ہفتہ، 4 فروری، 2023

جشن ولادت مولا علی علیہ السّلام

 جشن ولادت مولا علی علیہ السّلام

رجب المرجّب کی 13 جشن ولادت مولا علی علیہ السّلام  تاریخ کے آتے ہی  مولود کعبہ، جانشین پیغمبر، فاتح خیبر و خندق، مولائے متقیان، مولی الموحدین- امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت باسعادت پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں جشن و محافل کا سلسلہ جاری ہو جاتا  ہے۔اور عالم اسلام میں کیوں نا جشن منایا جائے کہ اس تاریخ کو ان کے جلیل القدر پیشوا کی خانہ ء خدا میں آمد دن ہے-

تمام عالم اسلام کوجشن ولادت باسعادت مولود کعبہ، فاتح خیبر، امام المتقین، شیر خدا، ولی خدا، نائب رسول، جانشین رسول ص، فرزند ابوطالب ع، وارث الانبیاء، اسداللہ یداللہ، عین اللہ، وصی رسول، مشکل کشاء، حیدر کرار، ابوتراب، مظھرالعجائب، ، امام ال اولیاء، لساناللہ، ، نفس رسول ص، فاروق اعظم، صدیق اکبر، ابو الائماء، علی المرتضی مولاء کائنات امام علی علیہ السلام مبارک

دنیا میں یہ مقام اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت ابوطالب کے لعل حضرت علی علیہ السلام کو عطا کیا ہے کہ 13 رجب کے دن آپ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی جبکہ 21 رمضان کو شہادت بھی خانہ خدا مسجد کوفہ میں ہوئی اور یوں ولادت سے شہادت تک علی علیہ السلام  کا ہر لمحہ رضائے الٰہی اور خوشنودی پروردگار کے لئے بسر ہوا۔پیغمبر اسلام   صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے آپ کا نام علی رکھا،حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔

آپ کے مشہور القاب امیر المومنین، مرتضی، اسداللہ،یداللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں حضرت علی علیہ السّلام کی مشہور کنیت ابوالحسن و ابو تراب ہیں۔آپ کے سلسلہ میں بہت زیادہ فضائل نقل ہوئے ہیں؛ آنحضرت نے دعوت ذوالعشیرہ میں آپ کو اپنا وصی و جانشین معین کیا۔ شب ہجرت جب قریش رسول خدا کو قتل کرنا چاہتے تھے، آپ نے ان کے بستر پر سو کر ان کی جان بچائی۔ اس طرح حضورؐ نے مخفیانہ طریقہ سے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینہ میں جب مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم ہوا تو رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی قرار دیا۔ شیعہ و سنی مفسرین کے مطابق قرآن مجید کی تقریبا 300 آیات کریمہ آپ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہیں۔ جن میں سے آیہ مباہلہ و آیہ تطہیر و بعض دیگر آیات آپ کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔

آپ جنگ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شریک تھے۔ جنگ تبوک میں رسول اللہؐ نے مدینے میں آپ کو اپنے جانشین کے طور پر مقرر کیا۔ آپ نے جنگ بدر میں بہت سے مشرکین کو قتل کیا۔ جنگ احد میں آنحضرت کی جان کی حفاظت کی۔ جنگ خندق میں عمرو بن عبدود کو قتل کرکے جنگ کا خاتمہ کر دیا اور جنگ خیبر میں در خیبر کو اکھاڑ کر جنگ فتح کر لی۔

رسول خدا نے اپنے آخری حج سے واپسی پر آیہ تبلیغ کے حکم خدا کے مطابق، غدیر خم کے مقام پر لوگوں کو جمع کیا۔ خطبہ غدیر پڑھنے کے بعد حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کیا اور فرمایا؛ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں۔ خدایا اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے، اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے۔ اس خطبے کے بعد صحابہ میں سے بعض جیسے عمر بن خطاب نے آپ کو مبارک باد پیش کی اور امیرالمومنین کے لقب سے خطاب کیا۔ شیعہ و بعض اہل سنت مفسرین کے مطابق، آیہ اکمال اسی دن نازل ہوئی ہے۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق، من کنت مولاہ فعلی مولاہ کی روز غدیر کی تعبیر، جانشین معین کرنے کے معنی ہے۔ اسی بنیاد پر شیعہ دوسرے فرق کے مقابل اپنا امتیاز آنحضرت کی جانشینی کے لئے حضرت علی کے اللہ تعالی کی طرف سے منتخب ہونے کو قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اہل سنت اسے عوامی انتخاب مانتے ہیں۔

حضرت  علی علیہ السلام ھاشمی خاندان کے وه پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور والده دونوں ہاشمی ہیں،جواں مردی، دلیری، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت  علی علیہ السلام کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ پیغمبر اکرم ا۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پنی زندگی کے آخری سال میں حج کا فریضہ انجام دینے کے بعد مکہ سے مدینے کی طرف پلٹ رہے تھے،جس وقت آپ کا قافلہ جحفه کے نزدیک غدیر خم نامی مقام پر پہنچا تو جبرئیل امین آیہ بلغ لیکر نازل ہوئے،پیغمبر اسلام ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے قافلے کو ٹہرنے کا حکم دیا،پیغمبر اکرم  ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  اونٹوں کے کجاوں سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور حضرت علی علیہ السلام  کے ہاتھ کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا،” ایھا الناس ! من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں“،رسول اللہ  ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی۔

حضرت علی علیہ السّلام کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول خدا ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے،کبھی یہ کہتے تھے کہ “علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں”۔ کبھی یہ کہا کہ “میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے”۔ کبھی یہ کہا “آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے”۔ کبھی یہ کہا “علی کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی”۔ کبھی یہ کہ “وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں”یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا،عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجد کے صحن میں کھلنے والے،سب کے دروازے بند ہوئے تو علی علیہ السّلام کا دروازہ کھلا رکھا گیا،

جب مہاجرین و انصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے اپنا بھائی قرار دیا۔سن ۳۵ ہجری قمری میں مسلمانوں نے خلافت اسلامی کا منصب حضرت علی علیہ السّلام کے سامنے پیش کیا تو پہلے تو آپ نے انکار کردیا،لیکن جب مسلمانوں کا اصرار بہت بڑھا تو آپ نے اس شرط سے منظور کرلیا کہ میں قرآن اور سنت پیغمبر  ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رعایت سے کام نہ لوں گا،جب مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کرلیا تو آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی

کراچی اپنے ماضی کے جھروکوں سے

کراچی اپنے  ماضی کے جھروکے سے- شہر کے بیشتر پرانے لوگوں کو اس چیز کا علم ہوگا کہ یہاں کبھی سڑکوں پر ٹن ٹن کرتی ٹرام دوڑا کرتی تھیں جو ٹرانسپورٹ کا انتہائی اہم ذریعہ تھیں-قیام پاکستان کے بعد لوگوں کا اندرون ملک سفر کا بڑا ذریعہ ریل گاڑی تھی لیکن اندرون شہر کے لئے آمد و رفت کا اہم ذریعہ ٹرام ہوا کرتی تھی گو کہ اس وقت مالی اعتبار سے مضبوط افراد کے پاس ہی گاڑیاں ہوا کرتی تھیں لیکن عام شہری تانگوں یا ٹرام میں ہی سفر کیا کرتے تھے۔ جن راستوں سے دن میں کم از کم ایک بار ہمارا گزر ہوتا ہے وہاں کبھی ٹرام بھی چلا کرتی تھی لیکن آج اس کی باقیات کا بھی کوئی وجود نہیں لیکن وہ سڑکیں آج نئے ناموں سے جانتے ہیں - 

 ٹرام ایک چھوٹی ریل گاڑی نما سفری گاڑی تھی جو پٹڑیوں پر چلتی تھی جس میں 60 سے 70 افراد کی بیک وقت بیٹھنے کی گنجائش تھی اور مسافروں کے بیٹھنے کے لئے چاروں اطراف سیٹیں تھیں جب کہ درمیان میں مسافروں کے کھڑے ہونے کی جگہ۔ ٹرام میں کوئی شیشے نہیں بلکہ صرف ایک چھت اور کھڑکیوں کی جگہ بڑ ے بڑے ہوادان ہوتے تھے جو ہنگامی صورت میں ایگزٹ ڈور کا بھی کام دیتے تھے، اگر یوں کہا جائے کہ ٹرام اپنے زمانے کی جدید مسافر گاڑی تھی تو یہ غلط نہ ہوگا۔ آج کراچی آبادی اور رقبے کے اعتبار سے پھیل چکا ہے لیکن آج سے 50 سال قبل کراچی کے نقشے پر اولڈ سٹی ایریا ہی تھا اور یہیں ٹرام چلا کرتی تھی۔ 

بندر روڈ جسے آج ایم اے جناح روڈ کہا جاتا ہے یہاں ٹرام کا ایک طویل ٹریک تھا جو گرو مندر سے شروع ہوکر ٹاور پر ختم ہوتا تھا اور اسی ٹریک سے مزید دو ٹریک نکلتے تھے ایک کیپری سینما سے سولجر بازار کو جاتا تھااور وہاں سے سیدھا گرومندر اور اسی طرح ایک ٹریک کینٹ اسٹیشن سے سیدھا بندر روڈ پر آکر ملتا تھا۔ ایم اے جناح روڈ کے عین وسط میں جہاں آج دونوں سڑکوں کو تقسیم کرنے کے لئے ڈیوائڈر بناہے وہیں ٹرام کی پٹڑیاں بچھی تھیں اسی طرح کینٹ اسٹیشن سے ایمپریس مارکیٹ اور وہاں سے سیدھا ایم اے جناح روڈ تک سڑک کے بیچ و بیچ پٹڑیاں آتی تھیں۔ کراچی کےبزرگ شہری ٹرام کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ٹرام اپنے زمانے کی تیز ترین اور پرکشش سواری ہوا کرتی تھی جو شہر کے مرکز میں چلا کرتی تھی اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا کا کوئی اسٹاپ نہیں ہوتا تھا اس لئے مسافر چلتی ٹرام پر چڑھا کرتے، جس طرح آج اگر آپ کسی مسافر بس ڈبلیو گیارہ، یا جی سترہ میں سفر کریں تو ان میں بھی مسافروں کو اکثر چلتی بس سے اترنا پڑتا ہے ایسا ہی کچھ ٹرام میں بھی تھا۔

 مشتاق سہیل کے مطابق جب کبھی ہمیں تغلق ہاؤس سے ٹاور جانا ہوتا تو تبت سینٹر تک پیدل چلا کرتے اور وہاں ٹرام کا انتظار کرتے اور پھر 10 سے 15 منٹ میں ٹاور پہنچ جایا کرتے تھے، ٹرام میں سفر کرنے کے کچھ اصول تھے کہ آپ کو بھاری بھرکم سامان لے جانے کی ہرگز اجازت نہیں تھی ہاں اگر ایک آدھ بیگ ہو جسے گود میں ہی رکھ لیا جائے تو اسکی اجازت تھی۔ ٹرام کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں ڈرائیور کے لئے کوئی الگ سے ڈرائیونگ سیٹ نہیں تھی اور وہ بالکل اگلے حصے میں کھڑا ہوکر ایک ہاتھ سے گھنٹی بجاتا رہتا اور دوسرے ہاتھ سے پٹڑی پر چلنے والے لوگوں کو ہٹنے کا اشارہ کرتا رہتا اور دن بھر یہی سلسلہ جاری رہتا تھا۔ 1975 تک جب تک ٹرام چلتی رہی اس کا کرایہ دس پیسے تھا اگر آپ کو گرومندر سے ٹاور جانا ہو یا کینٹ اسٹیشن سے ٹاور یا صدر آنا ہو تو اس کا کرایہ دس پیسے ہی تھا اور اس زمانے میں چونکہ کوچز اور بسیں نہیں تھیں تو اکثر لوگ ٹرام سے ہی سفر کیا کرتے تھے۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں کراچی مختصر اور بہت پرامن شہر ہوا کرتا تھا جو اولڈ سٹی ایریا اور لالو کھیت دس نمبر تک ہی محیط تھا، سوک سینٹر کے قریب قریب اور پیرکالونی سے آگے کچھ نہیں تھا اور اس وقت بڑے بزرگ کہا کرتے تھے کہ شہر سے 12 میل پرے ہے کیکل بیلی بستی یونیورسٹی اور یونیورسٹی جانے کے لئے 40 فٹ کی کچی سڑک تھی جس پر نہ لائٹ تھی اور نہ ہی اسے پکا کیا گیا تھا اور آج جہاں سوئی گیس کا دفتر ہے وہاں لائٹ ہوا کرتی تھی لیکن قریبی علاقے ویران تھے جب کہ طالبعلم عموماً تانگوں پر یونیورسٹی جایا کرتے تھے۔ 60

 کی دہائی میں اہم سڑکوں پر ٹرام کے علاوہ ڈبل ڈیکر، بھگیاں اور تانگے چلا کرتے تھے اور انتہائی محدود تعداد میں چند ایک بسیں بھی تھیں اور وہ یہی خستہ حال ون ڈی، فور ایل وغیرہ بسیں تھیں جو آج بھی مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جارہی ہیں جو اسی دور کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ عام طور پر بھگیاں اور تانگے بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) سے سولجر بازار سے قائداعظم کے مزارسے ہوتے ہوئے خداداد کالونی اور لائنز ایریا میں چلتے تھے اور لائنز ایریا میں سینٹ پیٹرکس اسکول سے چند قدم کے فاصلے پر اس وقت بھی گھوڑوں کا اصطبل موجود ہے جو اسی دور کی یادگار ہے۔ مشتاق سہیل نے ایک دلچسپ بات یہ بتائی کہ اس زمانے میں کراچی کی سڑکیں دھلا کرتی تھیں جن راستوں پر تانگے اور بھگیاں چلا کرتی تھیں وہاں صبح سویرے پانی سے بھرے ٹینکر آتے اور پھر بڑے بڑے پائیپوں کے ذریعے سڑکوں کی دھلائی کا کام علی الصبح مکمل کرلیا جاتا جس کے بعد سورج نکلنے تک جمع شدہ پانی خشک ہوجاتا اور یہ مشق ہفتہ وار بنیاد پر کی جاتی تھی۔ پورے شہر میں حکومت کی جانب سے گھوڑوں کو پانی پلانے کے لئے خاص خاص جگہوں پر پیاو بنائے گئے تھے جس سے تانگہ بان وہاں ٹہر کر اپنے گھوڑوں کو پانی پلایا کرتے تھے -آج کراچی کی جم غفیر آبادی میں سب کچھ درہم برہم ہو چکا ہےاور اس بے ہنگم دور میں پرانا کراچی کہیں دور گم ہو چکا ہے باقی رہے نام اللہ کا

رام باغ آرام باغ کیسے بنا ؟

کراچی کے قدیم رام باغ کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ باغ 1939 میں ایک مخیر ہندو شخص دیوان جیٹھانند نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ  باغ اب بھی سوامی نارائن مندر کے قریب برنس روڈ پر موجود ہے۔-لیکن تقسیم برّصغیر کے بعد اس کا نام آرام باغ ہو گیا ہے -تقسیم سے قبل  کراچی میں مسلمانوں اور دوسری قومیتوں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے اس وقت کے مستند لکھنے والوں نےاپنی تحریروں میں لکھا  کہ کراچی کے ہندو و مسلمان باہم مل جل کے رہتے تھے اور دونوں آزادانہ طور پر اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔ ماہ محرم میں شیعہ مسلمان کراچی کی سڑکوں پر تعزیوں اور علم کے جلوس نکالتے تھے اور ہندو دسہرے کے تہوار میں نہایت دھوم دھام سے کالی مائی کا جلوس نکالتے تھے۔جبکہ پارسی قوم بھی آزادی سے اپنی عبادت گاہ فائر ٹیمپل پر جاتی تھی-سکھوں کو اپنی عبادت گاہ گردوارے جانے میں کسی دقّت کا سامنا نہیں تھا-  

"رام باغ" کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ کراچی کا ایک پرانا تفریحی باغ اور گراؤنڈ ہے۔ اس کے کچھ حصے پر سبزہ اور پھولوں کی کیاریاں ہیں۔ یہ قیام پاکستان سے قبل ہندوؤں کے مذہبی اجتماعات کے لیے مخصوص تھا تاہم یہاں کبھی کبھی سیاسی جلسے بھی منقعد ہوتے تھے۔ اس باغ کے بارے میں ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں درج ہے کہ رام نے ہنگلاج (بلوچستان) جاتے ہوئے یہاں ایک رات قیام کیا تھا۔  مُنشی لام پرشاد ماتھُر کی کتاب "ہندو تیوہاروں کی دلچسپ اصلیت" کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ'رام رام رام' کے عنوان سے  "ہندوؤں نے پاک نام اور دعائے خیر کو بات بات پر ملانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاََ دو شخص مل کر "جے رام جی" یا "جے شری کرشن" کرتے ہیں۔ یعنی فتح یا بھلا ئی کی دعا کر کے بے غرضانہ طور پر اِس کو رام یا کرشن کو ارپن کر دیتے ہیں اور ذاتی نفع کی خواہش معیوب سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ صرف رام رام ہی کہہ دیتے ہیں جس میں اِس بے غرضی کا ذکر بھی نہیں ہونے پاتا۔ اگر تکلیف ہوتی ہے تو "ہائے رام" اگر خوشی ہوئی تو رام نے سُن لی، یا رام نے دَیا کی کہتے ہیں۔ بلکہ نفرت کے وقت بھی 'رام رام رام' کہنے لگتے ہیں"

۔ رام کا کردار ہندو مذہب میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ نامور قانون دان اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین امر ناتھ موٹو مل نے ہمیں اس حوالے سے بتایا کہ شری رام اپنے والد راجا دسرتھ کی بڑی اولاد تھے اور دسرتھ کے بعد تاج کے حقدار تھے۔ رامائین کے مُطابق ایک بار جب راجا دسرتھ جنگل میں شکار کر رہے تھے تو ایک سانپ نے اُنھیں ڈس لیا۔ اس موقع پر رام کی سوتیلی ماں رانی کیکئی نے اُن کی جان بچائی۔ راجا نے اس کے صلے میں رانی کو کہا کہ وہ کیا مانگنا چاہتی ہیں۔ رانی نے راجا کو کہا کہ وہ اس وقت کُچھ نہیں چاہتی لیکن وقت آنے پر راجا کو اس کے دو وعدے پورے کرنے ہوں گے۔ راجا نے حامی بھرلی۔ جب راجا دسرتھ مرنے کے قریب تھا اور اُس نے اپنے بڑے بیٹے رام کو راجا بنانا چاہا تو رام کی سوتیلی ما ں نے راجا کو اپنے وعدے یاد دلائے-

 رانی نے راجا سے کہا کہ "رام" کے بجائے اُس کے بیٹے "بھرت" کو راجا بنائے اور "رام" کو چود ہ سال کے لیے بن واس (جنگل بدری) بھیج دے۔ راجا دسرتھ نے نہ چاہتے ہوئے بھی رانی کی دونوں خواہشیں پوری کیں۔ رام نے ایک فرماں بردار بیٹا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے باپ کے حُکم پر تخت و تاج چھوڑ کر جنگل کی راہ لی۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ رام نے چودہ سال جنگل میں گذارے۔ راون سے جنگ لڑی اور کامیاب ہوکر چودہ سال بعد واپس اپنے وطن لوٹا۔ اس موقع پر رام کی آمد کی خوشی میں دیپ جلائے گئے۔ اس تہوار کو دیپا والی کہا جاتا تھا۔ جو رفتہ رفتہ بگڑ کر دیوالی بن گئی۔ رام کی قربانی، فرماں برداری اور راون کو شکست دینے کی کہانی کو دسہرے کے تہوار کے دوران منایا جاتا ہے۔ تقسیم سے قبل اوراس کے بعد بھی کراچی میں رام لیلا کی کہانی اسٹیج پر پیش کی جاتی تھی۔ کراچی میں یہ کہانی رام باغ میں پیش کی جاتی تھی۔ جس میں رام کے بن واس (جنگل بدری) جانے اور واپسی تک کے تمام مراحل کو ڈرامائی شکل میں پیش کیا جاتا تھا۔-

اور اس اسٹیج ڈرامے کو دیکھنے لئے آنے والےتماشائیو ں سے رام باغ بھر جایا کرتا تھا -اب اس باغ کے اطراف فرنیچر مارکیٹ، جوسر، پنکھے، واشنگ مشینیں ٹھیک کرنے والے کاریگر اور دیگر اشیاء مثلاً ریڈی میڈ گارمنٹس- کپڑوں کی رنگ سازی اور فوم وغیرہ کا کاروبار پھل پھول رہا ہے -اور اس تمام گہما گہمی کے باوجودآج بھی پچھتّر سال گزرنے کے بعد بھی آرام باغ اپنی آغوش وا کیئے ہوئے ہر آنے جانے والے کو پناہ میں لینے کا منتظر نظر آتا ہے ۔-

تقسیم سے پہلے شہر میں تانگے چلتے ہیں جن میں سواری کے لئے آگے کی طرف اور پیچھے کی طرف نشست کا انتظام ہوتا ہے  اور آرام باغ کے اطراف کی سڑکوں پر ٹرام سروس جو انگریز بہادر نے بنوائ ہے ہر چند منٹ کے وقفہ سے شہریوں کے نقل و حمل کے کام آتی ہے اور اس وقت کے عروس البلاد کراچی کی گھوڑا گاڑیاں دوسرے شہروں سے اپنی خوبصورتی کے باعث ہمیشہ ممتاز آتی ہیں  آرام دہ نشستیں، سواریوں کے لئے آمنے سامنے بیٹھنے کا انتظام ،سر پر دھوپ سے بچنے کے لئے سایہ، گاڑی بان کی نسبتا اونچی نشست اور ساتھ ہی تیل سے جلنے والے دو لالٹین روشنیوں کے شہر کی انفرادیت تھے-جبکہ انگریزوں نے اپنے خاندانو کے لئے بہترین لگژری گھواڑا گاڑیوں کا انتظام کر رکھاہےجنکو وکٹوریہ کہا جاتا ہے-

-اسی باغ کے ایک قطعہ زمین پر تقسیم ہند کے بعد یہاں کے شہریوں نے نہائت دیدہ زیب مسجد بنوائ ہے جسے اب آرام باغ والی مسجد کہا جاتا ہے

جمعہ، 3 فروری، 2023

دنیا کا عظیم ورثہ بشکل عجوبہ -دیوار چین-


چین کے شمال میں واقع 21 ہزار کلومیٹر طویل عظیم دیوار (دیوارِ چین) دنیا کے عجائبات میں شامل ایک عجوبہ ہے دیوارِ چین کو سنہ 1987 میں یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔ دنیا بھر سے جب سیاح بیجنگ پہنچتے ہیں تو وہاں سے بسیں بھر بھر کر وہ طویل دیوارِ چین کے مختلف اہم مقامات کا رُخ کرتے ہیں۔ سیاحوں میں سے چند عظیم دیوار کے اِس مقام پر بھی آتے ہیں جسے ’جیان کاؤ‘ کہا جاتا ہے۔دیوارِچین کا ’جیان کاؤ‘ نامی حصہ سبز پہاڑیوں کے اُوپر ایک کنگری دار خط کی طرح 20 کلومیٹر طویل علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ نیچے وادی سے یہ پہاڑ کی ہر چوٹی پر ایک سجاوٹی خط کی طرح نظر آتی ہے۔

دراصل یہ دیوار بنانے کی نوبت اس لئے پیش آئ کہ اس زمانے کے ملک چین کے دشمن بادشاہ آس پڑوس اپنی فوجیں لے کر آتے تھے اور چین کے باشندوں کا قتل کرتے اوربھاگ جاتے تھے-چنانچہ اس دیوار کی تعمیر سے دشمنوں سے بچاو کا انتظام کیا گیا -یہ دیوار حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت سے دو سو سال پہلے بنائ گئ

یہ بیجنگ کے شمال میں سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ لیکن یہ اپنے معروف ہمسایہ علاقوں، بڈالنگ اور میوٹیانیو، سے بالکل مختلف ہے۔اس علاقے میں نہ کوئی سووینیئر فروخت کرنے کی دکان ہے اور نہ ہی کافی کی مشہور دکان سٹاربکس ہے اور نہ ہی کوئی کیبل کار۔ نہ یہاں کوئی اس جگہ کی سیاحت کے لیے ٹکٹیں فروخت کرتا ہوا نظر آئے گا اور نہ ہی دیوار کے اِس حصے تک لے جانے والا کوئی ٹور گائیڈ۔-دیوارِ چین کے اس حصے تک جانے کے لیے آپ کو 45 منٹ تک پہاڑ پر چڑھنا ہو گا۔

دیوارِ چین کے جیان کاؤ والے حصے میں پہاڑ کے اوپر ایک سفید رِبن کی طرح نظر آنے والا 20 کلومیٹر لمبا کنگری دار خط۔ ہے۔ پندرھویں اور سولہویں صدی میں تعمیر ہونے والے دیوار کے اس حصے پر صدیوں تک زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔اس حصے سے منسلک سات کلومیٹر لمبی دیوار کافی خستہ حال ہو گئی تھی۔ طویل وقت گزرنے کی وجہ سے اس کے کئی مینار اینٹوں اور پتھروں کے ڈھیر اور کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے جبکہ دیوار کے کچھ حصے تو اس طرح منہدم ہو گئے یہ باقی بچ جانے والی دیوار پر بمشکل ایک شخص ہی چل سکتا تھا۔

درخت اور جھاڑیاں اس طرح اُگ آئیں تھیں کہ یہ دیوار فصیل کی بجائے ایک جنگل دکھائی دینے لگی تھی۔ اگرچہ یہ نظارہ بھی اچھا لگتا تھا لیکن یہ قدیم دیوار بہت خطرناک ہو چکی تھی۔ٹینیسیٹ چیریٹی فاؤنڈیشن، جس نے دیوارِ چین کے اس حصے کی بحالی کے کام کو سرانجام دیا ہے، کے پراجیکٹ مینیجر ما یاؤ کہتے ہیں کہ ’ہر برس ایک یا دو سیاح دیوار کے اس حصے پر چلتے ہوئے گر کر ہلاک ہوتے تھے۔ کچھ لوگ تو ہائیکنگ کرتے ہوئے گرتے اور ہلاک ہو جاتے۔ اور کچھ بجلی گرنے سے ہلاک ہوتے تھے۔‘انھوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی نے ہمیں ممکنہ حد تک اس دیوار کی روایتی حالت بحال کرنے میں مدد دی۔

مزید حادثات کو روکنے کے لیے اور جیان کاؤ حصے کی دیوار کو مزید خستہ حال ہونے سے روکنے کے لیے اس کی بحالی کا کام سنہ 2015 میں شروع ہوا۔ یہ کٹھن کام، جو 750 کلومیٹر طویل دیوار کے اس حصے پر پھیلا ہوا تھا، سنہ 2019 میں مکمل ہوا۔جب یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ رہا تھا تو اس وقت موسم بہار کے ایک روشن دن میں ما کے ساتھ اس دیوار کے کام پر بات چیت کرنے لیے نشست کا موقع ملا۔

ہماری جہاں تک بھی نظر جا رہی تھی ہمارے ارد گرد فصیل نما دیواریں ہمیں گھیرے ہوئے تھیں۔ ما نے مجھے بتایا کہ ’آپ یہاں ان پہاڑوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ یہاں بھاری بھاری مشینیں نہیں لائی جا سکتی ہیں۔ ہمیں یہاں انسانوں سے کام لینا پڑا۔ لیکن ہمیں ٹیکنالوجی کا استعمال انسانوں سے یہ کام زیادہ بہتر کروانے کے لیے کرنا چاہیے۔‘سنہ 2019 میں اس منصوبے پر جو ٹیکنالوجی استعمال کی گئی اس میں خطے کی سہ جہتی (تھری ڈائی مینشنل) نقشہ بندی اور کمپیوٹر کا ایک ایلگورِدھم شامل تھا جو انجینیئروں کو یہ بتاتا تھا کہ انھیں کسی شگاف کی مرمت کے لیے وہاں اُگے ہوئے درخت کو نکالنا ہے یا صرف اس شگاف کو بھر دینا ہے یا اس حصے کو محفوظ طریقے سے بغیر کچھ کیے چھوڑ دینا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرے کہ کبھی ان دیواروں پر جنگلی نباتات اُگ آئی تھیں۔

  دیوارِ چین ایک بہت بڑی تعمیر ہے۔ اس کی تاریخ بھی اسی کی طرح عظیم ہے۔ اس کی تعمیر میں دو ہزار برس لگے، تیسری صدی قبل مسیح سے لے کر سترھویں صدی عیسوی تک، اسے سولہ مختلف شاہی خاندانوں نے تعمیر کیا۔اس دیوار کی تعمیر کے سب سے لمبے اور سب سے زیادہ مشہور حصے کی تعمیر مِنگ خاندان کے زمانے میں ہوئی جنھوں نے دیوار کی تعمیر (یا تعمیرِ نو) سنہ 1368 سے لے کر سنہ 1644 کے درمیان کے عرصے میں کی جس میں جیان کاؤ نامی حصہ بھی شامل ہےحکومت کے آثارِ قدیمہ کے ایک ادارے ’سٹیٹ ایڈمنسٹریشن آف کلچرل ہیریٹیج اینڈ سٹیٹ بیورو آف سروے اینڈ میپنگ‘ نے بتایا کہ مِنگ دور کی دیوار 8851 کلومیٹر بشمول 6259 کلومیٹر طویل دیوار اور 359 لمبی خندقیں، 2232 کلومیٹر لمبی قدرتی رکاوٹیں اور 25 ہزار حفاظتی ٹاور اسی شاہی خاندان کے زمانے میں تعمیر ہوئے تھے۔

اس تعمیر میں ایک مقام سے لے کر دوسرے مقام بی تک صرف ایک دیوار کی تعمیر ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ اس میں سیڑھیاں، دوہری دیواریں، متوازی دیواریں اور دیواروں کی مہمیزیں بھی شامل تھیں۔آج مِنگ خاندان کی جانب سے تعمیر کردہ ایک تہائی فصیل کی تعمیر مٹ چکی ہے۔ 


تحریر و تلخیص سیّدہ زائرہ عابدی

جمعرات، 2 فروری، 2023

بابا بلھے شاہ-پنجابی زبان کا نابغہءروزگار صوفی شاعر


حضرت بابا بلھے شاہ کے والد کا نام سخی شاہ محمد درویش تھا جن کا خاندانی سلسلہ شیخ عبدالقادر جیلانی سے جاملتا تھا۔ حضرت بلھے شاہ کے اجداد چوتھی صدی میں حلب سے ہجرت کرکے اُچ گیلانیاں میں آباد ہوگئے تھے۔ اُچ گیلانیاں بہاولپور کی تحصیل شجاع آباد کی سب تحصیل جلال پور پیر والا میں واقع ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ کے والد ایک متقی درویش تھے اور اچ گیلانیاں کی مسجد کے امام تھے ۔ روایت ہے کہ بعض برے حالات کی وجہ سے وہ اچ گیلانیاں سے نقل مکانی کر کے ملک وال چلے گئے۔ وہاں بھی ان کی درویشی اور صوفیانہ مسلک کی وجہ سے انہیں امام مسجد بنادیا گیا۔ انہوں نے وہاں مذہبی اور روحانی تعلیمات کا سلسلہ شروع کیا۔ روایت ہے کہ موضع پانڈو کے کا ایک بڑا زمیندار پانڈو خان جس کی بیٹی ملک وال میں بیاہی ہوئی تھی وہ ملک وال میں حضرت بلھے شاہ کے والد سید سخی سے ملا۔ ان کی پرہیز گاری اور معزز شخصیت سے متاثر ہوکر ان سے درخواست کی کہ وہ موضع پانڈو کے مسجد کے امام بن جائیں کیونکہ وہاں کوئی سید نہیں ہے۔ پانڈو خاں کی اس فرمائش پر حضرت بلھے شاہ کے والد پانڈو کے میں بمعہ خاندان کے منتقل ہوگئے


کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھی جبکہ دوسرے یہ اصرار کرتے ہیں کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش پانڈو کے میں ہوئی تھی۔ یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت بلھے شاہ کے مرشد حضرت شاہ عنایت نے ایک کتاب نافع السالکین مرتب کی تھی جس میں بلھے شاہ کے بارے میں قدرے تفصیلی نوٹ ہے جس کے مطابق حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھیں۔ 

حضرت عنایت شاہ سے حضرت بلھے شاہ کا تعلق بہت قریبی تھا اس لئے ان کے ورشن کو قبول کرنے میں کوئی تعرض نہیں ہوناچاہئے۔ ڈاکٹر لاجونتی راما کرشنا نے اپنی کتاب پنجابی صوفی شعرا میں اوسبورن کی بیان کردہ تواریخ پر اعتماد کیا ہے۔ یہی غلطی تاجونتی راما کرشنا نے بلھے شاہ پر اپنے مضمون میں کی ہے۔اس نے بھی غالباً اوسبورن کا مضمون نہیں دیکھا۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے حضرت بلھے شاہ کی عمر کے تعین کے بارے میں اردو کے اہم محقق مولوی محمد شفیع کے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے ایک پرانامسودہ تعویذات اور فالناموں وغیرہ کے بارے میں دیکھا ہے جس کی تحریر میں حضرت بلھے شاہ کی اجازت بھی شامل ہے

بلھے شاہ نے اپنی زندگی میں اورنگزیب عالمگیر کی تنگ نظری دیکھی، قصور کے حاکم حسین خان خویشگی اور اس کے مذہبی رہنما شہباز خان کی چیرہ دستیاں برداشت کیں۔ اپنے ہی مہربان مولوی محی الدین کی زبان سے قوالی کے خلاف فتویٰ سنا پھر ان کو پچھتا کر فتویٰ واپس لیتے دیکھا۔ شہر بدری کے احکام سنے، دوسروں کے ڈیروں پر زندگی کے مشکل دن بھی کاٹے۔لاہور اور قصور کو بار بار تباہ ہوتے دیکھا۔ سکھ جہادی بندہ بہادر کی تباہیوں کا تجربہ کیا اور پھر بندہ بہادر کے بیٹے کو اسی کی گود میں بٹھا کر اس کے ہاتھوں سے بوٹی بوٹی کروانے کی دردناک داستان سنی، اپنے زمانے کے ہر بادشاہ کے ہاتھوں سگے بھائیوں اور بھتیجوں کے قتل ہونے کا بار بار دہرایا جانے والا ڈرامہ دیکھا، بیٹے کو باپ اور بیٹی کو ماں کے خلاف سازشوں میں ملوث پایا اور زمانے کے اسی الٹ پلٹ ہوتے شب و روز میں 
زندگی کا راز پایا۔اور کہہ اٹھے
الٹے ہور زمانے آئے، تاں میں بھید سجن دے پائے
کاں لگڑنوں مارن لگے، چڑیاں جرے ڈھائے
پیوپتراں اتفاق نہ کائی، دھیاں نال نہ مائے
(الٹے زمانے آگئے ہیں اور اسی سے ہم نے سجن یا زندگی کا بھید پایا ہے۔ زمانے اتنے بدلے ہیں کہ کوے الٹا شکاری پرندوں کو مار رہے ہیں اور چڑیوں نے شہبازوں کو فتح کر لیا ہے۔ باپ بیٹے میں اتفاق نہیں ہے اور مائیں بیٹیوں کا ساتھ چھوڑ گئی ہیں۔)وہ زندگی میں ہر جگہ کشمکش دیکھتے ہیں۔ وہ انسانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ جاری جنگ کو حلوائی کی دکان پر رکھی مٹائیوں کی ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں 
لیکن بلھے شاہ اس کشمکش کے راز سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہتے ہیں۔
کتے رام داس کتے فتح محمد ایہوقدیمی شور
نپٹ گیا دوہاں دا جھگڑا وچوں نکل پیا کوئی ہور
ان کی جسمانی موت پر ملاؤں نے ان کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر کے ان کے امر ہونے پر مہر تصدیق کر دی۔ بلھے شاہ نے تو خود کہا تھا ’بلھے شاہ اسیں مرنا نا ہیں گور پیا کوئی ہور‘ (بلھے شاہ ہم مرنے والے نہیں، قبر میں کوئی اور پڑا ہے)۔
 جہاں تک حضرت بلھے شاہ کی جائے پیدائش کا تعلق ہے اس بارے میں دو ورشن ہیں۔ اوسبورن اور لاجونتی راما کرشنا کے نزدیک بلھے شاہ پانڈو کے میں پیدا ہوا تھا۔ پانڈو کے میں بلھے شاہ کے ڈیرے پر قابض 103 سالہ متولی درباری بیانی ہے کہ اس کے اجداد بلھے شاہ کے والد سخی شاہ کے مرید تھے وہ جھنگ کے رہنے والے تھے۔ان کی حضرت بلھے شاہ کے والد سے ملاقات ملک وال میں ہوئی تھی، وہ پشت در پشت بلھے شاہ کے خاندان سے منسلک رہے ہیں پہلے وہ قصور میں حضرت بلھے شاہ کے مزارکے مجاور تھے جہاں سے محکمہ اوقاف نے انہیں بے دخل کردیا تھا اور وہ وہاں سے پانڈو کے آگئے تھے۔اس نے بڑے وثوق سے بتایا کہ اس کی خاندانی روایت کے مطابق حضرت بلھے شاہ اس کی دو بہنوں کی ولادت پانڈو کے میں ہوئی تھی۔ اس نے حضرت بلھے شاہ کی ابتدائی زندگی کی کرامتوں کو پانڈو کے حوالے سے بیان کیا جبکہ یہی باتیں اُچ گیلانیاں کے حوالے سے بھی بیان کی جاتی ہیں-
۔پانڈو کے لاہور سے 28 کلو میٹردور قصور کی طرف جاتی ہوئی سڑک سے دائیں جانب چار پانچ کلو میٹر اندر واقع ایک چھوٹا سا گاﺅں ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے جتنا حضرت بلھے شاہ کے زمانے میں ہوگا، آج بھی لوگ کھیتوں کی منڈیروں پر بیکار بیٹھے ہوتے ہیں یا نوجوان مویشی چراتے ہیں۔ گاﺅں کے وسط سے قدرے ہٹ کےحضرت بلھے شاہ کا موروثی گھر ہے جس کی شکل بدلی ہوئی ہے۔ایک بڑا سا طویلہ ہے جسے دو تین کمروںمیں تقسیم کیا گیا ہے اس میں 103 سالہ متولی درباری رہتا ہے جو بلھے شاہ کے خاندان کے بارے میں بہت سی کہانیاں بیان کرتا ہے جو اس نے بڑوں سے سنی تھیں۔
اللہ مغفرت فرمائے با با بلھے شاہ کی آمین


منگل، 31 جنوری، 2023

آسمانی بجلی کیوں گرتی ہے اور اس سے بچاو کے طریقے

: آسمانی بجلی کا مشاہدہ عموماً بارش کے دنوں میں ہوتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آسمانی بجلی بنتی کیسے ہیں اور بجلی کا کڑاکا فضا میں کتنی حرارت پیدا کرتا ہے۔ ماہرین کی جانب سے آسمانی بجلی کے بننے اور اس سے پیدا ہونے والی حرارت سے متعلق کہا گیا ہے کہ آسمانی بجلی اونچے بادلوں میں پیدا ہوتی ہے جسے کیومیولونمبس بادل کہا جاتا ہے۔ آسمانی بجلی کو ظاہری طور پر دو اہم اقسام میں بیان کیا جاسکتا ہے، پہلی یہ کہ بجلی بادل کے اندر، ایک بادل سے دوسرے بادل تک سفر کرتی ہے تو آسمان پر کیمرے کے فلیش کی طرح روشنی دکھائی دیتی ہے جسے چادر والی بجلی (شیٹ لائٹننگ) کہا جاتا ہے۔ دوسری جو بادل سے زمین پر سفر کرتی ہے، اس میں آسمان پر بجلی ٹیڑھی لکیروں کی طرح دکھائی دیتی ہے جسے دراڑ نما بجلی یا فورک لائٹننگ کہا جاتا ہے۔ بارش کے دوران بادل میں پانی کے قطرے انتہائی سرد ہو کر برفیلے ذرات میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور بارش برسنے سے بادل کے اوپری حصے پر مثبت چارج آ جاتا ہے جبکہ بادل کے نچلے حصے پر منفی چارج بنتا ہے۔ جب یہ چارج ایک خاص سطح تک پہنچ جائے تو برقِ سکونی کی وجہ سے بجلی نیچے کی جانب سفر کرتی ہے۔ جب بجلی آسمان سے زمین کی طرف آتی ہے تو اس کے اطراف ہوا بہت گرم ہوجاتی ہے اور پھر زور دار دھماکہ ہوتا ہے ججسے بادلوں کی گرج کہا جاتا ہے۔ آسمانی بجلی سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ پاک بھارت میں توہم پرستی تو عام ہے کرونا سے متعلق توہمات پیدا ہوسکتے ہیں تو یہ پھر آسمانی بجلی ہے، دونوں ممالک کے لوگوں کا خیال ہے کہ جو لوگ کالے کپڑے پہنتے ہوتے ہیں ان پر بجلی زیادہ گرتی ہے یا پہلا بچہ بجلی کی زد میں جلدی آجاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ محکمہ موسمیات سے بتایا کہ بجلی کڑکنے کے دوران درخت کے نیچے گرنے ہونے سے گریز کریں اور فولادی چیزوں سے بھی دور رہیں۔ دوسری جانب ماہرین موسمیات نے ان دقیانوسی خیالات کو توہم قرار ہوتے ہوئے کہا ہے کہ ان تمام باتوں کا بجلی گرنے سے کوئی تعلق نہیں البتہ کوشش کرنی چاہیے کہ جب بجلی چمک رہی ہو اس وقت ہاتھ میں کوئی موبائل فون نہ ہو اور نہ آپ ٹیلیفون اور بجلی کی تاروں کے قریب ہوں۔ اسی طرح محکمہ موسمیات نے کہا کہ بجلی سے چلنے والی اشیاء سے بھی اس دوران دوری اختیار کریں اور دھاتی چیزوں سے بھی، امریکا میں ہر سال ہزاروں مرتبہ مچھیروں اور گالفرز پر بجلی گرتی ہے جس کی بڑی وجہ ان کے ہاتھ میں موجود دھاتی چھڑی اور پانی ہوسکتا ہے۔ حالیہ گرم موسم کے باعث طوفان بادو و باراں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گرج چمک اور آسمانی بجلی بہت خوفناک ہوتے ہیں لیکن ان سے بچنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ گرج چمک کم مدتی اور خطرناک ہوتے ہیں۔ اگر آپ بادلوں کی گونج سن سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ طوفان قریب ہی ہے اور آسمانی بجلی آپ پر گرنے کے امکانات ہیں۔ آسمانی بجلی طوفان سے 10 میل دور تک گر سکتی ہے۔ اگر بجلی کی چمک دیکھنے اور بادلوں کی گرج کی آواز میں 30 سیکنڈ سے کم کا وقفہ ہے تو یہ خطرے کی علامت ہے۔ اگر طوفان کی پیشین گوئی کی گئی ہے تو کھلے آسمان تلے جانے سے گریز کریں اور خاص طور پر گولف یا مچھلی کے شکار کے لیے نہ جائیں۔ اگر طوفان آ رہا ہے تو کسی عمارت میں چلے جائیں یا گاڑی میں بیٹھ جائیں اور شیشے چڑھا لیں۔ طوفان کی صورت میں لکڑی کے بنے کمرے، اکیلا کھڑا درخت اور بغیر چھت کی گاڑیاں آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ کیا نہیں کرنا چاہیے کشتی میں سوار افراد اور تیراک فوری طور پر کنارے پر پہنچیں کیونکہ پانی کے ذریعے بجلی گزر سکتی ہے۔ اسی طرح لوہے کی پائپوں اور فون لائنوں کے ذریعے بھی بجلی گزر سکتی ہے۔ اس لیے صرف ایمرجنسی کالز کے لیے فون استعمال کریں۔ بہتر یہ ہو گا کہ نہانے اور برتن دھونے سے پرہیز کریں کیونکہ اگر مکان پر آسمانی بجلی گرتی ہے تو بجلی کا جھٹکا لوہے کی پائپوں کے ذریعے بجلی گزر سکتی ہے۔ محکمہ موسمیات یہ بھی مشورہ دیتا ہے کہ بجلی سے چلنے والے آلات کو بند کر دیں۔ اگر بجلی چلی جائے تو موم بتی لگانے کے بجائے ٹارچ کا استعمال کریں۔ نیچے رہیں طوفان کے دوران اگر آپ مکان سے باہر ہیں تو درخت، باڑ اور کھمبوں سے دور ایسی جگہ ڈھونڈیں جو تھوڑی نچلی ہو۔ اگر آپ کو جھنجھناہٹ محسوس ہو اور آپ کے بال کھڑے ہو جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ آسمانی بجلی گرنے لگی ہے۔ ایسی صورت میں اپنا سر گھٹنوں کے درمیان رکھیں۔ طوفان کے دوران چھتری اور موبائل فون استعمال نہ کریں۔ برٹش میڈیکل جرنل نے گذشتہ ماہ بتایا کہ طوفان کے دوران کس طرح 15 سالہ لڑکی موبائل فون استعمال کر رہی تھی اور بجلی گرنے کے باعث ان کو دل کا دورہ پڑا، کان کا پردہ پھٹ گیا اور وہ ایک سال تک وہیل چیئر پر رہیں۔ اگر کسی پر آسمانی بجلی گرے تو فوری طور ایمبولینس کو فون کریں کیونکہ اس شخص کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہو گی۔ اس شخص کو آپ ہاتھ لگا سکتے ہیں۔ اس شخص کی نبز چیک کریں اور دیکھیں کہ سانس آ رہا ہے کہ نہیں۔ اگر سانس آ رہا ہے تو دیکھیں کہ وہ زخمی تو نہیں۔ جس شخص پر آسمانی بجلی گری ہو اس کے جسم پر دو جگہ جلنے کے نشان ہوں گے۔ ایک وہاں جہاں بجلی گری اور دوسرے وہاں جہاں سے بجلی جسم سے باہر نکلی اور یہ عام طور پر قدم ہوتے ہیں۔ بی بی سی موسمی سینٹر کا کہنا ہے کہ طوفان کے کم از کم 30 منٹ تک باہر نکلنے سے گریز کریں۔ اور ہاں یہ بات درست نہیں ہے کہ آسمانی بجلی ایک جگہ دو بار نہیں گرتی۔

پیر، 30 جنوری، 2023

فرزند نبی( صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم) پنجم اما م محمد باقر علیہ السلام

>


فرزند نبی( صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم) پنجم اما م محمد باقر علیہ السلام یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ ۔ کسی بھی مکتب فکر کی پائیداری کے لئے یہ ضروری ہے اس کے پاس اپنی اگلی نسلوں کو دینے کے لئے کوئ بہترین عملی مثال موجود ہواور یہ بہترین مثال امام محمد باقر علیہ السّلام ہیں آپ علیہ السّلام  کی زندگی تمام تر عقل و دانش سے تعبیر ہے اور اسی حوالے سے آپ کو باقرالعلوم کہا جاتا ہے یعنی عقلی مشکلات کو شگافتہ کرنیوالے اور معرفت کی پیچیدگیوں کو سلجھا کر عوام کو رسائ دینا ہیں امام محمد باقر علیہ السّلام  کی ولادت یکم رجب ٥٧ھ بمقام مدینہ ہوئی، سنہ پیدائش میں ٥٦تا ٥٩ ھ میں ٥٧ پرمورخین کی اکثریت کا اتفاق ہے۔ اس لحاظ سے واقعہ کربلا کے وقت آپ کا سن ٤ سال تھا۔ 

غضبِ الہی کا خوف و ڈر

امام محمد باقر علیہ السلام کا افلح نامی ایک غلام کہتا ہے :میں امام علیہ السلام کے ساتھ حج کے لئے گیا ، لیکن جب مسجد الحرام میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا جیسے ہی امام علیہ السلام نے مسجد الحرام میں قدم رکھا اور آپ کی نگاہ کعبہ پر پڑی تو آپ نے بلند آواز سے گریہ فرمایا : میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو جائیں لوگ دیکھ رہے ہیں کیا بہتر نہیں کہ آپ کی آواز تھوڑا

دھیمی رہے ، آپ نے جواب دیا : ویحک یا افلح ، وائے ہو تجھ پر افلح کیوں کرمیں گریہ نہ ہوں ،میرا گریہ اس لئے ہے کہ شاید خدا میرے اوپر ایک نظر

رحمت ڈال دے اور قیامت کے دن میں کامیاب ہو جاو اس کے بعد آپ نے خانہکعبہ کا طواف کیا اور آپ مقام ابراہیم کے پاس آئے آپ نے نماز پڑھی اور جبآپ نے سر کو سجدہ سے اٹھایا تو میں نے دیکھا سجدگاہ آنسووں کی کثرت سےبھیگ چکی تھی ،صرف یہی مقام نہیں اگر آپ کسی بات پر مسکراتے تب بھی یہی دعاء کرتے اللهم لاتمقتنى پروردگار میرے اوپر غضبناک نہ ہونا  

محبت اہلبیت اطہار علیھم السلام

ابو حمزہ سے نقل ہے کہ سعد بن عبد اللہ جو کہ عبد العزیز بن مروان کےفرزندوں میں تھے اور امام علیہ السلام نے انہیں سعد الخیر کہا امام محمد باقرعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رقیق القلب عورتوں کی طرح گریہ کرنے لگے امام علیہ السلام نے فرمایا: ائے سعد کیوں گریہ کر رہے ہو ؟ سعدنے کہا کیونکر گریہ نہ کروں جب کہ میں بنی امیہ کے گھرانے سے تعلق رکھتاہوں جسے خدا نے قرآن میں شجرہ ملعونہ کہا ہے آپ نے فرمایا: تم ان میں سے نہیں ہو تم ہم میں سے ہو تم دوست داران اہلبیت میں سے ہو کیا تم نے خدا وند متعال کا یہ قول نہیں سنا ہے جس میں جناب ابراہیم علیہ السلام سے نقل کر کےخدا فرماتا ہے : فمن تَبعنى فانه منّى جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہے ۔ یعنی امام بتانا یہ چاہتے تھے کہ خاندانی پس منظر کے لحاظ سے ممکن ہے تم کسی جگہ سے وابستہ کیوں نہ ہو لیکن حقیقت میں تم اگر ہمارا اتباع کرتے ہو توہم میں سے ہو۔ برید بن معاویہ عجلی سے نقل ہے امام محمد باقر علیہ السلام کیخدمت میں تھا کہ خراسان سے ایک شخص آیا اور امام کے گھر میں داخل ہو گیا اس نے اپنے پیروں کو دکھایا جو پیدل چلنے کی وجہ سے چاک چاک ہو گئے تھے اور بری طرح زخمی تھے اس آنے والے شخص نے کہا کہ میں خراسان سے آ رہا ہوں خدا کی قسم خراسان کا یہ طولانی سفر طے کرکے میں نہیں آیا مگر یہ کہ آپ کی محبت میں، امام علیہ السلام نے فرمایا خدا کی قسم ایک پتھر بھی ہم سے محبت کرے گا تو خدا اسے بھی ہمارے ساتھ محشورکرے گا کیا دین محبت کے علاوہ اور کچھ ہے یعنی مکمل دین محبت میں سمٹا ہوا ہے ۔

رزق حلال اور محنت و مشقت

سخت گرمیوں کے دنوں میں میں مدینہ کے مضافات سے نکل رہا تھا کہ میں نے  گرم ہوا میں محمد بن علی علیہ السلام کو دیکھا جو اپنے دو خادموں کے ساتھ کام میں مشغول تھے میں نے اپنے آپ سے کہا کس طرح قریش کے بزرگوں کی ایک بڑی شخصیت اتنی گرمی میں اور اتنے بھاری بدن کے ساتھ دنیا کی فکر میں مشغول ہے خدا کی قسم میں ابھی جا کر انہیں موعظہ کرتاہوں یہ سوچکر میں امام محمد باقر علیہ السلام کے نزدیک گیا اور میں نے انہیں سلام کیاانہوں نے ہانپتے ہوئے پسینہ پسینہ ہوتے ہوئے میرے سلام کا جواب دیا میں نے کہا خدا آپ کے کاموں کو سدھارے کیوں آپ جیسی بزرگ شخصیت اتنی سخت گرمی میں مال دنیا کے حصول میں لگی ہے اگر اس حالت میں موت آ جائے تو کیا کروگے ا مام باقر علیہ السلام نے خادموں کے ہاتھوں کو چھوڑا اور کھڑے ہو گئے اورپھر فرمایا: خدا کی قسم اگر اس حالت میں موت آ جائے تو خدا کی اطاعت کی حالت میں آئے گی میری یہ جدو جہد و کوشش خدا کی اطاعت میں صرف ہورہی ہے اس لئے میں اس کام کے ذریعہ اپنے آپ کو تم سے اور دوسروں سے بے نیاز کر رہا ہوں تاکہ مجھے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے میں اسوقت خدا کے حضور جانے سے ڈرتا ہوں جب معصیت میں مبتلا ہوں اور میری موت آ جائے محمد بن منکدر کا کہنا ہے جب میں نے یہ باتیں سنیں تو میں نےکہا خدا آپ پر اپنی رحمتوں کو نازل کرے میں آ پ کو وعظ و نصیحت کرناچاہتا تھا لیکن آپ نے مجھے نصحیت کر دی یعنی آپ نے مجھے صحیح راستہ  دکھا دیا اور میری راہنمائی کی ۔

امام باقر علیہ السّلام صبر و رضا کی منزل پر

امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس کچھ لوگ آئے ، دیکھا کہ امام علیہ السلامکے پاس ایک بچہ ہے جس کی طبیعت خراب ہے اور سخت علیل ہے بچے کی علالت کی وجہ سے امام علیہ السلام بھی شدید طور پر متاثر ہیں اور سخت مضطرب و پریشان ہیں انہوں نے اپنے آپ سے کہا خدا نہ کرے اس بچے انتقال ہو جائے ورنہ امام کو جس پریشانی کہ عالم میں ہم نے دیکھا ہے اس کےمطابق امام کو بھی خطرہ لاحق ہے اتنے بھی عورتوں کے نالہ و شیون کیآوازیں بلند ہو گئیں پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ بچہ دنیا سے چلا گیا کچھ ہی دیرکے بعد امام علیہ السلام انکے پاس آئے تو لوگوں نے دیکھا اب امام کی وہ  کیفیت نہیں ہے جو پہلے تھی لوگوں نے کہا ہماری جانیں آپ پر قربان ہم نے توجب بچہ مریض تھا تو آپ کواس عالم میں دیکھا کہ اگر خدا نخواستہ اسے کچھ ہو جائے تو آپ کی جان کو خطرہ ہو جائے گا لیکن اس وقت تو آپ پہلے سےزیادہ مطمئن نظر آ رہے ہیں امام علیہ السلام نے جواب دیا ہم یہ دوست رکھتےہیں کہ ہمارا جو بھی محبوب و عزیز ہے وہ بخیر و عافیت رہے لیکن جب قضائے الہی کو دیکھتے ہیں تواس کے حکم کے آگے تسلیم ہو جاتے ہیں اس طرح جوخدا چاہتا ہے ہم بھی وہی چاہتے ہیں۔ تسلیم و رضا کی یہ منزل یقینا بیان کرنا آسان ہے اور اس پر عمل سخت ہے لیکن اگر امام علیہ السلام کی یہ سیرت ہم سامنے رکھیں تو ان لوگوں کو بڑا حوصلہ ملے گا جن سے ان کی قیمتی چیزچھن گئی یا کوئی عزیز و چاہنے والی ذات اس دنیا سے رخت سفر باندھ کر دیارباقی کی طرف کوچ کر گئی ۔

 

نجا شی کا دربار اور حضرت جعفر طیّار

 

  حضر ت جعفر ابن ابی طالب جعفر طیار کے نام سے  آ پ کی خا نوا د ہ  حضرت عبد المطّلب میں آ پ کی شہرت ہے ۔ آپ حضرت علی 

علیہ السلام کے بھائی اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عم زاد بھائی تھے۔ آغاز اسلام کی نمایاں شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں نے حبشہ کو ہجرت کی تو آپ مہاجرین کے قائد تھے۔ شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں آپ کی تقریر ادب کا شہ پارہ اور

 اسلام کا خلاصہ تصور کی جاتی ہے۔ جنگ موتہ میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے۔ اسی جنگ میں شہادت پائی اور نبی اکرم صلی اللہ

 علیہ و آلہ وسلم نے طیار ’’تیز اڑنے والا، جنت کی طرف‘‘ کا لقب مرحمت۔ شرکینِ مکہ کی ستم آرائیوں سے تنگ آکر جب مس

لمانوں کی جماعت نے حبش کی راہ لی تو حضرت جعفرؓ بھی اس کے ساتھ ہو گئے؛ لیکن قریش نے یہاں بھی چین لینے نہ دیا، نجاشی

 کے دربار میں مکہ سے گراں قدرتحائف کے ساتھ ایک وفد آیا اوراس نے درباری پادریوں کوتائید پر آمادہ کرکے نجاشی سے 

درخواست کی کہ"ہماری قوم کے چند ناسمجھ نوجوان اپنے آبائی مذہب سے برگشتہ ہوکر حضور کے قلمرو  حکومت میں چلے آئے 

ہیں، انہوں نے ایک ایسا نرالا مذہب ایجاد کیا ہے جس کو پہلے کوئی جانتا بھی نہ تھا، ہم کو ان کے بزرگوں اوررشتہ داروں نے بھیجا 

ہے کہ حضور ان لوگوں کو ہمارے ساتھ واپس کر دیں،درباریوں نے بھی بلند آہنگی کے ساتھ اس مطالبہ کی تائید کی،نجاشی نے 

مسلمانوں سے بلا کر پوچھا کہ وہ کون سانیا مذہب ہے جس کے لیے تم لوگوں نے اپنا دین ترک کر دیا   اس موقع پرُمسلمانوں نے 

نجاشی سے گفتگو کے لیے اپنی طرف سے حضرت جعفر ؓ کو منتخب کیا،انہوں نے اس طرح تقریر کی

بادشاہ سلامت!ہماری قوم نہایت جاہل تھی،ہم بت پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے،بدکاریاں کرتے تھے،رشتہ داروں

 اورپڑوسیوں کو ستاتے تھے،طاقت ورکمزوروں کو کھاجاتا تھا، غرض! ہم اسی بدبختی میں تھے کہ خدا نے خود ہی ہماری جماعت 

میں سے ایک شخص کو ہمارے پاس رسول بنا کر بھیجا، ہم اس کی شرافت،راستی،دیانت داری اورپاکبازی سے اچھی طرح آگاہ ھے،اس نے ہم کو شرک وبت پرستی سے روک کر توحید کی دعوت دی،راست بازی، امانت داری، ہمسایہ اوررشتہ داروں سے محبت کاسبق ہم کو سکھایا اورہم سے کہا کہ ہم جھوٹ نہ بولیں،بے وجہ دنیا میں خونریزی نہ کریں،بدکاری اورفریب سے بازآئیں،یتیم کا مال نہ کھائیں،شریف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں،بت پرستی چھوڑدیں،ایک خدا پر ایمان لائیں، نماز پڑھیں،روزے رکھیں، زکوٰۃ دیں،ہم اس پر ایمان لائے اوراس کی تعلیم پرچلے -ہم نے بتوں کو پوجنا چھوڑا،صرف ایک خدا کی پرستش کی،اورحلال کو حلال اورحرام کو حرام سمجھا، اس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہو گئی، اس نے طرح طرح سے ظلم و تشدد کرکے ہم کو پھر بت پرستی اورجاہلیت کے برے کاموں میں مبتلا کرنا چاہا، یہاں تک کہ ہم لوگ ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر آپ کی حکومت میں چلے آئے۔نجاشی نے کہا تمہارے نبی پر جو کتاب نازل ہوئی، اس کو کہیں سے پڑھ کر سناؤ، حضرت جعفر ؓ نے سورۂ مریم کی چند آیتیں تلاوت کیں تو نجاشی پر ایک خاص کیفیت طاری ہو گئی اس نے کہا خدا کی قسم !یہ اور تورات ایک ہی چراغ کے پرتو ہیں اورقریش کے سفیروں سے مخاطب ہوکر کہا واللہ! میں ان کو کبھی واپس جانے نہ دوں گا۔تمام افراد

چھ سال بعد تک حبشہ ہی میں رہے،7ھ میں وہ حبش سے مدینہ آئے،یہ وہ زمانہ تھا کہ خیبر فتح ہو گیا تھا اور مسلمان اس کی خوشی 

منا رہے تھے کہ مسلمانوں کو اپنے دور افتادہ بھائیوں کہ واپسی کی دوہری خوشی حاصل ہوئی،حضرت جعفر ؓ سامنے آئے تو 

آنحضرت ﷺ نے ان کو گلے سے لگایا اورپیشانی چوم کر فرمایا، میں نہیں جانتا کہ مجھ کو جعفر کے آنے سے زیادہ خوشی ہوئی یا 

خیبر کی فتح سے۔ حضرت جعفر ؓ کی واپسی کو ابھی ایک سال بھی گذرنے نہ پایا تھا کہ ان کے امتحان کا وقت آگیا۔

غزوۂ موتہ کا دشمن اسلام  کی جانب سے آغاز ہو رسول ﷺ حضرت جعفرؑ سے بے انتہا محبت رکھتے تھے۔ آپ ﷺ نے غزوہ 

بدر سے ملنے والے مال غنیمت میں سے حضرت جعفرؑ کا حصہ الگ کرلیا تھا، حالانکہ حضرت جعفرؑ اس جنگ میں شریک نہیں تھے، اور حبشہ میں قیام پذیر تھے۔ رسول خدا ﷺ غزوہ خیبر میں یہودیوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑنے کے بعد خیبر سے مدینہ تشریف فرما ہوئے تو حضرت جعفرنے آپ ﷺ کا استقبال کیا، جو حبشہ سے واپس آچکے تھے، ان سے معانقہ کیا، ان کی دو آنکھوں کے درمیان پیشانی کا بوسہ لیا اور فرمایا: “خدا کی قسم! سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھے فتح خیبر پر زیادہ خوش ہونا چاہئے یا جعفرؑ کی ملاقات پر؟“۔

فتح خیبر کے اور حضرت جعفرؑ کی حبشہ سے واپس کے بعد آپ ﷺ نے جمادی الاول 8؁ھ میں حضرت جعفرؑ کو سپاہ اسلام کے 

امیر اول کی حیثیت سے “موتہ” کی جانب روانہ کیا تا کہ مشرقی روم کی فوج کا مقابلہ کریں۔ (کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ زید بن 

حارثہؓ امیر اول تھے اور جعفرؑ امیر ثانی جناب جعفر بن ابی طالبؑ نے جنگ میں شجاعت و بہادری کے وہ کمالات دکھائے کہ  دشمن 

کے تکبر و غرور کا تخت الٹ دیا۔ طبری لکھتے ہیں:

حضرت زید بن حارثہؓ کی شہادت کے بعد حضرت جعفرؑ فورا آگے بڑھے اور اپنے گھوڑے سے اتر ے  اور علم کو تھام کر پیادہ ہی لڑنا 

شوع کر دیا۔ آپ نے اس جنگ میں بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا اور بہت زیادہ زخمی ہوگئے۔ بخاری کی ایک روایت کے مطابق نوے زخم کھائے۔ دشمن سے لڑتے لڑتے پہلے آپ کا دایاں بازو کٹا تو آپ نے اسے اپنے بائیں ہاتھ سے تھام لیا اور جب دشمن نے آپ کے بائیں بازو پر وار کیا تو آپ نے کٹے ہوئے بازووں سے اسے سہار لیا اور آخری دم تک جان فشانی سے لڑتے رہے اور آپ کو ’’ذوالجناحین‘‘ (دو پروں والا) لقب ملا۔ عبد الله بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں بھی اس جنگ میں شریک تھا ہم نے جعفر بن ابی طالب کو ڈھونڈ وہ شہداء میں تھے اور ان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں سے لگے ہوئے نوے زخم تھے اور ایک زخم بھی پشت پر نہیں تھا-ابوالفرج اصفہانی نے لکھا کہ: اولاد جناب ابو طالبؑ میں اسلام کے سب  سے  پہلے شہید جعفر بن ابی طالب تھے)

شیخ صدوقؒ نے روایت کی ہے کہ:

“پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جعفرؑ کی شہادت کی خبر سن کر بہت غمگین ہوئے اور آپؑ کے گھرانہ کے پاس تشریف لائے

 ۔ آپؑ کے بچوں کو گود میں لیا اور ان پر شفقت فرمائی اور فرمایا:” خدا جناب جعفر کو دو کٹے ہوئے ہاتھوں کی بدلے میں دو پر عطا

 کریگا جس کے ذریعہ وہ جنت میں پرواز کرینگے، اسی لئے جناب جعفر ’’ذوالجناحین‘‘ سے مشہور ہیں۔ )

اتوار، 29 جنوری، 2023

ساحل کراچی کی پُر شکوہ عمارت -کراچی پورٹ ٹرسٹ

ساحل کراچی کی پُر شکوہ عمارت -کراچی پورٹ ٹرسٹ -قدرت نے کراچی کے ساحل کوگہرے پانی کی خلیج دے کر ایسی نعمت عطا کی ہے جس کا جتنا شکر کیا جائے کم ہی کم ہے -کیونکہ گہرے پانی میں سمندری جہاز بہت آرام سے لنگر انداز ہو سکتے ہیں اگر آپ کا کیماڑی  جانا ہو توضرور یہ خوبصورت منظر دیکھئے گا کہ کس طرح لاتعداد دیو ہیکل جہاز سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے لنگر انداز ہو نے کو آ بھی رہے ہوتے ہیں اور اپنے مستقر پر جا بھی رہے ہوتے ہیں 

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اس عظیم الشّان بحری تجارت کی نگہبانی کر نے والی خوبصورت عمارت کراچی پورٹ ٹرسٹ کے بارے میں تاریخ کیا کہتی ہے

ساحلی ہوا کے سر پھرے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتی کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ہیڈ کوارٹر کی عمارت کو تعمیر ہوئے ایک صدی مکمل ہوگئی۔ یہ وہ عمارت ہے ،جس پر یہ شہر فخر کرتا آیا ہے۔عمارت کی منفرد بات یہ ہے کہ جہاں یہ ایک جانب برطانوی، ہندو اور گوتھک ثقافتوں کی عکاس نظر آتی ہے تو دوسری طرف اسے رومن فن تعمیر سے بھی ملتا جلتا کہا جاتا ہے، جبکہ عمارت کے عین وسط میں واقعہ گنبد اسے اسلامی فن تعمیر سے بھی ملاتا ہے۔

 کراچی اپنی قدیم بندرگاہ کے حوالے سے خلیج اورجنوبی ایشیا سمیت کئی اہم ملکوں اور خطوں کے لیے معاشی دروازہ ہے جس کے راستے پاکستان درآمدات وبرآمدات کا 60 فیصد مال اور سازوسامان ترسیل ہوتا ہے۔ یوں تو یہ بندرگاہ محدود پیمانے پر تالپوروں کے عہد سے بھی پہلے فعال تھی لیکن جب 1843ء میں انگریزوں نے اس شہر اور اس کی قدیم بندرگاہ کی اہمیت کو جان کر یہاں پر جب تعمیرات کا بیڑہ اُ ٹھایا تو اس بندر گاہ کی بھی قسمت جاگ اٹھی۔ندری تجارت کے تمام معاملات کی دیکھ بھال کے لئے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے نام سے یہ پر شکوہ بلڈنگ بنا کر سمندری تجارت کے تمام معاملات کا اسے نگہبان بنا یا  انگریزوں نے اسے ایک جدید بندرگاہ کی شکل دے دی۔ کراچی بندرگاہ کے بارے میں جاننے کے لیے تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو قدیم تذکروں میں سب سے پہلے عرب سیاح سلیمان ال مہری نے 1511ء میںن اپنی سفرگزشت میں ’’راس الکراشی ‘‘کے عنوان سے اس تاریخی بندرگاہ کاتفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

وہ پسنی سے سمندر کے راستے کراچی آیا تھااور یہاں اس نے خاصا وقت گزارا۔ چند سال بعد ترک عثمانی کیپٹن سیدی علی رئیس نے اپنے سفر نامے ’’ملکوں کا آئینہ‘‘ میں تفصیل سے اس قدیم بندرگاہ کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ کراچی کی یہ بندرگاہ کاروباری اعتبار سے اس زمانے میں بھی خاصی اہمیت کی حامل تھی اسے کولاچی بندرگاہ کا نام دیا گیا۔ یوں تو تالپوروں کے دور 1820ء میں بھی یہ بندرگاہ تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے بڑی کشش رکھتی تھی اورانیسویں صدی کے آخری سالوں میں کراچی کی بندر گاہ ایک اہم بین الاقوامی بندرگاہ کی حیثیت حاصل کرچکی تھی اور اس کا چرچا چار سو پھیل چکا تھا۔انگریزوں کے آنے کے بعد تو پھر یہ ایک ایسی بندرگاہ بن گئی کہ دنیا بھر سے بڑے بڑے جہازرانوں اور جہازوں نے کراچی کا رخ کر لیا اور عالمی نقشے پر اس کی اہمیت دوچند ہو گئی۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس بندرگاہ کی وہ ساکھ برقرار نہ رہ سکی جو انگریزوں کے قبضے کے دور میں تھی 

کراچی قدیم فن تعمیر کے شاہکار نمونوں کا مسکن ہے۔ یہاں کی پرانی عمارتیں ہندو راجائوں اور برطانوی حکمرانوں نے بنوائیں، جو اس دور کے مقامی کاریگروں کے تعمیراتی فن کی عکاسی کرتی ہیں ۔ یہ عمارتیں مغلیہ ، گوتھک، وینس اور وکٹوریہ ادوار کے جمالیاتی ذوق کی آئینہ دار ہیں- جبکہ عمارت کے عین وسط میں واقعہ گنبد اسے اسلامی فن تعمیر سے بھی ملاتا ہے۔ اتنے زیادہ فن تعمیر کے نمونوں کا روپ دکھانے والی اس جیسی کوئی اور عمارت پورے شہر میں نہیں۔

کے پی ٹی کی ایگزیکٹو انجینئر پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ نور عین حسین کا کہنا ہے ’100 سال گزر جانے کے باوجود، عمارت کی تعمیر میں کارفرما شاندار آرکیٹکچر اور ڈیزائن حقیقی معنوں میں قابلِ ستائش ہے۔ عمارت کو بمبئی حکومت کے کنسلٹنٹ آرکیٹکچر جارج وائٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ ان ہی نے ممبئی کی جانی پہچانی سنگ میل نوعیت کی عمارتیں بھی ڈیزائن کی تھیں، جن میں ’پرنس آف ویلز میوزیم‘ اور ’گیٹ وے آف انڈیا‘ شامل ہیں۔‘کراچی پورٹ ٹرسٹ آفس کے انتظامی دفاتر کو 1916 میں تعمیر کیا گیا تھا اور آج تک کراچی پورٹ میں سرگرمیوں سے متعلق تمام کاموں کے ہیڈکوارٹر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران کراچی بندرگاہ کے لئے تعمیر ہونے والی اس عمارت کو انڈیا جنرل ہسپتال میں تبدیل کردیا گیا تھا اور مئی 1919 تک یہ عمارت فوجی ہسپتال کی حیثیت سے انجام دیتی رہی۔

عمارت کی تعمیر کا کام 1912ء میں شروع ہوا جو 4سال کے عرصے میں تکمیل کو پہنچا، اس وقت کے ممبئی کے گورنر لارڈ ویلنگٹن نے یہاں5جنوری 1916ءکو کے پی ٹی ہیڈ آفس کا افتتاح کیاتھا، جبکہ بلڈنگ کی تعمیر پر مجموعی طور پر 9لاکھ 74ہزار 990روپے لاگت آئی تھی۔

کے پی ٹی نے تاریخی حوالوں کے ہمراہ دی گئی معلومات میں کہا ہے کہ عمارت تقریباً 1400 اسکوائر میٹر پر اپنے بازو پھیلائے ہوئے ہے۔ عمارت کے عین درمیان میں واقع گنبد سے دائیں بائیں جانب گھوم جاتی ہے۔ یہی گھماوٴ اسے دوسری عمارتوں کے مقابلے میں قدآور بنادیتا ہے۔

کراچی بندرگاہ پاکستان کی سب سے بڑی اور مصروف ترین بندرگاہ ہے۔ یہاں سے سالانہ 2.5 کروڑ ٹن کے سامان کی تجارت ہوتی ہے، جو پاکستان کی کل تجارت کا تقریباً 60% ہے۔بندرگاہ قدیم کراچی شہر کے مرکز کے قریب کیماڑی اور صدر کے علاقوں کے درمیان واقع ہے۔ اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث یہ بندرگاہ اہم آبی گزرگاہوں مثلاً آبنائے ہرمز کے بالکل قریب واقع ہے۔ بندرگاہ کا انتظام ایک وفاقی ادارے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے سپرد ہے۔ یہ ادارہ انیسویں صدی عیسوی میں برطانوی دور حکومت میں قائم کیا گیا تھا- 

کراچی اپنی قدیم بندرگاہ کے حوالے سے خلیج اورجنوبی ایشیا سمیت کئی اہم ملکوں اور خطوں کے لیے معاشی دروازہ ہے جس کے راستے پاکستان درآمدات وبرآمدات کا 60 فیصد مال اور سازوسامان ترسیل ہوتا ہے۔

 ’کراچی پورٹ ٹرسٹ‘ ہالٹ ریلوے اسٹیشن سے سامان تجارت کس طرح ہوتی ہے-کراچی کی بندرگاہ پر ۲۴ گھنٹے بذنس آپریشن جاری رہتا ہے جس میں ہمارے وطن عزیز کے سینکڑوں کارکن کام کرتے ہیں اور بحری جہازوں سے اترنے والے سامان کو یہاں کے ہالٹ ریلوے اسٹیشن پر موجود مال گاڑیوں کے ڈبّوں میں بھر کر ملک کے گوشے گوشے میں روانہ کرتے ہیں 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر