ہیمو میں دراصل تھیلیسیمیا کے متعلق اپنی مزید معلومات کے لئے سرچ کر رہی تھی کہ یہ ایک اہم مضمون ہاتھ لگا جو میں اپنے قارئین کو تحریر میں دے رہی ہوں -ہیمو فیلیا ایک موروثی جینیاتی بیماری ہے جو والدین سے ان کے بچوں میں منتقل ہوتی ہے -اس بیماری میں جس میں خون کو بہنے سے روکنے والے اجزا کی کمی ہوتی ہے۔چوٹ لگنے کی صورت میں مریض کا خون ایک صحتمند انسان کے خون کی طرح نہیں رک سکتا جب تک ان مریضوں کو بلڈ فیکٹر پر منتقل نہ کیا جائے۔ ہیمو فیلیا کو ایک شاہی بیماری کہا گیا ہے جس نے 19ویں اور 20ویں صدی میں انگلینڈ، جرمنی، روس اور سپین کے شاہی خاندان کو متاثر کیا تھا۔ اس میں مریض کے جسم میں خون کو بہنے سے روکنے والے اجزا کی کمی ہوتی ہے انگلینڈ کی ملکہ وکٹوریا، جنہوں نے 1837-1901 تک حکومت کی، ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ہیمو فیلیا بی یا فیکٹر09 کی کیرئیر تھیں۔ انہوں نے یہ جین اپنے 9میں سے 3 بچوں میں منتقل کی اور پھر یہ بیماری مختلف صورتوں میں نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔ایک اندازے کے مطابق ہر 4ہزار سے 5ہزار میں سے ایک بچہ ہیمو فیلیاA اور ہر 10ہزار تا 20ہزار میں سے ایک بچہ ہیمو فیلیاB سے متاثر پیدا ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں ہر سال 17 اپریل کو ورلڈ ہیموفیلیا ڈے منایا جاتا ہے۔
اِس دن کو فرینک شنیبل( Frank Schnabel) ۔ ہیمو فیلیا ڈے منانے کا مقصد لوگوں میں اس بیماری کے بارے میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے اور ان مریضوں کے علاج کے لیے آسا نیاں اور سہولتوں میں اضافہ کرنا ہے تاکہ اس مرض کے شکار افراد کی زندگیوں کو بہتر اور محفوظ بنایا جاسکے۔ ہیمو فیلیا اور دیگر خون کی بیماریوں کو عالمی معیار کے مطابق علاج معالجہ کی سہولتیں دی جائیں تاکہ یہ مریض بھی اچھی زندگی گزار سکیں۔ماہرین کے مطابق تشویش ناک امر یہ ہے کہ متعددافراد میں مرض تشخیص نہیں ہوپاتا وہ ناکافی علاج کروا رہے ہوتے ہیں یا پھر انہیں علاج کی سہولتیں سِرے سے دستیاب ہی نہیں۔ پاکستان کا ذکر کریں تو یہ صورت حال المناک ہے کہ ملک بھر میں سرکاری طور پر رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ بچوں کی درست تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت 15سے 20 ہزار بچے اس مرض کا شکار ہیں۔ہیموفیلیا ایک نایاب حالت ہے جس میں خون عام طور پر جم نہیں پاتا کیونکہ اس میں خون جمنے والے پروٹین (جمنے کے عوامل) کی کمی ہوتی ہے۔
اگر آپ کو ہیموفیلیا ہے۔ تو آپ کا خون عام طور پر جمنے کی صورت میں آپ کی نسبت زیادہ اور زیادہ وقت تک بہہ سکتا ہے۔ چھوٹے زخم عام طور پر بہت زیادہ پریشانی کا سبب نہیں بنتے ہیں۔ سب سے بڑی تشویش اس وقت ہوتی ہے جب آپ کو بیماری کا شدید کیس ہو جس کی وجہ سے اندرونی خون بہہ رہا ہو۔ اندرونی خون بہنا جان لیوا خطرہ لاحق ہوتا ہے اور آپ کی بافتوں اور اعضاء کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ہیمو فیلیا ایک موروثی بیماری ہے۔ جِس میں عام طور پر مرد حضرات زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ہیمو فیلیا اے جو فیکٹر 8 کی کمی کے باعث ہوتا ہے اور ہیمو فیلیا Bجو فیکٹر 9 کی کمی کے باعث ہوتا ہے۔ اِ س بیماری میں مبتلا مریضوں میں خون جمانے والے ذرات کی کمی سے ہوتی ہے۔ ہیموفیلیا مختلف علامات اور علامات کا سبب بن سکتا ہے۔ چوٹ سے بہت زیادہ خون بہنا، خاص طور پر سرجری یا دانتوں کی صفائی یا علاج کے دوران، حفاظتی ٹیکوں سے غیر معمولی خون بہنا، جوڑوں کی تکلیف، ورم یا سختی، پاخانے یا پیشاب میں خون، چھوٹے بچوں میں چڑچڑا پن، دماغ میں خون کی کمی، شدید ہیموفیلیا والے کچھ افراد سر میں معمولی چوٹ کے بعد دماغ میں خون بہنے کا شکار ہو چکے ہیں۔
اگرچہ یہ اکثر نہیں ہوتا ہے لیکن یہ سب سے اہم مسائل میں سے ایک ہے جو پیدا ہو سکتے ہیں۔اِس بیماری کا علاج صاف اور صحت مند خون کا بر وقت انتقال ہے۔ جسے ( Fresh Frozen Plazma ) FFP بھی کہا جاتا ہے یا (Dry Factor ) ہیں جو انجکشن کی صورت میں دستیاب ہیں۔ ہیمو فیلیا میں مبتلا مریض کسی بھی قسم کا بھاری جسمانی کام یا ورزش نہیں کر سکتا۔اگر مرض شدت اختیار کرلے، تو کسی حادثے کے بغیر بھی مریض کے جسم سے خون خارج ہو سکتا ہے۔ خون سرخ و سفید خلیات، پلیٹ لیٹس اور پلازما پر مشتمل ہوتا ہے۔ پلازما میں خون جمانے والے فیکٹرز پائے جاتے ہیں، جن کا کام چوٹ لگنے کی صْورت میں خون بہنے کا عمل روکنا ہے۔ جب کسی عام صحت مند فرد کو چوٹ لگتی ہے، تو قدرتی طور پر ایک خاص وقت تک خون بہنے کے بعد اس پر خودبخود ایک جھلّی سی بن جاتی ہے۔ یہ عمل خون جمانے والے فیکٹرز انجام دیتے ہیں جبکہ جھلی خون روکنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ جھلی طبّی اصطلاح میں کلاٹ کہلاتی ہے۔ اگر جھلی بنانے والے پروٹین یعنی فیکٹرکی جین متاثر ہو جائے، تو پروٹین بننے کا عمل بھی رک جاتا ہے،
جس کے نتیجے میں خون جمنے کا عمل غیر موثر ہوکرہیموفیلیا کا سبب بنتاہے۔ یہ ایک موروثی مرض بھی ہے جو والدین سے بچّوں میں منتقل ہو سکتاہے۔ہیموفیلیا کی علامات مختلف ہوتی ہیں، جو کلاٹنگ فیکٹرز کے لیول پر انحصار کرتی ہیں۔ تاہم ممکنہ علامات میں کسی بھی قسم کی سرجری یادانت نکلوانے کے بعد خون کا رسائو، ناک سے مسلسل خون بہنا، پیشاب میں خون کا اخراج، مسوڑھوں سے خون رِسنا، جسم پر نیلے دھبّے پڑنا، جوڑوں میں درد اور سوجن وغیرہ شامل ہیں۔عمومی طور پر ابتدائی تشخیص اسی وقت ہوجاتی ہے، جب پیدایش کے وقت نومولود کی ناف کاٹنے یا ختنے کے بعد خون کافی دیر تک بہتا رہتا ہے۔ تاہم مرض کی تشخیص کے لیے خون کے نمونے میں کلاٹنگ فیکٹر 8 اور 9 کی مقدار معلوم کی جاتی ہے،جس کے بعد ہی ہیموفیلیا کی قسم اورشدت کا تعین کیا جاتا ہے، جو صرف ایک ماہرہیمو ٹولوجسٹ ہی کرسکتا ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ زیادہ تر شدید ہیموفیلیا سے متاثرہ مریض ہی ہیموٹولوجسٹس سے رجوع کرتے ہیں،کیوں کہ موڈریٹ اور مائلڈ ہیموفیلیک افراد کو علاج کی ضرورت تب پیش آتی ہے، جب ان کی کوئی سرجری ہو، کوئی حادثہ پیش آجائے یا پھر چوٹ وغیرہ لگ جائے۔ مائلڈ اور موڈریٹ ہیموفیلیا سے متاثرہ مریضوں کی زندگی قدرے بہتر ہوتی ہے۔ہیمو فیلیا اے فیکٹر8 اور ہیمو فیلیابی فیکٹر9 کی کمی کے باعث اورماں کے ذریعے بچوںمیں منتقل ہوتا ہے۔دراصل اس مرض کی جین ایکس کروموسوم میں پائی جاتی ہے