اس گھرانے میں محمد الرسول اللہ ص جیسے باپ ہیں، علی ع جیسے شوہر اور حسنین ع جیسے فرزند ہیں۔ زینب ع جیسی بیٹی اور فاطمۃ الزہراع جیسی ماں ہیں۔
یہ پورا کا پورا گھرانا بارگاہ خداوند کی جانب سےمقدس و مطہر ہے۔ لہٰذا بار بار اس گھر کی چوکھٹ پر اپنی جبینِ نیاز جھکانے کو باعثِ افتخار سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں علماء، شعراء اور مفکرین نے اہلبیت علیہ السلام کی مدح سرائی کی ہے لیکن اقبال رحمۂ اللہ علیہ کو ان مدح سراحوں میں مخصوص امتیاز حاصل ہے۔ جب جب اقبال اہلبیت ع کی بارگاہِ فیض بخش میں حاضر ہوئے ہیں۔ اُن کا تخلیقی شعور اور عقیدت و احترام کا جذبہ عروج پر تھا۔ نتیجتاً مدحتِ اہلبیت اہلبیت علیہ السلام کے حوالے سے اقبال کے یہاں مخصوص اندازِ بیان، پاکیزہ فکر، اور افراط و تفریط سے مبرا جذبۂ عشق پایا جاتا ہے۔
محمد و آلِ محمد ص کی توصیف و تعریف میں انہوں نے قرآنی معیارات اور تاریخی حقائق کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا ہے۔ تعظیم و تکریم سے لبریز جذبات کے باوجود علامہ نے متوازن اصطلاحات اور شایانِ شان الفاظ کے ذریعے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ ثبوت کے طور ان اشعار کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے جو ’’رموز بےخودی‘‘ میں علامہ اقبال نے جناب زہراء کے شان میں کہے ہیں۔ رموز بےخودی میں علامہ اقبال نے خواتینِ ملت کے لیے ایک بڑا حصہ وقف کیا ہے۔ان میں سے پہلا باب ’’درمعنی ایں کی بقائے نوع از امومت است و حفظ و احترام امومتِ اسلام است‘‘ دوسرا باب ’’درمعنی ایںکہ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراؑ اسوہ کاملہ ایست برائے نساءِ اسلام‘‘
تیسرا باب ’’خطاب بہ مخدراتِ اسلام‘‘ عنوان سے قائم کیا گیا ہے۔ ان تینوں ابواب کے مرتبط مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پہلا اور تیسرا باب اُس دوسرے باب کی جانب راجع ہیں جس میں جناب فاطمہ ع کے سیرت و کردار کے حوالے سے لطیف و عمیق نکتے بیان ہوئے ہیں۔
اس باب کے آغاز میں علامہ اقبال نے نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ جناب سیدہ ع سے اپنی عقیدت کی وجہ بیان کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ انکی فضیلتِ نسبی اور شرفِ نسبتی کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ اس باب کے آسان تجزیہ و تحلیل کے لئے اس میں درج اشعار کو چند عنوانات کے تحت تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
علا مہ اقبال رحمۂ اللہ فرماتے ہیں جناب زہراؑ کے حسب و نسب کی پاکیزگی اور عظمت کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چہیتی بیٹی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ یہ نسبت محض قریبی رشتہ ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ جناب سیدہ اپنے والدِ گرامی رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مشن میں ان کی بہترین معاون و مددگار ثابت ہوئیں۔ پدرانہ شفقت اپنی جگہ، رسول اللہ اپنی بیٹی کے تئیں جس عزت و تکریم اور انتہائی محبت و شفقت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اس کا بنیادی محرک حضرت فاطمہ کی عظیم شخصیت اور اسلام کے تئیں ان کی لامثال فداکاریاں تھیں۔
جناب فاطمہ سلام اللہ علیہانے کم سنی میں ہی اپنے عظیم المرتبت باپ کی اولوالعزمانہ شخصیت کو درک کیا تھا۔ آپ ع کارِ رسالت کی حساسیت اور سنگینی سے بخوبی واقف تھیں۔ فاطمہ ع جانتی تھیں کہ اس کے پدربزرگوار پروردگار عالم کی جانب سے مبعوث بہ رسالت ہیں۔ اس الہٰی مسؤلیت کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے جو واحد راستہ ہے وہ فدا کاری کا راستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فاطمہ ع نے اپنے بچپن کی تمام معصومانہ مشاغل کو تج دیا اور اوائل عمری سے ہی اپنے گفتار و کردار کے ذریعے اپنی جلالت و بزرگی کا مظہر بن گئیں۔آپ کا وجود طاہرہ
جسمانی پیکر طفلانہ خصائص سے مزّین تھا لیکن آپ کی معنویت کا یہ عالم تھا کہ طفلگی میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شانہ بشانہ تمام مصائب و آلام کا مقابلہ کیا۔
کفارِ قریش کی حشر سامانیوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ اپنے شفیق والد کے تئیں مخالفینِ اسلام کی ایذا رسانیوں پر انتہائی صبر کیا۔ شعبِ ابی طالب کے تلخ ترین تین سال گرسنگی و تشنگی کے عالم میں گزارے۔ مگر حرفِ اف تک اپنی زبانِ مبارک جاری نہ کیا۔ جب کبھی محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھکے ماندے گھر لوٹ آتے تو حضرت فاطمہ علیہا السلام اپنے ننھے منھے ہاتھوں سے وہی کام انجام دیتیں جو کام مادرِ رسول ص جناب آمنہ سلام للہ علیہا کے ہاتھوں انجام پاتا اگر وہ ان ایام میں بقیدِ حیات ہوتیں۔
بارہا ایسا ہوتا رہا کہ پیغمبر گرامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گرد آلود اور مجروح حالت میں جب گھر تشریف لے آتے تو انکی یہ کم سن بیٹی زخموں پر مرہم لگاتی گرد و غبار کو صاف کرتیں جو دشمنانِ پیغمبر ان پر وقتاً فوقتاً ڈال دیتے۔ اس پر مستزاد یہ کہ نہایت ہی کم سن بیٹی اپنے پدرِ بزرگوار کو معصومانہ لہجے میں کچھ یوں دلاسہ دیتی کہ جیسے فاطمہ سلام اللہ علیہا کے روپ میں بی بی آمنہ متکلم ہوں ۔ بالفاظِ دیگر کارِ آمنہ بدست فاطمہ انجام پایا تو رسولِ خدا نے اپنی لختِ جگر فاطمہ کو ’’ام ابیھا‘‘ یعنی ’’اپنے باپ کی ماں‘‘ کے خطاب سے نوازا۔
اس کے علاوہ رسولِ رحمت دوعالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیش نظر وہ تمام قربانیاں بھی تھیں جو اسلام کی حفاظت کے لیے مستقبلِ قریب میں حضرت زہراء بالواسطہ یا بلاواسطہ دینے والی تھی۔ درج ذیل شعر کو اسلام کی ابتدائی تاریخ کے پسِ منظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو باپ بیٹی کے مقدس رشتہ کے پشت پر ایک معنوی تمسک کا بھی کسی حد تک ادراک ہو سکتا ہے۔شاہ ولایت ع اور خاتون جنت ع کی ازدواجی زندگی ہر جہت سے رسولِ کریم ص کے اس قول کی عملی تائید ہے کہ ’’اگر علی ع نہ ہوتے تو فاطمہ کا کوئی کفو نہ ہوتا‘‘۔ جس شان اور عنوان سے حضرت فاطمہ ع نے بحیثیتِ دخترِ رسول ص فقید المثال کردار پیش کیا اُسی شان سے انہوں نے اپنے شوہر حضرت علی علیہالسلام کے ساتھ ایک مثالی زوجہ کا رول نبھایا