ہفتہ، 24 ستمبر، 2022

خلد بریں کے سفر پر روانہ ہوئے امام حسن

 

خلد بریں کے سفر پر روانہ ہوئے امام حسن

اپنے نانا سے ملنے روانہ ہوئے  امام حسن 

ہے تیروں کی بارش جنازے پہ دیکھو 

یہ امّت کا اجر رسالت ' تماشہ تو دیکھو

روایات کے مطابق ۲۸ صفر سبط اکبر رسول خدا، حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شھادت کا دن ہے، وہ امام جس کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے جوانان جنت کا سردار قرار دیا۔ رسول اکرم 'ہادئ دوجہاں صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم آپ علیہ السّلام سے بہت محبّت کرتے تھے-لیکن وائے زمانے جس نبی نے اپنا اجر رسالت اپنی آل سے محبّت کی شکل میں مانگا تھا وہ کتنی جلدی آپ کی آل کی خون کی پیاسی ہو گئ اور زہر ہلاہل سے آپ کو شہید کر ڈالا -قاتلہ کو لالچ دی گئ تھی کہ امام حسن کو قتل کرے گی تو اس کی شادی یذید سے کی جائے گی -جب اس نے اپنا کام مکمّل کر لیا تب وہ محل شام پہنچی اور اپنا عوض طلب کیا تو اس کے ہاتھ اور پاوں باندھ کر اسے دریا برد کر دیا گیا  تاکہ قتل کی گواہی مٹ جائے

امام حسن مجتبی علیہ السلام: بے شک ہماری محبت بنی آدم سے گناہوں کو اسی طرح گرادیتی ہے جس طرح ہوا کا جھونکا درخت سے (سوکھے )پتوں کو گرادیتا ہے ۔

  اے بنی آدم! محرمات الٰہی سے باز رہو تو عابد بن جاؤ گے ۔ 

اللہ کی تقسیم سے راضی رھو تو بے نیاز ہو جاؤ گے ۔ 

  جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے اس کی ایک دعا مستجاب ہے چاہے جلدی چاہے تاخیر سے ۔بے شک قرآن میں ہدایت کے روشن چراغ اور دلوں کی شفا ہے لہٰذا اپنی آنکھوں کو اس کے ذریعہ جلا بخشو اور اپنے دل کو اس کے ذریعہ صیقل دو۔

 غور وفکر کرنا بصیر آدمی کے دل کی زندگی ہے جس طرح تاریکی میں راستہ چلنے والا اپنے ساتھ روشنی لے کر چلتا ہے

اس قرآن میں ہدایت کی روشنی کے چراغ اور دلوں کی شفا ہے ۔

۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: جو نماز پڑھنے کے بعد طلوع آفتاب تک اپنے مصلے پر بیٹھا رہے اس کو جہنم کی آگ سے بچنے کی سپر حاصل ہو جاتی ہے ۔

  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ماہ رمضان کو اپنی مخلوقات کے لئے مسابقہ کا میدان قرار دیا ہے کہ جس میں مخلوقات خدا کی اطاعت کے ذریعہ اس کی مرضی حاصل کرنے پر سبقت لیتے ہیں جہاں ایک گروہ سبقت لے کر کامیاب ہو جاتا ہے اور دوسرا کوتاہی کر کے گھاٹے میں رہ جاتا ہے ۔

  جو علماء کی ہمنشینی میں زیادہ رہے گا اس کی زبان کا بندھن کھل جائے گا اور اس کے ذہن کی گرھیں وا ہو جائیں گی۔اور اپنے نفس میں رشد وارتقاء کا سرور پائے گا اور مذید کی جستجو رکھو اگر اسے حفظ نہ کرپاؤ تو لکھ لو اور اپنے گھروں میں محفوظ رکھو ۔

  جو اللہ کی معرفت رکھے گا اللہ اس سے ضرور محبت کرے گا، اور جو دنیا کی محبّت اپنے دل میں رکھے گا وہ دنیا  میں غلطاں ہو جائے گا

۔  کسی کو اپنا اس وقت تک دوست نہ بناؤ جب تک کہ اس کے اٹھنے بیٹھنے کی جگہ نہ سمجھ لو ۔ اور جب تمہیں معلومات فراہم ہو گئیں اور اس کی ہمنشینی سے تم راضی ھوگئے تو پھر اسے اپنا دوست اور بھائی بنالو اور اس کی کوتاہیوں سے در گذر کرو اور مشکل وقت میں اس کے کام آؤ ۔

 بخل یہ ہے کہ انسان جو انفاق کرے اسے تلف سمجھے اور جسے بچالے اسے شرف سمجھے

 زنا نہ کرنا، چوکھٹ کو صاف رکھنا، برتن کو دھلا ہوا رکھنا بے نیازی و ثروت کا باعث ہے ۔

سیاست یہ ہے کہ حقوق اللہ، زندوں اور مردوں  کے حقوق کی رعایت کرو 

 نعمت پر شکر ادا کرنا، اور مصبیت پر صبر کرنا ہے ۔خدا کو بہت پسند ہے

 اے بنی آدم ! تم جب سے اپنی ماں کے شکم سے باہر آئے ہو مسلسل اپنی زندگی کی عمارت ڈھار ہے ہو لہٰذا جو سامنے آنے والا ہے (قیامت) اس کے لئے موجودہ زندگی سے توشہ فراہم کر لو کہ مومن زاد راہ فراہم کرتا ہے اور کافر لذتوں میں مست رہتا ہے ۔

 جو تمہیں ڈراتا رہے یہاں تک کہ تم اپنی آرزو کو پالو اس شخص سے بہتر ہے جو تمہیں اطمینان دلاتا رہے یہاں تک کہ تمہیں خوف لاحق ہو جائے ۔

 تم سے نزدیک وہ ہے جو مودت و محبت کے ذریعہ تم سے قریب ہو ا ہے چاہے حسب ونسب کے اعتبار سے دور ہی کیوں نہ ہو۔ اور دور وہ ہے جو محبت کے اعتبار سے دور ہے چاہے تمہارا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔

کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا فقر و تنگدستی کو ختم کرتا ہے اور کھانے کے بعد ھم وغم کو دور کرتا ہے ۔

آپؑ  کا علمی مقام-یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ آئمہ معصومینؑ علم لدنی کے مالک ہیں اس لیے وہ کسی سے تحصیل علم کے محتاج نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں ہی ایسے مسائلِ علمیہ سے واقف ہوتے ہیں جن سے عام لوگ حتّی کہ دانشمند حضرات بھی آگاہ نہیں ہوتے۔ امام حسنؑ نے بھی بچپن میں لا تعداد ایسے عملی مسائل کے جوابات دیئے کہ جن سے بڑے بڑے اہلِ علم عاجز تھے۔ ہم یہاں فقط ایک سوال کا جواب ہی پیش کر سکتے ہیں: آپؑ سے پوچھا گیا: 

وہ دس چیزیں کونسی ہیں جن میں سے ہر ایک کو خداوند عالم نے دوسرے سے سخت پیدا کیاہے؟آپؑ نے جواب میں فرمایا: ‘‘خدا نے سب سے زیادہ سخت پتھر کو پیدا کیا ہے مگر اس سے زیادہ سخت لوہا ہے جوپتھر کو بھی کاٹ دیتا ہے اور اس سے بھی زیادہ سخت آگ ہے جو لوہے کو پگھلا دیتی ہے اور آگ سے زیادہ سخت پانی ہے جو آگ کو بجھا دیتا ہے اور اس سے زیادہ سخت اور قوی ابر ہے جو پانی کو اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے اور اس سے زیادہ طاقتور ہوا ہے جو ابر کو اڑائے پھرتی ہے اور ہوا سے سخت تر وقوی فرشتہ ہے جس کی ہوا محکوم ہے اوراس سے زیادہ سخت و قوی ملک الموت ہے جو فرشتۂ باد کی بھی روح قبض کرلے گا اور موت سے زیادہ قوی حکمِ خداہے جو موت کو بھی ٹال دیتا۔


جمعہ، 23 ستمبر، 2022

خواجہ نظام الدّین اولیا ءاور نسبت امام علی نقی علیہ السّلام

خواجہ نظام الدّین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اور نسبت امام علی نقی علیہ السّلام



 
سلطان المشائخ المعروف محبوبِ ا لٰہی  اللہ علیہ کے  والد سید علی بخاری علیہ الرحمہ، حضرت سید عرب علیہ الرحمہ کے حقیقی چچا
زاد بھائی تھے اس طرح  خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ ء نسب   نجیب الطّرفین سادات سے  جا ملتا ہے    یہ وسطِ ایشیا کی ایک ریاست ازبکستان کے شہر بخارا  میں اپنے آبائ وطن سرزمین عرب کو   ترک کر کے یہاں آ بسے تھے  
ان کا تعلّق اہلِ تشیع کے سلسلہء امامت کے نویں امام علی نقی علیہ
السّلام سے تھا  بخاری کہلائے جانے کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ
امام علی نقی علیہ السّلام کے یہاں دو صاحبزادگان پیدا ہوئے  ان صاحبزادگان نے 
 اپنے آبائ وطن سر زمین عرب کو خیر باد کہ کر وسط ایشیا ئ ریاست  کے شہر  بخارا کو رہنے کے منتخب کیا اور ان میں سے ایک بھائ نے  اپنے نام کے ساتھ
نقوی لگانے کے بجائے بخارا کی نسبت بخاری کہلانا پسند کیا جبکہ دوسرے
صاحبزادے نے اپنے نام کے ساتھ اپنے پدر گرامی امام علی نقی علیہ
السّلام کے نام کی نسبت نقوی نام کا لاحقہ پسند کیا 
امام علی نقی علیہ السّلام سے نسبتِ خاص ہونے کے سبب یہ خاندان خود بھی ولیوں کا خاندان تھا 
سید عرب علیہ الرحمہ   طویل عرصے سے
بخارا میں مقیم تھے۔ تجارت آپ کا پیشہ تھا اور اﷲ نے آپ کی روزی میں بہت
برکت دی تھی۔ مشہور مورخ خاقی خان کی روایت کے مطابق حضرت سید عرب علیہ
الرحمہ حضرت خواجہ عثمان ہرونی علیہ الرحمہ کے مرید اور خلیفہ تھے۔
خاندان چشتیہ کے یہ وہی مشہور بزرگ ہیں جو سلطان الہند حضرت خواجہ معین
الدین چشتی علیہ الرحمہ کے پیرومرشد تھے۔ اس طرح حضرت سید عرب علیہ
الرحمہ اور حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ میں رشتہ سادات کے علاوہ
رشتہ روحانی بھی موجود تھا۔ حضرت سید عرب علیہ الرحمہ بخارا میں اقامت گزین ہوتے ہوئے
 بہت دنوں سے
ہندوستان جانے کے بارے میں سوچ رہے تھے تاکہ اس ملک کے حالات کا جائزہ لے
کر تجارتی روابط قائم کرسکیں۔
کچھ دن بعد حضرت سید عرب علیہ الرحمہ نے خواب میں دیکھا۔ کوئی شخص انہیں
مخاطب کرکے کہہ رہا تھا

’’سید! تمہارا ارادہ نیک ہے، ہندوستان چلے جاؤ‘‘

اب سید عرب علیہ الرحمہ کو یقین ہوگیا کہ عازم ہندوستان ہونے کا خیال بے
سبب نہیں تھا۔ آپ نے زوجہ محترمہ سے اپنا خواب بیان کیا، وہ ایک وفا شعار
خاتون تھیں۔ انہوں نے شوہر کے خواب کو حقیقت سمجھا اور رضامندی کا اظہار
کردیا۔

حضرت سید علی بخاری علیہ الرحمہ، حضرت سید عرب علیہ الرحمہ کے حقیقی چچا
زاد بھائی بھی تھے اور دونوں میں بہت گہری دوستی بھی تھی۔ جب سید عرب
علیہ الرحمہ ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے تو سید علی بخاری علیہ الرحمہ
بھی ہمراہ تھے۔ کچھ دنوں تک یہ دونوں بزرگ اور دونوں بھائی لاہور میں
مقیم رہے اور پھر ان دونوں سید خاندانوں نے بدایوں میں مستقل سکونت
اختیار کرلی۔ سید عرب علیہ الرحمہ کے دو صاحبزادے تھے۔ خواجہ عبداﷲ علیہ
الرحمہ اور خواجہ سید محمودعلیہ الرحمہ ۔ ایک صاحب زادی بی بی زلیخا علیہ
الرحمہ تھیں، جنہیں زہدوتقویٰ کے سبب اپنے زمانے کی رابعہ بصری علیہ
الرحمہ کہا جاتا تھا۔ سید عرب علیہ الرحمہ کے سینکڑوں خدمت گارتھے جو آپ
کے پیسے سے تجارت کرتے تھے۔ سید عرب علیہ الرحمہ کا شمار امیر وکبیر
لوگوں میں ہوتاتھا۔ جب بی بی زلیخا علیہ الرحمہ جوان ہوئیں تو سید عرب
علیہ الرحمہ نے اپنے چچا زاد بھائی اور دوست سید علی بخاری علیہ الرحمہ
سے کہا۔

’’میں چاہتا ہوں کہ میرے اور تمہارے خاندانی رشتے زیادہ مضبوط ہوجائیں‘‘

سید علی بخاری علیہ الرحمہ سید عرب علیہ الرحمہ کی گفتگو کا مفہوم سمجھنے
سے قاصر رہے۔

’’یہ رشتے روز اول کی طرح مضبوط ہیں اور بفضل خدا آئندہ بھی اسی طرح
استوار رہیں گے‘‘

’’علی! تم جانتے ہو کہ میری بچی زلیخا سن بلوغت کو پہنچ چکی ہے۔ اس لئے
میں اس کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں‘‘

سید عرب علیہ الرحمہ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔

’’کوئی لڑکا آپ کی نظر میں ہے؟‘‘

سید علی علیہ الرحمہ نے پوچھا۔

’’تمہارے بیٹے سید احمد سے بہتر لڑکا کون ہوسکتا ہے؟‘‘

سید عرب علیہ الرحمہ نے دوست کے سامنے اپنا عندیہ ظاہر کردیا۔

’’نہیں شیخ! وہ آپ کے ہم پایہ نہیں ہے‘‘

سید علی علیہ الرحمہ نے کسی تکلف کے بغیر کہا۔

’’میرے اور آپ کے معاشی حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ ظلم ہے کہ
نازونعم میں پرورش پانے والی لڑکی کو ایک ایسے شخص سے وابستہ کردیا جائے
جس کے ذرائع آمدنی بہت محدود ہوں‘‘

’’علی! تم نہیں جانتے کہ کثرت مال کے باوجود میں نے اپنے بچوں کو فقر و
قناعت کی تعلیم دی ہے‘‘

سید عرب علیہ الرحمہ نے کہا۔

’’میں اپنی بیٹی کا ہاتھ اس نوجوان کے ہاتھ میں دے رہا ہوں جو زہد وتقویٰ
اور علم کی دولت سے مالا مال ہے‘‘

آخر سید علی علیہ الرحمہ اس نئے رشتے پر رضامند ہوگئے اور 615ھ میں سید
احمد بخاری علیہ الرحمہ اور بی بی زلیخا علیہ الرحمہ کی شادی ہوگئی۔

بیٹی کی شادی کے ایک سال بعد 616ھ میں سید عرب علیہ الرحمہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

سید احمد بخاری علیہ الرحمہ بی بی زلیخا علیہ الرحمہ جیسی نیک سیرت خاتون
سے وابستگی کے بعد بہت خوش تھے لیکن حالات کی تنگی کے باعث اکثر کہا کرتے
تھے

’’میں تمہیں وہ آسائشیں نہیں دے سکتا جن کی تم بچپن سے عادی رہی ہو‘‘

بی بی زلیخا علیہ الرحمہ اپنے شریک زندگی کی تالیف قلب کے لئے عرض کرتیں

’’ایک مسلمان عورت کی آسائشوں کی معراج یہ ہے کہ اس کا شوہر اس سے راضی رہے‘‘

’’بی بی! میں دل و جان کے ساتھ تم سے راضی ہوں مگر یہ خلش مجھے ہمیشہ بے
چین رکھتی ہے‘‘

سید احمد بخاری علیہ الرحمہ ایک حساس انسان تھے۔ اس لئے بی بی زلیخا علیہ
الرحمہ کی تکلیف کا خیال کرکے بے قرار ہوجاتے تھے۔ شادی سے پہلے یہ صورت
تھی کہ بی بی زلیخا علیہ الرحمہ کی خدمت کے لئے کئی نوکرانیاں مامور تھیں
… اور اب یہ حال تھا کہ انہیں اپنے ہاتھوں سے گھر کا سارا کام کاج کرنا
پڑتا تھا۔

پھر کچھ دن بعد سلطان شمس الدین التمش کے حکم کے مطابق سید احمد بخاری
علیہ الرحمہ کو بدایوں کے عہدہ قضا پر فائز کردیا گیا۔ والی ہندوستان نے
سید احمد بخاری علیہ الرحمہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا۔

’’مجھے دیر سے خبر ملی کہ بدایوں میں آپ جیسا صاحب کردار شخص موجود ہے۔
براہ کرم عہدہ قضا قبول فرمایئے اور اسلامی سلطنت کے استحکام میں میرے
ساتھ تعاون کیجئے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں گے
اور اس مقدس عہدے کوامراء کی دراز دستیوں سے محفوظ رکھیں گے‘‘

حضرت سید علی علیہ الرحمہ نے سلطان شمس الدین التمش کا شکریہ ادا کیا اور
اس دعا کے ساتھ کرسی انصاف پر جلوہ افروز ہوئے۔

’’اے قادر و عادل! اپنے اس کمزور بندے سید علی کو اتنی طاقت عطا کر کہ وہ
اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براں ہوسکے‘‘

حضرت سید علی بخاری علیہ الرحمہ نے کبھی کسی امیر و وزیر کی سفارش قبول
نہیں کی اور آزادانہ فیصلے کئے۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ برسر اقتدار
طبقے کے کسی فرد کو ملزم کی حیثیت سے عدالت میںلایاجاتا مگر آپ اسے کسی
قسم کی رعایت نہ دیتے۔ آپ کے اس طرز عمل کے خلاف دربار سلطانی میں شکایت
کی گئی کہ سید احمد بخاری علیہ الرحمہ امراء کا لحاظ نہیں رکھتے۔

والی ہندوستان شکایت کرنے والوں کو سردبار جھڑک دیتا

’’سید احمد بخاری علیہ الرحمہ بحسن و خوبی اپنا فرض ادا کررہے ہیں۔ اگر
مجھے یہ اطلاع دی جاتی کہ بدایوں کے قاضی امراء کے احترام میں کھڑے
ہوجاتے ہیں تو میں ان کی گرفت کرتا۔ یہ تو ان کے منصف ہونے کی روشن دلیل
ہے کہ وہ مقدمے کے دوران بیرونی اثرات کو قبول نہیں کرتے۔ آئندہ اس قسم
کی شکایتیں کرکے میرا وقت برباد نہ کیا جائے‘‘

حضرت سید احمد بخاری علیہ الرحمہ کی زندگی پرسکون تھی مگر پھر بھی ایک
خلش انہیں مضطرب رکھتی تھی۔ شادی کو پندرہ سال ہوچکے تھے مگر سید احمد
بخاری علیہ الرحمہ اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ بی بی زلیخا علیہ الرحمہ
بھی اکثر اداس رہا کرتی تھی۔ سید احمد علیہ الرحمہ انہیں مختلف انداز میں
تسلیاں دیتے۔ جواب میں بی بی زلیخا علیہ الرحمہ فرماتیں۔

’’میں اداس ضرور ہوں مگر رحمت حق سے مایوس نہیں ہوں‘‘

آپ اکثر رات کے سناٹے میں وہ دعا مانگا کرتے تھے جو حضرت ذکریا علیہ
السلام کا ورد تھا۔ اﷲ کے یہ محبوب پیغمبر اولاد کی تمنا کرتے کرتے بوڑھے
ہوچکے تھے مگر آپ نے امید کا دامن نہیں چھوڑا تھا۔ روزانہ نصف شب کو خالق
کائنات کے سامنے اپنا دامن مراد پھیلا دیتے تھے اور گریہ و زاری کے ساتھ
عرض کرتے تھے۔

’’اے میرے رب! مجھے تنہا نہ چھوڑ کہ تو بہتر وارث دینے والا ہے‘‘

پھر ایک دن جلیل القدر نبی حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے جو حضرت
ذکریا علیہ السلام کی مراد تھے۔

حضرت سید احمد بخاری علیہ الرحمہ بھی رات کی تاریکیوں میں غمناک آنکھوں
کے ساتھ یہی دعا مانگا کرتے تھے۔

آخر دعائیں مقبول ہوئیں اور 636ھ میں بی بی زلیخا علیہ الرحمہ کے بطن سے
ایک ایسا بچہ پیدا ہوا جس کے چہرے کی روشنی سے گھر کے دروبام منور ہوگئے۔
بچے کا نام سیّد  محمد رکھا گیا۔  ۔
 ابھی یہ بچّہ صغیر سن ہی تھا کہ گھر کے دروازے پر ایک اجنبی مردِ قلندر نے آواز دی اور سیّد محمّد جیسے ہی دروازے پر گئے اجنبی نے انہیں نظام الدّین کا لقب عطا کر دیا   اور یہی لقب آپ کے لئے زبانِ زدِ عام ہو گیا 
 ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,لیکن آپ کو آپ کی والدہ پیار سے نظام کہ کر پکارتی تھیں ،،ابھی تو بچپن کا ابتدائ زمانہ ہی بیت رہا تھا کہ والد گرامی کا  مظبوط سایہ سر سے اٹھ لیکن آپ کی باہمّت اور خودادر والدہ بی بی زلیخا نے  ناتو اپنے امیر کبیر میکے سے مدد چاہی اور نا ہی بچّے کو تحصیلِ علم کی راہ میں مالی مشکلات کا شکار ہونے دیا
 اور اپنے گھر کی چاردیواری میں بیٹھ کر سوت کات کات کر ہونہار بیٹے کی تعلیم پوری کرتی رہیں  یہاں تک کہ  حضرت خواجہ نظام ا لدّین رحمۃ اللہ علیہ کے سر پر دستار ِ فضیلت باندھنے کا وقت آ پہنچا
 سولہ سال کی عمر
میں دہلی تشریف لائ۔ اپنے وقت کے فاضل ترین اساتذہ سے حدیث، فقہ، ہیئت،
اصول، تفسیر اور علم ہندسہ کی تعلیم حاصل کی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں اپنے
علم کی وسعت اور قوت استدلال کے سبب ’’محفل شکن‘ کہلائے… اور نوجوانی ہی
میں تمام علمائے ہند پر سبقت لے گئے۔ عوام میں آپ کی محبوبیت کا یہ عالم
تھا کہ قیامت تک کے لئے  محبوب الٰہی قرار پائے۔ سلطان علاؤ الدین خلجی
جیسا باجبروت حکمران زندگی بھر حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی
زیارت کے لئے ترستا رہا مگر آپ علیہ الرحمہ نے اسے ملاقات کا شرف نہیں
بخشا۔گیا ۔

بدایوں شریف سے علمِ حصولی کی تحصیل کے بعد  والدہ محترمہ اور ہمشیرہ صاحبہ کے ساتھ دہلی تشریف لائے
اوریہاں سلطان التمش کے اتالیق مولانا شمس الملک سے علومِ ظاہری کی اعلیٰ
تعلیم حاصل کی اور بہت جلد آپ کا شمار دہلی کے ممتاز علماءو فضلاءمیں
ہونے لگا۔شروع دن سے ہی آپ کے قلب مبارک میں عشق الٰہی کی شمع روشن تھی
تمام تر دینی و دنیوی علوم میں اوج و کمال کے باوجود علم حقیقت و معرفت
کی تشنگی ان کے دل کو بیقرار رکھتی تھی۔انہیں روحانی و باطنی رہنمائی کے
لیے ایک مرشد کامل کی شدید آرزو تھی ایک بارجب آپ قطب الاقطاب حضرت خواجہ
قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کے آستانہ عالیہ کی زیارت کے لیے
وہاں حاضر ہوئے تو ایک مجذوب بزرگ سے ملاقات ہوئی آپ نے ان سے دعا کی
درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں دہلی شہرکے قاضی کے عہدہ پر فائزکر دے
ان بزرگ نے فرمایا: نظام الدین تم قاضی بنناچاہتے ہو،میں تو تمہیں دینِ
حق کے بادشاہ کے عہدہ پر فائز دیکھ رہا ہوں، تم وہ بلند مرتبہ حاصل کروگے
کہ ساری دنیا تم سے فیض پائے گی۔حضرت کے دوست مرّبی اور اپنے وقت کے بہت
بڑے ولی کامل حضرت خواجہ نجیب الدین متوکل رحمة اللہ علیہ نے بھی حضرت
محبوبِ الٰہی سے فرمایا تھا تم قاضی نہیں ایسی چیز بنوگے جسے میں جانتا
ہوں اور پھر ایک دن ابو بکر نامی ایک قوال ملتان سے دہلی پہنچا اس کی
زبانی حضرت خواجہ فرید الدین چشتی گنج شکر رحمة اللہ علیہ کے حالات و
کمالات سنے آپ کے دل میں بابا صاحب سے محبت کا ایسا شدید غائبانہ جذبہ
بیدار ہواکہ آپ ان کی زیارت کے لیے بیقرارہوگئے اور اجودھن پہنچ کرحضرت
بابا فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔حضرت صاحب
علیہ الرحمہ کو بہ تائید ربانی حضرت نظام الدین کی روحانی خصوصیات کا علم
تھا۔یقیناً حضرت بابا فرید رحمة اللہ علیہ اس امر سے آگاہ تھے کہ نظام
الدین کو اللہ پاک نے کس عظیم خدمت کے لیے تیارکیاہے۔حضرت نظام الدین
بابا صاحب کے مریدبنے اور چند ماہ اپنے مرشد برحق کی خدمت میں رہ کر ان
کی خصوصی توجہ اور محبت حاصل کی اور خرقہ خلافت کی نعمت سے سرفراز ہوکر
دہلی واپس تشریف لائے اور مرشد کے فرمان کے مطابق مجاہدہ اور عبادات میں
مشغول ہوکرمادی دنیاکی تمام خواہشات اور آرزﺅں سے الگ ہوگئے۔آپ ہمیشہ
روزہ رکھتے تھے عبادات اور سخت ریاضت کے ساتھ ساتھ آپ درس و ہدایت اور
اصلاح معاشرہ کے فرائض بھی انجام دیتے ۔دلی شہر میں آپ کی عظمت و بزرگی
کا زبردست شہرہ ہوا اور ہر وقت ارادتمندوں کا ہجوم آپ کے ارد گرد رہنے
لگا اس سے آپ کی عبادات میں خلل پڑنے لگا، آبادی سے گھبرا کر آپ ایک دن
موضع حوض رانی کے قریب ایک باغ میں جاکر یادِ الٰہی میں مشغول ہوئے۔وہاں
آپ نے دعا مانگی اے اللہ! میں اپنے اختیار سے کہیں رہنا نہیں چاہتاجہاں
تیری رضا ہو مجھے وہاں رکھ۔غیب سے آواز آئی غیاث پور تیری جگہ ہے (واللہ
علم) یہ وہی جگہ ہے جہاں آج بستی حضرت نظام الدین اولیاءکا شاندارعلاقہ
ہے۔اس وقت غیاث پور ایک چھوٹا ساگاﺅں تھا اللہ کے حکم سے آپ نے اس متبرک
مقام پر قیام فرمایا۔یہ سلطان غیاث الدین بلبن کا دورِ حکومت تھا۔سلطان
آپ کا بے حد معتقد تھااس نے آپ سے شہر میں قیام فرمانے کی درخواست کی
لیکن آپ نے منع فرما دیاآپ کی برکتوں سے وہ ویران مقام بہت جلد زیارت گاہ
خلق بنا۔دور دور سے ہزاروں لوگ آپ کی دعاﺅں سے اپنی زندگی سنوارنے کے لیے
حاضر ہونے لگے یہاں تک کہ آپ کی محبوبیت اور آپ کی ہر دلعزیزی کی شہرت

ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں تک پھیلتی گئی۔  حضرت سلطان المشائخ محبوب الہی نظام الدین اولیا کی ولادت  یو پی کے مشہور شہر بدایوں میں ہوئی تھی۔ پیدائش کے سنہ میں اختلاف ہے کوئی 634ھ کہتا ہے کوئی 636ھ۔  وصال دہلی میں  18 ربیع الثانی 725ھ کو ہوا۔  ماں باپ:  حضرت کی والدہ اور والد دونوں بڑے نیک اور خدا رسیدہ بزرگ تھے۔  والدہ کا نام سیدہ بی بی زلیخا تھا اور والد کا اسم گرامی سید احمد تھا۔  والدہ کا خواب:  سیدہ بی بی زلیخا اور حضرت سید احمد کو اللہ تعالی نے دو بچے عنایت کیے تھے۔ ایک سید محمد جو بعد میں سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الہی کے نام سے مشہور ہوئے اور دوسری صاحبزادی سیدہ بی بی زینب یہ دونوں بچے ابھی بہت کم عمر تھے کہ والدہ ماجدہ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی پوچھتا ہے بیٹا چاہتی ہو یا شوہر؟ ان کے منہ سے بے اختیار نکل گیا بیٹا! نیند سے ہوشیار ہوئیں تو افسوس کرنے لگیں کہ میں نے بیٹے کی بجائے شوہر کیوں نہ کہا مگر پھر اس خیال سے دل کو تسلی دے لی کہ خواب کی باتیں اپنے اختیار کی تھوڑی ہوتی ہیں۔ اس واقعے کے بعد خدا کا کرنا یہ ہوا کہ حضرت سید احمد اپنے دونوں چھوٹے چھوٹے بچوں اور اہلیہ محترمہ سیدہ بی بی زلیخا کو چھوڑ کر جنت سدھار گئے۔ ا

گرچہ حضرت سیدہ بی بی زلیخا نے میکے والوں سے امداد لینی پسند نہیں کی اور خود محنت مشقت کر کے اپنے یتیم بچوں کی پرورش کرنے لگیں۔ وہ سوت کاتا کرتی تھیں اور لونڈی اسے بازار میں جاکر بیچ آتی تھی۔ گزر بسر ہو جاتی تھی۔ مگر ایسی تنگی ترشی سے کہ بیوہ ماں اور بن باپ کے بچوں کو کئی کئی وقت کے فاقے کرنے پڑتے تھے۔ تاہم اس صابر خاتون کی پیشانی پر بل نہ آتا تھا اور پیارے بچے بھی ماں کے ساتھ راضی برضا رہتے تھے۔ اللہ میاں کے مہمان: جس دن حضرت کے ہاتھ فاقہ ہوتا تھا۔ ماں بچوں سے کہتی تھیں کہ آج ہم اللہ میاں کے مہمان ہیں! بچے سمجھ جاتے تھے کہ آج گھر میں کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے اور روٹی کی ضد کرنے کی بجائے بھوکے پیٹ ہی خوش رہتے تھے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ مجھے بچپن میں خدا کی مہمانی کا اتنا شوق ہو گیا تھا کہ اب کئی وقت تک ہم کو کھانا ملتا رہتا تھا تو میں والدہ سے پوچھا کرتا تھا کہ ہم اللہ میاں کے مہمان کب بنیں گے؟

تعلیم: بدایوں اس زمانے میں بڑا آباد شہر تھا اور یہاں بڑے بڑے عالم اور اولیا اللہ رہا کرتے تھے۔ حضرت محبوب الہی نے بھی ان علما سے تعلیم پائی اور بزرگوں کا فیض اٹھایا۔ حضرت مولانا علاالدین اصولی بھی حضرت کے استادوں میں تھے۔ ان کا مزار بدایوں شریف میں ہے استاد نے کہا کہ اب تم اس قابل ہو گئے ہو کہ دستار فضیلت تمہارے سر پر باندھی جائے چنانچہ حضرت کی والدہ ماجدہ نے خود اپنے ہاتھ سے سوت کاتا اور اس کی پگڑی بنی اور تمام مشائخ اور اولیااللہ کے جلسے میں حضرت کی دستاربندی ہوئی۔ دہلی تشریف آوری: بدایوں کی تعلیم پوری کرنے کے بعد حضرت مزید اعلی تعلیم کیلئے دہلی تشریف لائے اور یہاں کئی برس تک علم حاصل کرتے رہے اور دہلی کے مشہور علما مولانا شمس الملک اور استاد مولانا کمال الدین زاہد کو آپ کا استاد بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اس دوران کچھ عجب اتفاقات بھی ہوئے جن کے باعث حضرت نظام الدین اولیا کے دل میں حضرت بابا فرید گنج شکر کی محبت پکی ہوتی گئی۔ ادھر دہلی پہنچ کر حضرت ٹھہرے تو اتفاق سے حضرت شیخ نجیب الدین متوکل کے پڑوس میں ٹھہرے حضرت متوکل بابا صاحب کے بھائی اور بڑے عالم اور پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ ان سے حضرت کا کافی ملنا جلنا رہا۔ انہوں نے حضرت کو مشورہ دیا کہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے پاس اجودھن جا۔و حضرت محبوب الہی کی تو گویا مراد بر آئی۔ بچپن سے بابا صاحب کی محبت اور عقیدت دل میں بیٹھی ہوئی تھی فورا اجودھن روانہ ہوگئے۔

بیعت: حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الہی اجودھن (موجودہ پاک پتن) پہنچے تو یہ حضرت بابا صاحب کی ضعیفی کا زمانہ تھا اور حضرت محبوب الہی نوعمر تھے۔ بابا صاحب نے ان کو دیکھتے ہی شعر پڑھا۔ اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردہ (تیری جدائی کی آگ نے دلوں کو کباب کر رکھا ہے اور تیرے اشتیاق کے سیلاب نے جانوں کو خراب کررکھا ہے) حضرت بابا صاحب جیسے جاہ و جلال کا بزرگ ایک اجنبی نوجوان کیلئے یہ شعر پڑھے تو ظاہر ہے کہ نوجوان کا کیا حال ہوگا۔ حضرت بھی سہم کر دم بخود رہ گئے مگر جذبات اور عقیدت کے جوش میں اتنی بات ضرور زبان سے نکلی کہ آپ کی قدم بوسی کا بڑا اشتیاق تھا بابا صاحب نے ان کی کیفیت کو محسوس فرما لیا اور دل جوئی کے طور پر فرمایا نووارد پر اسی طرح خوف طاری ہوا کرتا ہے۔

 اجودھن پہنچ کر حضرت محبوب الہی حضرت بابا صاحب کے مرید ہو گئے اور ان کے آنکھوں تلے تعلیم و تربیت پانے لگے۔ اجودھن میں بابا صاحب نے حضرت کو خواجہ سید بدر الدین اسحاق کے سپرد کر دیا تھا کہ انہیں پیر کے ادب آداب سکھائیں۔ حضرت سید بدر الدین اسحاق حضرت بابا صاحب کے داماد اور خلیفہ تھےدہلی تشریف آوری: بابا صاحب کی خلافت معمولی چیز نہیں تھی۔ سلطان المشائخ کو دارالسطنت دہلی جیسے مرکزی مقام پر مامور کرنے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا کہ انہیں مملکت روحانی کا تاجدار بنایا جا رہا ہے مگر اس تاجدار کی اپنی تخت گاہ میں آمد کے وقت کیا شان تھی۔ اس کا انداز ذیل کے واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔ دہلی پر مغلوں کا حملہ: اس دوران دہلی پر  مغل فوج نے حملہ کر دیا علاالدین خلجی بادشاہ بڑا پریشان ہوا کیونکہ اس کی اچھی فوجیں باہر گئی ہوئی تھیں۔ مجبورا اس نے حضرت محبوب الہی کے پاس آدمی بھیجے تاکہ حضرت دعا فرمائیں اور اس کو فتح نصیب ہو

حضرت نے اس کی درخواست منظور کرکے دعا فرمائی اور کہہ دیا اطمینان رکھو کہ مغل فوج کل انشااللہ واپس چلی جائے گی۔کرامت: سب حیران تھے کہ حضرت کا یہ فرمان کیسے پورا ہوگا کیونکہ مغل حملہ آور شہر کا محاصرہ کیے پڑے تھے۔ بغیر لڑے بھڑے اور اپنا مقصد حاصل کیے وہ واپس کیسے جا سکتے تھے؟ مگر دوسرے دن سب حضرت کی کرامت کے قائل ہو گئے 

امام شافعی رحمۂ اللہ علیہ

محمد بن ادریس شافعی(امام شافعی) اذافی مجلس ذَکَرُواعلیاً وسِبْطَیْہِ وَفاطمةَ الزَّکیَةَ فَاجْریٰ بَعْضُھم ذِکریٰ سِوٰاہُ فَاَیْقَنَ اَنَّہُ سَلَقْلَقِیَةَ اِذٰا ذَکَرُوا عَلیَاً اَو ْبَنیہِ تَشٰاغَلَ بِالْرِّوایاتِ الْعَلِیَةِ یُقال تَجاوَزُوا یاقومِ ھٰذا فَھٰذا مِنْ حَدیثِ الرّٰافَضِیََّّةِ بَرِئتُ الی الْمُھَیْمِن مِن اناسٍ بَرونَ الرَّفْضَ حُبَّ الْفٰاطِمَیةِ عَلیٰ آلِ الرَّسولِ صَلوةُ رَبِّی وَ َلَعْنَتُہُ لِتِلْکَ الْجٰاھِلِیَّةِ

 ”جب کسی محفل میں ذکر ِعلی علیہ السلام ہویا ذکر ِسیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہاہویا اُن کے دوفرزندوں کا ذکر ہو، تب کچھ لوگ اس واسطے کہ لوگوں کو ذکر ِمحمد و آلِ محمدسے دور رکھیں، دوسری باتیں چھیڑ دیتے ہیں۔ تمہیں یہ یقین کرلینا چاہئے کہ جوکوئی اس خاندان کے ذکر کیلئے اس طرح مانع ہوتا ہے،وہ بدکار عورت کا بیٹا ہے۔ وہ لمبی روایات درمیان میں لے آتے ہیں کہ علی و فاطمہ اور اُن کے دو فرزندوں کا ذکر نہ ہوسکے۔

وہ یہ کہتے ہیں کہ اے لوگو! ان باتوں سے بچو کیونکہ یہ رافضیوں کی باتیں ہیں(میں جو امام شافعی ہوں) خدا کی طرف سے ان لوگوں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جو فاطمہ سے دوستی و محبت کرنے والے کو رافضی کہتے ہیں۔ میرے رب کی طرف سے درودوسلام ہو آلِ رسول پر اور اس طرح کی جہالت(یعنی محبانِ آلِ رسول کو گمراہ یا رافضی کہنا) پر لعنت ہو“۔ حوالہ جات 1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ329،باب62،از دیوانِ شافعی۔ 2۔ شبلنجی،کتاب نورالابصار میں،صفحہ139،اشاعت سال1290۔ علیٌّ حُبُّہُ الْجُنَّة اِمامُ النّٰاسِ وَالْجِنَّة وَصِیُّ المُصْطَفےٰ حَقّاً قَسِیْمُ النّٰارِ وَالْجَنَّة ”حضرت علی علیہ السلام کی محبت ڈھال ہے۔ وہ انسانوں اور جنوں کے امام ہیں۔ وہ حضرت محمد مصطفےٰ کے برحق جانشین ہیں اور جنت اور دوزخ تقسیم کرنے والے ہیں“۔

 حوالہ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں،جلد1،صفحہ326۔ قٰالُوا تَرَفَّضْتَ قُلْتُ کَلّٰا مَاالرَّفْضُ دِیْنی وَلَااعْتِقٰادِی لٰکِنْ تَوَلَّیْتُ غَیْرَ شَکٍّ خَیْرَ اِمامٍ وَ خَیْرَ ھٰادٍ اِنَّ کٰانَ حُبُّ الْوَصِیِّ رَفْضاً فَاِنَّنِی اَرْفَضُ الْعِبٰادِ ”مجھے کہتے ہیں کہ تو رافضی ہوگیا ہے۔ میں نے کہا کہ رافضی ہونا ہرگز میرا دین اور اعتقاد نہیں۔ لیکن بغیر کسی شک کے میں بہترین ہادی و امام کو دوست رکھتا ہوں۔ اگر وصیِ پیغمبر سے دوستی و محبت رکھنا رفض(رافضی ہونا) ہے تو میں انسانوں میں سب سے بڑا رافضی ہوں“۔ حوالہ جات 1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،صفحہ330،اشاعت قم،طبع اوّل1371۔ 2۔ شبلنجی، کتاب نورالابصار،صفحہ139،اشاعت 1290۔ یہ بھی پڑھئے: دعائے استخارہ، خدا اور رسول کریم ﷺ کی طرف سے بہترین تحفہ یٰارٰاکِباً قِفْ بِالْمُحَصَّبِ مِنْ مِنیٰ وَاھْتِفْ بِسٰاکِنِ خِیْفِھٰا وَالنّٰاھِضِ سَحَراً اِذَافَاضَ الْحَجِیْجُ اِلٰی مِنیٰ فَیْضاً کَمُلْتَطَمِ الْفُراتِ الْفٰائِضِ اَنْ کٰانَ رَفْضاً حُبُّ آلِ مُحَمَّد فَلْیُشْھَدِ الثَّقَلاٰنِِ اِنِّیْ رٰافِضِیْ ”اے سواری! تو جو مکہ جارہی ہے،ریگستانِ منیٰ میں توقف کرنا،صبح کے وقت جب حاجی منیٰ کی طرف آرہے ہوں تو مسجد ِخیف کے رہنے والوں کو آواز دینا اور کہنا کہ اگر دوستیِ آلِ محمد رفض ہے تو جن و انس یہ شہادت دیتے ہیں کہ میں رافضی ہوں“۔ حوالہ جات 1۔ ابن حجر مکی،صواعق محرقہ،باب9،صفحہ97،اشاعت ِمصر۔ 2۔ یاقوتِ حموی، کتاب معجم الادباء،جلد6،صفحہ387۔ 3۔ فخر رازی، تفسیر کبیر میں،جلد7،صفحہ406۔ وَلَمَّا رَأَیْتُ النّٰاسَ قَدْ ذَھَبَتْ بِھِمْ مَذَاھِبُھُمْ فِیْ اَبْحَرِ الْغَیِّ وَالْجَھْلِ رَکِبْتُ عَلَی اسْمِ اللّٰہِ فِیْ سُفُنِ النَّجٰا وَھُمْ اَھْلُ بَیْتِ الْمُصْطَفیٰ خٰاتِمِ الرُّسُلِ وَاَمْسَکْتُ حَبْلَ اللّٰہِ وَھُوَوِلاٰوٴُھُمْ کَمٰا قَدْ اُمِرْنٰا بِالتَمَسُّکِ بِالْحَبْلِ اِذَا افْتَرَقَتْ فِی الدِّیْن سَبْعُوْنَ فِرْقَةً وَنِیْفاًعَلیٰ مٰاجٰاءَ فِیْ وٰاضِحِ النَّقْلِ وَلَم یَکُ ناجٍ مِنْھُمْ غَیْرَ فِرْقَةٍ فَقُلْ لِیْ بِھٰا یٰا ذَاالرَّجٰاجَةِ وَالْعَقْلِ أَفِی الْفِرْقَةِ الْھُلاٰکِ آلُ مُحَمَّد اَمِ الْفِرْقَةُ الّلا تِیْ نَجَتْ مِنْھُمْ قُلْ لِیْ فَاِنْ قُلْتَ فِی النّٰاجَیْنِ فَالْقَوْلُ وٰاحِدٌ وَاِنْ قُلْتَ فِی الْھُلاٰکِ حَفْتَ عَنِ الْعَدْلِ اِذَاکٰانَ مَوْلَی الْقَوْمِ مِنْھُمْ فَاِنَّنِیْ رَضِیْتُ بِھِمْ لاٰزٰالَ فِیْ ظِلِّھِمْ ظِلِّیْ رَضِیْتُ عَلِیّاً لِیْ اِمٰاماً وَنَسْلَہُ وَاَنْتَ مِنْ الْبٰاقِیْنَ فِیْ اَوْسَعِ الْحَلِ

 ”جب میں نے لوگوں کو جہالت اور گمراہی کے سمندر میں غرق دیکھا تو پھر بنامِ خدا کشتیِ نجات (خاندانِ رسالت اور اہلِ بیت ِ اطہار علیہم السلام) کا دامن پکڑا اور اللہ تعالیٰ کی رسی کو تھاما کیونکہ اللہ کی رسی جو دوستیِ خاندانِ رسالت ہے ،کو پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔جس زمانہ میں دین تہتر فرقوں میں بٹ جائے گا تو کہتے ہیں کہ صرف ایک ہی فرقہ حق پر ہوگا ،باقی باطل پر ہوں گے۔اے عقل و دانش رکھنے والے! مجھے بتا کہ جس فرقہ میں محمد اورآلِ محمد ہوں گے، کیا وہ فرقہ باطل پر ہوگا یا حق پر ہوگا؟ اگر تو کہے کہ وہ فرقہ حق پر ہوگا تو تیرا اور میرا کلام ایک ہے اور اگر تو کہے کہ وہ فرقہ باطل اور گمراہی پر ہوگا تو تو یقینا صراطِ مستقیم سے منحرف ہوگیا ہے۔ یہ جان لو کہ خاندانِ رسالت قطعاً اور یقینا حق پر ہے اور صراطِ مستقیم پر ہے۔ میں بھی اُن سے راضی ہوں اور اُن کے طریقے کو قبول کرتا ہوں۔ پروردگار! اُن کا سایہ مجھ پر ہمیشہ قائم و دائم رکھ۔ میں حضرت علی علیہ السلام اور اُن کی اولاد کی امامت پرراضی ہوں کیونکہ وہ حق پر ہیں اور تو اپنے فرقے پر رہ ،یہاں تک کہ حقیقت تیرے اوپر واضح ہوجائے“۔ حوالہ کتاب شبہائے پشاور،صفحہ227،نقل از ذخیرة المال،مصنف:علامہ فاضل عجیلی۔ یہ بھی پڑھئے: کرتے ہیں قلم روز قلم کار کے بازو یااَھْلَ بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ حُبُّکُمْ فَرَضٌ مِنَ اللّٰہِ فِی الْقُرآنِ اَنْزَلَہُ کَفَاکُمْ مِنْ عَظِیْمِ الْقَدْرِ اِنَّکُمْ مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْکُمْ لَاصَلوٰةَ لَہُ ”اے اہلِ بیت ِ رسول اللہ!آپ کی دوستی و محبت اللہ کی جانب سے قرآن میں فرض قرار دی گئی ہے: (مندرجہ بالا اشعار میں امام شافعی کا اشارہ آیت ِ زیر کی طرف ہے: ”قُلْ لا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی“) آپ کی قدرومنزلت کیلئے یہی کافی ہے کہ جو آپ پر درود نہ پڑھے، اُس کی نماز قبول نہیں ہوتی“۔ اشعار کے آخر میں سخت و تند لہجہ میں دشمنانِ اہلِ بیت کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: لَولَمْ تَکُنْ فِی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ ثَکَلَتْکَ اُمُّکَ غَیْرَ طَیِّبِ الْمَوْلِدِ ”اگر تم میں آلِ محمدکی محبت نہیں تو تمہاری ماں تمہارے لئے عزا میں بیٹھے کہ تم یقینا حرام زادے ہو۔ حوالہ جات 1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینا بیع المودة،صفحہ354،366،اشاعت قم،طبع اوّل1371۔ 2۔ ابن حجر، کتاب صواعق محرقہ، صفحہ88۔

سالار عجم میر سید علی ہمدانی

 

اس خطّہ پُر بہار پر آ ج سے سات سو برس قبل ایک مرد قلندر نے اپنے پاکیزہ قدم ۔رکھّے تو اس خطّہ کی تقدیر بدلنے کے لئے ،یہاں کے عام عوام اس وقت کے برہمنی سماج کی مظبوط جکڑ بندیوں میں سسکیاں لے رہے تھے اور ان کے پاس نکلنے کا کوئ راستہ نہیں تھا ایسے پُر خطر حالات میں ہمدان ایران میں پیدا ہونے والے ایک سیّد زادے نے یہاں کا رخ اپنے مرشد کے کہنے پر اختیار کیا 

 آ پ کے مورث اعلیٰ

آپ حسنی اور حسینی یعنی نجیب الطّرفین اثنا عشری سیّد ہیں اور سلسلہ ء نسب ستّر ہویں پشت پر مولائے کائنا ت حضرت علی علیہ السّلام اور دختر رسول حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلم سے جا ملتا ہے

چودہویں صدی عیسوی کے عظیم مبلغ اسلام، معمار تقدیر امم اور سالار عجم میر سید علی ہمدانی  کی شخصیت اور ان کے زریں داعیانہ کارنامے کئی صدیاں گزرنے کے باوجود کشمیری قوم اور امت مسلمہ کے ذہنوں میں تروتازہ ہیں، انہوں نے کشمیری قوم کو راہ توحید و سنت دکھا کر ایمان و اخلاق کی بے پناہ دولت سے فیض یاب کیا، وہ کشمیریوں کے عظیم محسن تھے جن کی تعلیمات، احسانات اور تابندہ زندگی آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ 

حضرت امیر کبیر 774ھ میں پہلی بار ایران سے کشمیر اسلام کی اشاعت کا عزم لے کر تشریف لائے، تب انہوں نے محلہ علاء الدین پورہ میں قیام فرمایا، 781ھ میں آپ دوبارہ کشمیر تشریف لائے اور اس مرتبہ ڈھائی برس قیام فرمایا، اس مرتبہ سادات کی بڑی تعداد آپ کے ساتھ تھی، مورخین نے ان کی تعداد 700 بتائی ہے، لوگوں کی اکثریت تک پہنچنے کے لئے انہوں نے اپنے پیرو کاروں سے تلقین کی کہ وہ کشمیری زبان سیکھیں، میر سید علی ہمدانی کو انکی بے انتہا کاوشوں کے نتیجے میں ’’محسن کشمیر‘‘ کا فخریہ لقب بھی دیا جاتا ہے۔ 785ھ میں تیسری مرتبہ کشمیر تشریف لائے اور 4 ماہ قیام کے بعد پکھلی کے 

کشمیر میں جو مسلمان آباد تھے ان کی دینی حالت بھی شریعت کے مطابق نہ تھی، صدیو سے کفر و شرک اور بت پرستی سے ظلمات کی دبیز تہہ میں لپٹی سر زمین کشمیر توحید کے لئے تڑپ رہی تھی اور کسی ایسے درویش و خضر راہ کی منتظر تھی۔

راستہ زیارت حرمین الشرفین کی نیت سے واپس ہوئے، 6 ذی الحجہ 786ھ بمطابق 19 جنوری 1385ء کو ’’کنار‘‘ جو کہ پکھلی کے مضافات میں واقع ہے انتقال فرمایا، اہل کشمیر اور پکھلی ان کا جنازہ اٹھانے سے قاصر رہے، حضرت قوام الدین بدخشی جو آپ کے خاص مرید تھے نے جنازہ اٹھایا اور ختلان کی راہ اختیار کی، آخر 5 جمادی الآخر بمطابق 1385ء کو ترکستان کے شہر ختلان کے کولاب میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا، آپ کے ساتھ جو 700 سادات تشریف لائے تھے انہوں نے وادی کشمیر اور اس کے اطراف و اکناف میں اپنی دعوتی سرگرمیوں کو جاری رکھا، 1394ء میں آپ کے فرزند سید میر محمد ہمدانی کشمیر تشریف لائے، آپ کے ساتھ 300 رفقاء بھی تھے، انہوں نے کشمیر میں 22 برس تک قیام فرمایا اور اپنے والد محترم کے تبلیغی مشن کو دوام بخشا، کشمیر میں آپ کی اولاد کو ایک خاص مقام حاصل ہے آپ کی زیارت گاہوں سے اہل کشمیر کو عقیدتی وابستگی ہمیشہ رہی ہے اور باقی ہے۔

حضرت شاہ ہمدان (رہ) مفسر، محدث، فقیہ، مبلغ، صوفی، شاعر، عارف ربانی، داعی اسلام، سیاست سے آگاہ اور معمار اخلاق تھے، حضرت شاہ ہمدان نے بے شمار موضوعات پر کتابیں قلم بند کی ہیں، جن میں ’’ذخیرۃ الملوک، رسالہ درویشیہ، مکتوبات دہقاء، امیریہ، فوائد عرفانیہ، شرح اسماء اللہ، رسالہ در معرفت و صورت انسان، حقائق توبہ، علم القافیہ، مسائل السالکین، اسرار قلبیہ، اخلاق محترم وغیرہ نمایاں حیثیت رکھتی ہیں، ان رسالوں میں حضرت شاہ ہمدان نے مساوات، معاشرے کی تشکیل نو، ایک ساتھ نماز و طعام کے آداب وغیرہ بتاکر ایمانی اخوت اور اسلامی معاشرے کی شیرازہ بندی کی اور برہمنیت کی تخلیق کردہ تمیز ذات پات کو اس طرح روند دیا کہ لل دیوی، لل عارفہ بن گئی اور پنچال دیوتا، پیر پنچال بن گیا، آپ کی اہم ترین تصنیف ’’ذخیرۃ الملوک‘‘ ہے۔۔ حضرت شاہ ہمدان نے اہل کشمیر کو وعظ و تلقین کے اصول، فطرت انسانی کے انواع اور ان پر اخلاقی گرفت، تربیت کے اصول، خدام و خواتین سے سلوک، بازار و راستے کے آداب، دعوت و محافل کی کیفیت، منکرات سے اجتناب کے طور طریقے، حکمرانوں کی ذمہ داری، رعایا کے حقوق، مسلم و غیر مسلم رعایا سے حسنِ سلوک کے اخلاقیات سے بہرہ ور کیا

شاہ ہمدان نے ایک کامیاب سیاسی، سماجی و معاشی رہنما کے طور اپنی درخشندہ زندگی گذاری اور آپ حکومت کو شریعت کی تابع دیکھنا چاہتے تھے، اسی لئے علامہ اقبال نے انہیں ’’مشیر سلاطین‘‘ بھی کہا ہے۔

سالار عجم میر سید علی ہمدانی

نے کشمیر میں دو درجن سے زیادہ دستکاریاں رائج کرنے کیلئے وسیع اور ترقی پسند پروگرام روبہ عمل لائے، انہوں نے اس سرزمین کو معاشی استحکام بخشا، اُن کے اپنے کشمیر کے پہلے دورے کے بعد بقول عبدالمجید عظمی ’’ختلان‘‘ کی خانقاہ میں اپنے مواعظ کے دوران دست کاروں کو کشمیر آنے کیلئے متحرک کرتے رہے تاکہ وہ یہاں کے لوگوں کو مختلف دستکاریوں کی تربیت دے سکیں، تربیت دینے والوں کو کشمیر روانہ کرنا ان کا ایک نمایاں کار نامہ بن گیا تھا، جس کسی بھی دستکاری کیلئے مقامی طور پر خام مال دستیاب ہوتا تھا تو اس کیلئے ہر اس شخص کو تربیت دی جاتی تھی جس نے اسلام قبول کیا تھا، یہ مذہبی تربیت گاہیں پیشہ وارانہ تربیتی مرکزوں کے طور پر کام کیا کرتی تھیں، جہاں اسلامی تعلیم کے علاوہ طلباء کو مختلف ہنروں کی تربیت دی جاتی تھی، وہ قانونی طور پر جائز اجرتوں پر زندگی گذارنے میں یقین رکھتے تھے، میر سید علی ہمدانی یہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے پیروکار معاشرے پر طفیلی بن کر رہیں بلکہ انہوں نے کشمیریوں سے کہا کہ وہ ایک باعزت زندگی گذارنے کیلئے محنت کریں، وہ خود ٹوپیاں بنا کر اپنی روزی روٹی کماتے تھے، انہوں نے روایتی طرز کی خانقاہی زندگی کو خیرباد کہا، ان کی خانقاہ میں اوقات کار صبح 4 بجے سے 6 بجے تک اور شام 6 بجے سے 8 بجے ہوا کرتے تھے، دن کے دوران لوگ کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتے تھے، 600 سال گذرنے کے بعد بھی یہ عمل مسلسل طور پر پھل پھول رہا ہے کیونکہ اس عظیم سید نے کشمیر میں اقتصادی اصلاحات رائج کی تھیں، اس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ آج بھی کشمیر میں زراعت دستکاری کو ریاستی معشیت میں دوسرے اہم شعبہ کی حیثیت حاصل۔۔ﺣﻀﺮﺕ ﻣﯿﺮ ﮐﺒﯿﺮ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ : ﻣﯿﺮ ﮐﺒﯿﺮ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺷﮩﺎﺏ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ‏( 1314-1384 ﻋﯿﺴﻮﯼ ‏) ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺮﺍﻧﯽ ﺑﺰﺭﮒ ﺍﻭﺭ ﻣﺒﻠﻎ ﺍﺳﻼﻡ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺻﻮﺑﮧ ﮨﻤﺪﺍﻥ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﮨﻤﺪﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ، ﭘﯿﺮ 12 ﺭﺟﺐ ﺍﻟﻤﺮﺟﺐ 714 ﮪ ﺑﻤﻄﺎﺑﻖ 1314 ﻋﯿﺴﻮﯼ، ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﮨﻤﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ 786 ﮪ ﺑﻤﻄﺎﺑﻖ 1384 ﻋﯿﺴﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮐﻨﺎﺭ ﺟﺒﮑﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ، ﺿﻠﻊ ﻣﺎﻧﺴﮩﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺩﺉ ﭘﮑﮭﻞ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﻮﭦ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﮦ ﮨﻤﺪﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﮭﮏ ﺍﻭﺭ ﺟﮕﮧ ﻭﻓﺎﺕ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮨﮯ۔ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺴﺪ ﺧﺎﮐﯽ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭﮐﺎﺭ ﺳﺎﺑﻘﮧ ﺳﻮﻭﯾﺖ ﯾﻮﻧﯿﻦ ﮐﯽ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﺁﺯﺍﺩ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺗﺎﺟﮑﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﺧﺘﻼﻥ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﯿﮟ ﭘﺮ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﮨﻮﺋﯽ - ﻭﻓﺎﺕ ﺳﮯ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮐﮯ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﭘﺮ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺭﮨﺎ۔ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺟﻤﻮﮞ ﻭ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﭘﮭﯿﻼﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺛﻘﺎﻓﺘﯽ ﮈﮬﺎﻧﭽﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ' ﺷﺎﮦ ﮨﻤﺪﺍﻥ ' ﯾﻌﻨﯽ ﮨﻤﺪﺍﻥ ‏( ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﺻﻮﺑﮧ ‏) ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻭﺭ ' ﺍﻣﯿﺮ ﮐﺒﯿﺮ ' ﯾﻌﻨﯽ ﻋﻈﯿﻢ ﮐﻤﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﮯ ﺍﻟﻘﺎﺏ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﻭﺣﺎﻧﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﺗﺼﻮﻑ ﭘﺮ ﮐﺌﯽ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﻣﻘﺎﻟﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﺟﯿﺴﮯ ﻋﻈﯿﻢ ﺷﺎﻋﺮ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﮦ ﮨﻤﺪﺍﻥ ﺍﻣﯿﺮ ﮐﺒﯿﺮ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺁﭘﮑﺎ ﻧﺎﻡ ﻋﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﻘﺐ ' ﺷﺎﮦ ﮨﻤﺪﺍﻥ ' ، ' ﺍﻣﯿﺮﮐﺒﯿﺮ ' ، ' ﻋﻠﯽ ﺛﺎﻧﯽ ' ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺩﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺌﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺍﻟﻘﺎﺏ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ' ﻗﻄﺐ ﺯﻣﺎﮞ ' ، ' ﺷﯿﺦ - ﺷﯿﺨﺎﻥ ﺟﮩﺎﻥ ' ، ' ﺍﻓﻀﻞ ﺍﻟﻤﺤﻘﯿﻘﻦ ' ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ۔ ‏( ﺷﺎﮦ ﮨﻤﺪﺍﻥ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﺍﺯ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﺑﺸﯿﺮ ﺍﺣﻤﺪ ﻧﺤﻮﯼ : ﮈﺍﺋﺮ ﯾﮑﭩﺮ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﺍﻧﺴﭩﯽ ﭨﯿﻮﭦ، ﮐﺸﻤﯿﺮ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ‏) ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ : ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺰﺯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﮨﻤﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺷﺠﺮﮦ ﻧﺴﺐ ﺁﭘﮑﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺳﯿﺪ ﺷﮭﺎﺏ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺟﻨﺎﺏ ﻋﻠﯽ ‏( ﺍﻣﺎﻡ ﺯﯾﻦ ﺍﻟﻌﺎﺑﺪﯾﻦ ‏) ﺑﻦ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐ ﺳﮯ ﺟﺎ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺁﭘﮑﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺷﺠﺮﮦ ﻧﺴﺐ ﺳﺘﺮﻭﯾﻦ ﭘﺸﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐ ﺳﮯ ﺟﺎ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺁﭖ ﺣﺴﻨﯽ ﺣﺴﯿﻨﯽ ﺳﯿﺪ ﮨﯿﮟ ﺁﭘﮑﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﻣﯿﮟ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﮨﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ 12 ﺭﺟﺐ ﺍﻟﻤﺮﺟﺐ 714 ﮨﺠﺮﯼ ﺑﻤﻄﺎﺑﻖ 12 ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ 1314 ﻋﯿﺴﻮﯼ ﺟﺒﮑﮧ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ 12 ﺭﺟﺐ ﺍﻟﻤﺮﺟﺐ 713 ﮨﺠﺮﯼ ﺑﻤﻄﺎﺑﻖ 12 ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ 1313 ﻋﯿﺴﻮﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻌﺘﺒﺮﺳﻤﺠﮭﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺳﻔﺮ : ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺷﮩﺎﺏ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻃﻮﻝ ﻭ ﻋﺮﺽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺳﻔﺮ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ۔ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺟﻨﺎﺏ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺰﺩﻗﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ " ﺳﻔﺮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻭ، ﺻﻮﻓﯿﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﻭﻟﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻠﻮ ﺍﻭﺭ ﺟﺘﻨﺎ ﻓﯿﺾ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ ﮐﺮﻭ " ﻧﺘﯿﺠﺘﺎً ﺁﭖ ﻧﮯ ﺣﺞ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ 3 ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ - ﺍﻥ ﺳﻔﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺁﭖ ﻣﺴﻠﻢ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﮐﮯ ﺍﮐﺎﺑﺮﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺍﮨﻞ ﻋﻠﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺘﻌﺎﺭﻑ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺍﯾﺮﺍﻧﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺷﮩﺎﺏ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ، ﺗﯿﻤﻮﺭ ﺳﮯ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﻧﺎﺭﻭﺍ ﺳﻠﻮﮎ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺁﭖ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ 700 ﺳﺎﺕ ﺳﻮ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﻧﮑﻠﮯ۔ ﺳﻔﺮ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭ ﻧﻤﺎﺋﯿﻨﺪﮮ ﺟﻨﺎﺏ ﺳﯿﺪ ﺗﺎﺝ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭﺟﻨﺎﺏ ﻣﯿﺮ ﺣﺴﻦ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﺑﮭﯿﺠﺎ۔ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺳﯿﺪ ﺗﺎﺝ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻣﻌﺘﻘﺪ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﮐﺜﯿﺮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﮯ۔ﮐﺸﻤﯿﺮﮐﮯ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ' ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺷﮩﺎﺏ ﺍﻟﺪﯾﻦ ' ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﻋﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﺎ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ' ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺷﮩﺎﺏ ﺍﻟﺪﯾﻦ ' ، ﻭﺍﻟﺊ ﺩﮨﻠﯽ ' ﻓﯿﺮﻭﺯ ﺗﻐﻠﻖ ' ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻨﮓ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﺮ ﮐﺒﯿﺮ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﭘﺮ ﺁﻣﺎﺩﮦ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﻦ ﮨﻮﺍ۔ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﮦ ﮨﻤﺪﺍﻥ ﻣﯿﺮ ﮐﺒﯿﺮ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺷﮩﺎﺏ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﻈﻢ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ - ﺁﭖ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭﮐﺎﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﮐﻮﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﮟ، ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦ ﻣﻌﻠّﯽٰ، ﺳﺮﯼ ﻧﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺟﮩﻠﻢ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﻭﺍﺩﺉ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﭘﺬﯾﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻣﻮﺍﻗﻊ ﭘﺮ ﺁﭖ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﺒﮑﮧ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺁﭖ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺷﮩﺎﺏ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ 774 ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﮫ 6 ﻣﺎﮦ ﺗﮏ ﻗﯿﺎﻡ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ۔ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺁﭖ ﻗﻄﺐ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﻋﮩﺪ 781 ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﻗﯿﺎﻡ ﮐﯿﺎ۔ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﺳﮯ ﺗﺮﮐﻤﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺳﻔﺮﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﺮﺍﺳﺘﮧ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﻟﺪﺍﺥ، 783 ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮐﻮ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﮨﺮ ﮐﻮﻧﮯ ﺗﮏ ﭘﮩﭽﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮩﺖ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﯽ۔ ﺁﭘﮑﺎ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﺳﻔﺮ 785 ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﻮ ﮨﻮﺍ، ﺍﺱ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺁﭖ ﻟﻤﺒﮯ ﻋﺮﺻﮯ ﻗﯿﺎﻡ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺻﺤﺖ ﮐﯽ ﺧﺮﺍﺑﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺟﻠﺪ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ۔ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻭﻓﺎﺕ : ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﺻﺤﺖ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﻧﮯﺗﺮﮐﻤﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﺩﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ، ﮐﺸﻤﯿﺮ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﺑﺮﺍﺳﺘﮧ ﻟﺪﺍﺥ ﺍﭘﻨﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺷﻤﻊ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﯽ۔ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﭘﮍﺍﻭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯﺷﮩﺮ ﻣﺎﻧﺴﮩﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺩﺉ ﭘﮑﮭﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﮯ ﻧﻮﺍﺏ ﻭ ﺣﺎﮐﻢ " ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﺪ ﺧﺎﻥ " ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺷﺎﮨﯽ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﭨﮭﺮﺍﯾﺎ، ﻭﮨﯿﮟ ﭘﺮ ﺁﭖ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ 6 ﺫﻭﺍﻟﺤﺞ، 786 ﮨﺠﺮﯼ ﺑﻤﻄﺎﺑﻖ 19 ﺟﻨﻮﺭﯼ 1385 ﻋﯿﺴﻮﯼ ﮐﻮ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺎﻟﻖ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺳﮯ ﺟﺎ ﻣﻠﮯ۔ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﻧﮑﻮﭦ، ﻣﺎﻧﺴﮩﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮨﮯ۔ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﺮﺗﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﻨﺎﺏ ﺣﺴﻦ ﻧﮯ ﮐﺘﺎﺏ ﺗﺎﺭﯾﺦِ ﺣﺴﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﺎ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﺼﺮﻋﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻈﯿﻢ ﺳﯿﺪ ﺳﺮﺩﺍﺭ ‏( ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺷﮩﺎﺏ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ‏) ﺁﺭﺍﻡ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﺟﻨﺖ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ - ﺍﺳﯽ ﻣﺼﺮﻋﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﺴﻦ ﺁﭘﮑﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﺎ ﺳﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺁﭘﮑﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﮍﺍ ﺩﻟﭽﺴﭗ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﻣﺬﮐﻮﺭ ﮨﮯ۔ ﻭﺍﺩﺉ ﭘﮑﮭﻞ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﻭﻓﺎﺕ ﻧﮑﻮﭦ، ﻣﺎﻧﺴﮩﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻭﮦ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﺟﻮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮨﻤﺴﻔﺮ ﺗﮭﮯ ﺁﭘﮑﮯ ﺟﺴﺪ ﺧﺎﮐﯽ ﮐﻮ ﺗﺎﺟﮑﺴﺘﺎﻥ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﺎﻵﺧﺮ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﯾﮧ ﻃﮯ ﭘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﻮﻓﺮﯾﻖ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮐﻮﺍﭨﮭﺎ ﻟﮯ ﮔﺎ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﮐﺎ ﺣﻘﺪﺍﺭ ﻭﮨﯽ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﮬﻞِ ﭘﮑﮭﻞ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﺎ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭﮐﺎﺭ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺗﺎﺟﮑﺴﺘﺎﻥ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔ 40 ﺩﻥ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﮯ ﺧﺎﺹ ﻓﻀﻞ ﻭ ﮐﺮﻡ ﺳﮯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮐﮯ ﻗﺎﻓﻠﮯ ﭘﺮ ﺑﺎﺩﻝ ﺳﺎﯾﮧ ﻓﮕﻦ ﺭﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺟﺴﺪ ﺧﺎﮐﯽ ﮐﯽ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﺗﺎﺟﮑﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺻﻮﺑﮧ ﺧﺘﻼﻥ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﻮﻻﺏ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ، ﺟﮩﺎﻥ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﺟﻮﻕ ﺩﺭ ﺟﻮﻕ ﺁﭘﮑﻮ ﺧﺮﺍﺝ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻓﯿﺾ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺗﺎﺟﮑﺴﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﮐﺮﻧﺴﯽ ﻧﻮﭦ ﭘﺮ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﯽ ﺛﻘﺎﻓﺖ ﭘﺮ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ } 1313 ﺗﺎ 1384 ﻋﯿﺴﻮﯼ { ﮐﮯ ﺍﺛﺮﺍﺕ : ﺷﺎﮦ ﮨﻤﺪﺍﻥ ﻣﯿﺮ ﮐﺒﯿﺮ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ، ﺍﻥ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﺷﺨﺼﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﻣﻘﺎﻡ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﯽ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﻭ ﺛﻘﺎﻓﺖ ﭘﺮ ﮔﮩﺮﮮ ﻣﺬﮨﺒﯽ، ﻣﻌﺎﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻗﺘﺼﺎﺩﯼ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺧﻄﮧِ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺟﻤﻮﮞ ﻭ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﺁﺝ ﺑﮭِﯽ ﻓﯿﻀﯿﺎﺏ ﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﻨﻮﻥ ﻋﺎﻣﮧ، ﺛﻘﺎﻓﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﺷﯽ ﻣﯿﺪﺍﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺩﺉ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺑﯿﻤﺜﺎﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻗﺪﺭﻋﻠﻢ، ﮨﻨﺮ ﺍﻭﺭ ﻓﻦ ﮐﯽ ﺭﯾﻞ ﭘﯿﻞ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ۔ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ۷۰۰ ﺳﺎﺕ ﺳﻮ ﺍﻓﺮﺍﺩ، ﮨﻨﺮ ﺍﻭﺭ ﻓﻦ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﯾﮕﺮ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﻦ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﭼﮭﺎ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﮑﮭﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻨﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻝ ﺑﺎﻓﯽ، ﻗﺎﻟﯿﻦ ﺑﺎﻓﯽ، ﺑﺮﺗﻦ ﺳﺎﺯﯼ ﯾﺎ ﻇﺮﻭﻑ ﺳﺎﺯﯼ، ﮐﭙﮍﺍ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻄﺎﻃﯽ ﯾﺎ ﺧﻮﺵ ﻧﻮﯾﺴﯽ ﻧﮯ ﺧﻮﺏ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻓﻨﻮﮞ ﺧﻮﺏ ﭘﮭﻠﮯ ﭘﮭﻮﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﺻﻨﻌﺖ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎ ﺭﺥ ﺍﭘﻨﺎﯾﺎ۔ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﯽ ﺷﺎﻟﯿﮟ، ﻗﺎﻟﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﻡ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺁﻣﺪ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻣﻔﮑﺮ ﺍﺳﻼﻡ، ﺷﺎﻋﺮ ﻣﺸﺮﻕ ﺟﻨﺎﺏ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻋﻼﻣﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻗﺒﺎﻝ ‏( 21 ﺍﭘﺮﯾﻞ 1877 ﺀ ﺗﺎ 9 ﻧﻮﻣﺒﺮ 1938 ‏) ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺎﺏ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ - ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺷﺎﮦ ﮨﻤﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﮑﮭﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻨﺮ ﺍﻭﺭ ﻓﻨﻮﻥ ﻧﮯ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﻮ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﺻﻐﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ } ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺷﺎﮦ ﮨﻤﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﮯ، ﮨﻨﺮ ﻣﻨﺪ ﺗﮭﮯ -{ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻭﺍﺩﺉ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﭘﯿﺸﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﮑﮭﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺗﮏ ﮨﻨﺮ ﻣﻨﺪﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﯾﮕﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺎﺷﯽ ﺧﻮﺩ ﮐﻔﺎﻟﺖ ﺳﮯ ﺑﮩﺮﮦ ﻣﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺷﺎﮦ ﮨﻤﺪﺍﻥ ﻣﯿﺮ ﮐﺒﯿﺮ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ، ﺍﯾﮏ ﮐﺜﯿﺮ ﺟﮩﺘﯽ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺗﮭﮯ۔ ﺁﭖ ﻋﻈﯿﻢ ﻣﺒﻠﻎ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺻﻼﺡ ﮐﻨﻨﺪﮦ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﺸﻤﯿﺮﯼ ﺑﺎﺷﻨﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯿﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﯿﺎﺭﯼ ﺍﺻﻼﺣﺎﺕ ﻧﺎﻓﺬ ﮐﺮﻭﺍﺋﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻟﮯ ﺟﺎﺩﻭ ﺳﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﭼﮭﭩﮑﺎﺭﺍ، ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﮐﻮ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﺗﮏ ﺑﺂﺳﺎﻧﯽ ﺭﺳﺎﺋِﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﻞ ﮐﯽ ﺗﻠﻘﯿﻦ، ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﯽ ﺩﺭﺳﺘﮕﯽ ﻭ ﭘﺨﺘﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﻼﻕ ﺣﺴﻨﮧ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﯽ ﺁﺭﺍﺋﺶ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﮑﻤﻞ ﻧﻈﺎﻡ ﻭﺿﻊ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﮨﻞ ﻋﻠﻢ ﻭ ﺩﺍﻧﺶ ﮐﻮ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔ ' ﺫﺧﯿﺮۃ ﺍﻟﻤﻠﻮﮎ ' ’ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻟﮑﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻧﻮﯾﮟ ﺑﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻭ ﻭﻻﯾﺖ ﭼﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﺿﻮﺍﺑﻂ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻓﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮐﯿﺴﺎ ﺳﻠﻮﮎ ﺭﻭﺍ ﺭﮐﮭﯿﮟ - ﺍﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺍﺑﻮﺍﺏ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮨﯿﮟ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻭﺍﺩﺉ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ، ﻭﺳﻂ ﺍﯾﺸﯿﺎﺋﯽ ﻓﻦ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻣﺘﻌﺎﺭﻑ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﯾﮧ ﻓﻦ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﻣﯽ ﻓﻦ ﺳﮯ ﻣﻼ ﺗﻮ ﻓﻦ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺍﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﯾﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ' ﺧﺎﻧﻘﺎﮦِ ﻣﻌﻠّﯽٰ ' ، ﺳﺮﯼ ﻧﮕﺮ، ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺟﻤﻮﮞ ﻭ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﺍﯾﮏ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮔﺎﮦ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﻋﻤﺎﺭﺕ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﻤﺮﮦ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻭﺭﮮ 744 ﮨﺠﺮﯼ، ﻣﯿﮟ ﻗﯿﺎﻡ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﮑﮍ یﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻋﻤﺪﮦ ﮐﺸﯿﺪﮦ ﮐﺎﺭﯼ ﮔﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﻋﻠﯽٰ ﻧﻤﻮﻧﮧ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﻋﻤﺎﺭﺕ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻗﻄﺐ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﻣﻠﮑﯿﺖ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺧﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦِ ﻣﻌﻠّﯽٰ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﺪﺱ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺗﺒﺮﮐﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺤﻀﺮﺕ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﮉﺍ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺧﯿﻤﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺳﺘﻮﻥ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦ ﺟﻨﺎﺏ ﻣﯿﺮ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﻧﮯ، ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺳﮯ ﻣﺬﮐﻮﺭﮦ ﺟﮕﮧ ﺧﺮﯾﺪ ﮐﺮ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﺯﻣﯿﻦ ﺧﺮﯾﺪ ﮐﯽ ﺩﺳﺘﺎﻭﯾﺰِﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﺍﯾﮏ ﮨﺮﻥ ﮐﯽ ﮐﮭﺎﻝ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦِ ﻣﻌﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔ ﺻﺮﻑ ﺁﭖ ﮐﯽ ﭘﺮ ﺍﻣﻦ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﺍﻣﺎﺕ ﺳﮯ ﻭﺍﺩﯼ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﺍﻭﺭ ﻟﺪﺍﺥ ﻣﯿﮟ ۳۷۰۰۰ ﺳﯿﻨﺘﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﻟﻮﮒ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺍﺳﻼﻡ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮐﮭﯽ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩﯾﮟ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺩﯼ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﺤﻘﮧ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﯿﮟ۔ ﻋﻼﻣﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮦ ﮨﻤﺪﺍﻥ ﻋﻼﻣﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ‏( 9 ﻧﻮﻣﺒﺮ 1877 ﻋﯿﺴﻮﯼ ﺗﺎ 21 ﺍﭘﺮﯾﻞ 1938 ، ﻣﺪﻓﻮﻥ ﻻﮨﻮﺭ ﺷﮩﺮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ‏) ﺑﺮ ﺻﻐﯿﺮ ﭘﺎﮎ ﻭ ﮨﻨﺪ ﮐﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻣﻔﮑﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻋﺮ ﮐﮧ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻧﻤﻮﻧﮧ ﮨﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺼﻨﯿﯿﻒ " ﺟﺎﻭﯾﺪ ﻧﺎﻣﮧ " ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮ ﮐﺒﯿﺮ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺷﮩﺎﺏ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﺑﻌﻨﻮﺍﻥ " ﺯﯾﺎﺭﺕ ﺍﻣﯿﺮ ﮐﺒﯿﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ " ﺍﻭﺭ " ﺩﺭ ﺣﻀﻮﺭ ﺷﺎﮦ ﮨﻤﺪﺍﻥ " ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ‏( ﻣﺎﺧﻮﺫ : ﺍﻭﺭﺍﺩ ﻓﺘﺤﯿﮧ، ﻣﺼﻨﻒ : ﻋﻠﯽ ﺛﺎﻧﯽ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ۔ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﻭ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﻧﺬﯾﺮ ﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯼ۔ ﻧﺎﺷﺮ : ﺍﻟﺮﻣﻀﺎﻥ ﻓﺎﻭﻧﮉﯾﺸﻦ ﭨﺮﺳﭧ، ﺳﯿﭩﻼﺋﭧ ﭨﺎﻭﻥ، ﺟﮭﻨﮓ ﺻﺪﺭ، ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ‏) 1 ۔ ﺳﯿﺪ ﺍﻟﺴﺎﺩﺍﺕ، ﺳﺎﻻﺭ ﻋﺠﻢ ﺩﺳﺖِ ﺍُﻭ ﻣﻌﻤﺎﺭِ ﺗﻘﺪﯾﺮِ ﺍُﻣﻢ ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺳﺮﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﯾﻌﻨﯽ ﺳﺎﺩﺍﺕ ﮐﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ، ﻋﺠﻢ ﮐﺎ ﺳﺎﻻﺭ، ﺟﺲ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﻄﻮﺭ ﻣﻌﻤﺎﺭ ﺍُﻣﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﺑﻨﺎ ﺩﯼ۔ -2 ﺗﺎ ﻏﺰﺍﻟﯽ ﺩﺭﺱِ " ﺍﻟﻠﮧ ﮬﻮ " ﮔﺮﻓﺖ ﺫﮐﺮﻭ ﻓﮑﺮ ﺍﺯ ﺩُﻭﺩ ﻣﺎﻥِ ﺍُﻭ ﮔﺮﻓﺖ ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺟﺐ ﻏﺰﺍﻟﯽ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮬﻮ ﮐﺎ ﺩﺭﺱ ﻟﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮨﯽ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺳﮯ ﺫﮐﺮ ﻭ ﻓﮑﺮ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﭘﺎﺋﯽ۔ -3 ﻣﺮﺷﺪ ﺁﮞ ﮐﺸﻮﺭِ ﻣﯿﻨﻮ ﻧﻈﯿﺮ ﻣِﯿﺮ ﻭ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﻭ ﺳﻼﻃﯿﻦ ﺭﺍ ﻣﺸﯿﺮ ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺁﭖ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﺟﻨﺖ ﻧﻈﯿﺮ ﮐﮯ ﻣﺮﺷﺪ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﺳﺎﻻﺭﻭﮞ، ﺩﺭﻭﯾﺸﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﻼﻃﯿﻦ ﮐﮯ ﻣﺸﯿﺮ ﻭ ﺻﻼﺡ ﮐﺎﺭ ﺗﮭﮯ۔ -4 ﺧِﻄّﮧ ﺭﺍ ﺁﮞ ﺷﺎﮦِ ﺩﺭﯾﺎ ﺁﺳﺘﯿﮟ ﺩﺍﺩ ﻋﻠﻢ ﻭ ﺻﻨﻌﺖ ﻭ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﻭ ﺩﯾﮟ ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺍﺱ ﺩﺭﯾﺎ ﺻﻔﺖ ﺳﺨﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﯿﺎﺽ ﻧﮯ ﺧﻄﮧِ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﻮ ﻋﻠﻢ ﻭ ﺻﻨﻌﺖ ﺍﻭﺭ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﻭ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﻧﻌﻤﺖ ﺳﮯ ﺧﻮﺏ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻻ ﻣﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ -5 ﺁﻓﺮﯾﺪ ﺁﮞ ﻣﺮﺩ ﺍﯾﺮﺍﻥِ ﺻﻐﯿﺮ ﺑﺎ ﮨﻨﺮ ﮨﺎﺋﮯ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﺩﻝ ﭘﺬﯾﺮ ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻧﺎﺩﺭ ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﻟﺒﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻓﻨﻮﻥ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺧﻄﮯ ﮐﻮ ﺍﯾﺮﺍﻥِ ﺻﻐﯿﺮ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ۔ -6 ﯾﮏ ﻧﮕﺎﮦِ ﺍُﻭ ﮐُﺸﺎﯾﺪ ﺻﺪ ﮔﺮﮦ ﺧﯿﺰ ﻭ ﺗِﯿﺮﺵ ﺭﺍ ﺑﺪﻝ ﺭﺍﮨﮯ ﺑﺪﮦ ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﮕﺎﮦ ﻧﮯ ﻓﮑﺮ ﻭ ﻋﻘﻞ ﮐﯽ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﮔﺘﮭﯿﺎﮞ ﺳﻠﺠﮭﺎ ﺩﯾﮟ۔ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺍُﭨﮫ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﯿﺮِ ﻧِﮕﺎﮦ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﻮﺳﺖ ﮐﺮ ﻟﮯ۔ -7 ﻣﺮﺷﺪ ﻣﻌﻨﯽ ﻧِﮕﺎﮨﺎﮞ ﺑُﻮﺩﮦ ﺍﯼ ﻣﺤﺮﻡ ﺍﺳﺮﺍﺭِ ﺷﺎﮨﺎﮞ ﺑُﻮﺩﮦ ﺍﯼ ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺁﭖ ﻣﻌﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﻧﮕﺎﮦ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺮﺷﺪ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻣﻮﺭِ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺭﻣﻮﺯ ﮐﮯ ﻣﺤﺮﻡ ﺗﮭﮯ۔ ﻭﺭﺛﮧ : ﺁﭖ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺟﮑﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻋﺰﺕ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺁﭖ ﮐﯽ ﮐﺮﺍﻣﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﭼﻨﺎﺭ ﮐﺎ ﻭﮦ ﺩﺭﺧﺖ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺍﺏ ﻋﻤﺮ ۶۲۷ ﭼﮭﮧ ﺳﻮ ﺳﺘﺎﺋﺲ ﺳﺎﻝ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻮﻉ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﻤﺮ ﻭﺍﻻ ﺩﺭﺧﺖ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﺍﺩﯼ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﺿﻠﻊ ﺑﮉﮔﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﭼﺪﻭﺭﺍ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺪﻗﮧ ﻣﺬﮐﻮﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺩﺭﺧﺖ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻭﺭﮮ ﭘﺮ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﭘﮑﮯ ﮐﺎﻡ : ﺁﭘﮑﮯ ﮐﺎﻡ ﺷﺎﮦ ﮨﻤﺪﺍﻥ، ﻣﯿﺮ ﮐﺒﯿﺮ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﻭﯾﺶ، ﺻﻮﻓﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺒﻠﻎ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﻣﺼﻨﻒ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻋﺮﺑﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎَ ۱۰۰ ﺳﻮ ﮐﮯ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﮐﺘﺎﺑﭽﮯ ﻟﮑﮭﮯ۔ " ﺗﺤﺎﺋﻒ ﺍﻻﺑﺮﺍﺭ " ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﺼﻨﯿﻒ ﮐﺮﺩﮦ ﮐﺘﺐ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺍﯾﮏ ﺳﻮ ﺳﺘﺮ 170 ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺊ ﮐﺘﺐ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﭘﺎﮎ ﻭ ﮨﻨﺪ ﭘﺮ ﻣﻐﻠﯿﮧ ﺩﻭﺭﺣﮑﻮﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﺩﺭﺱ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺳﺘﺮ 70 ﮐﺘﺐ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﺎﯾﺎﺏ ﮨﯿﮟ، ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﮐﺘﺐ ﮐﮯ ﻗﻠﻤﯽ ﻧﺴﺨﮯ، ﺑﺮﭨﺶ ﻣﯿﻮﺯﯾﻢ ﻟﻨﺪﻥ، ﺍﻧﮉﯾﺎ ﺁﻓﺲ ﻻﺋﺒﺮﯾﺮﯼ، ﻭﯼ ﺁﻧﺎ، ﺑﺮﻟﻦ، ﭘﯿﺮﺱ، ﺗﮩﺮﺍﻥ، ﺗﺎﺷﻘﻨﺪ، ﺗﺎﺟﮑﺴﺘﺎﻥ، ﭘﻨﺠﺎﺏ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻻﺋﺒﺮﯾﺮﯼ، ﺑﮩﺎﻭﻟﭙﻮﺭ، ﺍﯾﺸﯿﺎﭨﮏ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ ﺑﻨﮕﺎﻝ، ﻣﯿﺴﻮﺭ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻧﮑﯽ ﭘﻮﺭﮦ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮐﺘﺎﺏ ' ﺫﺧﯿﺮۃ ﺍﻟﻤﻠﻮﮎ ' ﮐﮯ ﮐﺌﯽ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺗﺤﺮﯾﺮﯾﮟ ﺯﯾﻞ ﻣﯿﮟ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ : .1 ﺫﺧﯿﺮﺓ ﺍﻟﻤﻠﻮﮎ : ﺍﭼﮭﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﭼﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﺻﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﻼﻗﯿﺎﺕ ﺳﯿﺎﺳﺖ .2 ﺭﺳﺎﻟﮧ ﻧﻮﺭﯾﮧ : ﻏﻮﺭ ﻭ ﻓﮑﺮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺗﺤﺮﯾﺮ .3 ﺭﺳﺎﻟﮧ ﻣﮑﺘﻮﺑﺎﺕ : ﺳﯿﺪﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﮐﮯ ﺳﻼﻃﯿﻦ، ﺍُﻣﺮﺍﺀ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﻟﮑﮭﮯ ﮔﺌﮯ 22 ﺑﺎﺋﯿﺲ ﺧﻄﻮﻁ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﮐﺘﺎﺑﭽﮧ ﮨﮯ۔ .4 ﺩﺭ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﺻﻮﺭﺕ ﻭ ﺳﯿﺮﺕ ﺍﻧﺴﺎﻥ : ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﻇﺎﮨﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻃﻨﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﭘﺮ ﺑﺤﺚ۔ .5 ﺩﺭ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﺗﻮﺑﮧ : ﺳﭽﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﮯ 

جمعرات، 22 ستمبر، 2022

ا مام حسین علیہ السلام شہید اعظم (فرزند نبی)صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم

  امام حسین علیہ السلام نے اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم کے دین مبین کو بچانے کے لئے جو عظیم قربانی دی وہ صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب کے مشاہیر کے لیے بھی ضمیر کی آواز بن گئ ۔۔چنانچہ انہوں نے اپنی دلی کیفیات کو رقم بند کر کے دنیا کے سامنے پیش کر دیا

 سےغیر مسلم مشاہیر کی عقیدت الفاظ کی صورت ۔قیامت تک ایسی اذان اور ایسی نماز کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر رہے گی بلکہ اس اذان اور نماز کے درمیان وقفے میں جس جوش و جذبۂ ایمانی سے خدائے بزرگ و برتر کے حضور اپنے خون سے شہادتوں کی تاریخ رقم کی گئی اسے یوم محشر تک ہر زمانے میں عقیدتوں بھری سلامی پیش کی جاتے رہے گی۔ نواسہ رسولؐ جگر گوشہ بتولؓ‘ فرزند مرتضیٰ حسین ابن علیؓ کی قربانی کوصرف مسلمانوں کیلئے مخصوص و محدود سمجھنا حسینیت کو نہ سمجھنے کے مترادف اور نا انصافی ہے ۔ اسے قرین ِ انصاف کہا جائے یایوں کہا جائے کہ حسینیت انسانیت کی معراج، ہر رنگ و نسل کیلئے حق کا معیار، زندگی اور موت کو سمجھنے کا شعور ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے گوشے گوشے میں ہر زبان ، ادب اور مذہب سے وابستہ انسان امام مظلوم ؓ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کیونکہ امام حسینؓ نے اپنے اصحابِ باوفا اور خاندان اہل ِ بیتؓکی ہمراہی میں جو اصولوں کی جنگ لڑی اس کے اثرات پوری دنیا ہی نہیں کائنات پر نقش ہیں۔

آپؓ کے اصول اور آپؓ کی قربانی جہاں اسلام کی بقا ء کی ضمانت ہیں وہاں بلاتفریقِ مذہب و ملت اور علاقہ و ملک عدل و انصاف کی فراہمی‘ آزادی کے حصول‘ حقوق کی جنگ‘ فرائض کی ادائیگی‘ جذبہ ایثار و قربانی‘ عزم وہمت اور جوش وولولہ کے جاویدانی پیغام بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر طبقہ فکر اور مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے مشاہیر آپؓ کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ کرتے ہیں ۔ مختلف مذاہب کے پیشوا‘ دانشور‘ مفکر اور شعراء نے امام حسینؓ کی بارگاہ میں جس عقیدت کا اظہار کیا یہاں ان کی تفصیل پیش نہیں کی جا سکتی لیکن مختصراً ذکر کرتے چلیں تو ہندو شاعروں میں منشی دیشو پرشاد ماتھر لکھنوی کو اہل بیت اطہار ؓکی شان بیان کرنے کی وجہ سے خاص شہرت حاصل ہوئی وہ کہتے ہیں: انسانیت حسینؓ تیرے دم کے ساتھ ہے ماتھر بھی اے حسینؓت تیرے غم کے ساتھ ہے انہی کاایک اور شعر کچھ یوں ہے کہ مسلمانوں کا منشاء عقیدت اور ہی کچھ ہے مگر سبطِ نبیؐ سے میری نسبت اور ہی کچھ ہے۔ معروف مصنف تھامس کارلائل کربلا سے حاصل ہونیوالے درس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’کربلا کے المیے سے ہمیں سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ امام حسینؓ اور آپؓ کے ساتھیوں کو خدا تعالیٰ پر کامل یقین تھا۔ آپؓ نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ حق اور باطل کی کشمکش میں تعداد کی برتری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور بہادری کا جو سبق ہمیں تاریخ کربلا سے ملتا ہے وہ کسی اور تاریخ سے نہیں ملتا۔‘‘ ایک اور عیسائی دانشور ڈاکٹر کرسٹوفر اپنا نظریہ یوں بیان کرتے ہیں ’’کاش دنیا امام حسینؓ کے پیغام‘ ان کی تعلیمات اور مقصد کو سمجھے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی اصلاح کرے۔‘‘

حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے عیسائی مبلغ ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مورنیو نے اپنی عقیدت کچھ اس طرح قلم بند کی کہ ’’امام حسینؓ صداقت کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہے اور زندگی کی آخری گھڑی تک مستقل مزاج اور اٹل رہے۔ آپؓ نے ذلت کی زندگی پر موت کو ترجیح دی۔ ایسی روحیں کبھی فنا نہیں ہوسکتیں اور امام حسینؓ آج بھی انسانیت کے رہنمائوں میں بلند مقام رکھتے ہیں۔‘‘ جے اے سیمسن کہتے ہیں ’’حسینؓ کی قربانی نے قوموں کی بقاء اور جہاد زندگی کیلئے ایک ایسی مشعل روشن کی جو رہتی دنیا تک روشن رہے گی‘‘۔

جی بی ایڈورڈ کا کہنا ہے’’تاریخ اسلام میں ایک باکمال ہیرو کا نام نظر آتا ہے۔ آپؓ کو حسینؓ کہا جاتا ہے۔ آپؓ حضرت محمدؐ  صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم کے نواسے‘حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ کے بیٹے‘ لاتعداد صفات و اوصاف کے مالک ہیں۔ آپؓ کے عظیم واعلیٰ کردار نے اسلا م کو زندہ کیا اور دین خدا میں نئی روح ڈال دی۔ حق تو یہ ہے کہ اسلام کے یہ بہادر میدانِ کربلا میں شجاعت کے جوہر نہ دکھاتے تو آج حضرت محمدؐ کے دین کا نقشہ کچھ اور نظر آتا۔یوں کہنا چاہیے کہ انسانیت کا نشان تک دکھائی نہ دیتا۔ ہر جگہ وحشت و بربریت اور درندگی نظر آتی۔‘‘

مہاراج یوربندسرنٹور سنگھ کہتے ہیں’’قربانیوں ہی کے ذریعے تہذیبوں کا ارتقا ء ہوتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کیلئے ایک قابلِ فخر کارنامے کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپؓ نے جان دیدی لیکن انسانیت کے رہنما اصولوں پر آنچ نہیں آنے دی۔ دنیا کی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی کے زیر قدم امن اور مسرت دوبارہ بنی نوع انسان کو حاصل ہوسکتی ہیں بشرطیکہ انسان ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے۔

انڈین نیشنل کانگریس کے سابق صدر بابو راجندر پرشاد لکھتے ہیں کہ ’’کربلا کے شہیدوں کی کہانی انسانی تاریخ کی ان سچی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ آپؓ کو کبھی نہیں بھلایا جائے گا‘ نہ ان کی اثر آفرینی میں کوئی کمی آئے گی۔ شہیدوں کی زندگیاں وہ مشعلیں ہیں جو صداقت اور حریت کی راہ میں آگے بڑھنے والوں کو راستہ دکھاتی ہیں‘ ان میں استقامت کا حوصلہ پیدا کرتی ہیں۔

سوامی شنکر اچاریہ نے بھی امام عالی مقام ؓ کو اپنے الفاظ میں یوں شردھانجلی پیش کی کہ ’’اگر حسینؓ نہ ہوتے تواسلامی تعلیمات ختم ہو جاتیں اور دنیا ہمیشہ کیلیے نیک بندوں سے خالی ہوجاتی۔ حسینؓ سے بڑھ کر کوئی شہید نہیں۔‘‘ مشہورافسانہ نگار منشی پریم چند لکھتے ہیں’’معرکہ کربلا دنیا کی تاریخ میں پہلی آواز ہے اور شاید آخری بھی ہو جو مظلوموں کی حمایت میں بلند ہوئی اور اس کی صدائے بازگشت آج تک فضائے عالم میں گونج رہی ہے۔‘‘ ڈاکٹر سہنانے لکھا ’’اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ دنیا کے شہیدوں میں امام حسینؓ کو ایک ممتاز اور بلند حیثیت حاصل ہے۔‘‘ ایک سکھ لیڈر سردار کرتار سنگھ نے اپنے احساسات یوں بیان کئے کہ ’’حضرت محمدؐ نے جو انسانیت کے بہترین اصول پیش کیے تھے امام حسینؓ نے اپنی قربانی اور شہادت سے انہیں زندہ کردیا۔ حسینؓ کا اصول اٹل ہے۔‘‘

مشہور جرمن فلاسفر نطشے بلاامتیاز مذہب و ملت ہر قوم کی نجات کو فلسفہ حسینیت ؓمیں یوں بیان کرتے ہیں’’زہد و تقویٰ اور شجاعت کے سنگم میں خاکی انسان کے عروج کی انتہا ہے جن کو زوال کبھی نہیں آئے گا۔ اس کسوٹی کے اصول پر امام عالی مقامؓ نے اپنی زندگی کی بامقصد اور عظیم الشان قربانی دے کر ایسی مثال پیش کی جو دنیا کی قوموں کی ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی۔ اردو ادب کے شہرہ آفاق نقاد اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنی کتاب ’’سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ ’’ راہِ حق پر چلنے والے جانتے ہیں کہ صلوٰۃعشق کا وضو خون سے ہوتا ہے اور سب سے سچی گواہی خون کی گواہی ہے۔ تاریخ کے حافظے سے بڑے سے بڑے شہنشاہوں کا جاہ و جلال‘ شکوہ و جبروت‘ شوکت و حشمت سب کچھ مٹ جاتا ہے لیکن شہید کے خون کی تابندگی کبھی ماند نہیں پڑتی۔ اسلام کی تاریخ میں کوئی قربانی اتنی عظیم‘ اتنی ارفع اور اتنی مکمل نہیں ہے جتنی حضرت امام حسین ابن علیؓ کی شہادت۔ کربلا کی سرزمین ان کے خون سے لہولہان ہوئی تو درحقیقت وہ خون ریت پر نہیں گرا بلکہ سنتِ رسولؐ اور دین ابراہیمیؑ کی بنیادوں کو ہمیشہ کیلئے سینچ گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خون ایک ایسے نور میں تبدیل ہوگیا جسے نہ کوئی تلوار کاٹ سکتی ہے نہ نیزہ چھید سکتا ہے اور نہ زمانہ مٹا سکتا ہے۔ اس نے اسلام کو جس کی حیثیت اس وقت ایک نوخیز پودے کی سی تھی‘ استحکام بخشا اور وقت کی آندھیوں سے ہمیشہ کیلئے محفوظ کردیا۔‘‘معروف ہندو شاعر رام پرکاش ساحر کہتے ہیں ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحر ہندو بھی ہوں شبیرؓ کا شیدائی بھی اسی طرح رائے بہادر بابو اتاردین لکھتے ہیں وہ دل ہو خاک نہ ہو جس میں اہل بیتؓ کا غم وہ پھوٹے آنکھ جو روئی نہ ہو محرم میں ۱۹۱۸ء میں ہندو شاعر دلو رام کوثری نے طویل مرثیہ بعنوان ’’قرآن اور حسینؓ ‘‘لکھاجس کاایک شعر پیش خدمت ہیں قرآں کلام پاک ہے شبیرؓ نور ہے دونوں جہاں میں دونوں کا یکساں ظہور ہے پنڈت ایسری پرشاد پنڈت دہلوی نے تو بہت کھل کر لکھا کہ نکلیں جو غمِ شہ میں وہ آنسو اچھے برہم ہوں جو اس غم میں وہ آنسو اچھے حکیم چھنومل دہلوی نے امام عالی مقامؓ کے حضور سلامِ عقیدت یوں پیش کیا سلامی کیا کوئی بیکار ہے جی سے گزر جانا حیاتِ جاوداں ہے شاہ کے ماتم میں مرجانا نہ آتا ہو جنہیں راہ حقیقت سے گزر جانا حسینؓ ابن علیؓ سے سیکھ لیں وہ لوگ مرجانا غم آل نبیؐ ممکن نہیں دل سے اتر جانا نہ بھولیں گے کسی کا ہم جواں ہوتے ہی مرجانا مٹانے سے کسی کے نام مٹ جائے ابھی کیونکر ابھی تو رنگ لائے گا شہ بے کس کا مرجانا ۔

سرکش پرشاد نے امام عالی مقام ؓ سے اپنی عقیدت کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا حسین ابن علیؓ ہیں فرد یکتا کوئی مظلوم ایسا تھا نہ ہوگا ولائے سبط پیغمبرؐ ہے نعمت یہ نعمت ہو عطا ہر اک کو مولا ایک اور ہندو شاعر منشی لچھمن داس مرثیہ گوئی میں منفرد مقام رکھتے ہیں ان کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو: کم جس کی خیالیں ہوں‘ وہ تنویر نہیں ہوں بدعت سے جو مٹ جائے وہ تصویر نہیں ہوں پابندِ شریعت نہ سہی گو کہ میں لچھمن ہندو ہوں مگر دشمن شبیرؓ نہیں ہوں عقل و آگہی کے انہی افکار ونظریات کو دیکھتے ہوئے جوش ملیح آبادی نے لازوال جملے کہہ ڈالے کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؓ چرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسینؓ

 انسان

مسلم دنیا کا ایک عظیم مسیحا ''ابن سینا ''

 '

مسلم دنیا کا ایک عظیم مسیحا ''ابن سینا ''

علی الحسین بن عبد اللہ بن الحسن بن علی بن سینا المعروف ابن سینا 

جن کی تصانیف یورپ کی یونیورسٹیز میں ساڑھے سات سو سال تک پڑھائ جاتی رہیں  (980ء تا 1037ء) ہے، جو دنیائے اسلام کے ممتاز طبیب اور فلسفی ہیں۔ ابن سینا  فارس کے رہنے والے ایک جامع العلوم شخص  تھے جنھیں ہارون الرشید کے دور میں اسلام کے  سنہری دور کے سب سے اہم مفکرین اور ادیبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ابن سینا کے نام پر ہی آج ادویات کو میڈیسن کہا جا تا ہے-12ویں صدی کے دوران مغربی یورپ نے قدیم یونانی فلسفے کا ازسرِ نو مطالعہ کیا۔۔ اس عمل میں مغربی محققین ترجمہ کرنے کی اس تحریک سے مستفید ہوئے جس میں عربی میں لکھی گئی تحاریر کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ 

ابوعلی سینا کو مغرب میں Avicenna کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا لقب ’’الشیخ الرئیس‘‘ ہے۔ اسلام کے عظیم تر مفکرین میں سے تھے اور مشرق کے مشہور ترین فلسفیوں اور اطباء میں سے تھے۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے 450  کتابیں  لکھیں ، ان میں سے فلسفہ پر 150 اور ادویات پر 40 تصنیفات تھیں۔ ان کی سب سے مشہور کتابوں میں "کتاب شفایابی، جو  ایک فلسفیانہ اور سائنسی انسائیکلوپیڈیا اور ’طبی قوانین جو ایک طبی انسائیکلوپیڈیا تھا، شامل تھے۔  1973 میں، ابن سینا کی کتاب ’’طبی قوانین نیویارک میں دوبارہ شائع کی گئی۔ فلسفہ اور طب کے علاوہ، ابن سینا  نے فلکیات، کیمیا، جغرافیہ اور ارضیات، نفسیات، اسلامی الہیات، منطق، ریاضی، طبیعیات اور شاعری پر بھی لکھا ہے۔ ابن سینا کو طبی دنیا کا روشن چراغ  بھی کہا جاتا ہے۔

 ابن سینا یا ابو علی سینا،وہ آج کے ازبکستان کے شہر بخارا میں سال 980 میں پیدا ہوئے تھے۔ ابن سینا فارس کے شہری تھے -’اسلام کے سنہرے دور‘ میں لگ بھگ 500 برس کا عرصہ مشرق وسطیٰ میں اہم سیاسی اور ثقافتی تبدیلیوں کا باعث بنا۔12ویں صدی کے وسط سے ابن سینا کی میٹا فزکس یورپ میں واحد میٹا فزکس تھی۔ 12ویں صدی میں ہمیشہ ابن سینا کی فزکس کا مطالعہ کیا جاتا تھا۔   ۔ابن سینا کی ایک تحریر میں خدا اور اس کے بندے کے بیچ فاصلے کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پھر یہی تحقیق اطالوی فلسفی سینٹ تھومس اکوائنس کے مذہبی فلسفے کا حصہ بنی۔ یہ فلسفہ قدیم مسیحی مذہب کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک تھا۔

۔ وہ عظیم فلسفی اور معروف معالج تھے جو اپنے وقت میں عربی میں کتابیں لکھتے تھے۔ وہ آج کے سینٹرل ایشیا میں 980 عیسویں میں بخارا شہر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے سینٹرل ایشیا اور سلطنتِ فارس میں کافی سفر کیا۔ وہ بالآخر آج کے ایران کے شہر اصفہان میں مقیم ہو گئے۔ 10ویں صدی کے دوران سینٹرل ایشیا میں فارس کا شہری، جو عربی بولنا جانتا تھا، یونانی فلسفے تک کیسے پہنچا؟

اس کا جواب بھی ترجمہ کر کے علم حاصل کرنے کی ایک تحریک میں چھپا ہے جس کی ابتدا آٹھویں صدی میں ہوئی تھی۔ اس تحریک کا مقصد کتابوں کا یونانی زبان سے عربی میں ترجمہ کرنا تھا۔ یہ 12ویں صدی میں عربی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کرنے کی تحریک سے بھی بڑی لہر تھی۔عباسی سلطنت کی اس تحریک کی بنیاد دارالحکومت بغداد تھا جو اسی دوران نیا تعمیر ہوا تھا۔ یہاں قدیم یونانی تہذیب کی سائنس اور فلسفے کی تحقیق کا جائزہ لیا جاتا تھا۔ اس تحریک کی آمد اور ابن سینا کے عظیم فلسفی بننے میں کوئی دو صدیوں کا فاصلہ ہے۔ 

   مغربی یورپ نے قدیم یونانی فلسفے کا ازسرِ نو مطالعہ کیا۔ محققین نے بو علی سینا کو  ایک قابل احترام فلسفی تسلیم کیا۔ اس عمل میں مغربی محققین ترجمہ کرنے کی اس تحریک سے مستفید ہوئے جس میں عربی میں لکھی گئی تحاریر کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ عمل 11ویں صدی کے آواخر میں شروع ہوا تھا۔ابن سینا نے اپنے سے پہلے آنے و لے فلاسفہ کے نظریا ت کو ماننے کے بجائے  سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ یہ بات کم از کم مسلمان فلسفیوں کی حد تک درست ثابت ہوئی۔ابن سینا کی زندگی کے 57 برس اس اسلامی دور کا حصہ ہیں جو ان صدیوں کے بعد شروع ہوئے کہ جب عرب فوجیں فا کے علاقوں کو فتح کر چکی تھیں اور اس کے بعد فارس کے شہریوں نے اسلامی تہذیب میں بڑی ثقافتی پیشرفت کی تھی۔

سنہ 1037ء میں ان کا انتقال ہوا۔اور علم کا یہ عظیم خدمت گار اپنے رب کے حضور حاضر ہوگیا

امسال بھی دو کروڑ سے اوپر عزادارو ں کی میزبانی کا شرف سرزمین کربلا نے پایا ہے

   پاکستان سمیت دنیا بھرسے زائرین کی اربعین پر کربلا میں ریکارڈ حاضری۔ہے اربعین کے مقاصد کیا ہیں-ظلم، استبدادی نظام حکومت کے خلاف سیسہ پلائ دیوار بن جانے کا نام اربعین ہے

حضرت امام حسینؑ اور شہدائے کربلا کے چہلم کے موقع پر پاکستان سمیت دنیا بھر سے 2 کروڑ 11 لاکھ سے زائد زائرین کربلا پہنچے۔غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق عراق اور ایران کی بارڈر کراسنگ آرگنائزیشن کے ترجمان علاء الدین القیسی کا کہنا ہے اربعین کے اجتماع میں شرکت کے لیے 2 کروڑ11 لاکھ زائرین پہنچے ہیں۔اربعین میں زائرین کی تعداد 1438ہجری میں ایک کروڑ12لاکھ ، 1439ہجری میں ایک کروڑ 48لاکھ ، 1440ہجری میں ایک کروڑ 53لاکھ، 1441ہجری میں ایک کروڑ 52لاکھ، 1442ہجری میں ایک کروڑ 45لاکھ، 1443ہجری میںایک کروڑ 63لاکھ ،امسال یعنی1444ہجری میں2 کروڑ 11لاکھ98ہزار640رہی۔

گورنر کربلائے معلیٰ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ الحمد اللہ اس سال ہم نے 2 کروڑ سے زائد زائرین ابا عبداللہ الحسینؑ کی میزبانی کا شرف حاصل کیا ہے اور یہ شرکت اب تک کی ریکارڈ شرکت ہے ۔ امام حسینؑ اور شہدائے کربلا کے چہلم کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ محسن انسانیت نواسہ رسول اکرم حضرت امام حسینؑ کی ذات اور آپ کے اہداف آفاقی ہیں، دین اسلام کی سربلندی، انسانی عزت و شرف اور حقوق انسانی کی فراہمی و بحالی کی لہو رنگ جدوجہد امام عالی مقامؑ کی عظیم قربانی کی مرہون منت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں مختلف مکاتب فکر کے نہ صرف کروڑوں مسلمان بلکہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی انتہائی عقیدت و احترام سے امام عالی مقامؑ اور ان کے باوفا اور جانثار ساتھیوں کی عظیم قربانی کی یاد مناتے ہیں۔

شیعہ علما کا کہنا ہے کہ گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی دنیا بھر سے بلاتفریق مذہب و مسلک کروڑوں کی تعداد میں عقیدت مندوں کا سرزمین کربلا پر جمع ہوکر فرزند رسولؑ اور شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اگرچہ اس وقت انسانیت مختلف گروہوں میں بٹ چکی ہے لیکن فرزند رسول سید الشہداءؑ کی ذات ان تمام اختلافات اور طبقات کی تقسیم سے بالاتر تمام انسانوں کے لئے نمونہ عمل ہے، اس لئے گذشتہ چودہ صدیوں سے انسانیت آپ کی ذات سے وابستہ رہنے کو اپنے لئے شرف اور رہنمائی کا باعث قرار دے رہی ہے اور بلا تفریق مذہب و مسلک اور خطہ و ملک آپ کے کردار سے استفادہ کررہی ہے۔

علما کے مطابق عزاداری کے پروگرام اور تقاریب فکر حسینی کی ترویج کا ذریعہ ہیں اور کسی مسلک و مکتب کیخلاف نہیں، پاکستان کے شہریوں کے آئینی و قانونی حقوق اور شہری  آزایوں کا حصہ ہیں لہذا ان کو روکنا یا ان میں رکاوٹیں ڈآلنا کسی طور پر موزوں نہیں ہےۂۓرکہےحکومتوں کا فرض ہے کہ  اور ان کی آزادیوں کی حفاظت کریں۔ انہوں نے یہ بات زو ر دے کر سکہی کہ وحی الہی کے مطابق مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور یہ امت ایک امت ہے لہذا تمام مسالک کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھ کر اخوت، بھائی چارے، باہمی احترام، برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ فرزند رسول سید الشہداءؑ کی فکر انگیز تحریک سے آگاہی و آشناہی حاصل کرکے اتحاد و وحدت، مظلومین کی حمایت، یزیدی قوتوں سے نفرت کی ارتقائی منازل طے کی جائیں، امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخ انسانی کے کربلا جیسے معرکہ حق و باطل میں سرفراز و سربلند فرزند رسول سید الشہداءؑ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے اتحاد و وحدت کے ذریعہ دشمنان اسلام و پاکستان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں اور سامراجی قوتوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر اپنے زندہ و بیدار ہونے کا ثبوت دیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ فرزند رسول سید الشہداءؑ کی فکر انگیز تحریک سے آگاہی و آشناہی حاصل کرکے اتحاد و وحدت، مظلومین کی حمایت، یزیدی قوتوں سے نفرت کی ارتقائی منازل طے کی جائیں، امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخ انسانی کے کربلا جیسے معرکہ حق و باطل میں سرفراز و سربلند فرزند رسول سید الشہداءؑ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے اتحاد و وحدت کے ذریعہ دشمنان اسلام و پاکستان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں اور سامراجی قوتوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر اپنے زندہ و بیدار ہونے کا ثبوت دیں۔حضرت زینب س اور حضرت امام سجاد ع نے اپنے خطبات اور حقائق کو بیان اور واضح کرنے کے ذریعے در اصل ایک مضبوط و مستحکم میڈیا کی مانند واقعہ کربلا کے مقاصد، اہداف، اُس کے مختلف پہلووں اور ایک انقلابی اور زندہ سوچ کو جہاں جہاں بھی انہیں موقع ملا پھیلا دیا 

ایک گھٹے ہوئے سیاسی ماحول کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اُس تنگ و تاریک دور میں لوگوں میں اِس بات کی فرصت و جرأت نہیں ہوتی کہ اُنہوں نے جن حقائق کو سمجھا ہے اُسکے مطابق عمل کر سکیں ۔ اِس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اولاً ظلم و استبداد کی بنیادوں پر قائم حکومتی نظام اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگ حقائق کو سمجھیں اور اگر لوگ اُس کی مرضی اور خواہش کے بر خلاف سمجھ بھی جائیں تو ظالم و مستبدانہ نظام حکومت اُنہیں اِس بات کی قطعی اجازت نہیں دے گا کہ جو کچھ اُنہوں نے سوچا اور سمجھا ہے اُسے عملی جامہ پہنا سکیں ۔

کوفہ اور شام جیسے شہروں میں جہاں سیاسی اصطلاح کے مطابق دباؤ اور گھٹن کا ماحول تھا اور کربلا سے اِن شہروں کے درمیانی راستے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد حضرت زینب س یا امام سجاد ع کی زبانی یا ان اسیروں کی حالت زار دیکھ کر بہت کچھ سمجھ گئے تھے لیکن کسی میں یہ طاقت و جرأت نہیں تھی کہ وہ ظلم و ستم کے اُس حکومتی نظام کے خلاف اور اُس سیاسی دباؤ کے دور میں جو کچھ اُس نے سنا اورسمجھا ہے اُسے اپنی زبان پر لائے! یہ واقعہ اور یہ تمام حقائق ایک پھندے کی صورت میں مومنین کے حلق میں پھنسے ہوئے تھے ۔ لیکن اِس احساس اور پھندے نے چہلم کے دن اپنا حصار توڑ دیا اور چشمہ بن کر کربلا میں پھوٹا ۔


زینب زوی الکرام ولادت با سعادت



روائت ہے کہ جس وقت نور عین فاطمہ و علی علیہ السّلام کے پُر نورآنگن میں بی بی زینب کی ولادت ہوئ اس وقت نبئ اکرم ہادئ معظّم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  شہر مدینہ سے باہر حالت سفر تھے۔چنانچہ تین دن کے بعد آپ  صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم سفرسے واپس تشریف لائے تو حسب عادت سب سے پہلے بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کے حجرے پر تشریف لائے جہاں جناب فاطمہ زہرا کی آغو ش مبارک میں ننّھی نواسی جلوہ افروز تھی آپ نے وفورمحبّت و مسرّ ت سے بچّی کو آغوش نبوّت میں لیا اور جناب حسن وحسین علیہم السّلام کی مانند بچّی کےدہن مبارک کو اپنےپاکیزہ ومعطّر دہن مبارک سے آب وحی سےسرفراز کیا جناب رسالت مآ ب سرور کائنات حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بچّی کو آغوش نبوّت میں  لئے ہوئے نگاہ اشتیاق سےننّھی نواسئ معصومہ کا چہرہ دیکھتے رہے جہاں بی بی خد یجتہ الکبریٰ کی عظمت و تقویٰ اور جناب سیّدہ سلام اللہ علیہاٰ کے چہرے کے نورانی عکس جھلملا رہے تھےوہیں آپ صلعم کے وصی اور اللہ کے ولی مولا علی مرتضیٰ کا دبد بہ اور حشمت ہویدا تھی 


ننّھی نواسی کا ملکوتی چہرہ دیکھ کر حضور اکرم حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم کا چہرہء مبارک خوشی سے کھلا ہوا تھااور اسی وقت بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے محترم بابا جان سے مخاطب ہوئیں بابا جان ہم س انتظار میں تھے کہ آپ تشریف لے آئیں تو بچّی کا نام تجویز کریں تاجدار دوعالم  صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا سے فرمایا کہ بیٹی میں اس معاملے میں اللہ کے حکم کا پابند ہوں جبرئیل امیں کے آنے پر ہی بچّی کا نام تجویز ہوسکے گا ،،


اور پھر اسی وقت آپ کے رخ انور پر آثار وحی نمودار ہوئے اور آ پ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہرا کے سر پر ہاتھ  رکھّا اور مولائے کائنات کو اپنے قریب بلاکر فرمایا گلستان رسالت کی اس کلی کا نام جبرئیل امیں بارگاہ ربّ العالمین سے‘‘ زینب ‘‘  لے کر آئےہیں یہی نام وہاں لو ح محفوظ پر بھی کندہ ہےبیت الشّرف میں اس نام کو سب نے پسند فرمایا ،پھر رسالتماآب صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعاء کی اے تمام جہانوں کے سب سے بہترین مالک میں تیری حمد وثناء بیان کرتے ہوئے تجھ سے دعاء مانگتا ہوں کہ تو نے  جس طرح ہمارے بچّوں کو دین مبین کی حفاظت کا زریعہ قرادیا ہے اسی طرح اس بچّی کو بھی عزّت اور سعادتو ں سے بہرہ مند فرما ،میں تیرے کرم کا شکر گزار ہوں۔


اس دعائے شکرانہ میں جناب حضرت فاطمہ زہرا اور جناب حضرت علی مرتضٰی بھی شامل ہو ئےاور پھر گلستان رسالت کی یہ ترتازہ کلی ہوائے مہرو محبّت میں پروان چڑھنے لگی _وہ جس گھر میں آئ تھی یہ دنیا کا کوئ عام گھرانہ نہیں تھا یہ گھر بیت الشّرف کہلاتا تھا ،اس محترم گھر کے مکین اہل بیت کے لقب سے سرفراز کئےگئے تھے ،اس پاکیزہ و محترم گھرکے منّو ر و ہوائے بہشت سےمعطّر آنگن میں پیغا مبر بزرگ فرشتے حضرت جبرئیل امیں وحی پروردگارعالم عرش بریں سے لےکراترتے تھے اس میں اقامت پذیر نورانی ہستیوں پر ملائکہ اور خود اللہ  درود و سلام بھیجتے تھے اور پھر بوستان محمّد کی یہ ترو تازہ کلی جس کا نام زینب( یعنی اپنے والد کی مدد گار) پرورد گار عالم نے منتخب کر کے لوح محفوظ پر کندہ کر دیا تھا ،فضائے مہرومحبّت میں پروان چڑھنے لگی چادر کساء کے زیر سایہ اس گھر کے مکینوں سے زینب سلام اللہ علیہا نے نبوّت و امامت کے علوم کے خزینے اپنے دامن علم میں سمیٹے توآپ سلام اللہ علیہا کی زبان پر بھی اپنے باباجان علی مرتضیٰ علیہ اسّلام اور والدہ گرامی جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کی مانند اللہ کی حمد و ثناء ومناجا ت کے پھول کھلنے لگے


ہادیوں کے اس گھرانے کو کوئ دنیاوی معلّم تعلیم دینے نہیں آتا تھا ،یہاں تو بارگاہ ربّ العا لمین سے حضرت جبرئیل امیں علوم کےخزانے بزریعہ وحئ الٰہی لا کر بنفس نفیس دیتے تھے چنا نچہ انہی سماوی و لدنّی علوم سےبی بی زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت کو مولائے کائنات اور بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا نے سنوارااور سجایا ،آپ جیسے ،جیسے بڑی ہونے لگیں آپ کی زات میں بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی زات کے جوہر اس طرح نکھرنے لگے کہ آپ کو د یکھنے والی مدینے کی عورتو ں نے آپ کا لقب ہی ثانئ زہراسلام اللہ علیہا  رکھ دیا۔

 ،بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بابا جان کو اور مادرگرامی کو  اور اپنے نانا جان حضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو،فقرا و مساکین کو حاجتمندوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا تھا ،یہ وہ متبرّک ہستیاں تھیں جو اپنی بھوک کو سائل کی بھوک کے پس پشت رکھ دیتے تھے،کسی بھی سوال کرنے والے کے سوال کو سوالی کااعزاز بنا دیتے تھے مشورہ مانگنے والے کو صائب مشورہ دیتے 

بدھ، 21 ستمبر، 2022

کینیڈا میں موسم کے رنگ

اللہ پاک
کریم و کارساز نے ہم انسانوں کی بہتری کے لئے سال کے چار موسم بنائے ہر موسم کے اپنے پھل رکھے سبزیا ں رکھیں یعنی بنی نوع انسانی کی بھلائ ہی بھلائ کے منصوبے دئے -لیکن کینیڈا جیسے سرد ملک میں سردیاں بہت مشکل سے گزرتی ہ
۔ ستمبر  کا مہینہ کینیڈا میں موسم خزاں کے آغاز کو مہینہ ہے، موسم گرما کی گرمی سے راحت مل جاتی ہے کیونکہ بار بار ہلکی بارش کے ساتھ آب و ہوا ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ کینیڈا کے وسیع جنگلات میں موسم خزاں کا بہترین وقت ہے ، ملک میں دنیا کے کچھ بہترین مناظر ہیں اور اس میں فطرت کے اس پہلو کو دیکھنے کے ایک نہیں بلکہ کئی طریقے ہیں خوشی کا موسم!

ای ٹی اے کینیڈا ویزا ایک الیکٹرانک ٹریول اتھارٹی یا ٹریول پرمٹ ہے جو 6 ماہ سے بھی کم عرصے کے لیے کینیڈا جانے اور کینیڈا میں موسم خزاں کے ان مہاکاوی تجربات کو دیکھنے کے لیے ہے۔ بین الاقوامی زائرین کے پاس کینیڈا کا دورہ کرنے کے قابل ہونے کے لیے کینیڈین ای ٹی اے ہونا ضروری ہے۔ غیر ملکی شہری درخواست دے سکتے ہیں۔ ای ٹی اے کینیڈا ویزا آن لائن منٹ کے معاملے میں. ای ٹی اے کینیڈا ویزا عمل خودکار ، آسان اور مکمل طور پر آن لائن ہے
موسم خزاں میں کینیڈا 
الگنون صوبائی پارک Algonquin صوبائی پارک خزاں کے رنگوں میں ملبوس۔
ایک ایسا ملک جس میں متعدد قومی پارکس ہیں جو ہزاروں جھیلوں کے گرد گھنے جنگلات سے گھرا ہوا ہے ، کینیڈا وہ ملک ہے جو اپنے شہروں سے آگے دیکھنے کے لیے زیادہ نظارے رکھتا ہے۔ ۔ ملک کا مشرقی حصہ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ موسم خزاں کے رنگوں کا مشاہدہ کرنے کا بہترین پطریقہ اس کی تمام شدت کے ساتھ پتے سرخ سے نارنجی جا رہے ہیں اور آخر میں سردیوں کی ہوا میں پیلے رنگ کی ساخت کے ساتھ غائب ہو رہے ہیں۔ئ
کینیڈا جیسے بڑے ملک میں موسم خزاں کے پودوں کے وقت کی پیش گوئی کرنا مشکل ہوسکتا ہے لیکن زیادہ تر ستمبر کے مہینوں میں اکثر صوبوں میں موسم خزاں کا آغاز ہوتا ہے اونٹاریو, کیوبک اور سمندری صوبے ملک بھر میں روشن موسم خزاں کے رنگ دیکھنے کے لیے بہترین جگہ ہیں۔
ملک کی بیشتر جھیلوں کو قومی پارکوں سے گھیرے جانے کی وجہ سے ، سرخ اور پیلے رنگ کے میپل کے درختوں کے درمیان واقع پرامن جھیلوں کو دیکھنا زندگی بھر کی تصویر بن جاتا ہے ، جو سرخ جنگلات کو اپنے پرسکون پانیوں میں جھلکتے ہیں۔

کینیڈا کے سب سے قدیم صوبائی پارکوں میں سے ایک ، الگنکوئن نیشنل پارک جنوب مشرقی اونٹاریو میں واقع ہے اس کی حدود میں چھپی ہوئی ہزاروں جھیلیں ہیں ، جنگل کی چھپی ہوئی پگڈنڈیاں جو خزاں کے موسم میں شاندار نظارے پیش کرتی ہیں۔ پارکوں کی شہر سے قربت کی وجہ سے۔ ٹورنٹو، الگونکوئن ملک کے سب سے مشہور پارکوں میں سے ایک ہے جو مختلف قسم کے جنگلی حیات اور کیمپ سائٹس کا گھر ہے۔
کینیڈا کے مختلف شہروں اور خطوں کے موسم کا انحصار اس موسمی حالات اور درجہ حرارت پر ہے جس پر وہ مقامات سال بھر تجربہ کرتے ہیں۔ ہر جگہ سردی اور برفباری سے دور ، کینیڈا کی آب و ہوا کا انحصار ملک میں پائے جانے والے مختلف متنوع مناظر پر ہے۔

وینکوور اور وکٹوریہ کا تجربہ جیسے شہر سمندری آب و ہوا جیسا کہ وہ بحیرہ روم کی سرحد سے ملتے ہیں اور اس طرح ملتے ہیں خشک گرمیاں. اوٹاوا ، مونٹریال اور ٹورنٹو کے پاس بھی ہے گرم گرمیاں اور وینکوور کی سردیوں کینیڈا کے دوسرے بڑے شہروں کے مقابلہ میں کافی ہلکی ہے۔
پہاڑی علاقوں جیسے برٹش کولمبیا مختلف پہاڑی شہروں میں درجہ حرارت اور آب و ہوا کے حالات مختلف ہوسکتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ مختلف اور مختلف بلندی والے علاقوں پر مشتمل ہے۔ مثال کے طور پر ، وینکوور اور کملوپس کے گرم علاقوں کے ٹھیک آنے کے بعد ، جنوبی برٹش کولمبیا کے پہاڑی گزرگاہوں نے لوگوں کو حیرت سے حیرت میں ڈال دیا سبارکٹک یا سبپلائن آب و ہوا. تاہم، ساحلی برٹش کولمبیا موسلا دھار بارش لیکن درمیانی گرمیاں اور سردیوں کا موسم ہوتا ہے۔
اندرون علاقوں جیسے جنوبی اونٹاریو اور کیوبیک براعظم آب و ہوا کا تجربہ کرتے ہیں۔ گرمیاں گرم اور مرطوب ہیں اور سردی اور برف باری ہوتی ہے۔
وسطی کینیڈا اور شمالی کینیڈا، یقینا ، تجربہ اس میں ارکٹک اور سبارکٹک آب و ہوا ٹنڈرا خطوں کی طرح یہاں موسم کی صورتحال اکثر سخت رہتی ہے ، صرف ایک چھوٹا سا موسم گرما ، اسی وجہ سے یہ کینیڈا کے سب سے زیادہ گنجان آباد خطے نہیں ہیں۔
مختلف موسموں میں کینیڈا کا موسم
کینیڈا کے مختلف علاقوں میں کس طرح کے موسم کا سامنا ہے اس کا انحصار اس موسم پر بھی ہوتا ہے جو اس وقت ملک میں چل رہا ہے۔ کینیڈا میں موسم بہار ، موسم گرما ، خزاں اور موسم سرما کے چار بہتر تعی wellن مند موسم ہیں۔

کینیڈا میں موسم سرما
کینیڈا میں سردیاں ملک بھر میں سرد ہیں اگرچہ عرض البلد اور خطوں کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ وینکوور جیسے ساحلی شہروں میں ہلکی سردی ہے جبکہ درجہ حرارت 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک کہیں بھی حرارت صفر سے نیچے گرتا ہے. مونٹریال ، ٹورنٹو ، اور اوٹاوا جیسے فلیٹ لینڈز میں درجہ حرارت -20 ڈگری سینٹی گریڈ کے لگ بھگ گر جاتا ہے۔ یہ ہے تاہم ، کینیڈا کے شمالی علاقوں میں سب سے زیادہ چھلکنے والا اور سخت سردی ہے. کینیڈا میں سردیوں کا موسم دسمبر کے مہینوں سے لے کر فروری کے مہینے تک ہوتا ہے ، کبھی کبھی مارچ تک۔ اگر آپ کو سردی کے موسم پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور آپ سردیوں کے کھیلوں اور کینیڈا کے کئی موسم سرما کے تہواروں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو ، آپ نومبر کے آخر یا دسمبر کے آخر میں اس ملک کا دورہ کریں۔
کینیڈا میں بہار
کینیڈا میں موسم بہار مارچ سے مئی تک جاری رہتی ہے ، حالانکہ یہ فروری کے مہینے میں مغربی ساحلی علاقوں میں آتی ہے اور بہت سے دوسرے خطوں میں صرف اپریل کے بعد ہی یہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ آخر کار ان مہینوں میں درجہ حرارت صفر سے بڑھ جانا شروع ہوتا ہے، جہاں تک  ۳۵ڈگری سینٹی گریڈ تک جا تا ہے۔ 
 - جو سیاح گرم موسم کے حامل علاقوں سے 
  آتے ہیں وہی لوگ خاص طور پر اسے محسوسا۔اللہ پاک و کریم نے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر