ہفتہ، 3 ستمبر، 2022

شہادت بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا

  

شہادت بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا


خاتم ا لانبیأ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے چھوٹے اور لاڈلے نواسے ،   نورِ

 عین شافع محشر حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ سکینہ میری نمازِ شب کی دعاؤں

 کا ثمر ہے ۔ اما م حسین علیہ السّلام دعا کرتے تھے کہ یا رب مجھے ایسی بیٹی عطا کر جو مجھ سے

 بے پناہ محبّت کرتی ہو اور میں بھی اس سے بے پناہ محبّت کرتا ہوں -اللہ تعالیٰ نے امام

 مظلوم 'سیّد الشّہداء کو سکینہ کی صورت ویسی ہی بیٹی عطا کی

سکینہ سلام اللہ علیہ ۲۰ رجب ۵۶ ھجری میں اس جہانِ فانی میں متولد ہوئیں سکینہ کے

 معنی ہیں قلبی و ذہنی سکون۔ پر یہ بچی سکون سے نہ رہ سکی نازونعم سے پلی، باپ کے سینے پر

 سونے والی اپنی پھپیوں کی چہیتی پیاری سکینہ 4 سال ہی میں یتیمہ ہو گئی -رات جو گزری اور دن آیا تو سکینہ نے کہا: پھوپھی جان! کیا یہاں

دن نہیں نکلے گا؟یہاں تو روشنی ہے ہی نہیں؟میں گھٹ کر مرجاؤں گی۔ جنابِ زینب سمجھاتی رہیں، یہاں تک کہ جب دوسری شام آگئی تو سکینہ کچھ اتنی زیادہ گھبراگئیں کہ اب جتنا سمجھاتی ہیں جنابِ زینب ، اس بچی کو قرار نہیں آتا۔مسلسل رو رہی ہے۔ بابا!ارے جب آپ گئے تھے تو مجھ سے فرماگئے تھے کہ میں تمہیں لینے کیلئے آؤں گا، آپ کہاں چلے گئے؟ میں کیا کروں؟میں اس جگہ کیسے رہ سکتی ہوں؟میری روح نکل رہی ہے، بابا! آئیے

تقریباً آدھی رات تک یہ بچی روتی رہی۔ اس کے بعد کبھی جنابِ زینب گود میں لیتی تھیں، کبھی امام زین العابدین گودمیں لیتے تھے، کبھی جنابِ رباب گود میں لیتی تھیں۔جنابِ رباب کے دوبچے تھے، ایک جنابِ سکینہ اور ایک جنابِ علی اصغر ۔سکینہ کو کسی کی گود میں قرار نہیں آتا تھا۔ آخر تھک کر کچھ آنکھ بند ہوئی، تھوڑی دیر تک سوئیں، ایک مرتبہ جو اٹھیں تو اُنہوں نے آواز دی:پھوپھی جان! میرے بابا آئے ہوئے تھے، مجھے چھوڑ کر پھر کہاں چلے گئے؟ابھی ابھی مجھے گود میں لئے ہوئے تھے، مجھے پیارکررہے تھے، وہ کہاں چلے گئے ہیں مجھے چھوڑ کر؟

یہ جو باتیں شروع کیں تو اہلِ بیت میں ایک کہرام برپا ہوگیا۔ بے اختیار ہوکر بیبیاں رونے لگیں۔ جب آوازیں بلند ہوئیں تو محل سرائے یزید تک یہی گریہ و بکا پہنچا۔ یہ ملعون جاگ اُٹھا۔ کسی سے کہا کہ پوچھ کر آؤ کہ یہ کیسا شور ہے؟ امام زین العابدین نے کہا کہ بچی یتیم ہے، اُس نے خواب میں اپنے باپ کو دیکھا ہے اور اب وہ پکار رہی ہے،یہ تمام بیبیاں اسی لئے رو رہی ہیں۔

 یزید نے  پوچھا کہ کیا معاملہ ہے اس کو بتایا گیا کہ ایک چھوٹی بچی اپنے بابا کو یاد

 کر کے رو رہی ہے ۔۔۔ یزید ملعون نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ اس کو کس طرح

 خاموش کیا جائے یزید کو بتایا گیا کہ اگر سرِ حسین علیہ السلام   زندان میں بجھوادیں تو یہ بچی

 خاموش ہوجائے گی ، پھر ایسا ہی ہوا سرِ امام حسین علیہ السلام زندان میں لایا گیا  اک حشر

 برپا ہوا ، تمام بیبیاں احتراماً کھڑی ہوگئیں

سید سجاد طوق و زنجیر سنبھالے بابا حسین کے سر کو لینے آگے بڑھے سکینہ کی گود میں جب

 بابا کا سر آیا بیچینی سے لرزتے ہونٹ امامِ عالی مقام کے رخسار پر رکھ دیے ، کبھی ماتھا

 چومتی کبھی لبوں کا بوسہ لیتیں روتی جاتیں اور شکوے کرتی جاتیں

بابا ۔بابا مجھے طمانچے مارے گئے بابا میرے کانوں سےگوشوارے چھینے گئے ۔ میرے

 کان زخمی ہوگئے میرے دامن میں آگ لگی بابا نہ آپ آئے نہ عمو آئے نہ بھائی اکبر آئے

 ۔ بابا ہمیں بازاروں میں گھمایا گیا بابا اس قید خانے میں میرا دم گھٹتا ہے ۔ پیاسی سکینہ روتی

 رہی ہچکیوں کی آواز بتدریج  مدھم ہوتی گئی ۔ پھربالآخر خاموشی چھاگئی-سید سجاد کھڑے ہو گئے پھوپی زینب کو سہارا دیا اور بلند آواز میں فرمایا

انا للہِ وانا الیہِ راجعون

سکینہ ہمیشہ کے لیئے خاموش ہو گئی

شام میں یزید کے محل کے ساتھ اس چھوٹے سے قید خانہ میں ہی اس معصوم بچی کو اسی

 خون آلود کرتے میں دفنا دیا گیا جو لوگ شام میں زیارات کے لیے جاتے ہیں اس بی بی کے

 مزار پر ضرور دیا جلاتے ہیں

بی بی سکینہ قید خانے میں اپنے گھر کو بہت یاد کرتی تھیں اورہر دن بی بی زینب سے سوال

 کرتی تھیں پھپھی اماّں ہم مدینے اپنے گھر کب جائیں گے

وائے افسوس کہ بی بی کو گھر جانا نصیب نا ہوا

حضرت اما م موسیٰ کاظم علیہ السّلام –جا نشین با ب علم

 

 

حضرت اما م موسیٰ کاظم علیہ السّلام –جا نشین  با ب علم

 آپ اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد خدا کے حکم اور آباو اجداد کی نسبت  سے امامت کے منصب پر فائز ہوئے۔ ساتویں امام علیہ السلام ، عباسی خلفاء منصور، ہادی، مہدی اور ہارون کے ہم عصر تھے۔ آپ  علیہ السلام  تاریک اور مشکل دور میں خاموشی کے ساتھ (سخت تقیہ کی حالت میں کٹھن زندگی گزارتے رہے۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام علم و تقویٰ میں اپنے والد گرامی کا   نمونہ تھے۔ آپ کی ایک خاص صفت یہ تھی کہ آپکو جب بھی غصہ آتا تھا آپ غصہ کو پی جاتے تھے۔ اسی لئے آپ کا نام بھی کاظم پڑ گیا تھا۔ کاظم اس شخص کو کہتے ھیں جو غصہ کو پی جایا کرتا ہے۔-

آپ  کی علمی کا و شو ں  میں ایک حوزہ علمیہ تشکیل دیا جا  نا ہے-اور آپ  کی علمی شہر ت    ہر طرف پھیل گئی اور دور دور سے دانشمند اور علماء آپ کے پاس آنے لگے۔ یہ وہ چیز تھی جو اس وقت کے عباسی خلیفہ کے لئے سخت اور نا گوار تھی۔  اس نے چاروں طرف سے امام پر سختیاں کرنا شروع کر دیں حتی کی امام کے صحابی بھی خلیفہ کے ظلم و ستم سے محفوظ نھیں تھے۔ اسی لئے ایک دن امام نے اپنے ایک صحابی ہشام سے فرمایا تھا کہ موجودہ خطروں کے پیش نظر ہم سے متعلق گفتگو سے پرہیز کیا کرو۔ ہشام نے بھی خلیفہ کے مرنے تک امام کے اس حکم کا خیال رکھا تھا۔

امام نے غاصب اور ظالم حاکموں اور خلفا کے بارے میں فرمایا ہے۔: جو شخص بھی ظالم و جابر حاکم کا ساتھ دیتا ہے، اس کے کاموں سے خوش رہتا ہے وہ بھی اس ظالم حاکم کی ہی مانند ہے یعنی ظالم حاکم کے ساتھ وہ بھی جہنم میں جائے گا۔

۔ امام کے نزدیک اس وقت کی حکومت کی کسی بھی طرح حمایت کرنا شرعی طور پر حرام تھا۔ امام اس حکومت سے کسی بھی طرح کی مدد لینے سے بھی منع فرماتے تھے: ان ظالموں پر اعتماد نہ کرو اور ان سے مدد نہ حاصل کرو کہ اگر ایسا کروگے تو دوزخ میں ڈالے جاؤ گے البتہ امام نے اپنے قریبی ساتھیوں میں سے ایک علی بن یقطین کو بعض مصلحتوں کی بنا پر اس حکم سے آزاد رکھا تھا اور اسی لئے وہ ہارون رشید کی حکومت میں وزیر بھی تھے۔

شیعہ و سنی منابع آپ کے علم، عبادت، بردباری اور سخاوت کی تعریف و تمجید کے ساتھ ساتھ آپ کو کاظم اور عبد صالح کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ بزرگان اہل‌ سنت آپ کا ایک دین شناس ہونے کے عنوان سے احترام کرتے ہیں اور شیعوں کی طرح بعض اہل سنت بھی آپ کی زیارت کیلئے جاتے ہیں۔ آپ کا مزار آپ کے پوتے امام محمد تقی علیہ السلام کے ساتھ شمال بغداد میں واقع ہے جو ہاس وقت حرم کاظمین کے نام سے مشہور مسلمانوں خاص طور پر شیعوں کی زیارت گاہ ہے۔

علی بن یقطین سے ارون رشید کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ اور اپنی رعایا کے ساتھ ظلم و ستم نھیں دیکھے جاتے تھے۔ ایک دن وہ امام کی خدمت میں آئے اور ان سے اجازت چاہی کی وہ وزارت سے استعفیٰ دے دیں لیکن امام نے انھیں اس کام سے روک دیا اور فرمایا: ایسا مت کرو! تمھارے بھائی تمھاری وجہ سے عزت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ تمھارے اوپر فخر کرتے ہیں ممکن ہے تم ان لوگوں کے لئے کچھ کر سکو۔

اے علی! تمھارے گناہوں کا کفارہ یھی ھے کہ تم اپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کرو۔ تم میرے سامنے ایک نیکی پیش کرو میں اس کے بدلے تمھارے سامنے تین نیکیاں پیش کرونگا۔ تم ہمارے کسی ایک شیعہ کی کوئی مشکل دور کرو میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے بدلے میں تمھیں خلیفہ کی قید و ظلم سے آزاد کرودوں گا۔ اس کی تلوار تم تک نہیں پہنچ سکے گی اور نہ ہی کبھی فقیری و غربت کا شکار ہوگے۔اے علی ! اگر کوئی کسی مومن کو خوش کرتا ہے تو در حقیقت پہلے وہ خدا کو اس کے بعد رسول صلی  ا للہ  علیہ و الہ و سلم اور اس کے بعد ہمیں خوش کرتا ہے۔

آپ اہل تقیہ تھے اور اپنے شیعوں کو اسی کی وصیت کرتے جیسا کہ آپ نے مہدی عباسی کو اس کی ماں کی وفات پر تسلیت کا خط لکھا۔روایت کے مطابق جب ہارون نے آپ کو طلب کیا تو آپ نے فرمایا: حاکم کے سامنے تقیہ واجب ہے لہذا میں اس کے سامنے جا رہا ہوں۔ اسی طرح آپ آل ابی طالب کی شادیوں اور نسل کو بچانے کی خاطر ہارون کے ہدایات قبول کرتے۔۔ یہانتک کہ آپ نے علی بن یقطین کو خط لکھا کہ خطرے سے بچاؤ کی خاطر کچھ عرصہ کیلئے اہل سنت کے مطابق وضو کیا کرے۔

آخر کار جب ہارون الرشید حج کے لئے مدینہ گیا تو اس کے حکم سے امام ہفتم علیہ السلا م  کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب آپ مسجد نبوی کے اندر نماز میں مشغول تھے۔آپ کو زنجیروں میں جکڑ کر قید میں ڈال دیا گیا اور پھر مدینہ سے بصرہ اور بصرہ سے بغداد لے جایا گیا۔ اس طرح آپ کو کئی سال تک قید میں رکھا گیا۔ اس کے ساتھ ہی آپ کو ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے میں منتقل کرتے تھے۔ آخر کار بغداد کے قید خانے میں سندی بن شاہک ملعون نے آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا۔ آپ ”مقابر قریش“ میں جو اس وقت کاظمیہ (عراق) میں واقع ہے دفن کئے گئے۔

بدھ، 31 اگست، 2022

یہ سیلاب نہیں قہر الٰہی ٹوٹ پڑا تھا

 

 

حالیہ دنوں میں آنے والا سیلاب توآ کے چلا گیا ہے لیکن تباہی کی دلخراش داستانیں اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے -پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ سندھ ایک عرصہ دراز سے بلدیاتی نمائندگی سے محروم رکھّا گیا ہے جس کے سبب زیادہ تباہی نظر آ رہی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے قائد اعلیٰ طبیعت کے ناساز ہونے کے باوجود کئ ارب روپے اپنی مٹھّی میں دبائے چوروں کا بیوپار پوری تندہی سے کر کے کروڑوں روپئے اپنی اپنی پارٹی سے بے وفائ کرنے والوں

میں تقسیم کر کے اب دبئ کے عشرت کدے میں آرام فرما رہے ہیں اور پورا سندھ اپنی  لاوارثی پرنوحہ کناں ہے'کتنے دکھ کا مقام ہے چار ارب روپے  تو چوروں کی خریدو فروخت پر خرچ کرنے والے نے صرف اپنے شہر لاڑکانہ کی ہی حالت زار کو سنبھالنے میں خرچ کئے ہوتے تو اللہ میاں ان کے اعمال نامہ میں کیا کچھ نیکیاں لکھ دیتا-آئیے اب کچھ زکر ہو جائے پاکستان کے سوئٹزر لینڈ سوات کا-تفصیلات کے مطابق سوات میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، کالام بازار اور ہوٹلز سیلابی ریلے میں بہہ گئے،

 دکانیں اور 150 سے زائد مکانات بھی دریا برد ہو گئے۔کالام میں سب سے بڑا اور قیمتی ہوٹل بھی سیلاب کی زد میں آ کر گر گیا،

 لوگ گرتے ہوٹل کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے۔سوات میں اب تک 10 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، سیلاب میں بحرین بازار بھی

 ڈوب گیا ہے اور کئی رابطہ پل بھی سیلاب میں بہہ گئے۔

سیلابی ریلا ہنی مون ہوٹل سمیت متعدد ہوٹلز ساتھ بہا کر لے گیا، سوشل میڈیا پر ہوٹل گرنے کے مناظر وائرل ہو گئے ہیں،

 کالام بحرین میں متعدد پلوں سمیت 4 مساجد بھی شہید ہو گئے ہیں۔واضح رہے کہ سیلابی ریلے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،

 مینگورہ بائی پاس میں بھی سیلاب کا پانی گھروں میں داخل ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے۔

سوات پولیس لائن میں بھی پانی داخل ہونے سے پولیس اہل کاروں کو مشکلات کا سامنا ہے، عوام بے یارو مددگار حکومتی امداد کے

 منتظر ہیں کئی گاڑیاں بھی سیلابی ریلے میں بہہ گئی ہیں، اب بھی سوات کے مختلف علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے،

 جس سے پانی کے بہاؤ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے

دوسری جانب بحرین اور کالام کے رہائشیوں اور سیاحوں کے لیے الرٹ جاری کر دیا گیا ہے، موسلادھار بارش کی وجہ سے سوات

 میں سیلابی صورت حال ہے، ترجمان این ایچ اے نے کہا کہ سیاح اور مقامی افراد غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں۔این ایچ

 اے نے کہا ہے کہ این 95 اور این 90 پر بحرین سے کالام سیکشن تک صورت حال تشویش ناک ہے، سیلاب نے بحرین پل کے

 ساتھ ساتھ اپروچ روڈ کو بھی متاثر کیا ہے۔

دریائے سوات میں سیلاب میں بہتی عمارتیں-’سیلاب تو اپنی جگہ تھا لیکن ساتھ پانی کے ساتھ ایک بڑا پتھر بھی آیا جس نے ہوٹل

 کی عمارت کی بنیادوں کو ہلا دیا تھا اس کے بعد عمارت اوپر سے گری ہے لیکن اب بھی انھیں امید ہے کہ ہوٹل کی عمارت کافی حد

 تک بچ گئی ہے۔‘یہ کہنا ہے کالام میں نیو ہنی مون ہوٹل کے مالک ہمایوں شنواری کا جن کے ہوٹل کے گرنے کی ویڈیو سوشل

 میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔یہ ہوٹل دریا کے اندر ہی تعمیر کیا گیا تھا، اس ہوٹل کو پہلی مرتبہ نقصان نہیں پہنچا بلکہ 2010 کے

 سیلاب میں بھی اس ہوٹل کی عمارت کو سخت نقصان پہنچا تھا۔اسی لیے آپ جہاں بھی جائیں ان علاقوں میں ہوٹل اور تفریحی

 مقامات کے علاوہ دکانیں بھی دریا کے کنارے تعمیر کی جاتی ہیں- بحرین کا ذکر کریں جو ایک چھوٹا سا علاقہ ہے یہاں دریا کے

ساتھ ساتھ تقریباً تمام ہوٹل دکانیں اور مکانات کو یا تو نقصان پہنچا ہے اور وہ یا مکمل طور پر دریا برد ہو چکے ہیں۔

ہمایوں شنواری نے یہ ہوٹل 1992میں قائم کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت انھیں کسی نے نہیں کہا تھا کہ یہاں ہوٹل کی تعمیر

 منع ہے ہمیں باقاعدہ اس وقت قائم ملاکنڈ ڈویژن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اجازت نامہ جاری ہوا تھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب

 کالام میں کچھ نہیں تھا، سیاحت بہت کم تھی اور انھوں نے وہاں انوسٹمنٹ کی تھی۔ ہنی مون ہوٹل کے مالک ہمایوں شنواری نے

 بی بی سی کو بتایا کہ جو سیاح آتے ہیں وہ ایسے ہوٹل کو پسند کرتے ہیں جو دریا کے اندر ہو یا کم سے کم دریا کے قریب تر ہوں۔ان سے

 جب کہا گیا کہ دریا کے اندر ہوٹل تعمیر نہیں کیے جا سکتے یہ ماحولیات کے خلاف ہے اور پانی کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے سے

 مسائل پیدا ہو سکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس کے لیے تمام اقدامات کیے تھے۔ اس جگہ دریا کا کافی وسیع رقبہ ہے اور

 انھوں نے پہلے نہیں سنا تھا کہ اتنا شدید سیلاب کبھی اس علاقے میں آیا ہو۔

اپر سوات کے علاقے مدین میں دریائے سوات سے آنے والے پانی کی وجہ سے اونچے درجے کا سیلاب گزر رہا ہے۔ انتظامیہ نے

 مقامی لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایات دی ہیں۔اس ویڈیو میں دریائے سوات کے کنارے پر موجود عمارتوں کو

 دریا میں بہتا دیکھا جا سکتا ہے- کالام تک سڑک کے ذریعے رسائی نہیں لیکن وہاں سے اطلاعات ہیں کہ بحرین سے زیادہ نقصان

 کالام میں ہوا ہے ۔ سوات میں 46 پُل اور 13 بجلی کے پول کو نقصان پہنچا ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نقصان اس

 سے کہیں زیادہ ہوا ہے۔

ہوٹل مالکان کا کہنا ہے کہ ان کی تعمیرات دریا سے دور تھیں اس مرتبہ سیلاب کا ریلا ہی زیادہ تھا جس وجہ سے تباہی ہوئی ہے۔

بحرین میں ایک ہوٹل کے مالک وقار احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہوٹل دریا کے اندر کیوں تعمیر کیا تھا تو

 انھوں نے یہی جواب دیا کہ ہوٹل تو دریا سے دور تھا ہوٹل اور دریا کے درمیان پارکنگ ایریا تھا اور ایک ریسٹورنٹ بھی تھا لیکن

 پانی تو ہوٹل کی تیسری منزل تک آیا۔مقامی سطح پر یہ کہا جاتا ہے کہ دریا اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹ کو خود ہی ہٹا دیتا ہے۔

 ماضی میں بھی ایسا ہی دیکھا گیا ہے کہ جہاں تجاوزات کی گئی ہیں وہ سیلاب سے تباہ ہوئی ہیں۔ اللہ پاک سب پر کرم کرے آمین

منگل، 30 اگست، 2022

کراچی میں تاجروں کو اغوا کیسے کیا جا تا ہے

 

 

 

 

 

 

آج کے حسین  ا و ر جدید  کراچی کے اس مکروہ چہرے کو بھی دیکھ لیجئے ،

  کراچی میں تاجروں کو اغوا کیسے کیا جا  تا ہے

دوستی کے جال میں پھنسا کر قابل ا عتراض تصاویر بنائ جاتی ہیں ،،گروہ میں شامل مرد ساتھی بلیک میل کر کے رقم اینٹھتے ہیں ،،بیشتر متاثرّہ افراد رپورٹ درج نہیں کرواتے ،،معاملہ بگڑنے پر قتل بھی کر دیا جاتا ہے –کئ  ماہ پہلے ہلاک کیئے جانے والے بنکار کے کریڈٹ کارڈ سے دو خواتین نے لاکھوں روپے کی 

خریداری کی-

ہیلوسر فراز مجھے آپ سے ملنا ہے ،،شام چھ بجے میں حیدری مارکیٹ کے باہر اسٹاپ پر آ پ کا انتظا  ر کروں

 گی ،جلدی آنے کی کوشش کیجئے گا  مجھے روڈ پر انتظار نا کرنا پڑے

یہ فون نارتھ ناظم آباد بلاک  - میں رہائش پذیر کپڑے کے تاجرسرفراز حمد کو ان کی دوست نائلہ نے کیا تھا،،سرفراز حمد اپنی دوست کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس سے ملاقات کے لئے تیّار ہو گئے - فراز حمد اپنی ہنڈا سٹی کار میں حیدری مارکیٹ پہچ گئے،،جب انہوں نے بس اسٹاپ پر کھڑی اپنی دوست نائلہ کے قریب کا ر روکی تو اس کے ساتھ ایک لڑکی اور بھی مو جود تھی ،،نائلہ دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئ اور دوسری خوبرو لڑکی پچھلی نشست پر بیٹھ گئ ،،نائلہ نے اپنی دوست کا تعارف روبی کے نام سے کر وایا ،،اور بتایا کہ ہم دونوں حیدری مارکیٹ شاپنگ کرنے آئ تھیں ،،بہت دن سے آ پ سے ملاقات نہیں ہوئ تھی اس لئے سوچا کہ آ پ کو بلا لوں ،نائلہ نے فراز کو بتایا کہ روبی حیدری مارکیٹ کے قریب ہی میں رہتی ہے ،پہلے اسےچھوڑنے چلتے ہیں پھر کسی اچھّے ریسٹورینٹ میں کھانا کھائیں گے

سرفراز ا حمد نے کہا کہ روبی کو ساتھ لے چلیں-

واپسی پر اسے گھر چھوڑدیں گے جواب میں نائلہ نے کہا کہ روبی دیرتک گھر سے باہر نہیں رہ سکتی ہے اس کی والدہ گھر پر اکیلی ہیں ،وہ پریشان ہوں گی بہتر ہے پہلے اسے گھر چھوڑ دیں ،اس پر فراز نے کہا تم مجھے راستہ بتاؤ میں تمھاری دوست کو  چھوڑ دیتا ہوں ،نائلہ اپنی دوست روبی سے راستہ پوچھ کر بتاتی رہی اور پھر ایک مکان کے سامنے پہنچ کر نائلہ نے فراز احمد سے کہا یہاں گاڑی روک لین ،یہ روبی کا گھر ہے ،گاڑی رکی تو روبی دروازہ کھول کر نیچے اتری اور اور فراز احمد کی طرف آ کر کہنے لگی کہ میرے گھر چائے پی کر جائیں ،  فراز نے پھر کسی وقت آنے کا کہا تو روبی نے نائلہ سے کہا کہ فراز صاحب کو اندر لے آئے ،نائلہ نے فراز سے کہا کہ اب روبی اتنا اصرار کر رہی ہے تو اس کے گھر پر چائے پی ہی لیتے ہیں ،یہ کہ کر نائلہ بھی گاڑی سے اتر گئ جس پر مجبو ر ہو کر فراز احمد کو بھی ان کے ساتھ گھر میں جانا پڑا روبی کا مکان دو کمروں پر مشتمل تھا ،ایک کمرے کو ڈرائنگ روم بنایا ہوا تھا جہاں صوفے پڑے تھے اور ٹی وی رکھا ہواتھا ،روبی نے نائلہ اور فراز کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور خود دوسرے کمرے میں چلی گئ -

کچھ دیر بعد اسنے آواز لگا کر نائلہ کو بھی اپنے پاس بلا لیا وہ دونوں دس پندرہ منٹ تک باتیں کرتی رہیں پھر نائلہ ڈرائنگ روم میں فراز کے پاس آگئ اور روبی کچن میں چائے بنانے چلی گئ ،پانچ منٹ بعد نائلہ کے موبائل پر کسی کا فون آیا اور وہ فون سننے کے لئے اٹھ کر دوبارہ دوسرے کمرے میں چلی گئ چند منٹ بعد وہ واپس آ کر فراز سے بولی کہ قریب ہی سڑک پر اس کا بھائ آرہا ہے اس چابیاں دینی ہیں ،میں غلطی سے گھر کی چابیاں ساتھ لے آئ تھی یہ کہ کر وہ گھر سے باہر نکل گئ نائلہ کے جانے کے چھ سات منٹ بعد گھر کی ڈور بیل زور زور سے بجنے لگی ،روبی نے دروازہ کھولا تو دو افراد گھر میں گھس آئے اور انہوں نے  فراز احمد کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا ،انہوں نے کہا کہ تم میری بہن کی زندگی خراب کر رہے ہو ،ہم تمھیں جان سے مار دیں گے اس دوران روبی روتے ہوئے کہنے لگی،بھائ اس نے میری زندگی برباد کر دی ہے اور اب کہتا ہے کہ میں تم سے شادی نہیں کروں گا ، سرفراز احمد اچانک پڑنے والی اس افتاد سے سکتے میں آ گیا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے کیونکہ اس کی دوست تو نائلہ تھی وہ  روبی کو جانتا بھی نہیں تھا ،لیکن وہ نوجوان اس کی بات سننے کو تیّار ہی نہیں تھےان میں سے ایک نے پستول نکال لی تھی اور کہ رہا تھا کہ اس نے ہماری بہن کی زندگی خراب کی ہے اس کو میں گولی مار دوں گا-

پھر وہ فراز احمد کومارتے  ہوئے دوسرے کمرے میں لے گئے اوراس سے اس کا موبائل پرس اور گاڑی کی چابی چھین لی اور کہا کہ اب تمھیں روبی سے شادی کرنی ہو گی ،فراز احمد ان سے التجائیں کر رہا تھا کہ وہ روبی کو نہیں جانتا ہے لیکن روبی  مسلسل یہی الزام لگا رہی تھی کہ یہ دھوکے باز ہے اس نے میری زند گی برباد کی ہے اس دوران وہ نوجوان اسے مسلسل مارتے رہے آدھے گھنٹے تک یہی صورتحال چلتی رہی پھر ایک نوجوان نے کہا کہ تم  اپنے گھر والوں کو فون کر کے بلاؤ انہیں تمھارے کرتوت بتاتے ہیں تمھاری بیوی کو بھی پتہ چلے کہ اس کا شوہر کیا کرتا پھرتا ہے ،جس پر گھبرا کر فراز احمد نے کہا کہ میرے گھر وا لوں کو مت بلاؤ تمھیں جو چاہئے وہ میں دینے کو تیّار ہوں-

پھر تاجر نے اپنا پرس نکالا جس کو ایک نوجوان نے تاجر سے چھین لیا اور تمام کارڈز نکال لئے 'گاڑی کی چابی بھی چھینی اور یہ کہتے ہوئے گھر سے دھکّے دے کر نکال دیا کہ پولیس سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پولیس ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے -تاجر نے سڑک پر آ کر ٹیکسی کو ہاتھ دیا اور پھر پولیس کے پاس پہنچا -پولیس اسی وقت ساتھ آئ تو گھر میں تالا پڑا ہوا تھا -محلّے والوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہم اس گھر کی بابت کچھ نہیں جانتے ہیں مالک مکان گاوں میں رہتے ہیں بس ان کے کچھ رشتے دار کبھی کبھی نظر آجاتے ہیں -تو جی جناب یہ وہی رشتے دار ہوتے ہوں گے جنہوں نے تاجر کی تواضع کی تھی

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر