منگل، 22 مارچ، 2022

موج رواں پر یا حسین

ca-pub-4942806249941506"ads.txt>

یہ بروائتے  تقریباًدوسو برس پہلے کا زکر ہے کہ بدھ مت کا ایک پیرو کار

حسب معمول  دریا میں اپنا جال ڈالے مچھلیاں پکڑ رہا تھا  کہ  اس کی نظر دریا کی لہروں پر چلتے ہوئے ایک علم پر گئ اس  نے مچھلیوں کے ساتھ علم بھی اپنی تحویل میں لے لیااور علم گھر لا کر گھر  کے ایک کونے میں رکھ کر بھول گیا  

  لیکن ایک رات اس کو خواب میں یاد دہانی کروائ گئ کہ وہ اس علم کو  شیرازی نام

 کے بزرگ کو جا کر دے آئے اور ساتھ ہی مسجد و امام بارگاہ کی تعمیر کی جگہ بھی خواب میں بتا دی گئ جب یہ خواب اس نے بار بار دیکھا تو وہ علم لے کر شیرازی صاحب کے پاس حاضرہوا

ماندلے شہر کے رہائشی 84 سالہ ڈاکٹر شیرازی بتاتے ہیں کہ یہاں مشہور روایت یہ ہے کہ ان کے نانا آغا علی اکبر شیرازی کے پاس ایک پریشان حال مچھیرا آیا جس کے ہاتھ میں ایک علم تھا۔

اس مچھیرے کو یہ علم اراوادی دریا سے ملا تھا۔ مچھیرے کا تعلق بدھ مت سے تھا۔ وہ علم گھر لے آیا اور بھول گیا۔ روایت کے مطابق اسے تین بار خواب میں آغا شیرازی سے ملنے اور امام بارگاہ بنانے کی جگہ کی نشاندہی ہوئی تھی۔

بدھ مت سے تعلق رکھنے والا یہ مچھیرا ماتیں سوں کے پرنانا تھے۔ تین نسلوں سے یہ خاندان امام بارگاہ کی نگہبانی کر رہا ہے۔

لگ بھگ تین سے چار کنال پر پھیلی ہوئی اس امام بارگاہ کے احاطے میں برمیز لکڑی کے چھوٹے سے گھر میں یہ اپنی والدہ اور شوہر کے ساتھ رہتی ہیں۔ امام بارگاہ کے احاطے میں ان کے شوہر اپنی گاڑیوں کا گیراج چلاتے ہیں۔ ہر سال محرم اور صفر کے مہینوں میں یہ زائرین کا استقبال کرتے ہیں۔ ماندلے اور دوسرے بڑے شہروں سے یہاں ننگے پیر زائرین چہلم (اربعین) کے لیے بھی آتے ہیں۔

امام بارگاہ کے احاطے میں مسجد ہے جہاں ان ایام میں باجماعت نماز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

میانمار کے قدیم شہر عماراپورا میں واقع ڈیڑھ سو برس قدیم امام بارگاہ کی نگہبانی ایک بُدھ مت مذہب کا پیروکار خاندان کر رہا ہے۔

یہ خاندان چار نسلوں سے اس امام بارگاہ کا متولی ہے۔ اِن کا رہن سہن عام بُدھ مت پیروکاروں سے تھوڑا سا مختلف ہے۔ جیسا کہ اس خاندان کے افراد دیگر پیروکاروں کے برعکس خنزیر کا گوشت نہیں کھاتے ہیں اور اہل تشیع کے ساتھ ایام عزا کے سوگ میں شامل ہوتے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب برما میں رہنے والے مسلمانوں کے حالات خوشگوار نہیں اور سنہ 2016 میں بدھ مت اور مسلمانوں کے مابین ہونے والے فسادات کے بعد سے بہت سی مسجدیں آج بھی بند ہیں،

میانمار کا قدیم شہر عماراپورا سنہ 1783 سے سنہ 1859 تک برما کا دارالحکومت رہا ہے۔ یےگار موشے کی کتاب ’برما کے مسلمان‘ کے مطابق سلطنت اووا کے دور میں (یعنی سنہ 1850) میں یہاں 20 ہزار مسلمان خاندان آباد تھے۔

ماندلے شہر سے 11 کلومیٹر کی دوری پر واقع اس شہر میں آج ایک بھی اہل تشیع کنبہ موجود نہیں ہے۔ اس حقیقت کے باوجود گذشتہ ایک صدی سے وہاں انگریزوں کے دور میں تعمیر کی جانے والی امام بارگاہ آج بھی قائم و دائم ہے اور ہر سال محرم اور سفر کے مہینوں میں زائرین کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔

برما میں یہ امام بارگاہ پرائیویٹ ٹرسٹ کے طور پر چلایا جاتا ہے۔ عمارا پورا امام بارگاہ کے ٹرسٹی ڈاکٹر ایم اے شیرازی بتاتے ہیں کہ ان کے نانا آغا علی اکبر شیرازی نے اس امام بارگاہ کی تعمیر سنہ 1884 میں ایک بدھ مت پیروکار مچھیرے کے کہنے پر کی تھی۔

مرنے سے پہلے سنہ 1917 میں عمارت کی ملکیت کے کاغذات امانت کے طور پر ان کے حوالے کر گئے۔

امام بارگاہ کے پچھلے احاطے میں ایک پرانی قبر بھی موجود ہے۔ یہ قبر حاجی ید محمد حسین نجفی المعروف حاجی سیدی کی ہے جن کی وفات سنہ 1918 میں ہوئی تھی۔

رواں برس برما میں کووڈ 19 کی وجہ سے عبادت کے مقامات بند رکھے گئے ہیں۔ مولانا کہتے ہیں ’کووڈ کی وجہ سے ہمیں حکومت نے اس سال عزاداری سے منع کیا ہے۔ جب حکومت ہمیں کبھی کبھار منع کرتی ہے تو ہم مان لیتے ہیں۔

پشاور کوچہ رسالدارشہیدان اما میہ مسجد

 پشاور کوچہ رسالدارشہیدان اما میہ مسجد

امامیہ مسجد پشاور میں دھماکہ شیعوں کے خلاف ہونے والی دہشتگردی کے واقعات میں سے ایک  بہت بڑا اور خونچکاں  واقعہ  ہے جو پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے دارالخلافہ پشاور قصہ خوانی بازار کے کوچہ رسالدار میں واقع ہوا۔ یہ سانحہ 4 مارچ سنہ 2022ء بمطابق 30 رجب 1443 ہجری کو اس وقت پیش آیا جب لوگ نماز جمعہ میں مشغول تھے۔ظالمون پہ تا قیامت لعنت  ہے اور مظلوم اللہ کی بارگاہ مین کامیاب ہین ابتدائی تفصیلات کے مطابق قصہ خوانی بازار کے کوچہ رسالدار میں شیعہ جامع مسجد میں 2 حملہ آوروں نے گھسنے کی کوشش کے دوران ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی۔حملہ آوروں کی فائرنگ سے ایک پولیس جوان شہید جبکہ دوسرا شدید زخمی ہو گیا۔ مسجد میں ہونے والا دھماکا خودکش تھا،عینی شاہد کے مطابق کالے لباس میں ملبوس خودکش حملہ آور نے پہلے سکیورٹی اہلکاروں پر 5 سے 6 فائر کیے اور پھر اندر آ کر خود کو اڑا دیا، دھماکے کے بعد مسجد کے ہال میں ہر طرف انسانی اعضا پھیل گئے۔ اس سانحے میں ۷۰سے زائد مومنین شہید جبکہ تقریبا 200 کے قریب مؤمنین زخمی ہیں-کیا ان بے کسوں کے بے گناہ خون  کے طفیل  پاکستان کے حکمرانوں کے ضمیر بیدار ھونگے؟

وزیر اعظم پاکستان عمران خان، نے اس سانحے کی مذمت کی اور فی الفور اس کے تحقیق اور زخمیوں کو مدوا کرنے کا حکم دیا۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل راجہ ناصر عباس جعفری نے مذمت کرتے ہوئے اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی قرار دیاشیعہ علما کونسل کے سربراہ سید ساجد علی نقوی نے سانحے کی مذت کرتے ہوئے واقعے کو حکومت کی نااہلی قرار دیا اور تین دن سوگ کا اعلان کرتے ہوئے 6 مارچ کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا۔6جمعیت علما اسلام کے سربراہ اور اہل سنت عالم دین فضل الرحمن نے نماز جمعہ کے دوران ہونے والے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اسے سفاکیت کی بدترین مثال قرار دیا-

عراق میں مقیم شیعہ مرجع تقلید آیت‌الله سیستانی کے دفتر کی طرف سے جاری ایک بیان میں سانحہ پشاور کی مذمت کے ساتھ پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں مذہبی مراکز پر ہونے والے حملوں کی روک تھام کرے۔اسی طرح عراق کی پارلیمانی پارٹی حکمت کے سربراہ عمار الحکیم نے بھی مذمت کی ہے

پاکستان کی اہلسنت مذہبی پارٹی جماعت اسلامی نے سانحہ امامیہ مسجد پشاور کی مذمت کی ہے۔

پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے نمازیوں پر ہونے والے اس حملے کو انسانیت پر حملہ قرار دیا-اور امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق نے عبادتگاہوں کو قتلگاہ بنانے والوں کو حیوان سے بھی بدتر قرار دیتے ہوئے سانحہ پشاور کی مذمت کی۔اہل سنت کے متعد دعلما نے بھی اس سانحے کی بھرپور مذمت کی جن میں تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جمعیت علماء پاکستان (نورانی) اور ملی یکجہتی کونسل کے صدر ابوالخیر ڈاکٹر محمد زبیر، جمعیت علماء اسلام (س) کے مولانا عبدالروف فاروقی، جماعت اہلحدیث پاکستان کے حافظ عبدالغفار روپڑی، مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان کے صدر پیر عبدالخالق قادری سرفہرست ہیں

حکمراں اور انتظامیہ کی غفلت شیعہ نسل کشی کی بنیاد ہے

کی رپورٹ کے مطابق حجت الاسلام سید سجاد حسین کاظمی نے گذشتہ شب شھدائے پشاور کی مناسبت سے مدرسہ حجتیہ قم کی مسجد میں منعقد مجلس میں حکمراں اور انتظامیہ کی غفلت کو پاکستان میں شیعہ نسل کشی کی بنیاد بتایا ۔

انہوں نے حالیہ شہادتوں پر تعزیت وتسلیت پیش کرتے ہوئے زخمی مومنین کی جلد شفا یابی کی دعا کی اور کہا : خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے ہمیں ڈرانے والوں کومعلوم ہونا چاہے کہ ہم نے مجالس کے ذریعے اپنی ماؤں کی آغوش میں شہید اور شہادت کے موضوعات سنے ہیں کہ کس طرح ہمارے آئمہ اور شہداء کربلا نے فخریہ انداز سے شہادت کا استقبال کیا، ہم شہادت کے منتظر ہیں، جوقوم شہادت کی منتظر ہو اسے بم دھماکوں اور خودکش حملوں سے کیسے ڈرایا جا سکتا ہے؟

حجت الاسلام سید سجاد حسین کاظمی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ان حالات میں ہمارے نوجوانوں کے صبرکا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے تاہم ملک کی سلامتی کے لئے ہماری قیادت باربارصبرکی تلقین کررہی ہے کہا: لیکن صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، اگر ہمارے اکابرین ملت اور قیادت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا توملک سنبھالنا دشوارہوجائے گا ۔

حوزہ علمیہ قم کے استاد نے اس بات پر تنقید کرتے ہوئے کہ ملک کا بہت بڑا قومی سرمایا صرف کرنے والی 33 ایجنسیوں کو کیوں ان حادثات کا پتہ نہیں چلتا ؟ دہشت گردی روکنے کے لئےقومی ایکشن پلان بنایا گیا مگرلگتا ہے اس پلان میں بھی منظور نظرخاص دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، عوامی قاتلوں اورشیعہ نسل کشی میں ملوث دہشت گردوں کا توکوئی نام لینے والا نہیں ہے کہا: ملکی سلامتی اورامن وامان کے نفاذ کے لئے ہماری قیادت نے آئین کی روشنی میں مذاکرات کی حمایت کی مگرمذاکرات میں ہمارے قاتلوں کونظرانداز کیا گیا، ہماری قیادت نے آپریشن کی حمایت کی، مگرآپریشن میں بھی ہمارے قاتلوں کو نظر انداز کیا گیا، اب اس قومی ایکشن پلان میں امید تھی مگرقومی ایکشن پلان کے باوجود یہ واقعات اورسانحات کسی اور چیزکی نشاندہی کر ر ہے ہیں، ہم سوچنے پر مجبورہیں کہ ہمارے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس پر تمام ملکی ادارے متحد ہیں ۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر