جمعرات، 10 اگست، 2023

مرتبہ ء شہادت اللہ کی نظر میں

 

 

 شہید کربلاامام حسین علیہ السّلام کی شہادت-یہ کائنات عالم کی وہ شہادت عظمیٰ ہے جس پر زمین و ہفت آسمان روئے-سمندر کی آخری حدود تک کی مخلوقات خدا روئیں  شجر و ہجر روئے-ہوائیں روئیں -بحرو بر روئے -خشک و تر روئے-ماہِ محرم ہمیں نواسۂ رسول،شہیدِ کربلا حضرت امام حسین اوران کے عظیم جاں نثاروں کی یاد دلاتا ہے ،جنہوں نے کربلا میں ظلم اور باطل نظام کے خلاف کلمۂ حق بلند کرتے ہوئے راہِ حق میں اپنی جانیں قربان کیں۔شہدائے کربلا کے سالار حضرت امام حسین علیہ السّلام  کی ذاتِ گرامی جرأت وشجاعت اور حق وصداقت کا وہ بلند مینار ہے، جس سے دین کے متوالے ہمیشہ حق کی راہ پر حق و صداقت کا پرچم بلند کرتے رہیں گے-قران مجید والفرقان الحمید میں ارشادِباری تعالیٰ ہے:’’اورجولوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انہیں مُردہ مت کہو (وہ مردہ نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں،اللہ تعالیٰ کے راستے میں  جان جان آفریں دیننے والوں کو شہید کیونکہ  کہتے ہیں ؟ لیکن تمہیں(ان کی زندگی کا) شعور نہیں ہے‘‘۔(سورۃ البقرہ)شہادت ایک عظیم رتبہ اور بہت بڑا مقام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے اور وہی خوش قسمت اسے پاتے ہیں، جن کے مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے۔

 اللہ تعالیٰ کے راستے میں  جان جان آفریں دیننے والوں کو شہید  کہتے ہی-مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ۚوَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا ؕ(۶۹)ترجمہ کنز الایمان ::اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔  ؟شہادت کے فضائل سے قرآن وحدیث بھرے ہوئے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک مسلمان کی حقیقی ودائمی کامیابی یہی ہے کہ وہ اﷲ کے دین کی سربلندی کی خاطر شہید کردیا جائے، لہٰذا ایک مومن کی تو دلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ وہ اﷲ کی راہ میں شہادت سے سرفراز ہو۔’ سورۃ النساء ‘‘ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے شہدائے کرام کوان لوگوں کے ساتھ بیان کیا ہے، جن پراللہ تعالیٰ نے اپناخاص فضل وکرم اورانعام واکرام فرمایا اور انہیں صراطِ مستقیم اور سیدھے راستے کامعیاروکسوٹی قرار دیا ہے۔میدان کربلا میں امام حسین کی ثابت قدمی-بے شک سیّد الشہدا حضرت امام حسینؓ نے اپنے پیارے نانا ، خاتم النبیین، رحمت اللعالمین جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین ِ کے گلشن کو اپنے پاکیزہ نورانی لہو سے ایسا سیراب فرمایا کہ تاقیامت اس گلشن میں آنے والے طالبانِ عشق مولیٰ اس سے سیراب ہوتے رہیں گے۔

حضرت امام حسینؓ کی ذاتِ اقدس سے ہی طالبانِ مولیٰ کو ایفائے عہد، راہِ حق میں جرأت و بہادری ،رضائے الٰہی کے حصول میں حقیقی وفا و قربانی اور شدید سخت آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے کا عظیم درس ملتاہے- دنیا کی بے شمار نعمتوں سے انسان لطف اندوز  ہوتا ہے، کسی نعمت کو کھاتا ہے، کسی کو پیتا ہے، کسی کو سونگھتا ہے، کسی کو دیکھتا ہے اور ان کے علاوہ مختلف طریقوں سے تمام نعمتوں کا استعمال کرتا ہے اور ان سے مسرور ومحفوظ ہوتا ہے، لیکن مردِ مؤمن کو شہادت سے جو لذّت حاصل ہوتی ہے، اس کے مقابل دنیا کی ساری لذّتیں ہیچ ہیں، یہاں تک کہ شہید جنت کی تمام نعمتوں سے فائدہ اٹھائے گا اور ان سے لُطف اندوز ہو گا، مگر جب اس کو اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سر کٹانے کا مزہ یاد آئے گا تو وہ جنت کی ساری نعمتیں اور ان کا مزہ بھول جائے گا اور تمنا کرے گا کہ اے کاش !میں دنیا میں واپس کیا جاؤں اور بار بار شہید کیا جاؤں۔قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اِنَّ لشَھِیْدٍ عِندَ اللہِ سَبْعَ خِصَالٍ ، اَنْ یُغْفَرَ لَہُ فِی اَوَّلِ دَفْعَةٍ مِن دَمْعِہ وَيَری مَقْعَدَہ فِی الجَنَّةِ وَ یُحَلّی حُلَّةَ الِایْمَانِ وَ یُزوَّجَ مِنَ الحُورِ العِیْنِ وَ یُجَارُ مِن عَذَابِ القَبْرِ وَیَامَنَ مِنْ یَوْمِ الفَزَعِ الْاَکْبَرِ وَیُوْضَعَ عَلی رَاسِہ تَاجُ الوَقَارِ الْیَا قُوْتَةُ مِنْہ خَیْرٌ مِنَ الدُنْیَا وَمَا فِیْھَا وَ یُزَوَّجَ اِثْنَتَیْنِ وَ سَبْعِینَ زَوْجَةً مِنَ الحُوْرِ العِینِ وَیُشَفَّعُ فِیْ سَبْعِینَ اِنْسَانًا مِنْ اَقَارِبِہ۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ کے یہاں شہید کے لئے 7 کرامتیں ہیں ۔ پہلی بار اسکے بدن سے خون نکلتے ہی اسکی بخشش فرمادی جاتی ہے جنت میں وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے ایمان کے زیور سے آراستہ کردیا جاتا ہے حوروں سے اسکی شادی کردی جاتی ہے عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے قیامت کی ہولناکیوں سے مامون رکھا جاتا ہے اسکے سر پر یاقوت کا تاج عزت رکھا جاتا ہے جو دنیا و ما فیھا سے بہتر ہوتا ہے -اسکے اقربا سے ستر شخصوں کے حق میں اسے شفیع بنایا جائے گا۔جو لوگ لڑائی میں قتل کئے جاتے ہیں، حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک وہ بندۂ مؤمن ہے، جو اپنی جان اور اپنے مال سے اللہ کی راہ میں لڑے اور دشمن سے خوب مقابلہ کرے، یہاں تک کہ قتل کردیا جائے گا۔ یہ وہ شہید ہے، جو صبر اور مشقت کے امتحان میں کامیاب ہوا۔ 

۔ حضرت علی علیہ السلام کی اتنی بڑی فضیلتیں ہونے کے باوجود ، سب سے پہلے پیغمبرِ اِسلام پر ایمان لانے والے،پیغمبر اسلام کی جگہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سونا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے بھائی ہیں ،اماموں کے والد اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے ہمسر ہیں ، بت شکن تھے اور جنگ خندق کے روز آپ علیہ السلام کی ایک ضربت دونوں جہانوں کی عبادت سے افضل پھر بھی آپ علیہ السلام نے کبھی  «فُزت» نہیں فرمایا لیکن جب آپ علیہ السلام کے مبارک سر پر محراب عبادت میں ضربت لگی تو فرمایا :«فزت و ربّ الکعبة» رب کعبہ کی قسم آج علی کامیاب ہوا۔علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، علی کی نگاہ میں بستر پر آنے والی موت سے ،خدا کی راہ میں تلوار سے ہزار بار چھلنی ہو کر مرنے کی اہمیت زیادہ ہے۔۔ جنگ احد میں شہادت نصیب نہ ہونے پر علی علیہ السلام غمگین تھے یہاں تک کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے آپ علیہ السلام کو شہادت کی خوشخبری سنائی

یہ شہید اللہ تعالی کے عرش کے نیچے خیمۂ خداوندی میں ہوگا۔اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی بقا کے لئے بے شمار شہداء نے شہادت کا جام نوش کیا، مگر ان تمام شہداء میں سیّد الشہداء حضرت امام حسین علیہ السّلام  کی شہادت بے مثل ہے کہ آپ جیسی مصیبتیں کسی دوسرے شہید نے نہیں اُٹھائیں، تین دن کے بھوکے پیاسے اس حال میں کہ آپ کے رفقاء عزیز و اقارب و اہل و عیال اور چھوٹے بچے پانی کے لئے تڑپ رہے تھے، جب کہ پانی موجود تھا، یہاں تک کہ دشمن کےجانور بھی اس سے سیراب ہو رہے تھے-

سیما اور سچن -محبّت کہانی

 

اگر دیکھا جائے تو آ ج کے دور میں الیکٹرانک میڈیا دنیا کے دور دراز شہروں -ملکوں میں رہنے والے افراد کے لئے ایسی طاقت ور سورس ہے،  جس کے ذریعے سے ملک کے لوگوں میں آگاہی اور شعور بیدار کیا جاسکتا ہے، اقدار، روایات اور تہذیب پروان چڑھائی جاسکتی ہے۔  وہ کسی طرح نوجوانوں کے لیے مناسب نہیں، رہن سہن، لباس، تہذیب، زبان سب ہی گراوٹ کا شکار ہے۔پھر پاکستانی اور   انڈین  ڈرامے ہیں جو آگاہی کے نام پر وہ کچھ دکھاتے ہیں جو معاشرے میں ایک فی صد کہیں ہورہا ہوتا ہے جرائم ہوں یا عشق و عاشقی کی تربیت ہمارے ڈرامے بخوبی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ بعض دفعہ تو مجرم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں آئیڈیا ڈراموں سے ملا تھا۔ ٹھیک ہے عقل مند کہتے ہیں کہ برائی کو جتنا عام دکھایا اور بتایا جائے گا وہ اتنی ہی پھیلے گی۔-اس کے علاوہ جوان بیویوں کو چھوڑ کر دیار غیر پیسہ کمانے چلے جانا بھی معاشرے میں فساد کا باعث ہوتا ہے-پھر انٹر نیٹ کے مختلف گیمز ہیں جن کے زریعہ دو اجنبی مردو زن قریب آتے ہیں اور پھر وہی ہوتا ہے جو سیما اور سچن کیس میں سامنے آیا ہے 

سیما حیدر کیس پر اہم پیشرفت سامنے آئی ہے ۔بھارتی پولیس نےسیما حیدر سے پانچ پاکستانی پاسپورٹ ، چار موبائل ، دو ویڈیو کیسٹس اور ایک ادھورے نام پر مشتمل غیر مستعمل پاسپورٹ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔دوسری جانب پولیس نے سیما حیدر کے حوالے سے ایک تفصیلی نوٹ جاری کیا ہے جس میں تفصیلی سے بتایا گیا ہے کہ سیما حیدر پاکستان سے ہندوستان کیسے پہنچی ہے ۔تفصیلات کےمطابق کھٹمنڈو کے ایک ہوٹل مالک گنیش نے دعوی کیا ہے کہ سیما حید ر اور سچن نے اس کے ہوٹل میں 8 دن قیام کیا۔رپورٹ کے مطابق گنیش  کا کہنا ہے کہ مارچ 2023 میں دونوں اس کے ہوٹل میں آئے تھے سیما اور سچن زیادہ تر ہوٹل کے کمرے میں ہی رہتے تھے اور صرف شام کو باہر نکلتے تھے اور ساڑھے 9 بجے تک واپس آجاتے تھے ۔ گنیش کے بیان کے مطابق ہوٹل کا کمرہ بک کرنے کے لئے سچن پہلے آیا تھا جبکہ سیما اس سے اگلے دن پہنچی تھی اسی طرح سیما نے ایک دن پہلے ہوٹل چھوڑا تھا اور اگلے دن سچن نے چیک آؤٹ کیا ۔ گنیش کا دعوی ہے کہ دونوں کے ہمراہ کوئی بچہ نہیں تھا کمرے میں بس دونوں تھے ۔ سچن نے اپنا نام شیوانش لکھایا تھا جبکہ کرائے کی ادائیگی بھارتی روپوں میں نقد کی گئی تھی۔

لکھنؤ ، 24جولائی:(اردودنیانیوز.کام/ایجنسیز) پاکستان سے فرار مبینہ طور پر مرتد ہوکر ہندو مذہب میں داخل ہونے والی خاتون سیما حیدر ہر طرح کے دعوے کر رہی ہیں لیکن جب سے یوپی اے ٹی ایس نے اپنی جانچ شروع کی ہے۔ اس معاملے میں آئے روز نئے انکشافات ہو نے لگے ۔ اب اسی تناظر میں اتر پردیش کے بلند شہر سے دو ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جن پر الزام ہے کہ اس نے اپنی طرف سے سیما اور سچن مینا کے لیے جعلی دستاویزات بنائے تھے۔گرفتار ملزمان کے نام پشپیندر مینا اور پون مینا ہیں۔ یہ دونوں بھائی ہیں اور ان میں ایک عوامی خدمت مرکز ہے جہاں وہ کام کرتے ہیں۔ اب الزام یہ ہے کہ سیما حیدر اور سچن ان بھائیوں کے پاس جعلی دستاویزات بنوانے آئے تھے۔کچھ پیسوں کے عوض دونوں نے جعلی دستاویزات بنا کر دے دیا۔ اب اے ٹی ایس نے ان دونوں کو گرفتار کر لیا ہے اور مزید پوچھ گچھ ہونے جا رہی ہے۔اب یہ پہلا انکشاف نہیں ہے جس کی وجہ سے سرحدی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔

 کچھ دن پہلے نیپال کے ایک ہوٹل کے مالک نے کہا تھا کہ سیما اور سچن وہاں ضرور ٹھہرے ہیں لیکن پھر سچن نے اپنا نام شیونش بتایا تھا۔ یعنی وہاں بکنگ بھی فرضی نام رکھ کر کی گئی۔ سیما حیدر نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس الزام کی تردید کی۔ ان کی طرف سے کہا گیا کہ ان کا نام چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔حال ہی میں سیما حیدر کی شادی کی تصویر بھی وائرل ہوئی تھی۔ وائرل تصویر میں سیما حیدر سچن کے ساتھ کھڑی ہیں، ان کے چار بچے بھی موجود ہیں۔ ایک اور تصویر بھی سامنے آئی ہے جس میں سیما سچن کے پاؤں چھو رہی ہیں۔یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سیما نے خود دعویٰ کیا تھا کہ اس نے سچن مینا سے اس سال 13 مارچ کو نیپال کے پشوپتی مندر میں شادی کی تھی۔ اس وقت تک اس شادی کا کوئی ثبوت نہیں ملا؛ لیکن اب اچانک تین ایسی تصویریں منظر عام پر آگئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ شادی ہوئی ہے۔

ملک بھر میں میڈیا کے ذریعہ سنسنی بنائی گئی پاکستانی خاتون سیما حیدر کو لے کر جیوتش پیٹھ شنکراچاریہ اوی مکتیشورانند سرسوتی نے بڑا بیان دے ڈالا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سیما حیدر ملک کے لئے خطرہ ہے، اگر وہ زیادہ دیر تک ملک میں رہی تو ہندوستان کے ساتھ کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتاہے، اس لیے سیما حیدر نامی عورت کو جلد از جلد پاکستان بھیجو۔ انہوں نے یہ بات مدھیہ پردیش کے نرسنگھ پور ضلع میں واقع پرمہنسی گنگا آشرم جھوتیشور میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ سیما کو فوری طور پر ان کے ملک واپس بھیج دینا چاہئے-شنکر اچاریہ کے مطابق ایک وقت تھا جب سیاست مذہب کی سرپرستی میں ہوتی تھی، لیکن اب وہ سیاست نہیں رہی۔ اب سیاست ہو رہی ہے کہ عوام کو کیسے بے وقوف بنایا جائے؟وہیں گیان واپی کے معاملہ پر انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ چاہتے تھے کہ شیولنگ کی پوجا کی جائے، پوجا کے لئے 108 گھنٹے اپواس پر بیٹھے رہے۔ ہمارے دیوتا، پرکٹ ہونے کے بعد بھی پوجیہ نہیں ہیں، ایسے میں ہمارے ملک کے کروڑوں سناتنی لوگ افسردہ ہیں۔جیوتش پیٹھ شنکراچاریہ اوی مکتیشورانند سرسوتی نے مندروں میں ڈریس کوڈ کی بھی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ جب کمپنیوں اور اسکولوں میں ڈریس کوڈ ہے تو مندروں میں بھی ڈریس کوڈ ہونا چاہئے۔بھگوان کے سامنے کیسا لباس پہن کر جانا چاہئے، یہ ڈریس کوڈ ہونا ضروری ہے۔ ہمارا بھی تو ڈریس کوڈ ہے۔

پیر، 7 اگست، 2023

بھکشووں کا پیشوا 'گوتم بدھ

 

 

سن 563 ق م میں ہمالیہ کی ترا ئ میں کپل وستو کے راجہ شدھودا نا کے گھر میں ایک شہزادہ پیدا ہوا جس کا نام سدھارتھ رکھا گیا ۔ ننھے شہزادے کو شروع سے ہی تلوار بازی اور جنگی فنون سکھائے گئے ۔ اس کے علاوہ اپنے وقت کے دانا استادوں نے اسے مذہب و فلسفے کی خصوصی تعلیم دی ۔ سدھارتھ کا خاندانی نام گوتم تھا،  جو آگے چل کر گوتم بدھ(Gautama Buddha) بنا ۔ گوتم کی شادی   ہوئی ، جس سے اس کے ہاں ایک خوب صورت بیٹا پیدا ہوا۔ اس شہزا دے کو بچپن سے غو ر و فکر کی عا دت تھی- غور و فکر کی منزلوں سے گزرتے ہو ۓ ایک دن گوتم بدھ  دنیا سے تیاگ لےکرجنگل کی جا نب نکل گیا  -کئ برس کے بعد اپنی حالت پر غورکرکے گوتم بدھ اس نتیجے پر پہنچا کہ حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ طریقہ درست نہیں تھا۔ گوتم نے تیاگ ختم کیا اور پیپل کے درخت کے نیچے یو گا کا ایک آسن جما کر بیٹھ گیا اور تہیہ کرلیا کہ جب تک اسے نروان نہیں ملے گا، تب تک وہ اس درخت کے نیچے ہی بیٹھار ہے گا۔ آخر انسانی دکھوں ، عذابوں ، بیماریوں ، بڑھاپے اور موت کا سبب کیا ہے؟ یہ سوال مسلسل اس کے ذہن میں گردش کرتا رہا تو اچانک اسے اس سوال کا جواب مل گیا اوراسے نروان حاصل ہو گیا۔ 

گوتم کہتا ہے کہ "میں نے اپنا ذہن ایک نکتے پر مرکوز رکھا اور مجھے خالص گہری و مافوق الانسانی بصیرت حاصل ہوگئی ، جس سے میں نے خود کو مرتے اور پھر جنم  لیتے دیکھا اسکوگہرے غو ر و فکر کی عا دت تھی- ہرجنم میں دکھ، اذیتیں عذاب اور تکلیفیں وغیرہ پہلے جنم سے بھی زیادہ تھیں ۔ ایک جنم کے گناہوں کی سزا، انسان دوسرے جنم میں بھگت رہا تھا۔ بس میں بات سمجھ گیا اور مجھے میرے سوالات کا جواب یہ ملا کہ "انسانی دکھوں کی بڑی وجہ انسانی جنم ہے"۔  نروان حاصل کرنے کے بعد گوتم ، جو اب گوتم بدھ بن چکا تھا، وہ شاگردوں کو با قاعدہ تعلیم دینے لگا۔شہزادہ سدھارتھ نے تنہائی میں انسان کی موجودگی کے مسائل پر استغراق کیا، آخر ایک شام جب وہ ایک عظیم الجثہ انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا تو اسے اس معمے کے سبھی ٹکڑے  باہم یکجا ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔ سدھارتھ نے اس کے بعد ساری رات غورو فکر میں بتائی ، صبح ہوئی تو اس پر اس بات کا انکشاف ہوا کہ اس نے حل پالیا ہے اور وہ یہ کہ اب وہ بدھ بن گیا ہے۔ جس کے معنی ایک اہل بصیرت کے ہیں۔ شہزادہ سدھارتھ جب بدھ بنا تو اس کی عمر 35 برس تھی۔  زندگی کے اگلے 45 سال اس نے شمالی ہندوستان میں سفر کرتے ہوئے گزارے، وہ ان لوگوں کے سامنے اپنے خیالات کا پرچار کرتا جو اسے سننے آتے تھے، 483 قبل مسیح میں وہ  اپنی وفات کے سال تک ہزاروں پیروکار بنا چکا تھا۔

 اگرچہ اس کے افکار لکھے نہیں گئے تھے  لیکن اس کے ماننے والوں نے اس کی تعلیمات کو یاد رکھا  ۔  گوتم کی ساری تپسیا اور اس کے اخلاقی نظام کا حاصل  یہ ہے کہ نروان حاصل کیا جائے ، مگر یہ نروان ہے کیا ؟ اسے کوئی حتمی لفظی معنی دینا تو کچھ مشکل ہے مگر اس کا مفہوم واضح ہے ۔ سنسکرت میں نروان کا طالب ہے " بجھا نا اور ختم کرنا"  اور اس کا مفہوم بنتا ہے خواہشات کی آگ کو بجھا نا۔ اس کے دیگر معنی یہ ہیں ، آواگون یعنی دوبارہ پیدائش سے نجات ،انفرادی شعور کا خاتمہ ،مرنے کے بعد خوشی وسکون حاصل کرنا ، اگر ان تمام مفاہیم کو بدھ کے تناظر میں رکھ کر نروان کا کوئی ایک مفہوم واضح کیا جائے  تو وہ ہوگا "ہرقسم کی خواہشات کے خاتمے کے ذریعے  ،ازلی دکھوں سے نجات  اس وقت کے دستور کے مطابق گوتم بدھ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر درس دیتا تھا اور پھر ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر جاری رکھتا تھا۔ اس کے پیروکاروں کی تعداد بڑھنے لگی ۔ آخر کار جب و وسفر کر تا تھا تو بارہ سو پیروکار یا بھکشو  بھی ہمراہ ہوتے ۔ مہاویر کی طرح گوتم نے بھی دیدوں کی الوہیت سے انکار کیا اور کہا کہ یہ برہمنوں کے تخلیق کردہ ہیں ۔

  وہ ہند و نظام میں مروج پر وہتی نظام کے سخت خلاف تھا، جس میں بابے، مہاراج، پروہت  اور دوسرے مذہبی پیشوا اپنے پیٹ بھرنے کے لیے سادہ و جاہل لوگوں کو بے وقوف بنا کر ، چالاکی سے ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔  گوتم بدھ کے خیالات تیزی سے پھیلنے لگے اور یہ ہر جگہ مقبول ہونے لگے جوں جوں اس کی عمر بڑھتی گئی اس کے اندرونی سکون میں اضافہ ہوتا چلا گیا  گوتم نے اپنی تعلیمات کو موثر بنانے کے لیے ان کو مختلف تشریحات یعنی خلاصوں میں تقسیم کیا۔ گوتم بدھ کے مطابق، دکھ کے محرک اور وجوہات ختم کر دیں تو دکھ ختم ہو جائیں گے۔ یعنی خواہش کا خاتمہ ہی دکھوں کا خاتمہ ہے ۔“  دکھوں کے خاتمے کا یہ عظیم راستہ آٹھ منازل پرمشتمل  ہے جو یہ ہیں : درست نظر ، درست اراده، درست گفتگو، درست رویہ، درست کمائی،  درست کوشش، درست سوچ اور درست مراقبہ ۔بدھ نے پانچ اخلاقی فرمان جاری کیے، جو کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہ    بدھ کے فلسفے کا مرکز انسان ہے ۔ انسان کے دکھ اور ان کا خاتمہ، بدھ کے نزدیک بہت اہم ہے۔ اس کا پیغام محبت کا پیغام ہے۔ اہنسا اور عدم تشدد کا پیغام ہے، مساوات کا پیغام ہے اور پورے عالم انسانیت کی بھلائی کے لیے سچائی ، دیانت داری اور راست گوئی کا پیغام ہے۔ یہ پیغام تیزی سے ہر طرف پھیلا۔ نیپال و ہندوستان سے ہوتا ہوا موجودہ پاکستان، افغانستان، وسطی ایشیا اور روس تک پہنچا۔ دوسری طرف مشرق بعید سے ہوتا ہوا، خصوصا جاپان و چین میں انتہائی مقبول ہوا۔ پورے ایشیا میں جگہ جگہ بدھ کے آثار موجود ہیں ۔

بدھ مت میں کئی فرقے پیدا ہوئے لیکن نروان ان کا مرکزی نکتہ ہے، جس پر سب متفق ہیں۔ ہندوستان کا عظیم فلسفی شہنشاہ "اشوکا"  بھی بدھ مت کا پیروکار ہو گیا تھا اور  اس نے بے شمار مقامات پر بدھ کے مجسمے نصب کروائے ۔ زمانے کی گرد ہر نظریے کو دھندلا دیتی ہے مگر آج بھی گوتم کے فلسفہ انسانیت ، محبت اورہمدردی کے  کروڑوں پرستار موجود ہیں ۔  سن 483 ق م میں چہرے پر بے پناہ سکون اور دھیمی مسکراہٹ سجائے تاج و تخت کو ٹھکرانے والا کپل وستو کا شہزادہ اپنے لاکھوں بھکشوؤں کو سوگوار چھوڑ کر 80 سال کی عمر میں اس دنیا کو خاموشی سے الوداع کہہ گیا۔           گوتم نے ساری زندگی ہرقسم کی قربانی وعبادت کی مخالفت کی مگر اس کےانتقال کے بعد اس کی ہی پوجا شروع ہوگئی۔ جگہ جگہ اس کے مجسمے نصب ہو گئے اور بھکشوا سے ایک عظیم نر وان یافتہ اور نجات یافتہ روح سمجھ کر پوجنے لگے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر