تحریر و تلخیص ۔۔سیدہ زائربسم اللہ الّرحمٰن الرّحیم ،
نحمد ہ ونصلّی علٰی رسولہ الکریم واٰلہ الطّیبین الطا ہرین ۃ
میں اپنی تحریر کے آغاز پر ہی سکھّر روہڑی (پاکستا ن) کے ان تمام افرادکا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جن کی مساعی کی
بدولت ‘‘اور دنیا کے انگنتمومنین کو عشق حقیقی کے متوالوں کی سچّی داسوںنتان سننے اور بزات خود دیکھنےکو ملی یو ٹیوب
پر سب کچھ سننے اور دیکھنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اس عشق خودکی سچّی داستان کو حرف حرف لکھ کر پیش کر سکوں تو
اسے اپنی قسمت کی عین سعادت سمجھوں گی۔ میں پاکستان کےشہروں میں صرف لاہور ،کوئٹہ ،نوابشاہ ،حیدر آباد سے
واقف ہوں جہاں میں جا سکی ہوں لیکن امام مظلوم کے اس معجزاتی تابوت کی یو ٹیوب پر زیارت کے بعد میرے دل میں
پاکستان جا کرزیارت کرنے کی ایک لگن دل میں جاگ اٹھی ہے۔
اسی شہر کی شاہی مسجد میں حضور پاک 'سیّد المرسلین صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا موئے مبارک جلوہ گر ہےاور اسی
خصوصیت کی بناء پر یہ خطّہ ءارض بے شمار ولیو ں ،بزرگو ں،اورعاشقان محمّد و آ ل محمّد صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم کا محبوب ترین
خطّہ رہا ہے یہاں قلندر لال شہباز اور شاہ عبداللّطیف بھٹائ کی اورانگنت بزرگان دین کی چلّہ گاہیں اورآستانے موجود ہیں
جو زائرین کے لئے کشش کا باعث ہیں برّصغیر اپک وہند میں سندھ کے علاقے کو یہ شرف حاصل رہا ہے کہ دین اسلام کی
روشنی یہاں سے داخل ہوئ اور پھر پورے برّصغیر کو اس روشنی نے اپنی پاکیزہ کرنو ںسے منوّر کیا اور سند ھ کو باب الاسلام
کے لقب سے سرفراز کیدر حقیقت دین اسلام کی روشنی محمّد بن قاسم سے پہلے ہی خانواد ہء آل رسول صلّی اللہ علیہ واٰلہ
وسلّم کی اس خطّہ ارض پر ہجرت سے شروع ہو چکی تھی
اس کی ابتدا ءاس طرح سے ہوئ کہ ساتویں صدی ہجری میں امام
علی نقی علیہ اسّلام کی نسل سےایک بہت بڑے عالم و زاہد و متّقی صاحب کشف وکرامت بزرگ امیر سیّد محمّد مکّی ابن سیّد
محمد شجاع 640 ء میں مشہد مقدّس سے تشریف لائے اور اپنےاجداد اور حضرت امام حسین علیہ السّلام کی سنّت کے
مطابق یہان کے حاکم سےزمین خریدی اور اس زمین پر جا گزیں ہو گئے۔
یہان آپ نے مدرسہ اور مسجد تعمیر کروائ اور اسی مدرسے اور مسجد سےتبلیغ دین اور ترویج اسلام و درس وتدریس کا
سلسلہ شروع کیا ،ان کی رحلت کے بعد ان کے فرزندحضرت خطیب سید صدرالدّین نے بھی اپنے والد کی طرح درس
وتدریس کا یہ سلسلہ قائم رکھّا خطیب سید صدرالدّین کا جائے مدفن سکھراور روہڑی کے درمیان جزیرہ نما ء قلعہ بکھّر
میں واقع ہے ۔درس وتدریس کا یہ سلسلہ ارتقاء کی منازل طے کرتے ہوئے دین اسلام کی پناہ میں انگنت بھٹکے ہوؤں کو
سیدھی راہ دکھاتے ہوئے آ گے بڑھتا رہا ,اگر دیکھا جائے تو سندھ کے علاقے میں تعزئیےداری و عزاداری کی ابتداء اسی
شہر سے ہوئ اور یہ سلسلہ پھیلتا ہوا سندھ کے دیگر علاقوں میں پھیلا اور عوام و خواص کو حق و باطل کے اس خونیں
اوراندوہناک واقعے کی تفصیل معلوم ہوئی۔اس وقت روہڑی شہر میں ماہ محرّم میں نکلنے والے تابوت کے لئے لے بتایاجاتا
ہے کہ 1000ھجری میں یہاں پر حضرت سید محمّدامیر مکّی کی پشت سے ایک بچّےنے جنم لیا ،یہ بچّہ آگے چل کر اپنے
اجداد کی مانند بزرگ ،ولی ثابت ہوامحمد شریف اپنی ابتدائ عمر سے ہی غم حسین علیہ ا لسّلام میں سوگوارواشکبار رہا کرتے
تھے اور انہو ں نے عزادارئ امام مظلوم کو ہی اپنامقصد حیات بنا لیا تھا اسی اشکباری کے سبب ان کانام محمّد شریف کے
بجائےمور شاہ یعنی رونے والا پڑ گیا
اسی مودّت امام حسین علیہ السّلام میں ہونے کی بناء پر وہ ہر سال پیدل روضہ امام حسین علیہ اسّلام کی زیارت کو جایا کرتے
تھے اورا س سفر میں ان کے کچھ خاص رفقاء بھی ساتھ ہوتے تھے ان رفقاء میں ایک کھبّڑ فقیر بھی تھے جو ہمیشہ مور شاہ
کے ہمراہ سفر کےساتھی ہوتے تھے-یاد رہے کہ کھبّڑ فقیر بھی سادات النّسل بزرگ تھے جنہوں عشق امام میں اپنے
آپ کو امام عالی مقام کا گیا گزرا یعنی کھبّڑ فقیر کا نام دیا تھا اور ان کا اصل نام پس منظر میں چلا گیا اور وہ کھبّڑ فقیر کے نام سے
معروف ہوئے-کہتے ہیں کہ مور شاہ جب ضعیف العمری میں داخل ہوئے اور محرم آنے پر زیارت کربلا کو حسب
معمول پا پیادہ روضہ اما م عالی مقام پر پہنچے تب مور شاہ نے امام حسین علیہ السّلام سے گزارش کی یا امام علیہ السّلام میں اب
ضعیف ہو گیا ہوں مجھے آپ اب اپنے پاس رکھ لیجئے -
جواب میں مولا حسین نے فرمایا کہ میرے فرزند تم تمام عمر ہماری زیارت کو آتے رہے اب تم جا وہم تمھارے پاس
خودآئیں گے اور تا قیامت آئیں گے-اما م عالی مقام کا جواب سن کرمور شاہ واپس عازم سفرہوئے اور روہڑی پہنچ کر تمام
رفقاء کو بتایا کہ امام عالی مقام ہمارے مہمان ہوں گے -اب محرم کا مہینہ شروع ہونے کو تھا تب دو افراد مور شاہ کا پتا پوچھتے
ہوئے ان کے گھر آئے اور انہوں نے بتایا کہ ہم عراق شہر کر بلا سے آئے ہیں ہمارا تعلّق قبیلہ بنی اسد سے ہے اور ہمارے
پاس وہ امانتیں محفوظ تھیں جو قبیلہ بنی اسد کو پہلی بار مقتل میں لاشہ ہائے شہداء کی تدفین کے موقع پر ملی تھیں لیکن اب
ہمیں حضرت امام حسین علیہ ا لسّلام کی جانب سے بشارت ہوئی ہے کہ ہم یہ امانتیں آپ کے سپرد کر دیں پھر بزرگوں نے
تعزئے کا نقشہ اورامانتیں مور شاہ کو دیں اور کہا کہ اس تعزئے کا نقشہ وہ ہے جو قبیلہ بنی اسد کی لوگون نے پہلی مرتبہ امام
مظلوم کی قبر پر سائے کے لئے بنایا تھا پھر ان دونو ں بزرگ حضرات نے کچھ عرصے روہڑی میں سیّد مور شاہ کے ہمراہ
قیام کیا، اور تعزئے کربلا کے حوالے سے کچھ اور بھی سینہ بہ سینہ راز ان کےگوش گزار کئے ،ان میں وقت اور دن کا تعین
بھی تھا ان دو بزرگوں میں سےایک کا انتقال ہوگیا جن کا مدفن سید مورشاہ کے مزار کےبرابر میں روہڑی میں ہے اور
زیارت خاص و عام ہے۔
اور دوسرے بزرگ عراق کربلا روانہ ہو گئےیہ ساری امانتیں اور احکامات ملنے کے بعد جب پہلی مرتبہ محرّم الحرام کاآغاز
ہوا تو سیّد مورشاہ نےبتائے ہوئے طریقے اور نقشے کے مطابق 8 محرّم الحرام کے دن اور 9 محرّم الحرام کی درمیانی رات کو
تعزئے کربلا کا کام مسجد میں شروع کیا اورحکم امام کےمطابق علاقے کے مومنین کو دعوت بھیجی گئ کہ صبح نمازفجر سے
پہلے تعزئے
کربلا برامد ہوگااندر مسجد کربلا میں سیّد مورشاہ اپنے رازدار ساتھیوں کے ہمراہ پردے میں بحکم امام تعزئے کے کام میں
مشغول رہے اور مسجد کے باہر مومنین تمام رات گرئہ و زاری کرتے رہےجس وقت تعزئہ کربلا کے برآمد ہونے کا
وقت ہوا تو اسوقت تعزئے کے راستے کی تمام شمعیں گل کر دی گئیں اور یہ معجزانہ تعز یہ دروازے کے بجائے دیوار کے
اوپر خودبخود بلند ہوا پھر نیچے آ یاجس کو سوگوارمومنین نے یا حسین یا حسین کی صدائین بلند کرتے ہوئے اپنے کاندھوں پر
اٹھا لیاجب تعزیہ ء پاک آ گے بڑھ کر اسوقت کے باشرع عالم،مجتہد،،سیّد حیدر شا ہ حقّانی کے استانے کے نزدیک پہنچا تو
ان کے کانوں میں یا حسین ،یا رسول کی صدائیں آنی شروع ہوئین تو وہ اپنی عبادت چھوڑ کر اپنے بیٹون سمیت باہرآئے
اور تعزیہ کربلا ئے معلٰی میں حضرت امام حسین علیہ السّلام کی زیارت سےمشرّف ہوئےاور اما مت کی تجلّی دیکھ کر والہانہ
انداز مین اپنی عباء و قباء اتار دی اورتعزیہ پاک علیہ السّلام کو کاندھا دیا اور گریہ کنان ہو کرعرض گزار ہوئے یاامام پاک علیہ
اسّلا م آپ میرے قریب سے گزر کر جا رہے ہیں میری دعوت قبول فرمائیں ، ،جس کے جواب میں امام حسین علیہا لسّلام
نے مورشاہ کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ ہم مورشاہ کے مہمان ہیں آپ ان سے رجوع کریں
مورشاہ نے فرمایا ابھی ہماری کھبّڑ فقیر کی جانب روانگی ہے شام کوآ پ کےمہمان ہوں گے9 محرم الحرام فجر سے پہلے
رات کے اندھیرے میں تعزیہ پاک کھبّڑ فقیر کے استانے پر پہنچا اور دوپہر تک قیام کیا۔کھبّڑ فقیر کے آستانے سے
رخصت ہو کر یہ تابوت بہ شکل جلوس شام کو حیدرشاہ حقّانی کے آستانے پر پہنچا تو حیدر شاہ حقّانی تمام جلوس کے شرکاء کی
اورامام عالی مقام کی میزبانی کا شرف حاصل کیا جب سے لے کر آج تک یہ تعزیہ پاک امام عالی مقام اسی طرح سے برامد
ہورہا ہئےیہ جلوس شاہی بازارکے مقام پردرگاہ موئے مبارک کے گیٹ پر پہنچتا ہے تو سلامی کی رسم ادا کیجاتی ہئے اور اس
وقت عاشقا ن امام آہ فغاں کی صدائین بلند کرتے ہوئے امام مظلوم کو پرسہ دیتے ہیں بعد از سلامئ رسول پاک صلّی اللہ
علیہ واٰ لہ وسلّم یہ جلوس اشکبار آنکھون سے ٹھٹھ بازار سے گزرکر وچھوڑا کے مقامپر پہنچتا ہے جہاں ایک دردناک منظر
نظر آتا ہے یہاں شاہزادہ قاسم اورشاہزادہ علی اکبر کے تابوت تعزیہ کربلا سے جدا کرنے کی رسم اداکی جاتی ہے یہ منظر
دیکھتے ہوئے عزاداران امام عالی مقام بے تابانہ پرسہ پیش کرتے ہیں -کربلا کے دونوں شہزادوں کے تابوتوں کی جدائ اس
بات کا اظہار ہوتی ہے کہ سرور دیں مظلوم امام اب تنہا ہو گئے یہاں پر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر یا حسین کی بلند آواز میں
گریہ و زاری کرتا ہے اور ماتم کرتا ہے یہاں سے امام عالی مقام کا تا بوت روہڑی کے میدان کربلا لایا جاتا ہے جو شام عاشور
تک وہی قیام کرتا ہے اور ہزارہا ماتم دار اور غیر ماتم دار جو امام کے چاہنے والے اپنے اپنے طریقہ پر امام مظلوم کو پرسہ دیتے
ہیں -
امام عالی مقام نے اپنے اور اپنے مٹّھی بھر خاندان کے اور کچھ جان نثار صحابہ کے ہمراہ اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اپنے نانا
کے دین مبین کو بچا لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں