ساحل کراچی کی پُر شکوہ عمارت -کراچی پورٹ ٹرسٹ -قدرت نے کراچی کے ساحل کوگہرے پانی کی خلیج دے کر ایسی نعمت عطا کی ہے جس کا جتنا شکر کیا جائے کم ہی کم ہے -کیونکہ گہرے پانی میں سمندری جہاز بہت آرام سے لنگر انداز ہو سکتے ہیں اگر آپ کا کیماڑی جانا ہو توضرور یہ خوبصورت منظر دیکھئے گا کہ کس طرح لاتعداد دیو ہیکل جہاز سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے لنگر انداز ہو نے کو آ بھی رہے ہوتے ہیں اور اپنے مستقر پر جا بھی رہے ہوتے ہیں
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اس عظیم الشّان بحری تجارت کی نگہبانی کر نے والی خوبصورت عمارت کراچی پورٹ ٹرسٹ کے بارے میں تاریخ کیا کہتی ہے
ساحلی ہوا کے سر پھرے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتی کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ہیڈ کوارٹر کی عمارت کو تعمیر ہوئے ایک صدی مکمل ہوگئی۔ یہ وہ عمارت ہے ،جس پر یہ شہر فخر کرتا آیا ہے۔عمارت کی منفرد بات یہ ہے کہ جہاں یہ ایک جانب برطانوی، ہندو اور گوتھک ثقافتوں کی عکاس نظر آتی ہے تو دوسری طرف اسے رومن فن تعمیر سے بھی ملتا جلتا کہا جاتا ہے، جبکہ عمارت کے عین وسط میں واقعہ گنبد اسے اسلامی فن تعمیر سے بھی ملاتا ہے۔
کراچی اپنی قدیم بندرگاہ کے حوالے سے خلیج اورجنوبی ایشیا سمیت کئی اہم ملکوں اور خطوں کے لیے معاشی دروازہ ہے جس کے راستے پاکستان درآمدات وبرآمدات کا 60 فیصد مال اور سازوسامان ترسیل ہوتا ہے۔ یوں تو یہ بندرگاہ محدود پیمانے پر تالپوروں کے عہد سے بھی پہلے فعال تھی لیکن جب 1843ء میں انگریزوں نے اس شہر اور اس کی قدیم بندرگاہ کی اہمیت کو جان کر یہاں پر جب تعمیرات کا بیڑہ اُ ٹھایا تو اس بندر گاہ کی بھی قسمت جاگ اٹھی۔ندری تجارت کے تمام معاملات کی دیکھ بھال کے لئے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے نام سے یہ پر شکوہ بلڈنگ بنا کر سمندری تجارت کے تمام معاملات کا اسے نگہبان بنا یا انگریزوں نے اسے ایک جدید بندرگاہ کی شکل دے دی۔ کراچی بندرگاہ کے بارے میں جاننے کے لیے تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو قدیم تذکروں میں سب سے پہلے عرب سیاح سلیمان ال مہری نے 1511ء میںن اپنی سفرگزشت میں ’’راس الکراشی ‘‘کے عنوان سے اس تاریخی بندرگاہ کاتفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
وہ پسنی سے سمندر کے راستے کراچی آیا تھااور یہاں اس نے خاصا وقت گزارا۔ چند سال بعد ترک عثمانی کیپٹن سیدی علی رئیس نے اپنے سفر نامے ’’ملکوں کا آئینہ‘‘ میں تفصیل سے اس قدیم بندرگاہ کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ کراچی کی یہ بندرگاہ کاروباری اعتبار سے اس زمانے میں بھی خاصی اہمیت کی حامل تھی اسے کولاچی بندرگاہ کا نام دیا گیا۔ یوں تو تالپوروں کے دور 1820ء میں بھی یہ بندرگاہ تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے بڑی کشش رکھتی تھی اورانیسویں صدی کے آخری سالوں میں کراچی کی بندر گاہ ایک اہم بین الاقوامی بندرگاہ کی حیثیت حاصل کرچکی تھی اور اس کا چرچا چار سو پھیل چکا تھا۔انگریزوں کے آنے کے بعد تو پھر یہ ایک ایسی بندرگاہ بن گئی کہ دنیا بھر سے بڑے بڑے جہازرانوں اور جہازوں نے کراچی کا رخ کر لیا اور عالمی نقشے پر اس کی اہمیت دوچند ہو گئی۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس بندرگاہ کی وہ ساکھ برقرار نہ رہ سکی جو انگریزوں کے قبضے کے دور میں تھی
کراچی قدیم فن تعمیر کے شاہکار نمونوں کا مسکن ہے۔ یہاں کی پرانی عمارتیں ہندو راجائوں اور برطانوی حکمرانوں نے بنوائیں، جو اس دور کے مقامی کاریگروں کے تعمیراتی فن کی عکاسی کرتی ہیں ۔ یہ عمارتیں مغلیہ ، گوتھک، وینس اور وکٹوریہ ادوار کے جمالیاتی ذوق کی آئینہ دار ہیں- جبکہ عمارت کے عین وسط میں واقعہ گنبد اسے اسلامی فن تعمیر سے بھی ملاتا ہے۔ اتنے زیادہ فن تعمیر کے نمونوں کا روپ دکھانے والی اس جیسی کوئی اور عمارت پورے شہر میں نہیں۔
کے پی ٹی کی ایگزیکٹو انجینئر پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ نور عین حسین کا کہنا ہے ’100 سال گزر جانے کے باوجود، عمارت کی تعمیر میں کارفرما شاندار آرکیٹکچر اور ڈیزائن حقیقی معنوں میں قابلِ ستائش ہے۔ عمارت کو بمبئی حکومت کے کنسلٹنٹ آرکیٹکچر جارج وائٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ ان ہی نے ممبئی کی جانی پہچانی سنگ میل نوعیت کی عمارتیں بھی ڈیزائن کی تھیں، جن میں ’پرنس آف ویلز میوزیم‘ اور ’گیٹ وے آف انڈیا‘ شامل ہیں۔‘کراچی پورٹ ٹرسٹ آفس کے انتظامی دفاتر کو 1916 میں تعمیر کیا گیا تھا اور آج تک کراچی پورٹ میں سرگرمیوں سے متعلق تمام کاموں کے ہیڈکوارٹر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران کراچی بندرگاہ کے لئے تعمیر ہونے والی اس عمارت کو انڈیا جنرل ہسپتال میں تبدیل کردیا گیا تھا اور مئی 1919 تک یہ عمارت فوجی ہسپتال کی حیثیت سے انجام دیتی رہی۔
عمارت کی تعمیر کا کام 1912ء میں شروع ہوا جو 4سال کے عرصے میں تکمیل کو پہنچا، اس وقت کے ممبئی کے گورنر لارڈ ویلنگٹن نے یہاں5جنوری 1916ءکو کے پی ٹی ہیڈ آفس کا افتتاح کیاتھا، جبکہ بلڈنگ کی تعمیر پر مجموعی طور پر 9لاکھ 74ہزار 990روپے لاگت آئی تھی۔
کے پی ٹی نے تاریخی حوالوں کے ہمراہ دی گئی معلومات میں کہا ہے کہ عمارت تقریباً 1400 اسکوائر میٹر پر اپنے بازو پھیلائے ہوئے ہے۔ عمارت کے عین درمیان میں واقع گنبد سے دائیں بائیں جانب گھوم جاتی ہے۔ یہی گھماوٴ اسے دوسری عمارتوں کے مقابلے میں قدآور بنادیتا ہے۔
کراچی بندرگاہ پاکستان کی سب سے بڑی اور مصروف ترین بندرگاہ ہے۔ یہاں سے سالانہ 2.5 کروڑ ٹن کے سامان کی تجارت ہوتی ہے، جو پاکستان کی کل تجارت کا تقریباً 60% ہے۔بندرگاہ قدیم کراچی شہر کے مرکز کے قریب کیماڑی اور صدر کے علاقوں کے درمیان واقع ہے۔ اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث یہ بندرگاہ اہم آبی گزرگاہوں مثلاً آبنائے ہرمز کے بالکل قریب واقع ہے۔ بندرگاہ کا انتظام ایک وفاقی ادارے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے سپرد ہے۔ یہ ادارہ انیسویں صدی عیسوی میں برطانوی دور حکومت میں قائم کیا گیا تھا-
کراچی اپنی قدیم بندرگاہ کے حوالے سے خلیج اورجنوبی ایشیا سمیت کئی اہم ملکوں اور خطوں کے لیے معاشی دروازہ ہے جس کے راستے پاکستان درآمدات وبرآمدات کا 60 فیصد مال اور سازوسامان ترسیل ہوتا ہے۔
’کراچی پورٹ ٹرسٹ‘ ہالٹ ریلوے اسٹیشن سے سامان تجارت کس طرح ہوتی ہے-کراچی کی بندرگاہ پر ۲۴ گھنٹے بذنس آپریشن جاری رہتا ہے جس میں ہمارے وطن عزیز کے سینکڑوں کارکن کام کرتے ہیں اور بحری جہازوں سے اترنے والے سامان کو یہاں کے ہالٹ ریلوے اسٹیشن پر موجود مال گاڑیوں کے ڈبّوں میں بھر کر ملک کے گوشے گوشے میں روانہ کرتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں