غلام نبی گوہر ایک تاریخ نگار لکھتے ہیں: جن دنوں کشمیر پر افغان حکومت تھی۔ افغان حکمرانوں نے سرینگر کے مغرب میں جھیل ڈل کے کنارے سرسبز زمین کا وسیع رقبہ پر نئی درگاہ کی تعمیر کے لیے وقف کر دیا اور وہاں درگاہ تعمیر کی گئی جہاں موئے مبارک کو دیدار عام کے لئے منتقل کیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ شاہجہاں 1044 ھجری مطابق 1634 عیسوی میں کشمیر سیر کے لئے آیا تو ایک مصاحب صادق خان بھی بادشاہ کے ساتھ تھا بادشاہ نے اس باغ کی ایک عمارت میں نماز ادا کی اور کہا جاتا ہے کہ صادق خان سے کہا کہ یہ مکان عیش و آرام کے لئے نہیں بلکہ عبادتِ خدا کے لئے زیادہ موزوں ہے.بادشاہ کی یہ خواہش 1111 ھجری مطابق 1699 عیسوی میں پوری ہوئی جب اورنگزیب کے عہدِ حکومت میں یہاں پر موئے مقدّس حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم'لایا گیا.فاضل خان نے جو اُس وقت کشمیر کا صوبیدار تھا.اس موئے مقدّس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی باغِ صادق کی عمارت میں رکھا اور باغِ صادق آباد حضرت بل کے نام سے مشہور ہوا. اسی کے پاس ہی ایک اور شیعہ صوبیدار علی مردان خان نے تیل بل کے اوپر ایک باغ بنایا جس کے گرد پختہ دیوار تھی اس باغ کو نہر سیراب کرتی تھی اور باغ میں ایک حوض بھی تھا جو ہر وقت پانی سے لبریز ہوتا تھا اس باغ میں فوارے اور آبشار تھے چنار و بید مشک اور میوہ دار درخت لگائے گئے تھے اس میں ایسی عمارتیں تعمیر کی جو عجوبہ جیسی لگتی تھی اور یہ باغ حضرت امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے وقف کیا گیا تھا.اس کی آمدنی مشہد بھیجی جاتی تھی اس باغی کا نام علی آباد تھا کچھ آثار ابھی بھی موجود ہیں
..عزت و حشمت والے ایک صاحب سید عبداللہ روضہ مطہرہ کے متولی تھے جو اپنی بڑائی بزرگی,خود سری اور غرور کے موجب خلیفتہ المسلمین کے احکام کی تکمیل کا چنداں پروا نہ کرتے تھے اور حُکم عدولی کے لئے مدینہ منورہ سے جلا وطن ہونے کا فرمانِ شاہی اس کے حق میں صادر ہوا.مدینہ منورہ کے گورنر نے شاہی حکم کی تعمیل میں سید موصوف کو 1024 ھجری کے مہینوں میں ہندوستان جلا وطن کرکے اس کا مال و جائداد ضبط کیا.(حُکم عدولی کی وجہ غیر شرعی امور کی انجام دہی کے لیے دباؤ بھی کہا جاتا ہے جس کو سید موصوف خاطر میں نہیں لاتے تھے). حضرت سید عبداللہ نے مدینہ منورہ کو الوداع کہنے پر تین متبرک تحفے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوی مبارک کا ایک مویِ و دستارِ شریف اور حضرت علی علیہ السلام کے گھوڑے کا زین ساتھ اُٹھائے.ہندوستان پہنچنے پر مغل بادشاہ شاہ جہاں نے نہایت قدر دانی کی اور اور بیجا پور کی جاگیر مقرر کی.کچھ مدت گزرنے کے بعد سید موصوف کی وفات ہوئی.بعد میں عالمگیر نے حضرت سید کے بیٹوں کو داراشکوہ کی طرفداری کے الزام میں جاگیر ضبط کی. اس لئے گُزارہ کے لئے عاجز ہوگئے اور کشمیر کے ایک بڑے تاجر کوٹھیدار خواجہ نورالدین ایشہ بری سے جن کی کوٹھی اُردو بازار میں تھی اخراجات کے لیے ایک بھاری رقم اُدھار لی.بہت مدت کے بعد عالمگیر نے جائداد واگُزار کی.
لیکن اس مدت میں ان کو قرضہ ادا کرنے کی سکّت باقی نہیں رہی تھی اور مجبوری کے حالت میں انہوں نے خواجہ نور الدین کے ساتھ موئ مقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میدانش غلام کی مجاوری میں موئ مبارک تھا قرضہ کے عوض ہبہ کرنے کا فیصلہ کیا.خواجہ نورالدین نے اس فیصلے کو سعادت دارین خیال کرکے قرضہ دے دست برداری دیکر فارغ خطی لکھ کر دی اور موئ مبارک حاصل کیا سفر کا سامان باندھ کر کشمیر روانہ ہوا مگر عالمگیر کے جاسوسوں نے واقعہ کی خبر بادشاہ کو دے دی. بادشاہ نے حکم دیا کہ جہاں بھی موئ شریف ہو واپس لاکر میں دیدار کرنا چاہتا ہوں.خواجہ نورالدین جب لاہور پہنچا تو وہی گرفتار ہوا. موئ شریف اور میدانش غلام اس سے کے بادشاہ کو دیدار کے لئے روانہ کیا گیا.بادشاہ نے زیارت کرکے کہا کہ موئ شریف کو خواجہ معین الدین چشتی رح کی خانقاہ میں رکھا جائے اجمیر شریف میں موئ مبارک کو نو دن ہی گُزرے تھے کہ بقول بادشاہ کہ میں نے خواب میں پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور حکم دیا کہ میرا موئےمبارک جو اجمیر میں ہے کشمیر بھیجدیا جائے
اس کے بعد موئے مبارک معہ میدانش غلام کو لاہور روانہ کیا گیا جہاں پر خواجہ نورالدین تپ دق سے وفات پاچُکے تھے میدانش خواجہ نورالدین کی نعش لے کر کشمیر کی طرف بڑھے.زیارت کے استقبال کے لئے ہیرہ پورہ عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک بڑی جماعت حضرت شیخ محمد رادھو کی پیشوائی میں گئے.شہر پہنچ کر موئےمبارک کو درگاہ عالیہ خواجہ معین الدین نقشبندی میں رکھا گیا -حضرت بل درگا ہ شہر کے مرکز سے 10 کلومیٹر دور ہے ۔ اس علاقے میں ابتدائی آبادیاں ڈل جھیل کے کنارے آباد تھیں اس علاقے کی زیادہ تر آبادی ہنگی (ماہی گیر) کی ہے۔ یہ علاقہ حضرت بل کے مزار کی تعمیر کے بعد مشہور ہوا جہاں ہر سال لاکھوں لوگ زیارت موئےمبارک کے لئے آتے ہیں اردو میں لفظ حضرت احترا م کی طرف مشیر ہے جبکہ بل کے معنی مقام کے ہیں۔ لہٰذا لفظ حضرت بل کا مطلب ہے وہ جگہ جو لوگوں میں بہت محترم ہے۔ ڈل جھیل اور اس کے آس پاس کی گھریلو کشتیوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ علاقہ شہر کا مشہور سیاحتی مقام بن گیا ہے ۔ شروع میں موئے مبارک کو سرینگر میں خانقاہ نقشبندیہ میں عام لوگوں کی زیارت کیلئے رکھا گیا لیکن خانقاہ میں زیادہ لوگوں کیلئے جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مغل بادشاہ، فاضل خان کے حکم اور لوگوں کے اصرا پر موئے مبارک کو باغ صادقآباد منتقل کیا گیا اور اس باغ کی عمارت کو موئے مبارک کی زیارتگاہ کے عنوان سے وقف کیا گیا یوں یہ عمارت "حضرت بال" کے نام سے مشہور ہو گئی۔
پہلے یہ عمارت جو صادق آباد کے نام سے مشہور تھی پہلی بار 1033ھ میں بنائی گئی جو مغلوں اور کشمیری طرز تعمیر کا نمونہ تھا-جب اس میں موئے مبارک کو لایا گیا تو اس کی مزید توسیع کی گئی اور اس کے مغرب میں مسجد اور مشرق میں ایک بڑی خانقاہ بنائی گئی۔ موجودہ عمارت مکمل طور پر سفید سنگ مرمر سے مسجد نبوی کے طرز پر بنائی گئی ہے۔ اس واقعہ سے متاثر ہو کر شہر کے امراء و عالموں اور مشائخ نے فاضل خان صوبیدار کشمیر سے مشورہ کرکے باغِ صادق آباد کو جو ڈل کے کنارے واقع تھا وسعت اور نزہت کے موجب بہترین مقام جان کر موئے مبارک کو وہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا بادشاہ عالمگیر نے تین گاؤں گزارہ کے لئے دیئے.مرزا قلندر بیگ نے موئے مبارک کشمیر پہنچنے کا یہ تاریخی قطعہ لکھا ہے.مرتے دم تک حضرت شیخ محمد رادھو موئے مبارک کی زیارت کراتے رہے اور اس کے بعد خواجہ نورالدین ایشہ بری کے داماد خواجہ بلاقی بانڈے کو یہ مبارک کام تفویض کردیا.اور یہ روایت جاری ہے اور یہ خاندان باری باری اس کام کی زیارت کراتے ہیں.
موئے مبارک اور حضرت بال کی زیارت پر آنے والے لوگ یہاں پر اپنی حاجتیں(بیماروں کی شفایابی، بچہدار ہونا، طول عمر اور قدرتی آفات سے محفوظ رہنا) طلب کرتے ہیں اور ان حوائچ کی برآوری کیلئے نذر و نیاز کا اہتمام بھی کرتے ہیں
جواب دیںحذف کریں