ہفتہ، 1 اکتوبر، 2022

کلونجی قدرت کا انعام


قدرت نے  ہم انسانو  ں کی بہتری کے لئے کیا کیا  بیش قیمت  نعمتیں عطا فرمائ ہیں   وہ بھی انتہائ سستی  جیسے کلونجی ۔کلونجی کے فوائد لا تعداد ہیں  ۔آئے اس  کے فوائد پر ایک نظر ڈالتے ہیں - یہ بہت سریع الاثر ادویات کے زمرے میں آتی ہےقدیم یونانیاور عرب حکما نے اس کو رومیوں  سے حاصل کیا کیونکہ رومی اس کے استعمال سے بخوبی واقف تھے پھر یہ ساری دنیا میں کاشت ہونے لگا۔کلونجی کے بیج معدہ اورپیٹ کےامراض مثلا پیٹ میں ریاح گیس کا ہونا، آنتوں کا درد، کثرت ایام، استقاء، یادداشتمیں کمی رعشہ، دماغی کمزوری، فالج اور افزائش دودھ کے لیے استعمال کراتے رہے ہیںٍ،ہیں۔ رسول اللہ ۖ کے حوالے سے کتب سیرت میں ملتا ہے کہ آپ ۖ شہد کے شربت کے ساتھ کلونجی کا استعمال فرماتے تھے۔ 

حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے والد عبداللہ بن عمر رضیآللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا تم ان کالے دانوں کو اپنے اوپرلازم کرلو ان میں موت کے سوا ہر مرض کا علاج ہے۔کلونجی کی یہ اہم خاصیت ہےکہ یہ گرم اور سرد دونوں طرح کے امراض میں مفید ہے۔ جبکہ اسکا اپنا مزاج گرم ہے اورسردی سے ہونے والے تمام امراض میں مفید ہے۔کلونجی نظام ہضم کی اصلاح کے لیے اکسیرکا درجہ رکھتی ہے، ریاح گیس اور قبص میں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ 

وہ لوگ جن کو کھانے کےبعد پیٹ میں بھاری پن گیس ریاح بھرجانے اور اپھارہ کی شکایت محسوس ہوتی ہو ایسےحضرات کلونجی کا سفوف تین گرام کھانے کےبعد استعمال کریں تو نہ صرف یہ شکایت جاتیرہے گی بلکہ معدہ کی اصلاح بھی ہوگی۔ کلونجی کو سرکہ کے ساتھ ملا کر کھانے سے پیٹکے کیڑے مر جاتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں جب تھوڑی سی سردی لگنے سے زکام ہونے لگتاہے تو ایسی صورت میں کلونجی کو بھون کر باریک پیس لیں اور کپڑے میں باندھ کر پوٹلیبنا کر باربار سونگھنے سے زکام دور ہوجاتا ہے۔ اگر چھینکیں آرہی ہوں تو کلونجی بھونکر باریک پیس کر روغنِ زیتون میں ملا کر اس کے تین چار قطرے ناک میں ٹپکانے سےچھینکیں جاتی رہتی ہیں۔کلونجی مدر بول( پیشاب آور) بھی ہے اس کا جوشاندہ شہد ملا کرپینےسے گردہ و مثانہ کی پتھری بھی خارج ہوجاتی ہے۔ 

اگر دانتوں میں ٹھنڈا پانی لگنےکی شکایت ہوتو کلونجی کو سرکہ میں ملا کر کلیاں کرانے سے فائدہ ہوتا ہے۔چہرے کیرنگت میں نکھار پیداکرنے کے لیے باریک پیس کر گھی میں ملا کر چہرے پر لیپ کرنے سےفائدہ ہوتا ہے۔ آج کل نوجوان لڑکے لڑکیوں میں کیل دانوں اورمہاسوں کی شکایت عام ہےاور مختلف بازاری کریمیں استعمال کرکے چہرے کی جلد کو خراب کرلیتے ہیں۔ ایسے نوجوانکلونجی باریک پیس کر سرکہ میں ملا کر سونےسے قبل چہرے پر لیپ کر لیا کریں اور صبحاٹھ کر چہرہ دھولیا کریں۔ چند دنوں میں ہی اچھے اثرات سامنے آئیں گے۔اس طرح لیپ کرنے سے نہ صرف چہرہ کی رنگت صاف اور مہاسے ختم ہونگے بلکہ جلد میں نکھار بھی آئےگا۔ 

جلدی امراض میں کلونجی کا استعمال عام ہے۔جلد پر زخم ہونے کی صورت میں کلونجی کوتوے پر بھون کر روغن مہندی میں ملا کر لگانےسے نہ صرف زخم مندمل ہوجائیں گے بلکہنشان بھی جاتے رہیں گے۔ جو خواتین ایام رضاعت میں ہوں اور چھوٹے بچوں کو اپنا دودھپلا رہی ہوں اور ان کو دودھ کم آنے کی شکایت ہو جس سے ان کا بچہ بھوکارہ جاتا ہوںتو ایسی خواتین کلونجی کو چھ دانے صبح نہار منہ و رات سونے سے قبل دودھ کے ساتھاستعمال کرلیا کریں تو ان کے دودھ کی مقدار میں اضافہ ہو جائے گا البتہ حاملہخواتین کوکلونجی کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔جن خواتین کو ماہانہ ایام کم آتے ہوںیا درد کے ساتھ آتے ہوں، پیشاب کم یا تکلیف کے ساتھ آتا ہو، وہ کلونجی کا سفوف تین گرام روزانہ استعمال کرلیا کریں ماہانہ ایام کا نظام درست ہوجائے گا۔ 

اعصابیدباؤ اور تناؤ میں مبتلا لوگ کلونجی کے چند دانے روزانہ شہد کے ساتھ استعمال کرلیاکریں۔چند دنوں میں بہتر محسوس کریں گے۔پیٹ اور معدہ کے امراض، پھیپھڑوں کی تکالیفاور خصوصًا دمہ کے مرض میں کلونجی بہت فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔کلونجی کا سفوف نصفسے ایک گرام تک صبح نہار منہ اور رات کو سونے سے قبل شہد کے ساتھ استعمال کر لیاجائے تو بہت مفید ہے۔ بعض اوقات کلونجی اور قسط شیری برابر وزن کا سفوف بنا کر صبحنہار منہ و رات سونے سے قبل استعمال کروایا جاتا ہے۔یہ نسخہ پرانی پیچش اور جنسی امراض میں بھی مفید ہے۔جن لوگوں کو ہچکیاں آتی ہوں وہ کلونجی کا سفوف تین گرام مکھنایک چمچ میں ملا کر کر استعمال کریں تو فائدہ ہوتا ہے۔ 

کلونجی کا تیل دو قسم کا ہوتاہے ایک سیاہ رنگ میں خوشبودار جو ہوا میں اٹھنے سے اڑنے لگتا ہے اور دوسریقسم انٹروی کے تیل جیسا جس کے دوائی اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں، یہ تیل بیرونی طورپر استعمال کیا جاتا ہے اور بہت سے جلدی امراض میں مفید ہے۔ یہ تیل بال خورہ کیشکایت میں بہت فائدہ دیتا ہے ۔ بالخورہ میں بال اڑ جاتے ہیں اور دائرے کی صورت میں نشان بن جاتا ہے پھر دائرہ دن بدن بڑھتا ہے اور عجیب سی ناخوشگواری کا احساس ہوتاہے۔یہ تیل سر کے گنج کو دور کرنے اور بال اگانے میں بھی مفید ہے ۔ مزید یہ کہ استیل کے استعمال سے بال جلد سفید نہیں ہوتے اور اس تیل کو مختلف طریقوں سے داد،اگزیما میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اگر جسم کو کوئی حصہ بے حس ہوجائے تو یہ تیل مفید ہے۔ 

کان کے ورم اور نسیان میں بھی یہ تیل مفید ہے۔ ماہرین طب و سائنس کلونجی پر تحقیقی کام کر رہے ہیں جنھوں نے اسے مختلف امراض میں مفید پاتا اور مزید تحقیق کا عمل جاری ہے۔کیمیا دانوں نے کلونجی پر تحقیقات کے بعد بتایا ہے کہ اسمیں ضروری روغن پائے جاتے ہیںِ اس کے علاوہ ونگشلین، الیوسن، ٹے نین، رال دار مادے،گلوکوز، ساپونین اور نامیاتی تیزاب بھی پائے جاتے ہیں جو کئی امراض میں موثر ہیں۔پاکستان کے ایک ممتاز سائنسدان نے جامعہ کراچی کے شعبہ کیمیاء میں کلونجی پر جوتحقیق کی اس کے مطابق کلونجی سے جو اسکائڈز حاصل ہوئے ہیں کسی اور شے سے نہیں ملسکے۔ 

ذیابیطس کے مریض کلونجی کے سات دانے روزانہ صبح نگل لیا کریں۔ذیابیظس میں بھی اس کے اچھے نتائج سامنے ائے ہیں، ذیابیطس کے مریض کلونجی کے سات دانے روزانہ صبح نگل لیا کریں۔ ذیابیطس کے مریض کلونجی کے بیج تین حصے اور کانسی کے بیج ایک حصہ ملا کر استعمال کریں تو اس کے مفید نتائج سامنے اتےہیں کلونجی میں ورموں کو تحلیل کرنے اور گلٹیوں کو گھلانے کی بھی صفت ہے۔برص بڑا ہٹیلا مرض ہے۔ اس کے سفید داغ جسم کو بدصورت بنا دیتے ہیں۔ اگر برص کے مریض کلونجی اور ہالوں برابر برابر وزن لے کر توے پر بھون کر تھوڑا سرکہ ملا کر مرہم بناکر مسلسل تین چار ماہ برص کے نشانوں پر لگاتے رہیں اور کلونجی اور ہالون کاباریک سفوف شہد کے ساتھ روزانہ نہار منہ استعمال کیا کریں توجلد فائدہ ہوگا۔ 

کلونجی کی دھونی سے گھر میں پائے جانے والے کیڑے مکوڑے ہلاک ہوجاتے ہیں۔اسی خصوصیت کے سبب کلونجی کو گھروں میں قیمتی کپڑوں میں رکھا جاتا ہے تاہم کلونجی کے استعمال میں یہ امر پیش نظر رہے کہ یہ طویل عرصہ اور زیادہ مقدار میں استعمال نہ کی جائے کیونکہ اسمیں کچھ مادے ایسے بھی ہوتے ہیں جو صحت کے لیے مضر ہوسکتے ہیں۔لہذا احتیاط ضروری ہے

طب نبویؐ اوریونانی (ہربل )سسٹم آف میڈیسن میں صدیوں سے استعمال ہونے والی دواکلونجی پردنیا بھر میں ہزاروںمطالعے اور لاکھوں کلینکل ٹرائلزجاری ہیں۔کلونجی کےسلسلے میں رسول اللہؐکا فرمان ہے کہ اس میں موت کے سوا ہربیماری سے شفا ہے یہبات جدید تحقیقات نے بھی ثابت کردی ہے ۔اب تک کی گئیتحقیق کے مطابق کلونجی کےبیج کینسر‘لیوکیمیا‘ ایچ آئی وی ایڈز‘ذیا بیطس
‘بلڈ پریشرہائپر کولیسٹرول ایمیااورمیٹا بولک ڈیزیززکے علاج میں انتہائی۔موثر پائی گئی ہے۔اس امر کا اظہارمرکزیسیکرٹری جنرل کونسل آف ہربل فزیشنزپاکستان اور یونانی میڈیکل آفیسرحکیم قاضیایم اے خالد نے کینسر آگہی مہمکے آغاز کے موقع پر ہیلتھ پاک کے زیراہتماممنعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتےہوئے کیا انہوں نے کہا کہ فلو ریڈا میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق کلونجی کینسر اور لیوکیمیا میں بھی مفیدہے نیز اینٹی کینسرکیمیو تھراپی کےمضراثرات و مضمرات کے ازالہ میں بھی فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔


جمعرات، 29 ستمبر، 2022

برما میں ''من جانب اللہ ''عزاداری کا قیام

برما میں من جانب اللہ عزاداری  کا قیام

دنیا میں وہ خطّہ ء زمین جو عزادار سیّد الشّہداء سے محروم ہو وہاں وہ از خود معجزاتی طورپر قیام عزاداری کا بندوبست کر دیتا ہے -میں نے یہ مضمون انٹرنیٹ سے لے کر جوں کا توں پرنٹ کیا ہے'

میانمار کے قدیم شہر عماراپورا میں واقع ڈیڑھ سو برس قدیم امام بارگاہ کی نگہبانی ایک بُدھ مت مذہب کا پیروکار خاندان کر رہا ہے-یہ خاندان چار نسلوں سے اس امام بارگاہ کا متولی ہے۔ اِن کا رہن سہن عام بُدھ مت پیروکاروں سے تھوڑا سا مختلف ہے۔ جیسا کہ اس خاندان کے افراد دیگر پیروکاروں کے برعکس خنزیر کا گوشت نہیں کھاتے ہیں اور اہل تشیع کے ساتھ ایام عزا کے سوگ میں شامل ہوتے ہیں۔

مجھے اس امام بارگاہ اور اس کے احاطے میں موجود مسجد کو دیکھ کر خوشگوار حیرت اور اطمینان ہوا-برما میں یہ امام بارگاہ پرائیویٹ ٹرسٹ کے طور پر چلایا جاتا ہے۔ عمارا پورا امام بارگاہ کے ٹرسٹی ڈاکٹر ایم اے شیرازی بتاتے ہیں کہ ان کے نانا آغا علی اکبر شیرازی نے اس امام بارگاہ کی تعمیر سنہ 1884 میں ایک بدھ مت پیروکار مچھیرے کے کہنے پر کی تھی

مرنے سے پہلے سنہ 1917 میں عمارت کی ملکیت کے کاغذات امانت کے طور پر ان کے حوالے کر گئے۔

میانمار کا قدیم شہر عماراپورا سنہ 1783 سے سنہ 1859 تک برما کا دارالحکومت رہا ہے۔ یےگار موشے کی کتاب ’برما کے مسلمان‘ کے مطابق سلطنت اووا کے دور میں (یعنی سنہ 1850) میں یہاں 20 ہزار مسلمان خاندان آباد تھے۔ماندلے شہر سے 11 کلومیٹر کی دوری پر واقع اس شہر میں آج ایک بھی اہل تشیع کنبہ موجود نہیں ہے۔ اس حقیقت کے باوجود گذشتہ ایک صدی سے وہاں انگریزوں کے دور میں تعمیر کی جانے والی امام بارگاہ آج بھی قائم و دائم ہے اور ہر سال محرم اور سفر کے مہینوں میں زائرین کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔بدھ مت سے تعلق رکھنے والا یہ مچھیرا ماتیں سوں کے پرنانا تھے۔ تین نسلوں سے یہ خاندان امام بارگاہ کی نگہبانی کر رہا ہے۔

ماندلے شہر کے رہائشی 84 سالہ ڈاکٹر شیرازی بتاتے ہیں کہ یہاں مشہور روایت یہ ہے کہ ان کے نانا آغا علی اکبر شیرازی کے پاس ایک پریشان حال مچھیرا آیا جس کے ہاتھ میں ایک علم تھا۔

اس مچھیرے کو یہ علم اراوادی دریا سے ملا تھا۔ مچھیرے کا تعلق بدھ مت سے تھا۔ وہ علم گھر لے آیا اور بھول گیا۔ روایت کے مطابق اسے تین بار خواب میں آغا شیرازی سے ملنے اور امام بارگاہ بنانے کی جگہ کی نشاندہی ہوئی تھی۔بدھ مت سے تعلق رکھنے والا یہ مچھیرا ماتیں سوں کے پرنانا تھے۔ تین نسلوں سے یہ خاندان امام بارگاہ کی نگہبانی کر رہا ہے۔

امام بارگاہ کے احاطے میں ان کے شوہر اپنی گاڑیوں کا گیراج چلاتے ہیں۔ ہر سال محرم اور صفر کے مہینوں میں یہ زائرین کا استقبال کرتے ہیں۔ ماندلے اور دوسرے بڑے شہروں سے یہاں ننگے پیر زائرین چہلم (اربعین) کے لیے بھی آتے ہیں۔امام بارگاہ کے احاطے میں مسجد ہے جہاں ان ایام میں باجماعت نماز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

لگ بھگ تین سے چار کنال پر پھیلی ہوئی اس امام بارگاہ کے احاطے میں برمیز لکڑی کے چھوٹے سے گھر میں یہ اپنی والدہ اور شوہر کے ساتھ رہتی ہیں۔


معجزہ شقّ القمر تاریخ کے آئینہ میں

  یہ  چاند کی چودہ تاریخ اورزی الحجہ  کا مہینہ  تھا۔کفار قریش کی تعداد بھی  چودہ تھی جن کا سرغنہ ابو جہل تھا۔کفار نے منصوبہ بندی کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آسمانی معجزہ دکھانے کو کہتے ہیں

تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا : اگر میں ایسا کردوں تو تم ایمان لے آؤگے؟ بولے لے آئیں گے ۔چونکہ یہ چاند کی بدر کی رات تھی ۔ ۔

ا کہ جس نے معجزہ نہ دکھایا ہو آپ کے پاس کونسا معجزہ ہے آج کی رات ؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا : تم لوگ کیا چاہتے ہو ؟

لوگوں نے کہا : اگر تم ا ور تمہارا رب سچے ہیں تو چاند کو حکم دو کہ دو حصوں میں تقسیم کردو ۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ آپ پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا سلام ہے اور اس نے ہر چیز کو آپ کے تابع کردیا ہے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے سربلند ہوکر چاند کوحکم دیا اور وہ تقسیم ہوگیا  ۔پھر مشرکین نے کہا کہ اس کو اپنی اصلی حالت میں لوٹا دیں تو وہ  اپنی پہلی حالت میں لوٹ گیا  تھا اور اسی وقت آیہ کریمہ نازل ہوئی 

{اقْتَرَبَتِ السّاعَةُ وَانشَقّ الْقَمَر}   

لاکھوں درود وسلام آقائے دو جہاں خاتم ا لمرسلین شفیع المذنبین ،

حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ وآ لہ وسّلم 

شقّ القمر کا واقعہ کب اور کیسے رونما ہوا

پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک معجزہ شق قمر ہے۔ اس معجزہ کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔

 اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ  وَإِنْ يَرَوْا آَيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ

ترجمہ:

قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔

قرآن نے اس شق قمر کو بطور معجزہ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں اس معجزہ کا ظہور ہوا۔ اسی وجہ سے قرآن نے اس کو ماضی کے صیغہ کے ساتھ بیان کیا۔ بعض لوگ اس معجزہ کا انکار کر کے اس ماضی کے صیغہ کو مستقبل کے مضمون میں قرار دیتے ہیں۔ علاوہ نص قرآنی کے احادیث متواترہ سے بھی یہ ثابت ہے کہ ”انشقاق قمر“ کا واقعہ عہد رسالت میں پیش آیا

لیکن چونکہ ان کے دل ٹیڑھے تھے اس لئےانہوں ملک شام سے اپنے آنے والے قبیلے کی تصدیق کا عذر تراشا  اور جب قافلہ بھی وارد ہوگیا اور اسنے شقّ ا لقمر کی تصدیق بھی کر دی  اور یہ معجزہ  14 ذی الحجہ  ہجرت سے سال پہلے دست رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ پر پیش آیا ۔

معجزہ شقّ القمرہ معجزہ فقط اہل مکہ نے نہیں بلکہ مکہ کے اطراف میں رہنے والوں صحرا نشینوں نے بھی دیکھا تھا، ابوجہل اور دوسرے مشرکین نے صحرا نشینوں سے اس بات کی تصدیق بھی کی تھی کہ   انھوں نے بھی چاند کو دو حصوں میں دیکھا ہے۔

ملا محمد قاسم فرشتہؒ تاریخ ہند ص ۴۸۹ ج ۲ میں لکھتے ہیں کہ تیسری صدی ہجری کی ابتداء میں کچھ عرب مسلمان کشتی پر سوار جزائر سری لنکا کی طرف جا رہے تھے کہ طوفانوں کی وجہ سے جزائر مالابار کی طرف جا نکلے اور وہاں گدنکلور نامی شہر میں کشتی سے اترے۔ شہر کے حاکم کا نام ’’سامری‘‘ تھا۔ اس نے مسلمانوں کے بارے میں یہودی اور عیسائی سیاحوں سے کچھ سن رکھا تھا۔ عرب مسلمانوں سے کہنے لگا کہ پیغمبر اسلامؐ کے حالات اور ان کی کچھ علامات بیان کریں۔ ان مسلمانوں نے اسے آنحضرتؐ کے حالات زندگی، اسلام کے اصول و مسائل اور نبی اکرمؐ کے معجزات کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں، دریں اثنا شق القمر کے تاریخی معجزہ کا ذکر بھی کیا۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ ذرا ٹھہرو ہم اسی بات پر تمہاری صداقت کا امتحان لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں دستور ہے کہ جو بھی اہم واقعہ رونما ہو اسے قلمبند کر کے شاہی خزانہ میں تحریر کو محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ اگر تمہارے کہنے کے مطابق محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صداقت کے اظہار کے لیے چاند دو ٹکڑے ہوا تھا تو اسے یہاں کے لوگوں نے بھی دیکھا ہوگا اور اتنا محیر العقول واقعہ ضرور قلمبند کر کے شاہی خزانے میں محفوظ کر لیا ہوگا۔ یہ کہہ کر اس نے پرانے کاغذات طلب کیے، جب اس سال کا رجسٹر کھولا گیا تو اس میں یہ درج تھا کہ آج رات چاند دو ٹکڑے ہو کر پھر جڑ گیا۔ اس پر وہ بادشاہ مسلمان ہوگیا اور بعد میں تخت و تاج چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ ہی عرب چلا گیا۔ 

علامہ سید محمود شکری آلوسیؒ اپنی کتاب مادل علیہ القرآن مما یعضد الہیئۃ الجدیدۃ القویمۃ البرہان میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے تاریخ میں پڑھا ہے کہ جب سلطان محمود غزنویؒ ہندوستان پر بار بار حملے کر رہے تھے، انہوں نے بعض عمارتوں پر یہ تختی لکھی ہوئی دیکھی کہ اس عمارت کی تکمیل اس رات ہوئی جس رات چاند دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔ 

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۹ جنوری ۱۹۷۵ء کے صفحہ نمبر ۲ پر خبر شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مصری سائنسدان ڈاکٹر فاروق الباز نے، جو واشنگٹن میں طبقات ارضی اور اجرام فلکی کے تحقیقاتی مرکز کے ڈائریکٹر ہیں، گزشتہ روز مصر کے صدر جناب انور السادات سے ملاقات کی اور انہیں قرآن کریم کے اس نسخے کا ایک ورق پیش کیا جو اپالو ۱۵ کے خلانورد چاند پر رکھ کر آئے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق نے صدر سادات کو مریخ کی ایک وادی کا ماڈل پیش کیا جسے وادیٔ قاہرہ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چاند پر سے لی گئی عرب ممالک کی رنگین تصویر پیش کی اور چاند پر موجود ایک دراڑ کی تصویر بھی پیش کی جسے عرب دراڑ کا نام دیا گیا ہے اور جس کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب چاند دو ٹکڑے ہوا تھا تو دوبارہ جڑتے وقت یہ دراڑ رہ گئی تھی


منگل، 27 ستمبر، 2022

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا۔ میری کتاب زندگی



 

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا

نحمدہ  و نصلّی علٰی  رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین 
 میں خدائے ذوالجلال والاکرام کی بے حد شکر گزار ہوں کہ بحیثیت ایک انتہائ قلیل و کم علم رکھنے والی طالبہ کے آج مجھے اپنے قارئین کے سامنے اپنی داستان حیات پیش کرنے کا موقع میسّر آیا ہے،میری کوشش ہو گی کہ  اپنی اس کتاب زندگی میں اپنے ہوش کی زندگی سے لے کرتادم تحریرمیں نے کارزارزندگی سے جو پایا ہے اسے من وعن پیش کر سکوں  اورمیرے قلم کا لکھا ہوا ایک ایک حرف صدقہ ہے میرے پیارے نبی حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم شہر علم اور
باب علم سلطان اولیاء مولائے کائنات حضرت علی ابن طالب کے علم کا 
میری جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان کے ما ئہ ناز خطّہ زمین حیدرآباد دکن
 تاریخ پیدائش
آٹھ نو مبر سن انّیس سو اڑتالیس 
ہجرت , جون انیس سو  انچاس بوجوہ سقوط حیدرآباد دکن 
 سقوط حیدرآبا د کا ظالما نہ عمل تو قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے انتقال کے اگلے روز ہی پنڈت جواہر لعل نہرو نے باقاعدہ اعلان کر کے کیا تھا  
 سقوط حیدار آباد میں بھی ہزاروں کی تعداد میں وہاں کی مسلمان آبادی تہ تیغ کی گئ ,,بعد از سقوط ناگفتہ بہ فرقہ وارانہ حالات کے 
 پاکستان ہجرت کی اوربعد از ہجرت تمام عمر اپنے پیارے محبوب وطن پاکستان کے قلب کراچی میں بسر ہوئ
سنہ دو ہزار سات میں اپنے عزیز از جان شریک زندگی کی وفات  کے بعد کینیڈا آنا ہوا اور پھر یہیں کی مٹّی نے قدم پکڑ لئے
میں اپنی داستان زندگی کے آغاز پر ہی اللہ کریم رحمٰن و رحیم , کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ اپنے والدین مر حومین کی بھی بے حد شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے مجھے قرطاس وقلم کی اہمیت سےروشنا س کیا,اور زندگی کے لق ودق صحرا میں پیش آنے والی  اونچ نیچ سمجھائ ,,مشکلات کی کٹھن گھڑیوں میں  صبر اور نماز سے مدد کی  نصیحت کی  اور زندگی کے ہر ہر قدم پر میری رہنمائ کی ان ہستیوں کے ہمراہ اپنے محترم علم دوست شوہر  کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ جن کی قریب قر یب بیالیس سالہ رفاقت میں مجھےا ن کے آ  نگن میں سائبا ن  علم نصیب ہوا
 اب میں قارئین کو اپنا خاندانی پس منظر بتانا چاہوں گی 
میری والدہ کے اجد ا دسرزمین ہند کے زی وقار اور منفرد تہزیب رکھنےوالے شہر لکھنؤ میں سادات کے سو سالہ دور حکومت  میں ایران سے وارد ہند ہوئے،ان کا شجرہء نسب نجیب الطرفین سادا ت سے ہوتا ہوا چوتھے امام حضرت اما م زین العابدین علیہ السّلام سے جا ملتا تھا اور وہ  ایران کے شاہی دربار سےمنسلک شاہانہ طرز حیات رکھنے والے  لوگ تھے   ان میں ادباء و فضلاء شعراءصاحبان علم وحکمت  تھے چنانچہ ان کی لکھنؤ میں آمد پر شاہی دربار میں بھی ان کی خاص پذیرائ ہوئ -   
یہاں بھی شاہی دربار سے ہی وابستہ ہوئےان کی امارت کا یہ عالم تھا کہ جب میری والدہ شادی ہو کر حیدرآباد دکن آئیں اسوقت ان کا جہیز ریل کی دو بوگیاں ریزرو کر کے لایا گیا ،ان کی شادی کے جوڑے سونے کے تاروں اور ریشم کی آمیزش سے تیّار کئے گئے تھے ( ہجرت نے ہماری والدہ کواور ہم کو ان چیزوں سے فیضیاب ہونے کی مہلت نہیں دی اور سب کچھ بھرا گھر چھوڑ کر جان بچانے کو گھر سے نکل آ ئےامارت کے باوجود علم و ادب کےان شیدا ئیو ں میں  خواتین کے علم سے بھی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اس دور میں جب ہند وستان میں عورت کی تعلیم ایک جرم سمجھی جاتی تھی یہ لوگ اپنے گھر کی بچّیوں کی تعلیم پر بھی بھرپور توجّہ دیتے تھے  
مجھے میری نانی جان نے بتایا تھا کہ سن انّیس سو تیس میں جب میری والدہ پانچ برس کی ہوئیں تب ان کو پڑھانے کے لئے ایک بزرگ استاد گھر پر رکھّے گئے اور میری والدہ نے اپنے استاد محترم سے فارسی عربی اردو اور انگلش کی تعلیم حاصل کی جبکہ ان کا داخلہ بھی ایک مسلم اسکول میں اسی عمر میں کروادیا گیا ،، صبح آٹھ بجے ان کی ڈیوڑھی پر پردے لگا ہوا یکّہ آکر رکتا تھا اور میری والدہ کو گھر کے کوئ  بزرگ لے جا کرایکّے میں  سوار کرواد یتے تھے  اور شام چار بجے پھر اسی طرح سے واپسی کے وقت یہی عمل دہرایا جاتا تھا- 
اس طرح میری والدہ نے غیر منقسم ہندوستان میں ہی مڈل کلاس پاس کرلی تھی میری والدہ اور دادی جان مرحومہ کا تعلّق اسی خانوادے سے تھاچنا نچہ ہوش سنبھالنے پر میں نے اپنے گھر کے آنگن میں ادبی محفلیں سجتی ہوئ دیکھیں اور ان کا اثر بھی قبول کیا دراصل ہمارا گھرانہ بنیادی طور پر ایک ادبی لیکن ساتھ ساتھ کافی حد تک مذہبی گھرانہ تھا اس لئے مجھے ادب سے اپنے گھرانے کی وابستگی آہستہ آہستہ میرے مزاج میں بھی رچتی اور بستی گئ میری والدہ کے قبلہ محترم رئیس امروہوی صا حب  سے  گھریلو مراسم تھے ،جبکہ  محترم سجّاد ظہیر صاحب کے گھر ا نے سے  بھی والدہ کے ہمراہ آنا جانا لگا رہتا تھا
میری والدہ صاحبہ کے  یہ خا ندانی  مراسم
 تقسیم ہند سے پہلے لکھنؤ سے ہی چلے آرہے تھے جیسا کہ میں نے بتایا کہ میری والدہ محترمہ کا تعلّق لکھنؤ کے سادات سے تھا جبکہ والد بھی یوپی کے سادات کے اہم خانوادے سادات نو گانواں میں عابدی سادات کےجیّد علمائے دین کے قبیلے  سے تعلعق رکھتے تھے ،میرے محترم دادا جان جنوبی ہندوستان میں قطب شاہی دور حکومت میں اپنا آبائ شہر چھوڑ کر حیدرآباد دکن آئے اور انہون نے یہیں پر مستقل سکونت اختیار کی ،جسے ازاں بعد ہم بھی چھوڑ کر پاکستان آگئے  
یہاں پر پہلے ہم نے اچھے دن اپنے والد کی ائر فورس کی سروس کے طفیل دیکھےاسوقت ہم سب ملیر کے علاقے کی ایک فوجی چھاؤنی میں مقیم تھے ہجرت کے بعدکی زندگی میں کچھ کچھ ٹہراؤ سا محسوس ہونے لگا تھا مگر پھرہمارے گھر میں کچھ ماورائےفطرت حالات پیش آ ئےاور پھرتقدیر کی گردش نے ہم کو بارہ سال اپنے حصارمیں  رکھا،ان حالات کے گرداب میں ہمارا خاندان اس طرح آیا کہ والد صاحب اتنے شدید بیمار ہوئے کہ ان کی ائرفورس کی سروس بھی چھوٹ گئ اور ہم کو چھاؤنی کا مکان بھی بہت عجلت میں چھوڑنا پڑا اور والد صاحب ہم سب بچّوں اور والدہ کو لے کر اپنے ایک مخلص دوست جناب حفیظ اللہ صاحب کے گھر پر آ گئے  
میرابچپن
میرا بچپن عام بچّوں کا بچپن نہیں تھا یہ وہ زمانہ تھا جب مہاجروں کے گھروں میں پانی کے لئے علاقے میں پانی کے ٹینکر آیا کرتے تھے اور میں بہت چھوٹی سی عمر میں ٹینکرکی آواز محلّے میں آتے ہی اپنا کنستر لےکر پانی لینے والوں کی لائن میں کھڑی ہو جاتی تھی ،اور ہمارے محلّے کا کوئ خداترس انسان میرا کنستر بھر کر ہمارے دروازے تک یا گھر کے اندر تک رکھ جایا کرتا تھا
اس کے علاوہ پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ماشکی بھی صبح شام ایک ایک مشک پانی  معمو لی قیمت پر ڈال جاتا تھا پھر یوں ہوا کہ کچھ عرصے بعد پانی کے ٹینکر کا آنا موقو ف ہو گیا اورہماری گلی کے ختم پر  ایک عدد حوضی بنا کر اس میں سرکاری نل سے پانی کی ترسیل کا انتظام کیا گیا،میرے والد صاحب ،،اپنے والد  صاحبکے تذکرے کے تصّور سے ہی   بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ہین کیونکہ مجھے اپنے والدکا بنک جانے سے پہلے نماز فجر کے وقت حوضی سے پانی بھرنا یاد آرہا ہے میں ابھی اتنی بڑی نہیں تھی کہ ان کاموں میں والد کا ہاتھ بٹا سکتی لیکن زرا سا وقت گزرنے پر  گھر میں پانی کی کمی پوری کرنے کے لئے میں نے یہ ڈیوٹی اپنے زمّے لے لی تھی ،
میرے بھائ جان مجھ سے صرف سوا سال ہی بڑے تھے اور باجی جان ان سے تین برس بڑی تھین  ،یعنی ابھی ان کا کوئ بچّہ باہر کے کام کرنے کے قابل نہیں ہوا تھا ,,اسوقت ایک خدا ترس انسان نے اپنے گھر کے سامنے ایک کنواں بنوا کر وقف عام کر دیا تھا چنانچہ میں نے زرا سا ہوش سنبھانے پر یہ اہم ڈیوٹی اپنے زمّہ لے لی تھی کہ والد صاحب کے لائے ہوئے پانی کے علاوہ جو بھی کمی ہوتی اسے خود سے پورا کر دیا کرتی تھی اس وقت ہمارے محلّے میں کوئ حوضی نہیں بنی تھی لیکن اپنے گھر سے بیس منٹ کے فاصلے سے  کنوئین سے پانی بھر کر لانے لگی اس کنوئیں میں چمڑے کی بالٹی ایک مو ٹے رسّے کے زریعے کنوئیں کی تہ تک اتار کر بھر لی جاتی اور پھر الٹی چرخی چلا کر پانی کھینچ لیا جاتا تھا ،
یہ ایک بہت محنت طلب کام ہوتا تھا لیکن میں اس کام کو بھی سر انجام دے لیا کرتی تھی  اس کے علاوہ جھٹ پٹا ہوتے ہی گھر کی لالٹینیں اور لیمپ روشن کرنا بھی میرے زمّے تھا میں سب لالٹینوں کی چمنیاں نکال کر ان کو چولھے کی باریک سفید ریت سے پہبے صاف کرتی پھر صابن سے دھو کر خشک کرتی تھی تو لالٹین کی روشنی بہت روشن محسوس ہوتی تھی،کوئلو ں کی سفید راکھ بنانے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ دہکتے ہوئے کوئلوں کو یونہی چھوڑ دیا جاءے تووہ خود بخود بجھتے جاتے ہیں اور ان کے اوپر سفید راکھ کی موٹی تہ جمتی جاتی ہے یہ راکھ دیگچیوں کے پیندوں کو اجلا کرنے کے لئے بھی استعمال کی جاتی تھی میں اس
راکھ کو ایک ڈبّے میں محفوظ کر لیتی تھی  
 اس کے ساتھ ساتھ میری ایک اہم ڈیوٹی گھر میں جلانے کے لئے ٹال سے لکڑیاں لانے کی بھی تھی ،اور یہ کام کوئ مجھ سے جبریہ نہیں کرواتا تھا بلکہ میں اپنی والدہ کے لئے کام کی سہولت چاہتی تھی
با لآخرزمانے کے ان نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے ہمارے گھرانے کی علمی صحبتیں برقر ار ہی تھیں اور ان ادبی صحبتوں کارنگ بھی میری زات پر نمایاں ہو نے لگا تھا  اور میں نے بہت جلد برّصغیر کے نامور ادیبو ں کی 
لا تعداد کتابیں پڑھتے ہوئے حفظ کر لی تھیں ،ان نامور ادباء میں کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی عصمت چغتائ ،قرّۃ العین حیدر ،عظیم بیگ چغتا ئ ،را م لعل ساحر لدھیانوی  اور اس وقت کے جو بھی مشہور ادیب اور شاعر تھے  سب کو بار بار پڑھایہ وقت جب ادب کے آسمان پر پاکستانی ادب بھی بھر پور انداز سے اپنا آپ منوانے کی جستجو مین جٹا ہواتھا اور یہاں کے ادیب بھی ہندوستانی ادیبوں سے کسی طور پر بھی کم نہیں تھے کرنل محمّد خان ،مشتاق احمد یوسفی  بریگیڈئیر صدّیق سالک ،ممتاز مفتی جبکہ خواتین بھی ادب کے میدان پر جلوہ افروز ہو چکی تھِن اور بھی کہنہ مشق ادیب و شاعر پاکستانی ادب کے آسمان پرجگمگا رہے تھے چنانچہ شادی سے پہلے تو میں بس پڑھتی ہی چلی گئ لکھنے کی باری  شادی کے بعد میں آئ جب کہ یہ احساس دل میں اجاگر ہواکہ میں کچھ کچّا پکّا ادب بھی تحریر کر سکتی ہوں 
میرے ادبی شوق کی ابتدا میرے بچپن کے ابتدائ دور میں ہی ہو چکی تھی بس اردو پڑھنی آئ ہی تھی کہ مجھے بچّوں کی کہانیاں پڑھنے کا چسکہ لگ گیا تھا اور شاعری میں بھی خاص دلچسپی لینے لگی تھی  مجھے ابھی بھی اچھّی طرح یاد ہے کہ میں نے  چھٹی کلاس میں ایک نظم اپنے وطن سے محبّت کے اوپرپڑھی تھی 
  یہ ہمارے اسکول کی جانب سے طالبات کا مشاعرہ تھا جو بیگم رعنا لیاقت علی خان کے قائم کردہ فلاحی ادارے  اپوا کے زیر اہتما م ہواتھا
 اس مشاعرے میں ایک مشہور علمی گھرانے کی قد آور  شخصیت محترمہ وحیدہ نسیم صاحبہ مہمان خصوصی کے طور پر بلائ گئیں تھیں ،انہوں نے میری نظم سن کر مجھے شاباشی بھی دی تھی 
اور پھر کلاس ہشتم کے بعد ہی اس زمانے کے رواج کے مطابق  میری شادی ہوگئ

درود پاک کی رحمتوں سے زندگی میں برکتیں


ساہیوال جیل کے احوال کچھ یوں بتائے جاتے ہیں کہ  جیل میں چارہزار قیدی ہیں جو  سارے کے سارے یا تو  استاد ہیں یا طالب علم، جو پڑھے لکھے ہیں لیکن کسی جرم کے عوض قید کاٹ رہے ہیں  ہیں وہ پڑھاتے ہیں اور جوان پڑھ  ہیں وہ پڑھتے ہیں، یوں وہ ہیڈماسٹر، پی ٹی سر، وائس پرنسپل اور پرنسپل کے عہدے سنبھالے قید کاٹ رہے ہیں جس تیزی سے اس جیل کا تعلیمی ماحول فروغ پا رہا ہے گمان غالب ہے کہ بہت جلد کسی کو وائس چانسلر بھی نامزد کرنا پڑے گا، تعلیم بالغاں اور روائتی تعلیمی نصاب الغرض وہاں پہلی سے سولہویں تک کلاسیں جاری ہیں۔ووکیشنل ٹریننگ اور ویلڈنگ کورسز کے علاوہ جب مجھے بتایا گیا کہ الیکٹریکل اور الیکٹرونک انجینئر بننے کی ساری سہولتیں بھی یہاں موجود ہیں ۔جیل میں چارہزار مسلمان اور ستائیس غیرمسلم قیدی ہیں جن میں چالیس خواتین بھی شامل ہیں-

 نماز کی

 پابندی کرنے والے کو قید میں رعائت دی جاتی ہے، غیرمسلموں کو عبادت کی سہولتیں بھی میسر ہیں، ہرمسلمان قیدی پر روزانہ

  دوسومرتبہ درود شریف پڑھنا لازم ہے، اس سے زیادہ پڑھنے والے کو قید میں چھوٹ ملتی ہے

، روزانہ ایک جگہ سارا درودشریف جمع کیا جاتا ہے اور پھر جہلم کی تحصیل دینہ کے موضع چک عبدالخالق میں سید حسنات احمد کمال

 کے پاس جمع کرا دیا جاتا ہے جو درودشریف کے ورلڈبنک کے سرپرست ہیں، ساہیوال کی اس جیل کے تعلیمی نظام کے انچارج

 ڈپٹی جیلر شیخ محمد اکرام نے مجھے بتایا کہ درودشریف کا کمال یہ ہے کہ جو قیدی یہاں سے رہا ہوتا ہے وہ دوبارہ کبھی جیل میں مجرم

 کے طور پر نہیں آیا،  اور آج کل لاہور کے ایم، اے، او کالج میں پروفیسر ہیں۔ساہیوال جیل کے حفاظتی عملے کی تعداد چارسو ہے

 تین ڈپٹی جیلر جن میں شیخ اکرام کے علاوہ حاجی مظہر وحید اور افضل جاوید دلاور شامل ہیں جبکہ بارہ اسسٹنٹ جیلر اور ایک جیلر

 کامران انجم ہیں،

مذہبی تعلیمی پروگرام کے انچارج قاری عبدالعزیز ہیں، ملتان انٹرمیڈیٹ بورڈ، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن

 یونیورسٹی، مدرسہ حافظ نذر محمد لاہور اور جمعیت تعلیم القرآن کراچی سے جیل مذکورہ کی وابستگی یا الحاق ہے، امتحانات کے دنوں

 میں جیل امتحانی مرکزبنی ہوتی ہے، جیل میں لائبریری بھی ہے جسے نادر و نایاب کتابیں پہچانے کا بیڑہ لاہور سے ملک مقبول احمد

 نے اٹھایا ہے۔ وہ قیدی جو سزا ختم ہونے کے بعد جرمانہ ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے جیل میں پڑے رہتے ہیں، انہیں لاہور کے علامہ

 عبدالستار عاصم جو خود کئی کتابوں کے مصنف وموٴلف ہیں، رانا فضل الرحمن فاؤنڈیشن کی طرف سے جرمانہ ادا کرکے پہلے انہوں چھڑاتےہیں-  پہلے انہوں نے 

اس پاکیزہ وردمیں شامل تمام خواتین اور مرد حضرات کے علاوہ بچوں میں درود پاک کا شوق پیدا کرنے کیلئے سب میں تسبیاں

 تقسیم کردیں جس جس تک تسبیح پہنچی وہ خود بخو درودشریف کا ممبر بنتا گیا ۔پھر دوسری بستیوں میں درود شریف کے حلقے قائم کر

 دیئے گئے ان علاقوں سے کسی ایک کو اس حلقے کا امیر مقرر کیا جو اپنے ممبران سے ہفتہ وار درود پاک اکٹھا کر کے خانقاہ

 دارالحسنات میں جمع کروانے لگ گئے یوں میں نے مزید آسانی کے لئے موبائل فون سے ہفتہ وار ایس ایم ایس کے ذریعے درود

 پاک جمع کرنے کے لئے آسانیاں اور سہولیات فراہم کیں کچھ ممبران ہفتہ وارمحفل ذکر درود پاک یامحفل گیارویں شریف میں

 جمع ہوکر درود پاک دینے لگ گئے۔

صلی اللہ تعالى عليه وعلى آله وأصحابه وأزواجه وزریته دائما ابداوبارك وسلم

وقت گرزتا گیا ہم نے درود پاک کا با قاعدہ ریکارڈ رکھنا شروع کیا ہوا تھا جمع ہونے والا رجسٹرالگ اور تقسیم کیا جانے والے کا

 حساب دوسرے رجسٹر میں لکھا جاتا تھا کسی کی وفات پر درود پاک مغفرت کے لئے دیتے شادی بیاہ میں خیر برکت کے لئے عطیہ

 کرتے ، چوری چکاری سے محفوظ رہنے کے لئے بھی دینے لگ گئے سال بھر کا جمع شدہ درود پاک ہم حضرت پروفیسر باغ حسین

 کمال صاحب کے پاس جمع کرادیا کرتے

 پروفیسر باغ حسین کمال صاحب نے تصوف کی اپنی کتاب’’حال سفر‘ میں لکھا ہے کہ

 جب میں نے درود پاک پڑھنا شروع کیا تو ایک سال میں ایک ‘کروڑ درود پاک مکمل کرلیا‘- رہتے ہیں۔

پنجاب کی بتیس جیلوں میں سے صرف ساہیوال اور فیصل آباد کی جیلوں میں تعلیمی میدان میں مقابلہ جاری ہے پنجاب کے انسپکٹر

 جنرل جیل خانہ جات، کوکب ندیم وڑائچ کو دیگر جیلوں کے ماحول پر بھی توجہ دلانی چاہئے۔ساہیوال جیل کی دیگر خوبصورت باتوں میں سے ایک بہت ہی خوبصورت بات یہ ہے کہ وہاں جھوٹ کوئی نہیں بولتا، عملہ بھی اور قیدی بھی، سچ جیل کی بنیادی شناخت اور اصول ہے، ہمارے آج کے سیاستدان حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں انہیں کچھ عرصہ ساہیوال جیل میں گزارنا چاہئے، حقیقت یہ ہے کہ اللہ ربّ  ا لعزّت جب کسی کا مقدّر سنوارنا چاہے تو کون اس کا مقدّر بگاڑ سکتا ہے

 


پیر، 26 ستمبر، 2022

فیض احمد فیض'پاکستان کے شہرہء آفاق شاعر

فیض احمد فیض 'بہت بڑے قد کے شاعر کی بہت چھوٹی سی کہانی

شاعری کی صنف لطیف کو ایک منفرد اور خوبصورت جہت دینے کی بات ہو گی تو صف اوّل کے شعراء میں فیض احمد فیض کا نام سر فہرست ہو گا  -حقیقت یہ ہے کہ فیض احمد فیض  نے جدید اردو شاعری کو بین الاقوامی شناخت سے ہمکنا ر کیا-فیض 13فروری 1911ء کو پنجاب کے ضلع نارووال کے علاقے فیض نگر کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد سلطان خاں بیرسٹر تھے۔  فیض احمد فیض کی ابتدائ تعلیم :  فیض احمد فیض کی ابتدائی اور دینی تعلیم مولوی محمّد ابراہیم میر سیال کوٹوی سے حاصل کی عربی صرف و نحو کی تعلیم شمس العلماء مولوی میر حسن سے حاصل کی پھر تو تعلیمی سلسلہ اس طرح سے چلا کہ اپنے وقت کے جیّد اساتذہ سے اکتساب علم کیا -

1 میں فیض نے امرتسر کے محمڈن اورینٹل کالج میں بطورلیکچرر ملازمت کر لی۔ یہاں بھی انھیں اہم ادیبوں اور دانشوروں کی صحبت ملی جن میں محمد دین تاثیر، صاحبزادہ محمود الظفر اور ان کی اہلیہ رشید جہاں، سجّاد ظہیراور احمد علی جیسے لوگ شامل تھے۔ 1941 میں فیض نے ایلس کیتھرین جارج سے شادی کر لی۔ یہ تاثیر کی اہلیہ کی چھوٹی بہن تھیں جو 16 سال کی عمر سے برطانوی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھیں۔ شادی کی سادہ تقریب سرینگر میں تاثیر کے مکان پر منعقد ہوئی۔ نکاح شیخ عبداللہ نے پڑھایا۔ مجاز اور جوش ملیح آبادی نے تقریب میں شرکت کی۔جبکہ فیض نے اپنی بیگم کو مسلمان بھی کیا اور ان کا نام امّ کلثوم رکھّا-

۔ ان کی شاعری نے ان کی زندگی میں ہی سرحدوں، زبانوں، نظریوں اور عقیدوں کی حدیں توڑتے ہوئے عالمگیر شہرت حاصل کر لی تھی۔ جدید اردو شاعری کی بین الاقوامی شناخت انہی کی مرہون منت ہے۔ ان کی آواز دل کو چھو لینے والے انقلابی نغموں، حسن و عشق کے دلنواز گیتوں، اور جبر و استحصال کے خلاف احتجاجی ترانوں کی شکل میں اپنے عہد کے انسان اور اس کے ضمیر کی مؤثر آواز بن کر ابھرتی ہے۔ غنایئت اور رجائیت ٖفیض کی شاعری کے امتیازی عناصر ہیں۔ خوابوں اور حقیقتوں، امیدوں اور نامرادیوں کی کشاکش نے ان کی شاعری میں گہرائی اور سوزو گدازسے ہمکنار کیا- ان کے الفاظ اور استعاروں میں اچھوتی دلکشی، سرشاری اور پہلوداری ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ فیض نے شاعری کا اک نیا دبستاں قائم کیا۔

شروع شروع فیض رومانیت کی طرف آگئے جس کی خاص وجہ ایک طرف ان کی ناکام عشق و محبت اور دوسرا ان کے ماحول کااثر ۔ فیض نے جس زمانے میں شاعری شروع کی اس وقت چاروں طرف رومانی شاعر نظر آتے تھے ۔ فیض نے ان شاعروں کا اثر ضرور قبول کیا تو دوسری طرف رومانی شاعری کو اہمیت دی جاتی تھی۔ فیض نے خوب رومانی شاعری کی اور ان کی رومانی شاعری میں جدائی کی خاموش تڑپ ہے۔ رومانیت کے حوالے سے ان کی نظمیں سرود شبانہ، تہ نجوم، یاس اور ایک منظر فیض کے مصوری کا اعلی نمونہ ہے۔ فیض کی ابتدائی نظمیں رومانیت کے ساتھ ساتھ جذبہ وعشق سے پُر ہیں۔ اگرچہ انھوں نے روایتی موضوعات کو اپنا یا لیکن ان کا یہ جذبہ وعشق کسی خیالی یا تصوراتی محبوب کیلئے نہیں بلکہ ان کی زندگی میں ایک جیتا جاگتا محبوب تھا جن سے وہ عشق میں ناکام ہوئے اور فیض نے مختلف نظموں کو ترتیب دے کر اپنے محبوب سے کبھی جدائی تو کبھی انتظار کی شکل میں نظمیں لکھی ہیں اور ان نظموں میں انھوں نے گہرائی کے ساتھ اپنے جذبات کو اس طرح قلم بند کیا جیسے قارئین کو وہ اپنے حالات معلوم ہوتے ہیں-

۔ گرچہ وہ شاعری کی کئی اصناف پر قدرت رکھتے ہیں، لیکن یہ ان کی غزلیہ شاعری پر مشتمل ہے۔ کتاب کے مطالعے سے اس نتیجے تک پہنچنا دشوار نہیں رہتا کہ  فیض کے اشعار وارداتِ قلبی سے عبارت ہیں۔ ان کے ہاں فکر و فن کی بلندی بھی ہے اور زبان وبیان کا کامل رکھ رکھائو،بھی اور محاورات و روزمرّہ کی پابندی اور فنّی قدروں کی پاس داری بھی۔ ۔ جب کہ  سامنے ان کااپنا   مزاج ہے۔اُنھوں نے اپنے عہد کےشعریاتی تقاضوں کو سامنے رکھ شاعری کی

 اپنی ادبی خدمات کے لئے فیض کو بین الاقوامی سطح پر جتنا سراہا اورنوازا گیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 1962 میں سوویت یونین نے انہیں لینن امن انعام دیا جو اس وقت کی ذو قطبی دنیا میں نوبیل انعام کا بدل تصور کیا جاتا تھا۔ اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے ان کو نوبیل انعام کے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ 1976 میں ان کو ادب کا لوٹس انعام دیا گیا۔ 1990ء میں حکومت پاکستان نے ان کو ملک کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ"نشان امتیاز" سے نوازا۔ پھر 2011 کو "فیض کا سال" قرار دیا۔

لینن انعام ملنے کے بعد فیض کی شہرت، جو ابھی تک ہندوستان اور پاکستان تک محدود تھی، ساری دنیا بالخصوص سوویت بلاک کے ممالک تک پھیل گئی۔ انھوں نے کثرت سے غیرملکی دورے کئے اور وہاں لیکچر دئے۔ ان کی شاعری کے ترجمے مختلف زبانوں میں ہونے لگے اور ان کی شاعری پر تحقیقی کام شروع ہو گیا۔ 1964 میں فیض پاکستان واپس آئے اور کراچی میں مقیم ہو گئے۔ ان کو عبداللہ ہارون کالج کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا اس کے علاوہ بھی ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی قدر دانی بھی کی اور ان کو اہم عہدے بھی  دئےجن میں وزارت ثقافت کے مشیر کا عہدہ بھی شامل تھا۔

ض احمد فیض نے اپنے پیچھے ادب کا گرانقدر سرمایہ چھوڑا جن کے نام یہ ہیں-

 شاعری کے مجموعے

نقش فریادی

دست صبا

زنداں نامہ

دست تہ سنگ

سر وادی سینا

شام شہر یاراں

مرے دل مرے مسافر

نسخہ ہائے وفا (کلیات)

صلیبیں میرے دریچے میں متاع لوح و قلم ماہ و سال آشنائی'نسخہ ہائے وفا

ان کی زندگی کی ایک بڑی آرزو تھی کہ ان کو پاکستان کی سر زمین پر دفن  ہونے کا اعزاز ملے اور پھر ان کا انتقال بھی پاکستان کے شہر لاہور میں میں ہوا  اور تدفین بھی لاہور میں ہی ہوئ-


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر