سے خاصی شہرت رکھتی ہیں۔پاکستان میں ضلع ٹھٹھہ میں پلا مچھلیاں سب سے زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہیں۔بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے بہت سے ہندو خاندان کے لیے یہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے مطلب یہ کہ پوجا پاٹ کے روز یہ لوگ پوجا پاٹ کے دوران بھی یہ مچھلی اپنے دیوی دیوتاوں کو چڑھاتے ہیں۔


اس مچھلی کے بارے میں کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اس میں کافی مقدار میں تیل ہوتا ہے جس میں فیٹی ایسڈ(اومیگا3فیٹی ایسڈز)کی حاصی مقدار ہوتی ہے۔اومیگا3فیٹی ایسڈز کے بارے میں حال ہی مہں تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ یہ جانداروں میں کولسٹرول اور انسولین کم سطح پر رکھنے کے ضمن میں معاون ہوتا ہے۔یہ مچھلی بھارت پاکستان اور بنگلہ دہش میں مختلف طریقوں سے پکائی جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسے پکانے کے 50معروف طریقے ہیں۔اسے کم تیل میں آسانی سے تلا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں خود کافی مقدار میں تیل ہوتا ہے۔آج کل یہ حال ہے کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی 80فیصد پلا مچھلی برما سے در آمد کی جاتی ہے۔یہ حقیقت بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کراچی،حیدر آباد اور ٹھٹھہ کے ہوٹلوں میں اور سٹکوں کے کنارے فروخت ہونے والی پلا مچھلی دریائے سندھ سے نہیں پکڑی گئی۔کہا جاتا ہے کہ صرف ماہر ملاح ہی مقامی اور در آمد شدہ پلا مچھلی میں فرق کر سکتے ہیں۔"پلہ مچھلی میں کوسٹرول٫ برائے نام ہوتا ہے۔ یہ ریت میں، چولھے پر، گرل، ، سالن ، قورمہ، کوفتے، بریانی، پلاوا، بیک ور باربی کیو کی بنائی جاتی ہے۔آجکل پلہ مچھلی کا سیزن ہے جو اگست سے شروع ہوتا ہے اور مارچ تک رہتا ہے

 پلہ مچھلی صرف دریائے سندھ میں ہی پائی جاتی ہے اور حیدرآباد سندھ، پاکستان میں رہنے والوں کی خاص خوراک میں شامل ہے یہ چونکہ سب سے اعلٰی اور سب سے مہنگی مچھلی ہوتی ہے اس لئے اسے خاص احتیاط سے پکانا ہوتا ہے ویسے تو اس کا سالن بھی بہت لذیذ ہوتاہےالمنظر کو دریائے سندھ کی دوسری جانب بہت خوبصورتی سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہاں سے پانی اور کشتیوں کا خوب صورت نظارہ ذہنی تسکین کا باعث بنتا ہے۔المنظر اور پلا مچھلی کا گہرا تعلق ہے دونوں ہی سندھ کی ثقافت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پلا کا سیزن ختم ہونے کے بعد المنظر پر سناٹا ہوجاتا ہے اس ریسٹورنٹ میں مچھلی اور پلا مچھلی، باربی کیو کے انواع و اقسام کے کھانے سیر و تفریح کرنے والوں کے دل موہ لیتے ہیں۔ پلا مچھلی کے سیزن میں یہاں لوگ دور دراز سے پلا مچھلی کھانے آتے ہیں۔ دریائے سندھ، جامشورو کے مقامی ملاحوں کا کہنا ہے  کہ چھٹی کے دن خاص طور پر جمعہ اور اتوار کو 1000 سے 1500 افراد یہاں کی سیر کرنے آتے ہیں۔ کشتی کا کرایہ 300 روپے فی چکر ہے، اس میں تقریباً 10 افراد کو بیٹھایا جاتا ہے۔ مون سون کے موسم میں پلا مچھلی اور مچھلیوں کی مختلف اقسام روہو مچھلی، کھگا مچھلی، پاپلیٹ وغیرہ کا ماہی گیر شکار کرتے نظر آتے ہیں۔ پلا مچھلی کو سندھ کی سوغات اور مچھلیوں کا سردار بھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر ملاح، پلا مچھلی کو میواجات میں شمار کرتے ہیں۔ یہ مچھلی سندھ کی معیشت بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے،  ۔ جب پلا دریا میں ہوتی ہے، تو پانی میں کہکشاں جیسے رنگ نمودار ہوتے ہیں   مضمون کے آخر میں رب کریم کا شکریہ جس نے ہم کو دریائے سندھ کا اور پلہ مچھلی کا تحفہ دیا

بدھ، 14 اگست، 2024

بنگلہ دیش میں اقتصادی انقلاب کے خالق ڈاکٹر یونس پارٹ 2

 

وہ 2024 کا پہلا ہی دن تھا جب 84 سالہ نوبل انعام یافتہ ماہرِ اقتصادیات محمد یونس کو بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ اس کے چھ ہی دن بعد 76 سالہ شیخ حسینہ واجد چوتھی بار انتخابات جیت کر جب ملک کی وزیراعظم بنیں تو انھیں جنوبی ایشیا کی سب سے طاقتور خاتون کہا گیا۔لیکن بنگلہ دیش میں سیاسی بساط اگلے سات ماہ میں یوں پلٹی کہ آج وہی محمد یونس عبوری حکومت کے نگران سربراہ بنائے جا چکے ہیں جبکہ انھیں ’عوامی دشمن‘ قرار دینے والی شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹ چکا ہے- گرامین فاؤنڈیشن  جس کے خالق موجودہ بنگلہ دیش کے صدر  ڈاکٹر محمد یونس نے جب  سیا ست کے اندھے کنوئیں میں ڈول ڈالا تو  اس وقت سیات کا آسمان صرف حسینہ واجد کے اختیار میں تھا جنہوں  نے  ڈاکٹر یونس کو اپنی رقیبانہ روش کے سبب پسپا ہونے پر مجبور کر دیا  اور  ڈاکٹر یونس جیسے عوام دوست انسان   سیاست سے دست کش ہو کر صرف عوام کی فلاحی  منصوبوں میں مصروف ہوگئے  ان کی  فاؤنڈیشن  نے   بنگلہ دیش کے  ساٹھ لاکھ سے زیادہ افراد کو اب تک  قرضے  دئے  ہیں اور 1997 سے قائم گرامین فاؤنڈیشن دنیا بھر میں امدادی کام کرتی ہےمحمد یونس نے چھوٹے قرضوں کے زریعہ غربت کے خاتمہ کے خیال پر کام 1974 کے قحط سے متاثر ہو کر شروع کیا تھا۔ اس وقت وہ بنگلہ دیش کے  پلاننگ کمیشن کی اچھی نوکری چھوڑ کر چٹاگانگ یونیورسٹی میں معیشت پڑھا رہے تھے۔ اس کام میں انہیں کامیابی دو سال بعد ملی جب دسمبر 1976 میں،ڈاکٹر  یونس  غریبوں کو قرض دینے کے لیے سرکاری جنتا بینک سے قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس قرض کے بعد  محمد یونس نے اپنے چھوٹے قرضہ کے منصوبوں کے لیے دوسرے بینکوں سے قرضے حاصل کرتے ہوئے کام جاری رکھا۔ 1982 تک ان سے قرض لے کر کام کرنے والے ارکان کی تعداد 28,000 تھی۔1 اکتوبر 1983 کو، محمد یونس کے پائلٹ پروجیکٹ نے غریب بنگلہ دیشیوں کے لیے ایک مکمل بینک کے طور پر کام شروع کیا اور اسے گرامین بینک یعنی دیہاتی بینک ("ویلیج بینک") کا نام دیا گیا۔ جولائی 2007 تک، گرامین بینک نے 74 لاکھ  ضرورت مندوں کو   6.38 بلین امریکی ڈالر  کے انتہائی چھوٹے قرضےجاری کیے تھے۔


گرامین بینک  ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے، بینک "یکجہتی گروپس" کا نظام استعمال کرتا ہے۔ یہ چھوٹے غیر رسمی گروپ قرضوں کے لیے مل کر درخواست دیتے ہیں اور اس کے اراکین ادائیگی کے شریک ضامن کے طور پر کام کرتے ہیں اور اقتصادی ترقی کے لیے ایک دوسرے کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔یونس اورگرامین کو نوبل انعام-محمد یونس نے گرامین بینک 1976 میں بنگلہ دیش میں قائم کیا تھا-بنگلہ دیش کے چھوٹے قرضے دینے والے گرامین بینک اور اس کے بانی محمد یونس کو اس سال کا امن کا نوبل انعام دیا گیا ہے۔انعامات کے بارے میں فیصلہ کرنے والی سویڈن کی نوبل کمیٹی کے مطابق محمد یونس اور ان کے قائم کردہ ادارے کو یہ انعام غربت کے خاتمے کے لیے کام پر دیا گیا ہے۔محمد یونس نے کہا ہے کہ ’میں بہت بہت خوش ہوں۔ یہ ہمارے اور بنگلہ دیش کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ یہ ہمارے کام کو تسلیم کرنا ہے۔ بطور ایک بنگلہ دیشی، مجھے فخر ہے کہ ہم نے بنگلہ دیش کو کچھ دیاہے۔ اب ہمارے کام کو پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’یہ غریبوں کے حقوق کے لیے چلائی گئی ہماری تحریک کو شروع کرنا ہے۔ اس طرح تسلیم کیے جانے کے بعد ہم امید کرتے ہیں ہمارا ماڈل پوری دنیا میں پھیلے گا۔ دسیوں ہزار لوگ بنگلہ دیشی اور اس دوسرے جو پوری دنیا میں مائیکرو کریڈٹ پروگراموں کو فروغ دے رہے ہیں اس اعتراف سے بہت حوصلہ پائیں گے‘۔


گرامین بینک غریب لوگوں کو چھوٹے قرضے دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا تاکہ وہ غربت سے نکل سکیں۔یہ بینک محمد یونس نے سنہ 1976 میں بنگلہ دیش میں قائم کیا تھا۔ چھوٹے قرضے دینے کا یہ نظام پھر ’مائیکرو کریڈٹ‘ کے نام سے جانا گیا۔نوبل کمیٹی کا اپنے فیصلے کے بارے میں کہنا تھا کہ ’پائیدار امن تب تک ممکن نہیں ہے جبک تک آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت سے نہ نکل سکے۔ مائیکروکریڈٹ غربت سے نکلنے کا ایک راستہ ہے۔ مقامی سطح پر ترقی سے جمہوریت اور انسانی حقوق کو بھی فائدہ ہوگا‘نوبل کمیٹی کا اپنے فیصلے کے بارے میں کہنا تھا کہ ’پائیدار امن تب تک ممکن نہیں ہے جبک تک آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت سے نہ نکل سکے۔ائیکروکریڈٹ غربت سے نکلنے کا راستہ ہے۔ مقامی سطح پر ترقی سے جمہوریت اور انسانی حقوق کو بھی فائدہ ہوگا۔‘کمیٹی نے کہا کہ محمد یونس کو یقین تھا کہ عورتیں بھی یہ قرضے لے کر اپنی زندگیاں بدل سکیں گی۔  ۔


بی بی سی بنگلہ کے مطابق جس وقت شیخ حسینہ واجد فوجی ہیلی کاپٹر میں ملک چھوڑ کر انڈیا روانہ ہو رہی تھیں، محمد یونس علاج کی غرض سے فرانس میں موجود تھے۔بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد کوٹہ مخالف طلبہ تحریک کے مطالبے پر ملک کے عبوری سربراہ بننے والے 84 سالہ معیشت دان کو ان کی قسمت چھ ماہ میں قید خانے سے اقتدار کی دہلیز پر لے تو آئی ہے لیکن ساتھ ہی ان کے کندھوں پر ہی ملک میں امن و امان کے قیام اور استحکام لانے کی ذمہ داری آن پڑی ہے۔محمد یونس:  جنھیں ان کے مداح ’غریبوں کا بینکار‘ کہتے ہیں، اس وقت عالمی شہرت ملی تھی جب ان کے گرامین بینک کی جانب سے غریب طبقے کو کاروبار شروع کرنے کے لیے قرضے دینے کے پروگرام کو سراہا گیا اور 2006 میں انھیں امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔انھوں نے 1970 کی دہائی میں ملک میں مائیکرو فائنانس کے بانی کی حیثیت سے معاشرے کے محروم طبقے کے بہت سے لوگوں کو غربت کی زندگی سے باہر نکلنے میں مدد فراہم کی۔یہ تصور انھیں چٹاگانگ یونیورسٹی سے متصل دیہات کے دوروں کے دوران آیا تھا جس کے بعد انھوں نے قلیل سرمایہ، جو بعض اوقات دس ڈالر تک ہوتا، درجن بھر دیہاتیوں کو بطور قرض فراہم کیا اور ایسے چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والوں کو چنا جنھیں روایتی بینک قرضہ فراہم کرنے سے کتراتے تھے۔محمد یونس کا یہ ماڈل کامیاب ہو گیا اور تیزی سے پھیلا۔  


     گرامین کے معنی ’گاؤں کا بینک‘ ہے۔2007 میں محمد یونس نے ’ناگرک شکتی‘ یعنی ’عام شہری کی طاقت‘ کے نام سے اس تحریک پر کام کرنا شروع کیا جو ملک میں ایک تیسری سیاسی قوت بنانے کی کوشش تھی اس بینک نے ٹیسکٹائل سے لے کر موبائل ٹیلی کام اور براڈ بینڈ جیسے بڑے شعبوں سمیت زندگی کے ہر شعبے میں سرمایہ لگایا اور رفتہ رفتہ عالمی شہرت پروفیسر یونس کا پیچھا کرنے لگی۔ 2006 میں انھیں نوبل انعام دیا گیا تو ان کا ماڈل ترقی پذیر دنیا میں بھی مشہور ہو چکا تھا۔ 6 اگست 2024-سیاست میں قدم اور شیخ حسینہ واجد سے رقابت-نوبل انعام پانے کے چند ہی ماہ بعد پروفیسر یونس نے سیاست میں قدم رکھا۔ اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ ’میں ایسا شخص نہیں ہوں جو سیاسی میدان میں آرام دہ محسوس کرتا ہے۔ لیکن اگر حالات نے مجبور کیا تو میں سیاست کا حصہ بننے سے گریز نہیں کروں گا۔‘۔2008 میں وزیر اعظم بنتے ہی شیخ حسینہ واجد نے یونس پر الزام لگایا کہ وہ اپنی کاروباری سرگرمیوں سے ’غریبوں کا خون چوس رہے ہیں‘طاقت کی رسہ کشی اور سیاسی رقابتوں سے مایوس ہونے کے بعد محمد یونس جلد ہی سیاسی میدان سے پسا ہو گئے۔لیکن  حسینہ واجد  نے ان کے لئے انتقام کا دروازہ بند نہیں کیا -یہاں تک کہ گزشتہ سال اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش میں سیاسی مخالفین کے ساتھ حکومتی رویے پر سرزنش بھی کی جب عالمی تنظیم کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے بیان دیا کہ ’ہمیں انسانی حقوق کے کارکنوں کی ہراسانی پر کافی تشویش ہے 2024 جنوری میں ملک کے لیبر قوانین کی خلاف ورزی کے الزام کے تحت گرامین ٹیلی کام کے تین ساتھیوں سمیت یونس کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ انھوں نے سزا کے خلاف اپیل دائر کی اور پھر ضمانت پر رہا ہو گئے۔’بنگلہ دیش آزاد ہو گیا‘ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پروفیسر یونس نے بیان دیا تھا کہ ’بنگلہ دیش آزاد ہو گیا ہے‘شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے ڈرامائی اختتام کے بعد اب پروفیسر یونس ہی ایک ایسی شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں جن پر ملک میں احتجاج کرنے والے طلبہ اعتماد کرتے دکھائی دیے۔۔

منگل، 13 اگست، 2024

بچوں کا بچپن اور مٹی کے کھیل



  بچوں کا بچپن کا دور ان کی زندگی کا خوبصورت ترین دو ر ہوتا ہے  اور اسی دور میں ان کے اوپر  گھر کی جانب سے پابندیاں بھی کچھ زیادہ ہی لگتی ہیں  اور جیسے 'جیسے دنیا ترقی کر رہی ہے ہم اپنے بچوں پر زیادہ ہی پابندیاں لگا رہے ہیں  ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بچوں کی زندگی کے خوبصورت ترین دن ہیں، یہی وہ لمحات ہیں جو ان کی یادوں کا خوبصورت احساس بن جاتے ہیں۔ ذرا آپ یاد کریں اور محسوس کریں کہ بچپن میں انگلیوں سے کیچڑ میں کھیلنا کیسا محسوس ہوتا تھا؟اصل بات یہ ہے کہ اب ٹیکنالوجی نے ہمار ے احساسات اور ضرورتوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہمیں صفائی ستھرائی سے انکار نہیں لیکن اس کے جنون میں ہم مٹی کی خوشبو اور ہمارے ذہن و روح کے لیے مٹی چھونے کی جو حس ہمیشہ سے فائدہ مند رہی ہے، اُس سے دور ہوگئے ہیں۔ یہ مٹی، پانی درخت تمام اپنے اثرات چھوڑتے ہیں۔اب موسم گرما شروع ہوچکا ہے اور گرمی کو شکست دینے کا اس سے بہتر اور کیا طریقہ ہے کہ اپنے بچوں کو باہر کی سیر کرنے اور مٹی اور اگر بارش میں کیچڑ مل جائے تو اس میں کچھ مزہ کرنے کا موقع دیں۔


 انہیں بارش کے موسم میں مینڈک اور بیر بہوٹیاں  پکڑنے دیں،  بس مٹی میں کھیلنے کی حد تک ان کو رنگ برنگے کپڑے پہنا کر باہر بھیجیں لیکن اپنی نگرانی میں تاکہ وہ خطرات کے قریب نہیں جائیں -مٹی ایک اور حیرت انگیز فائدہ جو سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ مٹی میں وقت گزارنا دماغ میں سیروٹونن نامی قلمی مادے کی مقدار بڑھاتا ہے جو کہ اعصابی نظام کو مضبوط بنانے میں مدد دیتا ہے‘ جس سے ان کے بد جسما نی افعال بہتر ہوتے ہیں اور  دماغی قوت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔انسانی جسم اکثر اوقات مختلف اقسام کی الرجیز کا شکار ہوجاتا ہے ‘ مٹی میں کھیلنے سے ان الرجیز کے خاتمے مدد ملتی ہے اور انسان بہت سی الرجیز سے قبل ازوقت لڑنے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے۔اور بارش کے پانی و کیچڑ میں کھیلنا بچوں کے لیے ایک تفریحی اور فائدہ مند سرگرمی ہے۔ یہ فطرت سے ان کے تعلق کو مضبوط کرتی ہے، ان کے خیالات کو وسعت دیتا ہے، تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دے سکتا ہے اور یہاں تک کہ جسمانی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو احتیاط کے ساتھ ان سرگرمیوں میں شامل ہونے کی اجازت دینے سے گریز نہ کریں بلکہ اسے بچپن کا ایک فطری اور قیمتی حصہ سمجھ کر قبول کریں۔


مائیں خود دیکھیں گی کہ مٹی سے کھیلنا ان  کے بچوں کی صحت پر کتنے مثبت اثرات مرتب کرے گا  کیونکہ بارش کی  کیچڑ میں کھیلنا دراصل جسمانی اور ذہنی صحت دونوں کو فروغ دینے کا ایک بہترین طریقہ ہے لیکن بد قسمتی سے ہم نے آج کے بچوں سے یہ مٹی کا کھیل چھین لیا ہے۔بچوں کے بچپن پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر رابرٹ ڈبلو تھیلڈ نے اپنی کتاب ’بچوں کی نگہداشت‘ میں لکھا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ بچے کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی صفائی کا خیال رکھا جائے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ بچے کو ہر قدم پر جراثیم سے ڈرایا اور دھمکایا جائے ہر وقت اس کو ان جراثیم کا احساس دلانا کہ اس کو ان جراثیم سے گھر میں اور باہر بھی خطرہ ہے، اس سے کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن اس سے یہ نقصان ضرور ہوتا ہے کہ بچہ وہم میں مبتلا ہوجاتا ہے اور وہ بے دھڑک ہر طرف چلنے سے رک جاتا ہے، وہ بے چینی اور خوف محسوس کرنے لگتا ہے‘۔ڈاکٹر رابرٹ کہتے ہیں کہ ’ہر شخص جانتا ہے کہ انسان کے اندر مشین لگی ہوتی ہے جو جراثیم کا خاتمہ کرتی رہتی ہے۔ ہر بچے میں بھی مدافعانہ مشین موجود ہے۔ اگر وہ صحت مند ہے تو اس کے جراثیم خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ 


چھوٹے بچے عام طور پر صفائی کو پسند نہیں کرتے ہیں لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ خود بخود چیزوں کو سمجھنے اور اپنے والدین کے بنائے ہوئے اصولوں پر چلنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ لیکن ماں اکثر ان کو اپنی فکر و تردد سے الجھن میں ڈال دیتی ہے۔ وہ ان کی اس حوالے سے بڑی نگہداشت کرتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جس چیز سے بچے کو بچاتی ہے وہ اسی کا شکار ہوجاتا ہے ‘ مٹی سے بچوں کا کھیلنا اپنے آپ کو مٹی میں چھپا لینا ان کے لیے کیوں بہت زیادہ ضروری ہے-آخر یہ مٹی کا کھیل کیا ہے؟۔ کیچڑ میں کھیلنا بچوں کا ایک دوسرے پر مٹی پھینکنا، بچے اسی طرح کیچڑ میں مختلف قسم کی سرگرمیوں میں شغل کرسکتے ہیں، جس میں ادھر ادھر بھاگنا اور  مٹی کو آرٹ یا تخیلاتی کھیل کے ذریعے استعمال کرنا شامل ہے۔


 مٹی سے کھیلنا ایک بنیادی  ضرورت ہے اور اس قسم کے کھیل کے بچوں کے لیے بہت سے جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی فوائد ہوتے ہیں۔ ۔۔ مٹی  بچوں کے  اندر خوشی کا احساس اجگر کرتی ہےجس سے بچوں میں بالیدگی کا عمل تیز ہوتا ہے ۔ نئی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ مٹی کے اندر   اللہ تعالیٰ نے  صحت مند بیکٹیریا رکھے ہیں جو خود بخود بچوں کے جسمانی نظام میں صحت مند خلیات فراہم کرتے ہیں اور ان کا مدافعتی نظام متحرک ہوتا ہے  -بچے سیکھنے کی خاطر ہر طرح کی چیزوں میں ہاتھ مار سکتے ہیں اسی لیے مٹی کے گھروندے بنانا اور پھر  ان کے اپنے ہاتھ دوبارہ بکھیر دینا بچوں کا بڑا دلچسپ مشغلہ ہوتا ہےاو رمٹی سے کھیلنا بچوں کے لیے  بہت ضروری ہے -ہمارے معاشرے کے بزرگ عموماً ایک بات کہا کرتے تھے کہ بچوں کو مٹی میں کھیلنے دیا جائے اس سے صحت اچھی ہوتی ہے ‘ لیکن بہت سے افراد  اس خیال کو رد کرتے  تھے  کیونکہ ان کے خیال میں یہ کوئی اچھا کام نہیں اور اس سے بچوں کو بیماریاں لگنے کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے۔  


پیر، 12 اگست، 2024

بنگلہ دیش میں اقتصادی انقلاب کے خالق -ڈاکٹر محمد یونس پارٹ 1

یہ مضمون  میں نے گوگل    سے لیا ہے  تلخیص میری جانب سے ہے -غربت کی نچلی سطح  میں گلے 'گلے تک ڈوبے بنگلہ دیش   میں   ن نے ایک  بڑے خواب دیکھنے والا ایک  بڑے انسان  پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس  نے جب  اپنا علمی اور شعوری  قد کاٹھ نکالا تو ان کو معلوم ہوا کہ ان کے وطن پر  سرمایہ داری کے خونیں عقاب نے قوم کی شہ رگ  پر اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں ۔اور وہ  اپنے مقابل  بڑے قد کاٹھ کے   سیاسی اکھاڑے میں  اتر گئے  اور کچھ ہی عرصے کے بعد  ان کو معلوم ہوا  کہ سیاست کا میدان ان کے لئے موزوں نہیں ہے اس لئے باقاعدہ  دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے اکھاڑے سے نکل گئے - ان کو معلوم نہیں تھا اللہ رحمٰن  ان سے کون سا بڑا  کام لینا چاہتا ہےانہوں نے بنگلہ دیش میں  دیہاتی حکومتیں قائم کیں اور  وہ انتہائی غریب لوگوں کو جو عام بنکاری نظام سے قرضہ لینے کے اہل نہیں تھے ان  کو چھوٹے قرضے دینے کے نظام   رائج کیا ۔   وہ گرامین بینک کے بانی بھی ہیں۔ 2006ء میں ان کو اور ان کے بنک کو مشترکہ طور پر غریب لوگوں کی بہتری کے لیے کام کرنے پر اور سماجی خدمات کے شعبہ میں نوبل انعام دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر یونس انفرادی طور پر بھی کئی بین الاقوامی اعزازات بشمول بین الاقوامی خوراک کا انعام (ورلڈ فوڈ پرائز World Food Prize) جیت چکے ہیں۔ وہ بینکر ٹو دی پوور (Banker to the Poor) کے مصنف اور گرامین بنک کے بانی بھی ہیں۔1971ء میں جب سقوط مشرقی پاکستان ہوا تو وہ ابھی امریکا ہی میں تھے۔ انھوں نے وہاں دیگر بنگالیوں کے ساتھ مل کر سٹیزن کمیٹی اور بنگلہ دیش انفارمیشن سنٹر قائم کیا۔


بنگلہ دیش کے قیام کے بعد محمد یونس وطن واپس آ گئے اور چٹاگانگ یونیورسٹی کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بن گئے۔ ان کے ساتھ انھوں نے اپنے معاشرے سے غربت کے خاتمے کی کوششیں شروع کر دیں۔انھوں نے ’’رورل اکنامک پروگرام‘ُ‘ شروع کیا۔ یہ ایک ریسرچ پراجیکٹ تھا۔اس کے نتیجے میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ملک سے غربت کے خاتمے کا ایک ہی راستہ ہے کہ پورے ملک میں دیہاتی حکومتیں قائم کر دی جائیں۔ انھوں نے اس حوالے سے ایک زوردار مہم چلائی۔ جنرل ضیاء الرحمن بر سر اقتدار آئے تو انھوں نے ملک کے 40 ہزار 3 سو 92 دیہاتوں میں حکومتیں قائم کر دیں۔1976ء میں انھیں خیال آیا کے چھوٹے چھوٹے قرضے دے کر غریب لوگوں کو مشکلات سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلا قرضہ اپنی جیب سے دیا جس کی مالیت 27 ڈالر بنتی تھی۔ اس رقم سے گائوں کی 42 خواتین نے مختلف چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کیے۔ بعد ازاں یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ اس سلسلے نے ملکی برآمدات درآمدات پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔غربت کے خاتمے کے لیے چھوٹے قرضے دینے کا آئیڈیا نیا نہیں تھا۔ اس کے سب سے پہلے خالق پاکستان اکیڈمی فار رورل ڈیویلپمنٹ کے بانی ڈاکٹر اختر حمید خان تھے۔ روایتی بینک اس آئیڈیا پر کام کرنے کو تیار نہیں تھے۔ ان کے اپنے تحفظات تھے تاہم محمد یونس کا کہنا تھا کہ غریبوں کو آسان اور چھوٹے قرضے دیے جائیں تو نہ صرف وہ بروقت واپس کریں گے بلکہ اس سے ان کی اور ملک کی معاشی حالت بھی بہتر ہوگی۔رامین بنک سی اثنا میں محمد یونس حکومت کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ دسمبر 1976ء میں انھیں اس حوالے سے ایک غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی جب سرکاری جنتا بنک نے انھیں قرض دینے کی ہامی بھرلی۔


 اس طرح انھوں نے ایک ادارہ قائم کر لیا جسے دوسرے بنکوں نے بھی قرضے فراہم کرنے شروع کر دیے۔ 1982ء میں اس دارے کے ممبرز کی تعداد 28 ہزار تھے۔ یکم اکتوبر، 1983ء کو یہ ادارہ باقاعدہ ایک بنک کی صورت اختیار کر گیا۔ اس کا نام ’’گرامین بنک‘‘ (دیہاتی بنک) رکھ دیا گیا۔ اس دوران محمد یونس کا سامنا بائیں بازو کے کٹر لوگوں سے بھی ہوا اور تنگ نظر مولویوں سے بھی مڈبھیڑ ہوئی جو کہتے تھے کہ وہ کسی ایسے فرد کا جنازہ نہیں پڑھائیں گے جو گرامین بنک سے قرضہ لے گا۔ ان مخالفتوں کے باوجود گرامین بنک کے حجم میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جولائی 2007ء کی رپورٹ کے مطابق یہ بنک 74 لاکھ لوگوں کو 6 اعشاریہ 38 ارب ڈالر کا قرضہ جاری کرچکا تھا۔80 کی دہائی کے اواخر میں بنک نے کچھ نئے پراجیکٹ شروع کیے یعنی مچھلیوں کے تالاب اور ٹیوب ویل لگانا شروع کیے۔ بعد ازاں ایگریکلچر فاؤنڈیشن کی صورت میں باقاعدہ مکمل ادارے بن گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دیگر کئی ادارے بھی قائم کر دیے گئے جن میں گرامین سافٹ وئیر لمیٹٹڈ گرامین سائبر لمیٹڈ، گرامین نیٹ وئیر، گرامین فون بنگلہ دیش کی سب سے بڑی نجی کمپنی ہے۔ گرامین بنک سے قرضہ حاصل کرنے والوں میں خواتین کی شرح 94 فی صد ہے۔ خواتین کو قرضے دینے میں اس لیے خوشی محسوس کی جاتی ہے کہ خواتین خاندانوں کی فلاح و بہبود کے لیے زیادہ مخلص ہوتی ہیں۔2006ء میں محمد یونس کو نوبل انعام دیا گیا۔ محمد یونس پہلے بنگلہ دیشی اور تیسرے بنگالی ہیں جنھوں نے یہ نوبل ایوارڈ حاصل کیا۔


 جب اس ایوارڈ کی خبر نشر ہوئی تو محمد یونس نے اس ایوارڈ سے ملنے والی رقم 14 لاکھ ڈالر میں سے ایک حصے سے ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا اعلان کیا جو غریبوں کے لیے انتہائی سستی اور اعلٰی معیار کی خوراک تیار کرے۔محمد یونس کو نوبل ایوارڈ دلانے کے لیے سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اہم کردار ادا کیا ۔کیلیفورنیا یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے بل کلنٹن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر یونس ایسے شخص ہیں جنہیں بہت پہلے نوبل انعام مل جانا چاہیے تھا۔ معروف مغربی جریدے اکانومسٹ نے محمد یونس کو ایوارڈ دینے کی مخالفت کی۔ اس کا لکھنا تھا کہ زیادہ بہتر ہوتا اگر نوبل ایوارڈ دینے والی کمیٹی یہ اعلان کر دیتی کہ اس انعام کا کوئی حقدار نہیں۔2006ء کے اوائل میں محمد یونس اور سول سوسائٹی کے دیگر لوگوں نے ایک مہم چلائی جس میں کہا گیا کہ آئندہ انتخابات میں صرف دیانت دار اور صاف ستھرے لوگوں کو ہی امیدوار ہونا چاہیے۔ اس سال کے اواخر میں انھوں نے سیاست میں آنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ 11 فروری، 2007ء کو محمد یونس نے عوام کے نام ایک کھلا خط لکھا جس میں کہا گیا کہ انھیں رائے دی جائے کہ وہ سیاست میں حصہ لے کر کیسے اچھی حکومت اور موزوں قیادت تیار کرنے کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 18 فروری، 2007ء کو انھوں نے ’’ناگرگ شکتی ‘‘ کے نام سے پارٹی قائم کر لی۔


 چھوٹے قرضے سے بڑی ترقی کا عظیم خیال دے کربنگلہ دیش کو گرامین بینک جیسے قوی الجثہ مائیکرو فنانس بینک کا تحفہ دینے والے نوبیل انعام یافتہ ماہر معیشت پروفیسر  محمد یونس کو 6 ماہ قید کی سزا سنادی گئی۔ڈھاکہ  کی لیبر کورٹ نے83 سالہ بینکار محمد یونس کو لیبر قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں سزا سنائی، ان پر الزام ہے کہ وہ اپنی کمپنی میں ورکرز ویلفیئر فنڈ بنانے میں ناکام رہے، محمد یونس اور ان کے تینوں ساتھیوں کو 25 ہزار ٹکا کا جرمانہ بھی کیا گیا۔محمد یونس اور ساتھیوں نے درخواست ضمانت دائرکی جو کہ منظور کرلی گئی، عدالت نے ان کو 5 ہزار ٹکا کے عوض ایک ماہ کی ضمانت دے دی۔ اس سزا کے خلاف محمد یونس نے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے، محمد یونس کے حامیوں نے سزا کو انتقامی نوعیت کا فیصلہ قرار دیا ہے،پروفیسر یونس کے وکلاکا کہنا ہے کہ انہیں لیبر قوانین کی خلاف ورزیوں اور مبینہ بدعنوانی کے 100 سے زائد دیگر الزامات کا سامنا ہے۔محمد یونس کے چھوٹے قرضوں کے زریعہ معیشت میں بڑی تبدیلی لانے کے تجربہ نے نہ صرف بنگلہ دیش کی مژمردہ معیشت کو چند سال میں ترقی کی راہ پر ڈال دیا بلکہ ان کے اس تجربہ نے دنیا میں غربت کے خاتمہ کی ساری سائنس کو ہی بدل ڈالا۔ محمد یونس کا بنایا ہوا گرامین بینک بڑھتے بڑھتے دنیا میں مائیکرو فنانس کے بہت بڑے بینک میں بدل گیا  اور  تقریباً کسی مالی ضمانت کے بغیر جاری کئے گئے چھوٹے  قرضوں سے فائدہ اٹھا کر بنگلہ دیش میں لاکھوں لوگ مہیب غربت کی دلدل سے باہر نکل آئے۔  محمد  یونس کے معیشت میں اس اہم تجربہ سے متاثر ہو کر جہاں بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور اقوامِ متحدہ نے غربت کے خاتمہ کی کوششوں اور حکمتِ عملیوں میں اہم تبدیلیاں کیں وہاں نوبیل کمیٹی نے بھی محمد یونس کو  2006 میں معیشت کا نوبیل پرائز دے دیا تھا۔ 


اتوار، 11 اگست، 2024

آج ایک وطن دیوانہ یاد آیا

 ۔قدرت اللہ شہاب، شہاب نامہ میں لکھتے ہیں، 'اکتوبر 1981 میں لندن میں وہاں کے ایک مشہور رسالے نیو اسٹیٹسمین (New Statesman) کا ایک شمارہ میری نظر سے گزرا۔ اس کے سرورق پر آغا حسن عابدی کی بڑے سائز کی رنگین تصویر چھپی تھی جس کے نیچے یہ کیپشن درج تھا: ہائی اسٹریٹ کا بینکر، جو حکومتیں خرید لیتا ہے۔'رسالے کے اندر بی سی سی آئی کے تعلق سے آغا حسن عابدی کے بارے میں چار صفحات کا طویل مضمون بھی درج تھا۔ مضمون کا فقرہ فقرہ حسد، رقابت، خوف اور نفرت کی بھٹی میں بجھا ہوا تھا، جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ صاحب مضمون کے مطابق بی سی سی آئی ایک ایسا بینک تھا جو خطرناک تیز رفتاری سے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل رہا تھا۔'قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں: 'بی سی سی آئی کی ترقی اور وسعت کی یہ تیز رفتاری انگلستان کے اونگھتے ہوئے سست رو، سرد مہر، بے حس اور سرخ فیتوں میں جکڑے ہوئے غیر مثالی بینکوں کے لیے ایک زبردست خطرے کا نشان بن گئی تھی۔'وہ مزید لکھتے ہیں: 'یہ مضمون پڑھ کر مجھے کرید لگ گئی کہ میں آغا صاحب سے مل کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کروں کہ ان کی ترقی کا اصل راز کیا ہے۔


انھوں نے شہاب نامہ میں آغا حسن عابدی سے ہونے والی ملاقات کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان کے مطابق ادارے کی انتظامیہ اور کارکنوں کے درمیان رشتہ ایسا تھا کہ ہر فرد خود کو ادارے کا فعال رکن تصور کرتا تھا۔ادارے کے زیر انتظام نہ صرف متعدد فلاحی ادارے کام کر رہے تھے بلکہ ادارہ کے ہر کارکن کو ہر برس پورے سال کی تنخواہ کی ڈھائی سے ساڑھے تین فیصد تک اضافی رقم بھی اس شرط پر ادا کی جاتی تھی کہ وہ اسے اپنی ذات پر خرچ نہیں کرے گا بلکہ دوسروں کے کام میں لائے گا۔تاہم کوئی ملازم اس شرط کو کس حد تک پورا کرتا ہے، اس کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی تھیں۔ یہ معاملہ ہر شخص کے اپنے ضمیر اور اعتماد پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ادارہ دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا مگر پھر اس کی یہی ترقی اور فلاحی کام بین الاقوامی اداروں کی نظر میں کھٹکنے لگے۔کمیں مالیاتی شعبے کے حوالے سے جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں ایک ہی نمایاں ترین نام ہوگا اور وہ نام ہے آغا حسن عابدی کا۔ آغا صاحب نے دو بڑے بینکوں کی بنیاد رکھی اور دونوں کو کامیابی کے عروج تک پہنچایا۔ ایک بینک کی کامیابی کو اچھی قسمت کا نام دیا جاسکتا ہے لیکن جب اس بینک کو قومیا لیا گیا تو ایک دوسرے بینک BCCI کی بنیاد رکھی اور اس کو نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی زبردست کامیابی نصیب ہوئی۔


آغا حسن عابدی 14؍مئی 1922ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم لکھنؤ میں ہی حاصل کی اور لٹریچر میں ماسٹرز کیا۔ ماسٹرز کرنے کے بعد انہوں نے بینکنگ کے شعبے میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور حبیب بینک بمبئی میں شمولیت اختیار کرلی،ان کی محنت اور ذہانت کے باعث اس بینک نےنمایاں مقام حاصل کرلیا، پاکستان بننے کے بعد بھی اس بینک سے ہی منسلک رہے۔ 1957ء میں انتظامیہ سے کچھ اصولی اختلاف پر حبیب بینک چھوڑ دیا اور اپنا ایک بینک قائم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے اور یوں 1959ء میں یونائیٹڈ بینک کے نام سے ایک بینک قائم کیا جس نے ایک مختصر عرصے میں نمایاں مقام حاصل کرلیاجس کی 600سے زائد شاخیں ملک بھر میں اور ایک درجن سے زائد بین الاقوامی سطح پر کام کرنے لگیں جو بعدمیں دوسرا بڑا بینک بن گیا۔آغا حسن عابدی ایک دوراندیش اور اپنے شعبے کے ماہر تھے۔ انہوں نے پاکستان میں بینکوں کے قومی تحویل میں لئے جانے سے پہلے ہی ایک بین الاقوامی بینک کھولنے کی منصوبہ بندی کرلی تھی اور لکسمبرگ میں اس کا ہیڈ کوارٹر قائم کرلیا تھا1974ء میں جب بینکوں کو قومی تحویل میں لیا گیا تو انہوں نے اپنی تمام تر توجہ اس بین الاقوامی بینک پر مرکوز کردی اور اس کا نام BCCI رکھا۔ اس بینک کو آغا صاحب نے ایک بڑا بینک بنانے کیلئے انتھک محنت کی اور بہترین افراد کو اپنے ادارے میں جمع کیا۔


 اس بینک نے اتنی تیزی سے ترقی کی کہ 15؍سال کے عرصے میں یہ بینک نجی شعبے میں قائم دنیا بھر کے بینکوں میں 7؍ویں نمبر پر پہنچ گیا۔آغا صاحب نے 70ء کی دہائی میں تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو بطور ٹرینی آفیسر بھرتی کیا جو آج بھی ملک کے مختلف بینکوں میں اعلیٰ عہدوں پر کام کررہے ہیں۔وہ ایک خوشگوار اور طلسماتی شخصیت کے مالک،ایک خوش اخلاق اور انسان دوست شخص تھے، اپنے اداروں میں کام کرنے والوںسے عزت سے پیش آتے تھے خواہ وہ کسی بھی عہدے پر فائز ہو۔ ان کا رویہ ایک اعلیٰ ترین شخصیت سے لے کر تمام ورکرز تک یکساں ہوتا تھااور ایک وضعدار شخصیت تھے۔ گو کہ عابدی صاحب کا تعلق مالیاتی شعبے سے تھا لیکن ان کو زندگی کے مختلف شعبوں کو درپیش مسائل کا بھی ادراک تھا اس لئے وہ ان شعبوں کو درپیش مسائل کے حل میں خصوصی توجہ دیتے تھے ۔


 وہ ایک بہترین منتظم تھے اور لوگوں کے ساتھ اصولوں کی بنیاد پر تعلقات استوار رکھتے تھے۔ وہ انکساری اور ہمدردی کا ایک پیکر تھے۔ وہ انتظامی امور پر بات چیت کے ساتھ ساتھ شیکسپیئر، غالب، خلیل جبران کے اقوال کا اپنی گفتگو کے دوران ذکر کرتے تھے۔وہ دنیا کے دیگر کامیاب لوگوں کی طرح ایک انتہائی محنتی شخص تھے۔ بہت کام کرتے تھے لیکن چہرے پر تھکن کے آثار نہ ہوتے بلکہ ہر وقت تروتازہ اور مسکراہٹ کے ساتھ لوگوں سے ملاقات کرتے۔عابدی صاحب بے شمار خصوصیات کے حامل شخص تھے۔ ان کی ذات مالیاتی شعبے کیلئے ہی نہیں بلکہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے شخص کیلئے مشعل راہ ہے۔ ان کا اپنے دور کے بڑے لوگوں سے بھی قریبی تعلق تھا جن میں میخائل گوربا چوف، جمی کارٹر، ڈینگ زیایونگ، اندرا گاندھی اور رابرٹ موگابے جیسی شخصیات شامل تھیں۔ عابدی صاحب کا دل پاکستان کیلئے دھڑکتا تھا۔ جب بھی پاکستان کو زرمبادلہ کی ضرورت ہوتی، وہ ہمیشہ پیش پیش ہوتے۔انہوں نے بینک افسران کی ایک کھیپ تیار کی جو دنیا کے 73؍ممالک میں ان کے بینک کیلئے کام کرتے تھے اور افسران ان 73؍ممالک میں پاکستان کے سفیر ہوتے تھے۔عابدی صاحب نے پاکستان میں اتفاق فائونڈیشن جیسا ادارہ قائم کیا جو آج بھی صحت اور تعلیم کے شعبے میں فلاحی کام کررہا ہے۔انہوں نے غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ (GIKI) اور NUST جیسے اداروں کے قیام میں بھرپور حصہ لیا۔ آغا حسن عابدی کا نام ایک عہد ساز شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔


کشمیر میں موئے مبارک کی مقدس آماجگاہ-حضرت بل درگاہ

 

   غلام نبی  گوہر ایک تاریخ نگار لکھتے ہیں: جن دنوں کشمیر پر افغان حکومت تھی۔ افغان حکمرانوں نے سرینگر کے مغرب میں جھیل ڈل کے کنارے سرسبز زمین کا وسیع رقبہ پر نئی درگاہ کی تعمیر کے لیے وقف کر دیا اور وہاں درگاہ تعمیر کی گئی جہاں موئے  مبارک کو دیدار عام کے لئے  منتقل کیا گیا۔کہا  جاتا ہے کہ مغل بادشاہ  شاہجہاں 1044 ھجری مطابق 1634 عیسوی میں کشمیر سیر کے لئے آیا تو ایک مصاحب صادق خان بھی بادشاہ کے ساتھ تھا بادشاہ نے اس باغ کی ایک عمارت میں نماز ادا کی اور کہا جاتا ہے کہ صادق خان سے کہا کہ یہ مکان عیش و آرام کے لئے نہیں بلکہ عبادتِ خدا کے لئے زیادہ موزوں ہے.بادشاہ کی یہ خواہش 1111 ھجری مطابق 1699 عیسوی میں پوری ہوئی جب اورنگزیب کے عہدِ حکومت میں یہاں پر موئے مقدّس حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم'لایا گیا.فاضل خان نے جو اُس وقت کشمیر کا صوبیدار تھا.اس موئے مقدّس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی باغِ صادق کی عمارت میں رکھا اور باغِ صادق آباد حضرت بل کے نام سے مشہور ہوا. اسی کے پاس ہی ایک اور شیعہ صوبیدار علی مردان خان نے تیل بل کے اوپر ایک باغ بنایا جس کے گرد پختہ دیوار تھی اس باغ کو نہر سیراب کرتی تھی اور باغ میں ایک حوض بھی تھا جو ہر وقت پانی سے لبریز ہوتا تھا اس باغ میں فوارے اور آبشار تھے چنار و بید مشک اور میوہ دار درخت لگائے گئے تھے اس میں ایسی عمارتیں تعمیر کی جو عجوبہ جیسی لگتی تھی اور یہ باغ حضرت امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے وقف کیا گیا تھا.اس کی آمدنی مشہد بھیجی جاتی تھی اس باغی کا نام علی آباد تھا کچھ آثار ابھی بھی موجود ہیں


..عزت و حشمت والے ایک صاحب سید عبداللہ روضہ مطہرہ کے متولی تھے جو اپنی بڑائی بزرگی,خود سری اور غرور کے موجب خلیفتہ المسلمین کے احکام کی تکمیل کا چنداں پروا نہ کرتے تھے اور حُکم عدولی کے لئے مدینہ منورہ سے جلا وطن ہونے کا فرمانِ شاہی اس کے حق میں صادر ہوا.مدینہ منورہ کے گورنر نے شاہی حکم کی تعمیل میں سید موصوف کو 1024 ھجری کے مہینوں میں ہندوستان جلا وطن کرکے اس کا مال و جائداد ضبط کیا.(حُکم عدولی کی وجہ غیر شرعی امور کی انجام دہی کے لیے دباؤ بھی کہا جاتا ہے جس کو سید موصوف خاطر میں نہیں لاتے تھے). حضرت سید عبداللہ نے مدینہ منورہ کو الوداع کہنے پر تین متبرک تحفے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوی مبارک کا ایک مویِ و دستارِ شریف اور حضرت علی علیہ السلام کے گھوڑے کا زین ساتھ اُٹھائے.ہندوستان پہنچنے پر مغل بادشاہ شاہ جہاں نے نہایت قدر دانی کی اور اور بیجا پور کی جاگیر مقرر کی.کچھ مدت گزرنے کے بعد سید موصوف کی وفات ہوئی.بعد میں عالمگیر نے حضرت سید کے بیٹوں کو داراشکوہ کی طرفداری کے الزام میں جاگیر ضبط کی. اس لئے گُزارہ کے لئے عاجز ہوگئے اور کشمیر کے ایک بڑے تاجر کوٹھیدار خواجہ نورالدین ایشہ بری سے جن کی کوٹھی اُردو بازار میں تھی اخراجات کے لیے ایک بھاری رقم اُدھار لی.بہت مدت کے بعد عالمگیر نے جائداد واگُزار کی.


لیکن اس مدت میں ان کو قرضہ ادا کرنے کی سکّت باقی نہیں رہی تھی اور مجبوری کے حالت میں انہوں نے خواجہ نور الدین کے ساتھ موئ مقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میدانش غلام کی مجاوری میں موئ مبارک تھا قرضہ کے عوض ہبہ کرنے کا فیصلہ کیا.خواجہ نورالدین نے اس فیصلے کو سعادت دارین خیال کرکے قرضہ دے دست برداری دیکر فارغ خطی لکھ کر دی اور موئ مبارک حاصل کیا سفر کا سامان باندھ کر کشمیر روانہ ہوا مگر عالمگیر کے جاسوسوں نے واقعہ کی خبر بادشاہ کو دے دی. بادشاہ نے حکم دیا کہ جہاں بھی موئ شریف ہو واپس لاکر میں دیدار کرنا چاہتا ہوں.خواجہ نورالدین جب لاہور پہنچا تو وہی گرفتار ہوا. موئ شریف اور میدانش غلام اس سے کے بادشاہ کو دیدار کے لئے روانہ کیا گیا.بادشاہ نے زیارت کرکے کہا کہ موئ شریف کو خواجہ معین الدین چشتی رح کی خانقاہ میں رکھا جائے اجمیر شریف میں موئ مبارک کو نو دن ہی گُزرے تھے کہ بقول بادشاہ کہ میں نے خواب میں پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور حکم دیا کہ میرا موئےمبارک  جو اجمیر میں ہے کشمیر بھیجدیا جائے 


اس کے بعد موئے مبارک  معہ میدانش غلام کو لاہور روانہ کیا گیا جہاں پر خواجہ نورالدین تپ دق سے وفات پاچُکے تھے میدانش خواجہ نورالدین کی نعش لے کر کشمیر کی طرف بڑھے.زیارت کے استقبال کے لئے ہیرہ پورہ عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک بڑی جماعت حضرت شیخ محمد رادھو کی پیشوائی میں گئے.شہر پہنچ کر موئےمبارک کو درگاہ عالیہ خواجہ معین الدین نقشبندی میں رکھا گیا   -حضرت بل  درگا ہ  شہر کے مرکز سے 10 کلومیٹر دور ہے ۔ اس علاقے میں ابتدائی آبادیاں ڈل جھیل کے کنارے آباد تھیں  اس علاقے کی زیادہ تر آبادی ہنگی (ماہی گیر) کی ہے۔ یہ علاقہ حضرت بل کے مزار کی تعمیر کے بعد مشہور ہوا جہاں ہر سال لاکھوں لوگ زیارت موئےمبارک کے لئے آتے ہیں اردو میں لفظ حضرت احترا م کی طرف مشیر ہے جبکہ بل کے معنی مقام کے ہیں۔ لہٰذا لفظ حضرت بل کا مطلب ہے وہ جگہ جو لوگوں میں بہت محترم ہے۔ ڈل جھیل اور اس کے آس پاس کی گھریلو کشتیوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ علاقہ شہر کا مشہور سیاحتی مقام بن گیا ہے ۔  شروع میں موئے مبارک کو سرینگر میں خانقاہ نقشبندیہ میں عام لوگوں کی زیارت کیلئے رکھا گیا لیکن خانقاہ میں زیادہ لوگوں کیلئے جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مغل بادشاہ، فاضل خان کے حکم اور لوگوں کے اصرا پر موئے مبارک کو باغ صادق‌آباد منتقل کیا گیا اور اس باغ کی عمارت کو موئے مبارک کی زیارتگاہ کے عنوان سے وقف کیا گیا یوں یہ عمارت "حضرت بال" کے نام سے مشہور ہو گئی۔

 پہلے یہ عمارت جو صادق آباد کے نام سے مشہور تھی پہلی بار 1033ھ میں بنائی گئی جو مغلوں اور کشمیری  طرز تعمیر کا نمونہ تھا-جب اس میں موئے مبارک کو لایا گیا تو اس کی مزید توسیع کی گئی اور اس کے مغرب میں مسجد اور مشرق میں ایک بڑی خانقاہ بنائی گئی۔    موجودہ عمارت مکمل طور پر سفید سنگ مرمر سے مسجد نبوی کے طرز پر بنائی گئی ہے۔ اس واقعہ سے متاثر ہو کر شہر کے امراء و عالموں اور مشائخ نے فاضل خان صوبیدار کشمیر سے مشورہ کرکے باغِ صادق آباد کو جو ڈل کے کنارے واقع تھا وسعت اور نزہت کے موجب بہترین مقام جان کر موئے  مبارک کو وہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا بادشاہ عالمگیر نے تین گاؤں گزارہ کے لئے دیئے.مرزا قلندر بیگ نے موئے  مبارک کشمیر پہنچنے کا یہ تاریخی قطعہ لکھا ہے.مرتے دم تک حضرت شیخ محمد رادھو موئے مبارک کی زیارت کراتے رہے اور اس کے بعد خواجہ نورالدین ایشہ بری کے داماد خواجہ بلاقی بانڈے کو یہ مبارک کام تفویض کردیا.اور یہ روایت جاری ہے اور یہ خاندان باری باری اس کام کی زیارت کراتے ہیں.

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر