blogger'blog لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
blogger'blog لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 12 دسمبر، 2025

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

 


باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے 1960  ء کے لگ بھگ باؤ فاضل کے والد کا لاہو ر ریلوے اسٹیشن کے قریب معمولی سا ہوٹل تھا-       وہ اپنے والد کے چھوٹے سے چائے کے  ہوٹل میں مسافروں کے لئے چا ئے بناتے اور چائےکے گندے برتن بھی خود دھوتے تھے۔ باؤ کو یہ کام پسند نہ تھا۔خصوصاََ ان کو گاہکوں کے فضول قسم کے تبصرے سننا سخت نا پسند تھا۔ باؤ فاضل اپنا کوئی کام کرنا چاہتے تھے۔ ان دنوں فوٹو کھینچوانے کا بہت رواج تھا۔ چنانچہ آپ نے فوٹو گرافی کا کام کرنے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے والد سے کچھ رقم ادھار لے کر ایک پرانا سا کیمرا خریدا اور اندرون شہر دو موریہ پل کے قریب فٹ پاتھ پر اپناکیمرا سیٹ کیا۔ یہ سارا دن فٹ پاتھ پر تصویریں کھینچتے اور ساری رات ہوٹل کے چھوٹے سے سٹور میں تصویریں دھوتے اور ان کے پرنٹ تیار کرتے۔ ان کا کیمرا پرا نا تھا جس کی وجہ سے بعض اوقات کوئی تصویر خراب ہو جاتی تو گاہک وہ تصویر ان کے منہ پر دے مارتا مگر باؤ نےحوصلہ نہ چھوڑا اور دن رات کام کرتے رہے۔ یہ کام ان کو پسند تھا اس لئے وہ ہر ناپسندیدہ بات کو نظر انداز کرتے گئے ۔ پانچ چھ سال کی سخت محنت کے بعد انھوں نے کچھ پیسے جمع کر لئے اور اسٹیشن کے قریب ایک چھوٹی سی دکان خرید لی۔ اس طرح اپنا سٹوڈیو فٹ پاتھ سے دکان میں منتقل کر لیا۔ اب وہیں تصویریں کھینچتے، وہیں دھوتے اور پرنٹ تیار کرتے۔انہی دنوں فوٹو کاپی مشین نئی نئی پاکستان میں آئی تھی۔ 


انھوں نے بھی ایک فوٹو کاپی مشین خرید لی اور سارا دن فوٹو کاپی کرتے۔ ان کے خیال میں جس دن انھوں نے فوٹو کاپی مشین خرید ی اسی دن سے ان کی قسمت بدل گئی۔ اب ان کی آمدن میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا اور جلد ہی ان کی آمدن دوگنا ہو گئی،پھر انھوں نے دکان کی دوسری منزل بھی تعمیر کروا لی۔ 1970 ء میں ان کے دو بیٹے بھی ان کے کاروبار میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے اپنے کام کو بڑھایا ۔ اب یہ کیمرے کی فلم تھوک میں خریدتے اور پرچون میں فروخت کرتے۔ ان سے ان کو اچھا منافع ہوتا۔1980ء میں انھوں نے کلر لیب بنائی جہاں رنگین فوٹو تیار ہوتے۔ اب ان کا کام اور بڑھ گیا۔ باؤ کے بیٹے بھی باپ کی طرح مواقع کی تلاش میں رہتے۔ اب انھوں نے کیمرے کی فلم باہر سے منگوانی شروع کی اور اسے پاکستان میں تھوک میں فروخت کرتے۔ یہ فلم اور پرنٹنگ پیپر ’’مٹسوبشی‘‘ والوں سے منگواتے تھے۔ فلم اور پرنٹنگ کاغذ کے بزنس میں انھیں خوب کمائی ہوئی۔ 1995 ء میں یہ کیمرے کی فلم اور پرنٹنگ کاغذ کے ہول سیلر بن گئے۔اب انھوں نے نسبت روڈ چوک کے پاس چیمبر لین روڈ پر پہلے ایک چھوٹی سی دکان خرید ی کچھ عرصہ بعد اس کے ساتھ والی دکان بھی خرید لی۔1998ء کے لگ بھگ نئے ڈیجیٹل کیمروں کی وجہ سے کیمرے کی فلم اور پرنٹنگ کے کاغذ کا بزنس کچھ کم ہوگا۔ انہی دنوں ان کا چھوٹا بیٹا لندن سے  کر کے لوٹا تھا۔ وہ بھی والد کے بزنسمیں شامل ہو گیا۔ اسے کوئی نیاکام کرنے کا شوق تھا۔ 


چنانچہ انھوں نے پہلے انرجی سیور بلب اور پھر مٹرولا موبائل کا بزنس کیا۔ اس بزنس میں انھیں کوئی تجربہ نہ تھا جس کی وجہ سے انھیں کا فی نقصان اٹھانا پڑا۔باؤ فاضل کافی عرصہ سے’’مٹسو بشی‘‘ والوں کے ساتھ کیمرے کی فلموں اور پرنٹنگ کے کاغذ کا کاروبار کر رہے تھے۔ انھوں نے باؤ فاضل سے کہا کہ وہ پاکستان میں ان کی دوسری چیزیں بھی فروخت کریں۔ شروع میں یہ جھجکے مگر بعد ازاں ہامی بھر لی۔ چنانچہ ’’مٹسو بشی‘‘ والوں نے انھیں ان کے  فروخت کرنے کو کہا۔ باؤ فاضل نے پانچ سو   منگوائے اور معمولی منافع پر انکی فروخت کا اشتہار دیا۔ اس طرح یہ سارے   پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی فروختہ و گئے۔1998ء سے 2004 ء تک یہ’’مٹسو بشی‘‘ کے  معمولی منافع پر فروخت کرتے رہے تا کہ وہ ایک بار   کی مارکیٹ میں داخل ہو جائیں۔ پھر انھیں خود   تیار کرنے کا خیال آیا۔ چنانچہ باؤ فاضل نے 2005 ء میں چوہنگ کے قریب 10 لاکھ روپے میں 32 کنال زمین خرید کر’’ مٹسوبشی‘‘ کے تعا ون سے ان کے AC اسمبل کرنے کا پہلا پلانٹ لگایا۔ 2007ء میں اورینٹ گروپ نے اپنی چیزیں بھی بنانا شروع کیں۔ اب یہ ’’مٹسو بشی‘‘ کے AC کے علاوہ اپنے)ORIENT( AC


 ‘ فریج‘ اوون اور واٹر ڈسچارجر وغیر ہ بنا رہے ہیں اورینٹ گروپ نے بہت تیزی سے ترقی کی تو ان کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی۔ چنانچہ کوریا کی مشہور کمپنی Samsung والوں نے ان سے رابطہ کیا اور باؤ فاضل کے ساتھ مل کر کاروبار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ چنانچہ 2009 ء سے باؤ فاضلSamsung والوں کے ٹی وی‘ فریج اور واشنگ مشین وغیرہ پاکستان میں فروخت کر رہے ہیں۔باؤ فاضل صرف پندرہ سال پہلے اپنے تین بیٹوں اور دو ملازمین کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اب ان کی کمپنی میں پانچ ہزار لوگ کام کر رہے ہیں۔ فٹ پاتھ سے کام شروع کر نے والا باؤ فاضل 30 سال کی محنت کے بعد اب ارب پتی بن گئے اور مصری شاہ کے چار مرلے کے مکان کے بجائے گلبرگ میں ساڑھے چھ کنال کے خوبصورت گھر میں شفٹ ہو گئے۔ ان کے خیال میں ان کی کامیابی کی وجہ اپنے رب پر بھر پور یقین، کام ، کام اور کام یعنی سخت محنت، کامیاب ہونے کی جستجو، نیک نیتی سے کام کرنا اور احساس کمتری کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دینا ہے۔ باؤ فاضل پر ایسا وقت بھی آیا جب وہ تین تین دن بھوکے رہتے، کھانا نصیب نہ ہوتا مگر پھر بھی انھوں نے کوشش ترک نہ کی اور ثابت قدم رہے۔محمد فاضل انتقال کر گئے ہیں مگر ان کی اولا د پھل پھول رہی ہے۔آپ نے اورینٹ کا نام یقیناََ سنا ہو گا۔ یہ کمپنی ائر کنڈیشنر سے لے کر مائیکرو ویو تک گھریلو مشینری بنا تی ہے ۔ یہ کمپنی باؤ فاضل نام کے ایک ان پڑھ شخص نے بنائی اور انہوں نے اسے اللہ کے کرم اور شبانہ روز محنت سے پاکستان کے بڑے صنعتی گروپوں کی قطار میں لا کھڑا کیا۔آپ نے اورینٹ کا نام یقیناََ سنا ہو گا۔ یہ کمپنی ائر کنڈیشنر سے لے کر مائیکرو ویو تک گھریلو مشینری بنا تی ہے ۔یہ کمپنی باؤ فاضل نام کے ایک ان پڑھ شخص نے بنائی اور انہوں نے اسے اللہ کے کرم اور شبانہ روز محنت سے پاکستان کے بڑے صنعتی گروپوں کی قطار میں لا کھڑا کیا۔

//

جمعرات، 11 دسمبر، 2025

لاہورکی سینڑل جیل میں فیض احمد فیض کے قید کے دن

 

بھائی کی موت کے کچھ ہی عرصہ بعد عزیز دوست رشید جہاں   کے ماسکو میں گزر جانے کی خبر ملی۔ ایلس کو خط میں لکھارشید کے ماسکو میں مرنے کی خبر کل پڑھی۔ اگر میں جیل سے باہر ہوتا تو شاید زارو قطار روتا لیکن اب تو رونے کو آنسو ہی باقی نہ                                         رہے۔فیض کے دل پر جو بیت رہی تھی اس کا تخلیقی اظہار ان کی شاعری میں ہورہا تھا، ان کی کئی عمدہ نظمیں اسی زمانے میں لکھی گئیں جب وہ پسِ دیوار زنداں تھے۔ یہ زمانہ ذاتی حوالے سے عہد زیاں تھا لیکن تخلیقی اعتبار سے بہت بار آور رہا۔دونوں میاں بیوی جگ بیتی   خطوط کی صورت رقم کر رہے تھے۔ فیض کے خطوط برسوں بعد انھی کے قلم سے ترجمہ ہو کر ’صلیبیں مرے دریچے میں‘ کے عنوان سے                   دنیا کےسامنے آ ئے۔ ایلس کے خطوط ’ڈیئر ہارٹ‘ کے نام سے انگریزی میں شائع ہوئے۔ ان کا اردو میں ترجمہ 'عزیز دلم' کے عنوان سے نیر رباب نے کیا۔ یہ خطوط ان کی زندگی کی ظاہری اور باطنی کیفیات کو سمجھنے میں بہت مدد دیتے ہیں۔اس کے بارے میں میں فیض کے دوست شیر محمد حمید نے لکھا’فیض ایک لا ابالی، بے نیاز این و آں اور خود فراموش سا نوجوان تھا۔ ایلس نے اس کی زندگی میں ترتیب اور سنوار پیدا کر دی۔ اس کی بے قرار روح کو ایک حسین قالب میسر آ گیا۔


 ایلس نے مغرب اور اس کی تہذیبی روایات کو خیر باد کہہ کر مشرق اور اس کی ثقافتی اقدار کو اپنا لیا۔ دیس کے ساتھ بھیس اور وطن کے ساتھ زبان قید خانے میں میں فیض کے دل پر جو بیت رہی تھی   وہ تو ان کا دل ہی جانتا ہو گا لیکن چونکہ وہ کرب کے دور سے گزر رہے تھے  ان کے قلم  سے  اس کا تخلیقی اظہار ان کی شاعری میں ہورہا تھا، ان کی کئی عمدہ نظمیں اسی زمانے میں لکھی گئیں جب وہ پسِ دیوار زنداں تھے۔ یہ زمانہ ذاتی حوالے سے عہد زیاں تھا لیکن تخلیقی اعتبار سے بہت بار آور رہا۔ دونوں میاں بیوی جگ بیتی اور ہڈ بیتی خطوط کی صورت رقم کر رہے تھے۔ فیض کے خطوط برسوں بعد انھی کے قلم سے ترجمہ ہو کر ’صلیبیں مرے دریچے میں‘ کے عنوان سے سامنے آ ئے۔ ایلس کے خطوط ’ڈیئر ہارٹ‘ کے نام سے انگریزی میں شائع ہوئے۔ ان کا اردو میں ترجمہ 'عزیز دلم' کے عنوان سے نیر رباب نے کیا۔ یہ خطوط ان کی زندگی کی ظاہری اور باطنی کیفیات کو سمجھنے میں بہت مدد دیتے ہیں۔’عزیز دلم‘ میں شامل آخری خط میں ایلس نے اپنے محبوب سے کہا’میری زندگی میں اور ہے کیا، تمھاری محبت، تمھارا انتظار اور تمھارے ساتھ مستقبل کے خواب۔ فیض صاحب   کو   حکومت وقت نے جب    لاہور سینڑل جیل میں    پابند سلاسل کر دیا تھا۔


وہ اُن دنوں علیل رہتے تھے۔ ایک روز اُن کے دانت میں سخت درد اُٹھا- جیل کے حکام نے اُنہیں پولیس کی حفاظت میں چیک اپ کرانے کے لیے دانتوں کے اسپتال بھیج دیا۔ ڈاکڑ صاحب اُن کے پرستاروں میں سے تھے لہٰذا اُنہوں نے روزانہ چیک اپ کے لیے بلانے کا طریقہ اختیار کیا تاکہ اس طرح جیل کے ماحول سے کچھ دیر کے لیے اُنہیں نَجات حاصل ہو جایا کرے- یوں روزانہ اُنہیں جیل کی گاڑی میں اسپتال لایا جاتا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ جیل والوں کے پاس گاڑی نہیں تھی- جیلر نے اُنہیں تانگے میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس صورت میں انہیں ہتھکڑی پہنانا ضروری تھا۔ فیضؔ صاحب مان گئے- اس طرح وہ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنے تانگے کی پچھلی نشست پر بیٹھ گئے- پولیس کے سپاہی بندوق لیے اُن کے ساتھ تھے۔ اس حال میں وہ لاہور کے گلی کوچوں سے گزرے، انہوں نے تازہ ہوا کو محسوس کیا۔


 بازاروں سے گزرتے ہوئے خوانچے والے، تانگے والے، بیل گاڑیاں سب بچھڑے ہوئے یاروں کی طرح اُن کے قریب سے گزرتے رہے- عجیب منظر تھا- وہ لاہور شہر کی جانی پہچانی سڑکوں سے گزرتے رہے- شہر اور اہلیانِ شہر یہ تماشا دیکھتے رہے- شاید کچھ لوگوں نے اُنہیں پہچان بھی لیا ہو- ارد گرد لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا جن میں نانبائیوں سے لیکر صحافیوں تک سبھی شامل تھے- اس طرح ایک جلوس کی شکل بن گئی- فیضؔ صاحب کہتے تھے میں نے زندگی میں ایسا دلکش جلوس نہیں دیکھا- اسی واقعہ سے متاثر ہو کر اُنہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم لکھی

 "آج بازار میں پابجولاں چلو۔"

چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں

تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پا بہ جولاں چلو

دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو

خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو

راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو

حاکم شہر بھی مجمع عام بھی

تیر الزام بھی سنگ دشنام بھی

صبح ناشاد بھی روز ناکام بھی

ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے

شہر جاناں میں اب با صفا کون ہے

دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو

پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو

زینبِ علیا ،بنت نبی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم)

 

سیّدالاصفیا ء خاتم الانبیاء تاجدار دوعالم حضرت رسول خدا محمّد مصطفٰے صلّی ا للہ علیہ واٰلہ وسلّم کی پیاری بیٹی جناب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کیآغوش مبارک میں گلستان نبوّت کی ایک تروتازہ کلی نے آنکھ کھولی تو آ پ سے دو برس بڑے بھائ اپنے والد گرامی حضرت امیرالمومنین کی انگلی تھام کر اپنی مادر گرامی کے حجرے میں آئے ،اور ننھی بہن کے ننّھے ملکوتی چہرے کو مسکرا کر دیکھا اور پھر اپنے پدر گرامی مولائے متّقیان کو دیکھ کر مسکرائے  اور سلطان اولیاء مولائے کائنات نے اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے چھپاتے ہوئے فرمایا کہ ,حضرت محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم تشریف لے آئیں توبچّی کا نام بھی آپ ہی تجویز کریں گے جس طرح اپنے نواسوں کے نام حسن وحسین تجویز کئے تھےنبئ اکرم ہادئ معظّم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بی بی زینب کی ولاد ت کے وقت شہر مدینہ سے باہر حالت سفر تھے۔چنانچہ تین دن کے بعدسفرسے واپس تشریف لائے تو حسب عادت سب سے پہلے بی بی سیّدہ کےسلام اللہ علیہا حجرے پر تشریف لائے جہاں جناب فاطمہ زہرا کی آغو ش مبارک میں ننّھی نواسی جلوہ افروز تھی 


آپ نے وفورمحبّت و مسرّ ت سے بچّی کو آغوش نبوّت میں لیا اور جناب حسن وحسین علیہم السّلام کی مانند بچّی کےدہن مبارک کو اپنےپاکیزہ ومعطّر دہن مبارک سے آب وحی سےسرفراز کیا جناب رسالت مآ ب سرور کائنات حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بچّی کو آغوش نبوّت میں  لئے ہوئے نگاہ اشتیاق سےننّھی نواسئ معصومہ کا چہرہ دیکھتے رہے جہاں بی بی خد یجتہ الکبریٰ کی عظمت و تقویٰ اور جناب سیّدہ سلام اللہ علیہاٰ کے چہرے کے نورانی عکس جھلملا رہے تھےوہیں آپ صلعم کے وصی اور اللہ کے ولی مولا علی مرتضیٰ کا دبد بہ اور حشمت ہویدا تھی ننّھی نواسی کا ملکوتی چہرہ دیکھ کر حضور اکرم حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہواٰ لہ وسلّم کا چہرہء مبارک خوشی سے کھلا ہوا تھااور اسی وقت بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے محترم بابا جان سے مخاطب ہوئیں بابا جان ہم س انتظار میں تھے کہ آپ تشریف لے آئیں تو بچّی کا نام تجویز کریں تاجدار دوعالم  صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا سے فرمایا کہ بیٹی میں اس معاملے میں اللہ کے حکم کا پابند ہوں جبرئیل امیں کے آنے پر ہی بچّی کا نام تجویز ہوسکے گا ،،اور پھر اسی وقت آپ کے رخ انور پر آثار وحی نمودار ہوئے اور آ پ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہرا کے سر پر ہاتھ  رکھّا اور مولائے کائنات کو اپنے قریب بلاکر فرمایا گلستان رسالت کی اس کلی کا نام جبرئیل امیں بارگاہ ربّ العالمین سے‘‘ زینب ‘‘  لے کر آئےہیں


یہی نام وہاں لو ح محفوظ پر بھی کندہ ہےبیت الشّرف میں اس نام کو سب نے پسند فرمایا ،پھر رسالتماآب صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعاء کی اے تمام جہانوں کے سب سے بہترین مالک میں تیری حمد وثناء بیان کرتے ہوئے تجھ سے دعاء مانگتا ہوں کہ تو نے  جس طرح ہمارے بچّوں کو دین مبین کی حفاظت کا زریعہ قرادیا ہے اسی طرح اس بچّی کو بھی عزّت اور سعادتو ں سے بہرہ مند فرما ،میں تیرے کرم کا شکر گزار ہوں۔اس دعائے شکرانہ میں جناب حضرت فاطمہ زہرا اور جناب حضرت علی مرتضٰی بھی شامل ہو ئےاور پھر گلستان رسالت کی یہ ترتازہ کلی ہوائے مہرو محبّت میں پروان چڑھنے لگی _وہ جس گھر میں آئ تھی یہ دنیا کا کوئ عام گھرانہ نہیں تھا یہ گھر بیت الشّرف کہلاتا تھا ،اس محترم گھر کے مکین اہل بیت کے لقب سے سرفراز کئےگئے تھے ،اس پاکیزہ و محترم گھرکے منّو ر و ہوائے بہشت سےمعطّر آنگن میں پیغا مبر بزرگ فرشتے حضرت جبرئیل امیں وحی پروردگارعالم عرش بریں سے لےکراترتے تھے اس میں اقامت پذیر نورانی ہستیوں پر ملائکہ اور خود اللہ  درود و سلام بھیجتے تھے اور پھر بوستان محمّد کی یہ ترو تازہ کلی جس کا نام زینب( یعنی اپنے والد کی مدد گار) پرورد گار عالم نے منتخب کر کے لوح محفوظ پر کندہ کر دیا تھا ،



 پھر یہ ننھی کلی  بوستان نبوت کے آنگن  کی پُر نور فضائے مہرومحبّت میں پروان چڑھنے لگی-  بچپن  کی ہی عمر میں چادر کساء کے زیر سایہ اس گھر کے مکینوں سے زینب سلام اللہ علیہا نے نبوّت و امامت کے علوم کے خزینے اپنے دامن علم میں سمیٹے توآپ سلام اللہ علیہا کی زبان پر بھی اپنے باباجان علی مرتضیٰ علیہ اسّلام اور والدہ گرامی جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کی مانند اللہ کی حمد و ثناء ومناجا ت کے پھول کھلنے لگے ،بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بابا جان کو اور مادرگرامی کو  اور اپنے نانا جان حضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو،فقرا و مساکین کو حاجتمندوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا تھا ،یہ وہ متبرّک ہستیاں تھیں جو اپنی بھوک کو سائل کی بھوک کے پس پشت رکھ دیتے تھے،کسی بھی سوال کرنے والے کے سوال کو سوالی کااعزاز بنا دیتے تھے مشورہ مانگنے والے کو صائب مشورہ دیتے تھے۔ہادیوں کے اس گھرانے کو کوئ دنیاوی معلّم تعلیم دینے نہیں آتا تھا ،یہاں تو بارگاہ ربّ العا لمین سے حضرت جبرئیل امیں علوم کےخزانے بزریعہ وحئ الٰہی لا کر بنفس نفیس دیتے تھے چنا نچہ انہی سماوی و لدنّی علوم سےبی بی زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت کو مولائے کائنات اور بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا نے سنوارااور سجایا ،آپ جیسے ،جیسے بڑی ہونے لگیں آپ کی زات میں بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی زات کے جوہر اس طرح نکھرنے لگے کہ آپ کو د یکھنے والی مدینے کی عورتو ں نے آپ کا لقب ہی ثانئ زہراسلام اللہ علیہا  رکھ دیا۔ .


بدھ، 10 دسمبر، 2025

جب فیض احمد فیض غدار قرار دے کر پابند سلاسل کئے گئے

 یک اور خط میں بتایا:’پریشانیوں کا ایک سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہےفیض کو اہلیہ کی کلفتوں کا خوب احساس تھا۔ وہ ان کے سائیکل پر سفرکے حق میں بھی نہیں تھے۔  ’لاہور کے موسم کی خبروں سے   تشویش رہتی ہے۔ اس موسم میں جب تپتے ہوئے دفترسے تمھارے بائسکل پر اپ گھر آنے کا سوچتا ہوں تو اس خیال سے بچنے کے لیے زور سے آنکھیں میچ لیتا ہوں۔ اگر تم اتنا لکھ دو کہ ایک آدھ مہینے کے لیے تم نے سائیکل چلانا بند کردیا ہے تو کچھ اطمینان ہوگا۔ اس میں کچھ خرچ تو بڑھ جائے گا لیکن ایسا بھی کیا خرچ ہوگا۔ وعدہ ہے کہ ہم یہ پیسے پورے کردیں گے۔‘ایلس ہمدم و ہم ساز سے کہتی ہیں: ’سائیکل سے گھر آنا جانا یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم ٹانگے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے‘سردی کی شدت بھی بیوی اور دونوں بیٹیوں  کی یاد دلاتی ہے۔لاہور کا درجہ حرارت دیکھتا ہوں تو جھرجھری سی آ جاتی ہے اور اس خیال سے کہ اس غضب کی ٹھنڈک اور تنہائی میں تم پر اور بچوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔دل دکھتا ہے۔‘ایلس سگھڑ بیوی کی طرح گھر چلا رہی تھیں۔ کفایت شعاری سے کام لیتیں۔ مہنگائی سے گھریلو بجٹ متاثرہونے پرقیدی شوہر کو صورت حال سے آگاہ کیا جاتا


فیض کے نام خطوط سے چند منتخب اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’ لاہور میں رہنا مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ 16روپے من آٹا ہوگیا ہے اور ہم مشکل سے گزارا کر پا رہے ہیں۔‘’آخر یہ حکومت کر کیا رہی ہے؟ لوگ بھوک سے مررہے ہیں۔ کل میں نے سولہ روپے کا ایک من آٹا خریدا۔ پچھلے سال مارچ میں جب تم گئے تھے تو من بھر آٹے کی قیمت نو روپے تھی‘ (میں نے اپنی حساب کی پرانی ڈائری میں چیک کیا تھا۔)’چیزوں کی قیمتوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ ٹوتھ پیسٹ کی ایک ٹیوب تین روپے بارہ آنے کی، لکس صابن کا ایک پیکٹ چار روپے کا، ہم نے گھر میں ٹوتھ پاﺅڈربنا لیا تھا جو دو مہینے چلا۔‘اضافی یافت کے لیے ایک طالب علم کو انگریزی بھی پڑھائی۔ وائی ایم سی اے سے شارٹ ہینڈ کا کورس اس لیے کیا کہ نوکری جاتی رہے تو یہ کہیں اور کام کے لیے کام آ سکے۔ نوکری کے تین برس ہونے پر تنخواہ میں اضافے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں۔ایک دفعہ آموں کا موسم آنے پر شوہر رہ رہ کر یاد آیا۔ خط میں لکھا:خط کے ذریعے فیض اور ایلس کی آدھی ملاقات ہو جاتی تھی۔ ’آموں کا موسم ہے اور میرا دل اداس ہے، مجھے یاد آتا ہے جب تم دوپہر کو کھانے پر گھر آتے تو بڑے بڑے آموں سے بھرا ایک تھیلا تمھارے ہاتھ میں ہوتا اور کبھی بھولتے نہیں تھے۔‘


 شوہر بھی صابر شاکر، راضی برضا، ایک خط میں بیوی سے کہا:تم نے پوچھا ہے کہ تمھارے لیے ساتھ کیا لاﺅں؟ تم خود آجاﺅ اور ان دو ہنستے ہوئے چہروں کو ساتھ لیتی آﺅ، اس سے زیادہ مجھے اور کیا چاہیے۔‘ایلس کو تنہائی ستاتی اور وہ تلخیِ ایام کا ذکر خطوں میں کرتیں تو جواب ملتا:’ دن بہت آہستہ آہستہ گزر رہے ہیں اور ہر گزرنے والا دن دل کی سطح پر کراہت اور درد کا ایک ہلکا سا غبار چھوڑ جاتا ہے لیکن چند روز اورمری جان فقط چند ہی روز۔‘ تم نے اپنے گھر کی تنہائی کا ذکر کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ تنہائی کتنی کڑی اور جدائی کے لمحے کتنے گراں ہیں۔‘دونوں میاں بیوی خطوں میں دنیا جہاں کی باتیں کرتے، ذاتی دکھ درد، موسم، باغ باغیچے، بچوں کی باتیں، لوگوں کے رویے، کتابوں کی اشاعت کے معاملات اور بہت کچھ،فیض جیل میں جو کچھ پڑھتے اس کے بارے میں تاثرات سے اہلیہ کو آگاہ کرتے۔ کتابیں جیل بھجوانے کا تقاضا کرتے۔ ایک دفعہ چیخوف کے ڈرامے ’تھری سسٹرز‘ پڑھنے کو جی چاہا۔ ایلس سے فرمائش کی جو پوری کردی گئی۔ اس پر خوش ہوکر لکھا



’مجھے خوشی ہے کہ تم نے مجھے چیخوف کی کتاب بھیج دی۔ پڑھنے میں بہت لطف آ رہا ہے۔ چیخوف کی تحریر سے کتنا گہرا پیار اور کتنی بے پناہ شفقت ٹپکتی ہے۔‘ ایلس بھی کتاب پڑھنے سے حاصل ہونے والی خوشی کے بارے میں شوہر کو بتاتیں:’میں رابرٹ برائوننگ کی سوانح عمری پڑھ رہی تھی، بہت زبردست ہے۔ کیا نفیس انسان تھا اور کیا بہترین شاعر، دل سوزی بھی اور سریلا پن بھی۔ اس کتاب میں چند خطوط بھی شامل ہیں جو اپنی ذات میں خالص شاعری ہیں۔‘خط کے ذریعے دونوں کی آدھی ملاقات ہوجاتی تھی۔ جیل میں بالمشافہ ملاقات ذاتی اعتبار سے جاں گسل ہوتا۔ اس کے لیے ایلس کو تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا خاص طور پر گرمیوں میں حیدر آباد جیل جانے کے لیے لمبا سفر انھیں نڈھال کر دیتا۔ بعض دفعہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے سفرمؤخر کرنا پڑتا۔جیل میں بیوی بچوں کی جدائی کا غم اپنی جگہ عذاب ضرور تھا لیکن بہرحال یہ آس تو تھی کہ بھلے دن بھی آئیں گے لیکن حیدر آباد جیل میں انھیں بھائی کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا جو اس لیے بھی زیادہ شدت اختیار کر گیا کہ عزیز از جان بھائی طفیل ان سے ملنے کے مقررہ وقت سے کچھ ہی دیر پہلے اچانک جاں سے گزر گیا۔ غم زدہ فیض نے بیوی کو لکھا: آج صبح میرے بھائی کی جگہ موت میری ملاقات کو آئی۔‘

بھائی کی موت پر شکستہ دل شاعر نے یہ مرثیہ تحریر کیا:

 مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے

لے گئے ساتھ مری عمرِ گذشتہ کی کتاب

اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں

اس میں بچپن تھا مرا، اور مرا عہدِ شباب

 اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے

اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوںرنگ گلاب

کیا کروں بھائی، یہ اعزاز کیونکر پہنوں

مجھ سے لے لومری سب چاک قمیصوں کا حساب

آخری بار ہے، لو مان لو اک یہ بھی سوال

آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوس جواب

آ کے لے جاﺅ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول

مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گذشتہ کی کتاب

جاری ہے

منگل، 9 دسمبر، 2025

جگنی -جڑی نام علی دا لیندی آ- فخر پاکستان لوک گلوکارعالم لوہار

  محمد عالم لوہار خطۂ پنجاب پاکستانی حصہ کے ایک مشہور پنجابی لوک موسیقی فنکار تھے۔ انہوں نے موسیقی کی اصطلاح  میں جگنی کو متعارف کرایا جو پنجابی لوک موسیقی میں بہت مقبول ہے۔ 

جگنی

میں ہر سانس کے ساتھ امام علی کا نام پڑھتا ہوں۔

میں ہر سانس کے ساتھ امام علی کا نام پڑھتا ہوں۔

اب خدائی روشنی کا مشاہدہ کریں۔

شبنم کے قطروں کی طرح

میں نے پیار کی دعا مانگی ہے۔

اور سارے غم دور ہو جاتے ہیں۔

تو میں جگنی گاتا ہوں۔

میں آپ کی جگنی گاتا ہوں۔

میں گاتا ہوں تیری جگنی اپنے محبوب کی

اللہ بسم اللہ تیری جگنی

ہاں! تیری جگنی، میرے محبوب

 عالم لوہار کی پیدائش 01 مارچ 1928ء میں تحصیل کھاریاں ضلع گجرات کے ایک قصبہ  میں ہوئی۔ ان کے والد ان کی خوش الحانی کی وجہ سے انہیں قاری بنانا چاہتے تھے مگر ان کا اپنا رجحان لوک داستانیں گانے کی طرف تھا چنانچہ وہ اپنے اس شوق کی تکمیل کے لئے اپنا گھر چھوڑ کر تھیٹریکل کمپنیوں سے وابستہ ہوگئے اور نہایت کم عمری میں بہت مقبول ہوگئے۔قیام پاکستان کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان اور پھر پاکستان ٹیلی وژن سے بھی اپنے فن کا جادو جگایا اور پاکستان کے مقبول ترین لوک گلوکاروں میں شمار ہونے لگے۔عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال فن حاصل تھا ۔ ان کے گائے ہوئے پنجابی گیتوں کی خوشبو آج بھی جابجا بکھری ہوئی ہے ۔ان کی خاص پہچان ان کا چمٹا تھا ۔ انہوں نے چمٹے کوبطور میوزک انسٹرومنٹ  دنیا کو ایک نئے ساز سے متعارف کرایا۔ انہوں نے کم عمری سے گلوکاری کا آغاز کیا۔ وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے۔ ان کی گائی ہوئی "جگنی "آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔


" جگنی "اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکا۔ جگنی کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور کی اردو اور پنجابی فلموں میں بھی "جگنی "کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا جبکہ جگنی کی پکچرائزیشن بھی انہی پر ہوئی ۔ "جگنی "کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اورمنفرد دھنیں بھی تخلیق کیں جن میں"دھرتی پنج دریاں دی" بہت مقبولیت ہوئی ۔عالم لوہارکی گائیکی کا انداز منفرد اور اچھوتا تھا جو اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک جہاں پنجابی اور اردو زبان نہیں سمجھی جاتیں وہاں بھی لوگ ان کی خوبصورت دھنوں پر جھوم اٹھتے تھے ۔چمٹا بجانے کے ساتھ ساتھ گلوکاری کا فن اگرچہ محدود ہوگیا ہے اور چمٹا بجانے والوں کی تعداد تقریباً ختم ہوتی جارہی ہے لیکن عالم لوہار کے بیٹے عارف لوہار نے چمٹے سے چھڑنے والی نئی سے نئی دھنوں کے ذریعے نہ صرف اپنے والد کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ وہ خود بھی اس فن میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔ انہوں نے کم عمری سے گلوکاری کا آغاز کیا۔


عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال کا فن حاصل تھا، ان کے گائے ہوئے پنجابی گیتوں کی خوشبو آج بھی جابجا بکھری ہوئی ہے۔ان کی خاص پہچان ان کا چمٹا تھا،وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے، ان کی گائی ہوئی جگنی آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔جک گنی اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکا۔جگنی کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اور منفرد نغمے تخلیق کئے جن میں اے دھرتی پنج دریاں دی، دل والا دکھڑا نئیں، جس دن میرا ویاہ ہو وے گا، قصّہ سوہنی ماہیوال کا گیت، وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔عالم لوہار کی گائیکی کا انداز منفرد اور اچھوتا تھا جو اندرونِ ملک ہی نہیں بیرونِ ملک جہاں پنجابی اور اردو زبان نہیں سمجھی جاتیں وہاں بھی لوگ ان کی خوبصورت دھنوں پر جھوم اٹھتے تھے، خصوصاً قصّہ ہیر رانجھا اور قصّہ سیف الملوک آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔چمٹا بجانے کے ساتھ ساتھ گلوکاری کا فن اگرچہ محدود ہوگیا ہے


 اور چمٹا بجانے والوں کی تعداد تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے لیکن عالم لوہار کے بیٹے عارف لوہار نے چمٹے سے چھڑنے والی نئی سے نئی دھنوں کے ذریعے نہ صرف اپنے والد کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ وہ خود بھی اس فن میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال کا فن حاصل تھا، ان کے گائے ہوئے پنجابی گیت آج بھی سماعتوں پر وجد طاری کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے۔عالم لوہار کا’’چمٹا‘‘ بھی ان کی ایک الگ پہچان بنا۔ان کی گائی ہوئی جُگنی آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔ان کی گائی ہوئی جُگنی اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکاجُگنی کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اور منفرد نغمے تخلیق کئے جن میں اے دھرتی پنج دریاں دی، دل والا دکھڑا نئیں، جس دن میرا ویاہ ہو وے گا، قصّہ سوہنی ماہیوال کا گیت، وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔ خصوصاً قصّہ ہیر رانجھا اور قصّہ سیف الملوک آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔ انہوں نے عالم لوہار کو’’شیر پنجاب‘‘ کا خطاب بھی دیا۔حکومت پاکستان نے ان کی فنی خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دی-ہمارا یہ ہونہار فنکار  لالہ موسیٰ کی  خاک میں محو آرام ہے اللہ کریم مرحوم کو اپنی رحمت کی ٹھنڈی چھاؤں عطا فرمائے آمین

کراچی کے مین ہولز پر ڈھکن کون لگائے گا

    

 کراچی کے مین ہولز پر ڈھکن کون لگائے گا  -کچھ مہینے پہلے بھی  کراچی ہی میں  ایک معصوم بچہ کھلے گٹر میں جاں بحق ہوا تھا اور جب مئر کراچی پر انگلیاں اٹھیں تو انہوں نے بیان دیا تھا کہ یہ میرا کام نہیں کہ میں گلیوں میں گٹر کے دھکن لگواؤں-پیپلز  پارٹی سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اگر آپ کے ایجنڈےمیں کراچی کی فلاح شامل نہیں ہے  تو برائے مہربانی اس  شہر کو 100 سال کیلیز پر چائنا کو دے دیجئے  کراچی پاکستان کا معاشی انجن، تین کروڑ سے زائد آبادی کا شہر اور ساحلی خطّے کا اہم ترین معاشی و ماحولیاتی مرکز آج بنیادی شہری انفرااسٹرکچر کے انہدام کا ایسا شکار ہے کہ یہاں رہائش، نقل و حمل، نکاسی آب، صحتِ عامہ اور ماحول کے ہر شعبے میں سنگین بحران جنم لے چکے ہیں۔ یہی بگاڑ بالآخر ایسی دل دہلا دینے والی خبروں میں ڈھلتا ہے "بچّہ گٹر میں گر کر جاں بحق۔”گزشتہ دنوں کمسن ابراہیم کا گٹر میں گر کر موت کے منہ میں چلے جانا کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا، اور یہی اس شہری سانحے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ کراچی میں کھلے مین ہولز، ٹوٹے ڈھکن، غیر تسلی بخش نکاسی آب اور برسوں سے نظرانداز کردہ شہری منصوبہ بندی نے بچوں کی زندگیوں کو روزانہ کی بنیاد پر خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ ابراہیم کی موت ایک سوال ہے، آخر کراچی جیسا شہر، جس کی معیشت پورے ملک کو سہارا دیتی ہے، اپنے بچوں کے لیے بھی محفوظ کیوں نہیں؟آج کھلے مین ہولزایک خاموش قاتل کا روپ دھار چکے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں اور گلیوں‌ کے سیکڑوں مین ہولز کے ڈھکن نہیں ہیں۔ کچھ برساتی پانی میں چھپ جاتے ہیں، کچھ چوری ہو جاتے ہیں، اور کچھ محکمہ جاتی غفلت کا نتیجہ ہی


 بدقسمتی سے یہ صورتحال کوئی عارضی بے ترتیبی کی نہیں بلکہ شہر کے پورے نکاسی آب کے نظام میں موجود دیرینہ بدانتظامی کی علامت ہے۔ کے یم سی، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن، ڈی ایم سیزاور دیگر اداروں کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی صورتحال کے بگاڑ میں بنیادی کردار کی حامل ہے۔ غیر مربوط شہری منصوبہ بندی، سڑکوں اور سیوریج لائنوں کی مرمت میں بے حد تاخیر، بارشوں کے بعد ہنگامی اقدامات کا فقدان یہ تمام عوامل مل کر ایسے سانحات کو مسلسل جنم دیتے ہیں جن کا شکار وہ بچے بنتے ہیں جن کے کندھوں پر قوم کا مستقبل رکھا جاتا ہے۔ابراہیم کے ساتھ ہونے والا اور اس جیسے دوسرے حادثات صرف بدانتظامی نہیں بلکہ موسمیاتی بحران کے بڑھتے اثرات سے بھی جڑے ہیں۔ کراچی سمندر کے ساتھ واقع ایک کم بلندی اور گنجان آبادی والا شہر ہے جہاں بارشیں معمول سے کہیں زیادہ اور شدید ہو رہی ہیں جس کے نتیجے میں شہری سیوریج سسٹم کا بار بار اوور فلو ہونا معمول بن چکا ہے۔ شہر کے کئی علاقے عارضی جھیلوں میں بدل جاتے ہیں اور مین ہولز کے ساتھ کھلے نالے پانی میں ڈوب کر موت کے جال بن جاتے ہیں۔ ماہرین پہلے ہی متنبہ کرچکے ہیں کہ کراچی جنوبی ایشیا کے ان شہروں میں شامل ہے جو شدید موسمیاتی خطرات کے مرکز میں داخل ہو چکے ہیں۔


یعنی اگر شہری انفرااسٹرکچر پہلے ہی بوسیدہ ہو تو ماحول اور موسم میں ہر معمولی تبدیلی بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ کراچی کا بنیادی انفرا اسٹرکچر کم از کم دو دہائیوں سے زوال کا شکار ہے۔ سیوریج لائنیں پرانی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے پاس فنڈز اور عملے کی کمی ہے، غیر رسمی بستیوں میں بغیر نقشے کے تعمیرات کھلے عام ہو رہی ہیں اور کوئی ادارہ انہیں روکنے والا نہیں، نالوں پر تجاوزات اور ان پر بنے غیر سائنسی ڈھانچے شہری انفرااسٹرکچر کا منہ چڑا رہے ہیں، کچرے اور پلاسٹک کے بوجھ سے بند ہوتی ڈرینج اور سولڈ ویسٹ کے مسائل، ان سب عوامل نے مل کر پاکستان کے معاشی حب کو ناقابل رہائش شہر میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایسے شہر میں مین ہول کا کھلا ہونا محض ایک غفلت نہیں بلکہ انتظامی ذمے داریوں کے پورے نظام کا انہدام ہے۔کیا یہ ماحولیاتی مسئلہ ہے یا انتظامی؟ اصل میں دونوں۔ یہ امر اب حقیقت بن چکا ہے کہ کراچی کے شہری مسائل اب ایک اجتماعی بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں، جہاں، موسمیاتی تبدیلی، سمندر کی سطح میں اضافہ، اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ، سیلابی بارشیں اور شہری اداروں کی بدانتظامی کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی چپقلش یہ سب ایک ہی لڑی میں جڑ چکے ہیں۔ ابراہیم کی موت اسی بڑے ماحولیاتی و شہری بحران کی ایک المناک مثال ہے۔


اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ ہر سانحے کے بعد یہی سوال اٹھتا ہے، مین ہول کس نے کھلا چھوڑا؟ ذمہ دار کون ہے؟ اداروں نے بروقت کارروائی کیوں نہ کی؟ احتیاطی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ لیکن ان سوالات کے جواب کبھی نہیں ملتے، اور کچھ دن بعد زندگی معمول پر آ جاتی ہے، تاوقتیکہ کوئی نیا ابراہیم ایک اور کھلے مین ہول میں گر کر جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔اگر کراچی کو محفوظ شہر بنانا ہے تو چند بنیادی اقدامات فوری طور پر ناگزیر ہو چکے ہیں جن میں سیوریج سسٹم کی مکمل آڈٹ اور ری ڈیزاننگ، پرانی اور ٹوٹی لائنوں کی ہنگامی تبدیلی، مین ہول مانیٹرنگ سسٹم، GPS ٹیگ شدہ، لاکڈ کور، اور موبائل ایپ رپورٹنگ سسٹم۔شہری اداروں کے درمیان اختیارات کی وضاحت، کے یم سی، ڈی ایم سیز، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے درمیان مربوط حکمت عملی۔ بارشوں کے دوران ایمرجنسی رسپانس یونٹ، ہر علاقے میں مین ہول کور کی مستقل نگرانی کے ساتھ شہر کی ماحولیاتی منصوبہ بندی، کلائمیٹ رسک بیسڈ اربن پلاننگ، تاکہ شہر کو آنے والے موسمیاتی واقعات سے محفوظ رکھا جا سکے۔عوامی آگاہی کی مہمات، گلی، محلے، اسکول، کالونی سطح پر کھلے مین ہولز کی فوری رپورٹنگ اور حفاظتی علامات کی تنصیب شامل ہے۔ابراہیم کی موت شہر کے لیے آخری وارننگ ہونی چاہیے۔ یہ سانحہ ایک بچے کی موت نہیں، یہ کراچی کے شہری نظام کے لیے ریڈ الرٹ ہے۔ اگر یہ شہر آج بھی نہیں جاگتا، اگر شہری ادارے اور شہر میں متحرک سیاسی جماعتیں اب بھی اپنی ترجیحات کا تعین اور درست سمت کا اںتخاب نہیں کرتے، اگر ماحولیاتی اور موسمیاتی حقیقتوں کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا۔ 

پیر، 8 دسمبر، 2025

پروٹوکول دورغلامی کی یادگار ہے

 

    بخت آور کا بیٹا اپنی ٹرائیسکل پر اسلام آباد کی سڑک پر نکلا تو اس کے پروٹوکول میں لاتعداد   قیمتی گاڑیا ں خراماں 'خراماں  اس  کی ٹرائیسکل کی رفتار سے   اسکے پیچھے چل رہی تھیں' پروٹو کول کی لعنت دراصل دور غلامی کی یادگار ہے آج صورتحال یہ ہے کہ جس شخص کے پاس کچھ وسائل ہیں یاپاکستان کا کے ایک شہری نے بتایا کہ     ہمارے حاکم جن کے پاس  اختیارات ہیں وہ اس بات میں فخر محسوس کرتے ہیں  کہ اپنے ساتھ دس‘ بارہ مسلح ملازم اور کم ازکم پانچ سات گاڑیاں لے کر چلیں اور جہاں سے وہ گزریں  ہٹو بچو کی صدا دینے والے لوگ آگے آگے ہوں اور حضرت گردن اکڑا کر اور سینہ تان کر گزریں۔ ایم این ایز،سرکاری افسران اور انتظامی عہدہ داران سب اس بیماری کا شکار ہیں اور وزراءتو جب کہیں سے گزریں تو وہاں پر عوام کے کئی گھنٹے سخت اذیت میں گزرتے ہیں کیونکہ عوام کی آمدورفت اس علاقہ میں ممنوع ہو جاتی ہے اور کئی ایسے واقعات بھی ہو چکے ہیں بھی ہو چکے ہیں کہ پروٹوکول کی وجہ سے لائنوں میں لگی ہوئی ایمبولینس یا گاڑی میں موجود مریض بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ہمارے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نا رینگی

 اور یہ کلچر آج بھی جاری ہےبح یو نیو رسٹی کے لئے جلدی نہ اٹھ سکا کیونکہ رات کو دیر تک جاگتا رہا کام زیادہ تھا ۔جب اٹھا تو کافی دیر ہو چکی تھی تیا ر ہوا اور کھانا کھائے بغیر یو نیو رسٹی کی راہ لی جب میں جی ٹی روڈ پہ پہنچا تو دیکھا کہ ٹریفک جام ہے پہلے تو میں نے سوچا کہ کسی نے روڈ بلاک کیا ہوا ہے لیکن میری سوچ غلط تھی۔ میں نے بائیک کو گھساتے ہوئے پاکستانی طریقہ استعمال کیا اور سب سے آگے جا کھڑا ہوا اس دورانئیے میں مجھے بیس منٹ لگ گئے میں نے ہمت کر کے ٹریفک وارڈن سے پوچھا کہ سر کیا وجہ ہے جواب ملا کہ کام سے کام رکھو میں خاموش ہو گیا ۔لیکن مجھے بہت غصہ آیاخیر مزید ٹائم گزرنے کے بعد دو پولیس کی گاڑیاں گزریں تب معلوم ہوا کہ یہاں سے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا گزر ہونا ہے ۔ان گاڑیوں کے پیچھے ریسکیوایمبولینس اور تین بلٹ پروف گاڑیاں جو کہ بالکل ایک ہی طرح کی بنی ہوئی تھیں ان میں سے کسی ایک گاڑی میں بیٹھے ہوئے میاں صاحب اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے ان کے پیچھے مزید چالیس سے پچاس گاڑیاں اور تھیں

 میں اتنا پروٹوکول دیکھ کر حیران ہو گیا جو کہ کوگوں کے منہ سے سن رکھا تھا آج اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا ۔میاں صاحب کو اسمبلی سے گھر جانے کے لئے کم ازکم چار سے پانچ لاکھ روپے خرچ ہوئے ہوں گے جو کہ ایک معمولی سی بات ہے ۔جب آپ سگنل توڑتے ہیں تو آپ چالان کی صورت میں پیسے ادا کرتے ہیں جو کہ درست بھی ہے لیکن اگر آپ اپنے پیچھے ایمبولینس کی آواز سنیں تو آپ سگنل توڑ کریمبولینس کو رستہ دیتے ہیں کیونکہ انسان کی جان قیمتی ہے ۔ اگر فارن ملکوں کی بات کریں تو وہ لوگ ایک جانور کی جان بچانے کے لئے لا کھوں خرچ کر دیتے ہیں کیونکہ جان تو جان ہوتی ہے چاہے انسان کی ہو یا جانور کی ۔سائرن کی آواز بڑی دیر سے سنائی دے رہی تھی لیکن ہر ایک کو اپنی پڑی ہوئی تھی آوازایمبولینس کی تھی جس میں ایک مریض اپنی زندگی اور موت کی سانسیں گن رہا تھالیکن کوئی رستہ دینے کو تیا ر نہ تھا وہ تو خدا کی رحمت تھی اس مریض کی جان بچنی تھی ایمبولینس ٹائم سے ہسپتال پہنچ گئی اورعلاج وقت پہ شروع کر دیا گیا ۔ وزیر اعلیٰ صاحب نے تو اس کی جان لینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ۔

 اگر وزیر اعلیٰ صاحب کے گھر پہنچنے تک پروٹوکول کے لئے قوم کے لاکھوں روپے خرچ کئے جا سکتے ہیں تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ سڑکیں بلاک ہونے میں ایک طالبعلم کا یونیورسٹی سے دیر ہونے کو تو آپ نظر انداز کیجئے اگر وہ مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا تو اس کا ذمہ دار کون تھا ایمبولینس کو رستہ نہ دینے والے یا وزیر اعلیٰ فرض کریں اگر وہ مر جاتا تو کیا ہوتا اس کے لواحقین احتجاج کرتے تویہ خبر نیوذ چینل کا حصہ بنتی اس پہ تجزئے ہوتے میاں صاحب کی طرف سے افسوس کیا جاتا ارو اس کے لواحقین کو دو چار لاکھ روپے نواز دئیے جاتے ان کا منہ بند کرنے کے لئے کچھ دن سوگ کے بعد لواحقین بھی اپنے معمولات میں مصروف ہو جاتے۔یہ ہے پاکستان میں انسان کی قیمت صرف کچھ پیسے کیا ہم اپنی قدر بھول چکے ہیں ہم کیوں قیمتی جانو ں سے کھیل رہے ہیں ؟؟؟؟ہم کیوں اس قدر لالچی ہو گئے ہیں ؟ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟عوام یا عوام کے مقرر کردہ حکمران جو سانپ کی طرح اس ملک کو لوٹتے جا رہے ہیں کیا اس نظام کو 

اتوار، 7 دسمبر، 2025

آ تینوں موج کراواں‘ آ

 

پنجابی لوک گلوکار عارف لوہار  اپنے والد عالم لوہار کی طرح چمٹا لے کر  پاکستان کے  اسٹیج پر  ظاہر ہوئے  اور بہت کم وقت میں اپنی خداداد  صلاحیت اور اپنے والد  کے نقش قدم پر چلتے ہوئے   اپنی فوک گائکی کا لوہا منوا لیا  -وہ ٍچمٹے کی دھن پر کئی مشہور گانے گا چکے ہیں۔ پنجاب کی ثقافت کو اپنے گانوں کے ذریعے سامنے لانے والے عارف لوہار نے  کچھ مہینوں  قبل ایک گانا گایا ’آ تینوں موج کراواں‘ جسے خاصا پسند کیا جا رہا ہے۔اس گانے کو ایسی مقبولیت ملی کہ چاہے انسٹاگرام رِیلز ہوں یا پھر ٹک ٹاک ویڈیوز، ہر جگہ ہی یہ گانا سننے کو ملتا ہے۔اس گانے کی خاص بات اس کے الفاظ اور دو پنجابی گلوکار ہیں۔ روچ کِلا اور دیپ جنڈو کینیڈین پنجابی ریپر ہیں۔ روچ کِلا سبھا لیبیا میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والدین پاکستانی ہیں جبکہ دیپ جنڈو ایک پنجابی پروڈیوسر اور ریپر ہیں جن کا تعلق بھی کینیڈا سے ہے۔اس اشتراک اور گانے کی دلچسپ کہانی سناتے ہوئے عارف لوہار نے بتایا ’ میں ایک دن لندن میں تھا۔ میری ٹیم اور میں گانے بنا رہے تھے تو میں نے بچوں کو کہا کہ وہ جا کر دکان سے چپس لے آئیں۔ جب وہ لے کر آئے تو میں نے گُنگنا کر اُنھیں کہا کہ ’آ تینوں چیپس کِھلاواں۔‘’اب مجھے نہیں علم تھا کہ یہ دھن بن جائے گی۔


پھر میری ٹیم نے دو سال بعد مجھے یاد کروایا کہ وہ جو دھن آپ نے بچوں کے ساتھ بنائی تھی اُس کا کچھ کریں۔عارف لوہار نے مزید بتایا کہ اس گانے کو جو بعد میں مقبولیت ملی اس کا اُنھوں نے تصور نہیں کیا تھا۔عارف لوہار کا کہنا ہے کہ جب کوئی چیز تخلیق ہونے والی ہوتی ہے، تو وہ اس طرح ہی بن جاتی ہے۔اپنے والد کی مشہور ’جُگنی‘ کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اُس کا نیا ورژن بھی ایسے ہی اچانک بن گیا تھا۔’مجھے کہا گیا کہ فِلر کے لیے کچھ چاہیے۔ جو پہلے سے گایا ہوا کلام ہے اُسی کو نیا کر کے بنا دیں تو میں نے پھر ایسے ہی بیھٹے بیٹھے بنا دیا۔‘لوک داستانیں، لوک گیت، گانے والا انسان ہوں‘عارف لوہار کے ماضی کو دیکھیں تو اُنھوں نے اپنے فن کو اپنی محنت اور لگن سے عروج پر پہنچایا۔ انھوں نے موسیقی کی دنیا میں تیز رفتاری سے ہوتی ہوئی ترقی کا ساتھ بھی دیا اور روایات کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔چمٹا ہاتھ میں لیے پنجاب کا روایتی دھوتی کرتا پہنے عارف لوہار نے جدید موسیقی اور روایتی انداز کو ساتھ ساتھ رکھا ہوا ہے۔ پہلے ان کی جگنی ہر جگہ سنائی دیتی رہی تو آج کل چرچے ’آ تینوں موج کراواں‘آ کے ہیں عارف لوہار کا یہ نیا روپ دنیا بھر میں ان کے مداحوں کو خوب پسند آیا


مگر ساتھ ساتھ یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ آج کی نوجوان نسل کی پسند کو دیکھتے ہوئے لوک موسیقی کی جانب کم توجہ دی جا رہی ہے۔اسی بارے میں عارف لوہار کا کہنا تھا ’میں خالص فوک میوزک، لوک داستانیں، لوک گیت، گانے والا انسان ہوں، ایسا کچھ ہونا چاہیے کہ سب ایک ساتھ لے کر چلیں۔‘بچوں میں گانے کا ہنر قدرتی طور پر موجود تھا‘عارف لوہار کے تین بیٹے ہیں جن کے نام علی، عامر اور عالم ہیں۔ ان میں سے سب سے چھوٹے بیٹے عالم کو ’عارف لوہار جونیئر‘ بھی کہا جا رہا ہے۔عارف لوہار کا کہنا ہے کہ ’میں ان بچوں کا والد بھی ہوں اور ماں بھی۔‘ چند سال قبل عارف لوہار کی اہلیہ کی وفات ہوئی تھی۔ جس کے بعد اب وہ عام طور پر اپنے بیٹوں کو جہاں بھی جاتے ہیں، اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔وہ اپنے بچوں کو اس وقت بھی قریب رکھنا پسند کرتے ہیں جب وہ پرفارم کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے آج کل سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں اُن کے تینوں بیٹے اُن کے ساتھ کانسرٹس اور مختلف تقریبات میں نظر آتے ہیں۔بی بی سی کی ٹیم جب عارف لوہار کے گھر پہنچی تو اُن کے ساتھ اُن کے تینوں بیٹے بھی موجود تھے۔


 سب سے چھوٹے بیٹے عالم لوہار نے بتایا کہ ’مجھےکبھی بھی بابا نے نہیں بولا کہ گانا گاؤ۔ یہ شوق مجھ میں پہلے سے موجود تھا۔ ہمیں بابا کے گانے کا سٹائل پسند ہے۔‘ان کے بیٹے عامر کا کہنا تھا کہ وہ موسیقی کے ساتھ ساتھ پڑھائی پر بھی اُتنی ہی توجہ دیتے ہیں۔عارف لوہار اپنے بچوں کے بارے میں آبدیدہ ہو گئے اور اُنھوں نے کہا ’یہ تین بچے ہیں جو میرے تین پہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان بچوں کو میں نے کچھ نہیں کہا کہ یہ کرو یا وہ کرو، گانے کا ہنر اُن میں قدرتی طور پر موجود تھا۔‘’اپنے والد کا عاشق ہوں‘عارف لوہار کے بچے والد کی طرح نہ صرف چمٹا بجانا جانتے ہیں بلکہ اُن کو دیگر آلات بجانے میں بھی مہارت حاصل ہے۔عارف لوہار نے بتایا کہ اُن کے بیٹوں کو گائیکی کا شوق ہے مگر انھوں نے کبھی ان پر اپنی مرضی مسلط نہیں کی۔اُنھوں نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ وہ اپنے دادا اور باپ کی میراث کو آگے بڑھائیں گے۔‘عارف لوہار کے والد عالم لوہار کی شہرت بھی سرحد کے دونوں پار تھی۔ عالم لوہارکی گائیکی کا انداز منفرد تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کی دھنوں پر وہ لوگ بھی جھوم اٹھتے تھے، جنھیں اردو یا پنجابی کی سمجھ نہیں تھی۔ انھیں ’جُگنی کا خالق‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کی آواز میں گائے گئے پنجابی گیت آج بھی مقبول ہیں۔ اس وقت وہ اپنے  ہونہار بیٹوں سمیت  یورپ کے کئ ملکوں میں اپنی پرفارمنس پیش کر کے ڈھیرساری داد وصول کر

ہفتہ، 6 دسمبر، 2025

تین زبانوں میں گیت گانے والی پاکستانی فوک گلو کارہ نصیبو لال

 

 تین زبانوں میں گیت گانے والی پاکستانی  فوک گلو کارہ نصیبو لال ۔  نصیبولال کی والدہ کلورکوٹ کی مشہور "ببلی گڈوی والی" تھیں۔1970 میں اسی ببلی گڈوی والی کی بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام نصیبولال رکھا گیا اور واقعی وہ نصیبولال ثابت ہوئی۔ نصیبولال نے بھی کلورکوٹ میں اپنے خاندان کے ساتھ گانے بجانے کا کام کیا اور کلورکوٹ میں ان کو گڈوی والی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ نصیبولال کے خاندان کے لوگ کلورکوٹ سے باہر بھی گانا گانے جاتے تھے اور کچھ ان کے لوگ مستقل طور پر بڑے شہروں میں چلے گئے۔ ایک محفل میں نصیبولال کو گانے کا موقع دیا گیا جس کی آواز کو اتنا پسند کیا گیا کہ ان کو بہت سے شادی کے گانے کے پروگرام میں بلایا گیا۔ اسی طرح نصیبولال ریڈیو پاکستان تک پہنچ گئی جہاں انہوں نے اپنی آواز کے ایسے سُر بکھیرے کہ لوگ نصیبولال کو ڈھونڈنے لگے۔ انھوں نے کوک اسٹوڈیو کے نویں سیزن میں بطور نمایاں فنکار کے طور پر کام کیا،  انہوں نے   راجپوتانہ ، ہندوستان   میں ایک خانہ بدوش گھرانے میں جنم لیا ۔  بچپن کی ابتدائی عمر میں ہی گلوکاری کا آغاز کیا اور مشہور ہوگئیں۔ ان کے کریڈٹ میں ان کے بہت سے گانے ہند و پاک دونوں ملکوں میں یکساں مقبول ہیں ۔آپ کو بین الاقوامی میوزک شوز میں بھی مدعو کیا جاتا ہے-پاکستان کی مایہ ناز گلوکارہ نصیبولال کا خاندان 1947 سے پہلے انڈیا علاقہ راجھستان میں رہتے تھے۔


ان کا خاندان                                 گلی              محلوں میں                             ہونے والی تقریبات میں بالخصوص شادی بیاہ  میں گیت گا کر   اپنی                           معاشی ضروریات پوری  کرتا تھا            ۔ یہ راجھستان کے ثقافتی گلوکار تھے جو راجھستانی لباس کے ساتھ راجھستانی گانے بھی گایا کرتے تھے۔  لوک موسیقی بھی راجستھانی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔ لوک گیت عام طور پر بہادری کے کاموں اور محبت کی کہانیوں سے متعلق ہوتے ہیں  اس وقت راجپوتوں کے محلوں میں انگریزوں کو عشایہ رکھا جاتا تو ان مقامی گلوکارں کو بھی بلایا جاتا جن کے لباس اور گانوں سے انگریز بہت خوش ہوتے اور ان کو کچھ انعامات سے بھی نواز دیتے۔ 1947 کی تقسیم کے وقت نصیبولال کا خاندان نے بھی انڈیا سے پاکستان ہجرت کی ۔ وہ ٹرین ان کو اس وقت کے ضلع میانوالی اور آج کا ضلع بھکر کے شہر کلورکوٹ میں لے آئی۔کلورکوٹ میں آجانے کے بعد نصیبولال کے خاندان نے گلوکاری کو جاری رکھا اور شروع میں ان کے خاندان نے اپنے راجھستان لباس پہنے رکھا جس میں مرد کرتی لنگی اور رنگ برنگی پگڑی اور عورتیں کسی بڑی محفل میں ساڑی پہنتی تھی اور محفل میں ان کے لباس سے مزید نکھار پیدا ہو جاتا اور یہ لباس ان کی ایک پہچان بھی تھی۔ فلم انڈسٹری نے نصیبولال سے بہت گانے رکارڈ کیے لیکن فلمانڈسٹری کے حلات خراب ہونے کے بعد نصیبولال نے لاہور تھیٹر کے لیے گانے رکارڈ کرئے مگر وہ گانے  ان کو راس  نہیں آئے۔ تو پھر وہ اپنے  ٹریک پر واپس آگئیں  اللہ نے نصیبو لال کی قسمت میں بے پناہ شہرت بھی رکھی اور دولت بھی رکھی   -نصیبو لال جو اپنے بچپن کی عمر سے اپنی ماں کی مددگار بن کر کھڑی ہوئیں  تو اللہ نے بھی ان کا ہاتھ تھام کر بتا دیا کہ ہم کسی کی محنت کو رائگاں نہیں کرتے ہیں 


اب نصیبو لال اور ان کے خاندان کے کچھ فرد لاہور شاہدرہ کے گڈوی ولے محلے میں رہتے ہیں۔ نصیبولال ساڑی پہنتی ہیں اور ایک انٹرویو میں ان سے سوال ہوا کہ آپ زیادہ ساڑی کیوں پہنتی ہیں انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا خاندان 1947 سے پہلے راجھستان سے تھا اور وہاں کا ہمارا لباس ساڑی تھا اور پاکستان آنے کے بعد ہم نے یہی اپنا لباس رکھا۔ کلورکوٹ میں پیدا ہونے والی نصیبولال نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی اپنے سُر کے جادو جگا چکی ہیں اور بہت سے ملکی اور غیر ملکی عزاز اپنے نام کیے۔نصیبو لال چنگڑ قوم سے تعلق رکھتی ہے بھکر کے علاقے کلور کوٹ سے اسکا تعلق ہے لیکن یہ لوگ خانہ بدوش لوگ تھے جن کو پکھی واس جھونپڑوں والے کہا جاتا ہے تو یہ لوگ نگر نگر گھوما کرتے تھے۔کبھی کہاں جھونپڑیاں لگا لیں تو کبھی کہاں۔۔نصیبو گھڑوی بجاتی تھی اور اسکی ماں اور اسکی بڑی بہن تینوں مل کر گانا گاتی تھیں۔۔نصیبو کی ماں کی آواز بھی بہت سریلی تھی اور نصیبو کی بڑی بہن فرح کی آواز بھی بہت خوبصورت تھی۔ یہ تینوں ماں بیٹیاں ٹرک اڈوں پر دوکانوںپر  گھڑوی پر گانے سنا کر پانچ پانچ روپے وصول کرتی تھیں۔1998 /99 کے زمانے میں پانچ روپے کی بڑی قدر ہوتی تھی۔نصیبو کے خاندان نے ضلع بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں کے نواحی قصبہ آدھی والی کھوئی میں اپنی جھونپڑیاں لگائی تھیں اور قصبے   میں  تینوں ماں بیٹیاں گھڑوی پر گانا بھی سناتی تھیں۔ 


وہاں پر ایک بڑا زمیندار تھا جس کا نام تھا پیر پپو چشتی۔ پیر پپو نے جب نصیبو کا گھڑوی پر گانا سنا تو اسے نصیبو کی آواز  دل کو لگی اور اس نے اپنے خرچہ پر لاہور کی ایک کیسٹ کمپنی میں نصیبو کا پہلا البم ریکارڈنگ کروایا جس کا گیت تھا۔وے توں وچھڑن وچھڑن کرنا ایں جدوں وچھڑے گا پتہ لگ جاو گا۔اسی البم کا دوسرا گیت تھا۔ جِنے ٹکڑے ہونے دل دے وے ہر ٹکڑے تے تیرا ناں ہونایں۔یاد رہے پہلے البم کے وقت یہ صرف نصیبو ہی تھی نصیبو لال نہیں تھی۔پہلا البم نصیبو کا اتنا ہٹ ہوا کہ سپرہٹ ہوگیا۔ انہی دنوں ملکہ ترنم نورجہاں کی وفات کو تھوڑا وقت ہوا تھا اور نورجہاں کے پرستار بہت بے چین تھے کہ نصیبو نے پہلا البم ریلیز کیا تو نورجہاں کے سب پرستار نصیبو کی طرف لپک پڑے اور نصیبو واحد سنگر ہے جو پہلے البم پر ہی راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔بعد میں نصیبو نے اپنے نام کے ساتھ نصیبو لال لگا دیا اور موسیقی کی دنیا میں چھا گئی-نصیبو لال نے نورجہاں کی کمی پوری کر دی تھی بلکہ نورجہاں سے بھی زیادہ شہرت پا گئی۔نصیبو لال جھونپڑیاں چھوڑ کر لاہور شفٹ ہوگئی۔نصیبو نے اپنی ماں کو بھی سنگر بنانا چاہا مگر اس نےمعذرت کرلی کہ میری اب عمر ڈھل گئی ہے اپنی بہن کو سنگر بنا دیں۔نصیبو لال نے اپنی بہن فرح کو بھی سنگر بنا دیا جو فرح لال کے نام سے مشہور ہے

جمعہ، 5 دسمبر، 2025

ٹورانٹو کنیڈا کا اہم ترین شہر ہے

  ٹورنٹو کنیڈا کا  اہم ترین شہر ہے جس میں  آدھے شہری امیگرنٹس ہیں یہاں کے ریسٹورنٹس انہی  کے دم قدم سے بھرے رہتے ہیں  بس آپ گوگل پر دیسی ریسٹورینٹ لکھئے اور بے شمار نام آ پ کے سامنے آ جائیں گے-بسوں میں سفر کے دیکھئے اسی فیصد ڈرائیورز دیسی ملیں گے -زبان کا کوئ مسئلہ نہیں اردو ہندی پنجابی  انگلش جو آپ بولنا پسند کیجئے گا وہی زبان آپ کو بولنے والا مل جائے گا ٍ-اس کا کل رقبہ 630 مربع کلومیٹر ہے۔ شمالاً جنوباً کل 21 کلومیٹر جبکہ شرقاً غرباً 43 کلومیٹر لمبا ہے۔ جھیل اونٹاریو کے کنارے اس کا ساحل کل 26 کلومیٹر طویل ہے اور ٹورنٹو کے کچھ جزائر اس جھیل کے اندر بھی موجود ہیں۔ اس شہر کی جنوبی حد جھیل اونٹاریو، ایٹوبیکو کی کھاڑی اور ہائی وے نمبر 426 شمال میں، سٹیلز ایونیو شمال میں جبکہ روگ دریا مشرق میں حد بندی کا کام دیتا ہے۔شہر کے درمیان سے دو دریا اور ان کی ڈھیر ساری شاخیں گذرتی ہیں۔ ہمبر دریا مغربی حصے سے جبکہ ڈون دریا مشرق سے گذرتا ہے۔ شہر کی بندرگاہ قدرتی طور پر جھیل اونٹاریو کی لہروں کے نتیجے میں ریت وغیرہ کے جمع ہونے سے بنی ہے۔ اسی عمل کے نتیجے میں بندرگاہ کے پاس موجود جزائر بھی بنے تھے۔ جھیل میں گرنے والے بہت سارے دریاؤں نے اپنی گذرگاہوں میں گھنے جنگلات سے بھری ہوئی کھائیاں بنا دی ہیں۔ تاہم یہ کھائیاں شہر کے نقشے میں مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ تاہم ان کھائیوں کی مدد سے شہر میں بارش وغیرہ کے سیلابی پانی کی نکاسی بہت آسان ہو جاتی ہے۔


پچھلے برفانی دور میں ٹورنٹو کا نشیبی حصہ گلیشئر کی جھیل اروکوئس کے نیچے تھا۔ آج بھی شہری حدود اس جھیل کے کناروں کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اگرچہ ٹورنٹو زیادہ تر پہاڑی نہیں تاہم جھیل سے اس کی بلندی بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ جھیل اونٹاریو کا کنارہ سطح سمندر سے 75 میٹر جبکہ یارک یونیورسٹی کے مقام پر یہ بلندی 209 میٹر ہو جاتی ہے۔جھیل کا کنارہ زیادہ تر 19ویں صدی کے اواخر میں کی گئی منصوعی بھرائی سے بنا ہے۔کینیڈا کے جنوبی حصے میں واقع ہونے کی وجہ سے ٹورنٹو کا موسم معتدل نوعیت کا ہے۔ ٹورنٹو کی گرمیاں گرم اور نم جبکہ سردیاں سرد تر ہوتی ہیں۔ شہر میں 4 الگ الگ نوعیت کے موسم پائے جاتے ہیں اور روز مرہ کا درجہ حرارت سردیوں میں بالخصوص کافی فرق ہو سکتا ہے۔ شہری آبادی اور آبی زخیرے کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ٹورنٹو میں دن اور رات کے درجہ حرارت میں کافی تغیر دیکھنے کو ملتا ہے۔ گنجان آباد علاقوں میں رات کا درجہ حرارت سردیوں میں بھی نسبتاً کم سرد رہتا ہے۔ تاہم بہار اور اوائل گرما میں سہہ پہر کا وقت کافی خنک بھی ہو سکتا ہے جس کی وجہ جھیل سے آنے والی ہوائیں ہیں۔ تاہم بڑی جھیل کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے برفباری، دھند اور بہار اور خزاں کا موسم تاخیر سے بھی آ سکتا ہے۔ٹورنٹو میں موسم سرما میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت کچھ وقت کے لیے منفی 10 ڈگری سے نیچے رہ سکتا ہے جو ہوا کی رفتار کی وجہ سے زیادہ سرد محسوس ہوتا ہے۔ اگر اس صورت حال میں برفباری یا بارش بھی شامل ہو جائے تو روز مرہ کی زندگی کے کام کاج رک جاتے ہیں اور ٹرینوں، بسوں اور ہوائی ٹریفک میں خلل واقع ہوتا ہے۔ نومبر سے وسط اپریل تک ہونے والی برفباری زمین پر جمع ہو جاتی ہے۔


 تاہم سردیوں میں اکثر درجہ حرارت کچھ وقت کے لیے 5 سے 12 ڈگری تک بھی چلا جاتا ہے جس سے برف پگھل جاتی ہے اور موسم خوشگوار ہو جاتا ہے۔ ٹورنٹو میں گرمیوں کا موسم نم رہتا ہے۔ عموماً درجہ حرارت 23 سے 31 ڈگری تک رہتا ہے اور دن کے وقت درجہ حرارت 35 ڈگری تک بھی پہنچ سکتا ہے جو ناخوشگوار بن جاتا ہے۔ بہار اور خزاں موسم کی تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں۔بارش اور برفباری سال بھر ہوتی رہتی ہیں تاہم گرمیوں میں بارش کی مقدار کافی زیادہ رہتی ہے۔ اگرچہ بارشوں میں طویل وقفہ بھی آ جاتا ہے تاہم قحط سالی جیسی صورت حال سے کبھی کبھار ہی واسطہ پڑتا ہے۔ سال بھر میں 32 انچ سے زیادہ بارش جبکہ 52 انچ سے زیادہ برف گرتی ہے۔ ٹورنٹو میں اوسطاً 2038 گھنٹے سورج چمکتا ہے۔وِل السوپ اور ڈینیئل لیبیس کائنڈ جیسے ماہرین کے نزدیک ٹورنٹو میں کوئی ایک طرزِ تعمیر نہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کی عمارات کا طرزِ تعمیر بدلتا رہتا ہے۔ٹورنٹو کے افق پر سب سے اہم عمارت سی این ٹاور ہے جو 553 میٹر سے زیادہ بلند ہے۔ برج خلیفہ کی تعمیر سے قبل یہ دنیا کی سب سے اونچی آزاد کھڑی عمارت تھی۔ٹورنٹو میں فلک بوس عمارات کی تعداد 2000 سے زیادہ ہے جن کی بلندی 90 میٹر یا اس سے زیادہ ہے۔ اونچی عمارات کی تعداد کے لحاظ سے  شمالی امریکا میں نیو یارک اس سے آگے ہے۔ٹورنٹو کا سب سے اہم سیاحتی مرکز سی این ٹاور ہے۔ اس ٹاور کے خالقین کے لیے یہ بات خوشگوار حیرت کا سبب ہے کہ ان کے اندازوں کے برعکس 30 سال سے زیادہ عرصے تک یہ عمارت دنیا کی بلند ترین عمارت شمار ہوتی رہی ہے


۔ اونٹاریو کا شاہی عجائب گھر بھی سیاحوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہے جہاں دنیا کی ثقافت اور مظاہر قدرت کے متعلق چیزیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ 5000 سے زیادہ حیوانی نمونے موجود ہیں جو 260 سے زیادہ انواع کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی مختلف نوعیت کے کئی عجائب گھر یہاں موجود ہیں۔یارک ولے نامی مضافاتی علاقہ ٹورنٹو بھر میں اپنے ریستورانوں اور خریداری کے مراکز کی وجہ سے مشہور ہے۔ اکثر اس علاقے میں شمالی امریکا کے فلمی ستارے اور اہم شخصیات خریداری کرتی یا کھانا کھاتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں سالانہ اوسطاً 5 کروڑ سے زیادہ سیاح آتے ہیںگریک ٹاؤن میں موجود ریستورانوں کی تعداد فی کلومیٹر دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ٹورنٹو کاروباری اور معاشی لحاظ سے اہم بین الاقوامی مرکز ہے۔ عموماً اسے کینیڈا کا معاشی مرکز مانا جاتا ہے۔ ٹورنٹو سٹاک ایکسچینج کو کاروباری سرمائے کے اعتبار سے دنیا بھر میں 8ویں بڑی مارکیٹ مانا جاتا ہے۔ کینیڈا کے پانچوں بڑے بینکوں اور دیگر بڑے کاروباری اداروں کے صدر دفاتر ٹورنٹو میں قائم ہیں۔اس شہر کو میڈیا، پبلشنگ، مواصلات، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فلمی صنعت کا اہم مرکز مانا جاتا ہے۔اگرچہ یہاں کی زیادہ تر مینو فیکچرنگ کے مراکز شہر کی حدود سے باہر واقع ہیں تاہم ٹورنٹو ہول سیل اور ڈسٹری بیوشن کے حوالے سے اہم حیثیت رکھتا ہے۔ کیبویک اور ونڈسر کی راہداری میں اپنے اہم جغرافیائی محلِ وقوع اور ریل اور سڑکوں کے بہترین نظام کی بدولت آس پاس موجود گاڑیاں بنانے، فولاد، سٹیل، خوراک، مشینری، کیمیکل اور کاغذ کی مصنوعات ٹورنٹو سے ہی آگے بھیجی جاتی ہیں

موسم سرما کے پھلوں کے فوائد

 





موسم سرما کے پھلوں کے کیا فوائد ہیں؟کینو، مالٹے، فروٹر، انار، انگور، سیب، ناشپاتی، امرود اور کیلے یہ تمام وہ پھل ہیں جن کا شمار سردی کےخاص پھلوں میں ہوتا ہے، ماہرینِ غذائیت کا کہنا ہے کہ جسمانی نظام کے لیے منرلز اور وٹامنز بہت ضروری ہیں جن کو قدرتی طور پر حاصل کرنے کے لیے پھلوں کو اپنی غذا کا حصہ بنانا لازمی ہے۔کینو، ما لٹا، فروٹرمالٹے کی کئی اقسام موجود ہیں جیسے کہ نارنجی، کینو، فروٹر اور مالٹا، ان پھلوں کے جوس کے استعمال سے دنوں میں وزن کم کرنے سمیت متحرک رہنے میں مدد ملتی ہے اور قوتِ مدافعت مضبوط ہوتی ہے۔ہمارے ہاں عام طور سے یہ پھل ’کینو ‘ کہلاتاہے، جو صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کا شمار مالٹےاور کینو پیدا کرنے والے چھٹے بڑے ملک کے طور پر ہوتا ہے۔موسمی پھلوں کے استعمال سے ناصرف صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ اس کے براہِ راست مثبت اثرات خوبصورتی پر بھی آتے ہیں جس کے نتیجے میں جِلد، ناخن اور بالوں کی صحت بھی بہتر ہوتی ہے اور خوبصورت میں اضافہ ہوتاانار دل، دماغ، گردوں اور نظام ہاضمہ کے لیے ایک قدرتی ٹانک ہے اور یہ خون کی کمی دور کرنے، کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کے دیگر فوائد میں نظامِ ہاضمہ کو مضبوط کرنا، قوتِ مدافعت میں اضافہ، جلد اور بالوں کی صحت میں بہتری، اور وزن کم کرنے میں مدد شامل ہیں۔ یہ پھل وٹامن سی اور کے، فلیوونائڈز اور دیگر اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتا  ہے۔


مالٹے اور کینو نظام ہضم کو بہتر بناتے، وزن میں کمی کرتے، وٹامن سی کی زائد مقدار کے باعث جینیاتی بوسیدگی اور عمر رسیدگی کے اثرات سے بچاتے اور آیورویدک علاج میں بلغم و کھانسی کو کم کرتے ہیں۔انار، موسم سرما کا خاص پھل ہے جو تقریباً ہر ایک کا ہی پسندیدہ ہوتا ہے۔ یہ فائبر ، پوٹاشیم ، وٹامن سی اورB6سے بھرپور ہے۔اس کے استعمال سے دل اور جگر کو طاقت ملتی ہے، متعدد بیماریوں جیسے کہ پھیپھڑوں، چھاتی کے سرطان، امراضِ قلب، الزائمر، ذیابیطس، موٹاپے اور جوڑوں کی سوزش میں انار مفید ثابت ہوتا ہے۔اس کے علاوہ انار کا روزانہ استعمال رنگت بھی نکھارتا ہے۔انگورپاکستان میں مختلف رنگوں کے انگور پائے جاتے ہیں جن میں سرخ، جامنی، ہرے اور پیلے انگور شامل ہیں، انگور میں وٹامن اے کا خزانہ پایا جاتا ہے جبکہ انگوروں میں دیگر وٹامنز یعنی، ڈی 3، ای، سی، ڈی، بی12، بی 6 اور کے بھی پایا جاتا ہےماہرینِ غذائیت کے مطابق انگور کا استعمال دل کے امراض دور کرتا ہے اور کارکردگی بہتر بناتا ہے، اس کے علاوہ ذیابیطس، کینسر، جوڑوں کے درد، وائرل، انفیکشن اور الرجی سے بچاتا ہے۔کیلے سے بلڈپریشر کا علاج ممکن ہے؟


سیب-سیب میں موجود کاپر، پوٹاشیم اور وٹامن سی کی زائد مقدار جِلد کو قدرتی چمک، نکھار اور جسم پر نکلنے والے دھبوں کے نشان ختم کرنے میں جادوئی تاثیر رکھتی ہے۔سرخ سیب کے علاوہ سبز سیب میں فائبر، منرلز اور وٹامنز کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے۔ جِلد کے کینسر سے بچائو کے لیے ہرے سیب کا استعمال کینسر کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ اس کے استعمال سے جِلد صحت مند رہتی ہے۔ ناشپاتی کا شمار سیب کے خاندان سے ہے۔ سیب کے بعد یہ سب سے بہترین پھل ہے، جسے سیب کی طرحہی کھایا جاتا ہے۔ یہ امریکا و پاکستان کا اہم پھل ہے جو سبز، زرد اور سرخ رنگوں میں پایا جاتا ہے۔اس کے غذائی اجزا اور نشاستوں میں پروٹین 0.38گرام اور کولیسٹرول کی صفر مقدار ہے جبکہ یہ وٹامن اے، سی، ای اور کے سے بھرپور ہے۔ معدنیا ت میں کیلشیم، کاپر، آئرن، میگنیشیم، میگنیز، فاسفورس اور زنک شامل ہیں۔ناشپاتی جلد کے لیے ہمیشہ سودمند اور نشاستوں سے بھرپور ہوتی ہے۔ اس میں وٹامن کے کی کثیر مقدار خون کو جمنے سے روکتی ہے ، ساتھ ہی بلند اور کم فشار خون کی شکایت کو دور رکھتی ہے۔موسم سرما میں بچوں کی صحت کی حفاظت کیسے کریں؟


امرود-فائبر اور وٹامن اے، بی6 اور سی سے بھر پور امرود کو بھی سپر فوڈز میں شمار کیا جاتا ہے، اس پھل کا سلاد اور چاٹ بنا کر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق امرود کو غذا میں شامل کر لینے سے قبض سے نجات ملتی ہے، ٹھنڈ اور کھانسی میں افاقہ ہوتا ہے، وزن میں کمی، کینسر کے خدشات کم کرتا ہے اور ہارمونز کی افزائش میں کردار ادا کرتا ہے۔امرود ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ایک ذہین انتخاب ہے۔ اس میں فائبر کا اعلیٰ مواد شوگر کے جذب کو کم کرکے خون میں شکر کی سطح کو منظم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ مزید برآں، امرود کے پتوں کے فوائد میں خون کی شکر کو کم کرنے کی صلاحیت شامل ہے جب اسے چائے یا عرق کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، ادویات میں اس کے استعمال پر زور دیا جاتا ہے۔کیلے میں فائبر اور تین اقسام کی شکر (سکروز، فرکٹوز اور گلوکوز) پائی جاتی ہے، کیلا فوراً انرجی بحال کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔ماہرینِ غذائیت کے مطابق ایک وقت میں 2 کیلے کھانے سے 90 منٹ تک انسان خود کو تر و تازہ اور توانا محسوس کرتا ہے اسی لیے یہ دنیا بھر کے ایتھلیٹس کی خوراک کا اہم حصہ ہوتا ہے۔کیلے میں ایک مخصوص پروٹین پایا جاتا ہے جو انسان کو تھکاوٹ میں سکون پہنچاتا اور موڈ کو بہتر بناتا ہے، اسے کھانے سے نیند کی کمی کی شکایت دور ہوتی ہے۔وٹامنز اور منرلز کے لحاظ سے کیلے میں آئرن اور پوٹاشیئم بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے۔

بدھ، 3 دسمبر، 2025

قلعہ سیف اللہ کی انتظامیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے

  قلعہ سیف اللہ کی انتظامیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے  کہ  اس نے نوجوان نسل کو بے راہ روی اور منشیات جیسی لعنتوں سے بچانے کے لیے فٹ بال اسٹیڈیم اور ریلوے اسٹیشن کر کٹ گراونڈ   بنائے   ہیں ۔ تعلیم کی اگر بات کی جائے  تو گذشتہ دو دہائیوں سے قلعہ سیف اللہ  کے طالب علموں نے یہاں  تعلیمی میدان میں ناقابل یقین کامیابیاں حاصل  کی ہیں جبکہ مقامی انتظامیہ نے بھی اپنے طالب علموں کے لئے بے مثال  کام کئے ہیں  اور  یہاں نسائی کے مقام پر کیڈٹ کالج کے ساتھ ساتھ ڈگری کالج، ایلیمنٹری کالج،بلوچستان یونیورسٹی کیمپس کئی ہائی ،مڈل اور پرائمری اسکول قائم کئے  ہیں جن کے علاوہ لاتعداد نجی اسکول اور کالج بھی تعلیمی خدمات میں پیش پیش ہیں۔اللہ پاک میرے وطن کے لوگوں کو تمام دنیا میں سر بلند کرے آمین -  یہاں  بہت سے ترقیاتی کام اپنی مدت میں مکمل ہو چکے ہیں جن میں ژوب تا کو ئٹہ براستہ قلعہ سیف اللہ قومی شاہراہ  سر فہرست ہیں جن سے نہ صرف قلعہ سیف اللہ کے لوگوں  کے آمدورفت کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوا ہے بلکہ اقتصادی راہداری کے مختصرترین لنک کا اعزاز بھی اس شاہراہ کوحاصل ہے۔قلعہ سیف اللہ مین بازار شاہین چوک تا ریلوے اسٹیشن دو رویہ سڑک کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور سڑک کے دونوں اطراف میں نکاسی آب کے نالے بھی بن چکے ہیں۔سڑک کے کنارے شمسی توانائی سے روشن ہونے والی اسٹرٹ لائیٹس انتہائی نفاست سے نصب کر دی گئی ہیں۔


رات کے وقت ان کے روشن ہونے سے قلعہ سیف اللہ کا بازارجدیدشہر کا منظر پیش کرتا ہے جو ڈیشل کمپلیکس،زرعی دفاتر،ایجوکیشن آفس ،ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفس اور جدید سہولیات سے آراستہ ڈسٹر کٹ ہسپتال اور تھانہ بھی تعمیر ہو چکا ہے۔ ضلع کا رقبہ 11600مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے اور اس کی دو تحصیل ہیں جو قلعہ سیف اللہ اور مسلم باغ کہلاتے ہیں۔ قلعہ سیف اللہ 14دسمبر 1988کو ضلع بنا۔ اس سے پہلے یہ ضلع ژوب کا حصہ ہوتا تھا۔ ضلع کی آبادی لگ بھگ دو لاکھ تیس ہزار ہے-قلعہ سیف اللہ سطح سمندر سے 1500تا 2200میٹرز کی بلندی پر ہے، قلعہ سیف اللہ میں گرمیوں میں زیادہ گرمی اور سردیوں میں بہت سردی پڑ تی ہے، یونین کونسل کان مہترزئی جو سطح سمندر سے 2170کی بلندی پر ہے وہاں جنوری اور فروری کے مہینوں میں پہاڑ وں کی چوٹیاں برف سے ڈھکی رہتی ہیں اور غضب کی سردی پورے علاقہ کو اپنی لپیٹ میں رکھتی ہے ۔ ضلع قلع سیف اللہ بنیادی طو ر پر ایک زرعی علاقہ ہے، جہاں 22سو کے لگ بھگ ٹیوب ویل اور لاکھوں ایکڑ پر زراعت پھیلی ہوئی ہے، عوام کا زیادہ تر حصہ زراعت پر ہی گزر بسر کرتا ہے، زرعی فعالیت کی وجہ سے ملک بھر کی منڈیوں میں قلعہ سیف اللہ کی سبزی اور پھل مہنگے داموں بکتے ہیں۔ ضلع میں سب کی مختلف قسمیں پیدا ہوتی ہیں سائبریا سے آنے والے موسمی پرندے دریاژوب کے کناروں کو اپنی محفوظ آما جگاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں


یہاں کی سرزمین انتہائی زرخیز ہے اسی وجہ سے قلعہ سیف اللہ کو بلوچستان کے اہم زرعی شہروں میں شمار کیا جاتاہے۔یہاں پر گندم،تمباکو اورمکئی کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں جو علاقائی ضروریات کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہےں۔سبزیاں خصوصاًبھنڈی ،توری ،کریلا، کدواور ٹماٹر وغیرہ بکثرت پائے جاتے ہیں۔جن سے علاقے کے ساتھ ساتھ ملکی ضروریات کو بھی کافی حد تک پورا کر رہے ہیں۔یہاں تقریباً60% حصہ باغات پر مشتمل ہے سیب (چاروں قسم کندھاری،تور کلواور شین کلو)انار ،آڑو،آلوچہ،بادام اور آخروٹ وغیرہ سر فہرست ہیں۔ کے علاوہ خوبانی، انگور، انار اور سبزیوں میں گاجر، سبز مرچ اور سرخ مرچ اور کئی اقسام کی دالیں بھی پیدا ہوتی ہیں، یہاں کا ٹماٹر اپنے ذائقہ کے لیے بہت مشہور ہے- یہاں کی فصلیں،سبزیاں اور پھل نا صرف صوبہ کی سطح بلکہ قومی سطح پر بھی انتہائی پسندیدگی کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں۔



قلعہ سیف اللہ میں کئی اہم دریا بھی ہیں جن میں دریا جوگیزئی اور دریا ژوب کسی تعارف کے محتاج نہیں بلکہ دریا ژوب بلوچستان کا سب سے بڑا دریا ہے جس میں سارا سال پانی موجود رہتا ہے۔یہ دریا ضلع ژوب سے ہوتے ہوئے گومل ڈیم میں شامل ہونے کے بعد آخر کار دریائے سندھ میں مل جا تا ہے ۔ قلعہ سیف اللہ کو جب سے علاحدہ ضلع کا درجہ دیا گیا تین دہائیوں میں اس علاقے میں دن دگنی رات جوگنی ترقی ہوئی ہے۔ضلع قلعہ سیف اللہ دو تحصیلوں قلعہ سیف اللہ اور مسلم باغ پر مشتمل ہیں۔اس میں کل 21 یونین کونسلیں اور دو عدد میونسپل کمیٹیا ں ہیں۔ضلع قلعہ سیف اللہ میں مختلف قبائل آباد ہیں چند مشہور قوموں کے نام درجہ ذیل ہیں جلالزئی، جوگیزئی، خودیزئی، کمالدیزئی، شبوزئی، کریم زئی، موسیٰ زئی، مردانزئی ،خدائیداد زئی ،اسماعیل زئی، باتوزئی، علوزئی، اخترزئی اور بعض اقلیتن بھی قیام پزیر ہیں۔یہاں زیادہ فیصلے قبائلی روایات کے مطابق جرگہ سسٹم سے حل کیے جاتے ہیں جن سے سستا اور پوری انصاف مہینوں کی بجائے گھنٹوں اور دنوں میں حقدار کو حق دلایا جاتا ہے ۔ضلع قلعہ سیف اللہ انتہائی تیزی سے تر قی کر رہا ہے بہت سے ترقیاتی کا م پائے تکمیل تک پہنچنے والے ہیں جس میں ڈسٹر کٹ جیل، قلعہ سیف اللہ اور قومی شاہراہ چند مہینوں میں مکمل ہو جائینگے جن سے یہاں کے تاجر کم سے کم وقت میں خیبر پختونخوا اور پنجاب کی منڈیوں تک رسائی حاصل کر لیں گے جن سے یہاں کی تجارت کو فروغ ملے گا۔

منگل، 2 دسمبر، 2025

سرمائ پرندوں کی ہجرت

 

موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی کراچی کے ساحل سی ویو پر  اور  پاکستان کی تمام جھیلوں اور  پانی کے دیگر زخائر پرسائبیریا سے بڑی تعداد میں مہمان پرندے پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔رنگ برنگے مہمان  پرندے سرد ممالک سے   برصغیر کے گرم ممالک میں ہجرت کرتے ہیں اور موسم سازگار ہونے پر واپس اپنے مستقل مسکن کی جانب کوچ کر جاتے    ہیں     آتے ہیں۔پاکستان بھی ان کے عارضی قیام          کے لئے  سازگار  مقام ہے   جہاں سائبیریا کے وسیع برف زار صحرا سمیت سرد علاقوں سے سفر کرنے والے پرندوں سے گرم علاقوں کے ان حصوں، خصوصاً جھیلوں میں بہار آجاتی ہے جہاں انہیں خوراک میسر آسکتی ہے۔سندھ میں کینجھر جھیل، ہالیجی جھیل، اڈیرو جھیل سمیت دیگر جھیلیں اور آبی ذخائر ایسے مقامات ہیں جہاں خوراک کی تلاش میں یہ مہمان اترتے ہیں۔نیرنگی، چیکلو، کونج، اڑی اور لال بطخ سمیت متعدد اقسام کے ان پرندوں میں بعض نایاب پرندے بھی شامل ہیں۔جن کے پیروں میں ایسے چھلے پائے جاتے ہیں جن میں ان کے بارے میں تحریر ملتی ہے۔ تحریروں کا مقصد ان پرندوں کی نایابی اور اہمیت کے بارے میں آگاہی دینا ہوتا ہے تاکہ ان کی حفاظت کی جائے۔  نیلگوں آسمان  میں تیرتے  ان پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ  قدرت کے حسن کا شاہکار نظر آتے ہیں ۔


پاکستان  میں بدین کی     خوبصورت جھیل  ہو یا سانگھڑ شہر کی بقار جھیل ہو  اللہ کے بھیجے  ہوئے ان معصوم ننھے مہمانوں کا مسکن ہوتی ہے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے کے لیے بہترین مقام ہے  کیونکہ  دور دیس سے آٗئے مہمانوں کا ان دنوں آشیانہ بھی تصور کی جاتی ہے جو سخت سردی سے بچنے کے لیے سائبیریا سمیت دیگر سرد علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں پاکستان اور بھارت کے علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور پاکستان میں خصوصاً سندھ کی جھیلوں اور ممبئی کے ساحلوں کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔سائیبیریا سے آئے یہ پرندے پاکستان کے ساحلی اور دریائی علاقوں   کو  ان رنگین خوبصورت آبی پرندوں کے دلفریب نظارے سرد موسم کو مزید نکھار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سال کے 4 ماہ قیام کرنے والے سائبیرین پرندوں کا لوگ بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔ سندھ کے مقامی افراد جو ماحول دوست اور ہجرتی پرندوں کو نسل در نسل دیکھتے آرہے ہیں، وہ ان کی آمد سے بہت خوش ہوتے ہیں اور ان کو دل ہی دل میں خوش آمدید کہتے ہیں۔کہتے ہیں کہ پہلے سندھ میں جہاں جنگلات میں موجود ڈاکو سید ذات اور خواتین کو نہیں لوٹا کرتے تھے بالکل ویسے ہی یہاں کے باشندے موسم سرما میں آئے غیر ملکی پرندوں کو مہمان تصور کرتے ہوئے ان کا شکار نہیں کیا کرتے تھے۔

۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی کے ساحل پر ہر سال موسم سرما کی آمد پر 179 سے زائد مہمان پرندے بسیرا کرتے ہیں۔پرندوں کی قیام گاہیں-عموماً ہم انہیں ’سائبیرین برڈ‘ یعنی سردی کے موسم میں سائبیریا سے ہجرت کرنے والے پرندے کہتے ہیں جو قدرے گرم علاقوں میں چند ماہ بسر کرتے ہیں۔ جب سردی اور برف جمنے کی وجہ سے دریاؤں اور جھیلوں کی مچھلیاں پانی کی تہ میں چلی جاتی ہیں اور ان پرندوں کو خوارک اور گرم ماحول کی ضرورت ہوتی ہے تب سرد ہوائیں شروع ہوتے ہی یہ پرندے جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان اور بھارت کے ساحلی علاقوں کا رخ کرتے ہیں-ٹھنڈے علاقوں کے ان پرندوں کو گرم ماحول کی ضرورت ہوتی ہےبدین سمیت دیگر علاقوں کی جھیلیں، نہریں، پانی کے قدرتی ذخائر اور کھیت کھلیان ہجرت کرکے آنے والے آبی پرندوں سے بھر جاتے ہیں۔پاکستان میں موسم سرما کے آغاز پر ہی جہاں روس، سائبیریا اور دیگر سرد مقامات سے آنے والے مہمانوں کی آمد شروع ہو جاتی ہے وہیں شکاری اور بیوپاری بھی سرگرم ہوجاتے ہیں۔


ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال کراچی سمیت سندھ کے 8 سے زائد اضلاع خصوصاً بدین، سجاول، ٹھٹہ اور کراچی میں لاکھوں سائبیرین پرندے آتے ہیں جو سندھ کی 11 جھیلوں کے کنارے پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ ضلع بدین کی ساحلی پٹی کے زیرو پوائنٹ، نریڑی جھیل، رامسر سائیٹ ہالیجی جھیل ٹھٹہ، گارھو جھیل، اسی طرح کراچی کے ساحلی علاقوں مبارک ولیج، ماڑی پور، ہاکس بے، ابراہیم حیدری سے ریڑھی گوٹھ کے ساحل تک اور ڈینگی اور بھنڈار سمیت دیگر جزائر میں بھی یہ ہجرت کرنے والے پرندے بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔تاہم زیادہ تر پرندے ضلع سجاول کی جھیلوں میں اترتے ہیں۔ان پرندوں پر کام کرنے والے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق گزشتہ 2 سالوں میں 220 اقسام کے 6 لاکھ سے زائد پرندوں نے پاکستانی علاقوں کا رخ کیا۔ تاہم موسمی حالات اور دنیا میں آتی دیگر تبدیلیوں کے باعث اب یہ تعداد وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے جس کی ایک وجہ سندھ بھر میں بارشوں کی کمی اور خشک سالی بھی بتائی جارہی ہے۔ہجرت کے راستےیہ پرندے 3 ہزار میل سے زائد کا فاصلہ طے کرکےکرغزستان، افغانستان کے راستے جسے گرین روٹ یا انڈس فلائی وے بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں پہنچتے ہیں۔اور اپنا سرمائ  وقت گزار کر واپس اپنے مسکن چلے جاتے ہیں 

پیر، 1 دسمبر، 2025

شمس العلماء خان بہادر حافظ ڈپٹی مولوی نذیر احمد

 

شمس العلماء خان بہادر حافظ ڈپٹی مولوی نذیر احمد  ضلع بجنور کی تحصیل نگینہ کے ایک گاؤں ریہر میں پیدا ہوئے۔ ایک مشہور بزرگ شاہ عبد الغفور اعظم پوری کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، لیکن آپ کے والد مولوی سعادت علی غریب آدمی تھے اور یو پی کے ضلع بجنور کے رہنے والے تھے۔شروع کی تعلیم والد صاحب سے حاصل کی۔ چودہ برس کے ہوئے تو دلی آ گئے اور یہاں اورنگ آبادی مسجد کے مدرسے میں داخل ہو گئے۔ مولوی عبدالخالق ان کے استاد تھے۔یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں کی حالت اچھی نہ تھی۔ دہلی کے آس پاس برائے نام مغل بادشاہت قائم تھی۔ دینی مدرسوں کے طالب علم محلوں کے گھروں سے روٹیاں لا کر پیٹ بھرتے تھے اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔ نذ یر احمد کو بھی یہی کچھ کرنا پڑتا تھا، بلکہ ان کے لیے تو ایک پریشانی یہ تھی کہ وہ جس گھر سے روٹی لاتے تھے اس میں ایک ایسی لڑکی رہتی تھی جو پہلے ان سے ہانڈی کے لیے مصالحہ یعنی مرچیں، دھنیا اور پیاز وغیرہ پسواتی تھی اور پھر روٹی دیتی تھی اور اگر کام کرتے ہوئے سُستی کرتے تھے تو ان کی انگلیوں پر سل کا بٹہ مارتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لڑکی سے ان کی شادی ہوئی۔کچھ عرصہ بعد دلی کالج میں داخل ہوئے جہاں انھوں نے عربی، فلسفہ اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔مولوی نذیر احمد نے اپنی زندگی کا آغاز ایک مدرس کی حیثیت سے کیا لیکن خداداد ذہانت اور انتھک کوششوں سے جلد ہی ترقی کرکے ڈپٹی انسپکٹر مدارس مقرر ہوئے۔

 مولوی صاحب نے انگریزی میں بھی خاصی استعداد پیدا کر لی اور انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ (تعزیرات ہند) کے نام سے کیا جو سرکاری حلقوں میں بہت مقبول ہوا اور آج تک استعمال ہوتا ہے۔ اس کے صلے میں آپ کو تحصیلدار مقرر کیا گیا۔ پھر ڈپٹی کلکٹر ہو گئے۔ نظام دکن نے ان کی شہرت سن کر ان کی خدمات ریاست میں منتقل کرا لیں جہاں انھیں آٹھ سو روپے ماہوار پر افسر بندوبست مقرر کیا گیا۔ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد مولوی صاحب نے اپنی زندگی تصنیف و تالف میں گزاری۔ اس علمی و ادبی میدان میں بھی حکومت نے انھیں 1897ء شمس العلماء کا خطاب دیا اور 1902ء میں ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ 1910ء میں پنجاب یونیورسٹی نے ڈی۔ او۔ ایل کی ڈگری عطا کی۔ شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کی مشہور تصنیفات میں مراۃ العروس (جو ان کا پہلا اردو ناول ہے)، توبۃ النصوح، فسانۂ آزاد (جسے اردو کا پہلا طویل ناول بھی کہا جاتا ہے)، فائدہ العوام، اور نصائح عثمانیہ شامل ہیں۔ ان کی تصانیف زیادہ تر اصلاحی اور معاشرتی نوعیت کی ہیں، جن کا مقصد اردو معاشرے کی اصلاح تھا۔ مراۃ العروس: ڈپٹی نذیر احمد کا پہلا اردو ناول ہے جو 1869 میں شائع ہوا۔ یہ ناول مسلمان بچیوں کی اخلاقی اور خانہ داری کی اصلاح کے لیے لکھا گیا تھا۔توبۃ النصوح: یہ ناول بھی ایک اصلاحی ناول ہے جو مسلمانوں میں خاندانی اصلاحات کو نمایاں کرتا ہے۔

فسانۂ آزاد: اس طویل ناول میں 19 ویں صدی کے ہندوستان کی سماجی اور سیاسی زندگی کا تذکرہ ہے، جس میں معاشرتی اخلاقیات اور اصلاح پر زور دیا گیا ہے۔فائدہ العوام: یہ ایک اصلاحی کتاب ہے جو عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے لکھی گئی ہے۔نصائح عثمانیہ: یہ کتاب اصلاحی اور اخلاقی نصیحتوں پر مشتمل ہے۔اردو زبان کی ترویج: ڈپٹی نذیر احمد نے اردو زبان کے فروغ کے لیے بھی کام کیا ہے، جس میں کئی اصلاحی اور اخلاقی نظریات پر مبنی کتب بھی شامل ہیں۔دو بہنوں کی عادات و اطوار پر مبنی اس ناول نے گویا ناول نگاری کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا ’مراۃ العروس‘‘ کے ذریعے قارئین، ناولز میں پہلی مرتبہ ایسے کرداروں سے آشنا ہوئے کہ جن کی اچھی، بُری صفات اُس سماج سے کشید کی گئی تھیں کہ جن کا وہ خود حصّہ تھے۔ اس ناول میں وہ داستان پیش کی گئی ، جو اُس زمانے میں گھر گھر کی کہانی تھی۔ یوں ایک قلم کار نے سماجی تخلیق کار کا رُوپ اختیار کیا اور یہ قلم کار، ڈپٹی نذیر احمد تھے۔ علی عبّاس حسینی نے ’’اُردو ناول کی تاریخ اور تنقید‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ ’’ڈپٹی نذیر احمد کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اُن تمام قصّوں میں ہماری معاشرتی زندگی کی بالکل سچّی تصویر کشی کی ہے۔ انہوں نے جن، پری، بُھوت پریت اور جادو طلسم جیسے غیر انسانی عناصر ترک کر کے اپنے گرد و پیش کے لوگوں اور اپنی ہی طرح کے معمولی انسانوں کے حالات بیان کیے ہیں۔‘‘ ’’مراۃ العروس‘‘اپنی اوّلین اشاعت کے بعد سےاب تک مسلسل شایع ہونے کے اعزاز کی حامل کتاب بھی ہے۔ 

1877ءمیں انہوں نے حیدر آباد، دکن کا رُخ کیا۔ وہاں کی علم دوست حکومت نے اُن کی صلاحیتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُن کی تن خواہ 850روپے ماہ وار مقرّر کی، جو کچھ ہی عرصے میں بڑھ کر 1700روپے ماہ وار ہو گئی۔ یہاں دیگر علمی اُمور کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد نے حفظِ قرآن کی طرف بھی توجّہ دی اور محض چھے ماہ کے اندر حافظِ قرآن ہوگئے۔ بعد ازاں، ’’فسانۂ مبتلا‘‘(1885ء ) اور ’’ابن الوقت‘‘ (1888ء ) شائقین ِ ادب کے سامنے آئیں اور انہیں بھی پسندیدگی کی سند ملی۔ ڈپٹی نذیر احمد ایک کثیر التصانیف مصنّف تھے ۔ اُن کی دیگر کُتب میں ’ایّامیٰ‘‘، ’’رویائے صادقہ‘‘، ’’منتخب الحکایات‘‘،’’اُمّہات الامّہ‘‘ کے علاوہ بہت سی اخلاقی، دینی اور مذہبی کُتب شامل ہیں۔ڈپٹی نذیر احمد نے اپنی زندگی متوسّط طبقے کے ایک فرد کی حیثیت سے بسر کی اور اُن کی تحریروں میں بھی دِلّی کا متوسّط طبقہ واضح طور پر جھلکتا محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اُن کے ناولز میں ہونے والی گفتگو، بالخصوص وہ مکالمے، جن میں خواتین کی زبان، محاورے اور ضرب الامثال شامل ہیں، بِلاشُبہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اپنے قلم کے ذریعے اصلاحِ معاشرہ اُن کا بنیادی مقصد تھا اور اُنہوں نے شاید اپنے اس مقصد سے ایک لمحہ بھی رُوگردانی نہیں کی۔ تاہم، کمال یہ کیا کہ اپنے ارد گرد کی فضا کو اپنے مشاہدے اور مکالمے سے تبدیل کرنے کی شعوری کوشش کی

جارجیا کی سب سے حیرت انگیز مثال پولیس کا مکمل خاتمہ تھی

  

جارجیا کی سب سے حیرت انگیز مثال پولیس کا مکمل خاتمہ تھی  اور  انتہائی حیران کن پہلو یہ تھا کہ انہوں نے پورے کے پورے اداروں کو مکمل طور پر ختم کر کے نئے سرے سے بنایا۔سب سے حیرت انگیز مثال پولیس کا مکمل خاتمہ تھی۔2004 سے پہلے جارجیا کی پولیس کرپشن میں اتنی ڈوبی ہوئی تھی کہ ہر چھوٹے بڑے کام کے لیے رشوت لازمی تھی عوام پولیس سے خوفزدہ رہتی تھی پولیس خود مجرموں کے ساتھ ملی ہوئی تھی-نئی حکومت نے کیا کیا؟ایک رات کے اندر پوری کی پوری پولیس فورس برطرف کر دی-یہ قدم انتہائی حیران کن تھا۔ایک رات میں سب کے سب پولیس اہلکاروں کی جگہ    نئے اہلکاروں نے کام سنبھال لیانئی پولیس کے لیے ایک بھی پرانا اہلکار نہیں رکھا گیا-صرف ایک سال کے اندر کرپشن 90% تک کم  ہو گئی عوام کا پولیس پر اعتماد مکمل بحال ہو گیا-جرائم کی شرح میں تیز ترین کمی آئی-یہ دنیا بھر میں اصلاحات کی تاریخ کا سب سے بڑا اور جرات مندانہ تجربہ تھا۔ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ پورے کا پورا ادارہ ختم کر کے نئے سرے سے بنایا جا سکتا ہے۔جارجیا نے ثابت کیا کہ کبھی کبھی مرمت سے کام نہیں چلتا، بلکہ پورا ڈھانچہ ہی توڑ کر نیا بنانا پڑتا ہے۔


 ہسپتال میں ڈاکٹر کو دیکھنے کے لیے، سکول میں داخلے کے لیے، یہاں تک کہ پولیس سے بچنے کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی تھی۔ ملک کی معیشت بری حالت میں تھی۔سنہ 2004 میں میخائل ساکاشویلی حکومت میں آئے اور انہوں نے فوری طور پر تین بڑے کام کیے-پہلا، پولیس کا نظام مکمل طور پر بدلا۔ پرانی پولیس کو برطرف کیا گیا۔ نئی پولیس بھرتی کی گئی۔ نئے اہلکاروں مقرر کیے  گئے، انہیں نئی وردیاں دی گئیں، اور ان کے رویے کی تربیت دی گئی۔ صرف چند ہفتوں میں عوام نے محسوس کیا کہ پولیس اب مددگار ہے، ڈراؤنی نہیں۔دوسرا، سرکاری دفاتر سے  کرپشن ختم کی گئی۔ سادہ اور شفاف نظام بنائے گئے۔ مثال کے طور پر، ٹریفک کے ٹکٹوں کی ادائیگی آن لائن ہونے لگی تاکہ ڈرائیور اور ٹریفک پولیس کے درمیان براہ راست رقم کا لین دین ختم ہو۔تیسرا، انتہائی سخت احتساب نافذ کیا گیا۔ کرپٹ اہلکاروں کو پکڑا گیا، ان کے خلاف تیزی سے مقدمے چلائے گئے، اور انہیں سزائیں دی گئیں۔ اس سے عوام کو اعتماد آیا کہ واقعی بدلاؤ ہو رہا ہے۔نتائج حیرت انگیز تھے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، صرف 1 سال میں کرپشن میں 90 فیصد تک کمی آئی۔ عوام کا سرکاری اداروں پر اعتماد بڑھا۔


بیرون ملک سے سرمایہ کاری آنے لگی۔آج جارجیا یورپ کرپشن سے پاک ممالک میں شمار ہوتا ہے۔· جارجیا حکومت ثابت کرتی ہے کہ غریب اور کرپٹ ملک بھی مختصر وقت میں اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں، بشرطیکہ حکومت اور عوام مل کر اصلاحات کے لیے پرعزم ہوں۔سنگاپور کا احتسابی نظام دنیا بھر میں ایک مثال سمجھا جاتا ہے۔ یہ نظام سادہ لیکن بہت سخت اصولوں پر کام کرتا ہے۔سنہ 1965 میں آزادی کے بعد سے ہی سنگاپور نے فیصلہ کیا کہ ملک کو ترقی کے لیے شفافیت اور ایمانداری کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے انہوں نے کئی اہم اقدامات کیے۔سب سے پہلے، انہوں نے ملک میں موجود ہر شخص کے لیے یکساں قوانین بنائے۔ چاہے وہ عام شہری ہو یا وزیر اعظم، سب کے لیے ایک ہی قانون ہے۔ اس سے یہ یقینی بنایا گیا کہ طاقتور لوگ بھی قانون سے بالاتر نہیں ہیں۔دوسرا اہم قدم کرپشن سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط ادارہ بنایا گیا جس کا نام ہے کرپشن پریکٹیشنز انویسٹیگیشن بیورو (CPIB)۔ یہ ادارہ براہ راست وزیر اعظم کے دفتر کے تحت کام کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسے کسی دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ CPIB کو کسی بھی شخص کے خلاف تحقیقات کرنے کا اختیار حاصل ہے، چاہے وہ ملک کا سب سے بڑا افسر ہی کیوں نہ ہو


۔تیسری بات، سرکاری ملازمین پر توجہ دی   اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لوگ محفوظ ہوں گے تو رشوت لینے کا امکان نہیں ہوتا۔چوتھا پہلو یہ ہے کہ یہاں سزائیں بہت سخت ہیں۔ کرپشن کے جرم میں پکڑے جانے والے افراد کو نہ صرف لمبی قید کی سزا ہو سکتی ہے، بلکہ انہیں بھاری جرمانے بھی ادا کرنے پڑتے ہیں۔ رشوت لینے والے افسر کو نہ صرف نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، بلکہ اسے مستقبل میں کوئی سرکاری کام بھی نہیں مل سکتا۔پانچواں، یہاں کے عدالتی نظام کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ عدالتیں بلا خوف و خطر فیصلے کرتی ہوں، چاہے مقدمہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ اس سے عوام کا اعتماد بڑھا ہے۔اس نظام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق، سنگاپور کرپشن کے خلاف   ایشیا کا سب سے کامیاب ملک ہے۔احتساب کے لیے مضبوط ادارے، یکساں قوانین، آزاد عدلیہ، اور عوام کی بھرپور شرکت ضروری ہے۔ جب تک یہ تمام عناصر اکٹھے نہیں ہوں گے، تب تک کسی ملک میں احتساب کا حقیقی نظام قائم نہیں ہو سکتا ہے

اتوار، 30 نومبر، 2025

اجنٹا کے غار -عجوبہءروزگار

 جنوبی ہند کے غار، جو قدیم زمانے کے انتہائ ماہر کاریگروں نے پہاڑ تراش کر بنائے تھے۔ دراصل یہ حیدرآباد دکن کے نزدیک اورنگ آباد سے تیرہ میل شمال مغرب کی جانب واقع ہیں۔ ان کا زمانہ پانچویں سے دسویں صدی عیسوی خیال کیاجاتا ہے اور یہ 4\1 مربع میل علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کل غار یا عمارتیں چونتیس ہیں۔ ان میں بدھ مت کی بارہ۔ برہمنوں کی سترہ اور جینیوں کی پانچ ہیں۔پہاڑ کی جن چٹانوں کو تراش کر یہ غار بنائے گئے ہں۔ وہ خشک پہاڑ ہیں۔ ان غاروں کی ترتیب اور تراش میں معماروں نے کمال دکھایا ہے۔ چٹانوں کو کاٹ کر دو منزلہ اور سہ منزلہ عمارتیں تیار کی گئی ہیں۔ ایک ہی چٹان سے دو منزلہ اور سہ منزلہ عمارت کے چھت ،پیلپائے، دلان، حجرے، سیڑھیاں اور دیواروں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے بت بنانا آسان کام نہیں۔ ان سنگ تراشوں کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نہایت کامیابی کے ساتھ یہ اندازہ کر لیا کہ چٹان میں وہ عمارت کھودنے والے ہیں وہ اندر سے ٹھوس اور دراڑ کے بغیر ہےن عمارتوں کے کمرے بھی اس قدر وسیع ہیں کہ ان میں ایک ہزار سے زیادہ آدمی ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔


تمام عمارتوں میں دو طرفہ زینے تراشے گئے ہیں جن پر چار رپانچ آدمی بیک وقت ایک ساتھ چڑھ سکتے ہیں۔ اسی سے باقی عمارتوں کی وسعت اور عظمت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ان میں ہوا اور روشنی کا بھی انتظام تھا۔ صرف چند کمرے ایسے ہیں جنھیں تاریک کہا جا سکتا ہے۔ان غاروں میں بے شمار تراشیدہ بت ہیں جن کی ساخت بتاتی ہے کہ اس زمانے کے سنگ تراش اپنے فن میں کس قدر ماہر تھے۔ بعض بت بہت بڑے لیکن طبعی تناسب کے لحاظ سے کاریگری کے بہترین نمونے ہیں۔ سب سے زیادہ بت بدھ،مہادیو اور پاربتی کے ہیں۔ مشہور ہے کہ مہادیو سب سے پہلے انھی پہاڑیوں پر ظاہر ہوئے تھے اور اپنی بیوی پاربتی کے ساتھ یہاں رہا کرتے تھے۔ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ ایلورا کی عمارتیں کسی ایک زمانے میں تعمیر نہیں ہوئیں بلکہ مختلف زمانوں میں ایک طویل عرصے یعنی صدیوں کی محنت اور صبر و استقلال کا نتیجہ ہیں۔یہ غار دنیا بھر کے سیاحوں کی دلچسپی کاباعث ہیں ا جنتا کے غاروں کی نقاشی کا سب سے بڑا راز ان کی خطوط کشی ہے۔ خطوط کا جتنا نظر نواز استعمال اجنتا کی نقاشی میں پایا جاتا ہے اس کی مثال کسی اور جگہ نہیں ملتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تصویریں ابھی بول پڑیں گی۔کنول کے پھول کو اجنتا کی مصوری میں ہر موقع پر کام میں لایا گيا ہے اور کنول کی یہ امتیازی شان ہمیں کہیں اور نظر نہیں آتی


عورت کی عظمت کو اجنتا کی نقاشی میں نمایاں مقام دیا گيا ہے جس سے ان دور میں عورت کے مرتبے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ہاتھی کی تصویر کشی بھی اجنتا کی مصوری کا موضوع ہے۔ ڈیزائن سازی میں غاروں کے نقاش اپنا جواب نہیں رکھتے۔ دیوی دیوتاؤں، چرند و پرند اور انسانوں سے لے کر پھولوں کومنقش کیا ہے سنہ 1822 میں ایک دوسرے شخص ولیم آئیکسن نے ان غاروں پر مبنی ایک مقالہ پڑھا اور صدیوں سے دنیا کی نظروں سے اوجھل ان غاروں کو زندہ جاوید کر دیا۔ بہت جلد یہ غار اپنی نقاشی اور سنگ تراشی کے بہترین نمونوں کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں مشہور ہوئے اور دنیا بھر سے نامور نقاش اور سنگ تراش انھیں دیکھنے آنے لگے۔ دھیرے دھیرے یہ غار سیاحوں کا پسندیدہ مرکز بن گئے۔جب اورنگ آباد کا علاقہ ریاست حیدرآباد کا حصہ بنا تو نظام نے ان غاروں کی تجدید پر توجہ دی اور سنہ 1920 میں غاروں کو میوزیم کی شکل دی، آمد و رفت کے ذرائع فراہم کیے اور داخلے کی فیس مقرر کر دی۔ آج بھی لوگ جوق در جوق ان غاروں کو دیکھنے آتے ہیں۔عالمی ادارے یونیسکو کا کہنا ہے کہ یہ 30 غاروں کا یہ مجموعہ مختلف زمانے میں بنا ہے۔


پہلا مجموعہ قبل مسیح کا ہے تو دوسرا مجموعہ بعد از مسیح کا ہے۔ الغرض اجنتا کے ان غاروں کی نقاشی قابل دید ہے جو تیز رنگوں سے بنائی گئی ہے اور تصویریں ہوش ربا منظر پیش کرتی ہیں۔ نقاشی میں استعمال کیے جانے والے رنگی بیشتر، سرخ، زرد، بھورے، کالے یا سفید ہیں۔ لاجورد اور زرد رنگ کی آمیزش سے سبز رنگ تیار کیا گيا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی رنگ کو نقاشی میں دوبارہ استعمال نہیں کیا گيا ہے۔ان غاروں میں مہاتما بدھ کے آثارو احوال کو پیش کیا گيا ہےیہ غار مہاتما بدھ کے آثار کا آئینہ ہیں اور بودھ مت کی مختلف کہانیوں کے عکاس ہیں۔ اس کے ذریعے بودھ مت کی تاریخی اور تہذیبی عظمت کے ساتھ مصوری کی ارتقائي صورت بھی نظروں کے سامنے آ جاتی ہے۔ ان کی ساخت، چہروں پر چھائے جذبات، حرکات و سکنات کے دلفریب انداز ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ جن کا تصور برسوں تک دماغ سے محو نہیں ہوتا۔ا۔اس کی نرم و نازک پنکھڑیوں سے لے کر ڈنٹھل تک کی نقاشی میں وہ مہارت ہے کہ اصل کا دھوکہ ہوتا ہے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر