جمعہ، 27 ستمبر، 2024

بجلی کے بل عوام کی موت کے پروانے ثابت ہو رہے ہیں

 


ڈسکہ میں بجلی اور گیس کا بل زیادہ آنے پر خاتون نے زہریلی گولیاں کھاکر خودکشی کرلی۔اے آر وائی نیوز کے مطابق پنجاب کے شہر ڈسکہ کے علاقے منڈے کی میں 16 ہزار روپے کا گیس کا بل آیا اور اس کے بعد 9 ہزار روپے کا بجلی کا بل آگیا جس پر 50 سالہ خاتون نے زہریلی گولیاں کھاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔پچاس سالہ بیوہ خاتون رضیہ کے گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی تھی اس کے تین لڑکے مزدوری نہ ملنے کی وجہ سے پریشان تھے اسی دوران گیس کا 16 ہزار روپے بل آیا اور بجلی کا 9 ہزار روپے کا بل آگیا۔بل کی عدم ادائیگی پر گیپکو کے اہلکار بجلی کا میٹر اتارنے بیوہ خاتون کے گھر پہنچے تھے۔خاتون نے دلبرداشتہ ہوکر  گندم میں رکھنے والی گولیاں نگل کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ متوفی رضیہ اپنے گھر میں دانے بھوننے کی بھٹی بنارکھی تھی جس سے وہ اپنے خاندان کی کفالت میں بھی مددگار تھی۔خاتون کی لاش ضابطے کی کارروائی کے بعد ورثا کے حوالے کردی گئی۔


 بجلی کا زیادہ بل آنے پر تین بچوں کے باپ نے انتہائی قدم اٹھا لیاواضح رہے کہ گزشتہ ماہ اگست میں چشتیاں کے علاقے محبوب کالونی کے محمد ساجد کا بجلی کا بل زیادہ آنے پر بھائیوں سے جھگڑا ہوا تھا جس کے بعد 30 سالہ ساجد نے دلبرداشتہ ہوکر زہریلی گولیاں کھالیں تھیں۔پولیس کا بتانا تھا کہ محمد ساجد سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا اور تین بچوں کا باپ تھاریسکیو حکام کا کہنا تھا کہ ساجد کو طبی امداد کے لیےاسپتال منتقل کیا جارہا تھا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا تھا۔پنجاب کے ضلع بہاولنگر کے شہر چشتیاں میں بجلی کا زیادہ بل آنے پر تین بچوں کے باپ نے انتہائی قدم اٹھالیا ۔اے آر وائی نیوز کے مطابق چشتیاں کے علاقے محبوب کالونی کے محمد ساجد کا بجلی کا بل زیادہ آنے پر بھائیوں سے جھگڑا ہوا تھا جس کے بعد 30 سالہ ساجد نے دلبرداشتہ ہوکر زہریلی گولیاں کھالیں۔پولیس کا بتانا ہے کہ محمد ساجد سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا اور تین بچوں کا باپ تھا۔ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ ساجد کو طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کیا جارہا تھا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا-گزشتہ دنوں گوجرانوالہ میں بجلی کا بل زیادہ آنے پر لڑائی کے بعد سگے بھائی نے اپنے بھائی کا قتل کردیا تھا، دونوں بھائی اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہتے تھے۔ 

بجلی کا بل زیادہ آنے پر بھائی کے ہاتھوں بھائی کیسے قتل ہوا؟ماں نے ساری داستان سنادیبوڑھی خاتون نے بتایا تھا کہ اسی بات پر دونوں بھائیوں میں پہلے تلخ کلامی ہوئی اور پھر بات بڑھتے بڑھتے دونوں لڑ پڑے، اس وقت میں ان دونوں کے آگے ہاتھ جوڑتی رہی لیکن وہ پھر بھی لڑتے رہے۔میرے ایک بیٹے نے کہا کہ میں اسے گھر میں نہیں رکھوں گا یہ بل دے گا تو اسے رکھوں گا، بیٹے نے اسی دوران اس کا سامان اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ماں نے بتایا تھا کہ اسی سامان میں ایک چھری بھی تھی، کسی خاص منصوبے کے تحت میرے بیٹے نے اپنے بھائی کو چھری نہیں ماری، بس اچانک ماری سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیسے ہوگیا۔خاتون کا کہنا تھا کہ اب گھر میں کوئی کمانے والا نہیں، میں تو مرگئی ہوں میں کیا کروں، ایک بیٹا جیل چلا گیا ہے اور ایک بیٹا مرگیا ہے اور اب گھر بالکل خالی ہوگیا ہے، میرے دو ہی بیٹے تھے۔
 
بجلی کے بلوں نے عوام سے جینے کی رہی سہی امید بھی چھین لی ہے، یہ بھاری بل غریبوں کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہورہے ہیں۔اے آر وائی کی اینکر مہر بخاری کی تہلکہ خیز رپورٹ میں بجلی کے بھاری بلوں اور حکومتی بے حسی کے حوالے سے ہوشربا انکشافات کیے گئے ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک طرف عوام ہیں تو دوسری طرف صدر، وزیرزعظم زاور چیف جسٹس کو لامحدود بجلی کے یونٹس فراہم کیے جاتے ہیں۔بجلی کے بھاری بلوں سے غریب اس قدر پریشان ہیں کہ وہ بل آنے کے بعد خودکشی کی کوشش کررہے ہیں، گزشتہ دنوں رکشہ ڈرائیورز غلام محمد نے 19 ہزار روپے سے زائد بجلی کا بل آنے پر پٹرول چھڑک کر خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔عوام کا کہنا تھا کہ یہاں لوگوں کی دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہورہی اور واپڈا، کے الیکٹرک و دیگر بجلی کی کمپنیاں بجلی کے بھاری بل بھیج دیتی ہیں۔پاکستان میں اس وقت لاکھوں گھرانے ایسے ہیں جو کہ فقط ایک پنکھا ہی چلاتے ہیں مگر ان کا بل ہزاروں میں آتا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں 67 فیصد اضافہ کیا گیا ہے

جبکہ الیکشن سے قبل ن لیگ اور پیپلزپارٹی بجلی کے مفت یونٹس دینے کے وعدے کررہے تھے۔وفاقی کابینہ نے نیپرا کی جانب سے سمری کے بعد بجلی کے ٹریف میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ کردی ہے، اب گھریلو صارفین کے لیے بجلی کا ایک یونٹ کم ازم 48 روپے 84 پیسے کا ہوگا۔حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمت میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط پر کیا گیا ہے جبکہ حکومت تجاوزیز پر نیپرا کی جانب سے 8 جولائی کو فیصلہ کیا جائے گا۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عوام بجلی کے بھاری بلوں تلے پس چکے ہیں جبکہ سرکاری اہلکار چاہے وہ صدر ہوں، وزیراعظم ہوں یا عام واپڈا اہلکار ان کے لیے کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ریٹائرمنٹ کے بعد بھی صدر پاکستان کو ماہانہ 2 ہزار یونٹس مفت دیے جاتے ہیں، صدر کے انتقال کے بعد صدر کی زوجہ کو بھی بجلی کے 2 ہزار یونٹس مفت فراہم کیے جاتے ہیں، وزیراعظم پاکستان کو بھی لامحدود مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے۔چیف جسٹس کو ان کی مدت میں اور ریٹائرمنٹ کے بعد ماہانہ 2 ہزار بجلی کے مفت یونٹس فراہم کیے جاتے ہیں۔وفاقی وزیر کو بلوں کی ادائیگی کے ل ہزار روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں جبکہ ارکان اسمبلی بل خود ادا کرتے ہیں، گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی بجلی کے لامحدود یونٹس استعمال کرتے ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک لاکھ 99 ہزار واپڈا ملازمین کو سالانہ 8 سے 100 ارب روپے کی بجلی مفت دی جاتی ہے۔عوام کا کہنا تھا کہ بل اتنے اتنے بھیج دیتے ہیں کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے، اتنا بھاری بل آیا ہے 42 ہزار روپے کا ہم  کہاں جائیں گے،  

جمعرات، 26 ستمبر، 2024

ہمارا دن بدن سکڑتا ہوا ریلوے نیٹ ورک- پارٹ -2

  

پاکستان ریلوے کی دوسری لائن ML-2پاکستان ریلوے کی دوسری بڑی لائن ML-2  "کوٹری اٹک لائن" ہے جس کا آغاز 1891ء میں ہوا تھا۔ یہ کوٹری (سندھ) سے شروع ہو کر دریائے سندھ کے بائیں کنارے سے ہوتی ہوئی اٹک (شمالی پنجاب) تک جاتی ہے۔ 1519 کلومیٹر طویل لائن پر 70 سے زائد سٹیشن ہیں۔ ان میں حبیب کوٹ ، جیکب آباد ، کوٹ ادو ، کندیاں ، جھنڈ اور حاسل ، اہم جنکشن ہیں جبکہ دیگر اہم شہروں میں سہیون شریف ، دادو ، لاڑکانہ ، راجن پور ، لیہ ، بکھر ، میانوالی اور داؤدخیل آتے ہیں۔پاکستان ریلوے کی تیسری لائن ML-3پاکستان ریلوے کی تیسری لائن ML-3 یا "روہڑی چمن لائن" کہلاتی ہے جو 1879ء میں بنی۔ یہ لائن ، صوبہ سندھ کے ریلوے جنکشن روہڑی سے شروع ہو کر صوبہ بلوچستان کے آخری ریل سٹیشن چمن تک جاتی ہے جہاں سرحد کے اس پار افغانستان کا شہر سپن بلداک ہے۔ 523 کلومیٹر طویل اس لائن پر 35 سٹیشن ہیں جن میں حبیب کوٹ ، جیکب آباد اور سپیزند ، جنکشن ہیں جبکہ شکارپور ، ڈیرا مراد جمالی ، سبی ، کوئٹہ ، بوستان اور گلستان ، دیگر اہم شہر ہیں۔

پاکستان ریلوے کی چوتھی لائن ML-4

پاکستان ریلوے کی چار بڑی لائنوں میں سے چوتھی کا نام ML-4 یا "کوئٹہ تا کوہِ تفتان لائن" ہے جو 1905ء میں قائم ہوئی۔ 633 کلومیٹر طویل اس ریلوے لائن پر کبھی 29 سٹیشن تھے لیکن اب صرف 14 رہ گئے ہیں۔ واحد سپیزند جنکشن ، کوئٹہ کو باقی ملک سے ریل کے نظام کو منسلک کرتا ہے۔ نوشکی ، دالبندین اور نوک کنڈی دیگر اہم سٹیشن ہیں۔ یہ لائن ایران کے شہر زاہدان تک جاتی ہے اور اسی رستے سے یورپ تک رسائی ہوتی ہے۔پاکستان ریلوے کا نیٹ ورکیاد رہے کہ دیگر برانچ لائنوں کے ذریعے پاکستان کے دیگر بڑے شہر مثلاً فیصل آباد ، سیالکوٹ ، شیخوپورہ ، قصور ، جھنگ ، پاکپتن ، کوہاٹ ، منڈی بہاؤالدین ، میرپور خاص اور ننکانہ صاحب وغیرہ تک رسائی بھی حاصل ہے البتہ ایبٹ آباد ، مری ، میرپور ، مظفرآباد ، چترال ، سکردو ، گلگت اور گوادر وغیرہ ریل رابطوں سے محروم ہیں۔ان کے علاوہ دیگر منصوبوں کے علاوہ پاکستان ریلوے ، چین کے تعاون سے ML-5 منصوبہ پر بھی غور کر رہی ہے جو ٹیکسلا کو خنجراب اور چین سے ملائے گا۔ افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھی ریل منصوبے زیر غور ہیں۔

سمجھوتہ ایکسپریس

پاکستان اور بھارت کے مابین واہگہ ، جموں اور تھر کے علاقہ سے ریل کا رابطہ رہا ہے جو جنگوں اور کشیدہ تعلقات کی وجہ سے متعدد بار منقطع ہوا۔ 1971ء کی جنگ کی وجہ سے بھی سبھی رابطے ختم ہو گئے تھے جنھیں بحال کرنے میں چند سال لگے۔ 22 جولائی 1976ء کو پاکستان اور بھارت کے مابین ایک "سمجھوتہ ایکسپریس" ٹرین شروع ہوئی جو روزانہ کی بنیاد پر لاہور سے امرتسر کا سفر کرتی تھی۔ غالباً اسی ٹرین پر ایک بھارتی وزیراعظم ، اٹل بہاری واجپائی ، لاہور آئے تھے لیکن 2007ء میں یہ ٹرین دہشت گردی کے ایک متنازعہ حملہ میں بند ہو گئی تھی۔پاکستان ریلوے کے اہم سنگِ میل

موجودہ پاکستان میں ریلوے کا آغاز ، 13 مئی 1861ء کو کراچی سے کوٹری کی 169 کلومیٹر ریلوے لائن سے ہوا۔1865ء میں لاہور سے ملتان ریلوے لائن کا آغاز ہوا۔1876ء میں دریائے راوی ، دریائے چناب اور دریائے جہلم پر ریل پلوں کی تعمیر مکمل ہوئی جس سے لاہور سے جہلم تک ریل کا رابطہ ممکن ہوا۔1878ء میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کوٹری سے سکھر براستہ دادو اور لاڑکانہ ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ اسی سال لودهراں سے پنوعاقل تک کی 334 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا افتتاح بھی ہوا۔1880 میں جہلم سے راولپنڈی تک کا 115 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا آغاز ہوا۔ اسی سال روہڑی سے سبی تک ریلوے لائن بچھانے کا کام بھی مکمل ہوا1881ء میں راولپنڈی سے اٹک کے درمیان 73 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو کھول دیا گیا۔

1882ء میں خیرآباد کنڈ سے پشاور تک 65 کلومیٹر طویل ریلوے لائن تعمیر مکمل ہوئی۔1883ء میں دریائے سندھ پر اٹک پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پشاور ، راولپنڈی سے بذریعہ ریل منسلک ہو گیا۔887ء میں سبی اور کوئٹہ ریلوے لائن کی تعمیر مکمل ہوئی۔1889ء میں روہڑی اور سکھر کے درمیان پل کا افتتاح ہوا جس سے کراچی ، پشاور سے بذریعہ ریل منسلک ہو گیا۔1896ء میں روہڑی اور حیدرآباد براستہ ٹنڈو آدم، نواب شاہ اور محراب پور ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔1900ء میں کوٹری پل اور 8 کلومیٹر طویل کوٹری ، حیدرآباد ریلوے لائن مکمل ہو گئی۔ اس سیکشن کے مکمل ہو جانے کے بعد پاکستان ریلویز کی کراچی - پشاور موجودہ مرکزی ریلوے لائن بھی مکمل ہو گئی۔کراچی کی لوکل ٹرین ، کراچی سرکلر ریلوے بھی "ٹرانسپورٹ مافیا" کی وجہ سے نہ چل سکی تھی۔


ا

بدھ، 25 ستمبر، 2024

ہمارا دن بدن سکڑتا ہوا ریلوے نیٹ ورک-پارٹ -1

  


سوموار 13 مئ  1861 پاکستان ریلوے کا قیام میں عمل میں آیا تھا

 انگریز برصغیر پاک و ہند  میں آئے تو یہاں سے بہت کچھ لے گئے تو دوسری جانب اس خطہ کے عوام کو بہت کچھ دے بھی گئے  ان تحفوں میں  سب سے بڑا تحفہ ریل کا نظام تھا جس نے لنڈی کوتل سے راس کماری تک پورے ہندوستان کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا۔ دوردراز مقامات تک رسائی کے لیے مسافر اور مال گاڑیوں نے نقل و حمل کو بہت سستا اور آسان بنا دیا تھا۔انسانی تاریخ میں برسہا برس تک گھوڑوں ، بیلوں اور اونٹوں کی مدد سے سفر ہوتا تھا۔ اس دوران گھوڑا اور بیل گاڑیاں وغیرہ بھی بنیں لیکن 1825ء میں کوئلے کے بھاپ انجن سے چلنے والی پہلی مسافر ریل گاڑی کا آغازبرطانیہ میں ہوا جو باقی دنیا کی طرح برصغیر میں بھی متعارف ہوئی۔ برطانوی راج میں 1853ء میں بمبئی سے تھانے تک 32 کلومیٹر کی پہلی ریل لائن کا افتتاح ہوا تھا۔ بھارت میں اس وقت ایک لاکھ کلومیٹر سے طویل لائن والی دنیا کی چوتھی بڑی ریلوے ہے جس میں بارہ لاکھ سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔

موجودہ پاکستان کی پہلی ریلوے لائن 3 مئی 1861ء کو کراچی اور کوٹری کے درمیان 169 کلومیٹر طویل لائن تھی۔ نصف صدی میں پایہ تکمیل تک پہنچنے والی پونے آٹھ ہزار طویل اس ریل نیٹ ورک پر پانچ سو سے زائد سٹیشن ہیں جو لنڈی کوتل سے کیماڑی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اوسطاً پونے دو لاکھ افراد روزانہ سفر کرتے ہیں۔ ڈیڑھ سو پرانے اس ریل ٹریک پر زیادہ سے زیادہ رفتار 120 کلومیٹر ہے۔ لاہور سے کراچی تک ایک ہزار کلومیٹر ڈبل ٹریک بھی ہے۔ ابتداء بھاپ انجنوں سے ہوئی جو ڈیزل انجنوں میں تبدیل ہوئی۔ اب دنیا بھر میں بجلی سے چلنے والی انتہائی تیز رفتار اور ڈرائیور کی مدد کے بغیر خودکار ٹرینیں عام ہورہی ہیں لیکن پاکستان میں بجلی کی ریل گاڑیاں متروک ہو چکی ہیں۔لاہور اور خانیوال کے مابین چلنے والی بجلی کی ٹرین-لاہور اور خانیوال کے مابین چلنے والی-بجلی کی ٹرین بند کر دی گئی-پاکستان میں بھی 1970ء کی دھائی سے بجلی کی ریل کار چلتی تھی جو لاہور سے خانیوال تک 286 کلومیٹر طویل تھی۔ اس روٹ پر 29 الیکٹرک ریل کاریں چلتی تھیں جن پر چار سو کے قریب ملازمین تھے۔ 14 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار ہونے والی اس ماحول دوست ، سستی اور تیز رفتار ٹرین سروس کو 2007ء میں جزوی طور پر اور 2010ء میں مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا حالانکہ اس ٹریک پر پاکستان ریلوے کو ڈیزل کے مقابلے میں بجلی کی ٹرین چلانے پر سالانہ 30 ارب روپے کی بچت ہوتی تھی۔ "ڈیزل مافیا" ، جو ٹرین پر ٹرکوں کو ترجیح دیتا ہے ، وہ بھلا بجلی کی ٹرینوں کو کیسے برداشت کر سکتا ہے جہاں ان کا کمیشن مارا جاتا ہے۔ !

تقسیم سے قبل انگریز راج میں موجودہ پاکستان میں چار بڑی لوکل پرائیویٹ ریلوے کمپنیاں ، "پنجاب ریلوے" ،"سندھ ریلوے" ، "دہلی ریلوے" اور "انڈین فلوٹیلا ریلوے" تھیں جنھیں 1885ء میں حکومت نے خرید کر سرکاری تحویل میں لیا اور 1886ء میں "نارتھ ويسٹرن اسٹیٹ ریلوے" کی بنیاد ڈالی جو بعد میں "نارتھ ويسٹرن ریلوے" کہلائی۔قیامِ پاکستان کے بعد 1961ء میں "شمال مغربی ریلوے" (North Western Railway) کو "پاکستان مغربی ریلوے" اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1974ء میں "پاکستان ریلوے" کا نام ملا۔ صدر مقام لاہور میں ہے جہاں مغل پورہ میں سب سے بڑی ورکشاپ بھی ہے جو 1904ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان لوکوموٹیو فیکٹری 1993 میں رسالپور میں 10 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہوئی جہاں سالانہ 150 کوچز بنتی ہیں۔ پاکستان ریلوے کے پاس 190 ڈیزل الیکٹرک انجن ہیں۔

پاکستان ریلوے کی پہلی لائن

پاکستان ریلوے کی مال بردار ٹرینیں -پاکستان میں ٹرک اور ڈیزل مافیا کتنا طاقتور ہے ، اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی پہلی تین دھائیوں میں پاکستان ریلوے ، کراچی کی بندرگاہ سے باقی ملک تک 73 فیصد مال برداری کی خدمات انجام دیتی تھی جو 2015ء کے اعدادوشمار کے مطابق چار فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔یاد رہے کہ 1970ء کی دھائی میں جہاں کراچی کی دوسری بندرگاہ پورٹ قاسم بنی ، وہاں 1974ء میں لاہور میں خشک گودی کا سلسلہ شروع ہوا جو دیگر صنعتی شہروں مثلاً سیالکوٹ، گوجرانوالہ ، فیصل آباد اور پشاور تک پھیل گیا تھا۔ اس سے پاکستان ریلوے اور کاروباری افراد کو بڑا فائدہ ہوا تھا۔ یاد رہے کہ پاکستان ریلوے نیٹ ورک  -قیامِ پاکستان کے وقت ریلوے نیٹ ورک آٹھ ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل تھا جو سکڑ کر پونے آٹھ ہزار رہ گیا ہے۔ غیر منافع بخش روٹس ختم کر دیے گئے ہیں لیکن پھر بھی ریلوے خسارہ ہی میں رہی۔ پاکستان کا ریلوے نیٹ ورک حسبِ ذیل ہے:

پاکستان ریلوے کی مرکزی لائن ML-1

پاکستان ریلوے کی مرکزی لائن ML-1 یا " کراچی پشاور لائن" ، کیماڑی سے شروع ہو کر دریائے سندھ کے دائیں کنارے اور صوبہ سندھ ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے اہم ترین اور گنجان آباد علاقوں سے گزرتی ہوئی پشاور چھاؤنی تک جا کر ختم ہوتی ہے۔ تقسیم کے وقت یہ لائن پاک افغان سرحد پر لنڈی کوتل تک جاتی تھی۔1881ء میں مکمل ہونے والی یہ پہلی ریلوے لائن 1687 کلومیٹر طویل ہے جس پر 180 سے زائد سٹیشن ہیں۔ اس لائن پر کوٹری ، حیدرآباد ، روہڑی ، بہاولپور ، لودھراں ، ملتان ، خانیوال ، رائے ونڈ ، لاہور/شاہدرہ ، وزیرآباد ، لالہ موسیٰ ، ٹیکسلا اور اٹک اہم جنکشن ہیں جبکہ دیگر اہم شہروں میں نوابشاہ ، سکھر ، ساہیوال ، اوکاڑہ ، گوجرانوالہ ، گجرات ، جہلم ، راولپنڈی اور نوشہرہ شامل ہیں۔

پاکستان ریلوے کی دوسری لائن ML-2پاکستان ریلوے کی دوسری بڑی لائن ML-2 یا "کوٹری اٹک لائن" ہے جس کا آغاز 1891ء میں ہوا تھا۔ یہ کوٹری (سندھ) سے شروع ہو کر دریائے سندھ کے بائیں کنارے سے ہوتی ہوئی اٹک (شمالی پنجاب) تک جاتی ہے۔ 1519 کلومیٹر طویل لائن پر 70 سے زائد سٹیشن ہیں۔ ان میں حبیب کوٹ ، جیکب آباد ، کوٹ ادو ، کندیاں ، جھنڈ اور حاسل ، اہم جنکشن ہیں جبکہ دیگر اہم شہروں میں سہیون شریف ، دادو ، لاڑکانہ ، راجن پور ، لیہ ، بکھر ، میانوالی اور داؤدخیل آتے ہیں۔پاکستان ریلوے کی تیسری لائن ML-3پاکستان ریلوے کی تیسری لائن ML-3 یا "روہڑی چمن لائن" کہلاتی ہے جو 1879ء میں بنی۔ یہ لائن ، صوبہ سندھ کے ریلوے جنکشن روہڑی سے شروع ہو کر صوبہ بلوچستان کے آخری ریل سٹیشن چمن تک جاتی ہے جہاں سرحد کے اس پار افغانستان کا شہر سپن بلداک ہے۔ 523 کلومیٹر طویل اس لائن پر 35 سٹیشن ہیں جن میں حبیب کوٹ ، جیکب آباد اور سپیزند ، جنکشن ہیں جبکہ شکارپور ، ڈیرا مراد جمالی ، سبی ، کوئٹہ ، بوستان اور گلستان ، دیگر اہم شہر ہیں۔


پاکستان ریلوے کی چوتھی لائن ML-4

پاکستان ریلوے کی چار بڑی لائنوں میں سے چوتھی کا نام ML-4 یا "کوئٹہ تا کوہِ تفتان لائن" ہے جو 1905ء میں قائم ہوئی۔ 633 کلومیٹر طویل اس ریلوے لائن پر کبھی 29 سٹیشن تھے لیکن اب صرف 14 رہ گئے ہیں۔ واحد سپیزند جنکشن ، کوئٹہ کو باقی ملک سے ریل کے نظام کو منسلک کرتا ہے۔ نوشکی ، دالبندین اور نوک کنڈی دیگر اہم سٹیشن ہیں۔ یہ لائن ایران کے شہر زاہدان تک جاتی ہے اور اسی رستے سے یورپ تک رسائی ہوتی ہے۔پاکستان ریلوے کا نیٹ ورکیاد رہے کہ دیگر برانچ لائنوں کے ذریعے پاکستان کے دیگر بڑے شہر مثلاً فیصل آباد ، سیالکوٹ ، شیخوپورہ ، قصور ، جھنگ ، پاکپتن ، کوہاٹ ، منڈی بہاؤالدین ، میرپور خاص اور ننکانہ صاحب وغیرہ تک رسائی بھی حاصل ہے البتہ ایبٹ آباد ، مری ، میرپور ، مظفرآباد ، چترال ، سکردو ، گلگت اور گوادر وغیرہ ریل رابطوں سے محروم ہیں۔ان کے علاوہ دیگر منصوبوں کے علاوہ پاکستان ریلوے ، چین کے تعاون سے ML-5 منصوبہ پر بھی غور کر رہی ہے جو ٹیکسلا کو خنجراب اور چین سے ملائے گا۔ افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھی ریل منصوبے زیر غور ہیں۔


سمجھوتہ ایکسپریس

پاکستان اور بھارت کے مابین واہگہ ، جموں اور تھر کے علاقہ سے ریل کا رابطہ رہا ہے جو جنگوں اور کشیدہ تعلقات کی وجہ سے متعدد بار منقطع ہوا۔ 1971ء کی جنگ کی وجہ سے بھی سبھی رابطے ختم ہو گئے تھے جنھیں بحال کرنے میں چند سال لگے۔ 22 جولائی 1976ء کو پاکستان اور بھارت کے مابین ایک "سمجھوتہ ایکسپریس" ٹرین شروع ہوئی جو روزانہ کی بنیاد پر لاہور سے امرتسر کا سفر کرتی تھی۔ غالباً اسی ٹرین پر ایک بھارتی وزیراعظم ، اٹل بہاری واجپائی ، لاہور آئے تھے لیکن 2007ء میں یہ ٹرین دہشت گردی کے ایک متنازعہ حملہ میں بند ہو گئی تھی۔پاکستان ریلوے کے اہم سنگِ میل

موجودہ پاکستان میں ریلوے کا آغاز ، 13 مئی 1861ء کو کراچی سے کوٹری کی 169 کلومیٹر ریلوے لائن سے ہوا۔1865ء میں لاہور سے ملتان ریلوے لائن کا آغاز ہوا۔1876ء میں دریائے راوی ، دریائے چناب اور دریائے جہلم پر ریل پلوں کی تعمیر مکمل ہوئی جس سے لاہور سے جہلم تک ریل کا رابطہ ممکن ہوا۔1878ء میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کوٹری سے سکھر براستہ دادو اور لاڑکانہ ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ اسی سال لودهراں سے پنوعاقل تک کی 334 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا افتتاح بھی ہوا۔1880 میں جہلم سے راولپنڈی تک کا 115 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا آغاز ہوا۔ اسی سال روہڑی سے سبی تک ریلوے لائن بچھانے کا کام بھی مکمل ہوا1881ء میں راولپنڈی سے اٹک کے درمیان 73 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو کھول دیا گیا۔

1882ء میں خیرآباد کنڈ سے پشاور تک 65 کلومیٹر طویل ریلوے لائن تعمیر مکمل ہوئی۔1883ء میں دریائے سندھ پر اٹک پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پشاور ، راولپنڈی سے بذریعہ ریل منسلک ہو گیا۔887ء میں سبی اور کوئٹہ ریلوے لائن کی تعمیر مکمل ہوئی۔1889ء میں روہڑی اور سکھر کے درمیان پل کا افتتاح ہوا جس سے کراچی ، پشاور سے بذریعہ ریل منسلک ہو گیا۔1896ء میں روہڑی اور حیدرآباد براستہ ٹنڈو آدم، نواب شاہ اور محراب پور ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔1900ء میں کوٹری پل اور 8 کلومیٹر طویل کوٹری ، حیدرآباد ریلوے لائن مکمل ہو گئی۔ اس سیکشن کے مکمل ہو جانے کے بعد پاکستان ریلویز کی کراچی - پشاور موجودہ مرکزی ریلوے لائن بھی مکمل ہو گئی۔کراچی کی لوکل ٹرین ، کراچی سرکلر ریلوے بھی "ٹرانسپورٹ مافیا" کی وجہ سے نہ چل سکی تھی۔

 

ا

پیر، 23 ستمبر، 2024

دین اسلام میں نکاح کی اہمیت اور اس کے ثمرات

 روائت ہے کہ جب عرش بریں پر  حضرت آدم علیہ اسلام  گہری نیند سے جاگے تو اپنے قریب ایک پری پیکر وجود کو پایا اور آپ علیہ السلام وارفتہ اس وجود  کی جانب بڑھے تب ندائے پروردگار آئ -ٹہر جائیے آدم علیہ السلام پہلے نکاح ہوگا -پھر  نکاح کی رسم کے بعد حضرت آدم علیہ السلام نے  پانچ مزید بشر کو پایا  یہ پنجتن پاک کے وجود  مبارک تھے  جو نکاح کی تقریب میں شریک ہوئے تھے -یعنی اللہ کریم و کارساز نے روز ازل سے ہی  عفّت و عصمت کا محافظ ،” نکاح ”کو قرار دیا  اس رشتے سے اِنسانی معاشـرت کا آغاز ہوتا ہے  یہی رشتہ   پاکیزہ نسب کا ضامن ، ذہنی ،جسمانی ،روحانی ،سماجی اخلاقی و  بلندی کردار اورنفسیاتی مفسدات کا معالج ، شریف خاندان اور صالح معاشرے کے قیام کا موجب ہے جسے اِسلام نے عام ضروریاتِ زندگی کی طرح بےحد آسان بنایا تاکہ معاشرے میں کوئی مرد  یا عورت غیر شادی شدہ نا رہے


لیکن بہت افسوس کا مقام ہے کہ اس متبرک اور سادہ رسم کو  ہمارے سماج نے اتنا پیچیدہ کر دیا ہے کہ  لوگ  اپنے بچوں کی شادیوں کانام پر خاموشی سے وقت کو گزارتے ہیں تاکہ بیٹی ہے تو اس کا جہیز تیار کر سکیں اور بیٹا ہے تو اس کی بری اور  زیور تیار کر سکیں  نتیجہ یہ ہے کہ نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں جو  سماجی  فضا کی آ لودگی کا سبب بنتے ہیں شادیاں مشکل ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں کامیابی اور ناکامی کے تصورات بھی بدل گئے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے شادی کے لیے لڑکے کا تعلیم یافتہ اور مہذب ہوناکافی سمجھاجاتا تھا لیکن اب لڑکی والے الگ گھر، گاڑی اورسرکاری نوکری کاتقاضا کرتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ لڑکے کے گھر میں کتنے افراد ہیں، خاندان زیادہ بڑا تو نہیں،عام طورپراسی لڑکے کو ترجیح دی جاتی ہے جس پر بھائی ، بہنوں کی ذمہ داری نہ ہو


 اگر آج سے پچاس برس پیچھے چلے جائے  تو خاندان کے اندر شادیاں کروانے کا رواج تھا،جس کی بدولت شادیاں آسانی سے ہوجاتی تھیں البتہ  جدید  طبی تحقیق نے بتایا کہ  کزن میرج  کرنے کی صورت میں بچوں میں معذوری کا امکان بڑھ جاتاہے۔چنانچہ اس کے بعد لوگ خاندان سے باہر رشتہ ڈھونڈنے لگے ۔خاندان کے اندر رشتہ کرنے کی صورت میں فریقین بہت سی چیزوں پرسمجھوتاکرلیتے تھے لیکن اب لوگ خاندان سے باہر رشتہ تلاش کرتے ہیں اور انھیں ذات برادری کے نام پر بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے جس کی وجہ سے شادیاں تاخیر کا شکار ہورہی ہیں۔مردوں اور خواتین میں جس کی عمرتیس ،پینتیس برس سے بڑھ جاتی ہے اس کے لیے شادی کرنا اوربھی مشکل ہوجاتاہے کیوں کہ اس   لڑکی یا لڑکے نے زندگی کاطویل حصہ  جیون ساتھی کے بغیر  گزارہ ہوتا ہےیہ لوگ کئی طرح کے تجربات اورمشاہدات سے گزرے ہوتے ہیں جو انھیں منطقی بنادیتے ہیں۔ان کے لیے جو رشتہ آتاہے یہ بہت باریکی کے ساتھ اسے جانچتے اور عقل کے ترازو پرپرکھتے ہیں،یاد رکھئے ایک مشہور مثل ہے جتنا چھانو اتنا کر کرا نکلے گا - رشتوں میں اس قدر ناپ تول نہیں کیا جاتا بلکہ کچھ چیزوں کوقبول کرناپڑتاہے۔


بیس ، پچیس سال کی عمرلااُبالی پن کی ہوتی ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاں کچھ چیزوں پر سمجھوتاکرلیتی ہیں بہن بھائیوں کی شادیاں ہوجاتی ہیں، ایک بہن گھر میں رہ جاتی ہے جووالدین کی خدمت کرتی ہے۔اب بعض والدین اس وجہ سے اپنی بیٹی کارشتہ نہیں ہونے دیتے کہ اگر یہ بھی گھر سے چلی گئی توہماراخیال کون رکھے گا۔یہ اپنی بیٹی پر ظلم ہے اور اللہ  کے حکم کے  بھی خلاف ہے۔یہ بات یادرکھیں کہ انسان کو جوانی میں  جیون ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ عمراگرہم سفر کے بغیرگزرجائے تو اس کے بعدانسان کی شخصیت میں نفسیاتی  عوارض پیدا ہوجاتے ہیں۔وہ مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتاہے اور اس کے اندرگھٹن بھی بڑھ جاتی ہے جس کااظہار وہ مختلف منفی رویوں کی صورت میں کرتاہے۔لہٰذا والدین کو چاہیے کہ ان کی بیٹی کے لیے جب بھی مناسب رشتہ آجائے اسے قبول کرکے بیٹی کاگھر بسائیں۔


شادیاں مشکل بنانے کے ذمہ دارہم سب ہیں۔دین اسلام نے نکاح کوانتہائی آسان بنایاہے اورولیمے کاحکم بھی فرد کی استطاعت کے مطابق دیاہے لیکن معاشرے کی نام نہاد رسومات اور دکھاوے کی کوشش میں ہم نے اسے انتہائی مشکل بنادیا ہے۔آج نکاح کے لیے مہنگے ترین ہال بک کرائے جاتے ہیں۔کئی کئی دن پروگراموں کا سلسلہ چلتاہے جس پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد کی شادی پرمجموعی طورپرایک کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں اوریہ سب کچھ اس لیے کیاجاتاہے تاکہ لوگ واہ واہ کریں۔دراصل جب ہم اسراف کی انتہاکردیتے ہیں تویہیں سے بے برکتی کی بنیادپڑجاتی ہے ۔اگر شادی کا مقصد میاں بیوی کاسکون ، راحت اورآسودگی ہے تو اس کے لیے لوگوں کو خوش کرنے اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔اگرہم اسی طرح رسم و رواجوں کی دنیا میں  سر نگوں رہیں گے    تو ہمارا سماج ہمارے ہاتھوں  یرغمال رہے گا   


د   


لکھنؤ کا ضلع بہرائچ -ایک دلکش شہر-پارٹ- 2

 

اس طرح یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جس کے مطالعہ سے ماضی کے بہت سارے پہلو واشگاف ہوجاتے ہیں، اوربہت سی ایسی نئی باتیں علم میں آتی ہیں جو اَب تک پردۂ خفا میں تھیں۔جیسے منشی پریم چند کے بارے میں تحریر کیا ہے :مشہور ادیب ،عیدگاہ اور گودان جیسے بے مثل وشاہکار (افسانے) لکھنے والے منشی پریم چند نےبھی شہر بہرائچ کو اپنی رہائش کا شرف بخشا ہے ۔ منشی پریم چند کی پیدائش 3/جولائی 1880 ء کوہوئی ۔آپ صرف 20 سال کی عمر میں ٹیچر کے عہدے پر فائز ہو گئے تھے -اس دوران 2/جولائی 1900ء میں آپ کا ٹرانسفر بہرائچ کے گورنمنٹ انٹر کالج میں 20رو پے ماہانہ پر ہوا ، جہاں پرآپ نے تین ماہ تک بطور ٹیچر کے تعلیمی خدمات انجام دی اور یہیں بہرائچ میں ہی اپنے ناول ”اسرار ِ معابد“ کی شروعات کی تھی ۔“ (ص47)زیر نظر کتاب نہایت جامع اوربہت ساری کتابوں کا لب لباب ہے ،اور حشووزوائد اور فضولیات سے پاک بھی ہے۔کتاب کا سرورق جاذبِ نظر اورخوب صورت ہے۔496 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ قومی کونسل برائے فروغ ِ اُردوزبان حکومت ہند کے مالی تعاون سے طبع ہوئی ہے ۔کتاب کا شرف ِ انتساب بہرائچ کے مرحوم استاذ الشعرا اظہار وارثی کے نام ہے ، اس کے اگلے صفحہ پر سابق چیئر مین قومی اقلیتی کمیشن حکومت ہندپروفیسر طاہر محمود کا درج ِ ذیل شعر ہے ؎

ہے علم و فن کی روایات کا امیں یہ شہر

ادب نواز ہے کیسی ہوائے بہرائچ

اس کے بعد چھ صفحات پر مشتمل پوری کتاب کی فہرست ہے ،پھر دعائیہ کلمات ،کلمات ِ تبریک اورپیش ِ لفظ کے بعد پروفیسر سراج اجملی(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) کی تحریر بعنوان ”بہرائچ کے بارے میں ایک اہم کتاب “شامل ِکتاب ہے ۔بعد ازاں منظوم تأثرات ،اظہارِ تشکر ،حرفِ چند،حرف ِ آغاز ، دو تبصرے ،ایک خط پیش کیا گیا ہے ۔ پھر صاحب ِ کتاب جنید احمد نورؔ نے ”اپنی بات “کے عنوان سے گویاکتاب کا مقدمہ تحریر کیا ہے اوراُسے بہرائچ کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے ایک لائق و فائق شاعرجناب راشد راہی ؔکے مندرجہ ذیل شعر پر ختم کیاہے؎اپنے اسلاف کی توقیر بتانے کے لیےمیں نے اس شہر کی تاریخ مرتب کی ہےاس کے بعد اصل کتاب شروع ہوتی ہے ،اور” بہرائچ کاادب میں مقام“سے معنون ایک تحریر میں بہرائچ کے علمی ،روحانی اورادبی پس منظر کو بڑے خوب صورت انداز ِ بیان اوردلکش پیرایے میں پیش کرکےضلع بہرائچ سے تعلق رکھنے والے 106 شعرا،ادبا اور اہل ِ علم دانشوروں کا تفصیلی تذکرہ مع کلام بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ درج کیا ہے ۔اِس سے قبل جنید احمد نورؔ دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل پہلا حصہ بنام ”بہرائچ ایک تاریخی شہر “ تالیف کر چکے ہیں ؛جس میں ضلع بہرائچ کی اہمیت، مکمل تعارف اور تاریخ،یہاںکی زبان ، تعلیم ، یہاں کی ندیوں اور جھیلوںوغیرہ کا ذکر کرنے کے ساتھ بزرگان ِ دین، شہداے اسلام ، اولیاے کاملین ،علماء کرام ، صلحا ء عظام اور مشہور سیاسی شخصیات کا تذکرہ وحالات مختلف عنوان سے مفصل انداز میں پیش کرنے کے ساتھ تاریخی حقائق، اسرار ورموز، نکات اور باریکیوں کو بڑے ہی واضح انداز میں قارئین کی خدمت میں پیش کیاہے ۔


اس طرح جنید احمد نورؔ نےتصنیفی وتالیفیدنیامیں بہت کم عرصہ میں اپنی منفردشناخت بنائی ہے _، یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں کئی ممتاز شاعروںاور ادیبوں نے ان کے کام کوسراہا اور خراج ِ تحسین پیش کیا ہے ۔بندۂ ناچیز بھی موصوف کےاس ادبی اور تاریخی پیشکش پر تہِ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہوئےدعاگوہےکہ اللہ تعالیٰ ان کے قلم کواور زوروتوانائی عطا فرمائے۔آمین-آب و ہوالکھنؤ کی آب و ہوا مرطوب ذیلی استوائی ہے، فروری کے وسط نومبر تک خشک سردی، اواخر مارچ سے جون تک موسم خشک گرم ہوتا ہے۔ برسات کا موسم جولائی سے ستمبر کے وسط تک ہوتا ہے۔ موسم سرما میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 25 ° س (77 ° ف) اور کم سے کم 7 ° س (45 ° ف) ہوتا ہے۔ دھند اواخر جنوری سے وسط دسمبر میں بہت عام ہے۔ موسم گرما میں درجہ حرارت 45 ° س (113 ° ف) تا 40 ° س (104 ° ف) تک پہنچ جاتا ہےوثقافت -لکھنؤ اپنی وراثت میں ملی ثقافت کو جدید طرز زندگی کے ساتھ بڑی خوبصورتی کے ساتھ ملائے ہوئے ہے۔ بھارت کے اہم شہروں میں گنے جانے والے لکھنؤ کی ثقافت میں جذبات کی گرماہٹ کے ساتھ اعلیٰ احساس اور محبت بھی شامل ہے۔ لکھنؤ کے معاشرے میں نوابوں کے وقت سے ہی پہلے آپ! والا انداز رچا بسا ہے۔


 وقت کے ساتھ ہر طرف جدیدیت کا دور دورہ ہے تاہم اب بھی شہر کی آبادی کا ایک حصہ اپنی تہذیب کو سنبھالے ہوئے ہے۔ تہذیب یہاں دو بڑے مذاہب کے لوگوں کو ایک ثقافت سے باندھے ہوئے ہے۔ یہ ثقافت یہاں کے نوابوں کے دور سے چلی آ رہی ہے۔ لکھنوی پان یہاں کی ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہے جس کے بغیر لکھنؤ نامکمل لگتا ہے۔-زبان اور شاعری -لکھنؤ میں ہندی اور اردو دونوں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن اردو کو یہاں صدیوں سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ جب دہلی حالات اچھے نہ رہے تو بہت سے شاعروں نے لکھنؤ کا رخ کیا۔ تب سے اردو شاعری کے دو ٹھکانے ہو گئے، دہلی اور لکھنؤ۔ جبکہ دہلی صوفی شاعری اور لکھنؤ غزل، عیش و آرام اور عشقیہ شاعری کا مرکز بنا۔ نوابوں کے دورے میں اردو کی خصوصی نشو و نما ہوئی اور یہ بھارت کی تہذیب والی زبان کے طور پر ابھری۔ یہاں کے مشہور شاعروں میں حیدرعلی آتش، عامر مینائی، مرزا محمد ہادی رسوا، مصحفی، انشا، صفی لکھنوی، میر تقی میر شامل ہیں۔ لکھنؤ شیعہ ثقافت کے دنیا کے عظیم شہروں میں سے ایک ہے۔ میر انیس اور مرزا دبیر اردو مرثیہ گوئی کے لیے مشہور ہیں۔مشہور ہندوستانی رقص کتھک نے یہیں ترقی پائی۔ اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کتھک کے بڑے پرستاروں میں سے تھے۔ لکھنؤ مشہور غزل گلوکاہ بیگم اختر کا بھی شہر رہا ہے۔ وہ غزل گائکی میں معروف تھیں اور اسے نئی بلندیوں تک پہنچایا۔


 لکھنؤ کی بھاتكھڈے موسیقی یونیورسٹی کا نام یہاں کے عظیم موسیقار پنڈت وشنو نارائن بھاتكھڈے کے نام پر رکھا ہوا ہے۔ سری لنکا، نیپال، بہت سے ایشیائی ممالک اور دنیا بھر سے طالبعلم یہاں رقص اور موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ لکھنؤ نے کئی گلوکار دیے ہیں جن میں سے نوشاد علی، طلعت محمود، انوپ جلوٹا اور بابا سہگل انتہائی اہم ہیں۔ لکھنؤ شہر برطانوی پاپ گلوکار كلف رچرڈ کا جائے پیدائش بھی ہے۔لکھنؤ ہندی فلمی صنعت کا شروع سے ہی مرکز رہا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ لکھنوی رابطے کے بغیر، بالی ووڈ کبھی اس بلندی پر نہیں آ پاتا جہاں وہ اب موجود ہے۔ اودھ سے بہت سکرپٹ مصنف اور نغمہ نگار ہیں، جیسے مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، جاوید اختر، علی رضا، وجاہت مرزا (مدر انڈیا اور گنگا جمنا کے مصنف)، امرت لال ناگر، علی سردار جعفری اور کے پی سکسینہ جنہوں نے بھارتی فلم کو بلندی پر پہنچایا۔ لکھنؤ پر بہت سی مشہور فلمیں بنی ہیں جیسے ششی کپور کی جنون، مظفر علی کی امرا ؤ جان اور گمن، ستیہ جیت رائے کی شطرنج کے کھلاڑی اور اسماعیل مرچنٹ کی شیکسپیئر والا کی بھی جزوی شوٹنگ یہیں ہوئی تھی۔بہو بیگم، محبوب کی مہندی، میرے حضور، چودھویں کا چاند، پاکیزہ، میں میری بیوی اور وہ، سحر، انور اور بہت سی ہندی فلمیں یا تو لکھنؤ میں بنی ہیں یا ان کا پس منظر لکھنؤ کا ہے۔ غدر فلم میں بھی پاکستان کے مناظر لکھنؤ میں فلمائے گئے ہیں۔ اس میں لال پل، لکھنؤ اور لا مارٹينير کالج کے مناظر ہیں۔


اتوار، 22 ستمبر، 2024

لکھنؤ کا ضلع بہرائچ -ایک دلکش شہر-پارٹ-1

 


بہرائچ شروع سے ہی علمی ،روحانی اورادبی مرکز ہونے کے ساتھ شعر و ادب کا گہوارہ رہا ہے؛جسےسلطان محمود غزنوی (971ء-1030ء)کے بھانجے حضرت سید سالار مسعود غازیؒ(1015ء- 1033ء) نے اپنے فیوض وبرکات سے نہ صرف مالا مال کیا بلکہ یہاں ہمیشہ کے لیے علم وعمل کی وہ شمع جلائی جس کی روشنی وتابانی سےنہ صرف علاقہ اور ضلع بلکہ ملک کا بیش تر حصہ مستفیض ہورہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ علم وفن ،شعر وادب، تقریر وتحریراورتصنیف وتالیف کے میدان میں بھی سرزمین ِ بہرائچ نے ایسے باکمال شہسوار پیدا کئے ہیں جنھوں نے عالمی سطح پر بہرائچ کا نام درج کروایا ہے ۔مشہور فلمی شخصیت کیفی اعظمی(1919ء-2002ء) ،ادبی دنیا کو افسانہ نگاری سے روشناس کرانے والے منشی پریم چند (1880ء-1936ء)، اُردو فکشن کے اُفق پر پوری تابانی کے ساتھ چمکنے والی اور اپنے مشہور ِ زمانہ ناول ”آگ کادریا“کے ذریعہ اُردوناول نگاری کوعروج عطاکرنے والی شخصیت قرۃ العین حیدر (1927ء- 2007ء)، معروف ناول نگار عصمت چغتائی (1915ء-1991ء)،ان کے بھائی عظیم بیگ چغتائی (1895ء-1941ء)،1930ء میں لکھنؤ یونیور سٹی میں شعبۂ اُردو کے بنیادگزار سید مسعود حسن رضوی ادیب ؔ (1893ء-1975ء) ، اسلامی تاریخ پر بیش بہا تصانیف کےخالق ومالک قاضی اطہر مبارکپوریؒ (1916ء-1996ء)اورمصباح اللّغات جیسی عربی اُردو لغت کے مصنف مولانا عبدالحفیظ بلیاویؒ(1901ء-1971ء)جیسے اساطین ِ ادب اور قرطاس و قلم سے اپنا رشتہ استوا ر کرنے والے خود بھی بہرائچ سے مستفیدہوئے اور فیضیاب کیا بھی ۔


بہرائچ شروع سے ہی علمی ،روحانی اورادبی مرکز ہونے کے ساتھ شعر و ادب کا گہوارہ رہا ہے؛جسےسلطان محمود غزنوی (971ء-1030ء)کے بھانجے حضرت سید سالار مسعود غازیؒ(1015ء- 1033ء) نے اپنے فیوض وبرکات سے نہ صرف مالا مال کیا بلکہ یہاں ہمیشہ کے لیے علم وعمل کی وہ شمع جلائی جس کی روشنی وتابانی سےنہ صرف علاقہ اور ضلع بلکہ ملک کا بیش تر حصہ مستفیض ہورہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ علم وفن ،شعر وادب، تقریر وتحریراورتصنیف وتالیف کے میدان میں بھی سرزمین ِ بہرائچ نے ایسے باکمال شہسوار پیدا کئے ہیں جنھوں نے عالمی سطح پر بہرائچ کا نام درج کروایا ہے ۔مشہور فلمی شخصیت کیفی اعظمی(1919ء-2002ء) ،ادبی دنیا کو افسانہ نگاری سے روشناس کرانے والے منشی پریم چند (1880ء-1936ء)، اُردو فکشن کے اُفق پر پوری تابانی کے ساتھ چمکنے والی اور اپنے مشہور ِ زمانہ ناول ”آگ کادریا“کے ذریعہ اُردوناول نگاری کوعروج عطاکرنے والی شخصیت قرۃ العین حیدر (1927ء- 2007ء)، معروف ناول نگار عصمت چغتائی (1915ء-1991ء)،ان کے بھائی عظیم بیگ چغتائی (1895ء-1941ء)،1930ء میں لکھنؤ یونیور سٹی میں شعبۂ اُردو کے بنیادگزار سید مسعود حسن رضوی ادیب ؔ (1893ء-1975ء) ، اسلامی تاریخ پر بیش بہا تصانیف کےخالق ومالک قاضی اطہر مبارکپوریؒ (1916ء-1996ء)اورمصباح اللّغات جیسی عربی اُردو لغت کے مصنف مولانا عبدالحفیظ بلیاویؒ(1901ء-1971ء)جیسے اساطین ِ ادب اور قرطاس و قلم سے اپنا رشتہ استوا ر کرنے والے خود بھی بہرائچ سے مستفیدہوئے اور فیضیاب کیا بھی ۔


جن کاشمار لیلاے اُردوادب کے گیسو سنوارنے والوں میں ہوتاہے ۔ ویسے تو بہرائچ کی شعری وادبی تاریخ تین سوسال پر محیط ہے ، جس کا آغازاُردواور فارسی کے مشہور عظیم شاعر ،ایہام گوئی کے سخت مخالف ،اصلاح ِ زبان کےمحرک ، حضرت امیر خسرو ؒ (1253ء-1325ء)، محمدقلی قطب شاہ (1565ء-1612ء)اور ولی دکنی(1667ء-1707ء) کے بعد اُردو شاعری کے چار ستونوں میں سے ایک یعنی حضرت مرزا مظہر جان جانا ں ؒ (1699ء-1781ء)کے تلمیذ ِ خاص،شاگرد ِ رشید اور خلیفۂ و جانشین شاہ نعیم اللہ بہرائچی ؒ(1738ء- 1803ء)سے ہوتاہے ۔بہرائچ ایک تاریخی شہر  -بہرائچ کی سرزمین سے شروع ہونے والا اُردوشاعری کےاس سلسلہ کی ایک کڑی ریاست حسین المتخلص بہ شوق بہرائچی ـ(1884ء-19645ء) بھی ہیں جن کے مزاحیہ اور لوگوں کے ہونٹوں پر ہنسی بکھیرنے والے مبنی بر حقیقت اشعار نے جہاں عوام وخواص کو مسکرانے پر مجبور کیا ،وہیں ایوانوں میں بیٹھے مکلّف جوڑوں میں ملبوس لیڈروں پر بھی طنز کیا ہے، جیسا کہ اُن کا ایک بہت ہی مشہور شعر زبان زد ِ عوام وخواص ہے ؎

بربادیٔ گلشن کی خاطر بس ایک ہی اُلّو کافی تھا

ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھے ہیں انجامِ گلستاں کیا ہوگا


بہرائچ کے اُردو شعروادب کا یہ کارواں اپنی آب و تاب کے ساتھ یوں ہی بڑھتا رہا؛ یہاں تک کہ پورے تین سو سال کا سفر کرتے ہو ئے آج کےدور تک پہنچا۔ اس تین سو سالہ دور میں سرزمین ِ بہرائچ نےاپنی کوکھ سے ا یسے دُرِ نایاب جنم دیے،جنھوں نے ہر سطح پر بہرائچ کا نام روشن کرنے کا فریضہ انجام دیا۔لیکن تاریخ کاایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ وقت کی رفتارنے مذکورہ بالا اہل علم ِوعمل ،ارباب ِ شعر وادب اور اصحاب ِ تصنیف وتالیف کے کارناموں پردبیز پردہ ڈال دیا ،بریں بنا یہ تمام حضرات گمنامی کا شکار ہوکر لوگوں کے دل و دماغ سے تقریباًمٹ گئے تھے۔ اللہ جزاے خیر دے بہرائچ کے ایک ہونہار فرزنداورجواں سال قلم کار جنید احمد نورؔ کو۔جنھوں نے ”بہرائچ ایک تاریخی شہر“بہرائچ اردو ادب میں (حصہ دوم ) تالیف کرکے اپنے شہر بہرائچ کی تین سوسالہ ادبی تاریخ کو 496 صفحات میں قید کرکےایک اہم اورعظیم علمی ،ادبی و تاریخی فریضہ انجام دیا ہے۔جس میں موصوف نے بڑی‌ہی خوش اسلوبی کے ساتھ دلکش انداز میں نہایت جانفشانی اورعرق ریزی سےبہرائچ کے علمی ، روحانی ،ادبی ،شعری اور تصنیفی کام کو انجام دینے والے اشخاص وافرادکے حیات وخدمات اور کارناموں کو تحقیقات و تجربات سے مزیّن کرکےدنیا ے علم وادب کے سامنے پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی تاریخ کے بہت سے مخفی گوشوں سے پردہ ہٹانے کی کوشش کی ہے۔مثلاً ایک مقام پر جنید احمد نورؔ لکھتے ہیں:


”کیفیؔ اعظمی صاحب کا بچپن شہر بہرائچ میں ہی گزرا ہے ۔ کیفیؔ صاحب کے والدصاحب نواب گنج علی آباد ضلع بہرائچ کے نواب قزلباش کے یہاں ملازم تھے ،اور شہر بہرائچ کے محلہ سید واڑہ قاضی پورہ میں رہتے تھے ۔ “ (ص155)دوسری جگہ رقم طراز ہیں:حکیم جوہر ؔصاحب سے وابستہ ایک واقعہ یوں ہے کہ جب پنڈت جواہر لعل نہرو الہ آباد کے نینی جیل میں قید تھے تواُن کی ہدایت کے مطابق جوہرؔ صاحب لنگوٹی باندھے ایک خستہ حال فقیر کی شکل میں جیل سے کچھ فاصلہ پر اپنی گودڑ گھٹری لیے سرِ راہ خیمہ زن رہتے اور راہ گیر چند سکے آپ کے ہاتھوں پر رکھ دیا کرتے تھے مگر کچھ مخصوص کانگریسی کارندے پیسوں کی جگہ دن بھر کی کارروائیوں اور حالات ِ حاضرہ سے متعلق رپورٹ مڑے تڑے کاغذ کی شکل میں آپ کے ہاتھوں میں دبا جایا کرتے تھے جسے جوہر ؔ صاحب دن بھر اپنے پاس گودڑ میں بحفاظت چھپائے رکھتے اوررات کے اندھیرے میں مخصوص ذرائع سے کاغذ کے وہ پُرزے پنڈت نہرو تک پہنچاتے تھے ۔یہ بڑے جان جوکھم کا کام تھا ،مگر مادر ِ وطن ہندوستان کی محبت کے آگے کبھی کوئی آڑے نہیں آیا۔“(ص195،196)

یہ مضمون میں نے انٹر نیٹ سے لیا ہے جزاک اللہ مصنف کے لئے دعاء

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر