جمعہ، 19 مئی، 2023

اردو زبان کی ضرورت اور اہمیت

head>

 دنیا آج کے دور میں ترقّی کی معراج پر پہنچنے کی تگ و دو میں مصروف ہے-اس لئے آج کے دور کا تقاضہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھی جائیں لیکن ساتھ ساتھ اپنی قومی زبان پر بھی پوری گرفت رکھّی جائے ، متعدد زبانوں میں بات چیت کرنے کے قابل ہونا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔  درحقیقت، بہت سی اچھی وجوہات ہیں کہ اپنی مادری زبان کو اچھی طرح جاننا کیوں ضروری ہے۔ کبھی کبھی یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے کہ کون سی غیرملکی زبان سیکھی جائے۔ کیا اردو کا انتخاب کرنا بہتر نہیں ہوگا؟ (واضح رہے کہ اردو ہندوستان کے لیے بدیسی زبان نہیں ہے۔ شاہ زماں حق نے فرانسیسی عوام کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات لکھی ہےایک ۔۔ اس کلاسیکی زبان کی مدد سے، جس نے بارھویں صدی کے آس پاس ترقی کرنا شروع کی، آپ چودھویں صدی اور اس کے بعد کے شاندار ادبی ذخیرے تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ 

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو بچے اپنی مادری زبان میں مہارت رکھتے ہیں وہ ان بچوں کے مقابلے میں مجموعی طور پر بہتر تعلیمی کارکردگی دکھاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اپنی مادری زبان میں پڑھنے اور لکھنے کی مضبوط بنیاد ہے، جو دوسرے مضامین میں بھی منتقل ہوتی ہے۔ آخر میں، اپنی مادری زبان جاننے سے ثقافتی فخر اور سمجھ کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔نیا کے مختلف میں کئی محققین یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ بچہ جس کی بنیادی تعلیم مادری زبان میں ہو دوسری زبانوں کو بھی آسانی سے سیکھ لیتا ہے۔ بچے میں کئی زبانیں سیکھنے کی خداداد صلاحیت ہوتی ہے لیکن زبانوں پر اس کی گرفت تب مضبوط ہوتی ہے اگر اس کی بنیادی تعلیم کا ذریعہ مادری زبان ہو۔ اس لئے اگر پاکستان کے ہر علاقے میں بنیادی تعلیم مادری زبانوں میں دی جائے تو اس سے نہ تو رابطے کی زبان اردو سیکھنے میں کوئی خلل پڑے گا اور نہ ہی قومی وحدت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ہندوستان کی جنوبی ریاستوں نے بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے اور یہ وہی ریاستیں ہی جہاں مادری زبانوں کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ ان ملکوں نے تیزی سے معاشی ترقی کی ہے جن میں مادری زبانوں کی ترویج کی گئی اور ان کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ جاپان، چین، جنوبی کوریا اور صنعتی لحاظ سے ترقی کرنے والے کئی دوسرے ممالک میں مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ اس کے الٹ پاکستان جیسے کچھ ملکوں میں مادری زبانوں کو نظر انداز کیا گیا اور یہ ملک ترقی کے سفر میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر چہ زبان ہی اس کی واحد وجہ نہیں ہے لیکن زبان کے بارے میں پائے جانے والے مغالطے بھی اس کا ایک سبب ہیں۔

اردو دنیا کی بیس سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے۔ 160 ملین لوگ اس زبان کو دنیا کے 26 ممالک افغانستان، بحرین، بنگلہ دیش، بوٹسوانا، کینڈا، فیجی، فنلینڈ، جرمنی، گیانا، ہندوستان، ملاوی، موریشس، نیپال، ناروے، اومان، پاکستان، قطر، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، سویڈن، تھائی لینڈ، نیدرلینڈ، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکہ اور زمبیا میں بولتے ہیں۔ اگر آپ اردو سیکھتے ہیں تو اس میں شائع ہونے والے تقریبا چار ہزار اخبارات و رسائل، 70 ریڈیو اسٹیشن اور 74 ٹی وی چینل تک آپ کی رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ اردو دوسری زبانوں کے زیر اثر وجود میں آئی۔ اس نے عربی، ہندی، فارسی، پنجابی، ترکی اور سنسکرت سے بہت سارے الفاظ لیکر اپنے دامن کو وسیع کیا۔ اردو زبان سیکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ آپ مذکورہ بالا زبانوں سے بھی کچھ حد تک واقفیت بہم پہنچا سکتے ہیں۔ اردو اور ہندی کے بہت سے بنیادی محاورے ایک ہی ہیں۔ اردو نے تقریبا چالس فیصد الفاظ فارسی اور عربی سے ماخوذ کیے ہیں۔ سنسکرت سے 43 الفاظ لیے گئے ہیں جو روز مرہ کی اردو میں بولے جاتے ہیں۔

 اردو فارسی-عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اگر آپ یہ زبان پڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں تو آپ چھ دوسری زبانیں یعنی عربی، بلوچی، کشمیری، پشتو، فارسی اور پنجابی بھی لکھ پڑھ سکتے ہیں۔ آپ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ کے معنی و مفاہیم بھی سمجھ سکتے ہیں۔اردو ہندوستانی برصغیر کی سب سے کم اہمیت دی جانے والی عوامی رابطے کی زبان ہے۔ اردو پاکستان میں مقیم 45 فیصد سے زیادہ پنجابی بولنے والے، لسانی اور دیگر گروہی طبقات کی واحد رابطے کی زبان ہے۔ شمالی ہندوستان کے پولس تھانہ میں شکایت دہندگان اردو کا استعمال ایک دفتری زبان کی حیثیت سے کثرت سے کرتے ہیں۔

اردو زبان کا علم آپ کے کیرئیر میں چار چاند لگا سکتا ہے اگر آپ شمالی ہند، پاکستان، برطانیہ، عرب متحدہ امارات، اومان، قطر سعودی عرب، جنوبی افریقہ اور ان جیسی دوسری جگہوں پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ اردو کا علم روزگار تلاش کرنے اور آپ کے سماجی رابطہ کو وسیع کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوگا۔-اردو زبان کی اہمیت-اردو زبان اَدب ، دفتر،عدالت ،اور دینی اِداروں میں بولی جاتی ہے۔ اور یہ ملک کی سماجی و ثقافتی میراث کا خزانہ بھی لیے ہوئے ہے پوری دنیا میں اردو بولنے والے پائے جاتے ہیں ۔ عرب ریاستوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ،امریکہ ،کینیڈا جرمنی اور آسٹریلیا میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔۔

ڈپلومیسی میں اردو زبان کی ضرورت-اردو برصغیر پاک و ہند میں سفارت کاری میں بھی ایک اہم زبان ہے۔ خطے کے بہت سے ممالک کے پاکستان اور بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں اور اردو اکثر حکام کے درمیان رابطے کے ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اردو بین الاقوامی تنظیموں جیسے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم میں بھی استعمال ہوتی ہے۔سفارت کاری میں اردو کی اہمیت اس کی لسانی قدر سے باہر ہے۔ سفارت کاری کے لیے موثر رابطے کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ اہلکار جو اردو میں مؤثر طریقے سے بات چیت کر سکتے ہیں، انہیں مذاکرات میں فائدہ ہوتا ہے۔ اردو بولنے والے سفارت کار خطے کی ثقافتی اور سیاسی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے بھی بہتر طریقے سے لیس اردو برصغیر پاک و ہند میں میڈیا کی ایک اہم زبان ہے۔ اردو اخبارات، رسائل اور ٹیلی ویژن چینل پاکستان اور ہندوستان میں بڑے پیمانے پر پڑھے اور دیکھے جاتے ہیں۔ اردو نیوز چینلز خطے میں سب سے زیادہ مقبول ہیں اور ان کے ناظرین کی تعداد وسیع ہے۔میڈیا میں اردو کی اہمیت اس کی لسانی اہمیت سے بھی آگے بڑھی ہوئی ہے۔ میڈیا رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اور اردو میڈیا کا استعمال برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کے لیے اہم مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

اردو برصغیر پاک و ہند میں سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں ایک اہم زبان ہے۔ یہ خطہ متنوع ہے، بہت سی مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے ساتھ، اور اردو ایک زبان کے طور پر کام کرتی ہے جو ان اختلافات کو ختم کر سکتی ہے۔ اردو بھی ایک ایسی زبان ہے جو مختلف پس منظر کے لوگوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔سماجی ہم آہنگی میں اردو کی اہمیت اس کی لسانی قدر سے باہر ہے۔ اردو کا استعمال بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے، مختلف برادریوں کے درمیان پل بنانے اور قومی شناخت کے احساس کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ اردو بولنے والی کمیونٹیز بھی بڑے معاشرے میں حصہ لیتے ہوئے اپنی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہیں

منگل، 16 مئی، 2023

القادر یونیورسٹی-سوہاوہ

 

یہ پاکستانی عوام کی خوش نصیبی ہے کہ ان کو پہلا ایسا وزیراعظم ملا ہے جو علم دوست ہے۔ عمران خان پاکستان کے تدریسی نظام اور اس سے جنم لینے والے مسائل کا ذکر بھی کرتے رہے ہیں اور اس کا تدارک ایک ایسے تعلیمی نظام کو قرار دیتے ہیں جہاں دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم دی جائے۔اپنے اسی خیال کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نے صوبہ پنجاب کے شہر جہلم کے علاقے سوہاوہ میں القادر یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا، جہاں دنیاوی تعلیمات کو صوفی ازم اور سیرت النبی کے ساتھ نہ صرف ملا کر پڑھا جائے گا بلکہ اس پر ریسرچ بھی کی جائے گی۔اس یونیورسٹی میں نہ صرف تعلیم دی جائے گی بلکہ آکسفورڈ ریذیڈینشل کالج کی طرز پر طلبہ کو مینٹورز بھی اسائن کیے جائیں گے جو نہ صرف کلاس ختم ہونے کے بعد بھی طلبہ کے ساتھ ہوں گے بلکہ ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی کریں گے۔ اس جامعہ میں ایسا نظامِ تعلیم وضع کیا گیا ہے جس میں طلبہ و طالبات کو جدید علوم قرآن و سنت کی روشنی میں نہ صرف سکھائے جائیں گے بلکہ اصل روح کے مطابق ان تعلیمات پر عمل کرنے کی تربیت بھی دی جائے گی۔بطور وزیراعظم عمران خان کا یہ ایک ایسا پراجیکٹ ہے جو ان کے ریاست مدینہ کے تصور کی تکمیل کے لیے ایک عملی قدم ہے۔ گلوبل سکوپ رکھنے والی یہ ٹرسٹ بیسڈ یونیورسٹی اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یہاں کی فیکلٹی کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہے۔

القادر یونیورسٹی کی ایڈوائزری کمیٹی میں شیخ حمزہ یوسف، شیخ عبدالحکیم مراد، شیخ امین کھولوادیا اور ڈاکٹر رجب سینٹرک جیسے عالمی سطح پر مشہور نام شامل ہیں۔اس ٹرسٹ بیسڈ جامعہ کی فیکلٹی میں لمز، آئی بی اے اور کے ایس بی ایل جیسی پاکستان کی ٹاپ یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے ڈاکٹر ذیشان احمد، ڈاکٹر جمشید حسن خان، ڈاکٹر عارف زمان، ڈاکٹر انور خورشید اور ڈاکٹر عارف اقبال رانا شامل ہیں۔یہ ایک پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹی ہے اور اس کے انتظامات ایک ٹرسٹ کے تحت کیے گئے ہیں تاکہ حکومتوں کی تبدیلی کا اس پر کوئی اثر نہ پڑے۔ اس پراجیکٹ کا ایک منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ خاتون اول بشریٰ بی بی اس پراجیکٹ کے ٹرسٹیز میں شامل ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اس پراجیکٹ کے ڈین ڈاکٹر ذیشان احمد کا کہنا تھا: ’یہ پراجیکٹ خان صاحب کا ایک بہت پرانا خواب تھا کہ وہ ایک ایسی یونیورسٹی بنائیں جہاں سیرت اور صوفی تعلیم کو سائنسی علوم کے ساتھ ملا کر پڑھایا جائے۔ یہ پراجیکٹ نہ صرف وزیراعظم کا خواب ہے بلکہ خاتون اول کے دل کے بھی بہت قریب ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اسلام کے نام پر بنا مگر عملی طور پر قردادِ مقاصد اور چند آئینی ترامیم کے علاوہ ایسے اقدامات نہیں کیے گئے، خاص طور پر جو چیز قوم میں داخل ہوتی ہے وہ ان کے نظام تعلیم اور میڈیا سے داخل ہوتی ہے مگر دونوں طرف دیکھیں تو واضح طور پر ایک دنیاوی اور سیکولر سوچ ہے جس میں اکثر اسلام کے آئیڈیاز شامل نہیں ہوتے۔ کم از کم مرکزی دھارے میں نہیں ہوتے تو ایک ایسی یونیورسٹی کی ضرورت محسوس کی گئی جہاں ہم قرآن، سنت، سیرت، علما و مشائخ کے اقوال اور تصوف پر تحقیق کریں اور اس کو ماڈرن سائنس اور ریسرچ کے ساتھ ملائیں۔‘ڈاکٹر ذیشان احمد نے یونیورسٹی کی فیکلٹی کے بارے میں بتایا: ’یہاں کی فیکلٹی کو منتخب کرنے میں ہماری پہلی کوشش یہی رہی ہے کہ ان کا رجحان اسلامی ہو اور وہ اپنے مضمون کے بھی ماہر ہوں لیکن ان کی بنیاد اسلام میں ہو۔ اس ادارے کا سکوپ گلوبل ہے۔ ہم نے کچھ معاہدے ترکی اور ملیشیا کے ساتھ بھی کیے ہیں تاکہ طلبہ اور فیکلٹی ایکسچینج پروگرام ہو سکیں اور طلبہ اور اساتذہ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔‘

’آہستہ آہستہ یہاں بیرون ممالک سے طلبہ اور اساتذہ آئیں گے۔ ابھی بھی کچھ بیرون ممالک کے اساتذہ کو آن بورڈ لیا گیا ہے جو آن لائن کلاسز بھی دیں گے اور کچھ یہاں آ کر بھی پڑھائیں گے۔‘مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ایک اور پلان ہے کہ مدرسے کے طلبہ کے لیے ماسٹرز کے کورس ڈیزائن کیے جائیں، جہاں پر سائنس اور انگریزی کے ساتھ ساتھ ریسرچ کے طریقے سکھائے جائیں تاکہ وہ موثر انداز میں اپنی دعوت دنیا تک پہنچا سکیں۔‘  

اس سوال پر کہ کیا یہ یونیورسٹی صرف مسلمان طلبہ اور اساتذہ کے لیے ہی بنائی گئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ یہ یونیورسٹی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہاں پر کئی پروفیسر بھی ہوں گے، جو کوئی مضمون پڑھا رہے ہوں اور ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمان نہ ہوں۔ کئی طلبہ بھی ایسے ہوسکتے ہیں۔‘انہوں نے امید بھی ظاہر کی کہ یہ یونیورسٹی دنیا بھر میں مسلمانوں کے بارے میں پائے جانے والے انتہاپسندی کے تاثر کو زائل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ڈاکٹر ذیشان احمد نے یونیورسٹی کی فیکلٹی کے بارے میں بتایا: ’یہاں کی فیکلٹی کو منتخب کرنے میں ہماری پہلی کوشش یہی رہی ہے کہ ان کا رجحان اسلامی ہو اور وہ اپنے مضمون کے بھی ماہر ہوں لیکن ان کی بنیاد اسلام میں ہو۔ اس ادارے کا سکوپ گلوبل ہے۔ ہم نے کچھ معاہدے ترکی اور ملیشیا کے ساتھ بھی کیے ہیں تاکہ طلبہ اور فیکلٹی ایکسچینج پروگرام ہو سکیں اور طلبہ اور اساتذہ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔‘

’آہستہ آہستہ یہاں بیرون ممالک سے طلبہ اور اساتذہ آئیں گے۔ ابھی بھی کچھ بیرون ممالک کے اساتذہ کو آن بورڈ لیا گیا ہے جو آن لائن کلاسز بھی دیں گے اور کچھ یہاں آ کر بھی پڑھائیں گے۔‘مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ایک اور پلان ہے کہ مدرسے کے طلبہ کے لیے ماسٹرز کے کورس ڈیزائن کیے جائیں، جہاں پر سائنس اور انگریزی کے ساتھ ساتھ ریسرچ کے طریقے سکھائے جائیں تاکہ وہ موثر انداز میں اپنی دعوت دنیا تک پہنچا سکیں۔‘  اس سوال پر کہ کیا یہ یونیورسٹی صرف مسلمان طلبہ اور اساتذہ کے لیے ہی بنائی گئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ یہ یونیورسٹی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہاں پر کئی پروفیسر بھی ہوں گے، جو کوئی مضمون پڑھا رہے ہوں اور ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمان نہ ہوں۔ کئی طلبہ بھی ایسے ہوسکتے ہیں۔‘انہوں نے امید بھی ظاہر کی کہ یہ یونیورسٹی دنیا بھر میں مسلمانوں کے بارے میں پائے جانے والے انتہاپسندی کے تاثر کو زائل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔اکٹر ذیشان نے بتایا کہ ’کچھ اس طرح کے لوگ ہیں جو مجھے کہتے تھے کہ ہم اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی چاہتے ہیں تو ہم انہیں کہاں بھیجیں۔ ابھی تک میرے پاس انہیں دینے کے لیے کوئی جواب نہیں تھا، مگر اب میں انہیں کہوں گا کہ اپنے بچوں کو القادر یونیورسٹی بھیجیں۔‘

لمز یونیورسٹی چھوڑ کر القادر یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طالب علم عمار بشارت

 نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’عمرہ کرنے کے بعد میرا رجحان 

مذہب کی جانب زیادہ ہوگیا۔ میری بہت خواہش تھی کہ میں نہ صرف دنیاوی

 بلکہ دینی تعلیم کی طرف بھی جاؤں۔ میں چاہتا تھا کہ ایسی صحبت والی جگہ ہو

 جہاں تربیت بھی دی جائے۔ آپ کے ساتھ اساتذہ ہوں جو آپ کو سب 

کچھ بتائیں اور بتانے کےساتھ کرکے بھی دکھائیں اور القادر یونیورسٹی ایک ایسا

 ہی ادارہ ہے۔‘ڈسٹرکٹ نارووال شکر گڑھ سے تعلق رکھنے والی القادر یونیورسٹی

 سکی طالبہ اقصیٰ نصرت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے ایف ایس

سی میڈیکل کیا ہے اور یہاں اپنے شوق کی وجہ سے آئی ہیں۔ بقول اقصیٰ:

 ’میں پنے ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتی ہوں اور یہ بھی چاہتی ہوں

کہ اپنے کیریئر کا راستہ میں خود بناؤں۔ جب میں نے القادر کا ویژن دیکھا تو اس نے مجھے بہت متاثر کیا۔‘

القادر یونیورسٹی کے پہلے بیچ کے لیے تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔

 ابتدائی طور پر یونیورسٹی بی ایس آنرز (مینجمنٹ) کی ڈگری آفر کر رہی ہے اور

 پہلے بیج میں 16 طلبہ اور 21 طالبات یہاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

پیر، 15 مئی، 2023

بدھ مت تہذیب کے انمول شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

 

 

بدھ مت تہذیب کے انمول  شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

بُدھ مت کا بانی سدھارتھا گوتم قریباً 600 سال قبل از مسیح میں نیپال کے شاہی گھرانے میں پیدا ہوا تھا ۔ جیسا کہ اُسکی کہانی بیان کرتی ہے وہ کسی حد تک بیرونی دُنیا سے انجان عیش و عشرت بھری زندگی بسر کررہا تھا ۔ اُس کے والدین کا مقصد اُسے مذہب کے اثر سے بچانا اور اُسے دکھ اور مصیبت سے محفوظ رکھنا تھا۔ تاہم زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اُس کی آرام گاہ میں چھید ہو گیا اور اُس نے ایک عمر رسیدہ شخص، ایک بیمار شخص اور ایک لاش کے مناظر دیکھے ۔ چوتھے منظر میں اُس نے ایک پُرامن صوفی درویش(جو عیش و عشرت اور آرام دہ زندگی کو چھوڑ دیتا ہے) کو دیکھا ۔ درویش کی پُر امن حالت کو دیکھا کر اُس نے بھی درویش بننے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے خودضبطی/ نفس کشی کے عمل کے وسیلے سے روشن خیالی کی تلاش کے لئےمال ودولت کی زندگی کو خیر باد کہہ دیا۔ وہ خودضبطی/ نفس کشی اور گیان دھیان کرنے کی مشق میں ترقی کرتا گیا ۔ وہ اپنے ساتھیوں کا رہنما تھا۔ آخر کار اُس کی تلاش ایک خاص نکتے پر جا کر اختتام پذیر ہوگئی۔ ایک دن اُس نے ایک پیالہ چاول کھائے اور اس ارادے سے گیان دھیان کرنے کےلیے انجیر کے درخت(جسے بودھی درخت /مقدس درخت بھی کہا جاتا ہے)کے نیچے بیٹھ گیا کہ یا تو وہ اِس دھیان و گیان کی مشق کی بدولت" روشن خیالی " پا لے گا یا گیان دھیان کرتے کرتے مر جائے گا۔ اپنی تکلیفوں اور کئی ایک آزمائشوں کے باوجود اگلی صبح تک اس نے روشن خیالی حاصل کرلی ۔ اور اجنٹا کے غاروں میں بدھ مت کی پیدائش لے کر ان کے نروان تک کی تہذیب کو سمویا گیا ہے-اجنتا دراصل ہندوستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جسے ان غاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔یہ غار انسانی ہاتھوں کی صناعی اور کاری گری کا بے پناہ خوبصورت نمونہ ہیں۔ محققین کے مطابق ان میں کچھ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل اور کچھ غار چھٹی صدی عیسوی میں تراشے گئے تھے۔

اورنگ آباد، ہندوستان کا ایک تاریخی شہر ہے جہاں اندرونِ شہر کئی قدیم عمارتیں اور آثار سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ اسی طرح اورنگ آباد سے باہر صدیوں پرانے اجنتا کے غاربیش قیمت ورثہ اور اعجوبہ ہیں، جو تحقیق و دریافت سے وابستہ ماہرین اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔اورنگ آباد شہر سے باہر شمال کی طرف شہرہ آفاق اجنتا کے غار عالمی ثقافتی مقام کا درجہ رکھتے ہیں۔بدھ مت کی تاریخ اجنتا کے آثار کی دیواروں پر تصاویر کی شکل میں موجود ہے جو یہاں آنے والوں کو ہزاروں سال پیچھے لے جاتی ہے۔ماہرین کے مطابق یہ ایک زمانے میں بدھ مت کے پیرو کاروں کا مرکز تھا جس میں فن سنگ تراشی، نقاشی و تصویر کشی دیکھ کر آج کے دور کا انسان بھی دنگ رہ جاتا ہے۔

کئی نسلوں کا مسکن رہنے والے یہ غار کیا ہیں، رہائشی تعمیر کا شاہ کار اور انوکھے محل اور مکانات ہیں جنھیں اس دور میں بے پناہ مشقت اورسخت محنت سے تراشا گیا ہو گا۔ان غاروں میں بنائی گئی تصاویر کی بات کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس دور کے فن کار نباتات اور جمادات کی مدد سے رنگ تیار کرتے اور نہایت مہارت و خوبی سے اپنے شاہ کار کوان کے ذریعے گویا زندہ کردیتے۔

ماہرین کےمطابق اس دورکے فن کار جدت پسنداور صناعی و تخلیق کے ضمن میں بھی سائنسی سوچ کے مالک تھے۔ ان تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علم ہندسہ جانتے، ناپ تول اور پیمائش کو خوب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تصاویر طول و عرض، قوسین، دائرے، فاصلے، حجم کے لحاظ سے قابلِ ذکر ہیں۔اس دور کے فن کاروں اور کاری گروں کا مشاہدہ نہایت عمیق، ذوق شاعرانہ اور ان میں مہارت اعلیٰ درجے کی تھی۔

ان تصاویر میں محل کے دروازے پر کھڑا بھکشو، ستونوں‌ پر تراشی گئی تصاویر، محل میں رقص کی ایک محفل کا منظر، زیورات پہنے ہوئے کالی رانی، ہیلوں کی لڑائی کا منظر شامل ہیں۔اجنتا کے غار اورنگ آباد سے ایک سو دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ ان غاروں تک پہنچنے کے لیے سڑک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔اجنتا کے یہ غار نواب سکندر جاہ آصف ثالث کے عہد میں بازیافت ہوئے۔ مشہور ہے کہ چند شکاری اس مقام سے گزرے جنھوں نے یہ غار اور ان میں مورتیاں دیکھیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کواس کی اطلاع دی۔1924 میں نظام دکن میر عثمان علی خان کے حکم اس قدیم اور تاریخی ورثے کی حفاظت اور ضروری تعمیر و مرمت کے ساتھ غاروں تک پہنچنے کے لیے راستہ بنایا گیااور اس پر خطیر رقم خرچ کی گئی۔

1885 میں ان غاروں کی تصاویر پر مشتمل ایک کتاب شایع کی گئی اور یوں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جس کے بعد ان غاروں کی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی۔

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر