پیر، 26 ستمبر، 2022

فیض احمد فیض'پاکستان کے شہرہء آفاق شاعر

فیض احمد فیض 'بہت بڑے قد کے شاعر کی بہت چھوٹی سی کہانی

شاعری کی صنف لطیف کو ایک منفرد اور خوبصورت جہت دینے کی بات ہو گی تو صف اوّل کے شعراء میں فیض احمد فیض کا نام سر فہرست ہو گا  -حقیقت یہ ہے کہ فیض احمد فیض  نے جدید اردو شاعری کو بین الاقوامی شناخت سے ہمکنا ر کیا-فیض 13فروری 1911ء کو پنجاب کے ضلع نارووال کے علاقے فیض نگر کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد سلطان خاں بیرسٹر تھے۔  فیض احمد فیض کی ابتدائ تعلیم :  فیض احمد فیض کی ابتدائی اور دینی تعلیم مولوی محمّد ابراہیم میر سیال کوٹوی سے حاصل کی عربی صرف و نحو کی تعلیم شمس العلماء مولوی میر حسن سے حاصل کی پھر تو تعلیمی سلسلہ اس طرح سے چلا کہ اپنے وقت کے جیّد اساتذہ سے اکتساب علم کیا -

1 میں فیض نے امرتسر کے محمڈن اورینٹل کالج میں بطورلیکچرر ملازمت کر لی۔ یہاں بھی انھیں اہم ادیبوں اور دانشوروں کی صحبت ملی جن میں محمد دین تاثیر، صاحبزادہ محمود الظفر اور ان کی اہلیہ رشید جہاں، سجّاد ظہیراور احمد علی جیسے لوگ شامل تھے۔ 1941 میں فیض نے ایلس کیتھرین جارج سے شادی کر لی۔ یہ تاثیر کی اہلیہ کی چھوٹی بہن تھیں جو 16 سال کی عمر سے برطانوی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھیں۔ شادی کی سادہ تقریب سرینگر میں تاثیر کے مکان پر منعقد ہوئی۔ نکاح شیخ عبداللہ نے پڑھایا۔ مجاز اور جوش ملیح آبادی نے تقریب میں شرکت کی۔جبکہ فیض نے اپنی بیگم کو مسلمان بھی کیا اور ان کا نام امّ کلثوم رکھّا-

۔ ان کی شاعری نے ان کی زندگی میں ہی سرحدوں، زبانوں، نظریوں اور عقیدوں کی حدیں توڑتے ہوئے عالمگیر شہرت حاصل کر لی تھی۔ جدید اردو شاعری کی بین الاقوامی شناخت انہی کی مرہون منت ہے۔ ان کی آواز دل کو چھو لینے والے انقلابی نغموں، حسن و عشق کے دلنواز گیتوں، اور جبر و استحصال کے خلاف احتجاجی ترانوں کی شکل میں اپنے عہد کے انسان اور اس کے ضمیر کی مؤثر آواز بن کر ابھرتی ہے۔ غنایئت اور رجائیت ٖفیض کی شاعری کے امتیازی عناصر ہیں۔ خوابوں اور حقیقتوں، امیدوں اور نامرادیوں کی کشاکش نے ان کی شاعری میں گہرائی اور سوزو گدازسے ہمکنار کیا- ان کے الفاظ اور استعاروں میں اچھوتی دلکشی، سرشاری اور پہلوداری ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ فیض نے شاعری کا اک نیا دبستاں قائم کیا۔

شروع شروع فیض رومانیت کی طرف آگئے جس کی خاص وجہ ایک طرف ان کی ناکام عشق و محبت اور دوسرا ان کے ماحول کااثر ۔ فیض نے جس زمانے میں شاعری شروع کی اس وقت چاروں طرف رومانی شاعر نظر آتے تھے ۔ فیض نے ان شاعروں کا اثر ضرور قبول کیا تو دوسری طرف رومانی شاعری کو اہمیت دی جاتی تھی۔ فیض نے خوب رومانی شاعری کی اور ان کی رومانی شاعری میں جدائی کی خاموش تڑپ ہے۔ رومانیت کے حوالے سے ان کی نظمیں سرود شبانہ، تہ نجوم، یاس اور ایک منظر فیض کے مصوری کا اعلی نمونہ ہے۔ فیض کی ابتدائی نظمیں رومانیت کے ساتھ ساتھ جذبہ وعشق سے پُر ہیں۔ اگرچہ انھوں نے روایتی موضوعات کو اپنا یا لیکن ان کا یہ جذبہ وعشق کسی خیالی یا تصوراتی محبوب کیلئے نہیں بلکہ ان کی زندگی میں ایک جیتا جاگتا محبوب تھا جن سے وہ عشق میں ناکام ہوئے اور فیض نے مختلف نظموں کو ترتیب دے کر اپنے محبوب سے کبھی جدائی تو کبھی انتظار کی شکل میں نظمیں لکھی ہیں اور ان نظموں میں انھوں نے گہرائی کے ساتھ اپنے جذبات کو اس طرح قلم بند کیا جیسے قارئین کو وہ اپنے حالات معلوم ہوتے ہیں-

۔ گرچہ وہ شاعری کی کئی اصناف پر قدرت رکھتے ہیں، لیکن یہ ان کی غزلیہ شاعری پر مشتمل ہے۔ کتاب کے مطالعے سے اس نتیجے تک پہنچنا دشوار نہیں رہتا کہ  فیض کے اشعار وارداتِ قلبی سے عبارت ہیں۔ ان کے ہاں فکر و فن کی بلندی بھی ہے اور زبان وبیان کا کامل رکھ رکھائو،بھی اور محاورات و روزمرّہ کی پابندی اور فنّی قدروں کی پاس داری بھی۔ ۔ جب کہ  سامنے ان کااپنا   مزاج ہے۔اُنھوں نے اپنے عہد کےشعریاتی تقاضوں کو سامنے رکھ شاعری کی

 اپنی ادبی خدمات کے لئے فیض کو بین الاقوامی سطح پر جتنا سراہا اورنوازا گیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 1962 میں سوویت یونین نے انہیں لینن امن انعام دیا جو اس وقت کی ذو قطبی دنیا میں نوبیل انعام کا بدل تصور کیا جاتا تھا۔ اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے ان کو نوبیل انعام کے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ 1976 میں ان کو ادب کا لوٹس انعام دیا گیا۔ 1990ء میں حکومت پاکستان نے ان کو ملک کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ"نشان امتیاز" سے نوازا۔ پھر 2011 کو "فیض کا سال" قرار دیا۔

لینن انعام ملنے کے بعد فیض کی شہرت، جو ابھی تک ہندوستان اور پاکستان تک محدود تھی، ساری دنیا بالخصوص سوویت بلاک کے ممالک تک پھیل گئی۔ انھوں نے کثرت سے غیرملکی دورے کئے اور وہاں لیکچر دئے۔ ان کی شاعری کے ترجمے مختلف زبانوں میں ہونے لگے اور ان کی شاعری پر تحقیقی کام شروع ہو گیا۔ 1964 میں فیض پاکستان واپس آئے اور کراچی میں مقیم ہو گئے۔ ان کو عبداللہ ہارون کالج کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا اس کے علاوہ بھی ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی قدر دانی بھی کی اور ان کو اہم عہدے بھی  دئےجن میں وزارت ثقافت کے مشیر کا عہدہ بھی شامل تھا۔

ض احمد فیض نے اپنے پیچھے ادب کا گرانقدر سرمایہ چھوڑا جن کے نام یہ ہیں-

 شاعری کے مجموعے

نقش فریادی

دست صبا

زنداں نامہ

دست تہ سنگ

سر وادی سینا

شام شہر یاراں

مرے دل مرے مسافر

نسخہ ہائے وفا (کلیات)

صلیبیں میرے دریچے میں متاع لوح و قلم ماہ و سال آشنائی'نسخہ ہائے وفا

ان کی زندگی کی ایک بڑی آرزو تھی کہ ان کو پاکستان کی سر زمین پر دفن  ہونے کا اعزاز ملے اور پھر ان کا انتقال بھی پاکستان کے شہر لاہور میں میں ہوا  اور تدفین بھی لاہور میں ہی ہوئ-


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر