قاضی نور اللہ ہمیشہ مخالفین میں تقیہ یا اپنے عقائد کو خفیہ رکھتے تھے وہ اہل سنت کے مذاہب اربعہ کے فقہی مسائل پر مکمل دسترس رکھتے تھے، اس لیے اکبر بادشاہ اور عام لوگ انہیں سنی سمجھتے تھے،آپ متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے - جب اکبر بادشاہ کو ان کے علم و فضل اور لیاقت سے آگہی حاصل ہوئی تو انہیں لاہور میں "قاضی القضاۃ" مقرر کیا۔ شہید نور اللہ نے ایک شرط پر اسے قبول کیا کہ وہ کوئی بھی فتویٰ مذاہب اربعہ یعنی شافعی، حنفی، حنبلی اور مالکی میں سے اپنی رائے اور اجتہاد سے دیں گے کسی ایک فقہ کا پابند نہیں ہوگا۔ بادشاہ نے یہ بات مان لی چنانچہ قاضی نے تمام فتویٰ امامیہ فقہ کے مطابق دینا شروع کیے جو کسی نہ کسی مذاہب اربعہ کے مطابق ہوا کرتے تھےاور آپ کے فیصلے منصفانہ ہوتے تھے -شہید ثالث علامہ نوراللہ شوستری محبت علی ابن ابی طالب ع میں شہید ہوئے -
شہید ثالث، شوستری اور قاضی کی وجہ تسمیہ:دمشق اور استنبول میں دو بزرگوں کی شہادت کے کئی سالوں بعد ہندوستان میں قاضی نور اللہ شوستری شہید ہوئے تو شہید ثالث -تیسرے شہید کہلائے، یعنی علمائے شیعہ میں شہید ثالث۔ محمد ابن مکی شہید اول، شیخ زین الدین شہید ثانی اور نور اللہ شوستری شہید ثالث ہیں۔ قاضی کا درجہ وہی مقام رکھتا ہے جو دور حاضر میں جسٹس کا ہوتا ہے۔ قاضی نور اللہ شہید شوستر میں پیدا ہوئے تھے اسی نسبت سے وہ شوستری کہلائے۔ مشہد مقدس میں علمِ دین سیکھنے کے بعد ہندوستان تشریف لائے۔-تصانیف:شہید ثالث کی متعدد تصانیف ہیں، جن میں "مجالس المومنین" اور "احقاق الحق" چھپ چُکی ہیں۔ مجالس المومنین ہی آپ کا شاندار شاہکار ہے اور خاص مرتبہ رکھتی ہے، مزید انہوں نے بیسیوں عربی اور فارسی زبان میں رسالے بھی لکھے۔
چیف جسٹس کا عہدہ:قاضی نور اللہ مخالفین میں تقیہ یا اپنے عقائد کو خفیہ رکھتے تھے وہ اہل سنت کے مذاہب اربعہ کے فقہی مسائل پر مکمل دسترس رکھتے تھے، اس لیے اکبر بادشاہ اور عام لوگ انہیں سنی سمجھتے تھے، جب اکبر بادشاہ کو ان کے علم و فضل اور لیاقت سے آگہی حاصل ہوئی تو انہیں لاہور میں "قاضی القضاۃ" مقرر کیا۔ شہید نور اللہ نے ایک شرط پر اسے قبول کیا کہ وہ کوئی بھی فتویٰ مذاہب اربعہ یعنی شافعی، حنفی، حنبلی اور مالکی میں سے اپنی رائے اور اجتہاد سے دیں گے کسی ایک فقہ کا پابند نہیں ہوگا۔ بادشاہ نے یہ بات مان لی چنانچہ قاضی نے تمام فتویٰ امامیہ فقہ کے مطابق دینا شروع کیے جو کسی نہ کسی مذاہب اربعہ کے مطابق ہوا کرتے تھے۔ اکبر بادشاہ کی وفات کے بعد جہانگیر تختِ سلطنت پر بیٹھا تو قاضی نور اللہ اپنے عہدے پر قائم رہے لیکن مخالف علماء کو یہ قبول نہیں تھا، کئی مرتبہ بادشاہ کو بتایا گیا کہ قاضی نوراللہ شیعہ مسلک سے ہیں لیکن وہ اپنا عقیدہ چھپاتے ہیں اور تمام فتاویٰ کو مسلک شیعہ کے مطابق دیتے ہیں۔
شہادت اور مزار -علمائے مخالفین اس گھات میں تھے کہ کسی طرح سے قاضی کی شیعت کو ثابت کیا جائے اور قتل کا حکم جاری کروایا جائے۔ ایک منظم سازش کے تحت ایک شخص کو قاضی نور اللہ کے پاس بھیجا گیا وہ شیعہ بن کر قاضی کی وہ کتابیں حاصل کرے جو وہ خفیہ طور پر رات کو لکھتے ہیں۔ وہ شخص روز بروز اعتماد بناتا رہا اور مجالس المومنین کتاب کے بعض حصے جو علماء کرام کے نزدیک متنازعہ تھے لیکر دربار جہانگیر میں پیش کردیئے۔ اسی شاگرد نما دشمن کی جاسوسی کے باعث دربار میں سزا مقرر ہوئی۔ شہید ثالث کو خار دار دُرے لگائے گئے حتیٰ کہ شہید ہوگئے، آگرہ میں شہادت کے بعد اسی جگہ مزار بنایا گیا۔ مزید روایت ہے کہ شہادت کے بعد کئی دن تک لاش بے گوروکفن رہی اور پھر ایک شخص کے خواب میں جناب سیدہ فاطمہ (س) نے حکم دیا کہ میرے فرزند کو دفن کردیں، جب یہ خواب متعدد افراد کو آیا تو دریا کے قریب سے لاشہ برآمد کرکے کفن و دفن کا انتظام کیا گیا۔ شہادت کے دو سو سال یا ڈیڑھ سو سال بعد 1774 میں قبر پر روضہ تعمیر ہوا اور باغ بھی لگایا گیا۔ لوگ ان کے مزار پر ہندوستان بھر سے منت ماننے کے لیے سفر کرتے تھے اور اب بھی یہ عمل جاری ہے۔
سلام بر شہیدِ ثالث:شہید ثالث نے مشکل ترین وقت میں عقائد کی ترویج کی، آج اگر برصغیر میں ہمارے پاس حقیقی تشیع اور عقائد پہنچے ہیں تو وہ شہید ثالث قاضی نور اللہ کی تصانیف اور کاوشوں کی بدولت ہیں۔ پروردگار شہید کے درجات بلند کرے۔ آمین شہید ثالث حوزہ/ آگرہ میں موجود آپ کا روضہ اہل ایمان کی زیارت گاہ ہے جہاں سالانہ ہزاروں زائرین زیارت کا شرف حاصل کرتے ہیں اور آپ کے دشمن تاریخ کے قبرستان میں گمنام ہو گئے۔ شہید سعید فقیہ اہلبیت قاضی سید ضیاء الدین نوراللہ شوشتری المعروف بہ شہید ثالث رحمۃ اللہ علیہ 956 ہجری کو ایران کے صوبہ خوزستان کے شہر شوستر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد جناب سید شریف الدین رضوان اللہ علیہ معقولات و منقولات کے برجستہ اور ماہر عالم تھے۔ قاضی علامہ نوراللہ شوستری کے بچپن کے حالات-قاضی نوراللہ شوستری نے ابتداٸی تعلیم اپنے والد اور دوسرے فاضل علما سے شوستر میں حاصل کی انہوں نے کتب اربعہ کے علاوہ فقہ اصول اور کلام کی کتابیں پڑھیں۔ 979 ھجری میں آپ مشہد گٸے اور وہاں علامہ محقق عبدالواحد تستری کے دروس میں شرکت کی ھجری میں مذھب فقہ جعفریہ کی اشاعت کے لیے ہندوستان تشریف لاٸے ۔وہ محدث ، فقیہ ، کلام اور مناظرہ کے ماہر ، ادیب ، شاعر اور زاہد تھے۔ ان کی جلالت اور شرافت کے باعث عظیم مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے قاضی نوراللہ شوستری کو قضاوت کے عہدہ کی پیشکشفقہ، اصول، کلام اور ریاضی جیسے علوم کی بنیادی اور ابتدائی تعلیم حاصل کا