پیر، 12 ستمبر، 2022

ہجرت کی شب مسہری

 

ہجرت کی شب مسہری

جان نثاری و فداکاری کی بے نظیر مثال

ا یک شا م  سرورکائنات حضرت  محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی علیہ السّلام کو کاشانہ نبوّت میں طلب فرمایا مولائے

 کائنات علیہ السّلام بیت نبوت پر پہنچے تو آپنے فرمایا- ائے علی  علیہ السّلام آج کی رات مشرکین نے میری جان لینے کا ارادہ

 کیا ہے اس  وجہ سے میں آج کی رات یہاں سے نکل جانا چاہتا ہوں اس لئے آ ج کی رات تم میرے بستر پر میری یمنی چادر

 اوڑھ کر سو جاو- میرے پاس کچھ امانتیں ہیں وہ ان کے حق د اروں کو واپس کر کے میرے پاس آجانا-مولا علی  علیہ السّلام

 نے فرمایا اگر آپ کے بستر استراحت پر میرے سو جانے سے آپ کی جان بچ جاتی ہے تواس کے لئے بخوشی تیّار ہوں-

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو اپنے بستر پر سلادیا  اللہ نے اس رات دو فرشتوں کو طلب کیا اور کہاکہ آج کی

 رات ایثار کی رات ہے تم میں سے کون ہے جو آج کی رات اپنی جان اپنے بھائ کے لئے پیش کرے دونوں فرشتوں نے

 انکار کر دیا تب پروردگار عالم نے فرمایا جاو دیکھو روئے زمین پر ایک فرد ایسا ہے جو اپنی جان اپنے بھائ کےليے بیچ کر سویا ہے

 اب تم دونوں جاؤ اور اس کی حفاظت کرو-تب وہ دونوں فرشتے زمین پر آئے تو ایک فرشتہ مولائے کائنات کے سرہانے

 کھڑا ہو اور دوسرا پائنتیانے کھڑا ہوااور آپ خاموشی کے ساتھ اپنے گھر سے نکل کر سب سے

 پہلے حضرت ابو بکر صد یق رضی اللہ عنہ کے گھر گئے اور اپنا ارادہ ظاہر فرمایا۔

پھرحضر ت  ابو بکر   صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ پیغمبر اسلام نہایت ہی حکمت عملی کے ساتھ بچتے بچاتے مدینہ منورہ پہنچے

 ، رات بھر مشرکین کا محاصرہ قا ئم رہا اوراس خطرہ کی حالت میں  مولائے کائنات بہت ہی سکون  واطمینان کے ساتھ محو

 خواب رہے-غرض تمام رات مشرکین قریش اس دھوکا میں رہے کہ خود سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہی استراحت فرما ہیں،

 ہےصبح ہوتےہی کفا ر اپنے ناپاک ارادہ کی تکمیل کے لیے اندر آئے؛لیکن یہاں یہ دیکھ کر وہ متحیرہوگئے کہ شہنشاہِ دو

 عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جاں نثار اپنے آقا پر قربان ہونے کے لیے سربکف سو رہا ہے،

 حضرت علی علیہ السّلام کی عمر اس وقت زیادہ سے زیادہ بائیس تئیس برس کی تھی، اس عنفوانِ شباب میں اپنی زندگی کو

 قربانی کے لیے پیش کرنا آپ کی جا ں نثاری کا عدیم المثال کارنامہ ہے،  ، حضرت علی علیہ السّلام بستر سے اُٹھَے  اور کفار سے

 بولے میں جا رہا ہوں جو چاہے کہ میں راستہ میں اس کی بوٹیا ں چیل کووں کو کھلا دوں وہ میرے پیچھے آ جائے مشرکین اپنی

 اس غفلت پر سخت برہم ہوئے اورحضرت  علی کو چھوڑ کر اصل مقصود کی تلاش وجستجو میں روانہ ہو گئے۔ حضرت علی

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد دو یا تین دن تک مکہ میں مقیم رہے

اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق جن لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کاروبار اور لین دین تھا،

 ان کے معاملات سے فراغت حاصل کی اور مکّہ کی سرزمین کو الوداع  کہہ کر عازم مدینہ ہوئےاللہ تعالیٰ نے مولائے

 کائنات کے اس عمل کو قران پاک کے ان الفاظ سے سراہا ہے-چھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضا جوئی کے لئے اپنی

 جان دے دیتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑی ہی شفقت رکھتا ہے حقیقت یہ ہے کہ صحیح معنوں میں قوم کے راہنما یہ

 لوگ ہیں جو اعمال کی صورت کے ساتھ مقاصد کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔  صر ف خدا وندقدوس کی رضا طلبی ان کی منشا ہو تی ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر