جمعرات، 5 ستمبر، 2024

نواب بہاول خان عباسی اوّل کے علمی کارنامے

 ۔ نواب صادق محمدخان عباسی کے صاحب زادے،-نواب بہاول خان عباسی کے  لئے اگر کہا جائے کہ دریا دل'فیاض 'انتہا درجے کے علم دوست'    تو یہ ہر گز بے جا نہیں ہو گا -نواب بہاول خان عباسی اوّل نے 1774ء میں دریائے ستلج کے جنوب میں ایک نئے شہر ،بہاول پور کی بنیاد رکھی۔نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی30 ستمبر 1904ء کو پیدا ہوئے، وہ نواب حاجی محمد بہاول خان خامس عباسی کے اکلوتے فرزند تھے۔ جب وہ دو برس کے تھے، تو والد کے ساتھ سفرِ حج پر گئے، لیکن واپسی پر دورانِ سفر ان کے والد نواب بہاول خان کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد 15مئی1907ء کو سر صادق کو ریاست کا حکمران مقرر کرنے کا اعلان کردیا گیا، مگر چوں کہ نواب صادق محمد خان بہت کم سِن تھے، لہٰذا ان کی تعلیم و تربیت اور ریاست کے انتظام و انصرام کے لیے حکومتِ برطانیہ نے آئی سی ایس آفیسر، سر رحیم بخش کی سربراہی میں کائونسل آف ریجینسی قائم کردی۔ نواب صاحب نے ابتدائی تعلیم اُس وقت کی نام وَر علمی شخصیت، علاّمہ مولوی غلام حسین قریشی سے حاصل کی۔ 3 برس کی عمر میں تخت نشین ہونے والے شہزادے کی شخصیت کے نکھار کے لیے، انہیں دنیاوی تعلیم کے ساتھ مذہبی اور اعلیٰ انتظامی و عسکری تربیت بھی دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ 1911ء میں وہ صرف سات برس کی عمر میں فوج کی کمان کرتے ہوئے شہنشاہِ برطانیہ، جارج پنجم کے سامنے پیش ہوئے۔


ریاست بہاول پور میں صادق گڑھ پیلس اور صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) کی لائبریریز نادر و نایاب کتب کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سرصادق دنیا بھر سے اہم کتاب کے تین نسخے منگواتے، اور ایک نسخہ صادق ریڈنگ لائبریری (سینٹرل لائبریری)، دوسرا صادق گڑھ پیلس اور تیسرا صادق ایجرٹن کالج کی لائبریری میں رکھاجاتا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست بہاول پور میں علم وادب کی کس قدر سرپرستی کی جاتی تھی۔ نواب صاحب مرحوم اور ان کے پیش روئوں نے ہمیشہ تعلیم کی ترویج کے لیے اقدامات کیے۔نواب سر صادق نے1925ء میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ دینی مدرسے، صدر دینیات کو ترقی دے کر جامعۃ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم کیا۔ یہ پورے برصغیر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا، جہاں طلبہ، مختلف مکاتبِ فکر کے علماء و اساتذہ سے اکتسابِ فیض کرتے۔ جامعہ عباسیہ میں دینی و مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ ریاضی، انگریزی اور سائنس کی بھی تعلیم دی جاتی۔ اس کے علاوہ طبِ یونانی کی تعلیم کے لیے 1926ء میں جامعہ عباسیہ کا ذیلی ادارہ، ’’طبیّہ کالج‘‘ قائم کیا گیا، جو آج بھی پنجاب کا واحد سرکاری طبیّہ کالج ہے۔ نواب سر صادق مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ، ایچی سن کالج کی طرز پر1954ء میں صادق پبلک اسکول جیسے اعلیٰ معیاری ادارے کا قیام ہے۔ مذکورہ ادارے کے لیے نواب صاحب نے اپنی 450ایکڑ ذاتی زمین دینے کے علاوہ، تعمیرکی مَد میں مطلوبہ فنڈزبھی فراہم کیے۔


 قبلِ ازیں، قیام پاکستان سے پہلے 1928ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ کا بھی افتتاح کیا، جس کے تحت دریائے ستلج پر تین ہیڈ ورکس سلیمان کی، ہیڈاسلام اور ہیڈپنجند تعمیر کرکے پوری ریاست میں نہروں کا جال بچھاکر غیر آباد زمینوں کی آبادکاری کے لیے مختلف علاقوں سے آبادکاروں کو ریاست میں آباد ہونے کی ترغیب دی گئی۔ نئی منڈیاں قائم کرکے ہارون آباد، فورٹ عباس، حاصل پور، چشتیاں، یزمان، لیاقت پور اور صادق آباد جیسے شہر بسائے گئے۔ یہیں سے نواب سر صادق اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے درمیان لازوال دوستی کا رشتہ بھی قائم ہوا۔ ریاست کے اس وقت کے وزیراعظم سر سکندر حیات نے (یونینسٹ رہنما) جب ریاست کے خلاف درپردہ سازش کا آغاز کیا، تو ریاست کے اُس وقت کے وزیر داخلہ اور نواب مرحوم کے اتالیق، مولوی غلام حسین قریشی مرحوم نے اس سازش کو بے نقاب کیا اور نواب مرحوم کو اپنے قانونی مشیر سے مشورہ لینے کو کہا۔اس مقدمے کی پیروی اُس وقت کے ریاست کے قانونی مشیر، قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کی اور مقدمے کا فیصلہ بہاول پور کے حق میں ہوا۔ 1930ء میں سر صادق نے ریاست کپور تھلہ میں جامع مسجد تعمیر کروائی اور مہاراجہ کپور تھلہ کی فرمایش پر خود اس کا افتتاح کیا۔ 3 دسمبر 1930ء کو سر راس مسعود (وائس چانسلر) کی دعوت پر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے سالانہ کانووکیشن کی صدارت کی اور ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم بہ طور عطیہ دی۔ 


ء میں ندوۃالعلماء، لکھنو ٔکے لیے نواب صاحب کی والدہ محترمہ کی طرف سے دی جانے والی پچاس ہزار روپے کی مالی امداد کے جواب میں علامہ شبلی نعمانی نے شکریے کا خط تحریر کیا، جو محافظ خانہ (محکمہ دستاویزات) بہاو ل پور میں محفوظ ہے۔ پنجاب یونی ورسٹی اولڈ کیمپس کا سینیٹ ہال (جہاں اِس وقت یونی ورسٹی کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی قائم ہے) سرصادق ہی نے تعمیر کروایا۔کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج کابہاول پور بلاک نواب صاحب کی یادگار ہے۔ اسی طرح ایچیسن کالج کا بورڈنگ ہاؤس (بہاول پور ہاؤس) نواب سر صادق کی یادگار ہیں۔ جن تعلیمی اداروں اور رفاحی اداروں کی مستقل سرپرستی اور مالی معاونت کرتے رہے، ان میں انجمن حمایت اسلام لاہور، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، ندوۃالعلماء لکھنؤ، دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، انجینئرنگ کالج لاہور اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج لاہور، ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی، داؤ انجینئرنگ کالج کراچی وغیرہ میں بہاول پور سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لیے علیحدہ نشستیں مختص تھیں۔ ریاست کی طرف سے لاہور کے بہاول پور ہاؤس اور کراچی کے الشمس میں طالب علموں کے لیے رہائش کا انتظام تھا اور ان کو وظائف بھی دیے جاتے تھے۔ 27 فروری 1934ء کو نواب صاحب کی تعلیمی خدمات کے اعتراف کے طور پر رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر وُلز نے بہاول پور آ کر صادق گڑھ پیلس میں منعقدہ تقریب میں انہیں ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ 1935ء میں ہی کوئٹہ کے زلزلہ زدگان کے لیے امدادی ٹرین روانہ کی۔اسی سال فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے تقریباً سو افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ سامان کے لیے جو فوجی گاڑیاں اور موٹریں بحری جہاز پر ساتھ لے گئے، سب سعودی حکومت کو بطور تحفہ دے دیں، مسجد نبویؐ میں قیمتی فانوس لگوائے۔ اسی سال جولائی میں جامع مسجد دہلی کی طرز پر ’’جامع مسجد الصادق‘‘ کی ازسرِ نو تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا جو اس وقت پاکستان کی چوتھی بڑی مسجد ہے۔ جامع مسجد کے اخراجات کے لیے کثیر زرعی رقبہ وقف کیا۔ اس کی تعمیر میں سنگِ سرخ اور سنگِ مرمر کا استعمال کیا گیا ہے۔

1 تبصرہ:

  1. ریاست بہاولپور مختلف قدیم معاشروں کا گھر تھی۔ بہاولپور کا علاقہ حالیہ تاریخ میں مغلیہ سلطنت کے صوبہ ملتان کا حصہ تھا۔ اس میں وادی سندھ کی تہذیب کے کھنڈر کے ساتھ ساتھ قدیم بدھ مت کے مقامات جیسے قریبی پٹن مینارہ بھی شامل ہے۔ برطانوی ماہر آثار قدیمہ سر الیگزینڈر کننگھم نے بہاولپور کے علاقے کی شناخت مہابھارت کی یودھیا سلطنتوں کے گھر کے طور پر کی۔ بہاولپور کے قیام سے پہلے، خطے کا بڑا شہر اُچ شریف کا مقدس شہر تھا – جو 12ویں اور 17ویں صدی کے درمیان ایک علاقائی میٹروپولیٹن مرکز تھا جو 12-15 ویں صدی میں تعمیر کیے گئے مسلم صوفیا کے لیے وقف تاریخی مزارات کے مجموعے کے لیے مشہور ہے۔ خطے کا مقامی انداز۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر