منگل، 3 ستمبر، 2024

اونچے چناروں کے سائے میں جموں کشمیر کےمغلیہ باغات

 سری نگر میں شالامار باغ، مغلیہ   دور میں اسلامی طرز تعمیر پر مغلیہ حکومت  نے قائم  کئے۔ کیونکہ  یہ زمانہ ایرانی طرز تعمیر سے متاثر تھا اس لئےیہ باغات اور تیموری سلطنت کے باغات کے طرز تعمیر کا اثر سموئے ہوئے ہیں۔ چاردیواری میں گھرے یہ باغات  مسطتیل  ترتیب میں تعمیر کیے گئے۔ ان باغات کی  نشانیوں میں تالاب، فوارے اور نہریں جو باغات کے وسط میں تعمیر کی گئی ہیں-جس کے سبزہ زار ڈل جھیل کے دامن تک پہنچتے ہیں یہ 17ویں صدی کی دوسری دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ کشمیر کے قدرتی حسن و جمال کا جادو مغل شہنشاہ نورالدین محمد سلیم المعروف جہانگیر پر سر چڑھ کر بول رہا تھا۔اس کی جھلک جہانگیر کی خودنوشت ’تزک جہانگیری‘ میں ملتی ہے جس میں وہ کشمیر کو ’ایک سدا بہار باغ‘ اور ’ایک پھلواری‘ کا نام دیتے ہیں۔وہ گرمیوں میں اکثر لاہور سے کشمیر کا رخ کرتے اور سری نگر میں ان کے والد شہنشاہ جلال الدین اکبر کے تعمیر کردہ قلعہ ہاری پربت سے حکومتی امور چلاتے۔جہانگیر نے سنہ 1619 میں ہاری پربت سے قریب 10 کلو میٹر دور زبرون پہاڑی سلسلے میں ایک دلکش باغ تعمیر کرایا جو آج شالامار باغ کے نام سے مشہور ہے۔مورخین کا کہنا ہے کہ جہانگیر نے یہ باغ اپنی چہیتی بیوی مہرالنسا المعروف نور جہاں کی محبت میں تعمیر کرایا جنہیں باغات کی تعمیر میں گہری دلچسپی تھی۔

نامور کشمیری مورخ، محقق، نقاد اور مصنف محمد یوسف ٹینگ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ شہنشاہ جہانگیر نے اپنے عہد حکمرانی کے دوران 13 مرتبہ کشمیر کا دورہ کیا۔ان کا کہنا تھا: ’بیشتر موقعوں پر نور جہاں ان کے ہمراہ رہتی تھیں۔ کسی دوسرے مغل شنشہاہ اور ملکہ نے کشمیر میں اتنا وقت نہیں گزارا جتنا جہانگیر اور نور جہاں نے گزارا۔‘انہوں نے مزید کہا: ’جہانگیر کا قافلہ لاہور میں سورج کی تپش بڑھتے ہی کشمیر کی طرف روانہ ہو جاتا۔ پھر جب یہاں اکتوبر یا نومبر میں زعفران کی فصل تیار ہوتی تو شہنشاہ کا قافلہ واپس لاہور چلا جاتا۔‘معروف کشمیری مورخ ظریف احمد ظریف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 1605 میں مغلیہ سلطنت کی باگ ڈور سنبھالنے والے جہانگیر جب پہلی مرتبہ کشمیر آئے تو یہ جگہ پہلی ہی نظر میں ان کے دل و دماغ میں گھر کر گئی۔جہانگیر نے کشمیر کا حسن و خوبصورتی دیکھ کر خواہش ظاہر کی تھی کہ میرا قبرستان بھی یہیں پر ہو۔


‘محمد یوسف ٹینگ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہانگیر نے شالامار باغ نور جہاں کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ان کے بقول: ’شالامار باغ کی تعمیر نور جہاں کا ایک خواب تھا جس کو جہانگیر نے پورا کیا۔ تعمیر کے بعد نور جہاں نے اس باغ کی منتظمہ کے فرائض انجام دیے۔ وہ اس باغ کو مزید جاذب النظر بنانے کے کام میں سرگرم رہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ نور جہاں نے کشمیر میں کئی باغات اپنی سرپرستی میں تعمیر کرائے۔‘سنیل شرما اپنی کتاب ’مغل آرکیڈیا – پرشین لٹریچر این انڈین کورٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ نور جہاں کا نام آگرہ، لاہور اور سری نگر میں واقع کئی باغات سے جڑا ہے۔’کشمیر کے باغات کا نگینہ کہلایا جانے والا شالامار باغ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصے کا نام فرح بخش ہے جو جہانگیر نے 1619 میں نور جہاں کے لیے تعمیر کرایا۔ دوسرے حصے کا نام فیض بخش ہے جو ان کے بیٹے شاہ جہاں نے 1934 میں تعمیر کرایا۔‘سری نگر کا دوسرا بڑا باغ نشاط ہے جو شالامار باغ سے بھی زیادہ دلکش ہے۔ اس کو نور جہاں نے 1625 میں اپنے بھائی آصف خان سے تعمیر کرایا۔ 


انہوں نے کشمیر میں اچھہ بل اور جھروکا باغ سمیت دیگر کئی باغات بنوائے۔‘جرمن مورخ و مصنف مائیکل جے کاسیمیر اپنی کتاب ’فلوٹنگ اکانومیز: دا کلچرل اکولوجی آف دا ڈل لیک ان کشمیر‘ میں لکھتے ہیں: ’مغل شہنشاہ جہانگیر نے 1619 میں اپنی ملکہ نور جہاں کے لیے جنت نظیر کہلائے جانے والے کشمیر کے اندر ایک اور جنت تعمیر کرائی۔ مشہور مغل باغات شالامار باغ اور نشاط باغ اس وقت بھی ڈل جھیل کے شمال مشرقی حصے میں تاباں ہیں۔‘جیمز ایل ویسکوٹ اور جے ڈبلیو بلمن نے اپنے مقالے ’مغل گارڈنز: سورسز، پلیسز، ریپریزنٹیشنز اینڈ پراسپیکٹس‘ میں لکھا ہے کہ جہانگیر کے عہد حکمرانی میں ان کی ملکہ نور جہاں کی سرپرستی میں باغات کی تعمیر کا کام عروج کو پہنچا۔نور جہاں کا خاندان 16ویں صدی کے اواخر میں فارس سے ہندوستان منتقل ہوا تھا۔ جہانگیر سے شادی کے بعد نور جہاں، ان کے والد اور بھائیوں نے بڑھتی ہوئی سیاسی طاقت حاصل کی اور مرکزی شہروں، کارواں سرائیوں اور باغات کے صوبہ کشمیر میں باغات کی تعمیر کی سرپرستی کے فرائض انجام دیے۔ 

  جہانگیر نے اس آبشار کو اپنی محبوب ملکہ نور جہاں کے نام سے منسوب کر دیا اور اس کا نام نور چھمب رکھا۔ آج یہ آبشار نوری چھمپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘شالامار باغ کی خصوصیات-مورخ محمد یوسف ٹینگ کہتے ہیں کہ مغلیہ دور خاص طور پر جہانگیر کے عہد حکمرانی میں شالامار باغ میں رات کے وقت موسیقی اور رقص کی محفلیں سجتی تھیں جن میں مغلیہ خاندان کی مرد و زن اور دیگر عزیز و اقارب شامل ہوتے تھےان کے مطابق: ’اُس زمانے میں ڈل جھیل کے کنارے قلعہ ہاری پربت کی سرحدوں کو چھوتے تھے۔ دن بھر قلعے میں حکومتی امور انجام دینے کے بعد شہنشاہ، ان کے افراد خانہ اور دیگر حکومتی عہدیدار کشتیوں میں سوار ہو کر شالامار باغ پہنچ جاتے۔ نصف شب تک وہاں محفلوں اور بیٹھکوں میں مصروف رہنے کے بعد وہ آرام کرنے کے لیے واپس قلعے کو آ جاتے۔ ‘مورخ ظریف احمد ظریف کہتے ہیں کہ رات کے وقت شالامار باغ کا نظارہ قابل دید ہوتا تھا اور جہانگیر خود چاند کی روشنی میں اس باغ میں وقت گزارنا پسند کرتے تھے۔ہر طبقہ ایک مخصوص بلندی پر ہے۔ سب سے بلند طبقے سے صاف و شفاف پانی کی ایک نہر بہتی ہے۔ جس وقت جہانگیر نے شالامار باغ تعمیر کرایا اُس وقت اس نہر کی چوڑائی 36 فٹ اور لمبائی ڈیڑھ کلو میٹر تھی۔‘انہوں نے کہا: ’اس باغ میں بڑے پیمانے پر چنار کے درخت لگائے گئے تھے۔

1 تبصرہ:

  1. ہنشاہ اکبر نے کئی باغات دہلی میں تعمیر کروائے اور پھر جب دار السلطنت آگرہ منقتل ہوا تو کئی نئے باغات کی تعمیر وہاں بھی شروع کروائی گئی۔[3] یہ باغات غیر روایتی طور پر تعمیر کیے گئے تھے اور دریا کے کنارے پر طرز میں تعمیر میں جدت اور نفاست لائی گئی تھی۔ شہنشاہ اکبر کے بعد کے مغل بادشاہوں نے قلعوں میں باغات تعمیر کروائے، اسی وجہ سے یہ باغات ممتاز حیثیت رکھتے ہیں، جو دریا کے کنارے پر تعمیر کیے گئے تھے۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر