ہفتہ، 7 ستمبر، 2024

منبع حکمت و دانائ - پہلا یونانی سائنس دان ’فیثا غورث‘

 

پہلا یونانی سائنس دان ’فیثا غورث‘

فیثا غورث پہلا یونانی سائنس دان تھا، جس نے زمین کے گول ہونے کا نظریہ پیش کیا اور بتایا کہ چاند گرہن کے دوران جب زمین کا سایہ چاند کے اوپر پڑتا ہے تو اس کا عکس ہمیشہ گول دکھائی دیتا تھا اور بتایا کہ چاند از خود روشن نہیں ہوتا بلکہ چاند سورج کی روشنی کو منعکس کرتا ہے اس نے سروں کے اتار چڑھاؤ حسابی تعلق اور تناسب کو فلکیات میں شامل کیا ویسے تو فیثا غورث کئی حوالوں سے مشہور ہے لیکن اس کی اہم وجہ شہرت مسئلہ فیثا غورث ہے اس مسئلے کے مطابق مستطیل میں موجود دو مخالف کونوں کا مجموعہ اس کے وتر کے برابر ہوتا ہے۔وہ اعداد کو اس عالم کی اساس تصور کرتے تھے یعنی یہ ساری دنیا ایک خاص تناسب سے بنائی گئی ہے اور اس کو مکمل اعداد کی آپس میں نسبت سے ظاہر کیا جاسکتا ہے ۔ان کے مطابق کائنات کی ہر شئے میں ریاضی مضمر ہے ۔جیومیٹری کا ایک مشہور مسئلہ ہے کہ ایک قائم الزاویہ مثلث میں وتر کا مربع دونوں ضلعوں کے مربعوں کے مجموعے کے برابر ہوتا ہے۔ یہ ’’مسئلہ فیثا غورث‘‘ کہلاتا ہے، کیوں کہ یہ انہوں نے ہی دریافت کیا تھا۔ اس مسئلے کے باعث ریاضی میں فیثا غورث کو شہرت دوام حاصل ہے اور اس کا نام جیومیٹری کے ہر طالب علم کی زبان پر ہے۔فیثا غورث پہلا شخص تھا جس نے ریاضی کو تجارت کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا اور اسے ایک قابل تحقیق علم کی صورت دی۔ اس نے اطاعت اور مراقبہ، کھانے میں پرہیز، سادہ لباس اور تجزیہ ذات کی عادت پر زور دیا۔Pythagoras theorem جس میں انہوں نے ثابت کیا کہ ایک right triangle میں a2 + b2 = c2 یعنی hypotenuse کا مربع ہمیشہ base کے مربع اور prependicular کے مربعے کے برابر ہوتا ہے ۔ یہ تھیورم تعمیراتی تکنیکوں میں خاصیاہمیت کا حامل ہے۔ پلاٹو اور کئی عظیم مغربی فلاسفر Pythagoras کے فلسفے کے حامل تھے اور پلاٹو نے فیثا غورث کے علمِ جیومیٹری سے متاثر تھے، انہوں نے اپنی علم گاہ پہ یہ کنندہ کروایا تھا وہ اس تدریس گاہ میں داخل ہونے کا اہل نہیں جو جیومیٹری کے علم سے نا واقف ہے۔ 

 فیثا غورث حکمت و دانائی کے آسمان پہ مثلِ ماہتاب دمکنے والا ستارہ تھے ،جس کی کرنیں رہتی دنیا تک اہلِ علم کو راستا دکھاتی رہیں گی ۔ علم و حکمت کا یہ بادشاہ، جس کو تاریخ فیثا غورث (Pythagoras) کے نام سے یاد کرتی ہے یونان (GREECE) کے جزیرے سیموس SAMOS میں قریباً 570 قبلِ مسیح میں پیدا ہوا ۔ان کا تعلق امیر گھیرانے سے تھا ۔ علم و حکمت کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ لڑکپن میں دانائی کا یہ عالم تھا کے اپنے اساتذہ کو ہمیشہ سوالوں میں الجھا کے رکھتے ۔حصولِ علم کی اس لذت نے فیثا غؤرث کو سفر میں رکھا ۔انہوں نے تاریخ میں پہلی دفعہ اپنے لیے فلاسفر کا لفظ استعمال کیا ،جس کے معنی علم سے محبت کرنے والےکے ہیں ۔ سیموس SAMOS میں فیثاغورث نے ایک ا سکول کا آغاز کیا، جہاں پورے یونان سے لوگ حصولِ علم کےلئے آیا کرتے تھے۔ سیاسی چپقلش اور سیاسی مخالفت کی وجہ سے فیثا غورث کو اس شہر کو خیر آباد کہنا پڑا اور اٹلی کے شہر CROTON میں رہنے لگے ۔ یہاں جلد ہی ان کی شخصیت فلسفے اور ریاضی میں مہارت کی وجہ سے معروف ہوگئی ،وہاں انہوں نے ایک علم گاہ کی بنیاد رکھی ،جہاں لوگ خاص طور پر اشرفیہ اور اہلِ علم لوگ حصولِخیال کیا جاتا ہے کہ ابتدائے جوانی میں فیثا غورث نے مصر اور بابل و نینوا کا سفر کیا تاکہ وہاں کی علمی و ادبی معاشرت سے مستفید ہو۔ اس زمانے میں یہی علاقے علم و آگہی میں سب سے آگے سمجھے جاتے تھے۔واپس آ کر فیثا غورث اپنے آبائی علاقے میں زیادہ دیر ٹھہر نہ سکا۔فیثا غورث کی مذہبی،سیاسی اور فلسفیانہ تعلیمات نے افلاطون اور ارسطو کو کافی متاثر کیا۔فیثا غورث کو بہت سی سائنسی اور ریاضیاتی دریافتوں کا حامل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ فیثا غورثی تھیوریم،پانچ ریگولر سالڈز،صبح اور شام کے ستارے کی ستارہ وینس Venusکے نام سے دریافت۔اس نے پوری روئے زمین کو پانچ موسمیاتی خطوں میں تقسیم کیا۔اس کے خیال میں تمام کائنات اور اس کے اجرامِ فلکی یعنی ستارے اور سیارے ایک نظم و ضبط کے پابند ہو کر متحرک ہیں۔یہ اجرامِ فلکی ایک Mathematical Equationکے مطابق گردش کرتے ہیں اور یہ منظم گردش موسیقی کے سروں جیسی ہے۔اسی لیے ان کی گردش ایک غیر صوتی سُر Inaudible symphwny پیدا کرتی ہے۔اس   وجہ سے تمام کائنات محوِگردش رہتے ہوئے نغمہ سرا ہے۔فیثا غورث کا خیال تھا کہ زمین اور آسمان میں ہر شے ایک عدد کے تحت پیدا کی گئی ہے۔ہر شے کا ایک مخصوص عدد ہے۔فیثا غورث کی اکیڈمی میں سخت رازداری میں تعلیم و تربیت کی وجہ سے علاقے میں فلاسفر کے خلاف طرح طرح کی چہ مگوئیاں اور بد گمانیاں پیدا ہونی شروع ہو گئیں۔آخر کار فسادات پھوٹ پڑے۔

لوگوں نے شر پسند عناصر کے اکسانے پر فیثا غورثی اجلاس گاہوں کو آگ لگا دی اور اکیڈمی کو شدید نقصان پہنچایا۔فیثا غورث کی جان پر بن آئی۔نامساعد حالات سے تنگ آ کر فیثا غورث زندگی میں دوسری مرتبہ بھاگنے پر مجبور ہوا اور اٹلی کے مقام میٹاپونٹمMetapontumمیں جا بسا جہاں تھوڑے ہی عرصے بعد 75 سال کی عمر میں وہ  فوت ہو گیا  - 

۔

جمعرات، 5 ستمبر، 2024

نواب بہاول خان عباسی اوّل کے علمی کارنامے

 ۔ نواب صادق محمدخان عباسی کے صاحب زادے،-نواب بہاول خان عباسی کے  لئے اگر کہا جائے کہ دریا دل'فیاض 'انتہا درجے کے علم دوست'    تو یہ ہر گز بے جا نہیں ہو گا -نواب بہاول خان عباسی اوّل نے 1774ء میں دریائے ستلج کے جنوب میں ایک نئے شہر ،بہاول پور کی بنیاد رکھی۔نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی30 ستمبر 1904ء کو پیدا ہوئے، وہ نواب حاجی محمد بہاول خان خامس عباسی کے اکلوتے فرزند تھے۔ جب وہ دو برس کے تھے، تو والد کے ساتھ سفرِ حج پر گئے، لیکن واپسی پر دورانِ سفر ان کے والد نواب بہاول خان کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد 15مئی1907ء کو سر صادق کو ریاست کا حکمران مقرر کرنے کا اعلان کردیا گیا، مگر چوں کہ نواب صادق محمد خان بہت کم سِن تھے، لہٰذا ان کی تعلیم و تربیت اور ریاست کے انتظام و انصرام کے لیے حکومتِ برطانیہ نے آئی سی ایس آفیسر، سر رحیم بخش کی سربراہی میں کائونسل آف ریجینسی قائم کردی۔ نواب صاحب نے ابتدائی تعلیم اُس وقت کی نام وَر علمی شخصیت، علاّمہ مولوی غلام حسین قریشی سے حاصل کی۔ 3 برس کی عمر میں تخت نشین ہونے والے شہزادے کی شخصیت کے نکھار کے لیے، انہیں دنیاوی تعلیم کے ساتھ مذہبی اور اعلیٰ انتظامی و عسکری تربیت بھی دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ 1911ء میں وہ صرف سات برس کی عمر میں فوج کی کمان کرتے ہوئے شہنشاہِ برطانیہ، جارج پنجم کے سامنے پیش ہوئے۔


ریاست بہاول پور میں صادق گڑھ پیلس اور صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) کی لائبریریز نادر و نایاب کتب کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سرصادق دنیا بھر سے اہم کتاب کے تین نسخے منگواتے، اور ایک نسخہ صادق ریڈنگ لائبریری (سینٹرل لائبریری)، دوسرا صادق گڑھ پیلس اور تیسرا صادق ایجرٹن کالج کی لائبریری میں رکھاجاتا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست بہاول پور میں علم وادب کی کس قدر سرپرستی کی جاتی تھی۔ نواب صاحب مرحوم اور ان کے پیش روئوں نے ہمیشہ تعلیم کی ترویج کے لیے اقدامات کیے۔نواب سر صادق نے1925ء میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ دینی مدرسے، صدر دینیات کو ترقی دے کر جامعۃ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم کیا۔ یہ پورے برصغیر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا، جہاں طلبہ، مختلف مکاتبِ فکر کے علماء و اساتذہ سے اکتسابِ فیض کرتے۔ جامعہ عباسیہ میں دینی و مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ ریاضی، انگریزی اور سائنس کی بھی تعلیم دی جاتی۔ اس کے علاوہ طبِ یونانی کی تعلیم کے لیے 1926ء میں جامعہ عباسیہ کا ذیلی ادارہ، ’’طبیّہ کالج‘‘ قائم کیا گیا، جو آج بھی پنجاب کا واحد سرکاری طبیّہ کالج ہے۔ نواب سر صادق مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ، ایچی سن کالج کی طرز پر1954ء میں صادق پبلک اسکول جیسے اعلیٰ معیاری ادارے کا قیام ہے۔ مذکورہ ادارے کے لیے نواب صاحب نے اپنی 450ایکڑ ذاتی زمین دینے کے علاوہ، تعمیرکی مَد میں مطلوبہ فنڈزبھی فراہم کیے۔


 قبلِ ازیں، قیام پاکستان سے پہلے 1928ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ کا بھی افتتاح کیا، جس کے تحت دریائے ستلج پر تین ہیڈ ورکس سلیمان کی، ہیڈاسلام اور ہیڈپنجند تعمیر کرکے پوری ریاست میں نہروں کا جال بچھاکر غیر آباد زمینوں کی آبادکاری کے لیے مختلف علاقوں سے آبادکاروں کو ریاست میں آباد ہونے کی ترغیب دی گئی۔ نئی منڈیاں قائم کرکے ہارون آباد، فورٹ عباس، حاصل پور، چشتیاں، یزمان، لیاقت پور اور صادق آباد جیسے شہر بسائے گئے۔ یہیں سے نواب سر صادق اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے درمیان لازوال دوستی کا رشتہ بھی قائم ہوا۔ ریاست کے اس وقت کے وزیراعظم سر سکندر حیات نے (یونینسٹ رہنما) جب ریاست کے خلاف درپردہ سازش کا آغاز کیا، تو ریاست کے اُس وقت کے وزیر داخلہ اور نواب مرحوم کے اتالیق، مولوی غلام حسین قریشی مرحوم نے اس سازش کو بے نقاب کیا اور نواب مرحوم کو اپنے قانونی مشیر سے مشورہ لینے کو کہا۔اس مقدمے کی پیروی اُس وقت کے ریاست کے قانونی مشیر، قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کی اور مقدمے کا فیصلہ بہاول پور کے حق میں ہوا۔ 1930ء میں سر صادق نے ریاست کپور تھلہ میں جامع مسجد تعمیر کروائی اور مہاراجہ کپور تھلہ کی فرمایش پر خود اس کا افتتاح کیا۔ 3 دسمبر 1930ء کو سر راس مسعود (وائس چانسلر) کی دعوت پر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے سالانہ کانووکیشن کی صدارت کی اور ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم بہ طور عطیہ دی۔ 


ء میں ندوۃالعلماء، لکھنو ٔکے لیے نواب صاحب کی والدہ محترمہ کی طرف سے دی جانے والی پچاس ہزار روپے کی مالی امداد کے جواب میں علامہ شبلی نعمانی نے شکریے کا خط تحریر کیا، جو محافظ خانہ (محکمہ دستاویزات) بہاو ل پور میں محفوظ ہے۔ پنجاب یونی ورسٹی اولڈ کیمپس کا سینیٹ ہال (جہاں اِس وقت یونی ورسٹی کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی قائم ہے) سرصادق ہی نے تعمیر کروایا۔کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج کابہاول پور بلاک نواب صاحب کی یادگار ہے۔ اسی طرح ایچیسن کالج کا بورڈنگ ہاؤس (بہاول پور ہاؤس) نواب سر صادق کی یادگار ہیں۔ جن تعلیمی اداروں اور رفاحی اداروں کی مستقل سرپرستی اور مالی معاونت کرتے رہے، ان میں انجمن حمایت اسلام لاہور، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، ندوۃالعلماء لکھنؤ، دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، انجینئرنگ کالج لاہور اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج لاہور، ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی، داؤ انجینئرنگ کالج کراچی وغیرہ میں بہاول پور سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لیے علیحدہ نشستیں مختص تھیں۔ ریاست کی طرف سے لاہور کے بہاول پور ہاؤس اور کراچی کے الشمس میں طالب علموں کے لیے رہائش کا انتظام تھا اور ان کو وظائف بھی دیے جاتے تھے۔ 27 فروری 1934ء کو نواب صاحب کی تعلیمی خدمات کے اعتراف کے طور پر رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر وُلز نے بہاول پور آ کر صادق گڑھ پیلس میں منعقدہ تقریب میں انہیں ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ 1935ء میں ہی کوئٹہ کے زلزلہ زدگان کے لیے امدادی ٹرین روانہ کی۔اسی سال فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے تقریباً سو افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ سامان کے لیے جو فوجی گاڑیاں اور موٹریں بحری جہاز پر ساتھ لے گئے، سب سعودی حکومت کو بطور تحفہ دے دیں، مسجد نبویؐ میں قیمتی فانوس لگوائے۔ اسی سال جولائی میں جامع مسجد دہلی کی طرز پر ’’جامع مسجد الصادق‘‘ کی ازسرِ نو تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا جو اس وقت پاکستان کی چوتھی بڑی مسجد ہے۔ جامع مسجد کے اخراجات کے لیے کثیر زرعی رقبہ وقف کیا۔ اس کی تعمیر میں سنگِ سرخ اور سنگِ مرمر کا استعمال کیا گیا ہے۔

منگل، 3 ستمبر، 2024

اونچے چناروں کے سائے میں جموں کشمیر کےمغلیہ باغات

 سری نگر میں شالامار باغ، مغلیہ   دور میں اسلامی طرز تعمیر پر مغلیہ حکومت  نے قائم  کئے۔ کیونکہ  یہ زمانہ ایرانی طرز تعمیر سے متاثر تھا اس لئےیہ باغات اور تیموری سلطنت کے باغات کے طرز تعمیر کا اثر سموئے ہوئے ہیں۔ چاردیواری میں گھرے یہ باغات  مسطتیل  ترتیب میں تعمیر کیے گئے۔ ان باغات کی  نشانیوں میں تالاب، فوارے اور نہریں جو باغات کے وسط میں تعمیر کی گئی ہیں-جس کے سبزہ زار ڈل جھیل کے دامن تک پہنچتے ہیں یہ 17ویں صدی کی دوسری دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ کشمیر کے قدرتی حسن و جمال کا جادو مغل شہنشاہ نورالدین محمد سلیم المعروف جہانگیر پر سر چڑھ کر بول رہا تھا۔اس کی جھلک جہانگیر کی خودنوشت ’تزک جہانگیری‘ میں ملتی ہے جس میں وہ کشمیر کو ’ایک سدا بہار باغ‘ اور ’ایک پھلواری‘ کا نام دیتے ہیں۔وہ گرمیوں میں اکثر لاہور سے کشمیر کا رخ کرتے اور سری نگر میں ان کے والد شہنشاہ جلال الدین اکبر کے تعمیر کردہ قلعہ ہاری پربت سے حکومتی امور چلاتے۔جہانگیر نے سنہ 1619 میں ہاری پربت سے قریب 10 کلو میٹر دور زبرون پہاڑی سلسلے میں ایک دلکش باغ تعمیر کرایا جو آج شالامار باغ کے نام سے مشہور ہے۔مورخین کا کہنا ہے کہ جہانگیر نے یہ باغ اپنی چہیتی بیوی مہرالنسا المعروف نور جہاں کی محبت میں تعمیر کرایا جنہیں باغات کی تعمیر میں گہری دلچسپی تھی۔

نامور کشمیری مورخ، محقق، نقاد اور مصنف محمد یوسف ٹینگ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ شہنشاہ جہانگیر نے اپنے عہد حکمرانی کے دوران 13 مرتبہ کشمیر کا دورہ کیا۔ان کا کہنا تھا: ’بیشتر موقعوں پر نور جہاں ان کے ہمراہ رہتی تھیں۔ کسی دوسرے مغل شنشہاہ اور ملکہ نے کشمیر میں اتنا وقت نہیں گزارا جتنا جہانگیر اور نور جہاں نے گزارا۔‘انہوں نے مزید کہا: ’جہانگیر کا قافلہ لاہور میں سورج کی تپش بڑھتے ہی کشمیر کی طرف روانہ ہو جاتا۔ پھر جب یہاں اکتوبر یا نومبر میں زعفران کی فصل تیار ہوتی تو شہنشاہ کا قافلہ واپس لاہور چلا جاتا۔‘معروف کشمیری مورخ ظریف احمد ظریف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 1605 میں مغلیہ سلطنت کی باگ ڈور سنبھالنے والے جہانگیر جب پہلی مرتبہ کشمیر آئے تو یہ جگہ پہلی ہی نظر میں ان کے دل و دماغ میں گھر کر گئی۔جہانگیر نے کشمیر کا حسن و خوبصورتی دیکھ کر خواہش ظاہر کی تھی کہ میرا قبرستان بھی یہیں پر ہو۔


‘محمد یوسف ٹینگ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہانگیر نے شالامار باغ نور جہاں کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ان کے بقول: ’شالامار باغ کی تعمیر نور جہاں کا ایک خواب تھا جس کو جہانگیر نے پورا کیا۔ تعمیر کے بعد نور جہاں نے اس باغ کی منتظمہ کے فرائض انجام دیے۔ وہ اس باغ کو مزید جاذب النظر بنانے کے کام میں سرگرم رہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ نور جہاں نے کشمیر میں کئی باغات اپنی سرپرستی میں تعمیر کرائے۔‘سنیل شرما اپنی کتاب ’مغل آرکیڈیا – پرشین لٹریچر این انڈین کورٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ نور جہاں کا نام آگرہ، لاہور اور سری نگر میں واقع کئی باغات سے جڑا ہے۔’کشمیر کے باغات کا نگینہ کہلایا جانے والا شالامار باغ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصے کا نام فرح بخش ہے جو جہانگیر نے 1619 میں نور جہاں کے لیے تعمیر کرایا۔ دوسرے حصے کا نام فیض بخش ہے جو ان کے بیٹے شاہ جہاں نے 1934 میں تعمیر کرایا۔‘سری نگر کا دوسرا بڑا باغ نشاط ہے جو شالامار باغ سے بھی زیادہ دلکش ہے۔ اس کو نور جہاں نے 1625 میں اپنے بھائی آصف خان سے تعمیر کرایا۔ 


انہوں نے کشمیر میں اچھہ بل اور جھروکا باغ سمیت دیگر کئی باغات بنوائے۔‘جرمن مورخ و مصنف مائیکل جے کاسیمیر اپنی کتاب ’فلوٹنگ اکانومیز: دا کلچرل اکولوجی آف دا ڈل لیک ان کشمیر‘ میں لکھتے ہیں: ’مغل شہنشاہ جہانگیر نے 1619 میں اپنی ملکہ نور جہاں کے لیے جنت نظیر کہلائے جانے والے کشمیر کے اندر ایک اور جنت تعمیر کرائی۔ مشہور مغل باغات شالامار باغ اور نشاط باغ اس وقت بھی ڈل جھیل کے شمال مشرقی حصے میں تاباں ہیں۔‘جیمز ایل ویسکوٹ اور جے ڈبلیو بلمن نے اپنے مقالے ’مغل گارڈنز: سورسز، پلیسز، ریپریزنٹیشنز اینڈ پراسپیکٹس‘ میں لکھا ہے کہ جہانگیر کے عہد حکمرانی میں ان کی ملکہ نور جہاں کی سرپرستی میں باغات کی تعمیر کا کام عروج کو پہنچا۔نور جہاں کا خاندان 16ویں صدی کے اواخر میں فارس سے ہندوستان منتقل ہوا تھا۔ جہانگیر سے شادی کے بعد نور جہاں، ان کے والد اور بھائیوں نے بڑھتی ہوئی سیاسی طاقت حاصل کی اور مرکزی شہروں، کارواں سرائیوں اور باغات کے صوبہ کشمیر میں باغات کی تعمیر کی سرپرستی کے فرائض انجام دیے۔ 

  جہانگیر نے اس آبشار کو اپنی محبوب ملکہ نور جہاں کے نام سے منسوب کر دیا اور اس کا نام نور چھمب رکھا۔ آج یہ آبشار نوری چھمپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘شالامار باغ کی خصوصیات-مورخ محمد یوسف ٹینگ کہتے ہیں کہ مغلیہ دور خاص طور پر جہانگیر کے عہد حکمرانی میں شالامار باغ میں رات کے وقت موسیقی اور رقص کی محفلیں سجتی تھیں جن میں مغلیہ خاندان کی مرد و زن اور دیگر عزیز و اقارب شامل ہوتے تھےان کے مطابق: ’اُس زمانے میں ڈل جھیل کے کنارے قلعہ ہاری پربت کی سرحدوں کو چھوتے تھے۔ دن بھر قلعے میں حکومتی امور انجام دینے کے بعد شہنشاہ، ان کے افراد خانہ اور دیگر حکومتی عہدیدار کشتیوں میں سوار ہو کر شالامار باغ پہنچ جاتے۔ نصف شب تک وہاں محفلوں اور بیٹھکوں میں مصروف رہنے کے بعد وہ آرام کرنے کے لیے واپس قلعے کو آ جاتے۔ ‘مورخ ظریف احمد ظریف کہتے ہیں کہ رات کے وقت شالامار باغ کا نظارہ قابل دید ہوتا تھا اور جہانگیر خود چاند کی روشنی میں اس باغ میں وقت گزارنا پسند کرتے تھے۔ہر طبقہ ایک مخصوص بلندی پر ہے۔ سب سے بلند طبقے سے صاف و شفاف پانی کی ایک نہر بہتی ہے۔ جس وقت جہانگیر نے شالامار باغ تعمیر کرایا اُس وقت اس نہر کی چوڑائی 36 فٹ اور لمبائی ڈیڑھ کلو میٹر تھی۔‘انہوں نے کہا: ’اس باغ میں بڑے پیمانے پر چنار کے درخت لگائے گئے تھے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر