ایک دن کا زکر ہے مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام اپنے ہم نشینوں کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک سائل نے مولا علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ مولا فلاں اہرام کب بنا تھا مولا نے کہا اس اہرام کے ماتھے پر کس پرندے کی تصویر ہے۔ اس سائل نے پرندے کے بارے میں مولا کو بتایا کہ تو مولا نے کہا کہ اس اہرام کو 12000 سال پہلے بنایا گیا تھا کیونکہ اس پرندے کی شکل کا ستارہ بارہ ہزار سال کے دورانئے پر آسمان میں آشکار ہوتا ہے -اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ سیارے ہمارے کہکشانی نظام میں کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں ان کے مسافتوں کا کیا دورانیہ ہے سوائے اللہ رب کائنات کے کوئ نہیں جان سکتا -انسان کوشش کرتا ہے تب بہت قلیل علم تک رسائ حاصل کرتا ہے-یہ کروڑوں کے حساب سے ستاروں کی دنیا کے درمیان کون سا سیارہ کتنے ہزار میل پر گردش کر رہا ہے کوئ نہیں جانتا میں نے گوگل سرچ کی مدد سے جوکچھ پڑھا ہے آپ کی خدمت میں پیش ہے- ایک دمدار ستارہ سورج کے قریب سے گزرنے کے لئے تقریباً 50 ہزار سال لیتا ہے خود دی پلینٹری سوسائٹی کے مطابق' وہ موقع ہے جو ہماری زندگیوں میں صرف ایک بار آئے۔ دمدار ستارے کا اکثر حصہ برف پر مشتمل ہوتا ہے نیز خاک اور پتھر وغیرہ کا ملبہ بھی ہوتا ہے اس کے علاوہ گیسیں مثلاً میتھین+امونیا+کاربن مونو آکسائیڈ+کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ بھی موجود ہوتی ہیں اور سورج سے یہ گیسیں جمی ہوئی حالت میں ہوتی ہیں۔کومٹ لاطینی زبان کا لفظ ''کومیٹا'' سے ہے، جس کا مطلب ہے لمبے بالوں والی دم -دم دار ستارے میں خود روشنی نہیں ہوتی یہ اپنی روشنی سورج سے منعکس کرتے ہیں۔ماہرین کے مطابق یہ دم دار ستارہ 43 سال میں ایک بار سورج کے گرد چکر لگاتا ہے، یعنی اسے دیکھنے کے لیے صِدّیوں کا انتظار کرنا چاہیے
نِشمورا سورج کے قریب سے 17 ستمبر کو گزرے گا اور اس وقت وہ۔ سورج سے 3 کروڑ کلو 30 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود اسی طرح یہ دار ستارہ زمین سے 12 کروڑ کلومیٹر کے علاقے سے گزرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ی آسمان پر سبز رنگ کا دُمدار ستارہ ۔ آخری بار یہ دُمداد ستارہ آج سے پچاس ہزار سال پہلے زمین سے دِکھا ئ دیا۔ ماہر ستارہ کہتے ہیں نشموراسیارہ زمین سے تقریباً ساڑھے چار کروڑ کلومیٹر دور سے گزرچکا ہے ۔ دمدار ستارے دراصل ستارے نہیں ہوتے بلکہ نظامِ شمسی میں سورج کے گرد گھومتے چھوٹے چھوٹے جمی گیس ،برف، چٹانوں یا گرد کے بنے سیارچے ہوتے ہیں جو سورج کے گرد ایک طویل اور بیضوی مدار میں گھومتے ہیں۔ یہ چمکتے اس لیے ہیں کہ ان پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔ جب یہ اپنے مدار میں سورج اور زمین کے بیچ آتے ہیں تو سورج کے قریب آنے سے اُسکی روشنی اِنکو گرم کرتی ہے اور ان میں جمی گیسیں باہر کو نکلتی ہیں جو دُم کی صورت اختیار کرتی ہیں۔ یہ گیسیں سورج کی روشنی کو منعکس کرتی ہیں اور یوں ان اجسام کی دم سی نظر آتی ہے ویسے ہی جیسے ہوا میں اڑتے جہاز کا دھواں سورج کی روشنی میں نمایاں دکھتا ہے۔ان دمدار ستاروں کا مدار سورج کے گرد کئی سو سال تک کا ہوتا ہے۔ اسی لئے اکثر دمدار ستارے کئی صدیوں یا دہائیوں بعد نظر آتے ہیں۔
ہمارے نظامِ شمسی میں اب تک ڈھونڈے گئے دُمدار ستاروں کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے اوپر ہے۔ مگر انکی کل تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ ان کی رفتار سورج کی فضا کی بنیاد پر تبدیل ہوتی ہے جب یہ سورج کے بالکل قریب ہوتے ہیں تو ان کی رفتار تیز ہوتی ہے اور سورج سے دور ان کی رفتار کم ہوتی ہے۔ قلب، دم دار سیارے کا مادہ اس کے جسم سے زیادہ ہی (بادل) لطیف ہوتا ہے اس کی وجہ سے دم دار سیارے میں تارے چمکتے نظر آتے ہیں ان کی بہت دیر ہوتی ہے۔ دمدار سیاروں کی دُم ہزاروں میل لمبی ہوتی ہے۔(قلب کے درمیان روشن کچھ کہتے ہیں) دُمدار ستارے بہت بڑی تعداد میں نظام شمسی میں نشانی سورج کے گرد بیضوی مدار (بیضوی مدار) گھومتے ہیں۔ زیادہ وقت سورج سے دور ہیں اور نظر نہیں آتے۔ جب سورج کے تلاش کرتے ہیں تو دُمدار ستارے کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ اس طوفان کے ایک سرے پر یہ سورج پوری طرح سے گزرتے ہیں اور دوسری سورج سے بہت دور نکلتے ہیں کہ ان سے بعض سورج کے گرد موجود تمام سیاروں سے بھی دور نکل جاتے ہیں اور دوبارہ سورج کے بالکل قریب سے گزرتے ہیں۔اور اس کے لیے دُمدار ستارے مستقل حرکت میں رہتے ہیں۔
دمدار ستارے کی دُم دراصل اس گیس سے ہی بنتی ہے جن گیسوں میں اس کو وجود لپٹا ہوا ہوتا ہے اور بھی دوسرے جماداتی عناصر بھی شامل ہوتے جاتے ہیں جیسے برف کے گولے- مٹی اور پتھر کی بنی ہوئی بڑی گیندوں کی طرح ہیں ۔ باہر موجود برفانی موا د سے ایک چھلّے سے آپ کو اورٹ کلڈ کہا جاتا ہے۔ جب یہ سورج کے قریب پہنچتے ہیں تو سورج کی شعاعوں کی وجہ سے ان گیسوں اور مٹی کی ایک لہر نکلتی ہے جس کو ہم ستارے کی دم کہتے ہیں ۔نظامِ شمسی میں موجود کئی اجسام کی کششِ ثقل انھیں اوورٹ کلاؤڈ سے کھینچ کر یہاں لے آتی ہے اور جیسے جیسے یہ سورج کے قریب پہنچتے ہیں ان کی چمک میں اضافہ ہونے لگتا ہےاور ہماری نگاہیں حیران ہوتی ہیں کہ ستارے کی دم کتنی چمکدار ہےٓاوسط دمدار ستارے سے ایک ہزار گنا بڑا برنارڈینیلی برنسٹائن کامٹ 30 لاکھ سال سے زیادہ عرصے میں نظام شمسی میں داخل نہیں ہوا اور اب سورج کی جانب رواں ہے۔کامٹ نیووائز جون 2020 میں زمین کے پاس سے گزرا تھا۔ سائنس دانوں کے مطابق برنارڈینیلی برنسٹائن کامٹ ایک اوسط کامٹ سے ہزار گنا بڑا ہے (اے ایف پی)نظام شمسی کے مضافات سے ایک بہت بڑا سیارچہ سورج کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہ دمدار ستارہ جسے برنارڈینیلی برنسٹائن کا نام دیا گیا ہے ایک اوسط دمدار ستارہ سے ایک ہزار گنا بڑا ہے۔ اسے پہلی مرتبہ 2014 میں ہمارے نظام سمشی سے چار ارب کلومیٹر کے فاصلے پر دیکھا گیا تھا۔ یہ فاصلہ تقریباً اتنا ہی ہے جتنا کہ نیپچون کا ہے۔
دمدار ستارے کو پہلی مرتبہ دیکھے جانے اور رواں ماہ کے دوران یہ ہماری جانب بڑھتے ہوئے مزید ایک ارب کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکا ہے۔نظام شمسی کے میدان کے اعتبار سے دمدار ستارے کا مدار عمود میں ہے۔ وہ 2031 میں سورج کے قریب ترین مقام (جسے پیری ہلیئن) کہا جاتا ہے پر پہنچ جائے گا۔ لیکن اپنے حجم اور ہمارے نزدیک ترین ستارے سے قربت کے باوجود، شوقیہ ماہرین فلکیات اسے روشن ترین شکل میں بھی صرف بڑے دوربین کی مدد سے ہی دیکھ سکیں گے۔یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے گیری برنسٹائن جنہوں نے دمدار ستارے کو دریافت کیا اور اسے نام دیا، کہتے ہیں: ’ہمیں امتیاز حاصل ہے کہ ہم نے دکھائی دینے والا شائد سب سے بڑا دمدار ستارہ دریافت کیا ہے۔ یا کم از کم یہ اس دمدار ستارے سے بڑا ہے جس پر اچھی طرح تحقیق ہو چکی ہے۔ یہ سیارہ کافی پہلے دریافت ہوا تھا یہ ستارہ 30 لاکھ سال سے زیادہ عرصے میں نظام شمسی میں داخل نہیں ہوا۔
یہ بھی اجرام فلکی کا حصہ ہیں۔ یہ نسبتا چھوٹے چھوٹے ذرات سے تشکیل پاتے ہیں۔ اور ان کے گرد گیسی غلاف ہوتا ہے۔ چند دم دار ستارے سورج کے گرد مختصر وقت میں چکر لگا لتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںلیکن وقفے کے ساتھ برہنہ آنکھ naked eye سے نطر آنے والا دمدار ستارہ "ہیلی" ہے۔ یہ ہر 76 برس بعد اپنے مدار میں زمین کے قریب ترین آتا ہے۔ اسے برطانوی ماہر فلکیات ایڈمنڈ ہیلی (1742 تا 1656) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کی پیش گوئی کے مطابق یہ ستارہ 1759 میں نظر آیا تھا۔