ہفتہ، 18 نومبر، 2023

قاضی علامہ نوراللہ شوستری -شہید ثالث

  قاضی نور اللہ ہمیشہ مخالفین میں تقیہ یا اپنے عقائد کو خفیہ رکھتے تھے وہ اہل سنت کے مذاہب اربعہ کے فقہی مسائل پر مکمل دسترس رکھتے تھے، اس لیے اکبر بادشاہ اور عام لوگ انہیں سنی سمجھتے تھے،آپ متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے - جب اکبر بادشاہ کو ان کے علم و فضل اور لیاقت سے آگہی حاصل ہوئی تو انہیں لاہور میں "قاضی القضاۃ" مقرر کیا۔ شہید نور اللہ نے ایک شرط پر اسے قبول کیا کہ وہ کوئی بھی فتویٰ مذاہب اربعہ یعنی شافعی، حنفی، حنبلی اور مالکی میں سے اپنی رائے اور اجتہاد سے دیں گے کسی ایک فقہ کا پابند نہیں ہوگا۔ بادشاہ نے یہ بات مان لی چنانچہ قاضی نے تمام فتویٰ امامیہ فقہ کے مطابق دینا شروع کیے جو کسی نہ کسی مذاہب اربعہ کے مطابق ہوا کرتے تھےاور آپ کے فیصلے منصفانہ ہوتے تھے -شہید ثالث علامہ نوراللہ شوستری  محبت علی ابن ابی طالب ع میں شہید ہوئے   -

 شہید ثالث، شوستری اور قاضی کی وجہ تسمیہ:دمشق اور استنبول میں دو بزرگوں کی شہادت کے کئی سالوں بعد ہندوستان میں قاضی نور اللہ شوستری شہید ہوئے تو شہید ثالث  -تیسرے شہید کہلائے، یعنی علمائے شیعہ میں شہید ثالث۔ محمد ابن مکی شہید اول، شیخ زین الدین شہید ثانی اور نور اللہ شوستری شہید ثالث ہیں۔ قاضی کا درجہ وہی مقام رکھتا ہے جو دور حاضر میں جسٹس کا ہوتا ہے۔ قاضی نور اللہ شہید شوستر میں پیدا ہوئے تھے اسی نسبت سے وہ شوستری کہلائے۔ مشہد مقدس میں علمِ دین سیکھنے کے بعد ہندوستان تشریف لائے۔-تصانیف:شہید ثالث کی متعدد تصانیف ہیں، جن میں "مجالس المومنین" اور "احقاق الحق" چھپ چُکی ہیں۔ مجالس المومنین ہی آپ کا شاندار شاہکار ہے اور خاص مرتبہ رکھتی ہے، مزید انہوں نے بیسیوں عربی اور فارسی زبان میں رسالے بھی لکھے۔

چیف جسٹس کا عہدہ:قاضی نور اللہ مخالفین میں تقیہ یا اپنے عقائد کو خفیہ رکھتے تھے وہ اہل سنت کے مذاہب اربعہ کے فقہی مسائل پر مکمل  دسترس رکھتے تھے، اس لیے اکبر بادشاہ اور عام لوگ انہیں سنی سمجھتے تھے، جب اکبر بادشاہ کو ان کے علم و فضل اور لیاقت سے آگہی حاصل ہوئی تو انہیں لاہور میں "قاضی القضاۃ" مقرر کیا۔ شہید نور اللہ نے ایک شرط پر اسے قبول کیا کہ وہ کوئی بھی فتویٰ مذاہب اربعہ یعنی شافعی، حنفی، حنبلی اور مالکی میں سے اپنی رائے اور اجتہاد سے دیں گے کسی ایک فقہ کا پابند نہیں ہوگا۔ بادشاہ  نے یہ بات مان لی چنانچہ قاضی نے تمام فتویٰ امامیہ فقہ کے مطابق دینا شروع کیے جو کسی نہ کسی مذاہب اربعہ کے مطابق  ہوا کرتے تھے۔ اکبر بادشاہ کی وفات کے بعد جہانگیر تختِ سلطنت پر بیٹھا تو قاضی نور اللہ اپنے عہدے پر قائم رہے لیکن مخالف علماء کو یہ قبول نہیں تھا، کئی مرتبہ بادشاہ کو بتایا گیا کہ قاضی نوراللہ شیعہ مسلک سے ہیں لیکن وہ اپنا عقیدہ چھپاتے ہیں اور تمام فتاویٰ کو مسلک شیعہ کے مطابق دیتے ہیں۔

شہادت اور مزار -علمائے مخالفین اس گھات میں تھے کہ کسی طرح سے قاضی کی شیعت کو ثابت کیا جائے اور قتل کا حکم جاری کروایا جائے۔ ایک منظم سازش کے تحت ایک شخص کو قاضی نور اللہ کے پاس بھیجا گیا وہ شیعہ بن کر قاضی کی وہ کتابیں حاصل کرے جو وہ خفیہ طور پر رات کو لکھتے ہیں۔ وہ شخص روز بروز اعتماد بناتا رہا اور مجالس المومنین کتاب کے بعض حصے جو علماء کرام کے نزدیک متنازعہ تھے لیکر دربار جہانگیر میں پیش کردیئے۔ اسی شاگرد نما دشمن کی جاسوسی کے باعث دربار میں سزا مقرر ہوئی۔ شہید ثالث کو خار دار دُرے لگائے گئے حتیٰ کہ شہید ہوگئے، آگرہ میں شہادت کے بعد اسی جگہ مزار بنایا گیا۔ مزید روایت ہے کہ شہادت کے بعد کئی دن تک لاش بے گوروکفن رہی اور پھر ایک شخص کے خواب میں جناب سیدہ فاطمہ (س) نے حکم دیا کہ میرے فرزند کو دفن کردیں، جب یہ خواب متعدد افراد کو آیا تو دریا کے قریب سے لاشہ برآمد کرکے کفن و دفن کا انتظام کیا گیا۔ شہادت کے دو سو سال یا ڈیڑھ سو سال  بعد 1774 میں قبر پر روضہ تعمیر ہوا اور باغ بھی لگایا گیا۔  لوگ ان کے مزار پر ہندوستان بھر سے منت ماننے کے لیے سفر کرتے تھے اور اب بھی یہ عمل جاری ہے۔

سلام بر شہیدِ ثالث:شہید ثالث نے مشکل ترین وقت میں عقائد کی ترویج کی، آج اگر برصغیر میں ہمارے پاس حقیقی تشیع اور عقائد پہنچے ہیں تو وہ شہید ثالث قاضی نور اللہ کی تصانیف اور کاوشوں کی بدولت ہیں۔ پروردگار شہید کے درجات بلند کرے۔ آمین شہید ثالث حوزہ/ آگرہ میں موجود آپ کا روضہ اہل ایمان کی زیارت گاہ ہے جہاں سالانہ ہزاروں زائرین زیارت کا شرف حاصل کرتے ہیں  اور آپ کے دشمن تاریخ کے قبرستان میں گمنام ہو گئے۔ شہید سعید فقیہ اہلبیت قاضی سید ضیاء الدین نوراللہ شوشتری المعروف بہ شہید ثالث رحمۃ اللہ علیہ 956 ہجری کو ایران کے صوبہ خوزستان کے شہر شوستر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد جناب سید شریف الدین رضوان اللہ علیہ معقولات و منقولات کے برجستہ اور ماہر عالم تھے۔ قاضی علامہ نوراللہ شوستری کے بچپن کے حالات-قاضی نوراللہ شوستری نے ابتداٸی تعلیم اپنے والد اور دوسرے  فاضل علما سے شوستر میں حاصل کی انہوں نے کتب اربعہ کے علاوہ فقہ اصول اور کلام کی کتابیں پڑھیں۔ 979 ھجری میں آپ مشہد گٸے اور وہاں علامہ محقق عبدالواحد تستری کے دروس میں شرکت کی  ھجری میں مذھب  فقہ  جعفریہ کی اشاعت کے لیے ہندوستان تشریف لاٸے ۔وہ محدث ، فقیہ ، کلام اور مناظرہ کے ماہر ، ادیب ، شاعر اور زاہد تھے۔ ان کی جلالت اور شرافت کے باعث عظیم مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے قاضی نوراللہ شوستری کو قضاوت کے عہدہ کی پیشکشفقہ، اصول، کلام اور ریاضی جیسے علوم کی بنیادی اور ابتدائی تعلیم حاصل کا 

جمعہ، 17 نومبر، 2023

غریب الوطن افغان مہاجرین


رخصت کی  گھڑی آ پہنچی ہے جس کا تصوّ ر بھی نہیں کیا تھا -یہیں پاکستان میں شادی ہوئ یہیں کنبہ بنا  -بچّے تو افغانی بولی بھی نہیں جانتے  ہیں  -ماں  روانگی کا وقت ہو نے والا ہے   مریم  بی بی کے بیٹے  روشن خان  نے آکر  کہا کہ وہ سب تیار ہوجائیں سفر کچھ دیر میں شروع ہوجائے گا۔ مریم کے خاندان کو رخصت کرنے کے لیے آنے والے ہر ایک سے گلے ملتے اور ڈھیروں دعائیں دیتے یہ بہت جذباتی مناظر تھے-جو یہاں رہ گئے تھے ان کے پاس کارڈ تھے۔  مریم  بی بی  نے اپنے پاس آنے والی اینکرسے آخری بار مصافحہ کیا تو ا ینکر نے مریم بی بی  کا  ہاتھ تھام لیا۔ وہ جو بہت دیر سے اپنی بیٹیوں، بہو کی ہمت بڑھا رہی تھی اب  اینکر کا  ہاتھ تھامے بنا کچھ کہے رو رہی تھیں۔اینکر نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے بس اتنا کہا کاش میں آپ کے لیے کچھ کرسکتی۔مریم بی بی  نے اینکر کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور اپنی بھیگی آنکھوں سے لگایا اور آہستہ سے بولی ہمارے لئے دعا کرنا - یہ دعا کر نا اب افغانستان کی مٹّی ہمیں قبول کر لے وہ ہمیں راس آجائے   اور میرے بچوں کو وہ سب خوشیاں ملیں جو انہوں نے اس وطن میں دیکھی ہیں ۔

 مریم  بی بی اور دیگر خواتین اپنے گھر کے مردوں کے ہمراہ بس کی سیٹیوں پر بیٹھ چکی تھیں۔ فاطمہ اور ان کی بہن کی اپنے بھائی سے کچھ سامان ساتھ رکھنے کی بحث جاری تھی یہ سامان وہ اپنے ساتھ سیٹ پر رکھنا چاہتی تھیں جب کہ بھائی اس کے لیے رضامند نہ تھا۔  وہ ایک لکڑی کا ڈبہ تھا جس میں کچھ چوڑیاں اور وہ تحائف تھے جو فاطمہ اور اس کی بہن کو ان کی سہیلیوں نے الوداعی ملاقات پر دیے تھے۔بھائ کہہ رہا تھا کہ وہاں طالبان نے پابندی لگائ ہوئ کو ئ لڑکی بیوٹی سیلون نہیں جا سکتی پھر یہ سامان کس کا م  کا ہو گا ا دھر پاکستان کے نگراں وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی نے جمعرات کو تصدیق کی تھی کہ حکومت نے  قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔امکان ہے کہ اس اقدام سے تقریباً 10 لاکھ افغان مہاجرین متاثر ہوں گے، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے دو سال قبل ہمسایہ ملک افغانستان میں سخت گیر طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں پناہ لی تھی۔حکومتِ پاکستان کے اس منصوبےسے ان افغانوں پر اثر پڑ سکتا جنہیں بین الاقوامی تحفظ کی ضرورت ہے۔ 

اقوامِ متحدہ کے ایک اہلکار نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کے دوران خبردار کیا کہ اگر انہیں زبردستی واپس بھیجا گیا تو ان کی زندگیاں یا آزادی خطرے میں پڑ جائے گی۔اسلام آباد میں اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے وی او اے کو بتایا کہ ان کا ادارہ پاکستانی ہم منصبوں سے نئی پالیسی کے بارے میں وضاحت مانگ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں سے مہاجرین کی فراخدلانہ میزبانی کرنے والے ملک کے طور پر پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے، لیکن اس فراخدلی کو اس کی منزل تک پہنچانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کے نگراں وزیرِ خارجہ نے بتایاتھا کہ کابینہ کی طرف سے منظور کردہ نئی پالیسی کا تعلق صرف افغانوں ہی سے نہیں بلکہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تمام لوگوں پر بھی اس کا اطلاق ہو گا جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ سرکاری طور پر رجسٹرڈ افغان مہاجرین اور قانونی طور پر رہنے والوں کو پاکستان چھوڑنے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔

قیصر خان آفریدی کہتے ہیں کسی بھی پناہ گزین کی واپسی رضاکارانہ ہونی چاہیے، بغیر کسی دباؤ کے تاکہ ان لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے جو تحفظ کے خواہاں ہیں۔آفریدی نے مزید کہا کہ پناہ گزینوں کا ادارہ ( یو این ایچ سی آر) اپنی سرزمین پر بین الاقوامی تحفظ کی ضرورت والے لوگوں کو منظم کرنے اور رجسٹر کرنے کے لیے ایک نظام تیار کرنے میں پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے تک، پاکستان نے سرکاری طور پر تقریباً ستائیس لاکھ افغانوں کی میزبانی کی۔ اس میں 13 لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین اور آٹھ لاکھ 80 ہزار وہ لوگ تھے جنہیں سرکاری طور پر معاشی تارکینِ وطن کی حیثیت دی گئی تھی جب کہ باقی مانندہ کو غیر قانونی تارکینِ وطن قرار دیا گیا تھا۔کابل پر طالبان کے قبضے سے مہاجرین کی تازہ آمد کی لہر شروع ہوئی، جس میں سات لاکھ سے زیادہ افغان پاکستان آئے۔ایک اندازے کے مطابق ان میں سے دو لاکھ امریکی زیرِقیادت بین الاقوامی اتحادی افواج کے لیے اپنی خدمات کے واسطےدوبارہ آبادکاری کے خصوصی پروگراموں کے تحت امریکہ اور یورپی ممالک روانہ ہو چکے ہیں۔

پاکستانی حکام کے مطابق، باقی ماندہ افغانوں میں سے اکثر یا تو غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں یا ان کے ویزوں کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔پشاور میں افغان خواتین سلائی کی تربیت حاصل کر رہی ہیں افغان خواتین کو ہنر مند بنانے کی کوشش، پشاور میں اکیڈمی قائم طالبان نے دوبارہ اقتدار می آنے کے بعد سے افغانستان میں اسلامی قانون کی اپنی سخت تشریح نافذ کر دی ہے اور خواتین پر بہت زیادہ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول یا یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ زیادہ تر خواتین سرکاری ملازمین کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور خواتین امدادی کارکنوں کو انسانی ہمدردی کے گروپوں میں شامل ہونے سے منع کیا گیا ہے۔خواتین عوامی مقامات، جیسے پارکس، جمز اور باتھ ہاوسز وغیرہ نہیں جا سکتیں ہیں اور سڑک پر طویل سفر کے لیے مرد سرپرست کی موجودگی کی ضرورت ہوتی ہے۔بے گھر خاندان کے افراد کے مطابق، خواتین پر پابندیاں پاکستان میں پناہ لینے والے افغانوں کے لیے خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے لیے اپنے وطن واپس جانے میں ایک بنیادی رکاوٹ ہیں۔-


 

منگل، 14 نومبر، 2023

میں سہاگن بنی مگر

اللہ میاں کے دستوربھی کتنے نرالے ہیںہمارےگھر میں صرف پہلوٹھی کے بھیّا کو دینے کے بعد ہم چار بہنوں  فرحت فرحین آپی جن کو میں اور ہم سب بہنیں بڑی آپا کہتے ہیںپھر منجھلی آپا ندرت  ماہین ،ان کے بعد فریال رامین جو ہمارے لئے فریال بجّو ہیں اور ان کے بعد نرگس زرمین  آپی ہیں ،ان چاروں کو او پر تلے  امّاں کے آنگن میں بھیج دیا  ،پھر چار برس تک ان کے آنگن سوکھے دھانوں کوئ پانی ناپڑا کہ میں نصرت نگین کا نام لے کر ان کے آنگن میں اتر آئ،مجھے نہیں معلوم کہ امّاں لڑ  کیوں سے بیزاری کے سبب اتنی تلخ زبان  رکھتی تھیں  یا ان کا مزاج ہی ایسا تھا ،لیکن ابّا بہت مشفق و مہربان تھے ،امّاں عام بات بھی کرتی تھیں تو ہم بہنوں  کو ان کا حکم ہی لگتا تھا ،ابّا  کبھی کبھی کہتے ارے نیک بخت ان کے ساتھ اتنی سختی نا برتو ,,یہ توہما رے آنگن کی چڑیاں ہیں ،دیکھ لینا ایک دن ہمارا آنگن ان کے بنا سائیں سائیں کرتا ہو گا اور امّاں ابّا سے کہتی تھیں تم بلاوجہ ان کے دماغ مت خراب کیا کرو ،آخر ان کو دوسرا گھر اپنا پتّہ  مار کر سنبھانا ہے ابھی سے عادت نہیں ڈالی جائے تو لڑکی نخرے دار اٹھتی ہمیری  سمجھ میں امّاں کی باتیں ہرگز نہیں آتی تھیں ناجانے ابّا سمجھتے تھے کہ نہیں پھر وہ امّاں سے کچھ بولتے نہیں تھے اور امّا ں کے دل شکن نعروں کی گونج میں جب میں کچھ کچھ بڑی ہوئ تو گھر سے بڑی آپا کی رخصت کی گھڑی آ گئ تھی بڑی آپا  ہما رے تایا ابّا کے گھر بچپن کی مانگ تھیں مجھے یاد ہے وداعی والے دن بڑی آپا جب بیوٹی پالر جانے کے لئے گھر سے لگیں تو اچانک ہی گھر کے دروازے سے لپٹ  کر دھا ڑیں مار کر رونے لگیں ،ایسے میں امّا ں بوتل کے جن کی طرح گھر کے کسی کونے سے  برآمد ہو ئیں اور بڑی آپا سےکہنے لگیں بند کرو یہ بین اور جاکر گاڑی میں بیٹھو  اور ہم بہنیں حیران ہو کر امّاں کو دیکھنے لگے

میں نے سو چا کم از کم آ ج کے دن تو امّاں کو بڑی آپا کو اس طرح نہیں ڈانٹنا چاہئے ،،مگر امّا ں تو امّاں تھین جو اپنے ماں ہونے کےفلسفے کے بنیادی اصول اچھّی طرح جانتی تھیں بڑی آپا  گھر کی بڑی بیٹی ہونے کے نا طے بہت زمّہ دار تھیں لیکن مزاج کی  بے حد شرمیلی  اور کم گو بھی تھیں وداعی والے د  دلہن بننے کے بعد وہ میک اپ کے خراب ہونے کی پرواہ کئے بغیر چپکے چپکے گھونگھٹ کی اوٹ میں روئے جا رہی تھیں اور رخصتی کے وقت ان کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے تھے اور دھاڑیں مار کر روئیں تو ہم سب بہنیں بھی بے حد رو ئے تھے ،لیکن حیرت کی بات تھی کہ جب آ پا اگلے دن اپنی سسرال سے ہمارے گھر طلال بھائ کے ساتھ  آئیں تو بہت خوش نظر آرہی تھیں میں بڑی آپا کو حیران ہو کر دیکھ رہی تھی اور پوچھنا بھی چاہ رہی تھی کہ اب وہ رو کیوں نہیں رہی ہیں کہ اچانک میری نظر ا نکی  مہندی لگے ہاتھوں کی کلایوّں پر گئ جہاں امّاں کی پہنائ ہوئ   سہاگ کی ہری اور لال کانچ کی  کھنکتی ہوئ چوڑیوں کے ہمراہ سو نے کے خوبصورت جڑاؤ کنگن  نظر آرہے تھے میں بڑی  آپا سےاو ر سب پوچھنا  بھول گئ ،میں نے ان کے مہندی رچے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر پوچھا ،بڑی آپا یہ سونے کے کنگن کل تو آپ کے  ہاتھ میں نہیں تھے ،میری بات پر بڑی آپا کا چہرہ شرم سے گلابی ہو گیا اور انہوں نے حیا بار نظریں جھکا کر کہا یہ تمھارے طلال بھائ نے منہ دکھائ میں پہنائے ہیں ہماری تائ امّی کی پوری فیمیلی بہت نیک تھی اور بڑی آپا  بڑی جلدی  اپنی سسرال میں رچ بس گئیں

اب میں نے دیکھا منجھلی آپا ہر وقت امّاں کے نشانے پر رہتی تھیں ،اور بس امّاں کی زبان پر ایک جملہ ہوتا پرائے گھر جانا ہے اپنی  عادتیں سدھار لو ،منجھلی آپا بھی اپنی جگہ اچھّی تھیں لیکن ان کی زبان پر امّاں کی بات کا ہر جواب موجود ہوتا تھا جس سے امّا ں بہت ناراض ہوتی تھیں اور منجھلی آپا کو صبر کی تلقین کا سبق بھی پڑھاتی رہتی تھیں اور بالآخر بڑی آپا کے دو برس بعد منجھلی آ پا بھی گھر سے رخصت ہو کر سدھار گئیں ،مہندی مایوں سے لے کر رخصت کی گھڑی تک منجھلی آپاکی آنکھو ں سے آنسو کا ایک قطرہ بھی  مین نے نہیں دیکھا ،ناجا نے ان کو کیا ہو گیا تھا ،ان کے دلہناپے کو سکوت ساتھا اور وہ اسی طرح ساکت ہی رخصت ہو گئیں لیکن میرے لئے اچنبھے کی بات تھی کہ اگلے دن منجھلی آپا  کوسسرال جاکر بھیّاانہیں  لے آئے تھے انکے ساتھ ان کے دولہا رفاقت بھائ بھی نہیں آئے تھے ان کے ہاتھوں میں جڑاؤ کنگن بھی نہیں تھے اور وہ بڑی آپا کی طرح خوش بھی نہیں تھیں بلکہ  آنسو انکی آنکھوں میں چھلکے چھلکے آرہے چھلکے چھلکے آرہے تھے امّا ں بیٹی  کے پر ملال چہرے پر نظر ڈال کر کچھ چونکیں تو  ضرور تھیں لیکن انہوں نے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا نا ہی کچھ پوچھ کر ان کو کچھ بول نے کا حوصلہ دیاتھااور پھر شادی کے صرف چند روز بعد منجھلی آپا امّاں کے سامنے بیٹھی رو رو کر کہ رہی تھیں امّا ں آپ نے مجھ کو یہ کیسی سسرال بھیج دیا جس کو گھر نہیں جہنّم کہنا زیادہ بہتر ہے- اور شوہر ایسا ہے جو اپنی امّاں کے پلّو سے بندھا پھرتا ہے جو بات کرو امّاں سے  پوچھ لو ،جو کام کہو امّاں راضی نہیں ہو ں گی ,,جب اسے اپنی امّاں کے پہلو سے لگ کر بیٹھنا اتنا ہی پسند تھا تو پھر شادی کی کیا ضرورت تھی ،

 منجھلی آپا  امّاں کو رو رو کر بتاتی رہیں کہ ان کی ساس ان سے کس طرح گھر کے سارے کام کرواتی ہیں اور کھانا پکا کر سب سے آخر میں کھانا کھانے دستر خوان پر بیٹھتی ہیں تب ان کی ساس  منجھلی آپا کے کھانا کھائے بغیر ہی دستر خوان سمیٹ دیتی ہیں اور بڑی دو بہوؤں کے مقابلے میں ان سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے ،منجھلی آپا نے یہ بھی بتایا کہ ان کو طبیعت کی خرابی میں بھی ڈاکٹر کے پاس جانے کی اجازت نہیں ہے ،اور رفاقت کا کہتے ہیں کہ ہماری ماں کے حکم کے مطابق ہی گھر چل رہا ہے اب اگر تم کو کوئ اعتراض ہے تو تم میکے جا سکتی ہو -  اب امّاں نے دھیرے دھیرے بولنا شروع کیا دیکھ منجھلی ہر لڑکی انہی حالات سے گزرتی ہے تب جا کر گھر بنتا ہے -امّا ں ہمارا کمرہ اوپر ہے رفاقت دفتر سے آ کر سیدھے اپنی امّاں کے کمرے میں جاتےہیں -ٹھیک ہے امّاں مجھے کوئ حق نہیں کہ میں ان کو منع کروں لیکن جب امّاں کے کمرے سے باہر نکلتے ہیں تو من بھر کا سوجا ہوا چہرہ لے کر نکلتے ہیں اور پھر اوپر جا کرمجھ سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے ہیں میں سارا دن نیچے رہتی ہوں ساس کا حکم ہے کہ دن میں نیچے رہوں اور سارا دن نیچے رہ کر سارے گھر کی خدمت کر کے یہ صلہ ملتا ہے کہ شوہر سیدھے منہ بات نہیں کرتا ہے -منجھلی صبر بھی تجھی کو کرنا ہے خدمت  بھی تجھی کو کرنا ہے اور یہ کہہ کر امّاں منجھلی آپا کے پاس سے بیٹھک میں چلی گئیں 

جاری ہے

اسموگ -خود بلایا ہوا عذاب

 


پاکستان میں سردیوں کا موسم شروع ہونے پرایک مدھم 'مدھم گنگناتا خوشگوار موسم جو شروع ہوتا تھا اب وہ خوشگوار تو کجا  ایک خوف کی علامت بن کر آتا ہے-لاہور جیسے بحر زخّار شہر میں چہار جانب اسموگ اتر آتی ہے اور اتنی شدید کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا ہے-اللہ پاک نے جو بھی موسم پیدا فرمائے ہیں سب میں اللہ جل شانہ  کی بے شمار حکمتیں  موجود ہیں ۔موسم سرما بھی ،دیگر موسموں کی طرح اللہ پاک کی ایک نعمت ہے۔ یہ موسم عبادت کا موسم کہلاتا ہے کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ ے نے ارشاد فرمایا :سردی کا موسم مومن کے لیے موسم بہار ہے اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں تو مومن ان میں روزہ رکھتے ہیں اور راتیں لمبی ہوتی ہیں تو راتوں کو جاگ کر عبادت کرتے ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب سردی کا موسم آتا تو فرماتے:سردی کو خوش آمدید ،اس میں اللہ پاک کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں شب بیداری کرنے والے کےلیے اس کی راتیں لمبی اور روزہ دار کے لیے اسکا دن چھوٹا ہوتا ہے ۔ امیر المؤمنین حضرت ِ  علی علیہ السّلام  نے فرمایا:’’سردی کا موسم تہجد گزاروں کے لئے  رب کا انعام  ہے ۔مگر پچھلے چند برسوں سے پاکستان کے کچھ شہروں میں  سموگ نے اس خوش گوار تبدیلی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ چند سالوں سے اکتوبر کے آخر دنوں سے سموگ کا آغاز ہوتا ہے جو نومبر کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔اگر نومبر کے مہینے میں بارش ہو جائے تو سموگ جلد ختم ہو جاتی ہے، لیکن بارش نہ ہونے کی صورت میں اس کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارش کا نظام بھی شدید متاثر ہوا ہے اور بارشوں کے دورانیے میں شدید کمی واقع ہوئی ہے، جس سے سموگ کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔جنوب ایشائی ممالک کو سموگ نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ان ممالک کے کچھ شہروں کو سموگ ہر سال بری طرح متاثر کرتی ہے۔ لاہور، بیجنگ، اور دہلی کا شمار ان شہروں میں کیا جاتا ہے جہاں ہر سال لاکھوں لوگ سموگ کی وجہ سے طبی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔

سموگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہر ملک اقدامات اٹھا رہا ہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی ادارہ صحت بھی کوشش کر رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہر سال دنیا بھر میں ستر لاکھ لوگ موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سموگ ماحولیاتی آلودگی کا  نام ہے، جس سےنجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی وجوہات کا تعین کیا جائے۔ وجوہات کے تعین کے بعد اس مسئلے سے چھٹکارا پانا آسان ہو جائے گا۔اور یوں  اس فضائ بیماری کا علاج ممکن ہو سکے گا-محکمہ زراعت کی جانب سے شائع کیے گئے تشہیری مواد میں بھی کسانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ گاڑیوں کی ریل پیل، کارخانوں سے پیدا شدہ دھوئیں، اینٹوں کے بھٹوں سے اٹھنے والے گرد و غبار اور فصلوں کی باقیات  کو جلانے کی وجہ سے پیدا ہونے والا دھواں سموگ کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ لیکن اسی تشہیری مواد میں اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیم فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کی 2018 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا بھی بار بار ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں زراعت کے شعبے کا سموگ کے بننے میں حصہ محض 20 فی صد ہے جبکہ اس میں صنعتی شعبے کا حصہ 25 فی صد اور ٹرانسپورٹ کا حصہ 45 فی صد ہے۔یہ   تشہیری مہم اپنی جگہ ٹھیک لیکن  سب سے بڑی اور اہم وجہ  تو یہ ہے کہ 9 نومبر تک وسطی پنجاب کے مختلف ضلعوں سے سرکاری طور پر 3297 ایسے واقعات کی نشاندہی ہو چکی تھی جن میں کسانوں نے چاول کی باقیات سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنے کھیتوں میں آگ لگائی تھی۔ اس سے کہیں زیادہ واقعات کی سرے سے نشاندہی ہی نہیں ہوئی۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ زراعت کے پروفیسر ڈاکٹر راشد احمد کا کہنا ہے کہ ایف اے او کی جس رپورٹ کو بنیاد بنا کر محکمہِ زراعت سموگ کا الزام دوسرے شعبہ ہائ زندگی پر منتقل کررہا ہے اس کا طریقہِ کار ہی غیر سائنسی ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'اس طرح سے آلودگی کے بننے میں مختلف انسانی سرگرمیوں کا تناسب نکالنا اور پھر اس تناسب کو بنیاد بنا کر آلودگی کی روک تھام کے لیے پالیسیاں بنانا کوئی سائنسی نقطہِ نظر نہیں' فصلوں کی باقیات کو جلانا-پاکستان میں فصلیں اگانے کے لیے آج بھی قدیم طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ قدیم طریقے استعمال کرنے کی وجہ سے نہ صرف فصل کی پیداوار متاثر ہوتی ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔موسمِ گرما میں پنجاب کے زیادہ تر اضلاع میں چاول کی فصل کی کاشت کی جاتی ہے جو کہ اکتوبر کے مہینے میں پک جاتی ہے۔ چاولوں کی فصل کی کٹائی اکتوبر میں شروع ہوتی ہے اور نومبر تک جاری رہتی ہے۔ اس فصل کی کٹائی کے بعد کھیتوں میں بہت زیادہ باقیات بچ جاتی ہیں۔جب تک ان باقیات کو تلف نہ کر لیا جائے، اگلی فصل کاشت نہیں کی جا سکتی۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس کچرا کو ختم کرنے کے لیے جدید مشینری استعمال کی جاتی ہے جو کہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث نہیں بنتی۔ اس کے برعکس وطن عزیز میں اس کچرا کو ختم کرنے کے لیے آگ لگائی جاتی ہے۔بڑے پیمانے پران باقیات کو جلانے کی وجہ سے دھواں بہت زیادہ فضا میں پھیل جاتا ہے۔ جس سے سموگ کا ماحولیاتی مسئلہ وطن عزیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

شہر میں فضائ آلود  گی کی بہت بڑی وجہ دھواں خارج کرنے والی گاڑیاں -پاکستان میں ایسی گاڑیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو بہت زیادہ مقدار میں دھواں خارج کرتی ہیں۔ دھوئیں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔بارشوں میں کمی اور دھواں خارج کرتی گاڑیوں کی وجہ سے سموگ ہر سال شدت اختیار کرتی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے احکامات جاری کیے ہیں کہ ان گاڑیوں پر جلد از جلد پابندی لگائی جائے تا کہ فضا میں دھواں نہ پھیلے اور سموگ کی شدت اختیار نہ کرے۔ان وجوہات کی وجہ سے سموگ ہر سال شدت اختیار کر جاتی ہے- جنگلات کا کٹاؤ۔ پاکستان کا شمار بھی ایسے ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں جنگلات کو تیزی سے کاٹا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں پہلے ہی جنگلات بہت تھوڑے رقبے پر اگائے گئے تھے، مگر اب درختوں کی کٹائی کی وجہ سے ماحول پر بہت برا اثر ظاہر ہو رہا ہے۔جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے بارشیں کم ہو رہی ہیں اور گرمی کی شدت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اکتوبر اور نومبر میں بارشیں کم یا نہ ہونے کی وجہ سے سموگ کا مسئلہ شدت اختیار کر جاتا ہے۔ اس لیے اب بین الاقوامی تنظیمیں آواز بلند کر رہی ہیں کہ جنگلات کی حفاظت کے لیے حکومتوں کو اقدامات اٹھانے چاہیں تا کہ سموگ جیسے ماحولیاتی مسائل سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔اس میں عام آدمی بھی اپنا کردار ادا کرسکتا ہے کہ زیادہ زیادہ درخت لگائے ۔

ان کے مطابق اس سوال کو پیشِ نطر رکھنا اہم ہے کہ ٹرانسپورٹ، صنعتوں اور اینٹوں کے بھٹوں سے سارا سال دھوئیں کا اخراج ہوتا رہتا ہے لیکن سموگ کی تہہ آخر ایک خاص موسم میں ہی کیوں بنتی ہے؟  'اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے بننے کے لیے ماحول میں بہت زیادہ گرد و غبار موجود ہونا لازمی ہے'۔گرد و غبار ویسے تو فضا میں سارا سال موجود رہتا ہے لیکن چاول کی باقیات کو جلائے جانے سے اس میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے۔ 'آلودہ دھواں گرم ہونے کی وجہ سے ہوا سے ہلکا ہوتا ہے اس لئے وہ عام حالات میں  بالائی فضا میں چلا جاتا ہے لیکن جب ہوا میں موجود دھول اور گردوغبار کی تہہ موٹی ہوتی ہے تو یہ دھواں زمین کی سطح سے زیادہ اوپر نہیں جا پاتا اور سموگ کی شکل میں ہمارے ارد گرد کی فضا میں ہی ٹھہر جاتا ہے'۔ 'ان میں فصلوں کا جلایا جانا یقینی طور پر ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے'۔اس بات کو واضح کرنے کے لئے ایک تحقیق سامنے آئ ہے  نئ تحقیق کے مطابق ہے  چاول کی فصل کے ایک ہزار کلو گرام باقیات جلانے سے تین کلو کثیف دھواں، 60 کلو کاربن مانو آکسائیڈ، 1460 کلو کاربن ڈائی آکسائیڈ، 199 کلو راکھ اور دو کلو سلفر ڈائی آکسائیڈ جیسی زہریلی چیزیں پیدا ہوتی ہے جو خاص طور پر آنکھوں اور جلد کی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔اس حساب کتاب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اگر یہ فرض کیا جائے کہ ایک ایکڑ چاول کی فصل سے پانچ سو کلو گرام باقیات پیدا ہوتی ہیں تو اس کا مطلب ہے پنجاب میں چاول کے مجموعی طور پر زیرِ کاشت رقبے – چھیالیس لاکھ ایکڑ – سے دو ارب 30 کروڑ کلو گرام باقیات پیدا ہوتی ہیں جن کو جلانے سے پیدا ہونے والی راکھ ہی چار لاکھ 57 ہزار سات سو کلو گرام ہو گی جبکہ اس سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 33 لاکھ 58 ہزار کلو گرام ہو گی۔آلودگی کے ذمہ دار لوگوں کو کون پکڑے گا؟قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے (پی ڈی ایم اے) کی طرف سے نو نومبر کو جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق حکومتی اہل کاروں نے فضا میں زہریلی گیسیں اور آلودہ دھواں خارج کرنے والی فیکٹریوں کو صرف 58000 روپے جرمانہ کیا تھا۔ اسی طرح  صوبے کے طول و عرض میں موجود بیسیوں ہزار چھوٹی اور بڑی فیکٹریوں میں سے صرف 487 کو آلودگی پھیلانے کی وجہ سے بند کیا گیا تھا۔ حالانکہ ایف اے او کی رپورٹ کے مطابق ان کا دھواں سموگ کے بننے میں 25 فی صد حصہ ڈالتا ہے -سموگ بنیادی طور پر ایسی فضائی آلودگی کو کہا جاتا ہے جو انسانی آنکھ کی حد نظر کو متاثر کرے ۔ سموگ کو زمینی اوزون بھی کہا جاتا ہے ۔یہ  سرمئی دھند کی تہہ کی مانند  ہوا میں جم سا جاتا ہے۔ سموگ میں موجود دھوئیں اور دھند کے اس مرکب میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین جیسے مختلف زہریلے کیمیائی مادے بھی شامل ہوتے ہیں اور پھر فضا میں موجود ہوائی آلودگی اور بخارات کا سورج کی روشنی میں دھند کے ساتھ ملنا سموگ کی وجہ بنتا ہے  ۔ ۔

پیر، 13 نومبر، 2023

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا


آج میں اپنی قلم کہانی  میں اپنی زندگی کے وہ اوّلین دن بتانے چلی ہوں جو بہت پر مشقّت تو تھے لیکن بچپن کی انوکھی آرزؤں سے معمور تھے ،پہلے یہ بتا دوں کہ میں اپنے بچپن میں ایک اچھّی طالبہ ہرگز نہیں تھی ،مجھے زندگی نے بعد مین یہ سبق پڑھایا کہ علم کے بغیر دنیا اندھیری ہے ،میرا رزلٹ گھر میں ہمیشہ تھرڈ نمبر پر ہوتا تھا جبکہ دوسرے بہن بھائ اوّل اور دوئم ہوتے تھے ،لیکن پھر مجھے کچھ رعائت اس لئے مل جاتی تھی کہ میں گھر کا کام سب سے زیادہ کرتی تھی اور اپنے چھوٹے بہن بھائ کو بھی سنبھالتی تھی-بہر حال میرا بچپن کا ایک انتہائ شوق تھا کہ میں کسی طرح ڈھولک بجانا سیکھ جاؤں اس زمانے میں جب کسی گھر میں شادی ہوتی تھی تو رات کے وقت ڈھو لک کی محفل ضرور سجتی تھی اور میرے پیروں میں پہئے لگ جاتے تھے کہ کس طرح میں اس گھر میں پہنچ جاؤں جہاں ڈھولک بج رہی ہے ،مقصد واحد ہوتا تھا کہ ڈھول بجانے ولی لڑکی کی انگلیاں کس طرح چل رہی ہیں خود دیکھوں اور سیکھوں مگر یہ شوق آ ج بھی ناتمام ہی ہے

ابّا جان تو  دن کے وقت گھر سے قدم نکالنے کے ہی سخت مخالف تھے  چہ جائیکہ رات ،اور امّی جان ابّا جان کے تابع تھیں ، میری عمر یہی کوئ سات یا آٹھ برس کے دور میں تھی ایسے میں ہمارے سامنے والے محلّے کے ایک گھر سے مجھے دن کے وقت ڈھولک بجنے کی آواز آئ اور میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ ابّا جان تو گھر پر نہیں ہیں مجھے اجازت دے دیجئے

بس امّی جان نے اجازت د ی اور میں نے جھٹ پٹ چھوٹے بھائ کوگود میں اٹھایا اور چند منٹ میں کلّو چھولے والے کے گھر پہنچ گئ ،میں بھائ کے بغیر گھر سے قدم نکالنے کی بھی مجاز نہیں تھی کیونکہ وہ ڈھائ برس کی جان میری واپسی تک امّی جان کا جینا حرام کردیتا ،اس وقت کلٰو چھولے والے کا گھر مجھے دور سے ہی پرستان کے شہزادے کا گھر دکھا ئ دینے لگا گھر کے اندر باہر بلاروک ٹوک آنا جانا لگا ہوا تھا مین  بھی اسی آپا دھاپی میں اندر پہنچ کر شادی کے گھر کے مناظر کے مشاہدے میں لگ گئ کچّے آنگن میں ایک طرف کوری ہانڈی میں پانی کے اندر ننھی ننھی مچھلیاں تیر رہی تھیں میں نے ہانڈی میں جھانکا اور پھر گود میں موجود بھائ کو مچھلیاں دکھائیں دوسری طرف بڑے سے تھال میں سل پر پیسی گئ کچّی مہندی بھیگی ہوئ تھی جس کی سوندھی خوشبو گلی کے اندر دور تک مہک رہی تھی اور ساتھ ہی مہکتے چنبیلی کے تیل میں ابٹن کی خوشبو بھی ملی جلی تھی

گھر کے کچّے آنگن کی ملتانی مٹّی سے شائد رات کو ہی لپائ کی گئ تھی آنگن بلکل صاف ستھرا تھااور اب اس پرگھر کی عورتیں ایک رسم  ادا کرنے جا رہی تھیں یعنی لال رنگ کے بھیگے ہوئے گیرو اور صندل کے آمیزے میں سات سہاگنوں کے ہاتھ ڈبو کر ان کو آنگن کی دیوار پر چھاپنا تھا ،بڑی بوڑھی کا سختی سے حکم تھا کہ خبر دار ہاتھ الگ الگ تھال پر نا پڑے اور ٹیڑھا میڑھا بھی نا پڑے یہ سب بد شگونیاں سہاگ بھرے بھاگ کے گھر میں بد شگونیاں مانی جاتی ہیں

،اس رسم کو پہلی دفعہ ہی دیکھنے کا میرا اتّفاق تھا گھر کی سب سے بڑی بوڑھی خاتون کو لا کر چار پائ پر بٹھا یا گیا اور گیرواور صندل کا سرخ آمیزے سے بھرا تھال ان کے آگے رکھ دیا گیا ساتھ ہی گڑ کا اور مرمروں کا بڑا سا تھا ل آیا اور پھرڈھولک کی تھاپ پر عورتوں نے کوئ اپنی دیہاتی زبان میں گیت گانا شروع کیا ساتھ ہی آوازیں بھی دی جانے لگیں اری او کہاں ہے آ ری آ ،آج ہمرے دوارے سہاگن آئ گیو رے ، عورتیں آتی گئیں ڈھول بجتی رہی اور صندل اور گیرو کے چھاپے دیوار کو سجاتے رہے-ارے کلّو چھولے والے کا تعارف تو رہ ہی گیا یہ ایک بمشکل بیس بائیس سال کا انتہائ درجے کا سانولا لیکن دلکش نقوش والا نوجوان تھا ،جو ٹھیک دس بجے دوپہر سے پہلے اپنی ماں کے ہاتھ کے تیّار کئے ہوئے مزیدار چٹ پٹے چھولے کا ٹھیلا لے کر لب سڑک ہمارے گھر سے کچھ فاصلے کھڑا ہوجاتا تھا اور اس کے چھولے اتنے مذیدار ہوتے تھے کہ دوپہر کو یہ گھر واپس چلاجاتا تھا مجھے یا د ہے جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا تو بڑی حیرت سے دیکھتی رہی تھی سرسوں کے تیل میں چپڑا ہوا سرجس کے بال بلکل جٹ سیاہ اس پر سرسوں کے تیل کی اس کے ماتھے تک آئ ہوئ بہار، بڑی بڑی آنکھیں جن میں بہتا کاجل رچا ہوا ،لیکن وہ اپنے اطراف سے بیگانہ اپنے چھولوں کی دنیا میں مگن سر جھکا کے آتا اور سر جھکا کے واپس جا تا-جب اس کی شادی ہوئ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا اور اس کی ماں نانی اور خالائیں اس کی شادی پر اپنے اپنے ارمان پورے کر رہی تھیں-

خیر میری دلچسپی کا ساما ن اس گھر کی رسمیں تھیں میں جن کو دل و جان سے دیکھ بھی رہی تھی اور نگاہوں کے راستے حفظ بھی کر رہی تھی-اب صاف ستھری دیوار پر سات سہاگنو ں کے چودہ ہاتھوں کے لال لال نقش لہلہا رہے تھے میں نے ان نقوش کو بار بار دیکھا ،کوئ خاص بات تو نظر نہیں آئ لیکن اب میں سوچتی ہوں شادی کے گھر میں ان معصوم لوگوں کے کتنے ہزار ارمان تو ہاتھوں کے ان نقوش میں ہی نہاں ہوتے ہوں گے-ہاتھوں کے چھاپے پورے ہو گئے اور تمام مہمانوں میں گڑ اور مرمرے تقسیم کئے گئے ،مین نے بھی وہ گڑ اور مرمرے کھائے اپنے بھائ کو بھی کھلائے سنہرا گڑ اور سفید مرمرے وہ مٹھا س آج بھی منہ میں محسوس ہورہی ہے-اگلا دن شادی کا تھا اور میری خوشی ٹھکانہ کیاتھا میں بتانے سے قاصر ہوں ایسا لگ رہا تھا کلّو چھو لے والا دنیا میں میرا سب سے بڑا عزیز تھا جس کی شادی میں شرکت مجھے بہر طور کرنی تھی ویسے بھی سارے مہاجر اس دور میں جی رہے تھے جب سب کی خوشی غمی اپنی خوشی غمی سمجھی جاتی تھی اب میرا بھائ میری گود میں کچھ بے چینی محسوس کر رہا تھا اس لئے میں گھر واپس آگئ-اب اگلا دن اس حسین شہزادے کی بارات کا تھا جس میں بلکل بن بلائ مہمان بن کر محلّے کے تمام بچّوں کے کی ریل پیل میں جا نے کو بے چین تھی کہ ابّا جان بے وقت گھر آگئے ،ابّا جان کو دیکھ کر میرے اوپربلاشبہ عالم نزع طاری ہوگیا   -کچھ دیر کے لئے گلے کے اندرگھگّھی سی بندھ گئ 

میں نے گھڑونچی پر رکھّی صراحی سے پانی پیا میری چھوٹی بہن شائد میری بے چینی کو بھانپ گئ تھی اس نے مجھ سے پوچھا بجّو کیا ہوا میں نے کہا کچھ نہیں مجھے کلّو چھولے والے کی شادی میں جانا تھا اور ابّا جان گھر آ گئے ہیں چھوٹی بہن نے انداز بے نیازی سے کہا تو چلی جائے ،نہیں اب میں نہیں جا سکتی ہوں کیونکہ ابّا جان نے کہا ہے کہ یہ واہی تواہی پھرے گی تو اس کی ہڈّیا ں توڑ دوں گا،ہاہاہاہاہاہاہا، آج میں سوچتی ہوں کہ میری سرگرمیاں یقیناً میرے پیارے ابّا جان کواتنی گراں محسوس ہوتی ہوں گی جو انہوں نے مجھے یہ دھمکی دی تھی ،جبکہ میرے والد زبان کے معاملے میں انتہائ نفیس انسان تھے-کچھ ہی دیر میں مجھے امّی جان جب اکیلی نظر آئیں میں نے ان سے خوشامد کرتے کہا امّی جان بس آج کا دن اور اج تو کلّو چھولے والے کی بارات ہے مجھے جانے دیجئے ،امّی جان نے مجھ سے کہا تم قلم اور کاپی ساتھ میں لے لو تمھارے ابّا پوچھیں گے تو میں کہ دوں گی کہ صالحہ کے پاس پڑھنے گئ ہے ،میں نے اپنی امّی جان کو لپٹ کر پیار کیا اور کاپی قلم لے کر اپنی دوست کے گھر رکھوایا اور دوست کو بھی ساتھ لے کر بارات کا منظر دیکھنے پہنچ گئ بیچارے دولہا کا چھوٹا سا تو مکان تھا اس وقت اس میں چھوٹے بڑے بلائے گئے اور میری طرح بن بلائے سب کی دھکّم پیل مچی ہوئ تھی کلّو چھولے والے نے سرخ ڈھڈھاتے رنگ کا ٹول کا کرتا اور سفید شلوار زیب تن کی ہوئ تھی اور اس  کےدونو ن ہاتھ سرخ رنگ کی مہندی سے رچے ہوئے تھے اور بس بارات روانہ ہو گئ

مگر کیسے ؟

دولہا سہرا باندھے اپنے عزیزوں کے ساتھ پیدل آگے آگے اور باقی باراتی اس کے پیچھے پیچھے شائد میں نے کسی سے پوچھاتھا کہ سب پیدل کیوں جارہے ہیں تو جواب ملا تھا دلہن ورلی گلی میں تو رہتی ہے ،ورلی گلی میں؟ میں نے حیران ہو کر کہا ، لیکن میں تو اس گلی کی سب لڑکیوں کو جانتی ہوں   بہر حال بارات جا چکی تھی اس لئے میں اپنی دوست کے ساتھ اس کے گھرآ گئ اصولاً مجھے اپنے گھر آنا چاہئے تھا لیکن دوست نے کہا کہ اس نے کاغذ کو رنگ کر پھول بنائے ہیں بس اسی بہانے میں اس کے ساتھ آئ ،یہ بھی بتا دوں کہ میری اس دوست کا دروازہ ہمارے گھر سے تیسرا دروازہ تھا اور مجھے گلی کے بس چند ہی گھروں میں آنے جانے کی اجازت تھی ،خیر ابھی تو ہم دونوں سہیلیا ں باتیں ہی کر رہے تھے کہ پھر ڈھول ڈھمکّا اور شہنائ کی آوازیں ہمارے کانوں میں گونجنے لگیں اور ہم دونو ہی اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر بھاگے مشکل سے پون گھنٹے میں دلہن بیاہ کر لائ جارہی تھی مگر گھوڑے جتے ہوئے ٹانگے میں آگے بھی بینڈ باجا تھا اور پیچھے باراتی پیدل پیدل،ہجوم اتنا تھا کہ ہم دونوں دولہا کے گھر کی دیوار سے چپک کر کھڑے ہوگئے ،ٹانگہ رکا اور ( جسے ہم مان گون اور نیگ کہتے ہیں ) یہ ان کی زبان میں بیل اور بدھائیا ں تھیں ناچنے والے ناچ رہے تھےگانے والے گا رہے تھے اور اور بینڈ باجا سونے پر سہاگے کا کام کر رہا تھا بدھائیوں کی رسم دلہن کو ٹانگے سے اتارنے سے پہلے گھر کے دروازے پر ہوئ ،اور دولہا سے کہا گیا کہ وہ دلہن کو گود میں لے کر اتارے،دولہا کچھ کسمسایا کچھ شرمایا لیکن پھر کسی نے ڈانٹ کر کہا کہ دلہن کو جلدی اندر لاؤ رسمیں ریتیں کرنا ہے تب دولہا نے دلہن کو تانگے کی دہلیز پر کھڑا کیا اور پھر اپنے کندھے پر لا دا اور مجھے لگا کہ د لہن ایک منحنی سی سرخ گٹھری نما کوئ شئے ہے ،دولہا بہت تیزی سے گھرکے اندر داخل ہوا 

اور میں اپنی دوست کا ہاتھ پکڑ دولہا کے پیچھے ہی گھر کے اندر داخل ہو گئ;جاری ہے


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر