جمعہ، 16 ستمبر، 2022

نیلامی کے بازا رمیں

 
کافی عرصے پہلے ایک کتاب پڑھی تھی جس میں مصر کے ایک گنجان آباد شہر میں لگنے والے بازار کے بارے میں پڑھا تھا جس کے لئے مہینے کا ایک خاص دن مقرّر کیا جاتا تھا اس دن صبح ،صبح شہر کے لوگ اپنے اپنے نوخیز جگر کے ٹکڑے لے لے آکر آتے اور ان کو بازار لگتے وقت شاہراہ کے دونوں جانب لے کر کھڑے ہوجاتے اور پھر خریدارو ں کا اژ دہام اس شاہراہ میں داخل ہوتا اور پسندیدہ بچّے کو بہ حیثیت زر خریدغلام لے کر اس کے وارث کو دام چکا کر اپنی راہ لیتا حضرت یوسف علیہ السّلا م بھی اسی بازار میں عزیز مصر کے ہاتھوں فرخت کئےگئے تھے۔  مجھے نہیں معلوم کہ اس دور میں ان فروخت شدہ غلامون کے ساتھ ان کے مالکان کیا سلوک کرتے ہو ں گے، اور پھرفروخت ہونے کے بعد ان معصوم بچّوں اور قدرے نو جوان لڑکوں کو واپس اپنے گھروں کی شکل دیکھنی نصیب نہیں ہوتی تھی کیونکہ یہ فروخت شدہ غلام اپنے زرخرید آقاؤں کے ہمراہ اکثر دور دراز کے ملکوں کو چلے جاتے تھے ،پھر ان کے آقا ہی ان کی موت و زیست کے مالک ہوتے تھے مجھےنہیں معلوم کہ وہ بد نصیب غلا م کتنے فیصد جیتے تھے اور کتنے ہی اپنے آقاؤں کے ہاتھوں آج کے پاکستان کے معصوم فروخت شدہ غلاموں کی طرح بچپن کی معصوم عمر کی کسی چھوٹی سی خطا یا بے خطا ہی بہیمانہ طریقے سے مار ڈالے جاتے ہون گے یا زمین کا گڑھا کھود کر زندہ دفن کردیے جاتے ہوں گے 

۔ اس معاملے میں پاکستان کے وہ عوام بڑے ہی کم نصیب ہیں جو علم کی روشنی سے محروم ہیں اور یہ محرومی جان بوجھ کر رکھّی گئ ہے تاکہ پاکستان کی اشرافیہ کو غلام ابن غلاموں کی کبھی تنگی کا سامنا نا کرنا پڑے ،بالخصوص صوبہ پنجاب کا سرائیکی پٹّی کا حصّہ ،ایک طرف تعلیم میں ان کی حصّے داری آٹے میں نمک کے برابر دوسری جانب ان کے اپنے گھروں مین یہ تصوّر کہ بچّے ان کی کما ئ کا زریعہ ہیں اس لئے جتنے بھی ہو جائین وہ اس کو رب کی رضا سمجھ کر خاموش رہتے ہیں اور بہت ننھّی ننھّی عمروں میں شہر کے امیروں کے پاس فرخت شدہ غلاموں کی طرح بھیج دئے جاتے ہیں (عام طور پر جو میں نے خود مشاہدہ کیا

 ان معصوم پھولوں کولڑکے اور لڑکی کی تخصیص کے بغیر چھ یا سات برس کی عمر میں اپنے گھر سے دور جانا ہوتا ہے )ان بچّوں کے عوض ان کے والدین کو ماہانہ ایک مخصوص رقم دی جاتی ہے یہ رقم بہت بڑی نہیں ہوتی ہئے بس دو ہزار یا ڈھائ ہزار اور اس رقم کے عوض وہ بچّے زندگی کی تمام رعنائیوں سے دور اپنے گھر والوں کے لئے دوزخ کا ایندھن بن کر کام کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی سہواً خطائیں ہوجانے پر بہیمانہ سزائیں جھیلتے ہیں ۔ اکثر یہ سزائیں ان کے لئے موت کا پروانہ بھی ثابت ہوتی ہیں جیسا کہ ابھی حال ہی میں ایک دس برس کی ننھّی کلی ناصرہ کو اس کی مالکن نے کچھ پیسے چوری ہوجانے پر دودن تک کمرے میں بھوکا پیاسا باندھ کر رکھّا اور اتنا مارا کہ وہ ننھی کلی جان کی بازی ہار گئ مالکن گرفتار تو ہوئ ہے لیکن یہاں پیسہ بولتا ہے اس لئے یقین ہے کہ بہت جلد آزاد ہو گی۔ ناصرہ کی موت کے ساتھ ہی اگلے ہی دن کے اخبار میں کراچی کے پوش علاقے کی ایک اور دس برس کے معصوم بچّے کی شدید زخمی حالت میں تصویر منظر عام پر آگئ ،اس بچّے کو اس کے ڈاکٹر مالک نے اپنے بنگلے کی بالائ منزل سے پھینک کر سزا دی جس سے وہ بچّہ شدید زخمی ہوکر اب ہاسپٹل مین موت و زیست کی جنگ لڑ رہا ہے ،
کیا کوئ چارہ گر ہے ،کیا اس ظالم معاشرے کے لئےکیا کوئ مسیحا ہے .

 اس سے پہلے بھی تواتر کے ساتھ یہ تمام کہانیا ں دہرائ جاتی رہی ہیں ۔ اور ظالم بے حس عیّاش باشاہوں کی تسکین کی خاطر اونٹوں کی دوڑ میں شریک کرنے لئے غریب والدین ان کو خود سے فروخت کے لئے پیش کرتے تھے جہاں ان کو دن بحر میں انتہائ قلیل خوراک اور محدود پانی دیا جاتا تھا تاکہ اونٹ پر ان کا وزن کم سے کم ہو اور اونٹ تیز تر دوڑ کردوڑ کی بازی جیت سکے ان میں سے کئ بچّے اونٹوں کی دوڑ میں جان کی بازی بھی ہار گئے اور کئ بچّے تاعمر معذور ہو گئے ان کی عمریں چار سال سے شروع ہو کر بہت سے بہت آٹھ سال ہوتی تھیں،،وائے بد بخت انسانوں اب اس مکروہ اور ظالمانہ کھیل میں پاکستانی بچّوں کاجانا ممنوع ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ گھروں میں نوعمر و نوخیز بچیّو ں کے ساتھ جنسی جرائم کا بھی ارتکاب کیاجاتا ہے۔ اب گھریلوملازمین کی ناگفتہ بہ صورتحال سے ہٹ کرزرا اپنے وطن میں چائلڈ لیبر انڈسٹری پر بھی ایک نظر ڈالتے چلیں۔ پاکستان کے اندرٹیکسٹائل ہوم انڈسٹری کا اور قالین بافی کی صنعت کا ایک مظبوط ستون چائلڈ لیبر ہے اور وہاں بھی یہی معصوم فرشتے ہزاروں کی تعداد میں کام کرتے نظر آتے ہیں،،سرمایہ دار مالکان ان کی یومیہ اجرت بھی بہت کم رکھتے ہیں، ان کے زخمی ہونے کی صورت میں کوئ علاج معالجہ بھی نہیں کیا جاتا ہے، ان دونون صنعتوں میں یہ بچّے انتہائ نا مساعد حالات میں انتہائ قلیل اجرت پراور کام کئے جاتے ہیں ،ان بچّوں میں سانس کی بیماریاں عام ہوتی ہیں،، اور ننھی ننھی عمروں میں آٹو ورکشاپس پر کام کرتے ہوئے ،،شام کو 
پھولوں کے ہار لے کر ایک ایک گاڑی والے کی خوشامد کرتے ہوئے سبزی بازار میں بھاری بوجھ اٹھاتے ہوئے یہ پاکستان کے ننھے پھول ہیں انکی آبیاری حکومت پر فرض ہے ,

,,,اسوقت حکومت کے لئے یہ چیلنج ہے کہ چائلڈ لیبر قوانین پر عملدرآمد کرانے کے لیئے فوری اورعملی اقدامات اٹھاتے ہوئے غریب گھرانوں کے بچوں کے لئے مفت تعلیم کے حصول کے لیئے سکولز کا قیام عمل میں لایا جائے،جہاں نہ صرف مفت تعلیم بلکہ ان بچوں کو ماہانہ وظا یف بھی دیئے جائیں تاکہ غربت کی زنجیروں میں جکڑے ان بچوں کے والدین انہیں تعلیم کے بجائے کام کاج پر مجبور نہ کریں،اور نئی نسل کا مستقبل محفوظ کیا جا سکے۔ اگرحکومت مخلص ہوتو ان معصومون کے لئے بہت کچھ کر سکتی ہے لیکن جہاں اپنا سرمایہ یور پ کے بنکوں میں رکھنے کی ہوس طاری ہو وہاں کوئ کچھ نہیں کر سکتا ہے اگر حکومت وقت چاہے تو سرمایہ دار مجبوراً کچھ ایسے اقدامات ضرور کر سکتے ہیں جن کے زریعے ان معصوموں کی لکھنے پڑھنے کی عمر میں محنت و مشقّت نا کرنی پڑے

 اس کے علاوہ ان محنت کش معصوم بچوں کے والدین کو روزگار دینے کا بندوبست خود حکومت کر ے۔ انٹر نیشنل لیبر آر گنائزیشن کا کہنا ہے کہ ( آئی ایل او) تمام دنیا میں اس وقت قریب قریب بیس لاکھ بچے انتہائی خطرناک صنعتی ماحول میں کام کررہے ہیں۔ عالمی سطح پر چائلڈ لیبر فورس میں کمی جبکہ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق پاکستان میں اضافہ ہوا جبکہ تمام دنیا میں بائس ہزار بچّے سالانہ دوران مشقت ہلاک ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی مشقت کے حوا لے سے جنگ ڈیولپمنٹ رپورٹنگ سیل کے مطابق دنیا میں پانچ سے سے چودہ برس کی عمر کےسولہ کروڑ پچاس لاکھ بچے اسکول کے بجائے محنت ومشقت کرنے پر مجبور ہیں اور سات کروڑ تیس لاکھ بچے ایسے بھی ہیں جو دس برس سے کم عمر ہونے کے باو جود چائلڈ لیبر فورس کا حصہ ہیں۔ دنیا میں پانچ سے ستّرہ برس کی عمر کے کئ کروڑ بچے چائلڈ لیبر فورس کا حصہ ہیں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کل چا ئلڈ فورس کا 93/ فیصد کا تعلق ایشیا اور افریقہ سے ہے اور کان کنی جیسے سخت ترین پیشے سے بھی کئ لاکھ بچّے اپنا رزق حلال کما رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دنیا میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے اتنے سخت قوانین بنائے جایئں کہ کوئ سرمائہ دار ان معصومون کا جسمانی اور معاشی استحصال نا کر سکے ۔

بدھ، 14 ستمبر، 2022

علّا مہ طالب جوہری

 

  

علّا مہ طالب جوہری کو خراج عقیدت پیش کر نے کے لئے ایک پرانے شعر سے ابتدا کرتی ہوں

ہزاروں سال  نرکس   اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

-وہ زیب ممبر ہو کرچمن کی دیدہ وری کے آئے تھے

طالب جوہری 27 اگست 1939ء کو بھارت کی ریاست بہار

 کے شہر پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور اعلی مذہبی تعلیم کے لیے نجف اشرف عراق چلے گئے۔ وہاں آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم

 الخوئی کے زیر انتظام حوزہ میں داخلہ لیا۔طالب جوہری آیت اللہ شہید باقر الصدر کے شاگرد رہے۔ وہ آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کے ہم جماعت تھے۔

 اگرچہ آیت اللہ سیستانی ان سے کچھ بڑے تھے۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی بھی نجف میں ان کے ہم درس رہے

علامہ طالب جوہری کو نجف اشرف کے ممتاز عالم آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی،آیت اللہ سید علی رفانی،آیت اللہ سید محمد بغدادی،آیت اللہ باقر الصدر نے فارغ

 التحصیل ہونے کی سند دی،وہ 1965 کو کراچی واپس آئے،پانچ سال جامعہ امامیہ کے پرنسپل رہے،گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں اسلامیات کے لیکچرر

 مقرر ہوئے،انہیں حکومت نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا،انہوں نے تفسیر قرآن پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔

علامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔ان کے خطبات کا موضوع احکام اللہ کی

 پیروی، اتباع سنت رسول اور حب اہل بیت ہوا کرتا تھا۔ انہیں شیعہ اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام حاصل رہا ہر دو انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے

 اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں۔

عقلیات معاصر  علّامہ طالب جوہری کیونکہ اکثر اپنے مداحوں میں گھرے رہتے تھے لہٰذا کبھی کبھار وہ ان معمولات کو توڑ کر لانگ ڈرائیو یا پرندوں کے مشاہدے

 کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ کسی بھی دور دراز سڑک سے ہٹے ہوئے چارپائی ہوٹل پر بیٹھ کر بہت خوش ہوتے جہاں انھیں کوئی پہچاننے والا نہ ہو۔

علامہ طالب جوہری علومِ قرانی پر بہترین دسترس  رکھتے ہی تھے مگر نہ خود زاہدِ خشک تھے نہ زاہدانِ خشک کی ہمراہی میں خوش رہتے تھے۔ان کی شرارت آمیز

 خوش دلی اور حسِ جمالیات ہمیشہ توانا و تر و تازہ رہی

علامہ طالب جوہری کو نجف اشرف کے ممتاز عالم آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی،آیت اللہ سید علی رفانی،آیت اللہ سید محمد بغدادی،آیت اللہ باقر الصدر نے فارغ

 التحصیل ہونے کی سند دی،وہ 1965 کو کراچی واپس آئے،پانچ سال جامعہ امامیہ کے پرنسپل رہے،گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں اسلامیات کے لیکچرر

 مقرر ہوئے،انہیں حکومت نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا،انہوں نے تفسیر قرآن پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔

 اسّی کے عشرے میں پی ٹی وی سے فہم القران کی طویل سیریز نشر ہوئی جس میں علامہ نہایت عام فہم اور زود ہضم انداز میں پیغامِ قران سمجھاتے تھے۔

شاعری کا آغاز انہوں نے آٹھ برس کی عمر سے کیا  تھا، اب تک علامہ نے خاصی تعداد میں غزلیں، قصیدے، سلام، نظمیں اور رباعیات کہی، 1968 میں علامہ

 نے وجود باری کے عنوان سے پہلا مرثیہ کہا،علامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر

 زور دیا۔ان کے خطبات کا موضوع احکام اللہ کی پیروی، اتباع سنت رسول ص اور حب اہلبیت ع ہوا کرتا تھا۔ انہیں شیعہ اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام

 حاصل رہا ہر دو انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں ۔سنی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے بے شمار افراد یہ علامہ

 کے انتقال کے وقت سوشل میڈیا پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ وہ علامہ کو محرم میں سنا کرتے تھے۔

بین المسالک ہم آہنگی کی اگر بات کی جائے تو بلا شبہ علامہ طالب جوہری کا بیان ایک شیعہ عالم ہونے کے باوجود سرکاری ٹی وی چینل پر طویل عرصے تک اس لیے

 چلتا رہا کیونکہ انہوں نے مسلک کی بنیاد پر تفریق اور فرقہ واریت پھیلانے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ وہ بین المسالک ہم آہنگی کے علمبردار سمجھے جاتے تھے

 ان کی پسندیدہ جگہ ا نکی لائبریری تھی جو ان کے گھر واقع انچولی سوسائٹی میں اوپر کی منزل پر تھی۔ لائبریری کی ہزاروں کتابوں میں سے ہر کتاب علامہ کی انگلیاں

 پہچانتی تھیں چنانچہ انھیں کسی بھی ریفرینس کے لیے کوئی بھی کتاب نکالنے میں زیادہ سے زیادہ دو منٹ لگتے تھے۔ بقول محمد علی سید علامہ نے بلاشبہ ہزاروں

 مجالس پڑھیں مگر ہر مجلس کی تیاری وہ ایسے انہماک اور محنت سے کرتے گویا سپریم کورٹ میں آخری پیشی ہو۔

لباس میں ان کی وضع داری تادم حیات قائم رہی سفید پاجامہ سیاہ اچکن اور سر پر عمامہ

وہ نہائت نرم خو مزاج اور نکتہ سنج شخصیت کے مالک تھے وہ اپنی ایک ایک مجلس پر بہت توجّہ دیتے تھے انہوں قرانی اسلوب کو اپنی شبانہ روز زندگی  کا حصّہ بنا لیا تھا

اس کے بعد نو دس دن تک علامہ روزانہ کوئی ایک موضوع لے لیتے جیسے الحمد، رب العالمین، یوم الدین، نستعین وغیرہ۔ اور آدھا پونا گھنٹہ پرت در پرت سببِ

 نزول، ماخذ، تاریخی پس منظر اور منطق کے سہارے ایسے لے کر چلتے گویا بچے کو کہانی سنا رہے ہوں۔

عراق میں لگ بھگ ابتدائی دس برس حضرت قاسم الخوئی، باقر الصدر اور دیگر علمائے عظام کے آگے زانو تہہ کرنے، عربی و فارسی پر عمومی دسترس اور عرب و

 عجم کی تاریخ فہمی کا فیض تھا کہ علامہ کی مذہبی و غیر مذہبی گفتگو ادق مسائل کا احاطہ ضرور کرتی تھی مگر ان کی اجتہادیت مشکل پسندی اور علمیت کے مصنوعی

 دبدبے سے بالکل آزاد تھی۔ اسی لیے عام آدمی بھی بلا امتیازِ مسلک و نظریہ بلا دھڑک ان کی جانب کھنچتا تھا اور پورا پورا ابلاغی لطف کشید کرتا تھا۔

علامہ طالب جوہری معروف خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کے شاعر بھی تھے،آٹھ برس کی عمر سے آپ نے شاعری کا آغاز کیا تھا،علامہ طالب جوہر

 نے یادگار غزلیں،قصیدے،سلام،نظمیں اور رباعیات کہی، 1968میں آپ نے وجود باری کے عنوان سے پہلا مرثیہ بھی کہا۔تصنیفات طالب جوہری

 مرحوم-تفسیر القرآن-احسن الحدیث (قرآنی تفسیر)مقاتل-حدیث کربلا-مذہب-ذکر معصوم-نظام حیاتِ انسانی-خلفائے اثناء عشر-علامات ظہور مہدی-فلسفہ:

علامہ طالب جوہری اکیاسی برس کی عمر میں اپنی  جان جان آفریں کے سپرد کر کے کُل کے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را،  

 

 

:

ریگ تپاں ہے مولا

 



اللهم صلى على محمد وآل محمد وعجل فرجهم


بعد عاشور یہ گزری آل  نبی پر-شام کے بازاروں میں اہل حرم کو پا پیادہ پھرا گیا -اور پھر 

قصر یزید میں-زَحر بن قَیس نے واقعہ کربلا کی جنگ کی رپورٹ یذید کے سامنےبیان کی۔ یزید نے سارا ماجرا سننے کے بعد حکم دیا کہ محل کو سجایا جائے، بزرگان شام کو بلایا جائے اور اسیروں کو حاضر کیا جائے۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اسیروں کو رسیوں سے جکڑے ہوئی حالت میں پیش کیا گیا۔ 

: یزید قیدیوں کی موجودگی میں سونے کے تھال میں رکھے ہوئے سر امام حسینؑ کو لکڑی کی چوب سے ما رہا تھا جب سکینہ اور فاطمہ یہ منظر دیکھا تو انہوں نے اس طرح فریاد کی کہ یزید اور معاویہ بن ابوسفیان کی بیٹیوں نے گریہ کرنا شروع کیا۔شیخ صدوق سے امام رضاؑ کی مروی روایت کے مطابق یزید نے سر امام حسین کو طشت میں رکھا اور اسے کھانے کی میز پر رکھ دیا۔ پھر اپنے اصحاب کے ساتھ کھانے میں مشغول ہو گیااس کے بعد اسے شطرنج کی میز پر رکھ کر شطرنج کھیلنے مشغول ہوا۔ کہتے ہیں جب وہ بازی جیت جاتا تو ایک جام فقاع (جَو کی شرآب) کا پیتا اور اس کا آخری بچا ہوا پانی طشت کے پاس زمین پر گرا دیتا

حاضرین کا اعتراض: یزید کی اس قبیح حرکت پر حاضرین میں سے بعض نے اعتراض کیا، ان میں سے مروان بن حکم کا بھائی یحیی بن حکم تھا جس کے اعتراض کے جواب میں یزید نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا۔اَبوبَرْزہ اَسْلَمی نے بھی اعتراض کیا تو یزید کے حکم پر اسے دربار سے نکال دیا گیا۔

زرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے دس محرّم کو سیّد سجّاد پر بیماری اس قدر نقاہت طاری تھی کہ آ پ کے نیچے سے بستر جو کھینچا تو امام علیہ السّلام غشی کی حالت میں

 زمین پر آرہے اورپھر خیمہ کو شمر نے آگ لگادی اسی اثنا میں بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو جلتے ہوئے خیام سے بچّوں کو بچانے کے لئےجمع کر رہی تھیں اور دوڑتی

ہوئ بیمار کربلا کے خیمہ میں داخل ہوئیں اور سیّد سجّاد کو اپنی پشت پر لے کر باہر آئیں اور بیمار بھتیجے کو گرم ریتی پر لٹا دیا  جی ہاں اسی بیمار کو اگلی صبح طوق و سلاسل کے

 ساتھ ماں بہنوں کے قافلے کی ساربانی کرنی  پڑی -

 آل نبی کو شہید کردینے کے  بعدعرب قبائل کے افراد نے ابن زیاد کی قربت اور اللہ کی لعنت حاصل کرنے کے لئے شہداء کے مطہر سروں کو آپس میں تقسیم

 کرکے نیزوں پر سجایا اور کوفہ جانے کے لئے تیار ہوئے؛ اور حرم رسول اللہ  صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی بےچادر خواتین، بچیوں اور بچوں کو ، بے کجاوہ اونٹوں پر سوار

 کیا گیا اور کفار کے اسیروں کی طرح انہیں کوفہ کی جانب لے گئے۔جب ابن سعد اسیروں کے ہمراہ کوفے کے نزدیک پہنچا تو وہاں کے لوگ اسیروں کا تماشا دیکھنے کے لئے آئے تھے۔ ایک کوفی خاتون اپنے گھر کی چھت سے اسیروں کے کارواں کا نظارہ کررہی تھی۔ اس نے اسراء سے پوچھا: "تم کس قوم کے اسیر ہو؟"۔جواب ملا :"ہم اسیران آل محمدعلیہ السلام ہیں

اب ذرا تصور کریں کہ امام سجاد علیہ السلام کا حال کیا رہا ہوگا؟ ایک طرف سے بیماری کی وجہ سے نقاہت جسم مبارک پر طاری تھی، دوسری طرف سے اہل

 خاندان، بھائیوں، چچا زاد بھائیوں، رشتہ داروں، چچا اور بابا کی شہادت اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی اور ان کے کٹے سر آپ  علیہ السلام کے سامنے نیزوں پر تھے مگر

 ان سب غموں اور دکھوں سے بڑا اور تکلیف دہ مسئلہ یہ تھا کہ آپ  علیہ السلام امام تھے اور غیرت الہی کا مظہر تامّ و تمام تھے اور اب خاندان محمد  صلّی اللہ علیہ واٰلہ

 وسلّم کی سیدانیاں اس حال میں آپ علیہ السلام کے ہمراہ اسیر ہوکر جارہی تھیں  

دارالامارہ میں اسیران آل محمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے داخلے سے قبل امام حسین علیہ السلام کا سر مطہر ابن زیاد کے سامنے لایا گیا۔ ابن مرجانہ کے ہاتھ میں

 خیزران کی ایک چھڑی تھی اور امام کے لب و دندان پر اس چھڑی سے بے ادبی کرنے لگا۔ یہ بے ادبی اور جسارت حاضرین کے اعتراض و تنقید کا باعث ہوئی

 رسول الل صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے صحابی اور جنگ صفین میں امیرالمؤمنین  علیہ السلام کے ساتھ جہاد کرنے والے بزرگ "زید بن ارقم" جو اس وقت معمر اور

 بوڑھے ہوچکے تھے، نے عبیداللہ سے خطاب کرکے تنبیہ کی: "اپنی چھڑی اٹھالینا! خدا کی قسم میں نے پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو دیکھا کہ جن لبوں اور

 دانتوں کو تم چھڑی مار رہے ہو آپ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم ان کے بوسے لیا کرتے تھے"۔ ابن ارقم یہ کہہ کر رونے لگے۔یزید کے گورنر نے کہا: "اگر تم پاگل اور

 عقل باختہ بوڑھے نہ ہوتے ابھی اسی وقت تمہارا سر قلم کردیتا"۔ابن ارقم اسی وقت اٹھے اور دارالامارہ سے باہر نکلتے ہوئے کہا: "اے عرب! آج سے تم سب

 غلام بن گئے۔ تم نے فرزند فاطمہ (س) کو قتل کیا اور ابن مرجانہ کو اپنا امیر تسلیم کیا!۔

خدا کی قسم! یہ شخص تمہارے نیک اور صالح افراد کو قتل کرے گا اور تمہارے شریروں اور جرائم پیشہ افراد سے کام لے گا"۔

"انس بن مالک" بھی موجود تھے جو امام علیہ السلام کا سر دیکھ کر اور عبیداللہ کی جسارت کا مشاہدہ کرکے روئے اور کہا: "یہ رسول اللہ کے ساتھ بہت زیادہ شباہت رکھتے ہیں"۔

اس کے بعد اسراء ابن زیاد کے دربار میں لائے گئے۔ابن مرجانہ نے امام  علیہ السلام    کو دیکھا تو کہا:"تم کون ہو؟ فرمایا: میں "علی بن الحسین"ہوں۔ اس ملعون

 نے کہا: "کیا علی ابن الحسین کو خدا نے نہیں مارا؟ امام نے فرمایا: "میرے ایک بھائی کا نام بھی علی تھا جن کو لوگوں نے قتل کر ڈالا۔ابن زیاد نے کہا: "خدا نے مارا

 اسے"۔ امام نے فرمایا:’’ اللہ یتوفی الانفس حین موتھا  ‘‘ خدا موت کے وقت انسانوں کی روح اپنے قبضے میں لے لیتا ہے" (سورہ زمر آیہ 42)-ابن زیاد نے غصے

 میں کہا: "میرے جواب میں دلیری دکھاتے ہو؟" اور اپنے جلادوں کوحکم دیا کہ ان کا کلام قطع کردیں اور ان کا سر قلم کردیں"۔پس حضرت زینب نے فرمایا:

 "اے پسر زیاد! تم نے ہمارا جتنا خون بہایا اتنا ہی بس ہے" اور جناب زینب  نے امام کو اپنی آغوش میں لیا اور فرمایا: "واللہ میں ان سے جدا نہ ہونگی،اگر تم انہیں مارنا

 چاہتے ہو تو مجھے بھی قتل کردو"۔

ابن زیاد نے ان کی طرف دیکھا اور کہا: "عجبا کہ یہ عورت اپنے بھتیجے کے ہمراہ قتل ہونا چاہتی ہے! چھوڑو اس کو کیوں کہ یہ اپنی بیماری سے ہی مر جائے گا"…

امام سجاد علیہ السلام  شام کی مشقتیں، اسیری کے دکھ درد اور دربار یزید کے عذاب کو برداشت کیا… اور اپنی عمر شریف کے آخری ایام تک کربلا اور کوفہ و شام کے مصائب کو یاد کرتے تھے

آپ  علیہ السلامنے ان ایام میں، اپنے تمام فرزندوں کو بلایا اور اپنے فرزند ارجمند "محمد بن علی الباقر علیہ السلام جو اپنے والد کے ہمراہ ۴سال کی عمر میں کربلا، کوفہ

 اور شام میں حاضر تھے ـ اپنا وصی اور جانشین قرار دیا اور اپنے فرزندوں کی تعلیم و تربیت اور سرپرستی کی ذمہ داری انہیں سونپ دی اور ان سب کو وصیت و نصیحت فرمائی۔اس کے بعد آپ علیہ السلام نے امام باقر کو سینے سے لگایا اور فرمایا: "میں تم کو وہی وصیت کرتا ہوں جو مجھے میرے والد نے شہادت کے وقت فرمائی تھی

 اور فرمایا تھا کہ ان کو بھی اپنے والد علی علیہ السلام نے اپنی شہادت کے وقت یہی وصیت فرمائی تهی اور وہ یہ کہ: "خبردار! ظلم نہ کرنا ایسے شخص پر جس کا تمہارے مقابلے میں خدا کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے-

امام سجاد  علیہ السلام  اموی بادشاہ "عبدالملک بن مروان" کے حکم پر اس کے ایک بیٹے کے ہاتھوں مسموم ہوئے اور شہادت پائی۔

منگل، 13 ستمبر، 2022

درد شقیقہ جسے آدھا سیسی کا درد بھی کہتے ہیں

درد شقیقہ جسے آدھا سیسی کا درد بھی کہتے ہیں

 

 

درد کوئ بھی ہو بدن کے کسی بھی حصّے میں درد تو درد ہی ہوتا جیسے کہ فیض احمد شاعر کو جس رات ہارٹ اٹیک ہوا تو انہوں بے اختیار یہ اشعار کہے درد اتنا تھا کہ اس رات دل وحشی نے -

ہر رگ جاں سے الجھنا چاہا

ہر بن مو سے ٹپکنا چاہا

اور کہیں دور ترے صحن میں گویا

پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر

حسن مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا

میرے ویرانۂ تن میں گویا

سارے دکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھل کر

سلسلہ وار پتا دینے لگیں

رخصت قافلۂ شوق کی تیاری کا

اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں

ایک پل آخری لمحہ تری دل داری کا

درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا

ہم نے چاہا بھی مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا میری یہ پوسٹ سر درد کے اوپر ہے-درد شقیقہ عام سردرد سے مختلف ہوتا ہے جس کے

 دوران سر کے کسی ایک حصے یا آدھے سر میں شدید درد ہوتا ہے اور آنکھیں شدید روشنی برداشت نہیں کرسکتی۔آدھے

 سر کا  یہ درد مخصوص وقت اور وقت کے مخصوص دورانئے کے لئے ہوتا ہے جیسے  گھنٹے دورانیہ مکمل ہونے پر خود بخود چلا

 جاتا ہے-بعض اوقات  سردرد کے ساتھ الٹی  بھی  نے لگتی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ اس کو جدید ایلوپیتھی

 اصطلاح میں میگرین Migraine بھی کہتے ہیں۔ بعض اوقات  یہ پورے سر میں ہوتا ہے مگر آدھے سر میں کم اور

 آدھے میں زیادہ ہوتا ہے۔ میگرین شدید نوعیت کا درد ہے جو مریض کو کسی کام کاج کا نہیں چھوڑتا۔ بھنوؤں کے اوپر اور

 ملحقہ حصے کا درد بھی میگرین ہی کی ایک قسم ہے۔

آدھے سر کا درد خون کی شریانوں کے بڑھے اور اعصاب سے کیمیائی مادوں کی ان شریانوں میں ملنے سے پیدا ہوتا ہے۔

 اس کے دورے کے دوران ہوتا  یہ ہے کہ کنپٹی  کے مقام پر جلد کے نیچے رگ پھول  جاتی ہے۔ اسی کے نتیجے میں کچھ

 کیمیائی مادے پیدا ہوکر سوجن اور درد کے ذریعے رگ کو مزید پھلادیتے ہیں جس سے دفاع میں اعصابی نظام ، متلی ، پیٹ

 کی خرابی اور قے کا احساس پیدا کرتا ہے۔

علاوہ ازیں اس کی وجہ سے خوراک کے ہضم ہونے کا عمل بھی سست پڑجاتا ہے۔ دوران خون کے سست پڑنے سے ہاتھ

 اور پاؤں ٹھنڈے پڑسکتے ہیں اور  روشنی اور آواز کی حساسیت  میں اضافہ ہوسکتا ہے جسم کو ایک طرف کمزوری کا احساس

 بھی ہوسکتا ہے۔

میگرین کی علامتوں میں سے ایک علامت  یہ بھی ہے کہ مریض کے سر کے پیچھے حصے میں درد ہوتا ہے۔ اس کی وجہ پرانا

 بلڈپریشر بھی ہوتا ہے اور یہ سر کا درد دورہ دار ہوتا ہے جو بالعموم دائیں یا بائیں جانب نصف سر میں ہوا کرتا ہے-کسی

 مریض کو یہ سورج نکلنے کے ساتھ شروع ہوتا ہےاور جوں جوں سورج کی تمازت بڑھتی ہے درد کی شدّت بھی بڑھتی ہے

 یہ درد  غروب آفتاب کے وقت ختم ہوجاتا ہے۔ کبھی سر شام شروع ہوکر رات پھر رہتا ہے اور صبح ٹھیک ہوجاتا ہے۔ دن

 کے دورے زیادہ تر پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک ضدی مرض ہے۔۔

آدھے سر کے درد کے لیے ڈاکٹر طرز زندگی بدلنے کی تجاویز دیتے ہیں۔ یوں تو  میگرین  یعنی آدھے سر کے درد سے ہر

 دوسرا شخص متاثر ہوتا ہے۔ تاہم بہت کم لوگوں  کو علم ہے کہ دراصل یہ درد ہوتا کیوں ہے۔

آدھے سر کا درد  ہوا اور ساتھ ساتھ دوسری ذمہ داریاں ہوں جیسے گھر کے کام آفس کے کام  ہوں تو کچھ لوگ درد کو کم

 کرنے کے لیے بدحواسی میں دھڑا دھڑ درد کو کم کرنے والی گولیوں کا استعمال شروع کردیتے ہیں تاکہ جلد سے جلد اپنی

 ذمہ داریاں پوری کرسکیں لیکن پریشانی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب بیک وقت درد کم کرنے والی دو یا دو سے زیادہ

 گولی کھانے پر بھی افاقہ نہ ہو۔  

آدھے سر کے درد کا تعلق بنیادی طور پر اعصاب سے ہے جو کہ عمر کے کسی بھی حصے میں لاحق ہوسکتا ہے یہ بچوں اور

 بڑوں دونوں میں پایا جاتا ہے۔ تاہم دیکھنے میں آیا ہے اس بیماری میں زیادہ تر خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ چوں کہ یہ ایک

 اعصابی بیماری ہے ۔ جیسے ذہنی دباؤ، ڈپریشن، بے سکونی، نیند کی کمی، کم بلڈ پریشر، نظر کی کمزوری، لینز پہننے سے آنکھوں 

میں تھکن ، ذہنی تھکن، بعض پودوں سے الرجی اور بعض اوقات کیفین اور کھٹی خوراک اس کا باعث بن جاتی ہے۔

 خواتین کی ماہواری کے دوران یا اس کے کچھ دن پہلے اکثر اوقات میگرین کا مسئلہ ہوجاتا ہے

دوسرے علاج: میگرین کا تعلق اعصاب کی بے سکونی  اور بے آرامی سے ہے لہٰذا یوگا کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں۔

مریض دماغ کو قوت دینے والی غذائیں کھائے۔ بازار سے چاروں مغز اور  اس میں 25گرام بادام اور 10گرام اخروٹ

 ملاکر پیس کر دودھ کے ساتھ اس کا حریرہ بناکر صبح اور شام اس کا استعمال کریں۔

درد شقیقہ میں فوری آرام کے آسان ٹوٹکے

درد شقیقہ سے نجات کے لیے ہر بار گولی کھانے سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں-درد شقیقہ عام سر کا درد

 نہیں ہوتا، درد شقیقہ میں انسان کے آدھے سر میں درد ہوتا ہے یا تو سر کے کسی ایک حصے میں شدید تکلیف ہوتی ہے۔اس

 درد میں انسان کو تیز روشنی، شور شرابا بالکل برداشت نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے بسا اوقات الٹی بھی آجاتی ہے۔ یہ درد

 کسی بھی عمر کے لوگوں کو کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔

درد شقیقہ سے کلّی نجات کے لئے انتہائ اعلیٰ نسخہ یہ ہے کہ عصر کے وقت ایک چھٹانک تازہ جلیبیاں لے کر انہیں اتنے

 دودھ میں بھگو دیجئے کہ جلیبیاں پوری طرح دودھ سے ڈھک جائیں پھر وہ جلیبیاں مریض کو کھلا دی جائیں اور جلیبی کا

 شیرہ ناک میں دونوں جانب دو دو قطرے ٹپکا دیا جائے اس علاج سے کچھ دنوں میں مرض سے شفاء ہو جاتی ہے-

غذائ چارٹ کچھ یوں ہو گا

چنے کی دال ہفتہ میں ایک مرتبہ

چنے کی دال کا حلوہ

مسور کی دال ہفتہ میں ایک بار

لوکی اور بکرے کے گوشت کا سالن

لوکی کا حلوہ

اور ہری سبزیوں کا متوازی استعمال

اللہ آ پ کا حامئ و ناصر ہوآمین

پیر، 12 ستمبر، 2022

ہجرت کی شب مسہری

 

ہجرت کی شب مسہری

جان نثاری و فداکاری کی بے نظیر مثال

ا یک شا م  سرورکائنات حضرت  محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی علیہ السّلام کو کاشانہ نبوّت میں طلب فرمایا مولائے

 کائنات علیہ السّلام بیت نبوت پر پہنچے تو آپنے فرمایا- ائے علی  علیہ السّلام آج کی رات مشرکین نے میری جان لینے کا ارادہ

 کیا ہے اس  وجہ سے میں آج کی رات یہاں سے نکل جانا چاہتا ہوں اس لئے آ ج کی رات تم میرے بستر پر میری یمنی چادر

 اوڑھ کر سو جاو- میرے پاس کچھ امانتیں ہیں وہ ان کے حق د اروں کو واپس کر کے میرے پاس آجانا-مولا علی  علیہ السّلام

 نے فرمایا اگر آپ کے بستر استراحت پر میرے سو جانے سے آپ کی جان بچ جاتی ہے تواس کے لئے بخوشی تیّار ہوں-

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو اپنے بستر پر سلادیا  اللہ نے اس رات دو فرشتوں کو طلب کیا اور کہاکہ آج کی

 رات ایثار کی رات ہے تم میں سے کون ہے جو آج کی رات اپنی جان اپنے بھائ کے لئے پیش کرے دونوں فرشتوں نے

 انکار کر دیا تب پروردگار عالم نے فرمایا جاو دیکھو روئے زمین پر ایک فرد ایسا ہے جو اپنی جان اپنے بھائ کےليے بیچ کر سویا ہے

 اب تم دونوں جاؤ اور اس کی حفاظت کرو-تب وہ دونوں فرشتے زمین پر آئے تو ایک فرشتہ مولائے کائنات کے سرہانے

 کھڑا ہو اور دوسرا پائنتیانے کھڑا ہوااور آپ خاموشی کے ساتھ اپنے گھر سے نکل کر سب سے

 پہلے حضرت ابو بکر صد یق رضی اللہ عنہ کے گھر گئے اور اپنا ارادہ ظاہر فرمایا۔

پھرحضر ت  ابو بکر   صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ پیغمبر اسلام نہایت ہی حکمت عملی کے ساتھ بچتے بچاتے مدینہ منورہ پہنچے

 ، رات بھر مشرکین کا محاصرہ قا ئم رہا اوراس خطرہ کی حالت میں  مولائے کائنات بہت ہی سکون  واطمینان کے ساتھ محو

 خواب رہے-غرض تمام رات مشرکین قریش اس دھوکا میں رہے کہ خود سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہی استراحت فرما ہیں،

 ہےصبح ہوتےہی کفا ر اپنے ناپاک ارادہ کی تکمیل کے لیے اندر آئے؛لیکن یہاں یہ دیکھ کر وہ متحیرہوگئے کہ شہنشاہِ دو

 عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جاں نثار اپنے آقا پر قربان ہونے کے لیے سربکف سو رہا ہے،

 حضرت علی علیہ السّلام کی عمر اس وقت زیادہ سے زیادہ بائیس تئیس برس کی تھی، اس عنفوانِ شباب میں اپنی زندگی کو

 قربانی کے لیے پیش کرنا آپ کی جا ں نثاری کا عدیم المثال کارنامہ ہے،  ، حضرت علی علیہ السّلام بستر سے اُٹھَے  اور کفار سے

 بولے میں جا رہا ہوں جو چاہے کہ میں راستہ میں اس کی بوٹیا ں چیل کووں کو کھلا دوں وہ میرے پیچھے آ جائے مشرکین اپنی

 اس غفلت پر سخت برہم ہوئے اورحضرت  علی کو چھوڑ کر اصل مقصود کی تلاش وجستجو میں روانہ ہو گئے۔ حضرت علی

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد دو یا تین دن تک مکہ میں مقیم رہے

اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق جن لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کاروبار اور لین دین تھا،

 ان کے معاملات سے فراغت حاصل کی اور مکّہ کی سرزمین کو الوداع  کہہ کر عازم مدینہ ہوئےاللہ تعالیٰ نے مولائے

 کائنات کے اس عمل کو قران پاک کے ان الفاظ سے سراہا ہے-چھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضا جوئی کے لئے اپنی

 جان دے دیتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑی ہی شفقت رکھتا ہے حقیقت یہ ہے کہ صحیح معنوں میں قوم کے راہنما یہ

 لوگ ہیں جو اعمال کی صورت کے ساتھ مقاصد کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔  صر ف خدا وندقدوس کی رضا طلبی ان کی منشا ہو تی ہے۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر