جمعہ، 18 اپریل، 2025

بنو قابل -الخدمت کی ماہرانہ پیشکش طالبعلموں کے لئے

 

    پاکستان  میں علمی  تباہی کا کیا زکر کیا جائے   جس میں ہماری   وہ نسل پس گئی  جسے آگے چل کر پاکستان کو اپنے شانوں پر اٹھا  نا تھا لیکن الخدمت نے  ایک بیڑا اٹھا یا  ہے جس کے تحت    جدید تعلیم کے شعبے میں مدد دی جا رہی ہے  -ٍٍٍٍٍفا روق احمد کملانی  نے دنیا نیوز کو جو اپنے پروگرام بتائے وہ میں آپ سے شئر کر  رہی ہوں فاروق احمد کملانی  کا کہنا ہے کہ   بنو قابل پروگرام میں ایمازون ،فری لانس ،ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور دیگر کورسز کرارہے ہیں۔ان میں ہم  بچوں کو فیس بک سے کاروبار کرنے کے طریقے بتا   رہے ہیں ،فیس بک اکاؤنٹ بنوارہے ہیں اس سے بچوں نے کاروبار بھی شروع کردیا ہے۔ایمازون کے کورس میں بچہ شروع سے کاروبار میں لگ جاتاہے، مخیر حضرات توقع سے زیادہ تعاون کررہے ہیں۔50فیصد سے زیادہ نئے ڈونرز سامنے آئے۔ بنو قابل سے مستفید ہونے والوں میں متوسط طبقے کے افراد کے بچے زیادہ ہیں۔


مارکیٹ میں کورسز ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک کے ہوتے ہیں جو الخدمت مفت میں کرارہی ہے۔ موبائل ایپلی کیشن کورس میں بچے زیادہ فائدہ اٹھارہے ہیں یہ کورس دو سے ڈھائی لاکھ میں ہوتاہے ،ہرکوئی نہیں کرارہا۔سارے کورسز پروفیشنل ہیں بچے دلچسپی سے کام کررہے ہیں۔یہ کام Remote Job کہلاتے ہیں بچہ گھر میں رہتے ہوئے بھی کام کرسکتاہے۔پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد کئی گناہ ہے اور انہیں درست سمت کی تلاش ہے ،فلاحی ادارے جدید تعلیم کے فروغ سے بچوں کا اور ملک کا مستقبل محفوظ بنارہے ہیں۔دنیا: آپ کا ادارہ شعبہ تعلیم میں کیا کام کررہا ہے؟ڈاکٹر ٹیپو سلطان: کوہی گوٹھ اسپتال کے ساتھ ہی ملیر یونیورسٹی بھی ہے ۔ کوہی گوٹھ اسپتال فلاحی ہے جو تعلیم کے میدان میں بھی کوششیں کررہاہے تاکہ قوم کامعیار بلند کریں ۔کسی بھی قوم میں تعلیم نہ ہوتومعاشرہ تباہ اور لو گ جاہل رہ جاتے ہیں۔


 تعلیم  حا صل کرنا  ہر بچے کا بنیاد ی حق ہے ہم تعلیم کو اول ترجیح دیتے ہیں اس کے ساتھ ریسرچ پر بھی کام ہورہاہے،میٹرک اور انٹر پاس کو تعلیم کی سہولت فراہم کررہے ہیں ۔نوجوانوں کے پاس تعلیم حاصل کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔اسی صورت حال کے پیش نظر تعلیم کو مفت کرنے کا فیصلہ کیا۔ملیر یونیورسٹی میں قرضہ حسنہ کے طور پر تعلیم دے رہے ہیں۔تعلیم حاصل کرواور چلے جاؤ جب نوکری لگ جائے تو فیس دینا شروع کردو اس پیسے سے دوبار ہ کسی بچے کو تعلیم دیں گے۔ملیر یونیورسٹی میں 200طلباء کی گنجائش ہے ،چار فیکلٹی ہیں ، 94بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں، 250بچیاں اسکول میں پڑھ رہی ہیں، 80 بچے مختلف ٹیکنیشن کورسز کررہے ہیں،ان کی فیس نہیں ہیں ۔جس قوم میں تعلیم نہیں ہوتی و ہ سب سے پیچھے رہ جاتی ہے۔


کوہی گوٹھ میں اسکول ہے لیکن پڑھانے کیلئے اساتذہ نہیں ہیں اسکول خالی رہتاہے،وہاں رضاکارانہ طورپر اساتذہ کو بھجتے ہیں کہ جاؤ اور پڑھا کر آجاؤ۔گزشتہ انتخابات میں ہم نے تما م سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو بلایا تھا اور ان سے بات کی ان کی ترجیحات میں تعلیم کہیں نہیں،منشور تک میں تعلیم کا نمبرانیس بیس پر آتا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو ہم پر مسلط ہیں یہ لوگ تعلیم کو کچھ نہیں سمجھتے ،غریب او ر متوسط طبقہ اس مہنگائی میں اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلواسکتا ان مسائل کودیکھتے ہوئے تعلیمی سرگرمیوں شروع کیں جو بالکل مفت ہیں۔ دنیا: تعلیم کے کن شعبوں میں کام کررہے ہیں کیا طریقہ کارہے؟فیاض الرحمٰن : احسان ٹرسٹ 2010 سے قائم ہے۔ ضرورت مند طلباء کو اعلیٰ تعلیم کیلئے سود سے پاک قرضے فراہم کررہے ہیں تاکہ ذہین بچے محض پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محرو م نہ رہیں۔اسلام میں سود حرام ہے اس لیئے بچوں کو سود سے پاک رقم دے رہے ہیں ۔


یہ کسی فرد کا قرضہ نہیں بلکہ تعلیمی قرضہ ہوتاہے،اپنی تعلیم مکمل کریں پیسہ واپس کریں تاکہ یہی پیسہ کسی اور بچے کو دیں،بچوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن فیسیں اتنی زیادہ ہیں برداشت نہیں کرسکتے اور داخلہ لینا خواہش ہی رہ جاتی ہے ،ایسے بچوں کوداخلے کیلئے سود سے پاک قرضہ فراہم کرتے ہیں ،شروع میں طالب علم سے 500 سے ہزار وپے لیتے ہیں ، باقی رقم پاس آؤٹ ہونے کے بعد 5 سال میں اداکرنے ہوتے ہیں تاکہ یہی رقم کسی دوسرے طالب علم کے کام آئے۔لمس جیسی بڑی یونیورسٹی سے ابتدا کی اب پاکستان کی 160 یونیورسٹیوں اور پروفیشنل کالجوں میں مہنگی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے بچوں کو قرض حسنہ دے رہے ہیں ۔طااعلیٰ تعلیم کیلئے بچوں کو قرض حسنہ دے رہے ہیں ۔طالب علم کو رقم دینے کیلئے ادارے کے ساتھ ایم او یوسائن کرتے ہیں ۔ طالب علم براہ راست بھی رابطہ کرتاہے تواس کو بھی تعلیمی ادارے کے شعبہ مالیات سے رابطہ کرکے داخلے کی کارروائی شروع کرلیتے ہیں۔یہ سہولت ضرورت مندوں کو دی جاتی ہے


جمعرات، 17 اپریل، 2025

انڈونیشیا کے مسلمان ٹرانسجینڈرز جو اپنے مستقبل کے لیے فکرمند ہیں

   ما رچ    2025 کا مہینہ  انڈونیشیا  کی ٹرانسجنڈر  کمیونٹی کے لئے  ایک بڑے نقصان کا مہینہ رہا  جب ان کی مذہبی  راہنما  اور مدد گار شنتا راتری  ہسپتال میں داخل ہونے کے تین دن بعد دل کا دورہ پڑنے سے 60 سال کی عمر میں فوت ہوگئیں ۔ان کی موت کے نقصان کو الفتح اسلامی سینٹر کے ارکان  اب اپنے آپ کو بے یارو مددگار محسوس کر رہے ہیں ۔اور خواتین ٹرانسجینڈر کے واحد اسلامی کمیونٹی سینٹر کا مستقبل خطرے میں ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس کی مدد نہیں کر سکتی۔ٹرانسجینڈرز کے الفتح کمیونٹی سنٹر میں 63 خاتون ٹرانسجینڈرز باقاعدگی سے آتی ہیں اور یہاں وہ عبادت کرتی ہیں، قرآن سیکھتی ہیں، دیگر ہنر سیکھتی ہیں اور یہ جگہ انھیں ان کی شناخت پر وضاحت دیے بنا سماجی طور پر مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔رینی کالینگ ان خواتین ٹرانسجینڈرز میں سے ایک ہیں۔نور آیو کا کہنا ہے کہ ’وہ ہمارے لیے ایک روشنی کی مانند رہنما تھیں، اور بطور خاندان سب سے قریب تھیں۔


انڈونیشیا کے مسلمان ٹرانسجینڈرز جو اپنے مستقبل کے لیے فکرمند ہیں -ہر صبح جاگنے کے بعد، وہ ہینڈ بیگ پکڑ کر تاریخی شہر یوگیکارتا کی سڑکوں پر گھومنے سے پہلے میک اپ اور اپنی پسندیدہ کالی وگ پہنتی ہیں۔وہ روزانہ میلوں پیدل چلتی ہیں، اپنے بلیو ٹوتھ سپیکر سے موسیقی بجاتی ہیں اور روزی کمانے کے لیے گاتی ہیں۔ لیکن اتوار کو وہ دوپہر کو قرآن کا مطالعہ کرنے کے لیے الفتح سینٹر آتی ہیں۔سنہ 2014 سے یہاں آنے والی رینی کہتی ہیں کہ ’یہ وہ محفوظ جگہ ہے جہاں ہم اپنی عبادت کر سکتے ہیں۔‘رینی بچپن میں ہمیشہ لڑکوں کے بجائے لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے میں زیادہ آرام محسوس کرتی تھیں۔ وہ لڑکیوں جیسا لباس زیب تن کرتی، باورچی خانے کے کھلونوں سے کھیلتیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل میں دلہن بننے کا روپ دھارتی تھیں۔


ٹرانس ویمن کی شناخت اختیار کرنے کے بعد ان کے والدین اور نو بڑے بہن بھائیوں نے ان کی شناخت کو قبول کیا۔ اب سڑکوں پر لوگ انھیں پہنچانتے ہیں جو اسے گاتے اور ناچتے دیکھتے ہیں۔وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں یہاں کی سلیبرٹی ہوں۔رینی نے پہلی مرتبہ ٹرانس خواتین کے لیے الفتح اسلامی سینٹر کا ذکر اپنی ایک دوست سے سنا تھا جو خود بھی مذہبی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔اس وقت رینی کو یہ علم ہوا کہ ان کی برادری کی تمام خواتین میں ہی ایسا جذبہ موجود ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’جب کبھی وہ مسجد میں نماز پڑھنے جاتی تھیں تو اکثر انھیں عجیب نظروں سے دیکھا جاتا تھا، ’لازمی نہیں کہ وہ ہمیں قبول کریں لہٰذا میں نے شنتا راتری کے گھر جانا شروع کر دیا۔‘اس مرکز کی نگران نور آیو کہتی ہیں کہ ’بہت سے اسلامی سینٹرز ٹرانسجینڈرز کو آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن یہاں ہمیں آزادی حاصل ہے، ہم یہاں مرد و عورت یا جس میں بھی پرسکون محسوس کریں اس شناخت کے ساتھ آ سکتے ہیں۔‘شنتا راتری الفتح کمیونٹی سینٹر کے بانیوں میں سے ایک تھیں۔


سنہ 2014 سے ایک مشہور کارکن اور مرکز کی رہنما شنتا راتری نے انڈونیشیا میں ٹرانسجینڈرز کے حقوق کو مزید آگے بڑھانے کے لیے کئی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا۔  ان کے بغیر سینٹر ’ویران اور خالی محسوس ہوتا ہے۔‘شنتا راتری کی موت نے کمیونٹی سینٹر کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ عمارت مرحوم رہنما کے خاندان کی ملکیت ہے اور انھوں نے الفتح مرکز کو یہاں سے ختم کرنے کا کہا ہے۔ نور کہتی ہیں کہ ’ہمیں شنتا کے بغیر رہنے کے قابل اور خود مختار ہونا ہو گا۔اسلامک سنٹر کے سیکریٹری، وائی ایس البوچری بتاتی ہیں کہ انھیں مقامی اور عالمی سطح پر کمیونٹی کے دوستوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے کچھ تعاون حاصل ہوا ہے۔لیکن انڈونیشیا کے مذہبی اسٹیبلشمنٹ میں ٹرانس کمیونٹی کی قبولیت بہت مشکل اور محدود ہے۔چار برس قبل پارلیمان سے منظور ہونے والے ٹرانس جینڈر ایکٹ پر دوبارہ شور کیوں؟اگر آفس کارڈ نہ ہوا تو مجھے دوبارہ سیکس ورکر سمجھا جائے گا‘ملک میں ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ ریاست کبھی ان کی مخالف نہیں رہی اور اس نے انھیں اپنے وجود کی اجازت دی ہے، لیکن وہ براہ راست کوئی مدد فراہم نہیں کرتی ہے۔


انڈونیشیا کی وزارت مذہبی امور میں اسلامی مراکز کے ڈائریکٹر واریونو عبدالغفور کا کہنا ہے کہ وہ اس مرکز کی حالت زار سے آگاہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ لیکن حکام اس سینٹر کی مدد نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ریاستی ضوابط کے تحت ایک جائز اسلامی مرکز کے طور پر شمار نہیں ہوتا۔انھوں نے بی بی سی نیوز انڈونیشیا سے فون کال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وسیع نقطہ نظر میں ریاست ’تمام مثبت سرگرمیوں کی حمایت کرتی ہے۔ لوگ عبادت کرنا چاہتے ہیں تو انھیں کیوں منع کیا جائے؟‘لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ اب بھی ٹرانسجینڈرز کی سماجی اور مذہبی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا ہے‘۔ وزارت مذہبی امور کبھی بھی الفتح کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں رہی اور نہ ہی اس کی کسی بھی سرگرمی میں سہولت فراہم کی ہے۔اس سینٹر کی ایک اور رہنما رولی مالے کا کہنا ہے کہ الفتح سینٹر کو جو بھی قانونی حیثیت دی گئی ہے اس کے لیے ہم شکر گزار ہیں۔‘وہ پرامید ہیں کہ ایک دن، ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو انڈونیشیا جیسے متنوع ملک میں زیادہ قبولیت ملے گی اور یہ امید انھیں اور ان کے دوستوں کو مرکز کو چلانے کی ترغیب دیتی  ہے

  آر ٹیکل  انٹرنیٹ سے لیا گیا ہے


منگل، 15 اپریل، 2025

مہاجر نامہ (منور رانا)

 

مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں 
نئی دنیا بسا لینے کی اک کمزور چاہت میں
پرانے گھر کی دہلیزوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں 
عقیدت سے کلائی پر جو اک بچی نے باندھی تھی
وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں 
کسی کی آرزو کے پاؤں میں زنجیر ڈالی تھی
کسی کی اون کی تیلی میں پھندا چھوڑ آئے ہیں 
پکا کر روٹیاں رکھتی تھی ماں جس میں سلیقے سے
نکلتے وقت وہ روٹی کی ڈلیا چھوڑ آئے ہیں 
یقیں آتا نہیں، لگتا ہے کچّی نیند میں شائد
ہم اپنا گھر گلی اپنا محلہ چھوڑ آئے ہیں 
ہمارے لوٹ آنے کی دعائیں کرتا رہتا ہے
ہم اپنی چھت پہ جو چڑیوں کا جتھا چھوڑ آئے ہیں 
گلے ملتی ہوئی ندیاں گلے ملتے ہوئے مذہب
الہ آباد میں کیسا نظارہ چھوڑ آئے ہیں 
ہم اپنے ساتھ تصویریں تو لے آئے ہیں شادی کی
کسی شاعر نے لکھا تھا جو سہرا چھوڑ آئے ہیں 
کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں
کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں 
شکر اس جسم سے کھلواڑ کرنا کیسے چھوڑے گی
کہ ہم جامن کے پیڑوں کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں 
ابھی تک بارشوں میں بھیگتے ہی یاد آتا ہے
کہ ہم چھپر کے نیچے اپنا چھاتا چھوڑ آئے ہیں 
بھتیجی اب سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتی ہوگی
وہی جھولے میں ہم جس کو ہمکتا چھوڑ آئے ہیں 
یہ ہجرت تو نہیں تھی بزدلی شائد ہماری تھی
کہ ہم بستر میں ایک ہڈی کا ڈھانچا چھوڑ آئے ہیں 
ہماری اہلیہ تو آ گئی ماں چھٹ گئی آخر
کہ ہم پیتل اٹھا لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں 
مہینوں تک تو امی خواب میں بھی بڑبڑاتی تھیں
سکھانے کے لئے چھت پر پودینہ چھوڑ آئے ہیں 
وزارت بھی ہمارے واسطے کم مرتبہ ہوگی
ہم اپنی ماں کے ہاتھوں میں نوالہ چھوڑ آئے ہیں 
یہاں آتے ہوئے ہر قیمتی سامان لے آئے
مگر اقبال کا لکھا ترانہ چھوڑ آئے ہیں 
ہمالہ سے نکلتی ہر ندی آواز دیتی تھی
میاں آؤ وضو کر لو یہ جملہ چھوڑ آئے ہیں 
وضو کرنے کو جب بھی بیٹھتے ہیں یاد آتا ہے
کہ ہم جلدی میں جمنا کا کنارہ چھوڑ آئے ہیں 
اتار آئے مروت اور رواداری کا ہر چولا
جو اک سادھو نے پہنائی تھی مالا چھوڑ آئے ہیں 
اِدھر کا کوئی مل جائے اُدھر تو ہم یہی پوچھیں
ہم آنکھیں چھوڑ آئے ہیں کہ چشمہ چھوڑ آئے ہیں 
محرم میں ہمارا لکھنؤ ایران لگتا تھا
مدد مولیٰ حسین آباد روتا چھوڑ آئے ہیں 
محل سے دور برگد کے تلے نروان کی خاطر
تھکے ہارے ہوئے گوتم کو بیٹھا چھوڑ آئے ہیں 
ہنسی آتی ہے اپنی ہی اداکاری پہ خود ہم کو
بنے پھرتے ہیں یوسف اور زلیخا چھوڑ آئے ہیں 
ہمارا راستہ تکتے ہوئے پتھرا گئی ہوں گی
وہ آنکھیں جن کو ہم کھڑکی پہ رکھا چھوڑ آئے ہیں 
تو ہم سے چاند اتنی بے رخی سے بات کرتا ہے 
ہم اپنی جھیل میں ایک چاند اترا چھوڑ آئے ہیں 
یہ دو کمروں کا گھر اور یہ سلگتی زندگی اپنی
وہاں اتنا بڑا نوکر کا کمرہ چھوڑ آئے ہیں_
مہاجر نامہ (منور رانا)

اتوار، 13 اپریل، 2025

چرنوبل جوہری پلانٹ کی تباہی-part 3

 

  آج بھی   تباہ شدہ ریکٹر کو مضبوط پتھروں سے چھپا دیا گیاہے ، 30 کلو میٹر پر محیط علاقے میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ چرنوبل کے قریبی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس حادثے سے کئی نسلیں متاثر ہوئی ہیں۔ اُس وقت جو لوگ کم عمر تھے ان کی قوت مدافعت کم ہوئی ہے اور وہ اپنی پچھلی دو نسلوں کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہیں۔یہ حادثہ اتنا اچانک، بڑا اورہولناک تھا کہ اِس کو دیکھ کر اُس وقت کے سویت یونین کے حکام بوکھلا اٹھے ۔ اُن سے یہ فیصلہ نہیں کیا جا رہا تھا کہ وہ کیسے اور کب لوگوں اور دنیا کو اِس حادثے کے بارے میں بتائیں۔بعض حکام یہ بھی کہہ رہے تھے کہ کیا ہمیں لوگوں کو اِس خبر سے آگاہ کرنا بھی چاہیے یا نہیں؟میڈیا کو یہ لکھنے پر مجبور کیا گیا کہ یہ جوہری پلانٹ میں دھماکہ نہیں ہوا بلکہ کسی حادثے کی وجہ سے ریڈیو ایکٹو شعائیں خارج ہونا شروع ہوگئی ہیں


۔26 اپریل 1986 کو جوہری ریکٹر میں حادثے کی وجہ سے آسمان پر ریڈیوایکٹو دھویں کے گہرے بادلوں کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا لیکن 29 اپریل کو اس حادثے کے سلسلے میں پہلا سرکاری بیان جاری کیا گیا۔ اِس میں کہا گیا کہ ماحول میں کچھ آلودگی پیدا ہو گئی ہے لیکن اس کی مقدار اتنی نہیں ہے کہ لوگوں کو اس سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہو۔ بعض اطلاعات کے مطابق سویت یونین کے حکام نے قریب کے علاقوں میں تابکاری اثرات محسوس کئے جانے کے بعد ان تنصیبات میں صرف ایک جوہری حادثے کے امکان کا اعلان کیا ۔ایک اخبار کے مطابق حکام کی مجرمانہ بزدلی کی وجہ سے تابکاری علاقے کے ہزاروں لوگ اس حادثے کا نشانہ بنے اور سپاہیوں کو حقیقت حال سے آگاہ کیے بغیر اور بغیر کسی حفاظتی انتظام کے تباہ شدہ جوہری پلانٹ کی طرف روانہ کیا گیا۔


اِس حادثے کے سلسلے میں متعدد تحقیقات کے باوجود ابھی تک اس کی اصل وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے کیونکہ اب تک تحقیقاتی ٹیموں میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی کے زیر اثر ہونے یا دباﺅ کی وجہ سے مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جوہری پلانٹ میں دھماکے کی وجہ وہاں کے عملے کی طرف سے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی بنی ہےلیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بعد میں پتا چلا کہ جن قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی بات کی گئی ہے انہیں اس حادثے کے بعد قلمبند کر کے قوانین کی شکل میں سامنے لایا گیا۔ جبکہ درحقیقت جوہری ریکٹر کا اصل منصوبہ ہی ناقص تھا جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔اس حادثے کا شکار ہونے والوں کی تعداد کے سلسلے میں بھی مختلف قسم کے اعداد و شمار بیان کیے گئے ہیں۔ا


قوام متحدہ نے اُس وقت 9 ہزار افراد کی ہلاکت اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی کی تصدیق کی تھی۔جبکہ ماحولیاتی ادارے Green Peace نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میںکہا ہے کہ چرنوبل کے جوہری تنصیبات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا یعنی 93 ہزار تک ہو سکتی ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ ریڈی ایکٹو اثرات سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ۲ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ سب سے زیادہ تابکاری اثرات کی زد میں تھے انہیں سب سے کم اس حادثے کی اطلاع دی گئی۔چرنوبل سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقعے Pripyat شہر کے لوگ اس واقعے کے بعد بھی معمول کی زندگی گزارتے رہے یہاں تک کہ 36 گھنٹوں بعد اُن کو شہر خالی کرنے کا حکم دیا گیا اور قریب کے دیہاتوں سے بھی انخلا کا عمل کئی ہفتوں تک جاری رہا۔ یوکرائن کے دارالحکومت Kiev 


 5  دن  تک تو شہر کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ تابکاری اثرات کی زد میں آ چکے  ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آج 20برس گزرنے کے بعد بھی اس حادثے کے تابکاری اثرات کی وجہ سے لوگ Chest اور Blood کینسر کے علاوہ مختلف قسم کے سرطانوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اور پیدائش کے وقت بچوں کی اموات کے کیس سامنے آرہے ہیں۔اگرچہ اس حوالے سے تحقیق کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن ان تحقیقات کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا کیونکہ ملکی حکام اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ان بڑھتی ہوئی خوفناک بیماریوں کی وجہ چرنوبل کے جوہری پلانٹ میں 20 برس قبل ہونے والا دھماکہ ہے۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر