جمعہ، 9 مئی، 2025

حضرت بایزید بسطامی رح اور راہب اعظم

 


 

حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ  اللہ تعالٰی  کے ایک نیک اور حق پرست مسلمان گزرے ہیں ،وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن سفر کرتے ہوئے جبکہ تنہائی بھی میری رفیق سفر بھی تھی استغراق اورغنودگی کے عالم میں چلا گیا ،ایسے میں میرے قلب پر الہام ہوا کہ ائےبا یزید درّ سمعان کی جانب چلے جاؤ اورعیسائیوں کے ساتھ انکی عید اور قربانی میں شریک ہو ، اس وقت وہاں تمھاری شرکت سے ایک شاندار واقعہ ظہور پزیر ہو گا ۔حضرت بایزید فرماتے ہیں کہ میں نے فوراً اپنے آپ کو ہوشیار کیا اور لا حول پڑھ کر اپنے آپ سے کہا کہ میں اب ایسا شیطانی وسوسہ اپنے دل میں نہیں آ نے دوں گا لیکن رات کو پھر مجھے الہامی آواز نے متنبہ کیا اور وہی کچھ دہرایا جو دن میں میرے عالم استغراق میں کہا گیا تھا اس آواز کے سننے کے بعد میرے بدن پر کپکپی طاری ہو گئ اور اور پھر میں نے بار بار اپنے دل سے پوچھا کہ اس حکم کی تعمیل کروں یا ناکروں میرے اس طرح سوچنے سے مجھے منجانب پروردگارعالم ایک ڈھارس سی بندھی اور ساتھ  یہ بھی الہام ہوا کہ مین راہبوں کے لباس و زنّار کے ساتھ شرکت کروں ۔


 چنانچہ میں نے عیسا ئیوں کی عید کے دن بحکم ربّ العالیمن راہبانہ لباس زیب تن کیا ساتھ ہی زنّار بھی پیوسطہ ء لباس کی اور انکی عید منانے کے مقدّس مذہبی مقام پر  پہنچ گیاوہ تمام اپنی عید کا دن  ہونے کی مناسبت سے اپنی مقدّس محفل سجائے ہوئے بیٹھے تھے ،ان راہبوں میں دنیا کے مختلف ملکوں اور جگہوں کے راہب بھی تھے اور یہ سب کے سب اب راہب اعظم کے منتظر تھے ،میں چونکہ راہبانہ لباس زیب تن کئے ہوئے تھا اس لئے مجھے کوئی بھی ایک علیحدہ شخصیت کے روپ میں پہچاننے سے قاصر تھا اب میں  بھی انہی کی محفل عید کا ہی حصّہ شمار ہو رہا تھا ،لوگ بہت مودّبانہ لیکن مدّھم آواز میں ایک دوسرے سے ہمکلام تھے اور پھر راہب اعظم کی آمد ہوئ اور تمام لوگ حدّ ادب سے بلکل خاموش ہو گئے،راہب اعظم  نے ممبرپر جاکر جونہی  بولنے کا ارادہ کیا ممبر ویسے ہی لرزنے لگا اورراہب کی قوّت گویائ سلب ہو گئی۔


راہب اعظم کو سننے کے لئے آئے ہوئے تمام راہب ,راہب اعظم کی کیفیت کی جانب متوجّہ ہوئے اور ایک راہب نے کہا اے ہمارے مقدّس اور  بزرگ پیشوا ہم تو بڑی دیر سے آپ کے حکیمانہ ارشادات سننے کے متمنّی ہیں اور آ پ خاموش ہو گئے ہیں تب جوا ب میں راہب اعظم کی قوّت گویائی واپس ہوئی اور اس نے کہا تمھارے درمیاں ایک محمّدی شخص تمھارے دین کی آزمائش کے لئے آ کر شامل ہوا ہئے  راہب اعظم کے اس انکشاف سے تمام راہب طیش میں آگئے اور انہوں نے راہب اعظم سے کہا کہ ائے ہمارے محترم پیشوا ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم اس کو قتل کر ڈالیں ،راہبوں کی بات سن کر راہب اعظم نے کہا نہیں ! دین عیسوی میں یہ بات جائز نہیں ہئے کہ کسی شخص کو بغیر کسی دلیل و حکائت کے قتل کر دیا جائے تم لوگ زرا توقّف کرو میں اس شخص کی خود آزمائش کر نا چاہتا ہون اگر وہ شخص میری آزما ئش میں ناکام ہوجا ئے تو یقیناً تم لوگ اسے قتل کر دینا ،


راہب اعظم کی بات کے جواب میں تمام راہبو ں نے کہا اے ہمارے معزّز پیشوا ہم تو آپ کے ماتحت ہیں آپ جیسا کہیں گے ہم ویسا ہی کریں گے اور پھر وہ سب خاموش ہو کر راہب اعظم کے ا گلے اقدام کی جانب متو جّہ ہو گئے اس کے بعد راہب اعظم نے سر ممبر کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا اے محمّدی تجھے قسم ہئے محمّد (صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم )کی کہ تو جہاں ہئے وہیں کھڑا ہو جا ،راہب اعظم کی قسم کے جواب میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالٰی کے نام  کی تسبیح وتہلیل کرتے ہوئے اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے اور راہب اعظم نے کہا اے محمّدی تم نے ہماری محفل میں شرکت کر کے ہمارے دین کو آزمانا چاہا ہئے اب میں تم کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے میرے علم الادیان کے سوالوں کے جواب بطور آزمائش صحیح، صحیح دے دیئے تو تمھاری جان بخش دی جائے گی ورنہ تو تم واجب القتل ہی ہو گے۔ حضرت بایزید بسطامی نے تحمّل کے ساتھ جواب دیا اے محترم راہب اعظم آ پ سوال کیجئے۔۔تب راہب اعظم نے بایزید سے پہلا سوال کیا 

راہب اعظم :وہ ایک بتاؤ جس کا کوئ دوسرا نا ہو 

بایزید :وہ عرش اعظم کا مکین پروردگار

 عالم ہئے جس کا کوئ شریک نہیں جو واحدو جبّار و قہّار ہئے 

راہب اعظم :وہ دو بتاؤ جس کاکوئ تیسرا نہیں ہئے 

 با یزید :وہ رات اور دن ہیں سورہ بنی اسرائیل آئت نمبراکّیس  میں ہئے 

راہب اعظم :وہ تین بتاؤ جن کا کوئ چو تھا ناہو

با یزید :وہ عرش ،و کرسی اور قلم ہیں 

راہب اعظم: وہ چار بتاؤ جن کا پانچواں نا ہو

با یزید :وہ چار آسمانی کتب عالیہ ہیں جن کے نام زبور،تورات انجیل اور قران مجید ہیں 

راہب اعظم : وہ پانچ بتاؤ جن کا چھٹا نا ہو

بایزید :وہ پانچ وقت کی فرض نما زیں ہیں 

راہب اعظم :وہ چھ بتاؤ جن کا ساتواں ناہوبایزید: وہ چھ دن ہیں جن میں پروردگارعالم نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا سورہ ق آئت نمبر 38 کا حوالہ دے کر جوابدیا  

   اور ہم ہی نے یقیناًسارے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہئے چھ د ن میں پیدا کئے )

راہب اعظم : وہ سات بتاؤ جن کا آٹھواں نا ہوبایزید : وہ سات آسمان ہیں سورہ ملک کی آئت نمبر تین  کا حوالہ دیا (جس نے سات آسمان تلے اوپر بنا ڈالے

 راہب اعظم : وہ آٹھ بتاؤ جن کا نواں نا ہو 

بایزید :وہ آٹھ فرشتے ہیں جو عرش اعظم کو اٹھائے ہوئے ہیں سورہ حاقّہ آئت (17  اور تمھارے پروردگار کےعرش کو اس دن آٹھ فرشتے اپنے سروں پر اٹھائے ہوں گے)

  راہب اعظم :وہ نو بتاؤ جن کا دسواں ناہو بایزید :وہ بنی اسرائیل کے نو فسادی اشخاص تھے 

  اور شہر میں نو آدمی تھے جو ملک میں بانئ فساد تھے اور اصلاح کی فکر نا کرتے تھے ) سورہ نمل آئت نمبر8 4 کی گوا ہی ہئے

 راہب اعظم: وہ دس بتاؤ جن کا گیارھواں نا ہو بایزید :یہ دس روزے اس متمتّع پر فرض کئے گئے جس میں قربانی کرنے کی سکت ناہو راہب اعظم: وہ گیارہ جن کا بارھواں ناہو بایزید :وہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی تھے سورہ یوسف آئت نمبر 4 کا حو الہ دیا

جاری ہے

بدھ، 7 مئی، 2025

بورے والا ٹیکسٹائل مل -جو مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گئ

 قیام پاکستان کے  ساتھ ہی   حکومت   پاکستان نے  ملک میں صنعتی زون بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے  پاکستان انڈسٹریل بورڈ تشکیل دیا گیا۔ اسی ادارے نے بورے والا ٹیکسٹائل مل کی  بنیاد رکھی اور پھر کراچی کی  میمن برادری  کی  ایک مشہور کاروباری   شخصیت   سیٹھ داؤ د نے اس کا انتظام و انصرام سنبھال کر  اس کی حیثیت کو   عروج دیا   -سیٹھ داؤد چاہتے تھے  اس مل   سے   نہ صرف مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع میسر آئیں بلکہ وہ ملکی ترقی میں بھی بھر پور کردار ادا کر سکے۔سیٹھ  داؤد  نے بوریوالا ٹیکسٹائل ملز پر شبانہ روز محنت کر کے  مل کو  صنعتی  زون کی  ایک روشن مثال بنا دیا تھا   ۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت ایشیا کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل مل تھی۔  اس کے نام  کو مختصر  کر کے   صرف تین الفابٹ

    B-T- Mمیں بہت بڑی جسامت میں مل کی بلند ترین عمارت کی ٹنکی پر نصب کیے گئے تھے،


جو دن کو تو اتنے نمایاں نہ ہوتے لیکن رات کو سرخ رنگ کی برقی روشنی میں نہا کر یہ دور دور تک لوگوں کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کیے رکھتے۔یہ سینکڑوں ایکڑ پر محیط ایک ایسا صنعتی منصوبہ تھا جو نہ صرف مدتوں ملک کی صنعتی ترقی میں ایک فعال کردار ادا کرتا رہا۔ بلکہ یہ مقامی آبادی کو روزگار مہیا کرنے کا بھی ذریعہ تھا۔ تقریباً چار ہزار کے قریب اس مل کے باقاعدہ ملازم تھے۔ جن میں اکثریت تو مقامی لوگوں کی تھی۔ لیکن کئی خاندان وطن عزیز کے دور دراز علاقوں سے آ کر اسی مل کے وسیلے سے یہاں پر مستقل طور پر قیام پذیر ہو گئے تھے۔اس دور میں جب کہ لوگوں کو ابھی روٹی کپڑا، مکان، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کے متعلق کوئی خاص آگاہی نہیں ہوا کرتی تھی۔ اس مل کے مالکان اپنے ملازمین کی یہ تمام بنیادی ضروریات بغیر کسی تشہیر کے پوری کر دیا کرتے تھے۔ ملازمین کی رہائش کے لیے چھوٹے چھوٹے کواٹرز اس طرح تعمیر کیے گئے تھے کہ ہر کوارٹر کا دروازہ ڈیڑھ دو ایکڑ رقبے پر مشتمل ایک پارک میں کھلتا تھا۔


 جہاں پر ان ملازمین کے بچے کھیل کود اور دوسری جسمانی سرگرمیوں میں مشغول رہتے اور مختلف اجتماعات کے لیے بھی انہی پارکس کو کام میں لایا جاتا۔اپنے ملازمین کے بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مل مالکان نے یہاں پر ہی ایک بوائزز ہائی سکول اور ایک گرلز ہائی سکول قائم کیا ہوا تھا۔ جہاں پر بچوں کو دسویں جماعت تک مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ اپنے ملازمین کی صحت سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہاں باقاعدہ طور پر ایک ہسپتال موجود تھا۔ جہاں ہمہ وقت دو ڈاکٹر اور بقیہ عملہ مل ملازمین کا علاج کرنے کے لیے موجود رہتا۔اس زمانے میں بورے والا شہر میں بھی غالباً دو ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوا کرتے تھے۔اس طرح بی ٹی ایم کے ملازمین کو صحت، تعلیم اور رہائش کی سہولتیں میسر ہوا کرتی تھیں۔ کپڑے کے سلسلے میں ہر مزدور کو سال میں 20 میٹر کپڑا انتہائی سستے داموں میں دستیاب ہوا کرتا تھا۔بی۔ ٹی۔ ایم اپنے استعمال میں آنے والے خام مال کپاس کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے علاقے بھر کے زمینداروں کی حوصلہ افزائی اور سہولت کاری بھی کیا کرتی تھی۔


یہاں پر موجود جیننگ فیکڑی کے دو افسران عزیز بھائی اور ادریس بھائی کمال کے لوگ تھے۔ آڑے وقت میں قرضوں کی شکل میں مقامی زمینداروں کی مدد کرنا اُن کا عام وتیرہ ہوا کرتا تھا۔ زمیندار کو کپاس کا ریٹ پورا دیا جاتا ادائیگی وقت پر کی جاتی۔ کچھ زمیندار گھرانے ایسے بھی تھے کہ جیسے جیسے اُن کی کپاس اترتی جاتی وہ اس کی قیمت کا تعین کیے بغیر ہی اُسے مل میں پہنچاتے جاتے اور آخر پر اس سیزن کے بلند ترین ریٹ کے مطابق اپنی مہیا کی گئی کپاس کی قیمت وصول کر لیتے۔یہ ایک بہت بڑی سہولت تھی۔ جو کپاس کے کاشت کاروں کو بی۔ ٹی۔ ایم کی بدولت میسر ہوا کرتی تھی۔ لین دین میں دیانت داری، شرافت اور شفافیت کے اصولوں کو کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ بعض لوگ ان کے ساتھ کھل کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ وہ دو چار سو بوری کھل خرید کر اس کی قیمت ادا کر دیا کرتے اور کھل وہاں سے اٹھانے کی بجائے گیٹ پاس کی صورت میں خرید شدہ کھل کی بوریوں کی تعداد کا اجازت نامہ صرف ایک کاغذ کے ٹکڑے کی شکل میں حاصل کر لیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد کھل مہنگی ہونے کی صورت میں وہ کھل اُن کو ہی فروخت کر کے اپنا منافع حاصل کر لیا کرتے۔ اس دوران انہیں کھل یہاں سے اٹھا کر کسی دوسری جگہ پر سٹور کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔


اس زمانے میں بورے والا میں اور بھی چھوٹی موٹی جیننگ فیکڑیاں موجود تھیں۔ بی۔ ٹی۔ ایم کی تقلید میں کھل کی خرید و فروخت کے لیے گیٹ پاس سسٹم کو وہ بھی استعمال میں لایا کرتی تھیں۔ لیکن وہاں پر بیوپاریوں کو اکثر و بیشتر اُن سے شکایات ہی رہا کرتی تھیں۔ کہیں پر اُن کے پیسے ہی مار لیے جاتے۔ کہیں پر ریٹ مارکیٹ کے مطابق نہ ملتا اور کہیں پر ادائیگی میں غیر معمولی تاخیر کر دی جایا کرتی تھی۔بی۔ ٹی۔ ایم میں کام کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے پورے دن کو آٹھ آٹھ گھنٹوں کی تین شفٹوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلی شفٹ صبح چھ بجے سے لے کر دو بجے تک دوسری دو سے دس تک اور نائٹ شفٹ رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک جاری رہا کرتی تھی۔ ہر شفٹ کے آغاز سے ایک گھنٹہ پہلے مل میں سائرن بجایا جاتا تھا۔ جسے اس زمانے میں سبھی لوگ سائرن کی بجائے گھگھو کہا کرتے تھے اور اس گھگھو کی آواز پورے شہر میں بآسانی سنائی دیا کرتی تھی۔ گویا کہ مل ملازمین کے لیے یہ گھگھو مل میں بلاوے کا اعلان ہوا کرتا تھا۔ آدھ گھنٹہ بعد ایک بار پھر یاد دہانی کے لیے گھگھو بجایا جاتا اور پھر اس کے آدھ گھنٹہ بعد گھگھو کے ذریعے شفٹ کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کیا جاتا۔


 اس کے علاوہ ماہِ رمضان میں روزے کی افطاری اور اختتام سحری کا اعلان بھی اسی گھگھو کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ جو اس وقت سب سے مستند اور درست ذریعہ مانا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ آٹھ سے چار بجے تک جنرل شفٹ ہوا کرتی تھی  ہر شفٹ کے آغاز سے آدھ گھنٹہ پہلے اور آدھ گھنٹہ بعد مل کو جانے والی سڑک پر سائیکل سوار مل مزدوروں کی آمد و رفت سے خوب چہل پہل رہتی۔ کچھ مزدور خاندان تو بی۔ ٹی۔ ایم کے کوارٹرز میں رہائش پذیر ہوا کرتے تھے لیکن بہت سے مزدور شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں سے بھی آیا کرتے تھے۔پہلی تاریخ کو جب لوگوں کو تنخواہ ملتی تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی اور اس کے مثبت اثرات شہر بھر کی دکانوں پر اُن کی سیل میں اضافے کی صورت میں نظر آیا کرتے تھے۔ یہیں پر ایک سوئمنگ پول اور ایک عدد بہت اچھے معیار کا کلب بھی موجود تھا۔ جہاں پر مل ملازمین اور اُن کے بچے اس سہولت سے مستفید ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں پر ایک معیاری ریسٹ ہاؤس بھی موجود تھا۔ جو بی۔ ٹی۔ ایم کے افسران کے مہمانوں کو ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ سرکار کے اعلیٰ افسران کے قیام کے لیے بھی استعمال میں لایا جایا کرتا تھا۔ اس موقع پر سیٹھ سلیمان اور اس کی جوان سال، خوش خصال، خوش شکل اور نیک دل اہلیہ کے ذکر کے بغیر یہ کہانی ادھوری رہے گی۔


احمد داؤد خاندان سے تعلق رکھنے والے سیٹھ سلیمان اپنی اہلیہ کے ہمراہ یہاں پر جنرل منیجر کی حیثیت سے تعینات ہو کر آئے تو رومانوی اور افسانوی شخصیت رکھنے والے اس جوڑے نے یہاں پر اپنے حُسن ِ سلوک سے افسروں اور مزدوروں کا دل موہ لیا۔ یہاں پر گرمی کی شدت کے پیشِ نظر انہوں نے اپنے گھر پر ائرکنڈیشنر لگوایا تو اُن کی انصاف پسند اور وضع دار طبیعت نے یہ گوارا نہ کیا کہ اُن کی ماتحتی میں کام کرنے والے افسران گرمی کی شدت سے جھلستے رہیں۔ چنانچہ افسران کے گھروں میں بھی اے سی لگوا کر دیے گئے۔ انہوں نے یہیں پر ہی بس نہیں کیا بلکہ مل کے اندر بھی جن کھاتوں میں ائرکنڈیشنر کی ضرورت تھی انہیں بھی مرکزی طور پر ائرکنڈیشنڈ کیا گیا۔مزدوروں کے بونس کی وقت سے پہلے ہی ادائیگی کے لیے خصوصی انصرام و انتظام کیا کرتے۔ اپنے افسران کے ساتھ ساتھ مزدوروں سے بھی خوشگوار برتاؤ کیا کرتے تھے۔ اُن کی اہلیہ بھی اس معاملے میں اُن سے کسی بھی طور پر پیچھے نہیں رہتی تھیں۔ وہ تقریباً ہر مہینے ایک دعوت کا اہتمام کیا کرتیں۔ جس میں افسران کے بیوی بچوں کے علاوہ مزدوروں کے کچھ خاندانوں کو مدعو کیا جاتا۔ مزدور طبقے کی خواتین کے ساتھ رسم و راہ رکھنا اس کی اولین ترجیح ہوتی۔ وہ ہفتے میں ایک دو دن لیڈی پارک میں جایا کرتی۔ جہاں وہ مزدور گھرانوں کی خواتین کے ساتھ گھل مل جاتیں اور اُن کو درپیش مختلف مسائل کو حل کرنے میں اُن کی ممد و معاون ہوتیں۔ غرض کہ یہ خوب صورت خوب سیرت اور جواں سال جوڑا تمام مل ملازمین کو ایک خاندان کی طرح جوڑے رکھتا۔ 


یہ بات مزدور یونین کے لیڈروں کو کسی طور بھی گوارا نہیں تھی۔ انہوں نے مزدوروں کو مل مالکان کے خلاف بھڑ کانا شروع کر دیا۔ نفرت ایک ایسا منفی جذبہ ہے جو بہت تیزی سے وائرس کی طرح پھیلتا ہے۔ مزدوروں کو اُن کے استحصال کے متعلق جھوٹی سچی کہانیاں جوڑ کر سنائی گئیں۔اس سازش کی آبیاری میں حسبِ معمول مقامی سیاست نے بھی اپنا پورا پورا حصہ ڈالا اور مل مزدوروں اور مل مالکان کے درمیان نفرت کی ایک دیوار بلند ہوتی گئی۔ مزدور کو اُن کے حقوق دینے کی باتیں ہونے لگیں تو اُن میں کام چوری بلکہ سینہ زوری کی علتیں آ موجود ہوئیں۔ آئے روز ہڑتال کی دھمکی زندہ باد مردہ باد کے نعرے بدبو دار سیاسی رویے اور مداخلت نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ مل کو چلائے رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ اربوں سے لگائے گئے اس منصوبے کا منافع نامساعد حالات کی وجہ سے تقریباً صفر پر آ چکا تھا۔ لیکن سیٹھ سلیمان کا خیال تھا کہ پانچ سات ہزار خاندانوں کا روز گار اس سے وابستہ ہے۔ اس لیے اسے ان حالات میں بھی چلتے رہنا چاہیے۔


اس نے اس منصوبے کے باقی حصہ داروں کو بھی اس بات پر راضی کر لیا تھا۔ لیکن عاقبت نا اندیش مزدور یونین کے رہنماؤں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔ انہوں نے باقاعدہ سازش اور منصوبہ بندی کے تحت ایک دن صبح فارغ ہونے والے مزدوروں کی پوری شفٹ کو روکے رکھا اور آٹھ بجے جب سیٹھ سلیمان مل کے اندر جانے کے لیے گیٹ پر آئے تو ان تمام مزدوروں نے مردہ باد کے نعروں کی گونج میں سیٹھ کو حقیقی معنوں میں ننگے ہو کر دکھا دیا۔ اس کے بعد سیٹھ وہیں سے واپس لوٹ آیا۔ گھر آ کر اپنا سامان سمیٹا اور دونوں میاں بیوی واپس کراچی لوٹ گئے۔ بلکہ وہ یہاں بھی نہیں رکے اور لندن جا کر دم لیا اور اپنی بقیہ زندگی وہیں پر گزار دی۔اُن کے جانے کے بعد مل کو بند کر دیا گیا۔ مزدوروں کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ مشینری بیچ دی گئی اور آج وہ علاقہ جہاں پر ایک دنیا آباد ہوا کرتی تھی، سینکڑوں خاندان جہاں رہائش پذیر تھے، ہزاروں خاندانوں کا رزق جس کے ساتھ وابستہ تھا، جہاں رہائشی کالونیوں میں بچوں کی کلکاریاں اور بڑوں کے مسرت و شاد مانی سے بھرپور قہقہے سنائی دیا کرتے تھے وہاں پر آج کل ویرانی کےڈیرے ہیں -کہاں گئے وہ بدبخت جنہوں نے ہزاروں لوگوں کا روزگار چھین  کر ایک لہلہاتی صنعتی بستی اجاڑ کر ہی دم لیا 


اتوار، 4 مئی، 2025

کینیڈا دنیا کا کثیر قومی ملک

    البرٹا مغربی کینیڈا میں واقع ہے اور اس کی سرحد مغرب میں برٹش کولمبیا، مشرق میں سسکیچیوان، شمال میں شمال مغربی علاقے اور جنوب میں امریکی ریاست مونٹانا سے ملتی ہے۔ البرٹا کینیڈا کے تین صوبوں میں سے ایک ہے جس کی سرحد صرف ایک امریکی ریاست سے ملتی ہے۔ دیگر دو یوکون اور نیو برنسوک ہیں۔ سسکیچیوان اور البرٹا دونوں کی زمینی سرحدیں ہیں۔ البرٹا کا دارالحکومت ایڈمونٹن ہے، جو صوبے کے جغرافیائی مرکز کے بالکل جنوب میں واقع ہے۔ کیلگری کا مشہور شہر اس سے 300 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ کیلگری البرٹا کا سب سے بڑا شہر ہے اور کینیڈا کے بڑے تجارتی مراکز میں سے ایک ہے۔کینیڈا کو غیر ملکی سیاحوں اور سیاحت کے شعبے میں ملازمین کی کمی کا سامنا قامی سیاحتی تنظیم کو ملازمین کی قلت کا سامنا ہے۔ یہ مسئلہ صرف اس ایک جگہ کا نہیں ہے بلکہ کینیڈا میں سیاحت کے شعبے میں ہزاروں ملازمین کی کمی ہےکینیڈا نے حال ہی میں غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی کا آغاز کیا ہے۔


 تاہم اس کام میں چین سے تنازع کے ساتھ ساتھ جنگلات کی آتشزدگی اور ملازمین کی کمی آڑے آ رہی ہے۔جیک ریورز سیاحوں کے گائیڈ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کینیڈا میں سیاحوں کے لیے تین چیزیں موجود ہیں جن میں قدرتی نظارے، مقامی تہذیب اور تاریخ شامل ہیں۔جیک کا تعلق کینیڈا کی مقامی آبادی سے ہے جو اب اونٹاریومیں وکویمکونگ خطے کے ایک جزیرے کی سیر کرواتے ہیں۔ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں جھیل کنارے گھنے جنگلات موجود ہیں اور قدرتی حسن کی بہتات ہے۔ جیک سیاحوں کو کینیڈا میں بسنے والی مقامی آبادی کی تاریخ اور ان کے علاقے کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ان کو اپنا کام پسند ہے لیکن وہ مانتے ہیں کہ ’ہر کوئی یہ نہیں کر سکتا۔ یہ آٹھ گھنٹے کی نوکری نہیں ہے اور اس میں ہفتے اور اتوار کے دن کام کرنا پڑتا ہے، گھر والوں سے دور رہنا پڑتا ہے۔‘اور اسی وجہ سے مقامی سیاحتی تنظیم کو ملازمین کی قلت کا سامنا ہے۔ یہ مسئلہ صرف اس ایک جگہ کا نہیں ہے بلکہ کینیڈا میں سیاحت کے شعبے میں ہزاروں ملازمین کی کمی ہے۔یہ کمی اس صورت میں پوری ہو سکتی ہے اگر کینیڈا کی حکومت ملک میں سیاحوں کی تعداد بڑھانے کی کوششوں میں کامیاب ہو جاتی ہے۔


 کینیڈا میں کورونا وبا سے قبل 2019 میں دو کروڑ 20 لاکھ سیاحوں کی تعداد تھی جو گزشتہ سال ایک کروڑ 80 لاکھ یعنی 17 فیصد تک کم رہی۔تام نئی حکمت عملی، جسے ’ورلڈ آف اپارچیونٹی‘ کا نام دیا گیا ہے، کا مقصد ہے کہ سیاحت کے شعبے سے آمدن کو بڑھایا جائے اور اسے گزشتہ سال 109 ارب کینیڈیئن ڈالر سے 2030 تک 160 ارب ڈالر تک پہنچا دیا جائے۔اس حکمت عملی کے تحت کینیڈا کو دنیا میں سیاحوں کی ساتویں بڑی منزل بنانا مقصود ہے۔ اس وقت کینیڈا 13ویں پوزیشن پر موجود ہے۔کینیڈا نے حال ہی میں غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی کا آغاز کیا ہے-البرٹا کے مشہور سیاحتی قصبے جاسپر میں گزشتہ سال جولائی میں جنگلات میں لگنے والی آگ کو ’خطے میں صدی کی سب سے بڑی آتشزدگی‘ قرار دیا گیا تھا جس میں دو تہائی عمارات تباہ ہو گئی تھیں۔ان میں سے ایک عمارت اس ہوٹل کی تھی جو 1960 سے فعال تھا۔ اس ہوٹل کی مالک کیرن ڈیکور کے لیے یہ ’تباہ کن‘ واقعہ تھا۔لیکن انھوں نے ہوٹل کی انشورنس کروا رکھی تھی اور انھیں امید ہے کہ اگلے موسم گرما سے قبل یہ دوبارہ سے تیار ہو گا۔ لیکن قصبے کے باقی ہوٹلوں کو دوبارہ سیاحوں کے لیے مکمل تیار ہونے میں کتنا وقت لگے گا


مغربی البرٹا پہاڑوں سے چھایا ہوا ہے اور نسبتاً ہلکا درجہ حرارت ہے۔ جنوبی اونٹاریو کے بعد وسطی البرٹا کینیڈا کا واحد حصہ ہے جہاں بگولے آتے ہیں۔ موسم گرما کے طوفان عام ہیں، جن میں سے کچھ شدید ہیں۔ یہ طوفان کیلگری-ایڈمنٹن کوریڈور میں سب سے زیادہ عام ہیں۔ کینیڈا میں سب سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ البرٹا نے حالیہ برسوں میں آبادی میں نمایاں اضافہ کا تجربہ کیا ہے۔ صوبے میں 2003 اور 2004 میں شرح پیدائش بہت زیادہ تھی اور نقل مکانی کی شرح بھی بہت زیادہ تھی۔ 81% آبادی شہروں میں اور 19% دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ کیلگری ایڈمنٹن کوریڈور میں سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ یہ کینیڈا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ راکی پہاڑوں کی وجہ سے جنوب مغرب میں موسم بہت مختلف ہے۔ ان پہاڑوں کی وجہ سے زیادہ تر مغربی ہوائیں یہاں تک پہنچنے سے پہلے بارش پیدا کرتی ہیں۔ صوبے کے شمالی محل وقوع اور سمندر سے دوری کی وجہ سے، یہاں کا موسم معتدل نہیں ہے - شمالی البرٹا زیادہ تر بوریل جنگلات سے گھرا ہوا ہے اور، سبارکٹک آب و ہوا کی وجہ سے، جنوب کی نسبت صفر سے زیادہ درجہ حرارت کے ساتھ کم دن ہوتے ہیں۔ جنوبی البرٹا میں نیم خشک آب و ہوا ہے، جہاں پانی کی طلب رسد سے زیادہ ہے۔ جنوب مشرقی کونا، جسے پالسیئر مثلث کہا جاتا ہے، بہت گرم گرمیاں اور کم بارش ہوتی ہے۔ یہ اکثر فصل کی ناکامی کا سبب بنتا ہے اور شدید خشک سالی کا شکار ہوتا ہے۔کینیڈا کا ایک زرعی صوبہ ہے۔ اسے 1 ستمبر 1905 کو صوبائی درجہ دیا گیا تھا۔



 یہاں تین بڑی جھیلیں ہیں اور 260 مربع کلومیٹر سے چھوٹی متعدد چھوٹی جھیلیں ہیں۔ جھیل اتھاباسکا، ساسکیچیوان میں 7,898 مربع کلومیٹر پر واقع ہے۔ جھیل کلیئر کا رقبہ 1,436 مربع کلومیٹر ہے اور یہ جھیل اتھاباسکا کے مغرب میں واقع ہے۔مانیٹوبا کے بعد، 2٪ پر۔ فرانسیسی بولنے والے لوگ صوبے کے شمال مغربی اور وسطی حصوں میں رہتے ہیں۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق اس صوبے میں چینی آبادی بھی 4% ہے۔ ایڈمنٹن اور کیلگری میں شروع سے ہی چائنا ٹاؤنز ہیں۔ کیلگری کینیڈا میں تیسری سب سے بڑی چینی آبادی کا گھر ہے۔ چینی یہاں ریلوے کی تعمیر کے دوران 1880 کی دہائی میں آنا شروع ہوئے۔ مقامی لوگ کل آبادی کا صرف 3% بنتے ہیں۔ البرٹا میں، مورمن صوبے کے انتہائی جنوب میں رہتے ہیں اور کل آبادی کا تقریباً 2.5% بنتے ہیں۔ البرٹا میں مسلمان، سکھ اور ہندو بھی رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی کا تقریباً 2.5 فیصد، سکھ 0.8 فیصد اور ہندو 0.5 فیصد ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ حال ہی میں کینیڈا ہجرت کر گئے ہیں۔ شمالی امریکہ کی قدیم ترین مسجد البرٹا میں ہے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر